محمد اسامہ حفیظ
رکن ختم نبوت فورم
{1581} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔سکینہ بیگم اہلیہ ماسٹر احمد حسین صاحب فرید آباد ی مرحوم نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت میاں صاحب باہر سے کھیلتے کھیلتے آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جیب میں دو یا ایک چھوٹے چھوٹے پتھر ڈال دئے ۔پھر حضور جب اندر تشریف لائے تو اماں جان سے کہا کہ میرے کوٹ سے قلم نکال لاؤ یا کسی کا خط منگایا ۔یاد نہیں ۔تو اماں جان نے جیب میں کنکر دیکھ کر پوچھا تو آپ نے کہا کہ ان کو جیب میں ہی رہنے دو یہ میاں محمود کی امانت ہے اور اماں جان نے جیب میں ہی رہنے دئے۔
{1582} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ماسٹر مولا بخش صاحب ریٹائرڈ مدرسہ احمدیہ قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ موسمی تعطیلات میں میں یہاں آیا ہو اتھا۔ ستمبر کا مہینہ تھا ،سن اور تاریخ یاد نہیں ۔مسجد مبارک کی توسیع ہوچکی تھی۔ میں صبح آٹھ بجے مسجد مبارک میں اکیلا ہی ٹہل رہا تھا کہ اچانک حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کھڑکی سے جو مسجد مبارک میں کھلتی ہے تشریف لائے ۔ذرا سی دیر بعد حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول ؓ اور ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب مرحوم یا خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم اندرونی سیڑھیوں کی راہ سے مسجد میں آگئے۔ حضرت اقدس مسجد کے پرانے حصہ میں کھڑکی سے مشرقی جانب فرش پر تشریف فرما ہوئے اور ان سے باتیں کرنے لگ گئے اور خاکسار آہستہ آہستہ حضرت اقدس کے دست مبارک دبانے لگا۔باتیں کرتے کرتے آپ کے جسم مبارک میں جھٹکا سا لگا اور سارا بدن کانپ گیا اور میرے ہاتھوں سے آپ کی کلائی چھوٹ گئی ۔آپ فوراً اندر تشریف لے گئے حضرت خلیفہ اولؓ نے فرمایا کہ یہ نزول وحی کا وقت ہے۔
{1583} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی نے مجھ سے بیان کیا کہ میاں مبارک احمد صاحب کی وفات پر جب جنازہ لے کر قبر پر گئے تو قبر تیار نہ تھی۔ اس وسطے وہیں ٹھہرنا پڑا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلا م مقبرے کے شمال کی طرف درختوں کی قطار کے نیچے بیٹھ گئے ۔باقی احباب آپ کے سامنے بیٹھ گئے۔ اس وقت آپ نے جو تقریر کی وہ تو مجھے یاد نہیں مگر اس کا اثر یہ تھا کہ اس وقت ایسا معلوم ہو تا تھا جیسے ان لوگوں کا کوئی عزیز فوت ہو گیا ہے اور حضور ماتم پرسی کے لئے آئے ہیں اور ان کو تسلی دے رہے ہیں ۔
منشی محمد اسماعیل صاحب نے بیان فرمایا کہ بالکل یہی الفاظ میں نے سید حامد شاہ صاحب کو لکھے تھے۔
{1584} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے محمد بخش نام کاذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ اگر محمد بخش سے یہ مراد لی جائے کہ محمد کے طفیل بخشا گیا تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔
{1585} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی نے مجھ سے بیان کیا کہ مرزا حاکم بیگ کی شادی پر اس کے سسرال نے آتش بازی ،تماشے اور باجے کا تقاضا کیا۔ انہوںنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں لکھا کہ میرے سسرال والے یہ چاہتے ہیں ۔حضور کا کیا ارشاد ہے؟ آپ نے فرمایا کہ یہ سب ناجائز ہیں مگر مومن بعض وقت ناجائز سے بھی فائدہ اٹھا لیتا ہے مثلاً شہر میں وبائی مرض پھیلی ہوئی ہے ۔ایک شخص اس خیال سے آتش بازی چھوڑتا ہے کہ اس سے ہوا صاف ہو جائے گی اور لوگوں کو فائدہ پہنچے گا تووہ اس سے بھی گویا ثواب حاصل کرتا ہے ۔ اور اسی طرح باجے کے متعلق اگر اس شخص کی یہ نیت ہو کہ چونکہ ہم نے دور تک جانا ہے اور باجے کے ذریعے سے لوگوں کو علم ہو جائے گا۔ کہ فلاں شخص کی لڑکی کا نکاح فلاں شخص سے ہوا ہے اگر اس نے اس نیت سے باجا بجوایا تو یہ ایک اعلان کی صورت ہو جائے گی ۔ اس میں بھی ناجائز کا سوال اٹھ گیا۔
{1586} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ پیر افتخار احمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب میرے والد منشی احمد جان صاحب مرحوم حج کوجانے لگے تو حضرت صاحب نے ایک خط ان کو لکھ کر دیا کہ یہ خط وہاں جا کر پڑھنا۔ چنانچہ میرے والد صاحب نے عرفات کے میدان میں وہ خط پڑھا۔ اور ہم نے وہ خط سنا ۔ اس کے الفاظ خاکسارکویاد نہیں ۔ ہم بیس آدمی اس خط کو سُن کر آمین کہنے والے تھے۔
{1587} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ پیر افتخار احمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ بشیر اول کے عقیقہ کے وقت مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا والد رحیم بخش قادیان میں تھا۔ اس نے بچے کو بال مونڈنے کے وقت گودی میں لیا ہوا تھا۔ اور بیت الفکر میں ہم پندرہ کے قریب آدمی حضور کے ساتھ تھے اور اتنے ہی آدمی بمشکل اس کمرہ میں آسکتے تھے۔ حضرت میر محمد اسحق صاحب کے والد جو اس تقریب میں تشریف لا رہے تھے بوجہ بارش بٹالہ میں ہی رکے رہے۔ گویا اس دن بارش خوب ہورہی تھی۔
{1588} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ امۃ الرحمان بنت قاضی ضیاء الدین صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک شخص فجا تھا۔ اس کی بیوی ابھی آٹھ دس سال کی بچی تھی اور وہ کالی سی تھی۔ اور حضرت صاحبزادہ مبارک احمد کے ساتھ ساتھ رہتی ۔گویا یہ نوکرانی تھی۔ حضور اس کو فرماتے کہ ادھر آؤ اور مبارک احمد کو اچھی طرح سے رکھا کرو۔ ہم اس وقت تین لڑکیاں تھیں ،صفیہ ،صغریٰ ،امۃ الرحمان تو ہم نے حیران ہوجانا کہ ہم اس کو ذلیل سمجھتی ہیں اور حضرت صاحب اس کو بھی ادب سے بلاتے ہیں ۔
{1589} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ امۃ الرحمان بنت قاضی ضیاء الدین صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضور ایک دالان میں ہوتے اور عورتیں بھی وہاں ہوتیں اور ہر وقت اپنے کام تحریر میںلگے رہتے ان کو کوئی خبر نہ ہوتی تھی کہ کون آیا اور کون گیا۔ ایک لڑکی ہم تینوں میں سے بغیر اجازت کوئی چیز کھالیتی۔ ایک دن وہ صحن میں بیٹھے آم کھا رہے تھے۔ ہم دو لڑکیاں اوپر سے گئیں اور آم لے لئے۔ ایک عورت آگئی اور کہنے لگی تم نے آم کہاں سے لئے۔ ہم نے کہا حضرت صاحب نے دئے ہیں۔ اس نے کہا نہیں تم نے خود ہی لئے ہیں ۔ حضور نے تجھ کو نہیں دئے ان کوکہاں نظر آتا ہے۔ان کو تو کوئی خبر ہی نہیں ہوتی ۔ کوئی آئے کوئی جائے ۔حضور بیٹھے تھے میں آئی اورحضور کو خبر تک نہیں۔
{1590} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔امۃ الرحمان بنت قاضی ضیاء الدین صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان فرمایا کہ حضور ہمیشہ وضو سے رہتے تھے اور غسل بھی روز فرماتے ۔ حضور نہایت رحیم کریم تھے۔ اگر حضور کوئی خاص دوائی یا غذا بنواتے تو کسی خاص اعتبار والے سے بنواتے ۔یہ خادمہ جب تک نوکر رہی ،چیزیں حضور کی بنایا کرتی۔
{1591} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ امۃ الرحمان بنت قاضی ضیاء الدین صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضور ’’ سناتن دھرم کتاب تصنیف فرما رہے تھے۔ تو ان دنوں میں مجھ کو بلانے آئے تو حضور کی زبان مبارک سے امۃ الرحمان کی جگہ سناتن دھرم کے لفظ نکل گئے۔ تو ایک دن میں نے حضور سے عرض کی حضور مجھ کو فکر ہوگیا۔ حضور کی زبان مبارک سے میری بابت یہ کیوں ہندو لفظ آجاتا ہے تو حضور نے فرمایا امۃ الرحمان یہ کوئی برا لفظ نہیںہے ۔اس کے معنے ہیں پرانا ایمان ۔ پھر جب بھی یہ لفظ کہتے حضور ہنس پڑتے اور چہرہ چمک جاتا۔
{1592} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔امۃ الرحمان بنت قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت اُم المومنین علیہا السلام کو فرمارہے تھے کہ جو کام خدا تعالیٰ خود بخود کرے اس کا ذمے وار بھی خدا تعالیٰ خود بخود ہوجاتا ہے ۔ انسان کی خواہش اس کے مطابق چاہئے اور دعائیں بھی کرے۔ جب انسان کی کوشش اور خواہش کے مطابق وہ ہو بھی جائے توا س کی ذمہ واری وہ انسان پر ڈال دیتا ہے۔ اس واسطے سب کام خدا کے اُسی کے ذمے ڈال دینے چاہئیں ۔
{1593} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔امۃ الرحمان بنت قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضور علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو چاہئے کہ کسی کی نسبت کینہ اپنے دل میں نہ رکھے اور مواد نہ جمائے رکھے کیونکہ اس کی وجہ سے بڑے بڑے نقصان اور مصیبتوں کا سامنا ہوتا ہے جب ایک دوسرے کی بابت کوئی دل میں رنج ہوتوفوراً مل کر دلوںکو صاف کر لینا چاہئے اور مثال بیان فرمائی جب انسان کوزخم ہو اس میں مواد پیپ بھر ا پڑا ہواور نکالانہ جائے تو وہ گندہ مواد انسان کے بہت سے حصۂ بدن کو خراب کر دیتا ہے ۔ اسی طرح دل کے مواد کی بات ہے ۔ اگر ایک دوسرے کے رنج کو دل میں رکھا جائے تو زخم کے موا دکی طرح بُری حالت پیدا ہوتی ہے جس کی تلافی مشکل ہوتی ہے۔
{1595} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔امۃ الرحمان بنت قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ جو سچے دل سے اخلاص رکھتا ہوتا تھا اور حضور کو معصوم جانتا ہوتا تھا۔ حضور بھی اس کی خطاؤں پر چشم پوشی سے کام لیا کرتے تھے۔ اگرچہ وہ کوئی ناپسندیدہ کام کرتا لیکن حضور اس کے اخلاص کی وجہ سے باز پرس نہیں کیا کرتے تھے۔
{1596} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔امۃ الرحمان بنت قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مرزا فضل احمد صاحب مرحوم کی وفات کی خبر آئی تو مغرب کا وقت تھا اور حضرت اقدس علیہ السلام اس وقت سے لے کر قریباً عشاء کی نماز تک ٹہلتے رہے ۔ حضور علیہ السلام جب ٹہلتے تو چہرہ مبارک حضور کا اس طرح ہوتا کہ گویا بشرہ مبارک سے چمک ظاہر ہوتی ہے۔
٭٭٭
{1582} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ماسٹر مولا بخش صاحب ریٹائرڈ مدرسہ احمدیہ قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ موسمی تعطیلات میں میں یہاں آیا ہو اتھا۔ ستمبر کا مہینہ تھا ،سن اور تاریخ یاد نہیں ۔مسجد مبارک کی توسیع ہوچکی تھی۔ میں صبح آٹھ بجے مسجد مبارک میں اکیلا ہی ٹہل رہا تھا کہ اچانک حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کھڑکی سے جو مسجد مبارک میں کھلتی ہے تشریف لائے ۔ذرا سی دیر بعد حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول ؓ اور ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب مرحوم یا خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم اندرونی سیڑھیوں کی راہ سے مسجد میں آگئے۔ حضرت اقدس مسجد کے پرانے حصہ میں کھڑکی سے مشرقی جانب فرش پر تشریف فرما ہوئے اور ان سے باتیں کرنے لگ گئے اور خاکسار آہستہ آہستہ حضرت اقدس کے دست مبارک دبانے لگا۔باتیں کرتے کرتے آپ کے جسم مبارک میں جھٹکا سا لگا اور سارا بدن کانپ گیا اور میرے ہاتھوں سے آپ کی کلائی چھوٹ گئی ۔آپ فوراً اندر تشریف لے گئے حضرت خلیفہ اولؓ نے فرمایا کہ یہ نزول وحی کا وقت ہے۔
{1583} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی نے مجھ سے بیان کیا کہ میاں مبارک احمد صاحب کی وفات پر جب جنازہ لے کر قبر پر گئے تو قبر تیار نہ تھی۔ اس وسطے وہیں ٹھہرنا پڑا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلا م مقبرے کے شمال کی طرف درختوں کی قطار کے نیچے بیٹھ گئے ۔باقی احباب آپ کے سامنے بیٹھ گئے۔ اس وقت آپ نے جو تقریر کی وہ تو مجھے یاد نہیں مگر اس کا اثر یہ تھا کہ اس وقت ایسا معلوم ہو تا تھا جیسے ان لوگوں کا کوئی عزیز فوت ہو گیا ہے اور حضور ماتم پرسی کے لئے آئے ہیں اور ان کو تسلی دے رہے ہیں ۔
منشی محمد اسماعیل صاحب نے بیان فرمایا کہ بالکل یہی الفاظ میں نے سید حامد شاہ صاحب کو لکھے تھے۔
{1584} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے محمد بخش نام کاذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ اگر محمد بخش سے یہ مراد لی جائے کہ محمد کے طفیل بخشا گیا تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔
{1585} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی نے مجھ سے بیان کیا کہ مرزا حاکم بیگ کی شادی پر اس کے سسرال نے آتش بازی ،تماشے اور باجے کا تقاضا کیا۔ انہوںنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں لکھا کہ میرے سسرال والے یہ چاہتے ہیں ۔حضور کا کیا ارشاد ہے؟ آپ نے فرمایا کہ یہ سب ناجائز ہیں مگر مومن بعض وقت ناجائز سے بھی فائدہ اٹھا لیتا ہے مثلاً شہر میں وبائی مرض پھیلی ہوئی ہے ۔ایک شخص اس خیال سے آتش بازی چھوڑتا ہے کہ اس سے ہوا صاف ہو جائے گی اور لوگوں کو فائدہ پہنچے گا تووہ اس سے بھی گویا ثواب حاصل کرتا ہے ۔ اور اسی طرح باجے کے متعلق اگر اس شخص کی یہ نیت ہو کہ چونکہ ہم نے دور تک جانا ہے اور باجے کے ذریعے سے لوگوں کو علم ہو جائے گا۔ کہ فلاں شخص کی لڑکی کا نکاح فلاں شخص سے ہوا ہے اگر اس نے اس نیت سے باجا بجوایا تو یہ ایک اعلان کی صورت ہو جائے گی ۔ اس میں بھی ناجائز کا سوال اٹھ گیا۔
{1586} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ پیر افتخار احمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب میرے والد منشی احمد جان صاحب مرحوم حج کوجانے لگے تو حضرت صاحب نے ایک خط ان کو لکھ کر دیا کہ یہ خط وہاں جا کر پڑھنا۔ چنانچہ میرے والد صاحب نے عرفات کے میدان میں وہ خط پڑھا۔ اور ہم نے وہ خط سنا ۔ اس کے الفاظ خاکسارکویاد نہیں ۔ ہم بیس آدمی اس خط کو سُن کر آمین کہنے والے تھے۔
{1587} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ پیر افتخار احمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ بشیر اول کے عقیقہ کے وقت مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا والد رحیم بخش قادیان میں تھا۔ اس نے بچے کو بال مونڈنے کے وقت گودی میں لیا ہوا تھا۔ اور بیت الفکر میں ہم پندرہ کے قریب آدمی حضور کے ساتھ تھے اور اتنے ہی آدمی بمشکل اس کمرہ میں آسکتے تھے۔ حضرت میر محمد اسحق صاحب کے والد جو اس تقریب میں تشریف لا رہے تھے بوجہ بارش بٹالہ میں ہی رکے رہے۔ گویا اس دن بارش خوب ہورہی تھی۔
{1588} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ امۃ الرحمان بنت قاضی ضیاء الدین صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک شخص فجا تھا۔ اس کی بیوی ابھی آٹھ دس سال کی بچی تھی اور وہ کالی سی تھی۔ اور حضرت صاحبزادہ مبارک احمد کے ساتھ ساتھ رہتی ۔گویا یہ نوکرانی تھی۔ حضور اس کو فرماتے کہ ادھر آؤ اور مبارک احمد کو اچھی طرح سے رکھا کرو۔ ہم اس وقت تین لڑکیاں تھیں ،صفیہ ،صغریٰ ،امۃ الرحمان تو ہم نے حیران ہوجانا کہ ہم اس کو ذلیل سمجھتی ہیں اور حضرت صاحب اس کو بھی ادب سے بلاتے ہیں ۔
{1589} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ امۃ الرحمان بنت قاضی ضیاء الدین صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضور ایک دالان میں ہوتے اور عورتیں بھی وہاں ہوتیں اور ہر وقت اپنے کام تحریر میںلگے رہتے ان کو کوئی خبر نہ ہوتی تھی کہ کون آیا اور کون گیا۔ ایک لڑکی ہم تینوں میں سے بغیر اجازت کوئی چیز کھالیتی۔ ایک دن وہ صحن میں بیٹھے آم کھا رہے تھے۔ ہم دو لڑکیاں اوپر سے گئیں اور آم لے لئے۔ ایک عورت آگئی اور کہنے لگی تم نے آم کہاں سے لئے۔ ہم نے کہا حضرت صاحب نے دئے ہیں۔ اس نے کہا نہیں تم نے خود ہی لئے ہیں ۔ حضور نے تجھ کو نہیں دئے ان کوکہاں نظر آتا ہے۔ان کو تو کوئی خبر ہی نہیں ہوتی ۔ کوئی آئے کوئی جائے ۔حضور بیٹھے تھے میں آئی اورحضور کو خبر تک نہیں۔
{1590} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔امۃ الرحمان بنت قاضی ضیاء الدین صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان فرمایا کہ حضور ہمیشہ وضو سے رہتے تھے اور غسل بھی روز فرماتے ۔ حضور نہایت رحیم کریم تھے۔ اگر حضور کوئی خاص دوائی یا غذا بنواتے تو کسی خاص اعتبار والے سے بنواتے ۔یہ خادمہ جب تک نوکر رہی ،چیزیں حضور کی بنایا کرتی۔
{1591} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ امۃ الرحمان بنت قاضی ضیاء الدین صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضور ’’ سناتن دھرم کتاب تصنیف فرما رہے تھے۔ تو ان دنوں میں مجھ کو بلانے آئے تو حضور کی زبان مبارک سے امۃ الرحمان کی جگہ سناتن دھرم کے لفظ نکل گئے۔ تو ایک دن میں نے حضور سے عرض کی حضور مجھ کو فکر ہوگیا۔ حضور کی زبان مبارک سے میری بابت یہ کیوں ہندو لفظ آجاتا ہے تو حضور نے فرمایا امۃ الرحمان یہ کوئی برا لفظ نہیںہے ۔اس کے معنے ہیں پرانا ایمان ۔ پھر جب بھی یہ لفظ کہتے حضور ہنس پڑتے اور چہرہ چمک جاتا۔
{1592} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔امۃ الرحمان بنت قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت اُم المومنین علیہا السلام کو فرمارہے تھے کہ جو کام خدا تعالیٰ خود بخود کرے اس کا ذمے وار بھی خدا تعالیٰ خود بخود ہوجاتا ہے ۔ انسان کی خواہش اس کے مطابق چاہئے اور دعائیں بھی کرے۔ جب انسان کی کوشش اور خواہش کے مطابق وہ ہو بھی جائے توا س کی ذمہ واری وہ انسان پر ڈال دیتا ہے۔ اس واسطے سب کام خدا کے اُسی کے ذمے ڈال دینے چاہئیں ۔
{1593} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔امۃ الرحمان بنت قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضور علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو چاہئے کہ کسی کی نسبت کینہ اپنے دل میں نہ رکھے اور مواد نہ جمائے رکھے کیونکہ اس کی وجہ سے بڑے بڑے نقصان اور مصیبتوں کا سامنا ہوتا ہے جب ایک دوسرے کی بابت کوئی دل میں رنج ہوتوفوراً مل کر دلوںکو صاف کر لینا چاہئے اور مثال بیان فرمائی جب انسان کوزخم ہو اس میں مواد پیپ بھر ا پڑا ہواور نکالانہ جائے تو وہ گندہ مواد انسان کے بہت سے حصۂ بدن کو خراب کر دیتا ہے ۔ اسی طرح دل کے مواد کی بات ہے ۔ اگر ایک دوسرے کے رنج کو دل میں رکھا جائے تو زخم کے موا دکی طرح بُری حالت پیدا ہوتی ہے جس کی تلافی مشکل ہوتی ہے۔
{1595} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔امۃ الرحمان بنت قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ جو سچے دل سے اخلاص رکھتا ہوتا تھا اور حضور کو معصوم جانتا ہوتا تھا۔ حضور بھی اس کی خطاؤں پر چشم پوشی سے کام لیا کرتے تھے۔ اگرچہ وہ کوئی ناپسندیدہ کام کرتا لیکن حضور اس کے اخلاص کی وجہ سے باز پرس نہیں کیا کرتے تھے۔
{1596} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔امۃ الرحمان بنت قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مرزا فضل احمد صاحب مرحوم کی وفات کی خبر آئی تو مغرب کا وقت تھا اور حضرت اقدس علیہ السلام اس وقت سے لے کر قریباً عشاء کی نماز تک ٹہلتے رہے ۔ حضور علیہ السلام جب ٹہلتے تو چہرہ مبارک حضور کا اس طرح ہوتا کہ گویا بشرہ مبارک سے چمک ظاہر ہوتی ہے۔
٭٭٭