شہادت القرآن
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عرضِ ناشر
سر زمین سیالکوٹ میں بہت سی عظیم علمی عبقری شخصیات کو جنم دیا ہے، جن میں مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ، علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ، علامی احسان الہٰی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ، مولانا محمد صادق سیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ سر فہرست ہیں۔ مولانا ابراہیم میر 1874ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام سیٹھ غلام قادر ہے۔ مولانا میر سیالکوٹیؒ ایک آسودہ حال گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ مولانا مرحوم نے خود بھی کئی جگہ اپنی آسودہ حالی کا بطور اظہار تشکر تذکرہ کیا ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں اللہ نے اپنے ارادہ ازل سے مجھے ایسے متمول باپ کے ہاں پیدا کیا جو نعمت دنیا کت ساتھ نعمت دین سے بھی بہرہ ور تھے۔ والد مرحوم نے میری رغبت علوم دینیہ کی طرف دیکھ کر جناب حافظ عبد المنان صاحب مرحوم وزیر آبادی کے دست مبارک پر فی سبیل اللہ وقف کر دیا اور مجھے حق وراثت میں اتنا حصہ دے گئے کہ ساری عمر روزی کمانے کی حاجت نہیں پڑی۔
مولانا سیالکوٹی کا گھرانہ دینی تھا۔ چنانچہ مولانا نے 1895ء کو میٹرک کا امتحان ہائی سکول غلہ منڈی سیالکوٹ سے پاس کیا تو سیالکوٹ کے مشہور کالج ”مرے کالج“ میں داخلہ لے لیا۔ اس کالج میں مصور پاکستان شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال ان کے ہم جماعت تھے۔ مگر والدین کی خواہش تھی کہ ہمارا بیٹا دینی تعلیم حاصل کرے اور خود مولانا کا بھی دینی تعلیم کی طرف رجحان تھا، اس لئے کالج کو خیرباد کہا اور دینی تعلیم کے حصول کے لئے کمربستہ ہو گئے۔
ابتدائی تعلیم مولانا غلام حسن سیالکوٹی سے حاصل کی۔ مولانا غلام حسن، شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی کے فیض یافتہ تھے۔ نیز مولانا حسن سیالکوٹی کے شیخ پنجاب حضرت حافظ عبدالمنان وزیر آبادی سے انتہائی گہرے تعلقات تھے۔ اس طرح مولانا غلام حسن کے توسط سے مولانا ابراہیم کے والد سیٹھ غلام قادر سے بھی حضرت حافظ صاحب کے دوستانہ تعلقات ہو گئے۔ یہاں تک کے ایک مرتبہ حضرت حافظ صاحب نے سیٹھ صاحب سے کہا کہ آپ اپنے لڑکے ابراہیم کو میرے پاس وزیر آباد بھیج دیں۔ حافظ صاحب کہ کہنے پر سیٹھ غلام قادر نے اپنے لڑکے کا ہاتھ حافظ صاحب کے ہاتھ میں دے دیا اور ابراہیم میر سیالکوٹی حصول تعلیم کے لیے دار الحدیث وزیر آباد میں آ گئے۔ مولانا نہایت ذہین و فطین قوی الحافظہ تھے۔ اس لئے کم وقت میں جملہ علوم اسلامیہ کی تعلیم حضرت حافظ صاحب سے حاصل کی۔ یہاں سے فراغت کے بعد ابھی تشنگی باقی تھی اور مزید تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا اس لئے وزیر آباد چھوڑ کر علوم و فنون کے مرکز دہلی کا رخ کیا اور شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی کے حضور زانوئے تلمذ طے کیا۔ مولانا میر سیالکوٹی سید صاحب کے آخری دور کے شاگرد ہیں۔
مولانا سیالکوٹی انتہائی نیک سیرت اور لائق طالب علم تھے اور اللہ رب العزت نے ان کو گوناگوں صفات سے متصف کیا تھا۔ جب مولانا سیالکوٹی دہلی سے فراغت کے بعد وزیر آباد آئے تو والدہ نے کہا کہ بیٹا میری خواہش ہے کہ اس دفعہ تو نماز تراویح میں قرآن سنائے۔ مولانا حافظ قرآن نہ تھے، کہا اماں جان کوئی بات نہیں، آپ دعا کریں اور میں قرآن یاد کرتا ہوں۔ چنانچہ اوّل رمضان سے قرآن یاد کرنا شروع کیا۔ روزانہ ایک پارہ یاد کرتے اور رات کو نمازِ تراویح میں سناتے۔ والدہ صاحبہ نے تمام رمضان دعا کا سلسلہ جاری رکھا غرض ادھر رمضان کے تیس دن پورے ہوئے اور مولانا سیالکوٹی نے قرآن کے تیس سپارے مکمل سنا دئیے۔ بلاشبہ حضرت سیالکوٹی کو اللہ نے یہ بہت بڑا اعزاز عطا فرمایا۔
مولانا نے سیالکوٹ میں ایک دینی درسگاہ دار الحدیث کے نام سے شروع کی مگر مصروفیات کی وجہ سے اس کا سلسلہ زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔ جماعت اہلحدیث کو فعال اور منظّم کرنے میں مولانا کی خدمات بھی قابل تحسین ہیں۔ دسمبر 1906ء کو آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس کا قیام عمل میں آیا۔ مولانا سیالکوٹی اس اجلاس میں شامل تھے۔ کانفرنس کو متعارف کروانے کے لئے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ مولانا سیالکوٹی اس کمیٹی کے رکن تھے۔ دوسرے دو ارکان مولانا عبد العزیز رحیم آبادی اور مولانا ثناء اللہ امرتسری تھے۔
مولانا سیالکوٹی کے مولانا ثناء اللہ امرتسری کے ساتھ برادرانہ تعلقات تھے۔ چنانچہ مولانا نے اپنی کتب میں بھی اس کا تذکرہ کیا۔ مولانا سیالکوٹی اور مولانا ثناء اللہ کا اکثر ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا رہتا تھا۔ جب مولانا سیالکوٹی امرتسر جاتے تو مولانا ثناء اللہ اُن کو درس قرآن دینے کو کہتے اور اگر اثنائے قیام جمعہ کا دن آتا میر سیالکوٹی خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے۔ اکثر تبلیغی پروگراموں میں جب دونوں اکٹھے نظر آتے تو سامعین میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی۔ غرض برصغیر میں مولانا سیالکوٹی اور مولانا امرتسری نے باطل پرستوں کو للکارا اور تقریر، تحریر اور میدانِ مناظرہ میں ایک دوسرے کے دوش بدوش رہے۔ مولانا مرحوم نے درس و تدریس، تصنیف و تالیف، دعوت و مناظرہ، وعظ و تذکیر غرض ہر محاذ پر کام کیا اور شہرت کی بلندیوں کو پہنچے۔ ملکی سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ چنانچہ مولانا کی تمام ہمدردیاں مسلم لیگ سے وابستہ تھیں۔ 1930ء میں مسلم لیگ کا اجلاس جو آلہ آباد میں ہوا، مولانا اس میں شریک تھے۔ 1940ء میں اجلاس جس میں قراردادِ پاکستان پاس ہوئی اس میں بھی مولانا موجود تھے۔ غرض تحریک پاکستان کی حمایت اور مسلم لیگ کی رفاقت میں مولانا سیالکوٹی کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اور مولانا سیالکوٹی کا شمار بانی پاکستان محمد علی جناح کے رفقاء میں ہوتا ہے۔ 1945ء میں جمیعت علمائے اسلام کے نام سے ایک جماعت قائم ہوئی۔ مولانا شبیر احمد عثمانی اس کے صدر تھے اور مولانا سیالکوٹی نائب صدر تھے۔ اس کا پہلا اجلاس کلکتہ میں ہوا۔ مولانا عثمانی علالت کی وجہ سے شریک نہ ہو سکے، چنانچہ اجلاس کی صدارت مولانا سیالکوٹی نے کی۔
” الھادی “ کے نام سے مولانا نے پندرہ روزہ علمی مجلّہ جاری کیا جو ایک عرصہ تک علمی، دینی اور تحقیقی خدمات دیتا رہا۔ مولانا اسحاق بھٹی لکھتے ہیں کہ مولانا سیالکوٹی ایک کثیر المطالعہ عالم دین تھے۔ تفسیر، حدیث، فقہ، اصول حدیث، تاریخ و تذکرہ، فلسفہ، منطق اور تقابلِ ادیان وغیرہ علوم سے متعلق ان کی معلومات کی دائرہ بہت وسیع ہے۔ اسلام اور احکام اسلام کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ مناظرے میں بھی ان کی بڑی شہرت تھی۔ عیسائیوں، آریوں اور قادیانیوں کے ساتھ انہوں نے متعدد مقامات پر مناظرے کیے اور کامیاب رہے۔ بعض مسائل میں علمائے احناف سے بھی ان کے مناظرے ہوئے۔
مولانا سیالکوٹی نے جنوری 1956ء میں وفات پائی۔ نمازِ جنازہ حافظ عبداللہ محدث روپڑی نے پڑھائی اور سیالکوٹ میں دفن ہوئے۔ اللہ ان کی مرقد پر اپنی رحمت کی برکھا برسائے۔ مولانا سیالکوٹی کی تصنیفی خدمات بھی قابل رشک ہیں۔ مولانا نے بیس سے زیادہ کتابیں لکھی ہیں، جن کی فہرست حسب ذیل ہے۔
واضح البیان، سیرتِ مصطفیٰ، تائید قرآن، تعلیم القرآن، تاریخ اہلحدیث، تاریخ نبوی، اصلاح عرب، تبصیر القرآن فی تفسیر القرآن(پارہ اول تا سوم)، تفسیر سورۃ کہف، عصمت النبی، بشارتِ محمدیہ، علم الوصول الی اسرار الرسول، سراجاً منیرا، فرقہ ناجیہ، خلافتِ راشدہ، اعجاز القرآن، البخر الصحیح عن قبر المسیح، آئینہ قادیانی، فیصلہ ربانی برمرگِ قادیانی، رحلتِ قادیانی، انارۃ المصابیح، زاد المتقین اور زیر نظر کتاب شہادت القرآن مولانا سیالکوٹی کی ایک شاہکار تصنیف ہے۔ اس میں مرزائیت، قادیانیت کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی اور انکے حواریوں کی متعفن تحریرات اور خرافات کا ردّ کیا گیا ہے۔ عرصہ دراز کے بعد نعمانی کتب خانہ نے اس کی اشاعت کی طرف توجہ کی اور دیگر احباب معاونین کی رہنمائی سے آج یہ کتاب منصۂ شہود پر جلوہ نما ہے۔ شہادت القرآن کی تصحیح و تنقیح کے بعد پروفیسر عبد القیوم میر، برادر زادہ مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی نے 1959 میں شائع کی۔
پروفیسر عبدالقیوم میر(مرحوم) موجودہ امیر مرکزی جمیعت اہلحدیث پاکستان سینٹر پروفیسر ساجد میر کے والد محترم ہیں۔ پروفیسر ساجد میر مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی اور اپنے خاندان کی تابندہ و درخشندہ روایت کے روحانی اور نسبتی وارث ہیں۔ پروفیسر ساجد میر انگریزی زبان میں مہارتِ تامہ رکھتے ہیں اور ایک محبّ وطن اور اسلام پسند سیاستدان کے طور پر ملک میں معروف ہیں۔ کچھ وقت نائیجیریا میں بھی گزار اور وہاں اسسٹنٹ چیف ایجوکیشن آفیسر کے عہدے پر فائز رہے۔ انہیں علامہ احسان الہٰی ظہیر کی شہادت کے بعد جمیعت اہلحدیث کا قائم مقائم ناظم اعلیٰ نامزد کیا گیا۔ بعد میں باقاعدہ ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے۔ اب مرکزی جمیعت اہلحدیث پاکستان کے امیر ہیں۔ دعا ہے اللہ ان کی عمر دراز فرمائے۔
تقابل ادیان وغیرہ علوم سے متعلق مولانا ساجد میر پختہ معلومات رکھتے ہیں۔ خصوصاً مرزائیت و عیسائیت کی مذہبی سرگرمیاں ان سے مخفی نہیں۔ حال ہی میں ان کی ایک ضخیم کتاب ”عیسائیت مطالعہ و تجزیہ“ منظرِ عام پر لائی ہے۔ زیرِ نظر کتاب کی اشاعت میں بھی موصوف نے گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔ چنانچہ ہم نے اس کتاب کو کمپیوٹر کمپوزنگ، اعلیٰ جلد بندی، دلکش ڈیزائننگ کے ساتھ عوام الناس کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ اس سلسلہ میں قارئین اگر کوئی غلطی پائیں تو اپنی تجاویز سے ناشر کو مطلع فرمائیں۔
ناشر: ضیاء الحق نعمانی
نعمانی کتب خانہ حق سٹریٹ اُردو بازار لاہور
نعمانی کتب خانہ حق سٹریٹ اُردو بازار لاہور