• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

شہادت القرآن

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
شہادت القرآن
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عرضِ ناشر


سر زمین سیالکوٹ میں بہت سی عظیم علمی عبقری شخصیات کو جنم دیا ہے، جن میں مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ، علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ، علامی احسان الہٰی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ، مولانا محمد صادق سیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ سر فہرست ہیں۔ مولانا ابراہیم میر 1874ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام سیٹھ غلام قادر ہے۔ مولانا میر سیالکوٹیؒ ایک آسودہ حال گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ مولانا مرحوم نے خود بھی کئی جگہ اپنی آسودہ حالی کا بطور اظہار تشکر تذکرہ کیا ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں اللہ نے اپنے ارادہ ازل سے مجھے ایسے متمول باپ کے ہاں پیدا کیا جو نعمت دنیا کت ساتھ نعمت دین سے بھی بہرہ ور تھے۔ والد مرحوم نے میری رغبت علوم دینیہ کی طرف دیکھ کر جناب حافظ عبد المنان صاحب مرحوم وزیر آبادی کے دست مبارک پر فی سبیل اللہ وقف کر دیا اور مجھے حق وراثت میں اتنا حصہ دے گئے کہ ساری عمر روزی کمانے کی حاجت نہیں پڑی۔

مولانا سیالکوٹی کا گھرانہ دینی تھا۔ چنانچہ مولانا نے 1895ء کو میٹرک کا امتحان ہائی سکول غلہ منڈی سیالکوٹ سے پاس کیا تو سیالکوٹ کے مشہور کالج ”مرے کالج“ میں داخلہ لے لیا۔ اس کالج میں مصور پاکستان شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال ان کے ہم جماعت تھے۔ مگر والدین کی خواہش تھی کہ ہمارا بیٹا دینی تعلیم حاصل کرے اور خود مولانا کا بھی دینی تعلیم کی طرف رجحان تھا، اس لئے کالج کو خیرباد کہا اور دینی تعلیم کے حصول کے لئے کمربستہ ہو گئے۔

ابتدائی تعلیم مولانا غلام حسن سیالکوٹی سے حاصل کی۔ مولانا غلام حسن، شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی کے فیض یافتہ تھے۔ نیز مولانا حسن سیالکوٹی کے شیخ پنجاب حضرت حافظ عبدالمنان وزیر آبادی سے انتہائی گہرے تعلقات تھے۔ اس طرح مولانا غلام حسن کے توسط سے مولانا ابراہیم کے والد سیٹھ غلام قادر سے بھی حضرت حافظ صاحب کے دوستانہ تعلقات ہو گئے۔ یہاں تک کے ایک مرتبہ حضرت حافظ صاحب نے سیٹھ صاحب سے کہا کہ آپ اپنے لڑکے ابراہیم کو میرے پاس وزیر آباد بھیج دیں۔ حافظ صاحب کہ کہنے پر سیٹھ غلام قادر نے اپنے لڑکے کا ہاتھ حافظ صاحب کے ہاتھ میں دے دیا اور ابراہیم میر سیالکوٹی حصول تعلیم کے لیے دار الحدیث وزیر آباد میں آ گئے۔ مولانا نہایت ذہین و فطین قوی الحافظہ تھے۔ اس لئے کم وقت میں جملہ علوم اسلامیہ کی تعلیم حضرت حافظ صاحب سے حاصل کی۔ یہاں سے فراغت کے بعد ابھی تشنگی باقی تھی اور مزید تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا اس لئے وزیر آباد چھوڑ کر علوم و فنون کے مرکز دہلی کا رخ کیا اور شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی کے حضور زانوئے تلمذ طے کیا۔ مولانا میر سیالکوٹی سید صاحب کے آخری دور کے شاگرد ہیں۔

مولانا سیالکوٹی انتہائی نیک سیرت اور لائق طالب علم تھے اور اللہ رب العزت نے ان کو گوناگوں صفات سے متصف کیا تھا۔ جب مولانا سیالکوٹی دہلی سے فراغت کے بعد وزیر آباد آئے تو والدہ نے کہا کہ بیٹا میری خواہش ہے کہ اس دفعہ تو نماز تراویح میں قرآن سنائے۔ مولانا حافظ قرآن نہ تھے، کہا اماں جان کوئی بات نہیں، آپ دعا کریں اور میں قرآن یاد کرتا ہوں۔ چنانچہ اوّل رمضان سے قرآن یاد کرنا شروع کیا۔ روزانہ ایک پارہ یاد کرتے اور رات کو نمازِ تراویح میں سناتے۔ والدہ صاحبہ نے تمام رمضان دعا کا سلسلہ جاری رکھا غرض ادھر رمضان کے تیس دن پورے ہوئے اور مولانا سیالکوٹی نے قرآن کے تیس سپارے مکمل سنا دئیے۔ بلاشبہ حضرت سیالکوٹی کو اللہ نے یہ بہت بڑا اعزاز عطا فرمایا۔

مولانا نے سیالکوٹ میں ایک دینی درسگاہ دار الحدیث کے نام سے شروع کی مگر مصروفیات کی وجہ سے اس کا سلسلہ زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔ جماعت اہلحدیث کو فعال اور منظّم کرنے میں مولانا کی خدمات بھی قابل تحسین ہیں۔ دسمبر 1906ء کو آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس کا قیام عمل میں آیا۔ مولانا سیالکوٹی اس اجلاس میں شامل تھے۔ کانفرنس کو متعارف کروانے کے لئے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ مولانا سیالکوٹی اس کمیٹی کے رکن تھے۔ دوسرے دو ارکان مولانا عبد العزیز رحیم آبادی اور مولانا ثناء اللہ امرتسری تھے۔

مولانا سیالکوٹی کے مولانا ثناء اللہ امرتسری کے ساتھ برادرانہ تعلقات تھے۔ چنانچہ مولانا نے اپنی کتب میں بھی اس کا تذکرہ کیا۔ مولانا سیالکوٹی اور مولانا ثناء اللہ کا اکثر ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا رہتا تھا۔ جب مولانا سیالکوٹی امرتسر جاتے تو مولانا ثناء اللہ اُن کو درس قرآن دینے کو کہتے اور اگر اثنائے قیام جمعہ کا دن آتا میر سیالکوٹی خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے۔ اکثر تبلیغی پروگراموں میں جب دونوں اکٹھے نظر آتے تو سامعین میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی۔ غرض برصغیر میں مولانا سیالکوٹی اور مولانا امرتسری نے باطل پرستوں کو للکارا اور تقریر، تحریر اور میدانِ مناظرہ میں ایک دوسرے کے دوش بدوش رہے۔ مولانا مرحوم نے درس و تدریس، تصنیف و تالیف، دعوت و مناظرہ، وعظ و تذکیر غرض ہر محاذ پر کام کیا اور شہرت کی بلندیوں کو پہنچے۔ ملکی سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ چنانچہ مولانا کی تمام ہمدردیاں مسلم لیگ سے وابستہ تھیں۔ 1930ء میں مسلم لیگ کا اجلاس جو آلہ آباد میں ہوا، مولانا اس میں شریک تھے۔ 1940ء میں اجلاس جس میں قراردادِ پاکستان پاس ہوئی اس میں بھی مولانا موجود تھے۔ غرض تحریک پاکستان کی حمایت اور مسلم لیگ کی رفاقت میں مولانا سیالکوٹی کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اور مولانا سیالکوٹی کا شمار بانی پاکستان محمد علی جناح کے رفقاء میں ہوتا ہے۔ 1945ء میں جمیعت علمائے اسلام کے نام سے ایک جماعت قائم ہوئی۔ مولانا شبیر احمد عثمانی اس کے صدر تھے اور مولانا سیالکوٹی نائب صدر تھے۔ اس کا پہلا اجلاس کلکتہ میں ہوا۔ مولانا عثمانی علالت کی وجہ سے شریک نہ ہو سکے، چنانچہ اجلاس کی صدارت مولانا سیالکوٹی نے کی۔

الھادی “ کے نام سے مولانا نے پندرہ روزہ علمی مجلّہ جاری کیا جو ایک عرصہ تک علمی، دینی اور تحقیقی خدمات دیتا رہا۔ مولانا اسحاق بھٹی لکھتے ہیں کہ مولانا سیالکوٹی ایک کثیر المطالعہ عالم دین تھے۔ تفسیر، حدیث، فقہ، اصول حدیث، تاریخ و تذکرہ، فلسفہ، منطق اور تقابلِ ادیان وغیرہ علوم سے متعلق ان کی معلومات کی دائرہ بہت وسیع ہے۔ اسلام اور احکام اسلام کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ مناظرے میں بھی ان کی بڑی شہرت تھی۔ عیسائیوں، آریوں اور قادیانیوں کے ساتھ انہوں نے متعدد مقامات پر مناظرے کیے اور کامیاب رہے۔ بعض مسائل میں علمائے احناف سے بھی ان کے مناظرے ہوئے۔

مولانا سیالکوٹی نے جنوری 1956ء میں وفات پائی۔ نمازِ جنازہ حافظ عبداللہ محدث روپڑی نے پڑھائی اور سیالکوٹ میں دفن ہوئے۔ اللہ ان کی مرقد پر اپنی رحمت کی برکھا برسائے۔ مولانا سیالکوٹی کی تصنیفی خدمات بھی قابل رشک ہیں۔ مولانا نے بیس سے زیادہ کتابیں لکھی ہیں، جن کی فہرست حسب ذیل ہے۔

واضح البیان، سیرتِ مصطفیٰ، تائید قرآن، تعلیم القرآن، تاریخ اہلحدیث، تاریخ نبوی، اصلاح عرب، تبصیر القرآن فی تفسیر القرآن(پارہ اول تا سوم)، تفسیر سورۃ کہف، عصمت النبی، بشارتِ محمدیہ، علم الوصول الی اسرار الرسول، سراجاً منیرا، فرقہ ناجیہ، خلافتِ راشدہ، اعجاز القرآن، البخر الصحیح عن قبر المسیح، آئینہ قادیانی، فیصلہ ربانی برمرگِ قادیانی، رحلتِ قادیانی، انارۃ المصابیح، زاد المتقین اور زیر نظر کتاب شہادت القرآن مولانا سیالکوٹی کی ایک شاہکار تصنیف ہے۔ اس میں مرزائیت، قادیانیت کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی اور انکے حواریوں کی متعفن تحریرات اور خرافات کا ردّ کیا گیا ہے۔ عرصہ دراز کے بعد نعمانی کتب خانہ نے اس کی اشاعت کی طرف توجہ کی اور دیگر احباب معاونین کی رہنمائی سے آج یہ کتاب منصۂ شہود پر جلوہ نما ہے۔ شہادت القرآن کی تصحیح و تنقیح کے بعد پروفیسر عبد القیوم میر، برادر زادہ مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی نے 1959 میں شائع کی۔

پروفیسر عبدالقیوم میر(مرحوم) موجودہ امیر مرکزی جمیعت اہلحدیث پاکستان سینٹر پروفیسر ساجد میر کے والد محترم ہیں۔ پروفیسر ساجد میر مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی اور اپنے خاندان کی تابندہ و درخشندہ روایت کے روحانی اور نسبتی وارث ہیں۔ پروفیسر ساجد میر انگریزی زبان میں مہارتِ تامہ رکھتے ہیں اور ایک محبّ وطن اور اسلام پسند سیاستدان کے طور پر ملک میں معروف ہیں۔ کچھ وقت نائیجیریا میں بھی گزار اور وہاں اسسٹنٹ چیف ایجوکیشن آفیسر کے عہدے پر فائز رہے۔ انہیں علامہ احسان الہٰی ظہیر کی شہادت کے بعد جمیعت اہلحدیث کا قائم مقائم ناظم اعلیٰ نامزد کیا گیا۔ بعد میں باقاعدہ ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے۔ اب مرکزی جمیعت اہلحدیث پاکستان کے امیر ہیں۔ دعا ہے اللہ ان کی عمر دراز فرمائے۔

تقابل ادیان وغیرہ علوم سے متعلق مولانا ساجد میر پختہ معلومات رکھتے ہیں۔ خصوصاً مرزائیت و عیسائیت کی مذہبی سرگرمیاں ان سے مخفی نہیں۔ حال ہی میں ان کی ایک ضخیم کتاب ”عیسائیت مطالعہ و تجزیہ“ منظرِ عام پر لائی ہے۔ زیرِ نظر کتاب کی اشاعت میں بھی موصوف نے گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔ چنانچہ ہم نے اس کتاب کو کمپیوٹر کمپوزنگ، اعلیٰ جلد بندی، دلکش ڈیزائننگ کے ساتھ عوام الناس کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ اس سلسلہ میں قارئین اگر کوئی غلطی پائیں تو اپنی تجاویز سے ناشر کو مطلع فرمائیں۔

ناشر: ضیاء الحق نعمانی
نعمانی کتب خانہ حق سٹریٹ اُردو بازار لاہور
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
حرف اول

اثبات حیات مسیح علیہ السلام کے عنوان سے حضرت مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی معرکہ آراء تصنیف محتاجِ تعارف نہیں۔ اس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ لگائیے کہ یکے بعد دیگرے چند مرتبہ اشاعت کے باوجود بازار سے نایاب ہو گئی اور پھر زیورِ طبع سے آراستہ نہ ہو سکی۔ احسن اتفاق سے کتاب کا ایک نسخہ شیخ المشائخ قطب العالم حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالقادر مدظلہ العالی کی خدمت اقدس میں پیش کیا گیا تو حضرت اقدس زید مجدہ نے موضوع کی عظمت، مضامین کی بلندی اور دلائل کی پختگی سے متاثر ہو کر اس کتاب کو مختلف مجالس میں بالاقساط پڑھوایا۔ سماعت کے بعد حضرت اقدس زید مجدہ نے سب سے پہلے حضرت مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی صاحب کے بھتیجے مولانا عبدالقیوم صاحب مدظلہ سے مولانا مرحوم کا وہ ذاتی نسخہ حاصل کیا گیا جس میں مولانا مرحوم نے طبع چہارم کے لئے جابجا ضروری اضافہ اور مناسب ترمیم کو بصورتِ حاشیہ قلمبند کر رکھا تھا، مگر انہیں اپنی زندگی میں اس کی اشاعت کا موقع نہ مل سکا تھا۔ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور تردید مرزائیت کے سلسلہ میں موضوع کی مناسبت سے اس کتاب کی اشاعت کے اہتمام و انصرام کی سعادت حضرت اقدس کی خواہش کے مطابق مجلس مرکز تحفظ ختم نبوت پاکستان ملتان کو نصیب ہوئی۔

یہاں پر اس بات کا تذکرہ برمحل ہو گا کہ ملک بھر میں مجلس تحفظ ختم نبوت ہی ایسی واحد جماعت ہے جو ذاتی اقتدار کی رسہ کشی اور غیر اسلامی سیاسی بکھیڑوں سے بے نیاز ہو کر خالصۃً اشاعت اسلام اور تبلیغ دین کا فریضہ انجام دے رہی ہے۔ خدا کے فضل سے اس جماعت کا دائرہ کار پورے ملک میں وسیع و ہمہ گیر ہو رہا ہے۔ مغربی پاکستان کے اکثر بڑے شہروں میں اس جماعت کے مبلغین جماعتی خرچے پر تبلیغ دین کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں مجلس کے زیر اہتمام دینی مدارس بھی قائم ہیں۔ گویا پاکستان بھر میں یہی ایک جماعت ایسی ہے جو منظّم اور مؤثر طریق سے عیسائیوں، مرزائیوں اور دیگر باطل تنظیموں کا پوری تن دہی اور مستقل مزاجی کے ساتھ نہ صرف مقابلہ کر رہی ہے، بلکہ اس کی دعوت روز افزوں مقبول و محبوب ہو رہی ہے اور زیر نظر کتاب کی اشاعت اسی مقدس سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔

ان سطور کے بعد دیندار عوام سے عموماً اور علماء کرام و مشائخ عظام سے خصوصاً استدعا ہے کہ وہ اپنی دینی اور اخلاقی فرض پہچانتے ہوئے اس مفید ترین علمی تحفہ اور مؤثر تبلیغی ہدیہ کی بڑھ چڑھ کر قدر افزائی کریں۔ تاکہ مسئلہ ختم نبوت کی عظمت و اہمیت بدر جہا زیادہ جاگزیں ہو اور اس کے اعزاز و اکرام کے صدقہ میں حق تعالیٰ ہماری تمام ذلتوں اور تباہیوں کو دور کرکے ہمیں دارین کی نیک نامیوں اور درجات کی بلندیوں سے بہرہ مند فرمائے۔ آمین
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
تقریظ
جناب پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی
بر طبع اوّل
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ خالق الحب والنویٰ، الخالق لکل فرعون موسیٰ، والصّلوٰۃُ والسّلام علیٰ سیّد المرسلین صاحب الشفاعۃ الکبریٰ و الہٖ و صحبہٖ اھل التقیٰ والنقیٰ .

اما بعد رسالہ مؤلفہ جناب مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی کا نظرِ ناقص سے گزرا۔ جس نے اہلِ اسلام کو الحاد اور تحریف سے بچانے کی وجہ سے ممنون و مامون فرمایا۔ لا ریب فھم اعطیہ رجل مسلم کے زیور کی سجاوٹ اور پھبن سے بہ نسبت زمانۂ حال کی تالیفات کے جداگانہ جھلک دکھاتا ہے۔ فللّٰہ ورأ المؤلف حیث اری الناظر کل کلمۃ من الکلمات القرانیۃ سلطان دارھا و کل اٰیۃ من الایات الفرقانیہ برھان جارھا و ان ماتوھم فیھا من التکرار فمن رمد الابصار۔ اللّٰھم اید الاسلام و المسلمین و اخذل الملاحدۃ و المبتدعین بطول حیاتۃ و اعف عن دسیئاتہ و ضاعف حسناتہ و اخر دعوانا ان الحمدللّٰہ رب العالمین والصلوٰۃ والسّلام علیٰ خاتم النبییّن و الہ و صحبہ اجمعین .

العبد الملتجی الی اللہ المدعو بمھر علی شاہ عفی عنہ
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سخنے چند


فرنگی کا ایک خود کاشتہ پودا قادیانیت یا مرزائیت کے نام سے موسوم ہے۔ اس نے اسلام اور اس کے بنیادی اصول و احکام کو مٹانے کے لئے مسلمانوں ہی سے ایک شخص مرزا غلام احمد کا انتخاب کیا اور اس کو یہ پٹی پڑھائی کہ:

ایک ایسے مذہب کی بنیاد رکھو جس کا مقصد انگریز اور اس کی حکومت کی اطاعت ہو۔ اور جو مسلمانوں کی مذہبی و قومی اور ملی روایات کا خاتمہ کر دے اور جہاد کا جذبے(Spirit) کو ختم کیا جائے۔ تاکہ ہندوستان کی برٹش حکومت مسلمانوں کی طرف سے مطمئن ہو جائے اور اسے کوئی گزند اور نقصان نہ پہنچا سکیں اور آرام سے حکومت کے سامنے سر جھکا سکیں۔

چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی نے انگریز کی گٹھ جوڑ سے ایک نئے مذہب کی بنیاد رکھی۔ اس شخص نے سب سے پہلے ”تبلیغ اسلام“ کا ڈھونگ رچایا اور ”براہین احمدیہ“ حصہ اول شائع کرکے مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کی۔ اس کے بعد اس شخص نے مدد ہونے کا دعویٰ کیا اور تھوڑے عرصہ بعد مجدد سے ”مہدی“ بن گیا اور یہ اعلان کیا کہ:

جس مہدی، عیسیٰ یا مسیح کے نزول کی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے وہ مرزا ہی ہے مگر درجات و مراتب میں مسیح سے افضل و اعلیٰ ہے۔ بقول مرزا

ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو
اس سے بہتر غلام احمد ہے
(روحانی خزائن جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 483)

مسیح موعود سے ترقی کرتے ہوئے اس شخص نے نبوت کا دعویٰ کر دیا اور اعلان کر دیا کہ:

مرزا غلام احمد قادیانی رسول، نبی اور ملہم ہے، جس پر انبیاء کی طرح وحی نازل ہوتی ہے، خاد کے تمام پیغمبروں کی صفات اس میں پائی جاتی ہیں اور یہ شعر کہا

میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں
نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار
(روحانی خزائن جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 133)

اور اس کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ:

۱)روئے زمین کے تمام اہل اسلام کافر مطلق ہیں۔

۲)اسلام کے تمام علمائے کرام کافر، دجال، شیطان اور فسادی ہیں۔

۳)میری تمام کتابیں صحف آسمانی کی حیثیت رکھتی ہیں، ان کا درجہ قرآن کے برابر ہے۔

مثل مشہور ہے:

لکل فرعون موسیٰ یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر فرعون کے لئے ایک موسیٰ بھی ساتھ پیدا کیا ہے۔

یہ مثال پنجاب کے کاذب مرزا غلام احمد قادیانی پر صادق آ گئی ہے۔ جس دور میں مرزا قادیانی نے ملت اسلامیہ میں رخنہ ڈالنے کے لیے مسیح موعود یا مہدی زماں، نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کیا، اللہ تعالیٰ نے مولانا ابو سعید محمد حسین بٹالوی(م1338ہجری) کو پیدا فرمایا۔ آپ نے متانت اور سنجیدگی سے اس فتنہ کو نیست و نابود کرنے کی کوشش کی، وہ اسلامیان ہند کی تاریخ میں ایک بے نظیر کارنامہ ہے۔ مولانا محمد حسین بٹالوی کے بعد اللہ تعالیٰ نے شیخ الاسلام فاتح قادیان مولانا ابو وفا ثنا اللہ امرتسریؒ کو پیدا فرمایا۔ آپ نے ساری زندگی اس فتنہ ضالہ کی سرکوبی میں صرف کر دی۔ اور مرزا قادیانی کو اتنا زچ کیا کہ آخر اس نے تنگ آ کر آپ سے مباہلہ کیا اور لکھا کہ:

جھوٹا سچے کی زندگی میں کسی مہلک بیماری سے ہلاک ہو جائے۔(تفصیل کے لیے: مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 578تا580)

کوئی خاص تھا کہ مرزا قادیانی کی زبان سے کہی ہوئی دعا اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی اور مرزا قادیانی اپنی اس دعا کے ایک سال ایک ماہ اور 12 دن بعد 26؍مئی1908ء کو لاہور میں اپنے میزبان ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ کے مکان واقع احمدیہ بلڈنگ لاہور میں، ان کے بیت الخلاء میں دم توڑ گئے اور مولانا ثنا اللہ امرتسریؒ نے 40 سال بعد 15؍مارچ 1948ء کو سرگودھا میں رحلت فرمائی۔

مولانا ثناء اللہ مرحوم نے مرزا قادیانی کی وفات پر فرمایا

کذب میں پکا تھا پہلے مر گیا
نامرادی میں ہوا اس کا آنا جانا

فتنہ قادیانیت کے خلاف علمائے اہلحدیث کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے مشہور صحافی آغا عبدالکریم شورش کاشمیری مرحوم لکھتے ہیں:

جن علمائے اہلحدیث نے مرزا صاحب اور ان کے بعد قادیانی امت کو زیر کیا ۔ ان میں مولانا محمد بشیر سہوانی، قاضی محمد سلیمان منصور پوری اور مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی سر فہرست تھے۔ لیکن جس شخصیت کو علمائے اہلحدیث میں فاتح قادیان کا لقب ملا وہ مولانا ثناء اللہ امرتسری تھے ۔ انہوں نے مرزا صاحب اور ان کی جماعت کو لوہے کے دانے چبوائے ۔ اپنی زندگی ان کے تعاقب میں گزار دی ۔ ان کی بدولت قادیانی جماعت کا پھیلاؤ رک گیا ۔ مرزا صاحب نے تنگ آ کر انہیں خط لکھا کہ: ”میں نے آپ سے بہت دکھ اٹھایا ہے اور صبر کرتا رہا ہوں ، اگر میں کذاب اور مفتری ہوں جیسا کہ آپ لکھتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہلاک ہو جاؤں گا ، ورنہ آپ سنت اللہ کے مطابق مکذبین کی سزا سے نہیں بچیں گے ۔ خدا آپ کو نابود کر دے گا ۔ خداوند تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مفسد اور کذاب کو صادق کی زندگی میں اٹھائے“۔(خط مؤرخہ 15؍اپریل1907ء)

اس خط کے ایک سال ایک ماہ اور بارہ دن بعد مرزا صاحب لاہور میں اپنے میزبان کے بیت الخلاء میں دم توڑ گئے ۔ مولانا ثناء اللہ نے 15؍مارچ1948ء کو سرگودھا میں رحلت فرمائی ۔ وہ مرزا صاحب کے بعد 40 سال تک زندہ رہے ۔ ان کے علاوہ مولانا عبداللہ معمار، مولانا محمد شریف گھڑیالوی، مولانا عبدالرحیم لکھو والے، مولانا حافظ عبداللہ روپڑی، مولانا حافظ محمد گوندلوی، مولانا محمد اسمٰعیل گوجرانوالہ، مولانا محمد حنیف ندوی، مولانا عبدالقادر روپڑی اور حافظ محمد ابراہیم کمیرپوری وغیرہ نے قادیانی امت کو ہر دینی محاذ پر خوار کیا ۔
اس سلسلہ میں غزنوی خاندان نے عظیم خدمات سر انجام دیں ۔ مولانا سید داؤد غزنوی جو جماعت اہلحدیث کے امیر اور مجلس احرار اسلام کے سیکرٹری رہے ، انہوں نے اس محاذ پر بے نظیر کام کیا۔ فی الجملہ تحریک ختم نبوت کے اس آخری دور تک مرزائی مسلمانوں سے الگ کئے گئے اور آئینی اقلیت قرار پا گئے۔ علماء اہلحدیث قادیانیت کے تعاقب میں پیش پیش رہے اور اس عنوان سے اتحاد بین المسلمین میں قابلِ قدر حصہ لیا۔(تحریک ختم نبوت صفحہ 40-41)

فتنہ قادیانیت کے خلاف علماء اہلحدیث کی تحریر خدمات بھی قدر کے قابل ہیں۔ مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ، مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹیؒ، مولانا حبیب اللہ امرتسریؒ، مولانا عبداللہ معمارؒ، قاضی محمد سلیمان منصور پوریؒ، مولانا ابوالقاسم بنارسیؒ، مولانا حافظ عبداللہ روپڑیؒ، مولانا حافظ محمد گوندلویؒ، مولانا حنیف ندویؒ، مولانا صفی الرحمان مبارکپوریؒ اور علامہ احسان الہٰی ظہیرؒ کی تحریری خدمات تاریخ اہلحدیث میں ایک درخشندہ باب ہے۔

”شہادۃ القرآن“ مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی کی بے نظیر تصنیف ہے۔ مرزا قادیانی نے اپنے مسیح موعود کے دعویٰ میں موضوع اور منکر روایات کا سہارا لیا تھا اور آیات قرآنی میں تحریف کرکے لوگوں کو دھوکہ دیا تھا۔ مولانا سیالکوٹی نے اپنی اس کتاب میں مرزا قادیانی کی قلعی کھول دی اور حضرت مسیح علیہ السلام کا ”بجسدہ العنصری“ آسمان پر اٹھایا جانا ثابت کیا۔

مولانا ابو یحییٰ امام خان نوشہروی اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں:

مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی نے قرآن مجید کے متعلق کتابیں مختلف ضرورت کے مطابق لکھیں۔ جن میں صرف آیت إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ کی تفسیر دو جلدوں میں بعنوان ”شہادت القرآن“ ہے، جو مسئلہ حیات عیسیٰ علیہ السلام پر ایسی گواہی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو مردہ بتانے والے بھی كَذَٰلِكَ يُحْيِي اللَّهُ الْمَوْتَىٰ وَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ پکار اٹھے۔

شہادت القرآن دو جلدوں میں ہے۔ شہادت القرآن کی پہلی جلد رجب1321ھ؍ستمبر 1903ء مرزا قادیانی کی زندگی میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد دوسری جلد 1323ھ؍1905ء میں شائع ہوئی مگر مرزا قادیانی کو اس کتاب کا جواب لکھنے کی ہمت نہ ہوئی۔

شہادت القرآن دوسری مرتبہ جلد اول صفر1330ھ؍فروری1912ء میں شائع ہوئی اور دوسری جلد ذی الحجہ 1240ھ؍اگست1922ء میں شائع ہوئی۔ تیسری مرتبہ شہادت القرآن کی جلد اول ذی قعدہ1346ھ؍مئی1928ء میں شائع ہوئی، مگر دوسری جلد بوجوہ شائع نہ ہو سکی۔ چوتھی مرتبہ یہ کتاب دونوں جلدیں ذی الحجہ1277ھ؍جولائی1959ء مولانا عبدالقادر رائپوری کی تحریک پر مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان نے شائع کیں۔ اب پانچویں مرتبہ یہ کتاب نعمانی کتب خانہ لاہور کے زیر اہتمام شائع ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ محترم ضیاء الحق نعمانی کو جزائے خیر دے کہ انہوں نے 25 سال بعد اس کتاب کی اشاعت پر توجہ کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس خدمت کو قبول فرمائے کہ انہوں نے ایک بہت بڑا علمی کارنامہ سر انجام دیا ہے۔


عبدالرشید عراقی
سوہدرہ، ضلع گوجرانوالہ
10؍محرم الحرام 1422ھ، 5؍اپریل 2001ء

 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
دیباچۂ شہادت القرآن

حصہ اول(طبع چہارم)
حصہ دوم(طبع سوم)

الحمد للّٰہ وحدہ الصلوۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ.

اما بعد ، اثباتِ حیات مسیح علیہ السلام کے متعلق مولانا محمد ابراہیم صاحب میر فاضل سیالکوٹی کی قابل قدر کتاب ”شہادت القرآن“ کا پہلا حصہ رجب1321ھ میں مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی زندگی میں طبع ہوا۔ اس کے بعد اس کتاب کا دوسرا حصہ بھی جس میں مرزائے قادیان کے دلائل متعلقہ وفات مسیح علیہ السلام کا مفصل اور معقول جواب درج ہے، 1323ھ میں مرزا صاحب کی زندگی ہی میں طبع ہو گیا تھا۔ مگر ان دونوں میں سے کسی ایک حصے کے جواب کی ہمت نہ ہوئی۔

پہلا حصہ دوسری مرتبہ صفر؍1330ھ بمطابق فروری؍1912ء میں طبع ہوا اور دوسرا حصہ دوسری مرتبہ مولانا ثناء اللہ امرتسری کے اہتمام سے ذی الحجہ؍1340ھ بمطابق اگست؍1922ء میں شائع ہوا۔ پہلا حصہ تیسری مرتبہ مصنف علام نے ذیقعدہ؍1346ھ بمطابق مئی؍1927ء میں شائع کیا۔

اس کے بعد اس کتاب کی مانگ تو بہت زیادہ رہی، مگر کثرتِ اشعال و قلت فرصت کے باعث فاضل مصنفؒ اس کی طبع چہارم اپنی زندگی میں تو شائع نہ فرما سکے، لیکن انہوں نے اتنا اہتمام ضرور کیا کہ حصہ اول کی طبع سوم کے ایک نسخے میں طبع چہارم کے لیے اپنے دست مبارک سے جگہ جگہ اضافے فرما دئیے اور کتاب کے سر ورق پر یہ الفاظ تحریر فرمائے:

”صحیح کردہ نسخہ طبع چہارم کے لیے“

نیز تاکیداً فرما دیا کہ اس نسخے کو ضائع نہ ہونے دیا جائے۔ مصنف علام کی اس تحریر کی تاریخ 28؍جنوری1950ء بمطابق 9؍ربیع ثانی1329ھ ہے۔ راقم الحروف نے انتہائی کوشش کی ہے کہ مصنف کی دلی آرزو کے مطابق حصہ اوّل کی طبع چہارم میں اس تجویز کردہ اضافے اور ترمیمات اپنے اپنے مقام پر صحت کے ساتھ درج ہو جائیں۔

مصنف علام 12؍جنوری1956ء بمطابق جمادی الاولیٰ1375ھ کو اللہ کے پیارے ہو گئے1۔ لیکن یہ یقین کر لینا چاہیے کہ حصہ اول کی طبع چہارم گویا انہیں کی نگرانی میں شائع ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ناظرین کو اس سے نفع پہنچائے۔

ناشکری ہو گی اگر صمیم قلب سے اس امر کا اعتراف نہ کیا جائے کہ شہادت القرآن کی یہ اشاعت کلیۃً حضرت اقدس مولانا عبدالقادر صاحب رائپوری دامت فیوضھم کی توجہ خاص کی رہین منت ہے۔ مولانا لال حسین صاحب اختر نے جس فیاضی سے کام لے کر شہادت القرآن کے پر دو حصص کتابت کے لئے پیش فرمائے اللہ تعالیٰ اس کے لئے انہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔

26 ذی الحجہ1377ھ برادر زادہ مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی
15 جولائی1958ء عبدالقیوم میر


ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1:مرزا ہادی بیگ صاحب دامن پوری نے مولانا مرحوم کی تاریخ وفات یوں تحریر فرمائی ہے: 1375ھ
2n0ovti.jpg
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
دیباچہ طبع ثالث

مسمٰی بسعادتِ الاقران بکشف بعض لطائف القرآن
بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ العلی الاکرام، الذی علم بالقلم، علم الانسان مالم یعلم و صلی اللہ علی رسولہ محمد سید العرب و العجم و علی الہ و اصھابہ و بارک و سلم۔

اما بعد ۔ صاحبان! شہادت القرآن کا پہلا حصہ جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی رفع آسمانی نو آیاتِ قرآنیہ سے ثابت کی گئی، اول مرتبہ ماہِ رجب 1321ھ میں طبع ہوا۔ اس کے بعد اس کا دوسرا حصہ جس میں ان تیس دلائل کا جواب ہے جو مرزا غلام احمد نے صاحب مدعی مسیحیت و نبوت نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات قبل النزول پر بزعم خود قرآن شریف سے پیش کئے تھے، مرزا صاحب کی زندگی ہی میں رمضان1323 میں طبع ہوا۔ مرزا صاحب 24 ماہ ربیع الآخر 1326ھ بمطابق 26؍مئی1908ء کو بروز منگل(سہ شنبہ) میلہ بھدر کالی کے دن بمقام لاہور فوت ہوئے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مرزا صاحب کو شہادت القرآن کا جواب لکھنے کے لئے کئی سال کی مہلت ملی، لیکن نہ تو جناب مرزا صاحب نے آنجہانی کو ہمت ہوئی اور نہ ان کی زندگی میں ان کی جماعت کے کسی عالم یا مدعی علم کو جرأت ہوئی۔

پھر دوسری مرتبہ پہلا حصہ صفر؍1330ھ میں مطابق فروری؍1912ء اور دوسرا حصہ اہتمام حضرت مولانا المکرّم جناب مولوی ثناء اللہ صاحب دامت برکاتہ، سردار اہلحدیث ذی الحج1340ھ مطابق اگست1922ء میں طبع ہوا۔

ارادہ تھا کہ دوسری طبع میں اس کی بعض مشکلات کی تسہیل اور مجملات کی توضیح و تفصیل کر دوں گا، لیکن میری قلت فرصت(جو ہمیشہ شامل حال رہتی ہے) اور طالبین کی شدتِ شوق و استعجال نے اس خواہش کو پورا نہ ہونے دیا۔

مَا كلُّ ما يَتَمَنّى المَرْءُ يُدْرِكُهُ
تجرِي الرّياحُ بمَا لا تَشتَهي السّفُنُ


اب تیسری طبع کی نوبت آ گئی ہے اور جس قدر شائقین کی طلب اور ”دفتر اہلحدیث“ کی فرمائش زیادہ ہو رہی ہے، اسی قدر میری فرصت کم سے کمتر ہو رہی ہے۔

ایسی قلت فرصت کی حالت میں کہ متعدد مشکل اور مطوّل تصانیف2 کا سلسلہ جاری ہے، اس علاوہ3 کو بھی ساتھ رکھ لیا۔ اب اللہ سے دعا ہے کہ ان سب کو پورا کرا دے۔ ھو خسبی و نعم الرفیق۔ خیال تھا کہ اس تیسرے ایڈیشن میں امکان خرق عادت کا مضمون مفصل لکھا جائے، چنانچہ وہ لکھ بھی ڈالا۔ لیکن وہ اتنا طویل ہو گیا کہ اگر اسے اس کتاب کا جزو بنایا جائے تو کتاب کا حجم بڑھ جائے۔ بنا بریں مناسب جانا کہ اسے الگ ایک رسالہ کی صورت میں طبع کرا دیا جائے۔

اہل علم نے اس کتاب ”شہادت القرآن“ کی جو قدر کی وہ ان کی زرہ نوازی اور علمی قدر دانی ہے۔ ورنہ میری نظر سے وہ اس قابل نہ تھی کہ اہل علم اسے اس طرح ہاتھوں ہاتھ لیتے اور قادیانی مناظرات میں زیرِ نظر رکھتے۔

میں حضراتِ دیوبند کا خصوصیت سے شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اپنی علمی قدر شناسی اور فراخ دلی کا علمی ثبوت دیا۔ خصوصاً مولانا مولوی حبیب الرحمٰن صاحب کا کہ وہ برابر اپنے طلباء اور محصلین اور زیر اثر شائقین کو اس کتاب کی طرف توجہ دلاتے رہتے تھے۔ میں انسان ہو کر اس ناچیز خدمت کو بے عیب متاع کی طرح پیش نہیں کرنا چاہتا لیکن چونکہ ایمان و ایمانیات میں اذعان و وثوق ضروری ہے، اس لئے اپنے ایمان و اذعان کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اس میں حق حق بیان کیا ہے اور اسے ایسے زبردست اور روشن دلائل سے ثابت کیا ہے کہ اس کے جواب میں مرزا صاحب اور ان کی جماعت کا قلم کیا، دم ٹوٹ گیا ہے۔ نہ تو جواب کہ ہمت پڑی اور نہ انشاء اللہ پڑے گی۔ کیونکہ میں نے اس میں خدا کے فضل و توفیق سے اصل دلیل کی بنا صرف قرآن کریم پر رکھی ہے اور اسے اِدھر اُدھر کی کھینچ تان اور ایچاپیچیوں سے سلامت رکھتے ہوئے بالکل منشائے الہٰی کے مطابق بیان کیا ہے اور باقی سب قسم کے دلائل کو اس کے ماتحت تائیدی شہادتیں اور تشریحیں بنایا ہے۔ ہاں اس امر کا لحاظ شدت سے رکھا ہے کہ کسی آیت کے مفہوم کو کلام الہٰی کے امین اور صحیح مخاطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیانِ قولی یا فعلی اور فصیح زبان عرب کے محاورات اور علمی قواعد استدلال و استنباط کے خلاف بیان نہ کروں۔

اہل علم و فہم اصحاب کی خدمت میں ان کے مذاقِ علم کی ضیافت کے لئے چند سطور ذیل میں پیش کرتا ہوں، جس سے ان کی دور رس نظر اس امر کو بسہولت پالے گی کہ میں نے اس کتاب میں کیسی پختگی سے امورِ ضروریہ کو ملحوظ خاطر رکھا ہے۔ اور مضمون کے مالہ و ما علیہ کو کس طرح نظر میں رکھ کر حق کا اثبات اور باطل لا ابطال کیا ہے اور مفہوم کلام کو خدائے حکیم کے منشا کے مطابق بیان کیا ہے اور مقام احتجاج و تحقیق میں دفع الوقتی اور تساہل اور مقام تردید و تنقید میں اوچھے ہتھیاروں سے ہرگز کام نہیں لیا۔ بلکہ خدا کے فضل و حسن توفیق سے شہادت القرآن کے ہر دو حصوں میں خالص حق بغیر کسی قسم کی ملاوٹ کے زبردست دلائل سے بیان کیا گیا ہے۔

پہلے حصے میں مقام استدلال و تعلیل میں کسی امر کو بھی بغیر دلیل نہیں چھوڑا کہ کوئی مانع طلب کر سکے اور ہر دلیل کو قواعد علمیہ سے ایسا محکم کیا ہے کہ مخالف کو نقض کی گنجائش نہیں۔ اور قواعد علمیہ کا اجراء اور استدلال کی بنا آیات قرآنیہ پر رکھی ہے اور یہ مسلم ہے کہ ان کا معارضہ ممکن نہیں۔ اور ہر نقل کو صحیح صحیح بغیر کسی کمی بیشی یا تغیر مفہوم کے لکھا ہے۔ پس صحت نقل کا مطالبہ عبث ہے۔ اور پھر مسلمات نقلیہ کو میزان عقل پر بھی پورا کر دکھایا ہے کہ ہر دو جہت سے برہان قوی ثابت ہو، پس عقل و نقل کا عذر بھی نہیں ہو سکتا۔

دوسرے حصے میں مرزا صاحب کے ”دلائل وفاتِ مسیح“ کو جواب ہے۔ اس میں ان کی ہر فرضی دلیل کے ہر مقدمہ پر علم لغت و نحو و اصول اور قرآن و حدیثِ صحیح سے نقض کیا ہے اور ہر نقض میں شاہد پیش کیا ہے۔ اور ان کے اپنے مسلّمات سے ان پر الزام قائم کئے ہیں۔ پس اپنی کم بضاعتی کا اعتراف کرتے ہوئے اور محض خدا کے فضل پر اعتماد رکھتے ہوئے میں کہہ سکتا ہوں کہ شہادت القرآن کے حصہ دوم کے مطالعہ کے بعد مرزا صاحب کے صاحب علم ہونے کا خیال باقی نہیں رہ سکتا۔ اگر ان کے کسی حامی کے سر میں پھر بھی خیال سمائے کہ مرزا صاحب علم نحو و اصول میں مہارت رکھتے تھے تو اس کا فرض ہے کہ ان علوم کے رو سے اس کتاب کے حصہ دوم کا جواب لکھ کر اپنے خیالات کو مرزا صاحب کی تصریحات سے ثابت کرے، جو انشاء اللہ نہیں ہو سکے گا۔

مرزا صاحب کی زندگی میں نہ تو ان سے اور نہ ان کے کسی ذی علم مرید سے ہو سکا کہ شہادت القرآن کا جواب لکھیں۔ آخر ان کی وفات کے کئی ماہ بعد ان ایک حواری مولوی ظہور الدین صاحب اکمل نے اس کے پہلے باب کا جواب بنام شہادت الفرقان چھپوایا۔ لیکن حقیقت میں وہ شہادت القرآن کا جواب نہیں۔ اسی لئے خود ان کی جماعت میں بھی اس کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ اس کی وہ وجوہات ہیں، اول یہ کہ مولوی اکمل صاحب شہادت القرآن کے مطالب عالیہ اور لطائف علمیہ کو سمجھ نہیں سکے بلکہ جن امور کو بالتصریح بیان کیا گیا ہے ان کو بھی خیال میں نہیں رکھ سکے۔ بلکہ جو باتیں ان کی جماعت اور خود مرزا صاحب اس سے قبل مسئلہ حیات و مماتِ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق بیان کیا کرتے تھے وہی دہرا دی ہیں۔ حالانکہ شہادت القرآن میں اسن عذرات کا تردید صراحتہً یا اشارۃً موجود ہے۔ اور خدا کے احسان سے خاکسار نے اس کتاب کو خاص اسی خیال سے ایسی مضبوطی اور خوبی کے ساتھ لکھا تھا کہ مرزا صاحب قادیانی اور ان کی جماعت کے علماء اس کو جواب سے عاجز رہیں۔ دیگر اس خیال سے کہ جو کچھ قادیانیوں کی طرف سے اس کے جواب میں نکلے اس کا جواب بھی خود شہادت القرآن ہی ہو اور مجھے نیا جواب لکھنے کی ضرورت نہ پڑے۔

قاصد کے آتے آتے میں خط اور لکھ رکھو
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں

سو الحمد اللہ میرے دونوں خیال درست نکلے۔ نہ تو مرزا صاحب قادیانی اس کا جواب لکھ سکے اور نہ ان کے علماء اس کے دلائل کو توڑ سکے اور نہ مجھے جواب الجواب کے لئے شہادت القران سے باہر جانا پڑا۔ چنانچہ انشاء اللہ آپ دیکھیں گے کہ یہ ہیچمدان موقع بہ موقع اکمل صاحب کا جواب خاص شہادت القرآن ہی کی تصریحات اور اشارات سے دے گا۔ وما توفیقی الا باللہ

دوسری وجہ یہ کہ خاکسار نے شہادت القرآن کا پہلا باب رجب 1321ھ میں چھپوایا۔ اور دوسرا باب دو سال بعد رمضان 1323ھ میں طبع کرایا۔ اس دو سال سے کچھ زائد عرصہ میں پہلے باب کا کوئی جواب نہیں لکھا گیا اور اس کے بعد بھی 1326ھ تک خاموشی رہی اور مرزا صاحب چل بسے۔ ساڑھے پانچ سال بعد صرف پہلے باب کا جواب طبع ہوا۔ اور دوسرے باب سے جس میں مرزا صاحب کے ان دلائل کو جو انہوں نے وفاتِ حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں لکھے ہیں لغت عرب اور قواعد علمیہ اور احادیث نبویہ اور علوم آلیہ اور اصول استدلال سے ایسا غلط ثابت کیا گیا ہے کہ اس کے مطالعہ کے بعد مرزا صاحب کی عیسویت کا رنگ تو کجا آپ کی علمیت کا بھی سارا بھرم کھل جاتا ہے اور قطارِ علماء میں شمار نہیں ہو سکتے۔ استغنا کیا جائے، ایں چہ بوالعجبی؟ لہٰذا خاکسار اکمل صاحب کے جواب کو شہادت القران کا جواب نہیں کہہ سکتا۔

بنابریں مجھے اکمل صاحب کی کتاب کا جواب دینے کی ضرورت نہ تھی لیکن چونکہ شہادت القرآن کی دوسری طبع نہایت عجلت و قلت فرصت اور کثرتِ سفر کی حالت میں ہوئی اور اس کے حاشیہ پر قادیانی کتاب کے متعلق ریمارک نہیں ہو سکے اور اب تیسری طبع پھر ہونے والی ہے اس لئے مناسب جانا کہ ان شبہات کو بھی اٹھا دوں جو اکمل صاحب کو شہادت القرآن کے نہ سمجھنے کے سبب پڑے ہیں۔ تاکہ شہادت القرآن کے لطائف اور زیادہ ظاہر ہوں اور پیر کہن سال مولوی محمد احسن صاحب امروہوی ڈسکوی مرحوم کو مرزا صاحب کی زندگی میں سیالکوٹ میں ان سے سوال کے جواب میں کہی تھی اگر شہادت القرآن کا جواب لکھا جائے تو اس کی حیثیت اور بڑھ جائے گی۔ سو میں اس جواب الجواب کا نام جو بیشتر حاشیہ پر ہو گا، سعادت الاقران بکشف بعض لطائف شہادت القرآن رکھتا ہوں اور ہر امر سہل و صعب میں خدائے کریم کی توفیق چاہتا ہوں۔

راقم:آپ کا صادق
ابو تمیم محمد ابراہیم میر سیالکوٹی





ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
2:مثلاً تاریخ اہلحدیث، خلافت راشدہ کے دو سلسلے(ایک اخبار اہلحدیث میں اور دوسرا اخبار زمیندار میں)، سیرۃ الرسول(آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوانح قدسیہ)، تفسیر ثنائی کے ترجمہ القرآن پر نظر ثانی، حسب فرمائش جناب مولانا المکرّم اور اپنی تفسیر القرآن مسمی بہ توفیق الرحمٰن اور بلدیہ سیالکوٹ کے تعلقات اور لوگوں کے نج کت معاملات اور فصل خصومات اور ہندوستان بھر روزانہ خط و کتابت اور انشائے فتاویٰ کے اشغال تو گنتی میں نہیں۔ اللھم تمم کلھا بالخیر و تقبلھا منی انک انت السمیع العلیم ۔ مزید براں فروری1927ء کا سارا مہینہ سفر میں گذرا۔

3:علاوہ(بالکسر) عربی میں اس چھوٹی سی گٹھڑی کو کہتے ہیں جو لادو جانوروں پر ان کے اصلی بوجھ سے زائد اوپر رکھ لیتے ہیں۔
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
شہادت القرآن


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الحمد للہ الذی عنت لجلال عزتہ وجوہ الابطال بالذل و الابتھال. و نخشعت لکمال حکمتہ اعناق اکابر الرجال. یدبر الامر من السماءِ الی الارض بغیر احتیاج و یخلق ما یشاءُ بلا مزاج وعلاج. اعز لدیہ مأوی المرتضین والملتجئین الیہ. و اکرم مثوی المنقطعین الیہ و المتوکلین علیہ. لا یعذب عنہ مثقال ذرۃٍ ولا یعجزہ شیئ و ھو العلیم القدیر. لا یعقب علی ما یحکم ولا یسٔل عما یفعل و ھو العزیز الحکیم الخبیر. ارسل الرسل بالحق و انطقھم بالصدق فاوضح المحجۃ و لم یدع لاحدن الحجۃ۔ فصلی اللہ تعلای علی جمیعھم و سلم. انہ ولی النعم و رب الکرم خصوصا علی خیرتھم و صفوتھم المخصوص بعموم الدعوۃ و ختام النبوۃ. الذی نصب معالم الھدی لِلْورٰی و رقی فی مدارک العلآءِ و معارج السمآءِ الی الغایۃ القصویٰ. اخبربما یکون من الخیتعور بالفتن و الشرور. ومحدثات الامور. واختار اللہ لتصدیقہ کلمتہ المسیح بن مریم الذی ینزل من المسآءِ بالحکم و العلم. و علی الہ الاطھار و خلفآئِہ سادۃ الابرار الذین بلغوا عنہ باللسان و السّنانِ و القلم. و ضربو اعناق الجبابرۃ والدجا جلۃ اولی الکبآئر و الوخم. فمن اقتدٰی بھم فقد رشد و اھتدی. و من ابتغی غیر سبیلھم فقد ضل و غوی.

تمہید
اما بعد. پس بندہ ضعیف سمی خلیل اللہ الحنیف محمد ابراہیم میر سیالکوٹی ارباب فطنت و تحقیق و اصحاب خبرت و تدقیق کی خدمت میں عرض پرداز ہے کہ اس زمانِ بغی و طغیان میں ہر شخص جداگانہ مذہب و طریقہ بنائے بیٹھا ہے اور اسی میں فلاح عقبیٰ اور صلاحِ دنیا سمجھتا ہے۔ ظلمت فلسفہ ان پر ایسی چھائی ہے کہ اپنے خیالاتِ مخترعہ کی تصدیق کے لئے نہ تو کتابِ آسمانی کی ضرورت سمجھتے ہیں اور نہ قائد ربانی حکیم حقانی رسولِ یزدانی صلی اللہ علیہ وسلم کے بان وافی کی حاجت۔ باوجود قلت بضاعت اور قصور باع میدانِ اجتہاد کے شہسوار بنتے ہیں اور انہیں اوہام باطلہ اور وساوسِ عاطلہ پر نجات کے متمنی۔ ایسے ہی لوگوں کے مناسب حال کسی نے کیا اچھا کہا ہے؎

وَكُلٌّ يَدَّعِیْ وَصْلًا لِلَيْلَى
وَلَيْلَى لَا تُقِرُّ لَهُمْ بَذَاكَا

یعنی ”ہر کوئی لیلیٰ کے وصل کا مدعی ہے۔ لیکن لیلیٰ کا ان میں سے کسی سے بھی اقرار نہیں“۔

ہر ایک اپنے لئے الگ مسلک بنائے ہوئے ہے اور سلف صالحینؒ کے مسلک کی اتباع کو، جن بارِ احسان سے ہم کبھی بھی سبکدوش نہیں ہو سکتے، چھوڑے ہوئے ہے۔ اِلَّا مَاشَآءَ اللہُ .

متقدمینِ اسلام کو اصول و شرائع سے ناواقف بتاتے اور خود وحی و الہام کے دعاوی باطلہ جگاتے ہیں۔ چنانچہ حال میں مرزا غلام احمد صاحب ساکنہ قادیان ضلع گورداسپور نے اپنے لئے مسند مسیحی تجویز کی اور رفتہ رفتہ منبر محمدیت4پر جاب راجے اور پھر ابن اللہ5ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ عوام کالانعام کو یہ دھوکہ دیا کہ ”قرآن شریف کے کسی مقام سے ثابت نہیں کہ حضرت مسیح اِسی خاکی جسم کے ساتھ آسمان کی طرف اُٹھائے گئے بلکہ قرآن شریف کے کئی مقامات میں مسیح کے فوت ہو جانے کا صریح ذکر ہے“6۔

جب ان لوگوں کو کوئی پچھلی تفسیر بتائیں تو اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْن کہہ کر جھٹ سے انکار کر دیتے ہیں۔ اور اگر ان کے روبرو حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھیں تو اسے بوجہ بےعلمی مخالف قرآن و معارضِ قرآن بنا کر دور پھینک دیتے ہیں اور اپنی تفسیر بالرائے کو جو حقیقی میں تحریف و تاویل منہی عنہ ہوتی ہے، موید القرآن کہتے ہیں۔ بیچارے کم علم لوگ اس سے دھوکہ کھا جاتے ہیں اور ورطہ ترددات و گردابِ شبہات میں گھر جاتے ہیں۔

ولئن فسح اللہ فی مدتی و وفقنی بمزید کرمہ لاصنفن فی التوفیق بین الحدیث و القرآن رسالۃ تروی الغلیل و تشفی العلیل و ما توفیقی الاباللّٰہ علیہ انیب.

”اور اگر خدا نے عمر میری بڑھائی اور اپنے مزید کرم سے توفیق بخشی تو میں قرآن و حدیث کی موافقت میں ایک ایسا رسالہ7لکھوں گا جو پیاسے کو سیراب اور کر دے گا اور بیمار کو شفا دے دے اور میں اسے خدا کی توفیق کے سوا انجام نہیں دے سکتا۔ اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی طرف باطنی توجہ ہے“۔

سو ایسے شبہات کے وقت میں اللہ عزیز و حکیم نے مجھ عاجز کو محض اپنے فضل و کرم سے راہِ حق کی ہدایت کی اور ہر طرح سے ظاہراً و باطناً معقولاً و منقولاً حق سمجھا دیا۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
4:دیکھو تریاق القلوب(تریاق القلوب صفحہ 3 روحانی خزائن جلد ۱۵- تریَاق القلوُب: صفحہ 134)مصنفہ مرزا صاحب۔ شعر

منم مسیحِ زمان و منم کلیمِ خدا
منم محمدؐ و احمدؐ کہ مجتبیٰ باشد نہ

5:دیکھو دافع البلاء(دافع البلاء صفحہ 6 روحانی خزائن جلد ۱۸- دافَعُ البَلاَ ءِ وَ مِعیَارُ اھلِ الا صطِفَاءَ: صفحہ 227) مصنفہ مرزا صاحب۔

6:دیکھو ازالہ اوہام مصنفہ مرزا صاحب طبع اول صفحہ46، طبع سوم صفحہ 19و20(روحانی خزائن جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 125)۔

7:خدا کے کرم سے یہ مضمون تائید القرآن میں صفحہ 153 سے صفحہ 190 تک مفصل بیان کر دیا گیا ہے۔
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مصنف کے بعض خواب


خواب نمبر(۱)

چنانچہ شروع جوانی 1891ء میں(جب میں انگریزی سکول میں پڑھتا تھا) حضرت مسیح علیہ السلام کی زیارت بابرکت سے مشرف ہوا۔ اس طرح کہ آپ ایک گاڑی پر سوار ہیں اور بندہ اس کو آگے سے کھینچ رہا ہے۔ اس حالتِ باسعادت میں آپ سے مرزا صاحب قادیانی کے دعویٰ کی نسبت عرض کی۔ آپ نے زبانِ وحی ترجمان سے بالفاظِ طیبہ جواب فرمایا کہ کوئی خطرے کی بات نہیں اللہ تعالیٰ اس کو جلد ہلاک کر دے گا8۔

بوجہ چند امور کے اس اشتیاق کو جنب میں رکھے ہوئے انگریزی تعلیم پاتا رہا۔ دفعۃً 1896ء میں قائد ازلی کے اشارے سے تمنائے قلبی کو پورا کرنے کے لئے کالج9 چھوڑ دیا اور بہمہ تن علوم عربیہ کے حاصل کرنے میں مصروف ہو گیا۔ الحمدللہ کہ تھوڑی مدت میں جو کچھ مقدر تھا بھر آیا۔

خواب نمبر(۲)

ان دنوں مرزا صاحب قادیانی کا بہت چرچا تھا اور انہوں نے مسئلہ حیات و وفاتِ عیسیٰ علیہ السلام کو بنائے دعویٰ قرار دے رکھا تھا۔ اس لئے خاکسار نے مسئلہ حیات و نزول مسیح علیہ السلام کو کتب و تفسیر سے تحقیق کرنا شروع کیا تو سب کو رفع آسمانی اور نزول بارِ ثانی پر متفق پایا۔ مگر جب اس فرقہ کا یہ طریقہ دیکھا کہ وہ تفاسیر و احادیث کو نظر حقارت سے دیکھتے ہیں تو اتمام للحجۃ صرف قرآن شریف ہی سے مسائل زیر نزاع کو حل کرنا شروع کیا۔ سو الحمدللہ کہ دامن مراد کو گوہر مقصود سے بھر لیا اور علوم عقلیہ کے ہر نا معقول اعتراض کو محض قرآن ہی سے دفع کیا۔ جب علوم ظاہریہ سے عقیدۂ حیات و نزولِ مسیح علیہ السلام کو صحیح ثابت کر لیا تو پھر باطنی طور پر فیضان الہٰی کا کرشمہ دیکھنا چاہا۔ چنانچہ شعبان 1319ھ میں جب حفظِ قرآن شریف میں مشغول تھا10۔ ایک رات بکمال تضرع و ابتہال درگاہِ ایزد متعال میں عرض پرداز ہوا۔ کہ خدا وندا! اس امر میں جو کچھ تیرے نزدیک حق ہے مجھے دکھا اور اس کی قبولیت و پیروی کی توفیق عطا فرما۔ پس خواب میں دیکھا کہ ایک نہایت سفید کاغذ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے جس پر الفاظ اِنَّ عِیْسٰی حیَّ فِی السَّمَآءِ وَ سَیَنْزِلُ عِنْدَ قُرْبِ السَّاعَۃِ (یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام بے شک آسمان میں زندہ موجود ہیں اور وہ قیامت کے قریب ضرور اتریں گے) مکتوب تھے، میرے سامنے کیا گیا11۔ اس رویائے حقہ سے بندہ کا سینہ باغ باغ ہو گیا اور نور اور معرفت کے پھولوں سے بھر گیا۔

القصہ 1902ء میں شہر سیالکوٹ میں بمواقع کثیرہ بعض احباب کے اصرار سے حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات فی السماء کو مع دیگر مسائل(معراج وغیرہ)بنصوصِ قرآنیہ بیان کیا۔ جس سے اللہ تعالیٰ نے منکرین کو بالکل پست کر دیا اور بہت سے مذبذبین کو شاہراہِ عقیدت پر چلایا۔ رفتہ رفتہ دوسرے شہروں میں آوازہ بلند ہوا اور خطوطِ طلبی آنے لگے۔ بندہ نے سمجھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی گاڑی کو چلانے والا خواب سچا ہوا چاہتا ہے، لہٰذا برادرانِ دینی کی استدعا کو بسرو چشم منظور کرکے محض تبلیغ دین کے لئے کئی سفر کئے۔ چنانچہ وزیر آباد اور ضلع گجرات، شہر جہلم، شہر راولپنڈی، امرتسر اور پشاور میں سفر کرکے اس قدر وعظ کئے کہ اکثر لوگ مطمئن ہو گئے ور بعض مرزائی تائب ہو گئے۔ فرقہ مرزائیہ کے بعض مدعیانِ علم سے پسرور، سیالکوٹ، وزیر آباد، کھاریاں موضع کملا(تحصیل کھاریاں ضلع گجرات پنجاب)اور شہر جہلم12میں مباحثات و مناظرات بھی ہوئے۔ ان سب مواضع میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندہ(خاکسار)کو غلبہ دیا اور مخالفین کو حجت میں مغلوب کیا۔ چنانچہ بعض کو ہلاک13 کیا اور بعض بیماری14میں مبتلاء کیا اور بعض کو ندامت15 کے دریا میں غرق کیا۔ جہلم میں (مرزا صاحب)قادیانی کے16 سامنے کھڑے ہو کر صدہا مسلمانوں کے درمیان مسئلہ حیات و رفع مسیح علیہ السلام صرف قرآن شریف سے بیان کیا اور مرزا صاحب کو زبانی و تحریری طور پر تحقیق حق کی طرف دعوت بھی دی مگر وہ اس پر ہاں نہ کر سکے، پر نہ کر سکے اور اب بھی نہ کر سکیں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ17

وجہ تصنیف

آخر الامر صدر پشاور کے ایک مخلص دوست18کے مشورہ سے اس مضمون کو قلم بند کیا۔ تاکہ اللہ تعالیٰ گم گشتگانِ بادیۂ ضلالت کو قادیانی عقائد سے بچا کر شاہراہِ عقیدت پر لائے اور نیز ہر محقق کے پاس دلائل ساطبعہ و براہینِ قاطعہ موجود رہے۔

اس کتاب میں تین مقدمات اور ایک تنبیہ اور دو فصلیں ہیں۔ مقدمۂ اولیٰ در امکانِ معجزات۔ مقدمہ ثانیہ در تشریح سنت اللہ۔ مقدمہ ثالث در خصائص حضرت عیسیٰ علیہ السلام۔ تنبیہ در بیانِ طریق استدلالِ مصنف۔ فصل اول دربیانِ عدم مصلوبیت حضرت مسیح علیہ السلام۔ اس کا نام ضرب بالیمین لکسر صلیب الملحدین ہے۔ فصل ثانی در اثباتِ حیات عیسیٰ علیہ السلام و رفع جسمی۔

سو اس کتاب کو اللہ تعالیٰ ودُود کے نام سے شروع کرتا ہوں اور ہر امر سہل و صعب میں صرف اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔

و الالتماس من کرام الناس ان یعفوا الزلل و یسدوا الخلل لانَّ جُھد المقلِّ مشکور و بازل الوسع معذور و ان ارید الَّا الْاِصْلاح ما استطعت و ما توفیقی الا باللّٰہ علیہ توکلت و الیہ انیب و ھو حسبی و نعم الوکیل ولا خول و لا قوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم. اللھم تقبل منی کما تقبلت من عبادک الصلحین. و اغفرلی خطیئتی یوم الدین و اجعل لی لسان صدق فی الاخرین انت ربی و انت حسبی و انت لی نعم المعین.

خاکسار
ابو تمیم محمد ابراہیم میر سیالکوٹی


ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
8:چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ مرزا صاحب 26؍مئی1908ء کو لاہور میں بعارضہ ہیضہ عالم جزا کو سد ہارے۔
9:خاکسار اس وقت ایف اے کے پہلے سال میں تھا۔
10:الحمدللہ کہ اس کے فضل و توفیق سے اس وظیفہ کے جاری رکھنے تک جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حفظ قرآن کے لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا۔(سنن ترمذی جلد 5 صفحہ 455 مطبوعہ دار الغرب الاسلامی بیروت، الرقم الحدیث 3570) میں نے صرف ایک مہینہ میں قرآن شریف حفظ کر لیا۔ و الحمدللہ
11:کیفیت یہ تھی کہ وہ کاغذ عالم غیب سے میری آنکھوں کی اونچائی کے برابر میرے سامنے آیا اور سوائے دستِ حق کے کوئی اس کو تھامنے والا نہیں تھا۔
12:شہادت القرآن کی تصنیف کے بعد بھی کئی ایک مقامات پر قادیانی علماء سے مباحثات ہوئے۔ مثلاً چنیوٹ، لاہور، مونگیر(بہار)گوجرانوالہ، ڈیرہ بابا نانک صاحب۔ ان سب مقامات پر خدا تعالیٰ نے خاکسار کی مدد کی اور نمایاں فتح دی۔
13:مثلاً مولوی قائم الدین صاحب سیالکوٹی اور شیخ چراغ دین صاحب گجراتی۔
14: مثلاً مولوی مبارک علی صاحب کو مباحثہ جہلم میں۔
15:مثلاً مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی کو پسرور میں اور فضل دین صاحب کو کھاریاں میں۔
16:جب مرزا صاحب مولوی کرم الدین صاحب کے استغاثہ پر جہلم میں تاریخ مقدمہ پر گئے تھے۔
17:چنانچہ ایسا ہی ہوا، تا دمِ حیات طاقت نہ ہوئی۔ بلکہ جس روز مرزا صاحب لاہور میں فوت ہوئے اس سے ایک روز بیشتر ان کو میری طرف سے بوساطتِ ڈاکٹر ایم-اے سعید صاحب دعوتِ مناظرہ کا خط پہنچ چکا تھا۔ وہ خط کیا تھا، گویا پیامِ اجل تھا۔ کہ دوسرے روز مرزا صاحب فوت ہو گئے۔
18:ڈاکٹر سید ابو محمد جمال الدین صاحب مقیم پشاور(رحمہ اللہ)
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مقدمہ اُولیٰ
در بیانِ امکانِ خرقِ عادت

خرقِ عادت(معجزہ و کرامت) کے متعلق مدت سے اختلاف چلا 19آتا ہے کہ آیا یہ ممکن ہے یا نہیں۔ ایک فریق تو یہ کہتا ہے کہ اس کارخانۂ قدرت میں جو کچھ ہم روز مرہ دیکھ رہے ہیں اور اس کا جو نظام ہم سمجھ چکے ہیں اس کے خلاف کچھ بھی نہیں ہوتا، اگرچہ خدا ئے قدیر سب کچھ کر سکتا ہے، مگر اس کے افعال اس نظام سے باہر نہیں ہیں۔ اگر کوئی بات قرآن و صحیح حدیث میں اس کے برخلاف وارد ہو تو اس کی تاویل کی جائے گی اور ظاہر معنی نہ لئے جائیں گے۔

ان کے مقابلہ میں دوسرا فریق ہے جو کہتا ہے کہ ہم مقدراتِ باری کا احاطہ نہیں کر سکتے اور نہ قوانین قدرت پر ہمیں پوری اطلاع ہے اور نہ ہو سکتی ہے۔ نظامِ قدرت کے سمجھنے کا دعویٰ تو اس صورت میں کریں کہ اس کا اجراء ہمارے ہاتھ میں ہو۔ وَخُلِقَ الإِنْسَانُ ضَعِيفًا 20(النساء4:28)ہماری بنا ہے اور وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ 21(البقرہ2:255)ہماری بساط۔ جب قدسیانِ درگاہ سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ 22(البقرہ2:32)پکار اٹھے تو ہم کون ہیں کہ اس کی حکمتوں کے احاطہ کا دعویٰ کر سکیں۔ خواجہ حافظ صاحب اسی معنی میں فرماتے ہیں:؎

حدیث از مطرب دی گوو رازِ دہر کمتر جو
کہ کس نکشود و نکشاید بحکمت ایں معمارا

مرزا صاحب قادیانی دعوائے مسیحیت سے پہلے تو اس دوسرے فریق کے ساتھ تھے، جیسا کہ کتاب ”سرمۂ چشم آریہ“ کے مطالعہ سے ظاہر ہے۔ لیکن جب مسیحیت کا دعویٰ کرنے کی سوجھی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیاتِ رفع سماوی رستے میں حائل نظر آئی تو پٹڑی ہموار کرنے کے لئے جھٹ پہلے فریق کے ساتھ ہو گئے۔

معشوقِ ما بمذہب ہر کس برابر است
باما شراب خورد و بزاہد نماز کرد

چنانچہ مرزا صاحب اپنی بنیادی کتاب ”اِزالہ اوھام“ میں فرماتے ہیں:

”ماسوا اس کے اَور کئی طریق سے اُن پرانے خیالات پر سخت سخت اعتراض عقل کے وارد ہوتے ہیں.... ازانجملہ ایک یہ اعتراض ہے کہ نیا اور پُرانا فلسفہ بالاتفاق اس بات کو محال ثابت کرتا ہے کہ کوئی انسان اپنے اس خاکی جسم کے ساتھ کُرَّۂ زَمْہَرِیْر تک بھی پہنچ سکے“۔(روحانی خزائن جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 125تا126)

حالانکہ جناب مرزا صاحب آنجہانی دعوائے مسیحیت سے پہلے سالہا سال تک عیسیٰ علیہ السلام کے نزولِ آسمانی کے برابر قائل رہے اور اپنی تصانیف میں جبکہ آپ کو الہام کا بھی دعویٰ تھا، اس کی تصریح کرتے رہے۔ چنانچہ ”براہین احمدیہ“ میں فرماتے ہیں:

”اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اسؔ دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا“۔(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 499، روحانی خزائن جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 593)

اس سے صاف ظاہر ہے کہ مرزا صاحب کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی رفعِ سماوی اور آمد ثانی قرآن و حدیث کی رو سے محال و غلط ثابت نہیں ہوئی بلکہ دعویٰ کی بنیاد رکھنے کے لئے زمین صاف کی ہے۔

ہدایت

اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کی طبیعت میں ایک ایسا امر ودیعت کر رکھا ہے جو اسے ہر امر کی لم(کیوں؟)اور کیف(کس طرح؟)کی نسبت سوال کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ سوال دو طرح ہے، اول استفساراً جس کو دوسرے لفظوں میں اطمینانِ قلب کے لئے کہنا چاہیئے۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اخیائے موتیٰ کی کیفیت کی نسبت یہ سوال کیا تھا:

رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَىٰ قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن قَالَ بَلَىٰ وَلَٰكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِي ۔(البقرہ 2:260)
”خداوند! مجھے دکھا کہ تو کس طرح مردوں کو جلا کھڑا کرتا ہے۔ خدا تعالی نے فرمایا! تو اس پر ایمان نہیں رکھتا؟(حضرت ابراہیم علیہ السلام نے)کہا! کیوں نہیں! لیکن اس لئے(دریافت کرتا ہوں)کہ میرے دل کو(عینی شہادت سے)اطمینان ہو جائے“۔
اس لئے امام بخاری علیہ رحمۃ اللہ الباری نے اس آیت کو اپنی صحیح میں ایمان کے کم و زیادہ ہونے کی دلیل میں پیش کیا ہے۔
دوم اس طرح کے جس امر کی بابت سوال ہے اس کی نسبت دل غبارِ شبہات سے مکدر ہے۔ جیسا کہ منکرین حشر اجساد قیامت کی نسبت استعبادی سوال کرتے ہیں:
قَالَ مَن يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ (یس36:78)
یعنی ”وہ(کافر)انسان کہتا ہے کہ ان ہڈیوں کو ان کے بوسیدہ ہونے پر کون زندہ کرے گا؟“۔
سو پہلی صورت تو مدارجِ ایمانیہ میں سے ہے اور دوسری کفر و ضلالت۔

ارشاد

چونکہ معجزہ اور کرامت کی نسبت ایک زمانہ وساوس میں قصورِ علم و فتورِ ایمان کے سبب مبتلاء ہو رہا ہے۔ کوئی تو پہلی صورت میں زیادتِ علم اور جوابِ منکرین کے لیے تحقیقات میں لگا ہے اور کوئی دوسری صورت میں شبہات میں پھنس کر انکار پر مصر ہے۔ کوتاہ اندیش انسان‘ خدا کی قدرت کے ناپید کنار سمندر کو چلوؤں سے ماپنا چاہتا ہے۔ اور ”ایاز قدرِ خودبشناس“ کی نصیحت کو سامنے نہیں رکھتا۔ اس لیے خاکسار نے مناسب جانا کہ بقدر اس وسعت و ہمت کے جو مجھے خداوند تعالیٰ نے عطا کی ہے، جہالت و غلط فہمی کے پردے اٹھا کر کشفِ حقیقت کردوں۔ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ

سو معلوم ہو کہ فلاسفہ کی طرف سے جو اعتراض تمام مادی و فعلی خوارقِ عادات پر آسکتا ہے اس کی بنا علت و معلول، سبب و مسبب اور خواص اشیاء کے مسئلہ پر ہے۔ جو فلسفی خرقِ عادت کے منکر ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ کارخانۂ قدرت تمام کا تمام سلسلۂ علت و معلول، سبب و مسبب، تاثیر و تاثر سے وابستہ ہے۔ آگ جلاتی ہے، مقناطیس لوہے کو کھینچتا ہے، پانی تر ہے، کوئی چیز بغیر علت و سبب کے وجود میں نہیں آ سکتی اور نہ یہ ہو سکتا ہے کہ علت تامہ موجود ہو اور معلول نہ پایا جائے اور معجزہ اور کرامت کے مان لینے سے یہ لازم آتا ہے کہ کوئی چیز بغیر سبب و علت(معتارہ)کے وجود میں آ گئی، مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش بلا باپ۔ یا اس کی ماہیت بدل گئی، جیسے کہ موسیٰ علیہ السلام کا عصا سانپ بن گیا۔ یا غیر علت ‘علت بن گئی، جیسے کہ موسیٰ علیہ السلام نے پتھر پر عصا مارا تو اس پتھر سے پانی پھوٹ پڑا۔ یا یہ کہ کسی چیز کی خاصیت موجود ہوتے وہ اپنے فعل سے بیکار رہ گئی، مثلاً یہ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جلتی آگ میں ڈالے گئے لیکن جلے نہیں۔ و غیرہ ذالک

بس یہی ایک اصولی و جامع اعتراض ہے جو تمام فعلی و مادی معجزات و کرامات پر وارد ہو سکتا ہے اور جس کے حل ہونے پر اس کا حل موقوف ہے۔

حل

خدائے قدیر نے نظامِ عالم ایسا مضبوط بنایا ہے کہ ہم اسے توڑ نہیں سکتے اور نہ اس نے اشیا میں ایسے خواص رکھے ہیں کہ وہ ان سے منفک نہیں کئے جا سکتے۔ لیکن یہ بھی تو اسی نظام میں سے ہے کہ اس نے ایک چیز کے مقابلہ میں دوسری اس کی ضد بنائی ہے جو پہلی کے اثر کو باطل کر دیتی ہے۔ اور یہ اضداد کچھ تو ہمارے علم میں آ گئی ہیں اور کچھ جو علم میں نہیں آئیں وہ بہت زیادہ ہیں اور کسی شے کی جو علت ہمارے علم میں آ چکی ہے ضرور نہیں کہ کارخانۂ قدرت میں اس کی وہی علت ہو اور اس کے علاوہ دیگر کوئی نہ ہو۔ بلکہ ہو سکتا ہے کہ اس کے علاوہ بھی ہو۔ پس اتنے ناقص علم کی بنا پر سلسلۂ کائنات کے احاطہ کو دعویٰ چھوٹا منہ بڑی بات ہے۔

حقیقت میں سلسلۂ علت و معلول اور سبب و مسبب ایک ایسا پیچیدہ گورکھ دھندا ہے کہ اس کی پیچیدگیوں کو کھولنا نہایت دشوار ہے۔ کیونکہ جو کچھ انسان کے علم میں آیا ہے وہ بہت تھوڑا ہے اور جو اس سے پوشیدہ ہے اس کی کوئی حد نہیں23۔ پس محدود سے بے حد پر رائے لگانی درست نہیں۔؎

اے گرفتارِ سبب از مسبب غافلی
سوئے ایں روتاب، ازاں سو مائلی

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک کتاب بنام ”تہافۃ الفلاسفہ“ لکھی ہے۔ اس میں اصولی طور پر بقدرِ ضرورت فلسفیوں کے تمام علوم کا ذکر کر کے ان میں چار مسئلے مخالفِ اسلام قرار دئے ہیں۔ ایک یہ ہے جس کا ذکر ہم علت و معلول یا سبب و مسبب کے نام سے کر رہے ہیں۔ چنانچہ امام ممدوح فرماتے ہیں:

وإنما نخالفهم من جملة هذه العلوم في أربع مسائل(الأولى) حكمهم بأن هذا الاقتران المشاهد في الوجود بين الأسباب والمسببات اقتران تلازم بالضرورة فليس في المقدور ولا في الإمكان إيجاد السبب دون المسبب ولا وجود المسبب دون السبب وأثر هذا الخلاف يظهر في جميع الطبيعيات “۔(تہافۃ الفلاسفہ صفحہ 66 مطبوعہ کتب خانہ آصفیہ سرکار عالی حیدر آباد دکن)

”ہم ان(فلسفیوں) سے ان علوم میں سے صرف چار مسائل میں مخالفت کرتے ہیں۔ پہلا مسئلہ یہ کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ اقتران جو اسباب و مسببات میں دیکھا جاتا ہے ضروری و لازمی ہے۔ پس ممکن نہیں کہ کوئی سبب بغیر مسبب کے موجود ہو یا کوئی مسبب بغیر سبب کے پایا جائے اور اس اختلاف کا اثر جمیع طبیعیات میں ظاہر ہوتا ہے“۔

في الأولى من حيث أنه ينبنى عليها إثبات المعجزات الخارقة للعادة من قلب العصا ثعباناً وإحياء الموتى وشق القمر. ومن جعل مجاري العادات لازمة لزوماً ضرورياً أحال جميع ذلك. وأولوا ما في القرآن من إحياء الموتى وقالوا: أراد به إزالة موت الجهل بحياة العلم. وأولوا تلقف العصا سحر السحرة على إبطال الحجة الإلهية الظاهرة على يد موسى شبهات المنكرين وأما شق القمر فربما أنكروا وجوده وزعموا أنه لو يتواتر “۔(تہافۃ الفلاسفہ صفحہ 66 مطبوعہ کتب خانہ آصفیہ سرکار عالی حیدر آباد دکن)

”پہلے مسئلہ سے یہ لازم آتا ہے کہ اس کی بنا پر معجزات کا اثبات نہیں ہو سکتا جو عادت کے خلاف ہوتے ہیں، یعنی عصا کا سانپ بن جانا اور مردوں کا زندہ ہو جانا اور چاند کا پھٹ جانا اور جو ان امور عادیہ ضروری و لازم گردانتے ہیں وہ ان سب کو محال جانتے ہیں اور قرآن شریف میں مردوں کے زندہ ہونے کے بابت جو کچھ وارد ہوا ہے اس کی تاویل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے مراد جہالت کی موت کو علم کی زندگی سے زائل کرنا ہے۔ اور جادوگروں کے جادو کو(موسیٰ علیہ السلام کے)سونٹے کے نگل جانے کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کی حجت نے جو موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ پر ظاہر ہوئی منکرین کے شبہات کو باطل کر دیا۔ باقی رہا شق القمر سو کبھی تو اس کا انکار ہی کر دیتے ہیں کہ یہ خبر متواتر نہیں“۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
19: مقدمہ بکسر الدال المشددۃ و بفتحھا ایضا(ملا جلال و میر زاہد)و قال الزمخشری فی الفائق المقدمۃ الجماعۃ التی تقدم الجیش من قدم بمعنی تقدم و استعیرت الاول کل شیء فقیل منہ مقدمۃ الکتاب و مقدمۃ الکلام و فتح الدال خلف .(صفحہ20)
20: انسان ضعیف پیدا کیا گیا ہے۔
21:خدا کے علم میں کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکت مگر اسی قدر جتنا وہ چاہے۔
22:خداوند تو پاک۔ ہمیں سوائے اس کے جو تو نے سکھا دیا کچھ بھی معلوم نہیں۔ بیشک تو ہی علیم (کل)اور حکیم(مطلق)ہے۔
23:مولانا شبلی مرحوم الکلام لکھتے ہیں: ”1891ء میں جو علمی کانفرنس منعقد ہوئی اس کے ایک جلسہ میں پروفیسر لودج نے جو بہت بڑا ریاضی دان ہے، ایک لیکچر دیا اور روح کے متعلق تقریر کرتے وقت کہا کہ ”اب وقت آ گیا ہے کہ مادی اور روحانی عالم میں اب تک جو حدِ فاصل تھی وہ ٹوٹ جائے۔ جس طرح اور بہت سی حدیں ٹوٹ گئیں، اس طریقہ سے ثابت ہو جائے گا کہ ممکنات کی کچھ انتہا نہیں اور یہ کہ جس قدر ہم جانتے ہیں، وہ بمقابلہ ان چیزوں کے جو ہم کو معلوم نہیں ہیں کچھ نسبت نہیں رکھتا“۔(الکلام حصہ دوم صفحہ 124)
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
علمائے اسلام نے ان فلسفیوں کے اعتراض کے جواب میں دو طریق اختیار کئے ہیں۔

طریق اول کا بیان یہ ہے کہ اسلام نے تمام مسببات و معلومات کی حقیقی علت ارادۂ خداوندی کو قرار دیا ہے اور تمام عالم کو اس کے امر تکوینی کا محل تصرف اور مظہر قدرت گردانا ہے اور بغیر اس کے کسی سبب و علت میں قدرتِ مؤثرہ تسلیم نہیں کی۔ چنانچہ فرمایا:

أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ (الأعراف 7:54)
یعنی ”خلق و امر صرف ذاتِ باری کا خاصہ ہے وہ رب العالمین بہت برکت و عظمت والا ہے“۔

امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کے ذیل میں لکھا ہے:

”احْتَجَّ أَصْحَابُنَا بِهَذِهِ الْآيَةِ عَلَى أَنَّهُ لَا مُوْجِدَ وَلَا مُؤَثِّرَ إِلّا اللّٰهُ“ ۔(تفسیر رازی جلد 14 صفحہ 275 مطبوعہ دار احیاء التراث بیروت)
”ہمارے اصحاب(اہلسنت)نے اس آیت سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ خدا کے سوا کوئی مؤثر و موجد نہیں ہے“۔

اسی کے مطابق امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ جواب دیا ہے:

(مسئلہ17)”مسألة الاقتران بين ما يعتقد في العادة سبباً وما يعتقد مسبباً ليس ضرورياً الاقتران بين ما يعتقد في العادة سبباً وما يعتقد مسبباً ليس ضرورياً عندنا بل كل شيئين ليس هذا ذاك ولا ذاك هذا ولا إثبات أحدهما متضمن لإثبات الآخر ولا نفيه متضمن لنفي الآخر فليس من ضرورة وجود أحدهما وجود الآخر ولا من ضرورة عدم أحدهما عدم الآخر“ ۔(تہافۃ الفلاسفہ صفحہ 67 مطبوعہ کتب خانہ آصفیہ سرکار عالی حیدر آباد دکن)

”جس چیز کو عادت میں سبب مانا جاتا ہے اور جس کو سبب سمجھا جاتا ہے ہمارے نزدیک ان میں اقتران ضروری نہیں۔ بلکہ ہر دو میں سے نہ یہ وہ ہے اور نہ وہ یہ(یعنی حقیقت میں نہ تو سبب‘ سبب ہے اور نہ مسبب‘ مسبب ہے)اور نہ ان میں سے ایک کا اثبات دوسرے کے اثبات کا متضمن ہے۔ اور نہ ایک کی نفی دوسرے کی متضمن ہے۔ پس ایک کے وجود سے دوسرے کا وجود ضروری نہیں اور نہ ایک کے عدم سے دوسرے کا عدم ضروری ہے“۔

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اس امر کو بہت تفصیل سے مع مثالوں کے بیان کیا ہے جو بخوف طوالت ہم درج نہیں کر سکتے۔

اسی طرح حضرت حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے حجۃ اللہ میں کہا ہے:

والقول بالمعجزات يتوقف على إنكار اللزوم العقلي بين الأسباب ومسبباتها “۔(مقدمہ حجۃ اللہ البالغۃ جلد اول صفحہ 35 مطبوعہ دار الجیل بیروت)

”اور معجزات کا اقرار اسباب و مسببات میں لزومِ عقلی کے انکار پر موقوف ہے“۔

حاصل اس جواب کا یہ ہے کہ اسباب و مسببات میں اقتران بطور تلازم نہیں بلکہ بطور عادت ہے۔ جس کا خرق و خلاف ممکن و جائز ہے لیکن ہر امر کے لئے ارادۂ الہٰی شرط ہے۔

دوسرے طریق کا بیان اس طرح ہے کہ معجزات و کرامت اور خوارقِ عادات کے بھی اسباب ہوتے ہیں لیکن وہ مخفی ہوتے ہیں اور عام انسانی رسائی سے بالا ہوتے ہیں کیونکہ عجائباتِ قدرت کی کوئی حدو و انتہا نہیں اور وہ بالتمام ہمارے احاطۂ علم میں ہیں بھی نہیں۔ پس اگر ہم کو اپنے قصورِ علم کے سبب کسی امر کی علت معلوم نہیں ہوئی تو اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ واقعہ میں بھی اس کی علت کوئی نہیں۔ کیونکہ عدمِ علت اور عدمِ علم بالعلت میں فرق ہے۔

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اس طریق پر بھی جواب دیا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

وأما الثاني فهو أن نقول: ذلك يكون بأسباب ولكن ليس من شرط أن يكون السبب هو المعهود بل في خزانة المقدورات عجائب وغرائب لم يطلع عليها ينكرها من يظن أن لا وجود إلا لما شاهده كما ينكر طائفة السحر والنارنجات والطلسمات والمعجزات والكرامات وهي ثابتة بالاتفاق بأسباب غريبة لا يطلع عليها. من استنكر قوة المغناطيس ثم شاهدها تعجب منها فهكذا يتعجبون بل لو لم ير إنسان المغناطيس وجذبه للحديد وحكي له ذلك لاستنكره وقال: لا يتصور جذب للحديد إلا بخيط يشد عليه ويجذب فإنه المشاهد في الجذب حتى إذا شاهده تعجب منه وعلم أن علمه قاصر عن الإحاطة بعجائب القدرة “۔(تہافۃ الفلاسفہ صفحہ 90 مطبوعہ کتب خانہ آصفیہ دربار عالی حیدر آباد دکن)
”دوسرے طریق کا بیان اس طرح ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ اس کے اسباب تو ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ اسباب وہی ہوں جو ہمیں معلوم ہیں بلکہ الہٰی خزانوں میں سے ایسے ایسے عجائبات بھی ہیں جن پر کسی کو اطلاع نہیں۔ ان امور کا انکار وہی کرتا ہے جو یہ کہتا ہے کہ صرف وہی کچھ ہو سکتا ہے جو میرے مشاہدے میں آ جائے۔ جس طرح کہ بعض سحر(جادو)اور عجوبہ نمائی اور طلسمات اور معجزات اور کرامات کا انکار کرتے ہیں۔ حالانکہ ان سب کا ہونا بالاتفاق ایسے نادر و مخفی اسباب سے ثابت ہے جن پر عام طور پر اطلاع نہیں، بلکہ اگر کسی شخص نے کبھی سنگ مقناطیس کا لوہے کو کھینچنا نہ دیکھا ہو اور اس کے پاس اس بات کا ذکر کیا جائے تو وہ ضرور انکار کرے گا اور کہے گا کہ لوہے کا کھینچا جانا ممکن نہیں۔ مگر اس صورت میں کہ اس سے ڈورا باندھا جائے اور اسے کھینچا جائے کیونکہ مشاہدے میں یہی آیا ہے۔ حتیٰ کہ جب وہ امر کا مشاہدہ کر لے تو اس سے حیران رہ جائے گا اور سمجھ لے گا کہ میں عجائباتِ قدرت کے احاطہ کرنے سے قاصر و عاجز ہوں“۔

اسی طرح علامہ خواجہ زادہ نے بھی اپنی کتاب ”تہافۃ الفلاسفہ“ کی فصل ہشتم میں بحث طبیعیات میں اعجوبہ نمائیوں اور اسرارِ قدرت کی بعض مثالیں جن کے اسباب مخفی یا باریک ہیں بیان کر کے لکھا ہے:

وما إنكار هذا إلا لضيق الحوصلة والأنس بالموجودات العالية والذهول عن أسرار الله سبحانه في الخلقة والفطرة ومن استقرأ عجائب العلوم لم يستبعد من قدرة الله ما يحكى من معجزات الأنبياء علیہم السلام بحال من الأحوال “۔(جلد دوم صفحہ75، تہافۃ الفلاسفہ صفحہ 71 مطبوعہ کتب خانہ آصفیہ سرکار عالی حیدر آباد دکن)
”اور معجزات کا انکار(ایمانی)حوصلہ کی تنگی اور اکثر موجودات سے مانوس ہونے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوقات کے اسرار سے غفلت و بے خبری کی وجہ سے ہے اور جو کئی علوم(عقلیہ)کے عجائبات کا استقرأ کرے گا وہ ان امور کو جو انبیاء علیہم السلام کے معجزات میں مروی ہیں ہرگز ہرگز کسی حال میں بھی خدا
کی قدرت سے بعید نہیں جانے گا“۔

اسی طرح الشیخ الریئس بو علی سینا جو علوم عقلیہ میں اپنے بعد کے مشرقی علماء کے مسلم پیشوا و امام ہیں، اپنی کتاب اشارات کے اخیر میں معجزات و خوارقِ عادت کے ذکر کے بعد بعنوان نصیحة فرماتے ہیں:

إياك أن تكون تكيسك و تبرزك عن العامة، هو أن تنبري منكرا لكل شي‌ء۔ فذلك طيش، و عجز۔ و ليس الخرق في تكذيبك ما لم يستبن لك، بعد جليته، دون الخرق في تصديقك ما لم تقم بين يديك بينة۔بل عليك الاعتصام بحبل التوقف، و إن أزعجك استنكار ما يوعاه سمعك، ما لم تتبرهن استحالته24لك۔ فالصواب أن تسرح أمثال ذلك إلى بقعة الإمكان،ما لم يذدك عنه قائم البرهان۔ و اعلم أن في الطبيعة عجائب۔ و للقوى العالية الفعالة۔ و القوى السافلة المنفعلة۔ اجتماعات على غرائب “۔(شرح الاشارات و التنبيھات جلد 4صفحہ159تا160مطبوعہ دار المعارف قاہرہ)
”(اے عقلمند!) تو اس امر سے پرہیز کر کہ عام لوگوں سے تیری ہوشیاری و برأت کی امتیازی صورت یہ ہو کہ تو ہر امر سے انکاری بریت کرے۔ کیونکہ یہ طیش و عاجزی ہے اور تجھے جس امر کی حقیقت معلوم نہیں ہوئی اس کی تکذیب کر دینا اس بات کی تصدیق کرنے سے کم(بےعقلی) نہیں ہے جس کی دلیل تیرے نزدیک قائم نہیں ہوئی تجھ پر لازم ہے کہ تو توقف کی رسی سے اپنا بچاؤ کر لے، اگرچہ تجھے ان باتوں کا انکار جو تیرے کان میں پڑی ہیں پھسلا دے، جب تک تجھے اس کا محال ہونا صاف طور پر واضح نہ ہو جائے۔ پس ٹھیک یہ ہے کہ تو ایسی باتوں کا امکان کے میدان میں لے جائے جب تک کہ تجھے یقینی دلیل وہاں سے نہ روکے اور خوب جان رکھ کہ طبیعت میں بڑے بڑے عجائبات ہیں اور اوپر کے اثر کرنے والے قویٰ اور نیچے کے اثر قبول کرنے والے قویٰ کے اجتماع میں بڑے بڑے نادر نتائج ظاہر ہوتے ہیں“۔

اس کی توضیح یوں ہے کہ ہم کو دو امر معلوم ہیں۔ اول معلول کا وجود، دوم معلول کا بغیر علت کے موجود نہ ہو سکنا۔ اگر معلوم نہیں تو صرف یہ کہ اس معلول کی علت کونسی ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی یاد رہے کہ ساری علتیں ہمارے علم میں نہیں آ گئیں۔ بلکہ قدرت کے ہزارہا بلکہ بے شمار ایسے اسرار ہیں جن کی علتیں ہمارے احاطۂ علم اور پرواز ادراک سے پرے ہیں۔ پس اس نقصانِ علم کے ساتھ کسی معلول پر مبنی ہو گا کہ مجہول سے معلوم کا انکار ہو سکتا ہے۔ حالانکہ یہ بالکل خلافِ قاعدہ ہے۔ استدلال کا صحیح طریق یہ ہے کہ معلوم سے مجہول کا علم حاصل کیا جائے، نہ یہ کہ مجہول کی جہالت کی وجہ سے معلوم کا انکار کیا جائے۔ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ آیت وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا (البقرہ2:189)کی تفسیر فرماتے ہیں:

وَتَفْسِيرُهُ أَنَّ الطَّرِيقَ الْمُسْتَقِيمَ الْمَعْلُومَ هُوَ أَنْ يَسْتَدِلَّ بِالْمَعْلُومِ عَلَى الْمَظْنُونِ، فَأَمَّا أَنْ يَسْتَدِلَّ بِالْمَظْنُونِ عَلَى الْمَعْلُومِ فَذَاكَ عَكْسُ الْوَاجِبِ وَضِدُّ الْحَقَّ “۔(تفسیر رازی جلد 5 صفحہ 286 مطبوعہ دار إحياء التراث بیروت)
”اس کی تفسیر یوں ہے کہ سیدھا اور معلوم طریق استدلال یہ ہے کہ معلوم کے ذریعے مظنون کو معلوم کیا جائے اور مظنون سے معلوم(کے انکار)پر استدلال کرنا اس بات کا عکس ہے جو واجب ہے اور حق کی صد ہے“۔

حاصل کلام یہ کہ اس نازک مقام پر عدم العلم اور علم العدم میں فرق کرنا واجب ہے اور اسی کے ملحوظ نہ رکھنے سے غلطی کھاتے ہیں یعنی یہ کہ علت تامہ کا موجود نہ ہونا امر دیگر ہے اور اس کا ہمارے علم سے مخفی ہونا امر دیگر ہے25۔ اسی اصول کی بنا پر قرآن مجید اپنے منکرین کی نسبت فرماتا ہے:

بَلْ كَذَّبُوا بِمَا لَمْ يُحِيطُوا بِعِلْمِهِ وَلَمَّا يَأْتِهِمْ تَأْوِيلُهُ (یونس10:39)
یعنی ”منکرین نے اس شے کو جھٹلایا جس کے علم کا ان کو احاطہ نہیں ہوا اور ابھی تک ان کو اس کی حقیقت یا انجام بھی معلوم نہیں ہوا“۔

اسی طرح علامہ ابن رشد مغربی رحمۃ اللہ علیہ جن کو فلسفہ یونانی کے سمجھنے میں بے مثل مانا گیا ہے اور فرانس وغیرہ ممالک مغرب میں ان کی وفات کے صدیوں بعد تک ان کی تحقیقات پر اضافہ کرنا منع خیال کیا جاتا رہا۔ تہافۃ الفلاسفہ26(تہافت التھافت جلد دوم صفحہ773 مطبوعہ دار المعارف مصر)میں فرماتے ہیں:

أما الكلام فى المعجزات فليس فيه للقدماء من الفلاسفة قول، لأن هذه كانت عندهم من الأشياء التى لا يجب أن يتعرض للفحص عنها، وتجعل مسائل، فإنها مبادئ الشرائع، والفاحص عنها والمشكك فيها يحتاج إلى عقوبة عندهم “۔
”معجزات کی بابت تو یہ ہے کہ قدیم فلسفیوں کا(انکاری)قول ان کے متعلق کچھ بھی نہیں، کیونکہ یہ باتیں ان کے نزدیک ان چیزوں میں سے تھیں جن کے اعمال کی نسبت کرید و پڑتال ان کو مسائل(نظریہ)بنانے کے لئے واجب نہیں تھی۔ کیونکہ یہ شریعتوں کے ابتدائی(مسلمہ)امور ہیں اور ان میں بحث و کرید کرنے والا اور شک کرنے یا ڈالنے والا ان کے نزدیک سزا کا مستوجب ہے“۔

پھر اس سے زرا آگے فرماتے ہیں:

و أما ما حكاه فی أسباب و فی نسخة إثبات ذلك عن الفلاسفة فھو قول لا أعلم أحداً قال به إلا ابن سینا “۔(تہافت التھافت جلد دوم صفحہ774 مطبوعہ دار المعارف مصر)
”اور(امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے)اثباتِ معجزات میں جو کچھ فلسفیوں سے نقل کیا ہے سو وہ ایسی بات ہے جس کی بابت مجھے معلوم نہیں کہ ابن سینا کے سوا کسی کہی ہو“۔

اسی طرح اس سے چند صفحے آگے فرماتے ہیں:

ولذلك لا تجد أحداً من القدماء تكلم في المعجزات، مع انتشارها وظهورها في العالم، لأنها مبادئ تثبيت الشرائع، والشرائع مبادئ الفضائل “۔(تہافت التھافت جلد دوم صفحہ792 مطبوعہ دار المعارف مصر)
”اور اسی لیے تو قدیم فلسفیوں میں سے کسی کو بھی نہ پائے گا کہ اس نے معجزات میں(انکاری)کلام کیا ہو۔ باوجود اس کے کہ معجزات کی اشاعت و ظہور تمام عالم میں تھا۔ کیونکہ وہ سب شریعتوں کے ابتدائی امور(مسلمہ)ہیں۔ اور شریعتیں(حصول)فضائل کے مبادی ہیں“۔

ان عبارات سے واضح ہو گیا کہ قدیم حکماء معجزات کو مبادی مان کر ان میں خوض نہیں کرتے تھے۔ بلکہ منکر کو قابل سزا جانتے تھے، اس امر میں معقول و منقول کی تطبیق کی روش الشیخ الرئیس بو علی سینا نے نکالی ہے۔

علامہ ابن رشد رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلہ میں جو امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ سے اختلاف کیا وہ اصل مسئلہ یعنی امکانِ معجزہ میں نہی، بلکہ طریق استدلال میں کیا ہے، جس کی بنا مذاقِ طبع ہے۔ کیونکہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ بہ سبب ایشیائی ہونے کے ابن سینا کی روش پر تھے اور ابن رشد رحمۃ اللہ علیہ کا مذاقِ فلسفہ بہ سبب یورپی(اسپینی)ہونے کے ابن سینا کے تابع نہ تھا بلکہ وہ خود بالاستقلال یورپ کا ابن سینا تھے۔

اسی طرح شرح مواقف جو علم کلام کی مشہور درسی کتاب ہے، اس میں سید شریف رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:

وأما الفلاسفة فقالوا هو أي النبي من اجتمع فيه خواص ثلاث
(إحداها)أن يكون له اطلاع على المغيبات
(و ثانيها)ان يظهر منه الافعال الخارقة للعادة لكون هيولى عالم العناصر مطيعة له منقادة لتصرفاته انقياد بدنه لنفسه
(و ثالثها)أن يرى الملائكة مصورة و يسمع كلامهم وحيا
“۔(شرح المواقف جلد 7 صفحہ 242تا244 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان)
”فلسفیوں کے نزدیک نبی و رسول وہ ہے جس میں تین خواص جمع ہوں:
(ایک)یہ کہ اسے غیب کی باتوں پر اطلاع ہو۔
(دوسرا)یہ کہ اس سے ایسے افعال ظاہر ہوں کہ وہ عام عادت کے خلاف ہوں، اس وجہ سے کہ عالم عناصر اس کے تصرفات کے لئے اس کا ایسا مطیع و منقاد ہو جیسا کہ اس کا بدن اس کی روح کے تابع ہے۔
(اور تیسرا )یہ کہ وہ(نبی و رسول)فرشتوں کو دیکھے اور بذریعہ وحی ان کا کلام سنے“۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
24:محال دو قسم پر ہے۔ عقلی و دعاوی۔ عقلی ممتنع ذاتی یعنی ناممکن ہوتا ہے۔ مثلاً اجتماع ضدین اور ارتفاع نقضین اور شریک باری۔ لیکن عادی ممکن بالذات ہوتا ہے۔ اگر علل و اسباب موجبہ کے ساتھ خدا کا ارادہ منضم ہو گیا تو وہ صادر و حادث ہو گیا، ورنہ نہیں ہوتا۔ مگر اپنی ذات میں ممکن ہی رہتا ہے۔
25:معجزات کے متعلق انشاء اللہ الگ رسالہ لکھوں گا جس میں زمانہ ماضی و زمانہ حال کے فلاسفروں کے اقوال سے امکان ثابت کیا جائے گا۔
26:علامہ ابن رشد 520ھ میں پیدا ہوئے اور 595 ھ میں فوت ہوئے۔ انہوں نے یہ کتاب امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب تہافۃ الفلاسفہ کے مقابلہ میں لکھی ہے جس میں بعض مقامات پر طریق استدلال یا الزام خصم میں امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ سے اختلاف کیا ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top