قولہ صفحہ7
”مسیح تو کیا مسیح سے بھی عالی درجت انبیآء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خدام کی منزلت نہیں رکھتے“ اور نیز کہا مسیح علیہ السلام تو ایک معمولی انسان ہے اور اس قابل بھی نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خدام کی برابری کر سکے“۔
اقول
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے امتی غایت ما فی الباب ولایت کے کسی اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ پر پہنچ سکتے ہیں، نبی نہیں ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ آیت وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ مانع ہے اور ولی کو نبی پر فضیلت دینی اہل سنت کے نزدیک کفر و ضلالت ہے۔ نبی اللہ متبوع و مطاع ہوتا ہے اور امتی تابع و مطیع۔ تابع متبوع سے کس طرح بڑھ سکتا ہے؟ اور مطیع مطاع سے کیسے افضل ہو سکتا ہے؟ مجیب صاحب علم اسلامی سے ایسے بے خبر ہیں کہ اہل سنت کے مشہور عقائد بھی آپ کو معلوم نہیں۔ قصیدہ امالی میں ہے:
یعنی ”ولی کبھی بھی کسی نبی یا رسول سے افضل نہیں ہو سکتا“۔
اور ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں:
” وَذَلِكَ أَنَّ أَلْوَلِیَّ تَابِعٌ لِلنّبِیِّ وَلَا يَکُوْنُ التَّابِعُ بِاَعْلٰی مَرْتَبَةٍ مِّنَ الْمَتْبُوْعِ وَ لِاَنَّ النَّبِیَّ مَعْصُوْمٌ مَامُوْنُ الْعَاقِبَةِ وَالْوَلِیُّ یُجِبّ اَنْ يَكُوْنَ خَائِفًا عَنِ الْخَاتِمَةِ وَ لِاَنَّ النَّبِیَّ مُكَرَّمٌ بِالْوَحْیِ وَ مُشَاھَدَةِ الْمَلَائِكَةِ الْكِرَامٍ وَالرَّسُولُ مَامُوْرٌ بِتَبْلِیْغِ الْاَحْکَامٍ وَ اِرْشَادِ الْآنَامٍ بَعْدَ اِتِّصَافِہٖ بِکَمَالَاتِ الْوَلِیِّ فِی الْمَقَامَاتِ الْفَخَامٍ فَمَا نُقِلَ عَنْ بَعْضِ الْکِرَامِیَّةِ مِنْ جَوَازِ کَوْنِ الْوَلِیِّ اَفْضَلَ مِنَ النَّبِیِّ کُفْرٌ وَ عِبَارَةُ النَّسَفِیِّ فِیْ عَقَائِدِہٖ وَلَا یَبْلُغُ وَلِیٌّ دَرَجَةَ الْاَنْبِیَآءِ اَوْلٰی مِنْ عِبَارَةٍ النَّاظِمِ لِاِفَادَتھَا نَفْیَ الْمُسَاوَاتِ اَیْضًا.انتھیٰ “۔( ضوء المعالی شرح بدء الامالی)
”اس کا سبب یہ ہے کہ ولی نبی کے تابع ہوتا ہے اور کوئی پیرو اپنے پیشوا سے افضل رتبہ پر نہیں ہو سکتا۔ نیز اس لئے کہ نبی معصوم ہے اور خاتمہ سے امن ہے اور ولی کے لئے ضروری ہے کہ خاتمہ سے ڈرتا رہے۔ نیز اس لئے کہ نبی وحی سے اور ملائکہ مقربین کے مشاہدے سے مشرف ہوتا ہے اور رسول احکام آگہی کی تبلیغ اور خلقت کے ارشاد کا مامور ہوتا ہے۔ بعد ازاں کے ولی کے کمالات سے بھی نہایت عالی مقامات پر موصوف ہو۔ پس بعض کرامیہ سے جو نقل کیا گیا ہے کہ کوئی ولی کسی نبی سے افضل ہو سو کفر اور ضلالت ہے اور امام نسفی کی یہ عبارت کہ: ”کوئی ولی انبیاء کے درجہ تک نہیں پہنچ سکتا“ اس ناظم کی عبارت سے اولی ہے کیونکہ مساوات کی بھی نفی فائدہ ہے“۔
اسی طرح تمہید ابی الشکور سالمی میں ہے:
” قَالَ اَھْلُ السَّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ اِنَّ النَّبِیَّ اَفْضَلَ مِنْ وَّلِیٍّ وَ اِنْ کَانَتْ دَرَجَتُهٗ اَدْوَنَ مِنْ دَرَجَاتَ النَّبُوَّةِ وَقَالَ الْمُنَقَشِّفَةُ مِنَ الْکَرَامِیَّةِ اِنَّهٗ یَجُوْزُ اَنْ یَّکُوْنَ الْوَلِیُّ افْضَلَ مِنَ النَّبِیِّ وُھٰذَا کُفْرٌ “۔(تمہید ابی الشکور سالمی صفحہ82 مطبوعہ دہلی1309ھ)
”اہل سنت والجماعت کا قول یہ ہے کہ ہر نبی ہر ولی سے افضل ہوتا ہے خواہ وہ نبی درجاتِ نبوت کے کسی ادنیٰ درجے پر ہو اور کرامیہ میں سے منقشفہ کہتے ہیں کہ ولی کا نبی سے افضل ہونا جائز اور یہ کفر ہے“۔
اسی طرح دیگر کتب عقائد میں بھی مذکور ہے۔ پس مولوی صاحب کا اس کے خلاف لکھنا ان کی جہالت اور ضعف ایمان پر دلیل بین ہے۔
قولہ صفحہ 8
اگر وہ بقول مشتہر صاحب صلیب پر چڑھا ہی نہیں سکے تو پھر مکر کون سا ہوا جس کو خدا تعالیٰ نے اپنی کتابِ عزیز میں ان کی طرف منسوب کیا ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے بلا وقوع کسی امر کے اس کا وقوع ان کی طرف منسوب کر دیا ہے؟
اقول
؏ سخن شناس نہ دلبرا خطا اینجا ست۔ یہ امر بھی مجیب صاحب کی بے لیاقتی ظاہر کر رہا ہے۔ کیونکہ مکر کہتے ہیں تدبیر محکم کو۔ جیسا کہ پہلے ثابت ہو چکا ہے یہود نے حضرت روح اللہ کو صلیب پر چڑھانے کی صرف تدبیر ہی کی تھی۔ سو اللہ تعالیٰ نے اس ارادۂ بد کو ان کی طرف منسوب کیا اور جس شخص کو علوم درسیہ میں ادنیٰ سی ممارست بھی ہے وہ خوب جانتا ہے کہ ارادۂ انسانی کو وقوعِ فعل لازم نہیں۔ پس یہ ضرور نہیں کہ جب تک فعلِ صلب کا وقوع نہ ہو تب تک یہود کی طرف ارادہ و تدبیر ایصالِ شر منسوب نہ کر سکیں۔ فَافْھَمْ
مجیب صاحب اگر اپنی عبارت کو محفوظ رکھتے تو ایسی فاش خطا اور ڈبل غلطی نہ کرتے۔ چنانچہ اسی صفحہ سطر دوم میں فرماتے کہ ”یہود نے ایک منصوبہ بنایا“۔ اور تیسری سطر میں ”چاہا“ لکھتے ہیں اور سطر ششم میں پھر منصوبہ تحریر کرتے ہیں۔ آپ غور کریں اور انصاف سے کہیں کہ کیا منصوبہ بنانے اور چاہئے کے یہی معنی ہوا کرتے ہیں کہ امر بالضرور واقع بھی ہو جائے۔ جنابِ من! ارادہ امر دیگر ہے اور صدورِ فعل امر دیگر!
قولہ صفحہ 11
”لیکن دعویٰ کہ تکذیب نہیں کی“۔
اقول
حضرت! اس آیت: أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا (محمد47:24)”تو کیا یہ لوگ قرآن کو تدبر سے نہیں پڑھتے یا ان کے دلوں پر تالے لگ گئے ہیں“ کے مصداق بھی تو پائے جانے چاہئیں۔ اگر آپ کو یہود کے دعوائے قتلِ مسیح علیہ السلام کی تردید و تکذیب معلوم نہیں تو اس میں قصور کس کا ہے؟
اللہ تعالیٰ نے یہود کی لافِ قتل مسیح علیہ السلام کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ (النساء 4:157)
”ہم نے ضرور عیسیٰ بن مریم رسول اللہ کو قتل کر ڈالا ہے“۔
اس میں دو امر ملحوظ ہیں۔ اوّل دعوائے قتل مسیح علیہ السلام کو بطورِ مفاخرت ذکر کرنا کیونکہ نفسِ قتل امر فخر نہیں بلکہ ان کے زعم میں قتل محل خاص میں واقع ہوا اس لئے مفعول یعنی المسیح کو موصوف ذکر کیا اور یہی مفاخرتِ یہود اس امر کی مؤید ہے کہ مَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ میں نفی قتل و صلب کو مقصور علی المفعول کیا جائے۔ دوم لفظ إِنَّا سے اس زعم پر یہود کا جزم۔ سو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس امر اوّل کی تکذیب مَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ سے کر دی اور ان کے فخر کو خاک میں ملا دیا۔ اور امر دوم یعنی ان کے جزم کا ابطال وَمَا قَتَلُوْهُ يَقِينًا سے فرمایا۔ اور حقیقت امر کو وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ اور بَل رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ (النساء4:158)سے کھول دیا کہ کوئی اور شخص مصلوب ہو کر مارا گیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے آسمان پر اٹھا لیا۔ سُبْحَانَ اللہ مَآ اَحْکَمَ کَلَامَهٗ ۔
دوسری وجہ جس سے آیت یعنی وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ (النساء4:157)یعنی اور ان کے اس قول کے سبب بھی(ہم نے ان پر لعنت کی)کہ: ”انہوں نے کہا کہ ہم نے ضرور مسیح عیسیٰ بن مریم رسول اللہ کو قتل کر ڈالا“، عقیدۂ ملعونہ صلیبیہ کی تردید کرتی ہے۔ یہ ہے کہ جن جرائم کے سبب اللہ تعالیٰ جبار قہار نے یہود پر لعنت کی منجملہ ان کے ان کا قول بہ قتل و صلب60 مسیح علیہ السلام ہے۔ ان جرائم میں سے بعض تو محض اقوال ہیں اور بعض افعال جیسا کہ فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّيْثَاقَهُمْ (النساء 4:155)سے وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا (النساء 4:157)تک غور کرنے سے واضح ہوتا ہے۔ افعال یہ ہیں:
اوّلِ نقض میثاق کیونکہ خلافِ میثاق فعل سے صادر ہوتا ہے۔
دوم کفر بآیات اللہ کیونکہ یہ فعل تحریف کلمات اللہ و قتلِ انبیاء و اخذ رشوت و سود جیسے افعال قبیحہ کی طرف کھینچنے والا ہوا۔
سوم قتل انبیاء، یہ اگرچہ کفر ہی کا نتیجہ ہے مگر چونکہ باصلہ ایک مستقل کفر ہے اس لئے علیحدہ ذکر کیا گیا۔ اور
اقوال یہ ہیں:
اوّل ان کا قُلُوْبُنَا غُلْفُ کہنا۔
دوم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بے پدر پیدا ہونے پر قدرتِ قادرِ عزیز سے انکار کرنا اور چونکہ ان کا کفر دو زمانوں میں ہوا۔ اوّل قبل مبعث عیسیٰ علیہ السلام، پھر بعد آپ کی ولادت اور بعثت کے۔ اس لئے کفر کو مکرر ذکر کیا اور اسی نکتہ کے لئے اعادہ جار بھی کیا۔
سوم مریم صفیۃ اللہ علیہا السلام پر بہتان لگانا۔ چہارم ان کا یہ کہنا کہ ہم نے مسیح علیہ السلام کا مار ڈالا۔
ناظرین! قرآن کریم کی فصاحت اور حسن بیان پر غور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اقوال و افعال میں کس طرح فرق کیا ہے۔ جملہ افعال کو نسبتِ صدوری وقوعی سے ذکر کیا کہ بیشک ان سے یہ افعالِ قبیحہ سر زد ہوئے۔ کَمَا یَشْھَدُ بِذٰلِکَ طَرِیْقُ الْبَیَانِ ”جیسا کہ طریق بیان اس کی شہادت دیتا ہے“۔ اور جملہ اقوال کو مردود و مکذوب فرمایا۔ چنانچہ قَوْلِهِمْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ کو بَلْ طَبَعَ اللَّهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ سے رد کیا۔ اور حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادتِ باسعادت کے بارے میں جو اقوالِ مردودہ آپ پر اور حضرت مریم صفیۃ اللہ پر کہے تھے ان کو لفظ بہتان سے اور نیز اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ (ال عمران 3:59)یعنی ”بیشک عیسیٰ علیہ السلام کا معاملہ خدا کے نزدیک آدم علیہ السلام کی طرح ہے“ سے اور قَالَ اِنِّىْ عَبْدُ اللّٰهِ (مریم19:30)”کہا میں خدا کا کامل بندہ ہوں“ سے اور نیز وَالَّتِيْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا (الانبیاء21:91)سے رد فرمایا۔ اور دعوائے قتل کو وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ (النساء 4:157)”نہیں قتل کیا انہوں نے اس کو اور نہ اس کو صلیب پر چڑھایا“ سے مکذوب کیا۔
اس بیان و تفصیل سے واضح ہو گیا کہ اگر فعل صلب صورتِ فعلیہ میں صادر ہوا ہوتا تو اللہ تبارک و تعالیٰ فعل کو سببِ لعنت قرار دیتا، نہ مجرد قول کو۔ اور پھر عبارت وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ کی بجائے وَ بِصَلْبِھِمُ الْمَسِیْحَ ہوتی۔ کیونکہ صلیب پر چڑھانا اور معاذ اللہ رسولِ برحق کے پاک ہاتھوں میں میخیں لگانا وغیرہ وغیرہ زیادہ سخت جرم ہے، مجرد افتراء و بہتان سے۔ اس قول بقتل المسیح کے سبب یہود کو ملعون و مردود گرداننے سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو حضرت مسیح علیہ السلام کو آسمان پر مرفوع کیا اور اس وقت تک زندہ رکھا اور پھر آخری زمانے میں دنیا میں نازل کرے گا۔ اس قول مردود سے اس حکمت کا ابطال و بطلان لازم آتا ہے۔ پس اگر اب بھی کوئی شخص حضرت مسیح علیہ السلام کے صلیب پر چڑھائے جانے اور ان کی موت قبل النزول کا قائل ہو تو چونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی حکمتِ بالغہ کو باطل کرنا چاہتا ہے۔ اس لئے اس کا حکم بھی یہود بے بہبود کا حکم ہے۔ اس آیتِ مبارکہ طیبہ میں ایک اور نکتہ یہ ہے کہ چونکہ اس ذکر سے پہلے اللہ تعالیٰ نے یہود کے بعض انبیاء کو قتل کرنے کا ذکر کیا اور حضرت مسیح علیہ السلام کی نسبت بھی یہود و بعض فرقہ نصاریٰ کا یہی قول تھا کہ وہ مصلوب ہو کر مقتول ہوئے اور حقیقت الامر اس کے خلاف تھی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کے قتل و صلب کی نفی علیحدہ طور پر کر دی تاکہ کوئی حقیقت نا شناس آپ کو بھی ان انبیاء کے زمرہ میں شمار نہ کر لے جو یہود کے ہاتھ سے شہید ہوئے۔ اور اس طرزِ بیان کو التخصیص بعد التعمیم الاخراج الخاص عن حکم العام کہتے ہیں۔ پس اس آیت سے ملحدین کی صلیب بالکل منہزم و منکسر ہو گئی۔ والحمد اللہ علیٰ ذالک ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
60:اکمل صاحب اس پر کہتے ہیں: ”یہ صلب آپ نے کہاں سے ملا لیا؟“
جواب: مَا قَتَلُوْهُ کے بعد مَا صَلَبُوْہُ سے یعنی قتل کی نفی کے بعد صلب کی نفی کرنے سے معلوم ہوا کہ یہود اس امر کے مدعی تھے کہ ہم نے حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب پر چڑھا کر مار دیا۔ سو اللہ تعالیٰ نے دونوں باتوں کی الگ الگ نفی کر دی۔ فافہم
”مسیح تو کیا مسیح سے بھی عالی درجت انبیآء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خدام کی منزلت نہیں رکھتے“ اور نیز کہا مسیح علیہ السلام تو ایک معمولی انسان ہے اور اس قابل بھی نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خدام کی برابری کر سکے“۔
اقول
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے امتی غایت ما فی الباب ولایت کے کسی اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ پر پہنچ سکتے ہیں، نبی نہیں ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ آیت وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ مانع ہے اور ولی کو نبی پر فضیلت دینی اہل سنت کے نزدیک کفر و ضلالت ہے۔ نبی اللہ متبوع و مطاع ہوتا ہے اور امتی تابع و مطیع۔ تابع متبوع سے کس طرح بڑھ سکتا ہے؟ اور مطیع مطاع سے کیسے افضل ہو سکتا ہے؟ مجیب صاحب علم اسلامی سے ایسے بے خبر ہیں کہ اہل سنت کے مشہور عقائد بھی آپ کو معلوم نہیں۔ قصیدہ امالی میں ہے:
وَلَمْ يَفْضُلْ وَلِي قَطُّ دَهْرًا
نَبِيًا أَوْ رَسُولاً في انْتِحَالِ
نَبِيًا أَوْ رَسُولاً في انْتِحَالِ
یعنی ”ولی کبھی بھی کسی نبی یا رسول سے افضل نہیں ہو سکتا“۔
اور ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں:
” وَذَلِكَ أَنَّ أَلْوَلِیَّ تَابِعٌ لِلنّبِیِّ وَلَا يَکُوْنُ التَّابِعُ بِاَعْلٰی مَرْتَبَةٍ مِّنَ الْمَتْبُوْعِ وَ لِاَنَّ النَّبِیَّ مَعْصُوْمٌ مَامُوْنُ الْعَاقِبَةِ وَالْوَلِیُّ یُجِبّ اَنْ يَكُوْنَ خَائِفًا عَنِ الْخَاتِمَةِ وَ لِاَنَّ النَّبِیَّ مُكَرَّمٌ بِالْوَحْیِ وَ مُشَاھَدَةِ الْمَلَائِكَةِ الْكِرَامٍ وَالرَّسُولُ مَامُوْرٌ بِتَبْلِیْغِ الْاَحْکَامٍ وَ اِرْشَادِ الْآنَامٍ بَعْدَ اِتِّصَافِہٖ بِکَمَالَاتِ الْوَلِیِّ فِی الْمَقَامَاتِ الْفَخَامٍ فَمَا نُقِلَ عَنْ بَعْضِ الْکِرَامِیَّةِ مِنْ جَوَازِ کَوْنِ الْوَلِیِّ اَفْضَلَ مِنَ النَّبِیِّ کُفْرٌ وَ عِبَارَةُ النَّسَفِیِّ فِیْ عَقَائِدِہٖ وَلَا یَبْلُغُ وَلِیٌّ دَرَجَةَ الْاَنْبِیَآءِ اَوْلٰی مِنْ عِبَارَةٍ النَّاظِمِ لِاِفَادَتھَا نَفْیَ الْمُسَاوَاتِ اَیْضًا.انتھیٰ “۔( ضوء المعالی شرح بدء الامالی)
”اس کا سبب یہ ہے کہ ولی نبی کے تابع ہوتا ہے اور کوئی پیرو اپنے پیشوا سے افضل رتبہ پر نہیں ہو سکتا۔ نیز اس لئے کہ نبی معصوم ہے اور خاتمہ سے امن ہے اور ولی کے لئے ضروری ہے کہ خاتمہ سے ڈرتا رہے۔ نیز اس لئے کہ نبی وحی سے اور ملائکہ مقربین کے مشاہدے سے مشرف ہوتا ہے اور رسول احکام آگہی کی تبلیغ اور خلقت کے ارشاد کا مامور ہوتا ہے۔ بعد ازاں کے ولی کے کمالات سے بھی نہایت عالی مقامات پر موصوف ہو۔ پس بعض کرامیہ سے جو نقل کیا گیا ہے کہ کوئی ولی کسی نبی سے افضل ہو سو کفر اور ضلالت ہے اور امام نسفی کی یہ عبارت کہ: ”کوئی ولی انبیاء کے درجہ تک نہیں پہنچ سکتا“ اس ناظم کی عبارت سے اولی ہے کیونکہ مساوات کی بھی نفی فائدہ ہے“۔
اسی طرح تمہید ابی الشکور سالمی میں ہے:
” قَالَ اَھْلُ السَّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ اِنَّ النَّبِیَّ اَفْضَلَ مِنْ وَّلِیٍّ وَ اِنْ کَانَتْ دَرَجَتُهٗ اَدْوَنَ مِنْ دَرَجَاتَ النَّبُوَّةِ وَقَالَ الْمُنَقَشِّفَةُ مِنَ الْکَرَامِیَّةِ اِنَّهٗ یَجُوْزُ اَنْ یَّکُوْنَ الْوَلِیُّ افْضَلَ مِنَ النَّبِیِّ وُھٰذَا کُفْرٌ “۔(تمہید ابی الشکور سالمی صفحہ82 مطبوعہ دہلی1309ھ)
”اہل سنت والجماعت کا قول یہ ہے کہ ہر نبی ہر ولی سے افضل ہوتا ہے خواہ وہ نبی درجاتِ نبوت کے کسی ادنیٰ درجے پر ہو اور کرامیہ میں سے منقشفہ کہتے ہیں کہ ولی کا نبی سے افضل ہونا جائز اور یہ کفر ہے“۔
اسی طرح دیگر کتب عقائد میں بھی مذکور ہے۔ پس مولوی صاحب کا اس کے خلاف لکھنا ان کی جہالت اور ضعف ایمان پر دلیل بین ہے۔
قولہ صفحہ 8
اگر وہ بقول مشتہر صاحب صلیب پر چڑھا ہی نہیں سکے تو پھر مکر کون سا ہوا جس کو خدا تعالیٰ نے اپنی کتابِ عزیز میں ان کی طرف منسوب کیا ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے بلا وقوع کسی امر کے اس کا وقوع ان کی طرف منسوب کر دیا ہے؟
اقول
؏ سخن شناس نہ دلبرا خطا اینجا ست۔ یہ امر بھی مجیب صاحب کی بے لیاقتی ظاہر کر رہا ہے۔ کیونکہ مکر کہتے ہیں تدبیر محکم کو۔ جیسا کہ پہلے ثابت ہو چکا ہے یہود نے حضرت روح اللہ کو صلیب پر چڑھانے کی صرف تدبیر ہی کی تھی۔ سو اللہ تعالیٰ نے اس ارادۂ بد کو ان کی طرف منسوب کیا اور جس شخص کو علوم درسیہ میں ادنیٰ سی ممارست بھی ہے وہ خوب جانتا ہے کہ ارادۂ انسانی کو وقوعِ فعل لازم نہیں۔ پس یہ ضرور نہیں کہ جب تک فعلِ صلب کا وقوع نہ ہو تب تک یہود کی طرف ارادہ و تدبیر ایصالِ شر منسوب نہ کر سکیں۔ فَافْھَمْ
مجیب صاحب اگر اپنی عبارت کو محفوظ رکھتے تو ایسی فاش خطا اور ڈبل غلطی نہ کرتے۔ چنانچہ اسی صفحہ سطر دوم میں فرماتے کہ ”یہود نے ایک منصوبہ بنایا“۔ اور تیسری سطر میں ”چاہا“ لکھتے ہیں اور سطر ششم میں پھر منصوبہ تحریر کرتے ہیں۔ آپ غور کریں اور انصاف سے کہیں کہ کیا منصوبہ بنانے اور چاہئے کے یہی معنی ہوا کرتے ہیں کہ امر بالضرور واقع بھی ہو جائے۔ جنابِ من! ارادہ امر دیگر ہے اور صدورِ فعل امر دیگر!
قولہ صفحہ 11
”لیکن دعویٰ کہ تکذیب نہیں کی“۔
اقول
حضرت! اس آیت: أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا (محمد47:24)”تو کیا یہ لوگ قرآن کو تدبر سے نہیں پڑھتے یا ان کے دلوں پر تالے لگ گئے ہیں“ کے مصداق بھی تو پائے جانے چاہئیں۔ اگر آپ کو یہود کے دعوائے قتلِ مسیح علیہ السلام کی تردید و تکذیب معلوم نہیں تو اس میں قصور کس کا ہے؟
گر نہ بیند بروز شپرہ چشم
چشمۂ آفتاب را چہ گناہ
چشمۂ آفتاب را چہ گناہ
اللہ تعالیٰ نے یہود کی لافِ قتل مسیح علیہ السلام کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ (النساء 4:157)
”ہم نے ضرور عیسیٰ بن مریم رسول اللہ کو قتل کر ڈالا ہے“۔
اس میں دو امر ملحوظ ہیں۔ اوّل دعوائے قتل مسیح علیہ السلام کو بطورِ مفاخرت ذکر کرنا کیونکہ نفسِ قتل امر فخر نہیں بلکہ ان کے زعم میں قتل محل خاص میں واقع ہوا اس لئے مفعول یعنی المسیح کو موصوف ذکر کیا اور یہی مفاخرتِ یہود اس امر کی مؤید ہے کہ مَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ میں نفی قتل و صلب کو مقصور علی المفعول کیا جائے۔ دوم لفظ إِنَّا سے اس زعم پر یہود کا جزم۔ سو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس امر اوّل کی تکذیب مَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ سے کر دی اور ان کے فخر کو خاک میں ملا دیا۔ اور امر دوم یعنی ان کے جزم کا ابطال وَمَا قَتَلُوْهُ يَقِينًا سے فرمایا۔ اور حقیقت امر کو وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ اور بَل رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ (النساء4:158)سے کھول دیا کہ کوئی اور شخص مصلوب ہو کر مارا گیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے آسمان پر اٹھا لیا۔ سُبْحَانَ اللہ مَآ اَحْکَمَ کَلَامَهٗ ۔
دوسری وجہ جس سے آیت یعنی وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ (النساء4:157)یعنی اور ان کے اس قول کے سبب بھی(ہم نے ان پر لعنت کی)کہ: ”انہوں نے کہا کہ ہم نے ضرور مسیح عیسیٰ بن مریم رسول اللہ کو قتل کر ڈالا“، عقیدۂ ملعونہ صلیبیہ کی تردید کرتی ہے۔ یہ ہے کہ جن جرائم کے سبب اللہ تعالیٰ جبار قہار نے یہود پر لعنت کی منجملہ ان کے ان کا قول بہ قتل و صلب60 مسیح علیہ السلام ہے۔ ان جرائم میں سے بعض تو محض اقوال ہیں اور بعض افعال جیسا کہ فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّيْثَاقَهُمْ (النساء 4:155)سے وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا (النساء 4:157)تک غور کرنے سے واضح ہوتا ہے۔ افعال یہ ہیں:
اوّلِ نقض میثاق کیونکہ خلافِ میثاق فعل سے صادر ہوتا ہے۔
دوم کفر بآیات اللہ کیونکہ یہ فعل تحریف کلمات اللہ و قتلِ انبیاء و اخذ رشوت و سود جیسے افعال قبیحہ کی طرف کھینچنے والا ہوا۔
سوم قتل انبیاء، یہ اگرچہ کفر ہی کا نتیجہ ہے مگر چونکہ باصلہ ایک مستقل کفر ہے اس لئے علیحدہ ذکر کیا گیا۔ اور
اقوال یہ ہیں:
اوّل ان کا قُلُوْبُنَا غُلْفُ کہنا۔
دوم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بے پدر پیدا ہونے پر قدرتِ قادرِ عزیز سے انکار کرنا اور چونکہ ان کا کفر دو زمانوں میں ہوا۔ اوّل قبل مبعث عیسیٰ علیہ السلام، پھر بعد آپ کی ولادت اور بعثت کے۔ اس لئے کفر کو مکرر ذکر کیا اور اسی نکتہ کے لئے اعادہ جار بھی کیا۔
سوم مریم صفیۃ اللہ علیہا السلام پر بہتان لگانا۔ چہارم ان کا یہ کہنا کہ ہم نے مسیح علیہ السلام کا مار ڈالا۔
ناظرین! قرآن کریم کی فصاحت اور حسن بیان پر غور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اقوال و افعال میں کس طرح فرق کیا ہے۔ جملہ افعال کو نسبتِ صدوری وقوعی سے ذکر کیا کہ بیشک ان سے یہ افعالِ قبیحہ سر زد ہوئے۔ کَمَا یَشْھَدُ بِذٰلِکَ طَرِیْقُ الْبَیَانِ ”جیسا کہ طریق بیان اس کی شہادت دیتا ہے“۔ اور جملہ اقوال کو مردود و مکذوب فرمایا۔ چنانچہ قَوْلِهِمْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ کو بَلْ طَبَعَ اللَّهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ سے رد کیا۔ اور حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادتِ باسعادت کے بارے میں جو اقوالِ مردودہ آپ پر اور حضرت مریم صفیۃ اللہ پر کہے تھے ان کو لفظ بہتان سے اور نیز اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ (ال عمران 3:59)یعنی ”بیشک عیسیٰ علیہ السلام کا معاملہ خدا کے نزدیک آدم علیہ السلام کی طرح ہے“ سے اور قَالَ اِنِّىْ عَبْدُ اللّٰهِ (مریم19:30)”کہا میں خدا کا کامل بندہ ہوں“ سے اور نیز وَالَّتِيْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا (الانبیاء21:91)سے رد فرمایا۔ اور دعوائے قتل کو وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ (النساء 4:157)”نہیں قتل کیا انہوں نے اس کو اور نہ اس کو صلیب پر چڑھایا“ سے مکذوب کیا۔
اس بیان و تفصیل سے واضح ہو گیا کہ اگر فعل صلب صورتِ فعلیہ میں صادر ہوا ہوتا تو اللہ تبارک و تعالیٰ فعل کو سببِ لعنت قرار دیتا، نہ مجرد قول کو۔ اور پھر عبارت وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ کی بجائے وَ بِصَلْبِھِمُ الْمَسِیْحَ ہوتی۔ کیونکہ صلیب پر چڑھانا اور معاذ اللہ رسولِ برحق کے پاک ہاتھوں میں میخیں لگانا وغیرہ وغیرہ زیادہ سخت جرم ہے، مجرد افتراء و بہتان سے۔ اس قول بقتل المسیح کے سبب یہود کو ملعون و مردود گرداننے سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو حضرت مسیح علیہ السلام کو آسمان پر مرفوع کیا اور اس وقت تک زندہ رکھا اور پھر آخری زمانے میں دنیا میں نازل کرے گا۔ اس قول مردود سے اس حکمت کا ابطال و بطلان لازم آتا ہے۔ پس اگر اب بھی کوئی شخص حضرت مسیح علیہ السلام کے صلیب پر چڑھائے جانے اور ان کی موت قبل النزول کا قائل ہو تو چونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی حکمتِ بالغہ کو باطل کرنا چاہتا ہے۔ اس لئے اس کا حکم بھی یہود بے بہبود کا حکم ہے۔ اس آیتِ مبارکہ طیبہ میں ایک اور نکتہ یہ ہے کہ چونکہ اس ذکر سے پہلے اللہ تعالیٰ نے یہود کے بعض انبیاء کو قتل کرنے کا ذکر کیا اور حضرت مسیح علیہ السلام کی نسبت بھی یہود و بعض فرقہ نصاریٰ کا یہی قول تھا کہ وہ مصلوب ہو کر مقتول ہوئے اور حقیقت الامر اس کے خلاف تھی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کے قتل و صلب کی نفی علیحدہ طور پر کر دی تاکہ کوئی حقیقت نا شناس آپ کو بھی ان انبیاء کے زمرہ میں شمار نہ کر لے جو یہود کے ہاتھ سے شہید ہوئے۔ اور اس طرزِ بیان کو التخصیص بعد التعمیم الاخراج الخاص عن حکم العام کہتے ہیں۔ پس اس آیت سے ملحدین کی صلیب بالکل منہزم و منکسر ہو گئی۔ والحمد اللہ علیٰ ذالک ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
60:اکمل صاحب اس پر کہتے ہیں: ”یہ صلب آپ نے کہاں سے ملا لیا؟“
جواب: مَا قَتَلُوْهُ کے بعد مَا صَلَبُوْہُ سے یعنی قتل کی نفی کے بعد صلب کی نفی کرنے سے معلوم ہوا کہ یہود اس امر کے مدعی تھے کہ ہم نے حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب پر چڑھا کر مار دیا۔ سو اللہ تعالیٰ نے دونوں باتوں کی الگ الگ نفی کر دی۔ فافہم