• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

شہادت القرآن

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
قولہ صفحہ7

”مسیح تو کیا مسیح سے بھی عالی درجت انبیآء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خدام کی منزلت نہیں رکھتے“ اور نیز کہا مسیح علیہ السلام تو ایک معمولی انسان ہے اور اس قابل بھی نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خدام کی برابری کر سکے“۔

اقول

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے امتی غایت ما فی الباب ولایت کے کسی اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ پر پہنچ سکتے ہیں، نبی نہیں ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ آیت وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ مانع ہے اور ولی کو نبی پر فضیلت دینی اہل سنت کے نزدیک کفر و ضلالت ہے۔ نبی اللہ متبوع و مطاع ہوتا ہے اور امتی تابع و مطیع۔ تابع متبوع سے کس طرح بڑھ سکتا ہے؟ اور مطیع مطاع سے کیسے افضل ہو سکتا ہے؟ مجیب صاحب علم اسلامی سے ایسے بے خبر ہیں کہ اہل سنت کے مشہور عقائد بھی آپ کو معلوم نہیں۔ قصیدہ امالی میں ہے:

وَلَمْ يَفْضُلْ وَلِي قَطُّ دَهْرًا
نَبِيًا أَوْ رَسُولاً في انْتِحَالِ

یعنی ”ولی کبھی بھی کسی نبی یا رسول سے افضل نہیں ہو سکتا“۔

اور ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں:

وَذَلِكَ أَنَّ أَلْوَلِیَّ تَابِعٌ لِلنّبِیِّ وَلَا يَکُوْنُ التَّابِعُ بِاَعْلٰی مَرْتَبَةٍ مِّنَ الْمَتْبُوْعِ وَ لِاَنَّ النَّبِیَّ مَعْصُوْمٌ مَامُوْنُ الْعَاقِبَةِ وَالْوَلِیُّ یُجِبّ اَنْ يَكُوْنَ خَائِفًا عَنِ الْخَاتِمَةِ وَ لِاَنَّ النَّبِیَّ مُكَرَّمٌ بِالْوَحْیِ وَ مُشَاھَدَةِ الْمَلَائِكَةِ الْكِرَامٍ وَالرَّسُولُ مَامُوْرٌ بِتَبْلِیْغِ الْاَحْکَامٍ وَ اِرْشَادِ الْآنَامٍ بَعْدَ اِتِّصَافِہٖ بِکَمَالَاتِ الْوَلِیِّ فِی الْمَقَامَاتِ الْفَخَامٍ فَمَا نُقِلَ عَنْ بَعْضِ الْکِرَامِیَّةِ مِنْ جَوَازِ کَوْنِ الْوَلِیِّ اَفْضَلَ مِنَ النَّبِیِّ کُفْرٌ وَ عِبَارَةُ النَّسَفِیِّ فِیْ عَقَائِدِہٖ وَلَا یَبْلُغُ وَلِیٌّ دَرَجَةَ الْاَنْبِیَآءِ اَوْلٰی مِنْ عِبَارَةٍ النَّاظِمِ لِاِفَادَتھَا نَفْیَ الْمُسَاوَاتِ اَیْضًا.انتھیٰ “۔( ضوء المعالی شرح بدء الامالی)
”اس کا سبب یہ ہے کہ ولی نبی کے تابع ہوتا ہے اور کوئی پیرو اپنے پیشوا سے افضل رتبہ پر نہیں ہو سکتا۔ نیز اس لئے کہ نبی معصوم ہے اور خاتمہ سے امن ہے اور ولی کے لئے ضروری ہے کہ خاتمہ سے ڈرتا رہے۔ نیز اس لئے کہ نبی وحی سے اور ملائکہ مقربین کے مشاہدے سے مشرف ہوتا ہے اور رسول احکام آگہی کی تبلیغ اور خلقت کے ارشاد کا مامور ہوتا ہے۔ بعد ازاں کے ولی کے کمالات سے بھی نہایت عالی مقامات پر موصوف ہو۔ پس بعض کرامیہ سے جو نقل کیا گیا ہے کہ کوئی ولی کسی نبی سے افضل ہو سو کفر اور ضلالت ہے اور امام نسفی کی یہ عبارت کہ: ”کوئی ولی انبیاء کے درجہ تک نہیں پہنچ سکتا“ اس ناظم کی عبارت سے اولی ہے کیونکہ مساوات کی بھی نفی فائدہ ہے“۔

اسی طرح تمہید ابی الشکور سالمی میں ہے:

قَالَ اَھْلُ السَّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ اِنَّ النَّبِیَّ اَفْضَلَ مِنْ وَّلِیٍّ وَ اِنْ کَانَتْ دَرَجَتُهٗ اَدْوَنَ مِنْ دَرَجَاتَ النَّبُوَّةِ وَقَالَ الْمُنَقَشِّفَةُ مِنَ الْکَرَامِیَّةِ اِنَّهٗ یَجُوْزُ اَنْ یَّکُوْنَ الْوَلِیُّ افْضَلَ مِنَ النَّبِیِّ وُھٰذَا کُفْرٌ “۔(تمہید ابی الشکور سالمی صفحہ82 مطبوعہ دہلی1309ھ)
”اہل سنت والجماعت کا قول یہ ہے کہ ہر نبی ہر ولی سے افضل ہوتا ہے خواہ وہ نبی درجاتِ نبوت کے کسی ادنیٰ درجے پر ہو اور کرامیہ میں سے منقشفہ کہتے ہیں کہ ولی کا نبی سے افضل ہونا جائز اور یہ کفر ہے“۔

اسی طرح دیگر کتب عقائد میں بھی مذکور ہے۔ پس مولوی صاحب کا اس کے خلاف لکھنا ان کی جہالت اور ضعف ایمان پر دلیل بین ہے۔

قولہ صفحہ 8

اگر وہ بقول مشتہر صاحب صلیب پر چڑھا ہی نہیں سکے تو پھر مکر کون سا ہوا جس کو خدا تعالیٰ نے اپنی کتابِ عزیز میں ان کی طرف منسوب کیا ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے بلا وقوع کسی امر کے اس کا وقوع ان کی طرف منسوب کر دیا ہے؟

اقول

؏ سخن شناس نہ دلبرا خطا اینجا ست۔ یہ امر بھی مجیب صاحب کی بے لیاقتی ظاہر کر رہا ہے۔ کیونکہ مکر کہتے ہیں تدبیر محکم کو۔ جیسا کہ پہلے ثابت ہو چکا ہے یہود نے حضرت روح اللہ کو صلیب پر چڑھانے کی صرف تدبیر ہی کی تھی۔ سو اللہ تعالیٰ نے اس ارادۂ بد کو ان کی طرف منسوب کیا اور جس شخص کو علوم درسیہ میں ادنیٰ سی ممارست بھی ہے وہ خوب جانتا ہے کہ ارادۂ انسانی کو وقوعِ فعل لازم نہیں۔ پس یہ ضرور نہیں کہ جب تک فعلِ صلب کا وقوع نہ ہو تب تک یہود کی طرف ارادہ و تدبیر ایصالِ شر منسوب نہ کر سکیں۔ فَافْھَمْ

مجیب صاحب اگر اپنی عبارت کو محفوظ رکھتے تو ایسی فاش خطا اور ڈبل غلطی نہ کرتے۔ چنانچہ اسی صفحہ سطر دوم میں فرماتے کہ ”یہود نے ایک منصوبہ بنایا“۔ اور تیسری سطر میں ”چاہا“ لکھتے ہیں اور سطر ششم میں پھر منصوبہ تحریر کرتے ہیں۔ آپ غور کریں اور انصاف سے کہیں کہ کیا منصوبہ بنانے اور چاہئے کے یہی معنی ہوا کرتے ہیں کہ امر بالضرور واقع بھی ہو جائے۔ جنابِ من! ارادہ امر دیگر ہے اور صدورِ فعل امر دیگر!

قولہ صفحہ 11

”لیکن دعویٰ کہ تکذیب نہیں کی“۔

اقول

حضرت! اس آیت: أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا (محمد47:24)”تو کیا یہ لوگ قرآن کو تدبر سے نہیں پڑھتے یا ان کے دلوں پر تالے لگ گئے ہیں“ کے مصداق بھی تو پائے جانے چاہئیں۔ اگر آپ کو یہود کے دعوائے قتلِ مسیح علیہ السلام کی تردید و تکذیب معلوم نہیں تو اس میں قصور کس کا ہے؟

گر نہ بیند بروز شپرہ چشم
چشمۂ آفتاب را چہ گناہ

اللہ تعالیٰ نے یہود کی لافِ قتل مسیح علیہ السلام کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ (النساء 4:157)
”ہم نے ضرور عیسیٰ بن مریم رسول اللہ کو قتل کر ڈالا ہے“۔

اس میں دو امر ملحوظ ہیں۔ اوّل دعوائے قتل مسیح علیہ السلام کو بطورِ مفاخرت ذکر کرنا کیونکہ نفسِ قتل امر فخر نہیں بلکہ ان کے زعم میں قتل محل خاص میں واقع ہوا اس لئے مفعول یعنی المسیح کو موصوف ذکر کیا اور یہی مفاخرتِ یہود اس امر کی مؤید ہے کہ مَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ میں نفی قتل و صلب کو مقصور علی المفعول کیا جائے۔ دوم لفظ إِنَّا سے اس زعم پر یہود کا جزم۔ سو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس امر اوّل کی تکذیب مَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ سے کر دی اور ان کے فخر کو خاک میں ملا دیا۔ اور امر دوم یعنی ان کے جزم کا ابطال وَمَا قَتَلُوْهُ يَقِينًا سے فرمایا۔ اور حقیقت امر کو وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ اور بَل رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ (النساء4:158)سے کھول دیا کہ کوئی اور شخص مصلوب ہو کر مارا گیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے آسمان پر اٹھا لیا۔ سُبْحَانَ اللہ مَآ اَحْکَمَ کَلَامَهٗ ۔

دوسری وجہ جس سے آیت یعنی وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ (النساء4:157)یعنی اور ان کے اس قول کے سبب بھی(ہم نے ان پر لعنت کی)کہ: ”انہوں نے کہا کہ ہم نے ضرور مسیح عیسیٰ بن مریم رسول اللہ کو قتل کر ڈالا“، عقیدۂ ملعونہ صلیبیہ کی تردید کرتی ہے۔ یہ ہے کہ جن جرائم کے سبب اللہ تعالیٰ جبار قہار نے یہود پر لعنت کی منجملہ ان کے ان کا قول بہ قتل و صلب60 مسیح علیہ السلام ہے۔ ان جرائم میں سے بعض تو محض اقوال ہیں اور بعض افعال جیسا کہ فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّيْثَاقَهُمْ (النساء 4:155)سے وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا (النساء 4:157)تک غور کرنے سے واضح ہوتا ہے۔ افعال یہ ہیں:
اوّلِ نقض میثاق کیونکہ خلافِ میثاق فعل سے صادر ہوتا ہے۔
دوم کفر بآیات اللہ کیونکہ یہ فعل تحریف کلمات اللہ و قتلِ انبیاء و اخذ رشوت و سود جیسے افعال قبیحہ کی طرف کھینچنے والا ہوا۔
سوم قتل انبیاء، یہ اگرچہ کفر ہی کا نتیجہ ہے مگر چونکہ باصلہ ایک مستقل کفر ہے اس لئے علیحدہ ذکر کیا گیا۔ اور

اقوال یہ ہیں:

اوّل ان کا قُلُوْبُنَا غُلْفُ کہنا۔
دوم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بے پدر پیدا ہونے پر قدرتِ قادرِ عزیز سے انکار کرنا اور چونکہ ان کا کفر دو زمانوں میں ہوا۔ اوّل قبل مبعث عیسیٰ علیہ السلام، پھر بعد آپ کی ولادت اور بعثت کے۔ اس لئے کفر کو مکرر ذکر کیا اور اسی نکتہ کے لئے اعادہ جار بھی کیا۔
سوم مریم صفیۃ اللہ علیہا السلام پر بہتان لگانا۔ چہارم ان کا یہ کہنا کہ ہم نے مسیح علیہ السلام کا مار ڈالا۔

ناظرین! قرآن کریم کی فصاحت اور حسن بیان پر غور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اقوال و افعال میں کس طرح فرق کیا ہے۔ جملہ افعال کو نسبتِ صدوری وقوعی سے ذکر کیا کہ بیشک ان سے یہ افعالِ قبیحہ سر زد ہوئے۔ کَمَا یَشْھَدُ بِذٰلِکَ طَرِیْقُ الْبَیَانِ ”جیسا کہ طریق بیان اس کی شہادت دیتا ہے“۔ اور جملہ اقوال کو مردود و مکذوب فرمایا۔ چنانچہ قَوْلِهِمْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ کو بَلْ طَبَعَ اللَّهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ سے رد کیا۔ اور حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادتِ باسعادت کے بارے میں جو اقوالِ مردودہ آپ پر اور حضرت مریم صفیۃ اللہ پر کہے تھے ان کو لفظ بہتان سے اور نیز اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ (ال عمران 3:59)یعنی ”بیشک عیسیٰ علیہ السلام کا معاملہ خدا کے نزدیک آدم علیہ السلام کی طرح ہے“ سے اور قَالَ اِنِّىْ عَبْدُ اللّٰهِ (مریم19:30)”کہا میں خدا کا کامل بندہ ہوں“ سے اور نیز وَالَّتِيْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا (الانبیاء21:91)سے رد فرمایا۔ اور دعوائے قتل کو وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ (النساء 4:157)”نہیں قتل کیا انہوں نے اس کو اور نہ اس کو صلیب پر چڑھایا“ سے مکذوب کیا۔

اس بیان و تفصیل سے واضح ہو گیا کہ اگر فعل صلب صورتِ فعلیہ میں صادر ہوا ہوتا تو اللہ تبارک و تعالیٰ فعل کو سببِ لعنت قرار دیتا، نہ مجرد قول کو۔ اور پھر عبارت وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ کی بجائے وَ بِصَلْبِھِمُ الْمَسِیْحَ ہوتی۔ کیونکہ صلیب پر چڑھانا اور معاذ اللہ رسولِ برحق کے پاک ہاتھوں میں میخیں لگانا وغیرہ وغیرہ زیادہ سخت جرم ہے، مجرد افتراء و بہتان سے۔ اس قول بقتل المسیح کے سبب یہود کو ملعون و مردود گرداننے سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو حضرت مسیح علیہ السلام کو آسمان پر مرفوع کیا اور اس وقت تک زندہ رکھا اور پھر آخری زمانے میں دنیا میں نازل کرے گا۔ اس قول مردود سے اس حکمت کا ابطال و بطلان لازم آتا ہے۔ پس اگر اب بھی کوئی شخص حضرت مسیح علیہ السلام کے صلیب پر چڑھائے جانے اور ان کی موت قبل النزول کا قائل ہو تو چونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی حکمتِ بالغہ کو باطل کرنا چاہتا ہے۔ اس لئے اس کا حکم بھی یہود بے بہبود کا حکم ہے۔ اس آیتِ مبارکہ طیبہ میں ایک اور نکتہ یہ ہے کہ چونکہ اس ذکر سے پہلے اللہ تعالیٰ نے یہود کے بعض انبیاء کو قتل کرنے کا ذکر کیا اور حضرت مسیح علیہ السلام کی نسبت بھی یہود و بعض فرقہ نصاریٰ کا یہی قول تھا کہ وہ مصلوب ہو کر مقتول ہوئے اور حقیقت الامر اس کے خلاف تھی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کے قتل و صلب کی نفی علیحدہ طور پر کر دی تاکہ کوئی حقیقت نا شناس آپ کو بھی ان انبیاء کے زمرہ میں شمار نہ کر لے جو یہود کے ہاتھ سے شہید ہوئے۔ اور اس طرزِ بیان کو التخصیص بعد التعمیم الاخراج الخاص عن حکم العام کہتے ہیں۔ پس اس آیت سے ملحدین کی صلیب بالکل منہزم و منکسر ہو گئی۔ والحمد اللہ علیٰ ذالک ۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
60:اکمل صاحب اس پر کہتے ہیں: ”یہ صلب آپ نے کہاں سے ملا لیا؟“
جواب: مَا قَتَلُوْهُ کے بعد مَا صَلَبُوْہُ سے یعنی قتل کی نفی کے بعد صلب کی نفی کرنے سے معلوم ہوا کہ یہود اس امر کے مدعی تھے کہ ہم نے حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب پر چڑھا کر مار دیا۔ سو اللہ تعالیٰ نے دونوں باتوں کی الگ الگ نفی کر دی۔ فافہم
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
کسر صلیب کی تیسری آیت

وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَنكَ إِذْ جِئْتَهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ (المائدہ 5:110)

یعنی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو فرمائے گا کہ میری وہ نعمتیں یاد کرو جو میں نے تم پر کی تھیں منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ: ”جب تم بنی اسرائیل کے پاس معجزات لائے اور انہوں نے ان معجزات کو جادو کہا(اور تم پر دست درازی کرنی چاہی)تو ہم نے ان کا ہاتھ تم سے(دور)رکھا“۔ یعنی تمہارے پاس تک نہ آنے دیا۔ یہ آیت بالصراحۃ صلیب ملحدین کو توڑ رہی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ یہود کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے روکنے کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نعمت فرماتا ہے۔ معاذ اللہ اگر حضرت مسیح علیہ السلام یہود کے ہاتھ سے صلیب پر چڑھائے جائیں تو اس صورت میں اس امتنان سے کذبِ باری سبحانہ لازم آتا ہے۔ ایسا اعتقاد کفر ہے۔ اعاذنا اللہ من ذالک

اسی سورتِ مائدہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو بھی ایسے ہی کلماتِ طیبات سے نعمت یاد کرائی ہے۔ چنانچہ فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ هَمَّ قَوْمٌ أَن يَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ فَكَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ (المائدہ 5:11)
یعنی ”اے مسلمانو! تم اللہ تعالیٰ کی وہ نعمت یاد کرو جو اس نے تم پر کی جب قوم کفار نے تم پر دست دراز کرنی چاہی تو ہم نے ان کے ہاتھ تم سے روکے رکھے“۔

جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حق میں کفارِ یہود نے مکر ایصالِ شر کیا اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو آپ تک نہ پہنچنے دیا اسی طرح حضرت محمد رسول اللہ حبیب خدا اشرفِ انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بھی طائفہ یہود بنی نصیر نے ارادہ لیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے شر سے بالکل محفوظ رکھا۔(تفسیر ابن کثیر جلد 3 صفحہ57 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)اور الٹا ان ہی پر وبال جلا وطنی نازل کیا(تفسیر ابن کثیر جلد 8 صفحہ 86تا98مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)۔ یہ آیت اس نعمت عظمیٰ کی تذکیر و یاد دہانی کے لئے ہے۔

سبحان اللہ! جس طرح حضرت مسیح علیہ السلام کو خطاب يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ (المائدہ5:110) فرمایا اسی طرح اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضوان اللہ اجمعین کو يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ (المائدہ 5:11)سے خطاب کیا اور جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَنكَ (المائدہ5:110)سے نعمت یاد دلائی اسی طرح اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضوان اللہ اجمعین کو إِذْ هَمَّ قَوْمٌ أَن يَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ فَكَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ (المائدہ5:11)سے انعام یاد کرایا۔ پس جس طرح سے اس واقعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی گزند اور آسیب نہیں پہنچا اسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام کو بھی ہرگز صلیب کی تکلیف نہیں اٹھانی پڑی۔

اس آیت میں لفظ کَفَّ کے متعلق ایک دقیق نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَنكَ (المائدہ5:110)یعنی اور جب ہٹا رکھا میں نے تجھ سے بنی اسرائیل کو۔ اور یہ نہیں فرمایا: وَ إِذْ نَجَّیْتَکَ مِنْۢ بَنِیْٓ اسْرَاِئْیَل یعنی جب بچایا تجھ کو الخ جیسے کہ دوسرے مقام پر بنی اسرائیل کو اپنی نعمت یاد کرائی:

وَإِذْ نَجَّيْنَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ (البقرہ 2:49)
”اور جب بچایا ہم نے تم کو آلِ فرعون سے، پہنچاتے تھے تم کو بہت برا عذاب“۔

کیونکہ اس صورت میں وہم پڑ سکتا ہے کہ یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گرفتار کر لیا ہو گا اور آپ کو کچھ اذیت پہنچائی ہو گی، مگر آخر کار اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کے ہاتھ سے بچا لیا ہو گا، جیسا کہ عقیدۂ ملعونہ ذکر کیا جاتا ہے۔ جس طرح کہ بنی اسرائیل فرعون کے ملک میں غلام تھے اور وہ ان کو ہر طرح کی تکلیف پہنچاتا تھا، مگر آخر کار اللہ تعالیٰ نے ان کو اس کے ظلم سے نجات دی۔ لیکن پہلی صورت میں یعنی قرآن شریف کے الفاظ میں اس وہم کی سراسر تردید ہے۔ یعنی اوّل تو لفظ نجات بچانا کی بجائے لفظ كَف (ہٹا رکھا)استعمال کیا۔ دوم یہ کہ کف کا مفعول بَنِي إِسْرَائِيلَ کو کیا نہ کہ ضمیر مخاطب کو جو عیسیٰ علیہ السلام کے لئے ہے۔ یعنی یہ نہیں کہا کَفَفْتُكَ عَنْۢ بَنِیْٓ اسْرَاِئْیَل (ہٹا رکھا تجھ کو بنی اسرائیل سے)کیونکہ ارادہ ضرر پہنچانے کا یہودیوں کا تھا، پس انہی کو ہٹا رکھنے کا ذکر مناسب ہے۔ سوم یہ کہ کف کا صلہ عَنْ ذکر کیا جو بُعد (دوری)کے لئے آتا ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولِ برحق سے دشمنوں کو بالکل ہٹائے رکھا اور آپ کے پاس تک بھی پھٹکنے نہ دیا تو پھر وہ کس طرح آپ کو اذیت پہنچا سکتے ہیں اور کیسے صلیب پر کھینچ سکتے ہیں؟61

یہی آیت یعنی وَإِذْ كَفَفْتُ (المائدہ 5:110) دوسری آیت وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا (ال عمران 3:55)یعنی ”کافروں سے تجھے پاک رکھنے والا ہوں“ کی صحیح تفسیر ہے۔ کہ اس میں بھی تطہیر سے مراد یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہودیوں کے ہاتھ سے پاک رہیں گے۔ جملہ معتبر تفاسیر میں اس آیت وَإِذْ كَفَفْتُ (المائدہ 5:110) کے ذیل میں ایسا ہی مذکور ہے جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک رسول حضرت روح اللہ علیہ السلام کو یہود کے ہاتھ میں گرفتار نہیں ہونے دیا اور کوئی گزند پہنچنے نہیں دیا۔ بلکہ مبسوط تفاسیر میں رَفَعَ إِلَی السَّمَآء کی بھی تصریح ہے۔ چنانچہ تفسیر فتح البیان میں ہے:

ولا أتى عيسى بهذه الدلالات البينات قصد اليهود بقتله فخلصه اللّٰه منهم ورفعه إلى السماء “۔(فتح البیان فی مقاصد القرآن جلد 4 صفحہ 84 مطبوعہ مکتبہ العصریہ بیروت)62
”اور جب عیسیٰ علیہ السلام نے یہ روشن نشانات(معجزات)دکھلائے تو یہود نے آپ کے قتل کا قصد کیا۔ سو خدا تعالیٰ نے آپ کو ان میں سے صاف نکال لیا اور آسمان کی طرف اٹھا لیا“۔

اور اسی طرح تفسیر ابن کثیر میں یہ لکھا ہے:

أَيْ وَاذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ فِي كَفِّي إِيَّاهُمْ عَنْكَ حِينَ جِئْتَهُمْ بِالْبَرَاهِينِ وَالْحُجَجِ الْقَاطِعَةِ عَلَى نُبُوَّتِكَ وَرِسَالَتِكَ مِنَ اللَّهِ إِلَيْهِمْ، فَكَذَّبُوكَ وَاتَّهَمُوكَ بِأَنَّكَ سَاحِرٌ، وَسَعَوْا فِي قَتْلِكَ وَصَلْبِكَ فَنَجَّيْتُكَ مِنْهُمْ، وَرَفَعْتُكَ إِلَيَّ، وَطَهَّرْتُكَ مِنْ دَنَسِهِمْ، وَكَفَيْتُكَ شَرَّهُمْ “۔(تفسیر ابن کثیر جلد 3 صفحہ 201 مطبوعہ دار الکتب علمیہ بیروت)
یعنی ”اے مسیح علیہ السلام تو وہ نعمت یاد کر جو ان یہود کو تجھ سے دور ہٹا رکھنے بارے میں کی جب تو ان کے پاس یقینی دلائل اور قطعی ثبوت اپنی نبوت اور رسالت کے لایا تو انہوں نے تیری تکذیب کی اور تجھے تہمت لگائی کہ تو جادوگر ہے اور تیرے قتل و عذاب میں سعی کرنے لگے تو ہم نے تجھ کو ان میں سے نکال لیا اور اپنی طرف اٹھا لیا اور تجھے ان کی میل سے پاک رکھا اور ان کی شرارت سے بچا لیا“۔

اور اسی طرح تفسیر کبیر میں ہے:

رُوِيَ أَنَّهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ لَمَّا أَظْهَرَ هَذِهِ الْمُعْجِزَاتِ الْعَجِيبَةَ قَصَدَ الْيَهُودُ قَتْلَهُ فَخَلَّصَهُ اللَّه تَعَالَى مِنْهُمْ حَيْثُ رَفَعَهُ إِلَى السَّمَاءِ “۔(تفسیر کبیر جلد 12 صفحہ 460 مطبوعہ دار احیاء التراث بیروت)
”مروی ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ معجزاتِ مذکورہ دکھلائے تو یہود نے آپ کے قتل کا قصد کیا تو خدا تعالیٰ نے آپ کو ان میں سے اس طرح صاف نکال لیا کہ انہیں آسمان پر اٹھا لیا“۔

اور اسی طرح تفسیر خازن میں ہے:

وذلك أن عيسى عليه السلام لما أتى بهذه المعجزات العجيبة الباهرة قصد اليهود قتله فخلصه اللّٰه منهم ورفعه إلى السماء “۔(تفسیر خازن لباب التأویل فی معانی التنزیل جلد 2 صفحہ 91 مطبوعہ دار الکتب علمیہ بیروت)
”اور اس کا سبب یہ تھا کہ جب عیسیٰ علیہ السلام ایسے عجب اور روشن معجزات لے کر آئے تو یہود نے آپ کے قتل کا قصد کیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان میں سے صاف ہی نکال لیا اور آسمان پر اٹھا لیا“۔

مرزا صاحب قادیانی نے اپنے رسالہ ازالۂ اوہام میں ان آیاتِ تذکیر انعامات میں کہا ہے کہ اگر مسیح علیہ السلام آسمان پر اٹھائے گئے ہیں تو ایسا بھی ان نعمتوں میں کیوں معدود نہیں ہوا؟۔ جواباً معروض ہے کہ اگر چشمِ حق میں سے دیکھیں تو وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَنكَ (المائدہ5:110)اسی نعمت جلیلہ کی تذکیر کے لئے کافی ہے۔ کیونکہ جب بیانِ قرآنی کی رہنمائی سے مفسرین رحمہم اللہ نے صورتِ واقعہ کو ملحوظ رکھ کر اس آیت سے سمجھ لیا تو جس شخص پر یہ انعام وارد ہوا، وہ کیوں نہ سمجھے گا؟۔ فَتَدَبَّرْ لَعَلَّكَ تَرْشَدُ


سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کفار نے آگ میں ڈال دیا اور اللہ تعالیٰ نے آہ کو اس آگ سے بچا لیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہود نے حضرت روح اللہ کو صلیب پر چڑھا دیا مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو زندہ رکھا اور ان کے ہاتھ سے مرنے نہ دیا۔ تو اس میں کیا حرج ہے؟
جواب: مصنف رسالہ ”جواب باصواب“ کو بھی صفحہ 10 میں یہی خبط ہوا ہے۔ جناب! وقائع اور امورِ تاریخیہ میں قیاس کو بالکل دخل نہیں ہوتا بلکہ ان کا مدار صرف روایت و شہادت ہی پر ہوتا ہے۔ وقائع میں قیاسات کے مفید نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وقوعِ حوادث کی صورت واحد دون آخر نہیں ہوتی۔ پس حضرت روح اللہ علیہ السلام کے واقعہ کو قیاسِ محض سے واقعہ حضرت خلیل اللہ علیہ السلام کا ہم رنگ بنانا جہالت و سفاہت ہے۔ کیونکہ صورتِ نجات اسی ایک طریق پر منحصر نہیں ہے۔ کَمَا لَا یَخْفٰی عَلیٰ مَنْ لَہٗ اَدْنٰی تَاْمَّلٌ دیگر یہ کہ ہمارا دین سماعی ہے قیاسی نہیں۔ یعنی جو امر جس طرح قرآن و حدیث میں وارد ہے اسے اسی طرح تسلیم کرتے ہیں اور اپنے قیاساتِ سخیفہ اور خیالاتِ ضعیفہ پر مدار نہیں رکھتے۔ چونکہ قرآن مجید میں حضرت خلیل اللہ علیہ السلام کا آگ میں پڑنا اور پھر سلامت رہنا ذکر کیا گیا ہے، اس لئے اس واقعہ کو اسی طرح مانتے ہیں اور چونکہ حضرت روح اللہ علیہ السلام کا صلیب پر نہ چڑھایا جانا اور یہود کا آپ کو مس تک بھی نہ کر سکنا مذکور ہے، اسی لئے اسی طرح یقین رکھتے ہیں، اپنے خیال و قیاس سے کچھ نہیں کہتے۔

حضرت خلیل اللہ علیہ السلام کے واقعۂ نار کی بابت سورۂ انبیاء میں فرمایا:

قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَoوَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَاهُمُ الْأَخْسَرِينَ (الانبیاء 21:69،70)
”ہم نے کہا اے آگ تو ابراہیم علیہ السلام پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا اور انہوں نے ابراہیم علیہ السلام سے داؤ کرنا چاہا تھا پس ہم نے انہی نہایت زیانکار کر دیا“۔

اور سورت الصافات میں الْأَسْفَلِينَ (الصافات 37:98)یعنی ”نہایت پست“ فرمایا۔ سو ان آیات میں امر يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ مشعر اس امر کا ہے کہ آپ آگ میں ڈالئے گئے تھے۔ کیونکہ امر يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا نہیں ہو سکتا جب تک آگ موجود نہ ہو63 اور عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ صادق نہیں ہو سکتا۔ علاوہ اس کے حدیث میں رفعاً وارد ہوا:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَمَّا أُلْقِيَ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ فِي النَّارِ، قَالَ: اللَّهُمَّ إِنَّكَ فِي السَّمَاءِ وَاحِدٌ، وَأَنَا فِي الْأَرْضِ وَاحِدٌ أَعْبُدُكَ “۔(تفسیر ابن کثیر جلد 5 صفحہ 308 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت، الرد علی الجھمیۃ للدارمی جلد 1 صفحہ 52 الرقم:75 مطبوعہ دار ابن الاثیر کویت)
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام آگ میں ڈالے گئے تو آپ نے کہا اے خدا! تو آسمان میں واحد(لا شریک)ہے اور(اس وقت)زمین میں صرف میں اکیلا تیری(خالص)عبادت کرتا ہوں۔

نیز صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے موقوفاً وارد ہے:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ آخِرَ قَوْلِ إِبْرَاهِيمَ حِينَ أُلْقِيَ فِي النَّارِ: حَسْبِيَ اللَّهُ وَنِعْمَ الوَكِيلُ “۔(صحیح بخاری صفحہ1120 الرقم:4564مطبوعہ دار ابن کثیر بیروت)
یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام جب آگ میں ڈالے گئے تو آخری بات جو آپ نے کی وہ یہ تھی: ” حَسْبِيَ اللَّهُ وَنِعْمَ الوَكِيلُ “ یعنی ”مجھے صرف اللہ ہی کافی ہے اور وہی بہتر کارساز ہے“۔ پس اس سے آگ کا واقعہ صاف ثابت ہو گیا۔
نیز یہ کہ کفار کو اَخْسَرِیْنَ اور اَسْفَلِیْنَ کر دینا فرمایا اور خَاسِرِیْنَ و سَافِلِیْنَ نہ فرمایا۔ کیونکہ اسم تفضیل میں اسم فاعل پر از روئے معنی زیادتی ہوتی ہے۔ جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے۔ پس کفار الْاَخْسَرِیْنَ یعنی سخت زیانکار اور الَاسْفَلِیْنَ یعنی نہایت پست اور ذلیل تب ہی ہو سکتے ہیں جب اپنا سارا زور بل لگا چکیں۔ اور پھر اپنے ارادے میں ناکام رہیں۔
جیسا کہ سورۂ کہف کے اخیر میں فرمایا:
قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُم بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًاoالَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا (کہف18:103،104)

ترجمہ: (اے پیغمبر خدا! ان سے)”کہو کیا ہم تم کو بتائیں کہ اپنے اعمال میں کون نہایت زیانکار رہتے ہیں؟ ایسے وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی سعی اسی زندگی میں اکارت جائے اور وہ گمان کرتے ہیں کے ہم نیک کام کرتے ہیں“۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اخسر اس کو کہتے ہیں جس کی سعی اکارت جائے۔ نیز فرمایا:

فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَن قَالُوا اقْتُلُوهُ أَوْ حَرِّقُوهُ فَأَنجَاهُ اللَّهُ مِنَ النَّارِ (العنکبوت29:24)
یعنی ”ان کی قوم سے کوئی جواب اس کے سوائے بن نہ آیا کہ وہ کہنے لگے کہ اسے قتل کر ڈالو یا اسے آگ میں جلا دو۔ پس خدا نے اسے آگ سے نجات دی“۔

اس آیت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خلاف آپ کی قوم کی دو تجویزیں ذکر کی گئی ہیں۔ قتل یا آگ میں جلانا۔ پھر آگ سے بچا لینے کا ذکر کیا ہے۔ اس سے معلوم ہو گیا کہ کفار آگ میں ڈالنے کی تجویز کو عمل میں لائے تھے۔ لیکن خدائے قہار نے آپ کو اس گزند سے محفوظ رکھا۔ دیگر یہ لفظ نجات جو اس آیت میں وارد ہے اس جگہ بولا جاتا ہے جہاں کوئی مبتلائے مصیبت ہو اور پھر اس سے بچ جائے۔ چنانچہ فرمایا: قُلْ مَن يُنَجِّيكُم مِّن ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الانعام 6:63)اور نیز یہی وجوہاتِ مذکورہ اس امر کی مؤید ہیں کہ کفار کا کیدحضرت خلیل اللہ علیہ السلام کے خلاف صرف تدبیر تک ہی نہ رہا تھا، بلکہ صورتِ فعلیہ میں سرزد ہوا تھا اور پھر وہ اس میں ناکام رہے۔ بخلاف حضرت مسیح علیہ السلام کے کہ کفارِ یہود کا مکر صورتِ فعلیہ میں صادر نہیں ہوا جیسا کہ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا (ال عمران3:55)اور وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ (النساء 4:157)اور وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَنكَ (المائدہ5:110)سے ظاہر ہے۔

سوال: جب اللہ تعالیٰ دیگر رسولوں کو انہی اسبابِ ارضیہ سے اسی زمین میں مکائد کفار سے نجات دیتا رہا۔ جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کو ارضِ مقدسہ کی طرف اور اپنے خبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ طیبہ میں ہجرت کرائی تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کیوں آسمان پر اٹھا لیا؟ کیا زمین پر نہیں بچا سکتا تھا؟
جواب: مصنف رسالہ ”جواب باصواب“ کو بھی یہی خبط ہوا ہے۔ چنانچہ بڑے مبہوت ہو کر صفحہ 10 میں یہی سوال کرتے ہیں اور نیز صفحہ 13 کے حاشیہ میں فرماتے ہیں: ”چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس محصوریت سے نجات اس عالم ارضی اسباب اور قدرتی تائیدات سے ہو گئی تھے...الخ“۔ سو اس کا جواب بالتحقیق و التفصیل بَل رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ (النساء 4:158)کی تفسیر میں ذکر کیا جائے گا۔ انشا اللہ تعالیٰ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
61:اکمل صاحب فرماتے ہیں: باوجود وعدۂ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (المائدہ5:67)کے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دانت مبارک شہید ہوا.... کَفَفْتُ کا لفظ یَعْصِمُکَ سے زیادہ نہیں۔
جواب: اولاً تو یہ ہے کہ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (المائدہ5:67)دانت مبارک شہید ہونے کے بعد نازل ہوئی۔ ثانیاً یہ کہ عصمت کا لفظ اس موقع پر بولا جاتا ہے جب کوئی گرفتارِ مصیبت ہو اور پھر اس سے بچا لیا جائے۔ دیکھو سورۂ ھود میں ہے کہ نوح علیہ السلام کے بیٹے نے طوفان میں مبتلا ہونے کے وقت کہا: قَالَ سَآوِي إِلَىٰ جَبَلٍ يَعْصِمُنِي مِنَ الْمَاءِ (ھود11:43)اور حضرت نوح علیہ السلام نے اس کے جواب میں کہا: قَالَ لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ (ھود11:43)پس کف کا لفظ عصمت کی نسبت زیادہ ہوا۔
62:تفاسیر میں اس موقع پر جو خاصه اللّٰه وغیرہ الفاظ نقل کئے گئے تو ہمارے اکمل صاحب نہایت بولے پن سے کہتے ہیں کہ: ”پس ہمارا مدعا ثابت ہو گیا کہ کففت اور نجیت مترادف ہیں“(صفحہ18،19)
جواب: آپ نے ان تفسیروں میں نجیتك وغیرہ تو دیکھ لیا اور تصریح رفع الیٰ السمآء نہ دیکھی، حَفِظْتَ شيئاً وَغابَتْ عَنْكَ أشيَاءُ ۔
63:وجود خارجی بھی ہوتا ہے اور ذہنی بھی۔ خدا کے امت میں دونوں برابر ہیں۔ صورت اس کی یہ ہے کہ اگر خدا کے امت کے وقت مامور خارج میں موجود نہ ہو بلکہ خدا کے علم میں ہو تو خدا تعالیٰ اس صورتِ علمیہ کو امر کرتا ہے تو لزوماً خارج میں اس کا وجود ہو جاتا ہے۔ چنانچہ فرمایا: إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَن يَقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ (یٰس36:82)
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
کسر صلیب کی چوتھی آیت

وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ (ال عمران 3:45)
ترجمہ: ”صاحب وجاہت ہو گا دنیا و آخرت میں“۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صفت وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ سے موصوف کیا۔ اس لئے آپ مصلوب نہیں ہو سکتے کیونکہ مصلوبیت اس عالم دنیوی میں لحوقِ ذلت و خزی کا سبب ہے۔ اور خزی و خذلان منافیٔ وجاہت ہے۔ جیسا کہ سورۂ مائدہ میں بعد ذکرِ تصلیب وغیرہ کے فرمایا:

ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا (المائدہ5:33)
”یہ ان کے لئے زندگی میں خواری ہے“۔

معاذ اللہ اگر حضرت روح اللہ علیہ السلام صلیب پر لٹکائے جائیں تو وجاہت باقی نہیں رہتی خواہ صلیب سے زندہ اتارے جائیں۔ کیونکہ لحوقِ خزی کے لئے مجرد صلیب پر لٹکایا جانا ہی کافی ہے۔ موت بالصلیب ضروری نہیں وَ حَاشَا شَانُ رُوْحِ اللّٰهُ الْوَجِیْهِ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ عَنْ ذٰلِکَ (حضرت روح اللہ علیہ السلام جو دنیا اور آخرت میں وجاہت والے ہیں ان کی شان اس سے پاک ہے-ترجمہ از عبدالقیوم میر)پس عقیدۂ ملعونہ صلیبیہ بالکل مردود ہے۔

سوال: حضرت مسیح علیہ السلام اور آپ کی والدہ ماجدہ کی شان میں یہود بہبود نے کیسے کیسے نا شائستہ کلمات کہے کیا یہ امر منافی وجاہت نہیں؟

جواب: جھوٹے طعن اور بہتان سے شان بری میں کوئی قدح واقع نہیں ہوتا کیونکہ اذی بالقول اور وجاہت میں منافات نہیں۔ چنانچہ حضرت موسی علیہ السلام کی شان میں فرمایا:

فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَكَانَ عِندَ اللَّهِ وَجِيهًا (الاحزاب33:69)
یعنی ”پس خدا نے موسیٰ علیہ السلام کو اس سے جو انہوں نے کہا تھا بری کیا اور وہ خدا کے نزدیک صاحبِ وجاہت تھا“۔

پس جس طرح حضرت کلیم اللہ علیہ السلام کو مضمونِ مقولۂ یہود سے بری کیا اور آپ کی وجاہت میں کوئی نقص نہ آیا، اسی طرح حضرت روح اللہ اور کلمۃ اللہ علیہ السلام کو معجزۂ تکلم فی المہد سے طعنِ یہود سے بری کیا۔ پس آپ کی وجاہت میں کوئی فرق نہیں آ سکتا۔ فَافْھَمْ وَ تَدَبَّرْ
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
﴿فصلِ ثانی﴾

در اثباتِ حیات و رفعِ عیسیٰ علیہ السلام


حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور رفع الی السمآء بنصوصِ قطعیہ ثابت ہے۔ چنانچہ پہلی آیت یہ ہے:

إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا (ال عمران 3:55)
”جب کہا اللہ نے اے عیسیٰ علیہ السلام میں ہوں تیرا بھر لینے والا اور اٹھانے والا تجھ کو اپنی طرف اور پاک رکھنے والا تجھ کو کافروں سے“۔

اس آیتِ معنونہ کا آیتِ متقدمہ سے ارتباط اس طرح ہے کہ پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کے مکر (تدبیر محکم)کا ذکر تھا۔ اس آیت میں اس مکر کے وقت وقوع اور صورتِ وقوع کا ذکر کیا۔ نیز یہ کہ پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت خَيْرُ الْمَاكِرِينَ فرمائی تھی۔ اس آیت میں مکر(تدبیر محکم و کامل)کی ایک مثال ذکر کی جو اسی قصہ کے متعلق تھی۔ چنانچہ تفسیر کشاف میں ہے:

إِذْ قالَ اللَّهُ ظَرْفٌ لِّخَيْرُ الْمَاكِرِيْنَ أَوْ لِمَكَرَ اللَّهُ “۔(تفسیر کشاف جلد 1 صفحہ 366 مطبوعہ دار الکتاب بیروت)
إِذْ قالَ اللَّهُ ظرف ہے خَيْرُ الْمَاكِرِيْنَ کا یا مَكَرَ اللَّهُ کا۔

اسی طرح دیگر تفاسیر میں بھی ہے مثلاً بیضاوی، سراج منیر وغیرہ۔ غرض مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ آیت جملہ مَكَرَ اللَّهُ کی تفسیر کرتی ہے اور واضح طور پر کیفیت اور صورتِ مکر یعنی تدبیر الہٰی کو بیان کرتی ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت َخَيْرُ الْمَاكِرِيْنَ فرمائی اس لئے لا محالہ اس کی تدبیر رسولِ برحق کی شان میں خیر ہونی چاہئے اور اعداء الرسول کے حق میں مضر۔ ظاہر ہے کہ کفار ناہنجار کے ناپاک ہاتھوں سے صلیب پر چڑھایا جانا رسولِ مؤید معجزات کی شان میں خیر نہیں ہے۔ بلکہ رَفَعَ اِلَی السَّمَآء خیر الخیرات و احسن التدبیرات سے ہے۔

وقوع مکر یعنی رفع الی السمآء سے بیشتر يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ الآیه کی یہ ضرورت تھی کہ چونکہ کفار نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل و صلب کی از حد کوشش کیں اور آپس میں منصوبے باندھے اور آپ کی منزل مہبطِ رحمت الہٰیہ کا محاصرہ کر لیا۔ اس لئے ایسے نازک وقت میں تسلی کے لئے بشارتِ تخلیص از مکرِ اعدا ضروری تھی۔ کہ اے عیسیٰ (علیہ السلام) میں ان کافروں کو ان کے مکت میں کامیاب نہ ہونے دوں گا بلکہ تجھ کو اپنی طرف پورا پورا اٹھا لوں گا۔ ایسا کہ ان کے ہاتھ میں تیرا ایک بال بھی نہ آئے۔

چنانچہ تفسیر رحمانی میں ہے:

اِذْ قَالَ اللّٰهُ یَا عِیْسٰی اِعْلَامًا لَهُ بِمَکْرِہٖ بِالْاَعْدَآءِ وَ تَخْلِیْصِهٖ عَنْ مَکْرِهِمْ “۔(تفسیر تبصیر الرحمن و تیسیر المنان جلد 1 صفحہ113 مطبوعہ بولاق عالم الکتب مصر)
”جب اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی اس تدبیر پر واقف کرنے کے لئے کہا جو اس نے آپ کے دشمنوں سے کرنی تھی اور ان کے مکر سے آپ کو سلامت نکال لینے کے متعلق تھی“۔
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
تحقیق لفظ توفیّٰ

واضح ہو کہ توفی کی نسبت مرزا صاحب کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ لفظ صرف موت اور قبض روح کے لئے موضوع ہے اور یہ امر ان کے علوم رسمیہ اور لیاقتِ علمیہ سے بالکل بے بہرہ ہونے پر دلیلِ بین ہے۔ کیونکہ لفظ توفی لفظ وفا سے ماخوذ ہے اور وفا کے معنی ہیں پورا کرنا۔ چنانچہ لسان العرب میں ہے:

اَلْوَفَآءُ ضِدُّ الغَدْرِ يُقَالُ وَفَى بِعَهْدِهِ وَأَوْفَى بِمَعْنًى “۔(لسان العرب جلد 15 صفحہ 398 مطبوعہ دار صادر بیروت)
یعنی ” وفا غدر کی ضد ہے۔ چنانچہ محاورہ ہے کہ فلاں شخص نے اپنا عہد پورا کیا اور أَوْفَى (باب افعال)اسی کا ہم معنی ہے“۔

پس توفی باب تفعل ہے اسی مادۂ وفا سے۔ اس کے معنی ہوئے:
اخذُ الشَّیء وَافِیًا “۔یعنی ”کسی چیز کو پورا پورا لے لینا“۔

چنانچہ تفسیر کبیر، خازن، جامع البیان، بیضاوی، سراج منیر، ابی السعود اور فتح البیان اور سب تفاسیر میں اس امر کی تصریح موجود ہے اور دیگر ابواب جو مادۂ وفا سے آئے ہیں ان سب میں بھی یہی معنی ملحوظ ہیں۔ اور جس طرح سے مادہ کے حروف ہر صیغہ میں باقی رہتے ہیں اسی طرح مادہ معنی بھی ہر باب و صیغہ میں باقی رہتے ہیں۔

علم صرف میں ادنیٰ مہارت رکھنے والا بھی اسے بخوبی جانتا ہے۔ چنانچہ ہم ناظرین کی سہولت اور مزید تسلی کے لئے اس مادہ وَفَیَ سے جو جو بات زبانِ عرب میں مستعمل ہے ان سب کا نقشہ مع مثالوں کے لکھتے ہیں جس سے ظاہر ہو جائے گا کہ ہر باب کے ہر معنی میں اس کے مادی معنی یعنی ”پورا کرنا“ ملحوظ ہے۔
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
باب
مجرد ثلاثی
مادہ وفا سے مصدر
وَفَآَء
معنے مصدری
پورا کرنا، نبھانا
امثال
1) أَمَّا ابْنُ طَوْقٍ فَقَدْ أَوْفَى بِذِمَّتِهِ.... كَمَا وَفَى بِقِلَاصِ النَّجْمِ حَادِيهَا (لسان العرب جلد 15 صفحہ 398 مطبوعہ دار صادر بیروت)یعنی ”ابن طوق نے تو اپنا ذمہ پورا کر دیا...الخ“۔ لسان العرب اور مصباح میں زیر لفظ وفی اس شعر کو اس نے ذکر کیا ہے کہ مجرد وفیٰ اور مزید فیہ اوفیٰ دونوں ہم معنی ہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
باب

ثلاثی مجرد
مادہ وفا سے مصدر
وَفَآَء
معنے مصدری
پورا کرنا، نبھانا
امثال
2)لسان العرب میں یہ بھی ہے: وَفِي الْحَدِيثِ: فَمرَرْت بقَوْمٍ تُقْرَضُ شِفاهُهُم كلّما قُرضَتْ وَفَتْ أَي تَمَّتْ وطالَتْ (لسان العرب جلد 15 صفحہ 398 مطبوعہ دار صادر بیروت)یعنی ”حدیث میں آیا ہے: میں دوزخیوں کی ایک قسم پر گزرا جن کے ہونٹ کاٹے جاتے تھے۔ جب جب کاٹے جاتے پھر ”پورے“ ہو جاتے تھے“۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
باب

افعال مزید فیہ
مادہ وفا سے مصدر
اِیفآء
معنے مصدری
پورا کر دینا، پورا دینا
امثال
) أَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ (البقرہ2:40)یعنی (اے بنی اسرائیل)تم میرا عہد(جو مجھ سے کیا ہے)پورا کرو، میں تمہارا عہد(جو تم سے کیا ہے)پورا کروں گا۔
2) وَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ (الانعام6:152)”اور پیمانے اور ترازو کو عدل سے ”پورا کرو“ یعنی پورا پورا ماپ کر اور تول کر دو۔
3) إِذا غَدَرَت حَسناءُ وَفَّت بِعَهدِها....فَمِن عَهدِها أَن لا يَدومَ لَها عَهدُ (متنبی)ترجمہ: جب خوبصورت محبوبہ عہد شکنی کرے تو وہ اپنے عہد کو ”پورا“ ہی کرتی ہے۔ کیونکہ اس کے عہد میں سے یہ بھی ہے کہ اس کا عہد مدامی نہ ہو۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
باب
تفعیل
مادہ وفا سے مصدر
توفیۃ
معنے مصدری
پورا دینا
امثال
1) فَيُوَفِّيهِمْ أُجُورَهُمْ (ال عمران3:57)اسی آیت إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ سے تھوڑا آگے۔ ترجمہ: پس خدا تعالیٰ ان کو ان کے اجر پورے دے گا۔
2) وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (ال عمران3:185)ترجمہ: سوائے اس کے نہیں کہ تمہارے اجر پورے پورے تم کو قیامت کے دن دیئے جائیں گے۔
3) وَإِبْرَاهِيمَ الَّذِي وَفَّىٰ (النجم53:37)ترجمہ: ”اور ابراہیم علیہ السلام (کے صحیفوں میں)جس نے پورا کر دکھایا“۔ لسان العرب میں یہ بھی لکھا ہے: وَفَى بِالشَّيْءِ وأَوْفَى ووفَّى بِمَعْنًى وَاحِدٍ (لسان العرب جلد 15 صفحہ 399 مطبوعہ دار صادر بیروت) یعنی اس کا مجرد اور باب افعال اور باب تفعیل(تینوں)ہم معنی ہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
باب
استفعال
مادہ وفا سے مصدر
استیفآء
معنے مصدری
پورا پورا لے
امثال
1) إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ (المطففین83:2)ترجمہ: ”جب لوگوں سے ماپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں۔
2) تَوَفَّیْتُ مِنْهُ دَرَاهِمِی ۔ ترجمہ: ”میں نے اس سے اپنے درہم پورے وصول پائے“۔ یہ محاورہ تفسیر کبیر، تفسیر خازن اور تفسیر سراج منیر میں زیر آیت إِنِّي مُتَوَفِّيكَ لکھا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
باب
تفعُّل
مادہ وفا سے مصدر
توفی
معنے مصدری
(2)موافقت باب استفعال یعنی توفیٰ و استیفاء دونوں کے ایک ہی معنی ہیں، کامل اور پورا لےلینا
امثال
) اِسْتَوْفَاهُ وَتَوَفَّاهُ: اِسْتَكْمَلَهٗ (اساس البلاغہ جلد 2 صفحہ 347 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)ترجمہ: اِسْتَوْفَاهُ اور تَوَفَّاهُ کے معنی یہ ہیں اس نے اسے کامل لے لیا۔
2) تَوَفَّيْتُ الْمَالَ مِنْهُ واِسْتوْفَيْتُهٗ إِذَا أَخَذَتُهٗ كُلَّهُ (لسان العرب جلد 15 صفحہ 400 مطبوعہ دار صادر بیروت) یعنی تَوَفَّيْتُ الْمَالَ اور اِسْتوْفَيْتُه دونوں کے یہ معنی ہیں کہ اس نے پورا پورا لے لیا اور اس سے کچھ بھی نہ چھوڑا۔
3) وَتَوَفَّاه هُوَ مِنْهُ وَاِسْتَوْفاهُ لَمْ يَدَعْ مِنْهُ شَيْئًا (لسان العرب جلد 15 صفحہ 400 مطبوعہ دار صادر بیروت) تَوَفَّا مِنْهٗ اور اِسْتَوْفَاہُ دونوں کے یہ معنی ہیں کہ اس نے پورا پورا لے لیا اور اس سے کچھ بھی نہ چھوڑا۔
4) تَوَفَّيْتُهُ وَاِسْتَوْفَيْتُهُ بِمَعْنًى (مصباح المنیر جلد 2 صفحہ 667 مطبوعہ مکتبہ العلمیہ بیروت)یعنی تَوَفَّيْتُ اور اِسْتَوْفَيْتُ دونوں ہم معنی ہیں۔
5) استیفآء توفی تمام گر فتن حق ۔ یعنی دونوں کے معنی ہیں حق پورا لے لینا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
باب
تفعل
مادہ وفا سے مصدر
توفی
معنے مصدری
پورا پورا گن لینا
امثال
1) تَوَفَّيْتُ عَدَدَ الْقَوْمِ إِذَا عَدَدْتُهُمْ كُلَّهُمْ (لسان العرب جلد 15 صفحہ 400 مطبوعہ دار صادر بیروت)یعنی میں نے سب قوم کی گنتی پوری لے لی۔ اس کی شہادت کے لئے لسان العرب میں یہ شعر لکھا ہے:
2) إنَّ بَنِي الأَدْرَدِ لَيْسُوا مِنْ أَحَدْ .... وَلَا تَوَفَّاهُمْ قُرَيشٌ فِي العددْ (ایضاً)تحقیق بنی ادرد کسی میں سے نہیں اور قریش نے ان کی گنتی پوری نہیں کی۔

مجازاً
معنے مصدری
1)سلا دینا بقرینہ لیل
2)رات اور منام و کریٰ(نیند) وغیرہ
امثال
1) وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُم بِاللَّيْلِ (الانعام6:60)”خدا ایسی ذات ہے کہ تم کو رات کے وقت پورا لیتا ہے یعنی سلا دیتا ہے“۔
2) اَللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا (الزمر 39:42)”خدا ہی پورا پکڑتا ہے جانوں کو ان کی موت(جسم اور روح کی مفارقت)کے وقت اور جو(ابھی)نہیں مریں(ان کو پورا پکڑتا ہے)ان کی نیند کے وقت یعنی سلا کر“۔
3) فَلَمَّا تَوَفَّاهُ رَسُوْلُ الْكَرٰی وَ دَبَّتِ الْعَیْنَانِ فِی الْجَفَنٖ ۔ ترجمہ: جب اسے نیند کے فرشتے نے پکڑ لیا الخ یعنی وہ سو گیا۔
4)لسان العرب میں کہا ہے: وأَمّا تَوَفِّي النَّائِمِ فَهُوَ اسْتِيفاء وقْت عَقْله وَتَمْيِيزِهِ إِلى أَن نامَ (لسان العرب جلد 15 صفحہ 400 مطبوعہ دار صادر بیروت)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
باب
تفعل
مادہ وفی سے مزید فیہ
توفی
معنے مصدری
مجازاً
مار لینا بقرینہ موت و ملک الموت وغیرہ
امثال
1) اَللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا (الزمر39:42)یعنی خدا ہی جانوں کو قبض کرتا ہے ان کی موت کے وقت یعنی مارتا ہے۔
2) قُلْ يَتَوَفَّاكُم مَّلَكُ الْمَوْتِ (السجدہ32:11)یعنی(اے پیغمبر ان سے)کہو تم کو قبض کرے گا ملک الموت یعنی تم کو مارے گا“۔
3) حَتَّىٰ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ (النساء4:15)یعنی ”حتیٰ کہ قبض کرے ان کو موت یعنی وہ مر جائیں“۔

نوٹ: ان سب آیات میں توفیٰ سے موت مراد لینے کے لئے موت اور ملک الموت قرائن ہیں اور یہ معنی مجازی ہیں۔ چنانچہ آئندہ واضح ہو گا۔ انشاء اللہ

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
2pr62r7.jpg

10de62t.jpg

nbujd0.jpg

34g8zsi.jpg

 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
تنبیہ

واضح ہو کہ توفیٰ بمعنی موت مجازاً ہے، نہ حقیقۃً و وضعاً۔ جیسا کہ اساس البلاغۃ میں ہے:
وَمِن الْمَجَاز 64.... تُوُفِّيَ فَلان وَتَوَفّاهُ اللّٰهُ تعالی وَأَدْرَكَتْهُ الْوَفَاةُ “۔(اساس البلاغہ جلد 2 صفحہ 248 مطبوعہ دار الکتب علمیہ بیروت)یعنی یہ مجازات ہیں۔

اور لسان العرب میں اس کی وجہ میں کہا ہے:
تَوَفِّي الْمَيّتِ اسْتِيفآءُ مُدَّتِه الَّتِي وُفِيتْ لَهُ وعَدَدِ أَيامِه وشُهورِهٖ وأَعْوَامِهٖ فِي الدُّنْيَا “(لسان العرب جلد 15 صفحہ 400 مطبوعہ دار صادر بیروت)
ترجمہ: میت کی توفی سے مراد اس کی مقررہ مدت اور اس کے دنیا میں رہنے کے دنوں، مہینوں اور سالوں کی گنتی پورا کرنا۔

ائمہ لغت اور ائمہ تفسیر بلا خلاف مادہ وفا کے باب تفعل و استفعال کو ہم معنی ذکر کرتے ہیں۔ چنانچہ علامہ فیومی مصباح المنیر میں فرماتے ہیں:
تَوَفَّيْتُهُ وَاِسْتَوْفَيْتُهُ بِمَعْنًى (مصباح المنیر فی غریب شرح الکبیر جلد 2 صفحہ 667 مطبوعہ مکتبہ العلمیہ بیروت)یعنی تَوَفَّيْتُ اور اِسْتَوْفَيْتُ دونوں ہم معنی ہیں۔ میں نے اسے پورا لے لیا۔

اِسْتَوْفَاهُ وَتَوَفَّاهُ اِسْتَكْمَلَه

اسی طرح تفسیر کبیر اور تفسیر خازن اور تفسیر معالم میں بھی ان کو ہم معنی ذکر کیا گیا ہے اور صراح اور قاموس میں بھی ایسا ہی بیان ہے اور اساس البلاغۃ میں لکھا ہے کہ اِسْتَوْفَاهُ اور تَوَفَّاهُ دونوں کے معنی ہیں اس نے اسے کامل لے لیا۔

مرزا صاحب قادیانی نے اپنے آئینہ وساوس65 کے صفحہ 564(روحانی خزائن جلد 5آئینہ کمالات اسلام: صفحہ 564)میں جہاں اپنے آپ کو خدا بنایا ہے۔ اِسْتَوْفَانِیْ لکھا ہے اور اس جگہ فاعل اللہ تعالیٰ ہے اور مفعول خود مرزا صاحب، ذی روح۔ اور اس سے مراد موت نہیں ہے۔ پس مرزا صاحب کا یہ کہنا کہ لفظ توفی سوائے قبض روح کے کسی اور معنی میں مستعمل نہیں ہوتا، بالکل غلط اور مردود ٹھہرا۔ کیونکہ جب بتصریح ائمہ لغت و تفسیر ثابت ہو چکا ہے کہ توفی اور استیفاء ہم معنی ہیں تو جس طرح استیفآء سوائے معنی موت کے مستعمل ہوتا ہے، اسی طرح توفی کے سوائے معنی موت کے استعمال کو کون مانع ہے؟ خصوصاً جب محاورہ تَوَفَّیْتُ مِنْهُ دَرَاهِمِی مندرجہ
تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 237 مطبوعہ دار احیاء التراث بیروت یعنی ”میں نے اس سے اپنے درہم پورے بھر پائے“ زبان عرب میں ‏ذائع و شائع ہو۔

پس جب آئمہ لغت و تفسیر بالاتفاق لکھتے ہیں کہ اس مادہ کی باب تفعل اور استفعال کے معنی ایک ہی ہیں اور قرآن مجید اور لغت میں سے استیفاء کے معنی پورا پورا لے لینا ثابت کیا گیا ہے تو اب توفی کے معنی پورا پورا کرنے میں کیا تردد باقی رہا۔ علاوہ بریں جب علمِ اشتقاق و تصریف سے بھی واضح ہو گیا کہ یہ لفظ توفی مادہ وفا کا مزید دیہ ہے اور وفا کے معنی بحسب الوضع موت نہیں بلکہ پورا کے ہیں تو پھر باوجود اتنی تصریحات کے کوئی شخص اپنی ضد نہ چھوڑے اور بے تکی ہانکتا جائے کہ توفی موت اور قبضِ روح کے لئے موضوع ہے تو کیا اس کی لیاقتِ علمی ہنسی کے قابل نہیں ہو گی؟

باقی رہا یہ امر کہ یہ لفظ قرآن شریف میں بمعنی موت مستعمل ہوا ہے، سو ہم اس انکار نہیں کرتے کیونکہ معنی مستعمل فیہ اور موضوع لہ میں فرق ہوتا ہے۔ استعمال سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ لفظ اصل میں موت کے لئے وضع کیا گیا تھا اور اس کے حقیقی معنی بس قبضِ روح ہی کے ہیں۔ جس قدر محاورات میں لفظ توفی جن معنوں میں مستعمل ہوا ہے اگر ان میں سے کسی میں بھی کوئی مدعئ علم و فضل ہم کو اس کے وضعی اور حقیقی معنوں ”پورا پورا لے لینا“ سے باہر ثابت کر دے تو بے شک ہم اس کے بے دام غلام ہیں۔ اس لفظ کا اطلاق موت کے معنی پر بھی صرف اس لئے ہے کہ موت بھی ایک قسم66 کی توفی یعنی پوری پوری گرفت ہوتی ہے۔ نہ اس اعتبار سے کہ یہ بمعنی موت موضوع ہے۔

چنانچہ تفسیر بیضاوی میں زیر آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی (المائدہ5:117)لکھا ہے:

التوفي أخذ الشيء وافياً، والموت نوع “۔(تفسیر بیضاوی جلد 2 صفحہ 151 مطبوعہ دار احیاء التراث بیروت)
”توفی کے معنی ہیں کسی چیز کو پرا پورا لینا اور موت اس کی ایک نوع ہے“۔

اسی طرح توفی کا اطلاق قرآن شریف میں نیند پر بھی آیا ہے۔ یہ بھی اسی لئے ہے کہ نیند بھی ایک قسم کی توفی یعنی پوری پوری گرفت ہوتی ہے اور عیسیٰ علیہ السلام کے مقدمہ میں جو توفی کے معنی رفع الی السمآء لئے جاتے ہیں تو اسی اعتبار سے کہ یہ بھی ایک قسم کی توفی یعنی پوری پوری گرفت ہے اور قرض وصول کر لینے پر بھی ایک قسم کی توفی یعنی پوری پوری گرفت ہے اور قرض وصول کر لینے پر بھی اس کا اطلاق محاورۂ زبانِ عرب میں پایا گیا ہے تو وہ بھی اسی لحاظ سے کہ قرض پورا پورا لے لیا جاتا ہے۔ الغرض توفی کے جس قدر محاورات و استعمالات ہیں خواہ وہ قرآن مجید میں ہیں، خواہ حدیث شریف میں، خواہ دوا دین عرب میں، ان سب میں اس کے وضعی اور حقیقی معنی أَخْذُ الشَّيْءِ وَافِياً یعنی کسی چیز کو پورا پورا لے لینا ہی ملحوظ ہیں اور بس۔ اور ظاہر ہے کہ جس لفظ کے کئی معنی یا کئی استعمالات ہوں اس کو ایک معنی میں معین کرنے کے لئے ضرور ضرور کوئی قرینہ موجود ہونا چاہئے۔ کیونکہ متکلم کی مراد ایک وقت میں اس لفظ سے ایک ہی ہے۔ پس توفی کے ساتھ اگر موت اور اس کے لوازمات کا ذکر ہوگا تو اس کے معنی موت ہوں گے اور اگر نیند اور اس کے مقتضیات مذکور ہوں گے تو توفی کے معنی سلا دینا ہوں اور اگر اس ساتھ ذکر رفع کا ہو گا تو اس سے مراد رفع ہو گی اور اگر اس کے ساتھ درہم و دینار وغیرہ اشیاء کا ذکر ہو گا تو اس کے معنی ان کا قبض کرنا ہوں گے اور اگر اس کے ساتھ عدد اور گنتی کا ذکر ہو گا تو اس کے معنی پورا پورا گن لینا ہوں گے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
64:اکمل صاحب اپنی شہادت کے صفحہ 20 میں خاکسار کو الزاماً کہتے ہیں: ”موت کے معنی مجاز کہنا آپ ہی کی ایجاد ہے“۔
جواب: مرزا صاحب خود اور ان کی جماعت بھی علوم عربیہ سے بالکل بے بہرہ ہے۔ میں تو علامہ زمخشری رحمۃ اللہ علیہ کا حوالہ دیتا ہوں اور وہ کہتے ہیں کہ یہ آپ ہی کی ایجاد ہے۔ چہ خوش
65: یہ کتاب مرزا صاحب کی تصنیف ہے۔ اس کے دو نام ہیں: آئینہ کمالاتِ اسلام اور دافع الوساوس۔ ہم نے دونوں کو ترکیب امتزاجی سے ایک کرکے لکھا ہے۔
66:اکمل صاحب قادیانی علمی باتوں کے نہ سمجھنے میں بہت کامل ہیں۔ ہم نے جو تفاسیر معتبرہ کی عبارات سے موت کو توفی کی ایک نوع ثابت کرکے ظاہر کر دیا کہ توفی موت کے لئے موضوع نہیں تو ہمارے اکمل صاحب ایسی بات کو بھی نہ سمجھ کر اس پر لکھتے ہیں: ”جب موت توفی کی قسم ہے تو بھی وضعی معنی ہوئے نہ کہ مجازی“(صفحہ 20)
جواب: بریں اکملیت بیائد گریست! جنابِ من قسم اور مقسم کی وضع ایک نہیں ہوتیں لہٰذا کوئی لفظ اپنے مفہوم کلی اور اس کی انواع ہر دو کے لئے موضوع نہیں ہوتا۔ فافہم
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
ثانیاً برائے اثبات جہالت قادیانی

سورۂ زمر میں ہے:

اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى الآية (زمر39:42)
یعنی ”اللہ ہی پورا پکڑتا ہے جانوں کو ان کی موت کے وقت اور جو ابھی نہیں مریں ان کو(پورا پکڑتا ہے)ان کی نیند کے وقت۔ پس اس جان کو بند رکھتا ہے جس پر حکم جاری کیا اور دوسری کو چھوڑ دیتا ہے، مقررہ مدت تک“۔

سورۂ انعام میں فرمایا:

وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُم بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُم بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ لِيُقْضَىٰ أَجَلٌ مُّسَمًّى الآية (الانعام6:60)
”اللہ وہ ہے جو تم کو رات کے وقت پوری گرفت کرتا ہے اور جو کچھ تم دن کو کرتے ہو جانتا ہے۔ پھر تم کو دن میں اٹھا کھڑا کرتا ہے تاکہ اجل مسمٰی پوری کی جائے“۔

ان آیتوں میں توفی کی دو انواع موت اور منام مذکور ہوئی ہیں۔ توفی بالموت کی صورت قبضِ روح مع الامساک ذکر کی گئی ہے اور توفی بالنوم کی صورت قبضِ روح مع الارسال بیان کی گئی ہے۔ پس قبضِ روح جو دونوں میں مشترکہ ہے، جنس ہے امساک اور ارسال فصل ہے۔

وَهُوَ الَّذِي يُمَيِّزُ الشَّيْءَ عمَّا يُشَاركُهُ فِي الجْنْسِ (کتب منطق)
یعنی ”فصل اسے کہتے ہیں جو کسی چیز کو اس چیز سے متمیز کرے جو جنس میں اس کی شریک ہو“۔

پس بموجبِ مذہبِ مرزا صاحب توفی صرف قبضِ روح کے لئے موضوع چاہئے نہ موت اور قبضِ روح ہر دو کے لئے۔ کیونکہ ان دونوں میں نسبت عموم و خصوص ہے اور کوئی لفظ معنی اعم و اخص ہر دو کے لئے موضوع67 نہیں ہوتا۔ فافہم

ثالثاً

اگر مرزا صاحب صرف قبضِ روح ہی کو مدلول وضعی قرار دیں تو یہ بھی ان کی بے علمی و بے استعدادی پر دلیل ظاہر ہو گی۔ کیونکہ توفی لفظ مفرد ہے اور قبضِ روح مرکب۔ زیرا کہ ثانی میں جزءِ لفظ جزءِ معنی پر دال ہے یعنی قبض دال ہے۔
اخذ پر اور روح دال ہے شئے مقبوض پر بخلاف اوّل کے کہ اس میں جزءِ لفظ جزءِ معنی پر دلالت نہیں کرتی۔ لہٰذا لفظ توفی مفرد کا مدلول قبضِ روح جو مرکب ہے درست نہیں۔ اسی لئے سورۂ زمر کی آیت میں صرف یتوفی نہیں کہا بلکہ یتوفی الانفس کہا ہے تاکہ توفی دلالت کرے اخذ پر اور انفس کہ مدلول اس کا ارواح ہے دلالت کرے شئے مقبوض پر اور بعد ترکیب کے معنیٔ مرکب پیدا ہوں۔ اگر توفی(مفرد)کے معنی قبضِ روح(مرکب)ہیں لفظ نفس کی کیا ضرورت تھی۔ پس ثابت ہوا کہ توفی کے حقیقی معنی مطلق قبضِ کے ہیں، نہ قبضِ روح کے۔ وَ هٰذَا هُوَا الْمُراد

رابعاً

الثاني: أن المراد بالتوفي النوم ومنه قوله عز وجل: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها والتي لم تمت في منامها فجعل النوم وفاة، وكان عيسى قد نام فرفعه اللّٰه وهو نائم لئلا يلحقه خوف “۔(تفسیر خازن جلد1 صفحہ 251 مطبوعہ دارالکتب علمیہ بیروت)
”(اس جگہ)توفی سے مراد نیند ہے۔ اور اسی سے ہے آیت اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ...الخ ۔ پس اس میں خدا تعالیٰ نے نیند کو بھی وفات کہا ہے۔ پس إِنِّي مُتَوَفِّيكَ سے مراد یہ ہوئی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سو گئے تھے۔ پس خدا نے آپ کو نیند ہی میں اوپر اٹھا لیا تاکہ آپ کو خود لاحق نہ ہو“۔
اور اسی طرح دیگر تفاسیر مثل درِمنثور، ابن کثیر، فتح البیان، معالم، تفسیر کبیر میں بھی اس امر کی تصریح موجود ہے۔

پس اب تو مرزا صاحب کا سارا تانا بانا ٹوٹ گیا اور ان کے ہاتھوں میں سوائے ابلہ فریبی و تاویلاتِ باطلہ و تحریفات کاسدہ کے اور کچھ نہ رہا۔ کیونکہ صاف ثابت ہو گیا کہ توفی کے معنی اخذُ الشَّیء وَافِیًا ہیں۔ اس پر زیادۃ بالنظر الی المتعلق والقرائن کی جائے گی۔ نہ بحسب الوضع۔ پس توفی کا متعلق یا تو صرف جسم ہو گا یا صرف روح یا جسم مع روح۔ پھر اگر روح ہے تو یا مقبوض الامساک ہو گا اسے موت کہیں گے۔ یا مع الارسال اسے نیند بولیں گے۔ ان ہر دو میں دو دو امر علاوہ مفہوم کے اعتبار سے کئے گئے۔ موت میں روح اور امساک، اور منام میں روح اور ارسال۔ پس مرکب معانی کے لئے ترکیبِ الفاظ بھی ضروری ہے۔ لہٰذا اس ترکیب کے لئے ضروری ہوا کہ متعلق توفی اور قرائن کی طرف نظر کی جائے:

1)قبضِ روح مع الامساک اور قبضِ روح مع الارسال کی مثال سورۂ زمر کی وہ آیت ہے جو اوپر مذکور ہو چکی ہے۔ یعنی:
اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى الآية (زمر39:42)
”اللہ ہی روحوں کو قبض کرتا ہے ان کی موت(مفارقتِ روح و بدن)کے وقت اور جو روحیں ابھی نہیں مریں ان کو قبض کرتا ہے ان کی نیند میں۔ پس جس روح پر موت کا حکم جاری کیا ہے اس کو تو روک رکھتا ہے اور دوسری(نیند والی)کو مدتِ مقرر(موت)تک بھیجتا رہتا ہے“۔
اس آیت میں ہر معنی کے لئے ایک لفظ مذکور ہے۔ یعنی قبض کے لئے يَتَوَفَّى اور روح کے لئے الْأَنفُسَ اور مرنے کے لئے موت اور امساک کے لئے يُمسِکُ اور نیند کے لئے مَنَامِ اور ارسال کے لئے يُرْسِلُ ۔

2)صرف قبضِ جسم کی مثال محاورہ عرب شائعہ فی اللسان مندرجہ تفسیر کبیر، خازن وغیرہ: تَوَفَّیْتُ مِنْهُ دَرَاهِمِی ۔(میں نے اس سے اپنے درہم پورے لئے)۔

3)قبضِ جسم مع روح یعنی زندہ چیز کو اخذ کرنے کی مثال آیات إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ اور فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی بقرینہ رَافِعُكَ إِلَيَّ اور بَل رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ ۔ فَافْهَمْ وَتَدَبَّرْ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
67:اکمل صاحب نے عموم و خصوص کے متعلق ایک خاص علمی کمال دکھایا ہے۔ فرماتے ہیں: ”حالانکہ قبضِ روح عین موت کا مترادف ہے“۔ (صفحہ21)
بندۂ خدا! عام و خاص میں ترادف کہاں؟ ترادف میں اتحادو مساوات لا لحاظ ہوتا ہے اور عام و خاص میں کمی بیشی ہوتی ہے۔ پس ان میں ترادف کا ادعا باطل ہے۔
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سوال: بے شک علم تصریف اور علمی تحقیق سے ثابت ہو گیا کہ توفی کے معنی پورا پورا لے لینا ہیں۔ لیکن لغت کی بعض کتابوں میں جو توفی بمعنی موت کہا ہے اس کا کیا جواب ہے؟
جواب: کتب لغت میں حقیقی، منقولی اور مجازی ہر طرح کے معنی لکھے ہوتے ہیں مگر ان کی تعیین حسبِ قرائن حالیہ و مقالیہ سلسلۂ عبارت سے مفہوم ہوتی ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ ابتدا میں لفظ جس معنی کے لئے وضع کیا گیا تھا اسے اس کے حقیقی اور وضعی معنی کہتے ہیں۔ پھر یا تو لفظ کا ایک ہی معنی ہو گا یا زیادہ۔ پھر زیادہ یا تو بحسب الوضع ہوں گے، اسے مشترک کہتے ہیں۔ مثلاً عین جو بمعنی زر، زانو، چشمۂ آب اور آنکھ ہے یا وضع میں تو ایک معنی تھا مگر اس کے مفہوم میں کئے چیزیں پائی گئیں اسے جنس کہتے ہیں۔ اور ہر اس چیز کو جس پر اس کا اطلاق ہو سکتا ہے اس کی نوع کہتے ہیں۔ مثلاً حیوان کہ جنس ہے اور گھوڑا اور گدھا اس کی انواع ہیں صرف اس اعتبار سے کہ وہ جاندار ہیں۔ نہ اس لئے کہ حیوان بحسب الوضع ان سے کے لئے موضوع ہے اور یا کثرت بہ سبب دیگر معانی میں منقول ہونے کے ہو گی۔ پھر اگر عرفِ عام نے نقل کیا ہے تو اسے منقولِ عرفی کہتے ہیں مثلاً دابہ کہ اصل میں موضوع ہے ہر جاندار کے لئے جو زمین پر چلے اور غالب معنی اس کے سواری کے جانور ہیں اور اگر اس کی ناقل شرع ہے تو اسے منقولِ شرعی کہتے ہیں۔ مثلاً صوم و صلوٰۃ و زکوٰۃ و حج کے لغت میں ان کے وضعی معنی اور ہیں مگر شریعت میں یہ الفاظ اور معانی میں مخصوص ہیں اور اگر اس کا ناقل کوئی خاص طائفہ ہے تو اسے منقولِ اصطلاحی کہیں گے مثلاً مصطلحاتِ علمیہ و کتبِ منطق، قطبی وغیرہ۔ اب ظاہر ہے کہ توفی بحسب الوضع بمعنی موت موضوع نہیں۔ کیونکہ اس کا ماخذ و مادہ وفا ہے اور نہ یہ لفظ مشترک المعنی ہے کہ اس کے معانی متعددہ میں سے ایک موت بھی ہو۔ اور نہ منقولِ شرعی ہے کیونکہ ایسے الفاظ میں تصرف کرنے سے شریعت کو کچھ تعلق نہیں۔ اور نہ منقولِ اصطلاحی ہے کیونکہ یہ کسی علم اور فن کی اصطلاح نہیں۔ اگر ہے تو یہی کہ یہ لفظ بروئے علم اشتقاق وفا سے ماخوذ ہے اور اس کے حقیقی اور وضعی معنی اَخْذُ الشَّیء وَافِیًا یعنی ”کسی چیز کو پورا پورا پکڑ لینا ہیں“۔ اور چونکہ اس کے مفہوم میں رفع اور موت اور نیند بھی داخل کیونکہ یہ بھی پوری پوری گرفت ہیں اس لئے اس لفظ کا اطلاق رفع اور موت اور نیند پر بھی درست ہو گا، صرف اس اعتبار سے کہ توفی جنس ہے اور رفع اور موت اور نوم اس کی انواع ہیں، نہ اس لئے کہ یہ لفظ بحسب الوضع موت کے لئے موضوع ہے۔ توفی کے جنس اور رفع اور موت اور نیند کے انواع ہونے پر تفاسیر معتبرہ شاہد ہیں۔

چنانچہ تفسیر کبیر میں امام رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
قَوْلُهُ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ يَدُلُّ عَلَى حُصُولِ التَّوَفِّي وَهُوَ جِنْسٌ تَحْتَهُ أَنْوَاعٌ بَعْضُهَا بِالْمَوْتِ وَبَعْضُهَا بِالْإِصْعَادِ إِلَى السَّمَاءِ، فَلَمَّا قَالَ بَعْدَهُ وَرافِعُكَ إِلَيَّ كَانَ هَذَا تَعْيِينًا لِلنَّوْعِ وَلَمْ يَكُنْ تَكْرَارًا “۔(تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 238 مطبوعہ دار احیاء التراث بیروت)
”خدا تعالیٰ کا قول إِنِّي مُتَوَفِّيكَ صرف حصول توفی پر دلالت کرتا ہے اور یہ جنس ہے جس کے تحت کئی انواع ہیں کوئی بالموت اور کوئی بالرفع الی السمآء۔ پس جب خدا تعالیٰ نے اس کے بعد وَرَافِعُكَ إِلَيَّ فرما دیا تو یہ نوع کی تعیین کے لئے ہوا نہ کہ تکرار“۔68

اسی طرح تفسیر بیضاوی و سراج منیر میں بذیل آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي لکھا ہے:

تَوَفَّيْتَنِي بالرفع إلى السماء لقوله: إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ والتوفي أخذ الشيء وافياً، والموت نوع منه قال اللّٰه تعالى: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنامِها “۔(تفسیر بیضاوی جلد 2 صفحہ 151 مطبوعہ دار احیاء التراث بیروت، سراج منیر جلد 1 صفحہ 408 مطبوعہ بولاق الأمیریۃ)
فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي کے معنی یہ ہیں کہ خدایا جب تو نے مجھے آسمان پر اٹھا لیا بدلیل إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَّ کیونکہ توفی کے معنی ہیں کہ کسی شئی کو پورا پورا لے لینا اور موت اس کی ایک نوع ہے۔ چنانچہ خدا نے فرمایا: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ الآیة ۔

حاصل مطلب یہ کہ لفظ توفی بحسب الوضع موت کے لئے موضوع نہیں ہے۔ صرف اس کا استعمال اس نسبت سے جو جنس اور نوع میں ہوا کرتی ہے بمعنی موت ہے اور بس۔ اور چونکہ تعیین نوع کے لئے حاجت قرینہ کی پڑا کرتی ہے لہٰذا سلسلۂ عبارت میں قرائن حالیہ و مقالیہ پر نظر کریں گے۔ جیسے کہ عین کے لئے یہ موضوع ہے معانی متعددہ مثل زر، چشم، زانو اور چشمۂ آب کے لئے( بالا وضاع المختلفه )تو اب ہر جگہ اس کا ایک ہی معنی نہ ہو گا اور نہ ایک جگہ سارے معنی مراد ہوں گے۔ بلکہ حسبِ حال مضمون عبارت و الفاظ عبارت جس معنی کو اس جگہ مناسبت ہو گی وہ اس جگہ معین ہو جائے گا۔ چنانچہ آیت فَانفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا (البقرہ2:60) میں عین کے معنی چشمۂ آب ہیں کیونکہ اس جگہ استسقاء یعنی طلب آب اور انفجار یعنی پانی کا پھوٹ پڑنا اور مشرب یعنی پانی کے گھاٹ کا ذکر ہے۔ ان قرائن حالیہ و مقالیہ نے اسے اس جگہ چشمۂ آب کے معنوں میں کر دیا۔ اور آیت فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ (الکہف18:86) میں قرینہ حمته نے اس سے چشمۂ آب مراد ہونے پر دلالت کی۔ اور آیت أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا (الاعراف7:195) بِهَا وَ أمْثآلِهَا میں قرینہ بصارت نے جارحہ(بمعنی عضو-عبدالقیوم میر)یعنی آنکھ پر دلالت کی۔ اسی طرح جنس کو اس کی کسی نوع میں معین کرنے کے لئے حاجت قرینہ کی ہوتی ہے۔ ورنہ مضمون و مفہوم میں خلل پڑتا ہے۔ پس چونکہ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ کو وَرافِعُكَ إِلَيَّ کے ساتھ ضم کیا۔ اس لئے عیسیٰ علیہ السلام کی توفی بِالرَّفَعْ اِلَی السَّمَآءِ ہوئی۔ مزید تفصیل لفظ توفی کی اس وقت کی جائے گی جب آیاتِ قرآنیہ جن میں لفظ توفی کے مشتقات آئے ہیں۔ ان کا ایک کھینچ کر ہر ایک کے ساتھ اس کے قرینۂ صارفہ کا ذکر کیا جائے گا اور عنقریب آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ

کسی لفظ کے کسی معنی میں زیادہ مستعمل ہونے سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ وہ ان معنوں میں مخصوص ہو گیا ہے اور اس کے دیگر معانی و اطلاقات متروک و مہجور ہو گئے ہیں۔ مثلاً قاموس میں لکھا ہے:

والدَّابَّةُ: ما دَبَّ من الحَيَوانِ، وغَلَبَ على ما يُرْكَبُ “۔(قاموس المحیط جلد 1 صفحہ 82 مطبوعہ مؤسسة الرسالۃ بیروت لبنان-باب الباء فصل الدال)
”دابہ اصل میں ہر جاندار چیز کو کہتے ہیں جو زمین پر چلے اور غالب استعمال اس کا سواری والے جانوروں پر ہوتا ہے“۔
تو قاموس کے لکھنے سے آیت:
وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا (ہود 11:6)
یعنی ”زمین میں کوئی جانور نہیں جس کا رزق خدا کے ذمے نہ ہو“۔

اس کے معنی یہ نہ ہوں کہ اللہ تعالیٰ صرف سواری کے جانوروں کا رازق ہے۔ بلکہ یہ لفظ اپنے اصلی وسیع معنوں میں لیا جائے گا کہ جو چیز زمین پر حرکت کرنے والی ہے ان سب کا رزق حسبِ وعدہ اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے۔ اسی طرح اگر کتبِ لغت میں توفی کا استعمال بمعنی موت لکھا ہوا ہے تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ لفظ انہی معنوں کے لئے موضوع ہے یا انہی معنوں میں محصور ہے بلکہ کتبِ لغت میں ہر قسم کے معانی وضعی، مجازی اور منقولی خواہ منقولِ شرعی ہوں، خواہ عرفی، خواہ اصطلاحی سب لکھے ہوتے ہیں۔ ان میں سے کسی خاص مقام ہر معانی مخصوصہ کا چسپاں ہونا سلسلۂ عبارت اور قرائن حالیہ و مقالیہ پر موقوف ہے اور یہ ضروری نہیں کہ جملہ قرائن کتبِ لغت میں مصرح ہوں۔ کیونکہ قرائن محصور نہیں سکتے بلکہ حسبِ مقام سلسلۂ عبارت و مفہوم کلام میں قرائن مختلف ہوتے ہیں۔ چنانچہ حصول المامول جو امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ کی ارشاد الفحول کا اختصار ہے، اس میں لکھا ہے:

وَلَا يُشْتَرَطُ النَّقْلُ فِيْ آحَادِ الْمَجَازِ، بَلِ الْعَلَاقَةُ كَافِيَةٌ، وَالْمُعْتَبَرُ نَوْعُهَا وَإِلَیْهِ ذَهَبَ الْجُمْهُورُ، وَهُوَ الْحَقُّ۔ وَلَمْ يَأْتِ مَنِ اشْتَرَطَ ذَلِكَ بِحُجَّةٍ تَصْلُحُ لِذِكْرِهَا وَتَسْتَدْعِي التَّعَرُّضَ لِدَفْعِهَا۔ وَكُلُّ مَنْ لَهُ عِلْمٌ وَفَهْمٌ يَعْلَمُ أَنَّ أَهْلَ اللُّغَةِ الْعَرَبِيَّةِ مَا زَالُوْا يَخْتَرِعُوْنَ الْمَجَازَاتِ عِنْدَ وَجُوْدِ الْعَلَاقَةِ وَنَصْبَ الْقَرِينَةِ وَهَكَذَا مَنْ جَاءَ بَعْدَهُمْ مَنْ أَهْلِ الْبَلَاغَةِ فِي فَنَّيِ النَّظْمِ وَالنَّثْرِ وَيَتَمَادَحُونَ بِاخْتِرَاعِ الشَّيْءِ الْغَرِيبِ مِنَ الْمَجَازَاتِ عِنْدَ وُجُودِ الْمُصَحِّحِ لِلتَّجَوُّزِ “۔(الجامع الاحكام و اصول فقہ مسمی حصول المامول من علم الاصول صفحہ16و17 مطبوعہ جوائب الکائنۃ قسطنطنیہ، صفحہ 52و53 مطبوعہ دار الفضیلہ قاہرہ مصر ،ارشاد الفحول الى تحقیق الحق من علم الاصول جلد 1 صفحہ 70 مطبوعہ دارالکتاب عربی)
”اور مجاز کے افراد میں(اہل لغت سے) نقل ضروری نہیں بلکہ صرف علاقہ کافی ہے۔ اور(زیادہ تر)اس کی نوع کا اعتبار ہے اور جمہور حکما کا یہی مذہب ہے اور یہی حق ہے اور جس نے اس کے(نقل کو)ضروری قرار دیا ہے اس نے ایسی حجت کوئی بھی پیش نہیں کی جو ذکر اور پھر اس کی تردید کے لائق ہو یعنی بالکل قابلِ التفات نہیں۔ اور جو شخص علم اور فہم رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ اہلِ عربیت ہمیشہ علاقہ کے پائے جانے پر مجازات اور قرائن کا مقرر کرنا اختراع کرتے رہے ہیں اور اسی طرح نظم اور نثر کے علمائے بلاغت جو ان سے بعد ہوتے آئے ہیں(وہ بھی اس بارہ میں اختراعات کرتے رہے ہیں)اور صحتِ مجاز کے قرینہ کے وقت کسی نادر مجاز کے اختراع کے سبب ایک دوسرے پر فخر کرتے رہے ہیں“۔

حاصل اس تقریر کا یہ ہوا کہ جس جگہ توفی کے ساتھ موت اور اس کے لوازمات کا ذکر ہو اس جگہ توفی کی تعیینِ نوع موت ہو گی اور جہاں نیند اور اس کے مقتضیات موجود ہوں گے وہاں اس کی تعیینِ نوع نوم میں ہو گی اور جس مقام پر قرینہ رفع مذکور ہو اس جگہ یہ لفظ نوع رفع میں معین ہو گا۔ جیسا کہ عنقریب نقشہ آیات توفی سے ظاہر ہو گا۔ انشاء اللہ

غرض کتبِ لغت میں توفی بمعنی موت لکھا ہونے سے یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ یہ لفظ موت کے لئے موضوع ہے۔ کیونکہ علم تصریف اس کا برملا انکار کر رہا ہے اور نہ یہ ثابت ہو سکتا ہے کہ یہ لفظ اپنے اصلی معنوں سے ہٹ کر بمعنی موت مخصوص ہو گیا ہے۔ کیونکہ اہل لغت کا اس کا مجاز لکھنا اس کی صریح تردید کر رہا ہے۔

چنانچہ تاج العروس شرح قاموس میں ہے:

وَمِنَ الْمَجَازِ أَدْرَكَتْه الوَفاةُ أَي المَوْتُ والمَنِيَّةُ۔ وتُوفِّيَ فلانٌ إِذا ماتَ۔ وتَوفَّاهُ اللهُ عزَّ وجلَّ إِذا قَبَضَ نَفْسَه؛ وَفِي الصِّحاحِ رُوْحَهُ “۔(تاج العروس جلد 40 صفحہ 220 مطبوعہ دار الہدایہ کویت)
”اور مجاز میں سے ایک یہ ہے کہ أَدْرَكَتْه الوَفاةُ یعنی اسے موت نے پا لیا پکڑ لیا اور تُوفِّيَ فلانٌ وہ پورا ہو گیا کے معنی ہیں وہ مر گیا تو تَوفَّاهُ اللّٰهُ (خدا نے اسے پورا کر لیا)کے معنی ہیں خدا نے اس کی روح قبض کر لی“۔

اور اسی طرح اساس البلاغۃ للزمخشری میں لکھا ہے:

وَمِن الْمَجَاز.... تُوُفِّيَ فَلَانٌ وَتَوَفّاهُ اللّٰهُ تعالیٰ وَأَدْرَكَتْهُ الْوَفَاةُ “۔(اساس البلاغہ جلد 2 صفحہ 248 مطبوعہ دار الکتب علمیہ بیروت)
تُوُفِّيَ فَلَانٌ اور تَوَفّاهُ اللّٰهُ اور أَدْرَكَتْهُ الْوَفَاةُ سب مجازیں ہیں“۔69

اور مجاز بولنا تب ہی درست ہے جب حقیقی معنی متروک نہ ہوں۔ چنانچہ قطبی میں بعد تقسیم لفظ باعتبار جو اوپر گزر چکی ہے یہ لکھا ہے کہ:

وإن لم يترك معناه الأول بل يستعمل فيه أيضًا، يسمى: حقيقة، إن استعمل في الأول، وهو المنقول عنه، ومجازًا إن استعمل في الثاني، وهو المنقول إليه
“۔ (تسہیل قطبی صفحہ 124 مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان، التعریفات للجرجانی صفحہ 334 مطبوعہ دار الکتب علمیہ بیروت)
”اگر معنی اوّل متروک نہ ہوں بلکہ اس میں بھی اس لفظ کا استعمال ہو تو اسے حقیقت کہتے ہیں۔ جب پہلے معنوں میں مستعمل ہو اور وہ اس معنی منقول عنہ(جس سے نقل کرکے مجازی مرنی لئے گئے ہیں)ہے اور اگر دوسرے معنوں میں مستعمل ہو تو اسے مجاز کہتے اور وہ معنی منقول الیہ ہے(نقل کر کے جو معنی مراد لئے گئے ہیں)۔“

آئمہ لغت کے توفی کو مجازاً بمعنی موت لکھنے سے یہ صاف ثابت ہو گیا کہ توفی کے اپنے وضعی معنی اَخْذُ الشَّیء وَافِیًا متروک نہ ہوں گے۔ آسان طریق جو جلدی راہ راست پر لا دے وہ یہ ہے کہ توفی کو کتبِ لغت سے تلاش کرو۔ اگر یہ لفظ وفا کے ضمن میں مذکور ہو تو اسے وفا سے ماخوذ سمجھو، ورنہ نہیں۔ اور پھر جملہ تصریفاتِ وفا پر نظر کرو تو صاف معلوم ہو جائے گا کہ اس کے معنی پورا کرنے کے ہیں۔ اور جو معنی مجازی ہوں گے وہ باعتبار اس علاقہ کے ہوں گے جو حقیقت اور مجاز میں ضروری ہے۔

چنانچہ حصول المامول میں ہے:
لَا بُدَّ مِنَ الْعَلَاقَةِ فِي كُلِّ مَجَازٍ فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْحَقِيقَةِ۔ وَالْعَلَاقَةُ هِيَ اتِّصَالٌ لِلْمَعْنَى الْمُسْتَعْمَلِ فِيهِ بِالْمَوْضُوعِ لَهُ “۔(حصول المامول من علم الاصول صفحہ15 مطبوعہ جوائب الکائنۃ قسطنطنیہ، صفحہ 50مطبوعہ دار الفضیلہ قاہرہ مصر ،ارشاد الفحول الى تحقیق الحق من علم الاصول جلد 1 صفحہ 68 مطبوعہ دارالکتاب عربی)
”ہر مجاز میں اس کا علاقہ ہونا ضروری ہے جو اس میں اور حقیقت میں اور حقیقت میں ہوتا ہے اور علاقہ اس اتصال(معنوی)کو کہتے ہیں جو معنی مستعمل فیہ(مجازی)اور معنی موضوع لہ(حقیقی)میں ہوتا ہے“۔

اور چونکہ علاقات اور اتصالات معنی مستعمل فیہ اور موضوع لہ میں حسبِ اقتضائے مقام مختلف ہوتے ہیں، اس لئے ان کی تقریر کتبِ لغت میں ضروری نہیں۔ چنانچہ حصول المامول میں گزر چکا ہے کہ علاقات مقتضیہ مجاز کے لئے ضروری نہیں کہ وہ کسی کتاب میں مذکور ہوں بلکہ وہ علاقہ جس سے معنی مستعمل فیہ و موضوع لہ میں نسبت پیدا ہو سکے کافی ہے۔ پس کتبِ لغت میں وضعی اور منقول اور مجازی معنی میں تمیز کرنے کے لئے ان قواعد و بلاغت میں بالتفصیل مذکور ہیں۔ فَافْھَمُ

پہلے ثابت ہو چکا ہے کہ توفی کے معنی اَخْذُ الشَّیء وَافِیًا ہیں اور یہ بھی محقق ہو چکا ہے کہ توفی جنس ہے اور رفع اور موت اور نیند اس کی انواع ہیں۔ اور یہ بھی مذکور ہو چکا ہے کہ تعیین نوع کے لئے وجودِ قرینہ یا تعذرِ حقیقت کا ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ بغیر اس کے مرادِ متکلم(کہ ان معانی و انواع میں سے کون سی نوع اس کی مراد ہے)معین نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا قرآن شریف کی وہ سب آیات جن میں مشتقاتِ توفی(باب تفعل)وارد ہوئے ہیں لکھ کر ناظرین کے پیش کرتے ہیں اور ساتھ ہی قرائن صارفہ پر بھی اشارات کرتے جاتے ہیں۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
68:اکمل صاحب نے تفسیر کبیر کے اس حوالہ پر بہت غضب ڈھایا ہے کہ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کی مان میں حقارت آمیز طریق بیان اختیار کیا ہے۔ افسوس اکمل صاحب نے یہ کتاب مرزا صاحب آنجہانی کی وفات کے بعد لکھی، اگر وہ ان کی زندگی میں لکھتے تو ہم امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کی کسی کتاب کا کوئی ورق جناب مرزا صاحب کے سامنے رکھ کر کہتے کہ جناب اسے حل کیجئے۔ پھر اگر وہ اپنے مدد گاروں سمیت اسے حل فرما دیتے تو جانتے۔ اگرچہ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف کا امتحان کے لئے مرزا صاحب کے سامنے پیش کرنا امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف کی بے قدری ہے۔ سبحان اللہ! کجا رام رام کجا ٹیں ٹیں!!
69: اکمل صاحب بھی عجب کمال کے پتلے ہیں کہ باوجود آئمہ لغت کی تصریح کے کہ توفی بمعنی موت مجازاً ہے، الزاماً لکھتے ہیں: ”موت کے معنی کو مجاز کہنا آپ ہی کی ایجاد ہے“۔(صفحہ20) کیا تاج العروس اور اساس البلاغۃ بھی میری تصانیف ہیں؟ سعادت
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top