• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

شہادت مرزا

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
آٹھویں شہادت اقبالی بیان مرزا صاحب


جناب مرزا صاحب نے اپنا مسیح موعود ہونا ایک اور طریق سے بھی ثابت کیا ہے. آپ کا دعویٰ ہے کہ ساری دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے . چنانچہ لکھتے ہیں .
’’ بالاتفاق تمام احادیث کی رو سے عمر دنیا کل سات ہزار بر س قرار پایا تھا ‘‘ . (تحفہ گولڑویہ ص 93)
اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پانچویں ہزار میں پیدا ہوئے ہیں . اور مسیح موعود کا چھٹے ہزار میں پیدا ہونا مقدر تھا . اس دعوے کو اس آیت سے ثابت کرتے ہیں جو سورۃ جمعہ میں ہے .
وَاٰخَرِینَ مِنھُم لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ
پھر فرماتے ہیں کہ بس میں چونکہ چھٹے ہزار سال میں پیدا ہوا ہوں لہٰذا میں مسیح موعود ہوں . اب سنیے آپ کے اپنے الفاظ . جناب موصوف فرماتے ہیں .
’’ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بعث ہیں اور اس پر نص قطعی آیت کریمہ وَاٰخَرِینَ مِنھُم لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ ہے . تمام اکابر مفسرین اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اس امت کا آخری گروہ یعنی مسیح موعود کی جماعت صحابہ کے رنگ میں ہوں گے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرح بغیر کسی فرق کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض اور ہدایت پائیں گے . پس جب کہ یہ امر نص صریح قرآن شریف سے ثابت ہوا کہ جیسا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض صحابہ پر جاری ہوا ایسا ہی بغیر کسی امتیاز اور تفریق کے مسیح موعود کی جماعت پر فیض ہو گا تو اس صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یک اور بعث ماننا پڑا جو آخری زمانہ میں مسیح موعود کے وقت میں ہزار ششم میں ہو گا .

اور اس تقریر سے یہ بات بپایہ ثبوت پہنچ گئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بعث ہیں یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک بروزی رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دوبارہ دنیا میں آنا وعدہ دیا گیا تھا جو مسیح موعود اور مہدی موعود کے ظہور سے پورا ہوا . غرض جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بعث ہوئے تو جو بعض حدیثوں میں یہ ذکر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہزار ششم کے اخیر میں مبعوث ہوئے تھے اس سے بعث دوم مراد ہے جو نص قطعی آیت کریمہ وَاٰخَرِینَ مِنھُم لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ سے سمجھا جاتا ہے . یہ عجیب بات ہے کہ نادان مولوی جن کے ہاتھ میں صرف پوست ہی پوست ہے . حضرت مسیح کے دوبارہ آنے کی انتظار کر رہے ہیں . مگر قرآن شریف ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دوبارہ آنے کی بشارت دیتا ہے کیونکہ افاضہ بغیر بعث غیر ممکن ہے اور بعث بغیر زندگی کے غیر ممکن ہے اور حاصل اس آیت کریمہ یعنی وَاٰخَرِینَ مِنھُم کا یہی ہے کہ دنیا میں زندہ رسول ایک ہی ہے یعنی محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم جو ہزار ششم میں بھی مبعوث ہو کر ایسا ہی افاضہ کرے گا جیسا کہ وہ ہزار پنجم میں افاضہ کرتا تھا اور مبعوث ہونے کے اس جگہ یہی معنی ہیں کہ جب ہزار ششم آئے گا اور مہدی موعود اس کے آخر میں ظاہر ہو گا تو گو بظاہر مہدی معہود کے توسط سے دنیا کو ہدایت ہوگی لیکن در اصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی نئے سرے اصلاح عالم کی طرف ایسی سرگرمی سے توجہ کرے گی کہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ مبعوث ہو کر دنیا میں آ گئے ہیں . یہی معنی اس آیت کے ہیں کہ وَاٰخَرِینَ مِنھُم لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِم . پس یہ خبر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعث دوم کے متعلق ہے جس کے ساتھ یہ شرط ہے کہ وہ بعث ہزار ششم کے اخیر پر ہو گا . اسی حدیث سے اس بات کا قطعی فیصلہ ہوتا ہے کہ ضرور ہے کہ مہدی معہود اور مسیح موعود جو مظہر تجلیات محمدیہ ہے جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بعث دوم موقوف ہے وہ چودہویں صدی کے سر پر ظاہر ہو کیونکہ یہی صدی ہزار ششم کے آخری حصہ میں پڑتی ہے ‘‘ . (تحفہ گولڑویہ حاشیہ ص 95، 94)

اس عبارت کا مطلب ناظرین کے فہم عالی سے قریب کرنے کو اتنی تشریح کی ضرورت ہے کہ بقول مرزا صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دو دفعہ نبی ہو کر ظاہر ہونا مقدر تھا . ایک تو اُس وقت جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بصورت محمد مکہ معظمہ میں ظہور پذیر ہوئے . دوم اُس وقت جب بشکل مرزا صاحب بہ عہدہ عیسیٰ موعود قادیان میں رونق افروز ہوئے . پہلی صورت میں آپ کا نام محمد تھا . دوسری میں احمد ہیں . محمدی صورت جلالی تھی یعنی جنگی . اور احمدی صورت جمالی یعنی صلح جو ہے . چنانچہ اس کتاب کے دوسرے مقام پر مرزا صاحب نے اس مضمون کو منجمانہ تقریر میں یوں لکھا ہے . فرماتے ہیں :

’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعث اول کا زمانہ ہزار پنجم تھا جو اسم محمد کا مظہر تجلی تھا یعنی یہ بعث اول جلالی نشان ظاہر کرنے کے لیے تھا مگر بعث دوم جس کی طرف آیت کریمہ وَاٰخَرِینَ مِنھُم لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِم میں اشارہ ہے وہ مظہر تجلی اسم احمد ہے جو اسم جمالی ہے جیسا کہ آیت وَمُبَشِّرابِرَسُول یاتیِ منْ بَعدِیْ اِسْمُہ اَحْمَد اسی کی طرف اشارہ کر ر ہی ہے. اور اس آیت کے یہی معنی ہیں کہ مہدی معہود جس کا نام آسمان پر مجازی طور پر احمد ہے جب مبعوث ہو گا تو اس وقت وہ نبی کریم جو حقیقی طور پر اس نام کا مصداق ہے اس مجازی احمد کے پیرایہ میں ہو کر اپنی جمالی تجلی ظاہر فرمائے گا . یہی وہ بات ہے جو اس سے پہلے میں نے اپنی کتاب ازالہ اوہام میں لکھی تھی . یعنی یہ کہ میں اس احمد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا شریک ہوں اور اس پر نادان مولویوں نے جیسا کہ ان کی ہمیشہ سے عادت ہے شور مچایا تھا . حالانکہ اگر اس سے انکار کیا جائے تو تمام سلسلہ اس پیش گوئی کا زیر و زبر ہو جاتا ہے بلکہ قرآن شریف کی تکذیب لازم آتی ہے جو نعوذ باللہ کفر تک نوبت پہنچاتی ہے . لہٰذا جیسا کہ مومن پر دوسرے احکام الٰہی پر ایمان لانا فرض ہے ایسا ہی اس بات پر بھی ایمان لانا فرض ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسل٬ کے دو بعث ہیں۔ ایک بعث محمدی جو جلالی رنگ میں ہے جو ستارہ مریخ کی تاثیر کے نیچے ہے جس کی نسبت بحوالۂ توریت قرآن شریف میں یہ آیت ہے مُحَمَّدُرَّسُوْلُ اللہِ وَالَّذِینَ مَعَہ اَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَینَھُم دوسری بعث احمدی جو جمالی رنگ میں ہے جو ستارہ مشتری کی تاثیر کے نیچے ہے جس کی نسبت بحوالۂ انجیل قرآن شریف میں یہ آیت ہےَ ومُبَشِّرابِرَسُول یَاتیِ منْ بَعدِیْ اِسْمُہ اَحْمَد ‘‘. (تحفہ گولڑویہ ص 92)

گو اس عبارت کا مطلب صاف ہے تاہم اس کی مزید تشریح کے لئے مرزا صاحب اس عبارت پر حاشیہ لکھتے ہیں جو یوں ہے .

’’ یہ باریک بھید یاد رکھنے کے لائق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعث دوم میں تجلی اعظم جو اکمل اور اتم ہے وہ صرف اسم احمد کی تجلی ہے . کیونکہ بعث دوم آخر ہزار ششم میں ہے اور ہزار ششم کا تعلق مشتری کے ساتھ ہے جو کوکب ششم منجملہ خنّس کنّس ہے اور اس ستارہ کی یہ تاثیر ہے کہ مامورین کو خونریزی سے منع کرتا اور عقل و دانش اور مواد استدلال کو بڑھاتا ہے . اس لیے اگر چہ یہ بات حق ہے کہ اس بعث دوم میں بھی اسم محمد کی تجلی سے جو جلالی تجلی ہے اور جمالی تجلی کے ساتھ شامل ہے مگر وہ جلالی تجلی بھی روحانی طور پر ہو کر جمالی رنگ کے مشابہ ہو گئی ہے کیونکہ اس وقت جلالی تجلی کی تاثیر قہر سیفی نہیں بلکہ قہر استدلالی ہے وجہ یہ کہ اس وقت کے مبعوث پرپر تو وہ ستارہ مشتری ہے نہ پرتوہ مریخ . اسی وجہ سے بار بار اس کتاب میں کہا گیا ہے کہ ہزار ششم فقط اسم احمد کا مظہر اتم ہے جو جمالی تجلی کو چاہتا ہے ‘‘ .( تحفہ گولڑویہ حاشیہ ص96)

اب تو یہ مضمون صاف ہو گیا کہ مرزا صاحب کا اقرار ہے کہ عیسیٰ موعود دنیا کی عمر سے چھٹے ہزار سال میں آئیں گے اب دیکھنا یہ ہے کہ چھٹا ہزار کہاں تک ہے . ہم مرزا صاحب کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے اس عقدہ کا حل بھی خود فرما دیا ہے . آپ فرماتے ہیں .
’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت آدم علیہ السلام سے قمری حساب کی رو سے چار ہزار سات سو انتالیس سال برس بعد پیدا ہوئے . اور شمسی حساب کی رو سے چار ہزار پانچ سو اٹھانوے برس بعد ‘‘ . (تحفہ گولڑویہ ص 92)
اب مطلع صاف ہے . پس ہجرت سے پہلے تیرہ سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ معظمہ میں رہے . اس حساب سے پورے تیرہ سو ہجری ہونے کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سنہ نبوت 1313ہوتا ہے .یہ عدد قمری حساب سے 4739میں ملائیں تو تیرھویں صدی کے اخیر پر دنیا کی عمر چھ ہزار باون سال ہوتی ہے .
اب یہ دیکھنا ہے کہ جناب مرزا صاحب کس سنہ میں مسیح موعود کے عہدہ پر مبعوث ( فائز ) ہوئے . اس کے متعلق بھی ہمیں کسی بیرونی شہادت کی ضرورت نہیں . بلکہ خود مدعا علیہ کا بیان ہمارے پاس ہے . آپ لکھتے ہیں :
’’ یہ عجیب اتفاق ہوا کہ میری عمر کے چالیس برس پورے ہونے پر صدی کا سر بھی آ پہنچا . تب خدا تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ میرے پر ظاہر کیا کہ تو اس صدی کا اور صلیبی فتنوں کا چارہ گر ہے . اور یہ اس طرف اشارہ تھا کہ تو ہی مسیح موعود ہے ‘‘. (تریا ق القلوب ص 68 )
یہ عبارت صاف بتا رہی ہے کہ مرزا صاحب چودھویں صدی کے شروع میں چالیس سال کی عمر کو پہنچ کر مسیحیت پر مامور ہوئے تھے . اسی مضمون کو دوسری کتاب میں مزید وضاحت سے لکھتے ہیں .
’’ مجھے کشفی طور پر اس مندرجہ ذیل نام پر توجہ دلائی گئی کہ دیکھ یہی مسیح ہے کہ جو تیرھویں صدی کے پورے ہونے پر ظاہر ہونے والا تھا . پہلے سے یہی تاریخ ہم نے نام میں مقرر کر رکھی ہے اور وہ یہ نام ہے غلام احمد قادیانی . اس نام کے عدد پورے تیرہ سو ہیں اور اس قصبہ قادیان میں بجز اس عاجز کے اور کسی شخص کا غلام احمد نام نہیں(10) بلکہ میرے دل میں ڈالا گیا ہے کہ اس وقت بجز اس عاجز کے تمام دنیا میں غلام احمد قادیانی کسی کا نام نہیں ‘‘ . ( ازالہ اوہام طبع اول ص 186، 185)
اس عبارت میں پہلی عبارت کی مزید تشریح ہے کہ کسی غبی سے غبی کو بھی شک نہیں رہتا کہ جناب مرزا صاحب کی بعثت چھٹا ہزار ختم ہو کر ساتویں ہزار میں سے باون سال گزر کر ہوئی . لہٰذا بقول آپ کے آپ مسیح موعود نہیں .
ایک اور طرح سے :ہمارے گزشتہ بیان سے ( جو در حقیقت جناب مرزا صاحب کا ذاتی بیان ہے ) ساتویں ہزار کے باون سال گزرنے پر مرزا صاحب مبعوث ہوئے ہیں جو اُن کے ’’ لیٹ ‘‘ پہنچنے کی وجہ سے موجب ’’ فیل ‘‘ کے ہے . اب ایک اور حساب سے بھی مرزا صاحب کا لیٹ ہونا ثابت کرتے ہیں . صاحب موصوف لکھتے ہیں کہ :
’’ میری پیدائش اس وقت ہوئی جب چھ ہزار میں سے گیارہ برس رہتے تھے ‘‘ . (تحفہ گولڑویہ حاشیہ ص 95)

بہت خوب . اس عبارت سے صاف ثابت ہے کہ چھٹا ہزار مرزا صاحب کی گیارہ سال کی عمر پوری ہونے تک ختم ہو گیا . مگر گیارہ سال کی عمر میں تو مبعوث نہ ہوئے ہوں گے بلکہ بالغ ہو کر . بلکہ بحکم بَلَغَ اَربَعِینَ سَنَۃ چالیس سال کو پہنچ کر مسیحیت کے درجہ پر مبعوث (مامور) ہوئے تو بھی ساتویں ہزار میں چلے گئے جو خلاف وقت مقرر کے ہے .

نوٹ : مرزا صاحب اپنی تحریرات میں خود قمری حساب پر بنا کر رہے ہیں . یہاں تک فرما چکے ہیں کہ
’’میں چھٹے ہزار میں سے گیارہ سال رہتے میں پیدا ہوا تھا ‘‘ .
اس لئے کسی اُن کے حالی موالی کو یہ حق نہیں کہ وہ شمسی حساب سے چھے ہزار کا شمار کرے . کیوں کہ ان کا ایسا کرنا ہم کو نہیں بلکہ اُن کو مضر ہو گا . اس لیے کہ شمسی حساب سے چھے ہزار سال2012ء میں پورے ہوں گے .اس حساب سے مرزا صاحب کی پیدائش 2010ء میں ہونی چاہیے . حالانکہ وہ 1908ء میں انتقال بھی کر گئے .

شاید بروزی طور پر دوبارہ آویں

ناظرین ! یہ ہیں وہ دلائل جن کی بابت مرزا صاحب فرماتے ہیں :

’’ یہ وہ ثبوت ہیں جو میرے مسیح موعود اور مہدی معہود ہونے پر کھلے کھلے دلالت کرتے ہیں . اور اس میں کچھ شک نہیں کہ ایک شخص بشرطیکہ متقی ہو جو ان تمام دلائل میں غور کرے گا تو اس پر روز روشن کی طرح کھل جائے گا. کہ میں (مرزا ) خدا کی طرف سے ہوں ‘‘ . ( تحفہ گولڑویہ ص 102)
کچھ شک نہیں کہ ہم بھی انہی دلائل کی شہادت سے اس مرحلہ پر پہنچے ہیں کہ :

ناز ہے گل کو نزاکت پہ چمن میں اے ذوق !
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
نویں شہادت…حرمین شریفین کے درمیان ریل


سلطان عبدالحمید خان مرحوم نے ا سلامی دنیا میں تحریک کی تھی کہ حاجیوں کی تکلیف دور کرنے کے لئے حجاز ( مکہ مدینہ ) میں ریل بنائی جائے . چنانچہ مسلمانان دنیا نے اس تحریک کو قومی جان کر بطیب خاطر چندہ بھی دیا . چنانچہ ریل مذکور دمشق سے چل کر مدینہ طیبہ تک پہنچ گئی . آمد و رفت بھی مدینہ منورہ تک شروع ہو گئی . اس وقت کے جوش کو دیکھ کر قرین قیاس بلکہ یقین تھا کہ چند ہی روز میں ریل مکہ معظمہ سے گزر کر بندر جدہ تک آنے والی ہے . اتنے میں مرزا صاحب نے اعلان کر دیا کہ یہ ریل میری صداقت کی دلیل ہوگی . کیونکہ قرآن مجید میں ارشاد ہے وِاِذِالْعِشَارُ عُطِّلَت یعنی اونٹ بیکار ہو جائیں گے . اس کے یہی معنی ہیں کہ مسیح موعود کے آنے کے وقت مکہ مدینہ میں ریل بن کر اونٹوں کی سواری بند ہو جائے گی . چنانچہ حدیث شریف میں بھی آیا ہے کہ لیترکن القلاص فلا یسعیٰ علیہا یعنی اونٹ چھوڑ دئیے جائیں گے اور ان پر سواری نہ کی جائے گی . یہ بھی مسیح موعود کے زمانہ کی طرف اشارہ ہے. پس حجاز میں ریل بننے سے میرے دعوے کا ثبوت ہوتا ہے . اس تشریح کے بعد مرزا صاحب کے اپنے الفاظ سنئے . آپ فرماتے ہیں :

’’ آسمان نے بھی میرے لئے گواہی دی اور زمین نے بھی . مگر دنیا کے اکثر لوگوں نے مجھے قبول نہ کیا . میں وہی ہوں جس کے وقت میں اونٹ بیکار ہو گئے اور پیش گوئی آیت کریمہ وَاِذِالعِشَارُعُطِّلَت پوری ہوئی. اور پیش گوئی حدیث وَلیترکن القلاص فلا یسعیٰ علیہا نے اپنی چمک پوری دکھلا دی. یہاں تک کہ عرب اور عجم کے اڈیٹران اخبار اور جرائد والے بھی اپنے پرچوں میں بول اُٹھے کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان جو ریل تیار ہو رہی ہے یہی اُس پیش گوئی کا ظہور ہے جو قرآن اور حدیث میں ان لفظوں سے کی گئی تھی جو مسیح موعود کے وقت کا یہ نشان ہے ‘‘ . ( اعجاز احمدی ص2)
اس سال کے حاجی بھی شہادت دیتے ہیں کہ حرمین (مکہ مدینہ ) کے درمیان اونٹوں پر سفر کرکے آئے ہیں . ہم حیران تھے کہ تمام مسلمانان دنیا کی ضرورت کے مطابق ریل کا انتظام ہوا . بہت سا حصہ اُس کا بن بھی گیا مگر عین موقعہ پر

دوچار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا

مدینہ شریف پہنچ کر ریل کی تیاری رک گئی . نہ بانی تحریک عبد الحمید خان رہے نہ وہاں ترکی سلطنت رہی .
غرض

آں قدح بشکست و آں ساقی نماند

آخر مسلمانوں کی اس ناکامی کی وجہ کیا ہوئی . ظاہری اسباب تو در حقیقت باطنی حکمت کی تکمیل کے لیے ہوا کرتے ہیں . غور کرنے سے ہماری سمجھ میں یہی رمز آئی کہ چونکہ مرزا صاحب قادیانی نے اس ریل کو اپنے غلط دعوے کی دلیل میں پیش کیا تھا . خدائی حکمت نے ریل کو بند کرکے دنیا کو دکھا دیا کہ مرزا صاحب اس بیان کے رو سے بھی غلطی پر ہیں . اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانان دنیا کی ضروریات سفر کے مقابلہ میں مرزا صاحب کی تکذیب کرانا خدا کے نزدیک زیادہ ہ اہم ہے . سچ ہے

وَاللہ یَعلمُ وَاَنتُم لَا تَعلَمُون
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
دسویں شہادت…قطعی فیصلہ


اِنَّ فِی ذالِکَ لاٰیَاتِ لِّاُوْلِی النُّھٰے

قرآن مجید میں ارشاد ہے ھُوَالَّذِی اَرسَلَ رَسوْلَہ بِالھُدٰی وَدِینِ الحَقِّ لِیُظھِرَہ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ
خدا نے اپنا رسول ہدایت اوردین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اُس کو سارے مذاہب پر غالب کرے
اس آیت کی تفسیر کے طور پر جناب مرزا صاحب اپنی مایہ ناز کتاب ’’ براہین احمدیہ ‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’ ھُوَالَّذِی اَرسَلَ رَسوْلَہ بِالھُدٰی وَدِینِ الحَقِّ لِیُظھِرَہ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ. یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیش گوئی ہے اور جس غلبہ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ سے ظہور میں آئے گا . اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو اُن کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا ‘‘ . ( براہین احمدیہ حاشیہ ص 499،498)
اس جگہ جناب موصوف نے مسیح موعود کے لئے آیت موصوفہ سے یہ بات بتائی کہ وہ با سیا ست یعنی ظاہری حکومت کے ساتھ آئیں گے ( بہت خوب ) مگر جب آپ نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ خود کیا تو باوجود سیاست اور حکومت حاصل نہ ہونے کے آپ نے اس آیت پر قبضہ رکھا اور اپنے ہی حق میں اس کو چسپاں کیا . وہ بیان ایسا لطیف ہے کہ ہم ناظرین سے اُس کو بغور پڑھنے کے لیے سفارش کرتے ہیں . مرزا صاحب فرماتے ہیں :
’’ چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا زمانہ قیامت تک ممتد ہے اور آپ خاتم الانبیاء ہیں اس لئے خدا نے یہ نہ چاہا کہ وحدت اقوامی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی کمال تک پہنچ جائے کیونکہ یہ صورت آپ کے زمانہ کے خاتمہ پر دلالت کرتی تھی . یعنی شبہ گزرتا کہ آپ کا زمانہ وہیں تک ختم ہو گیا کیونکہ جو آخری کام آپ کا تھا وہ اسی زمانہ میں انجام تک پہنچ گیا . اس لئے خدا نے تکمیل اس فعل کی جو تمام قومیں ایک قوم کی طرح بن جائیں اور ایک ہی مذہب پر ہو جائیں . زمانہ محمدی کے آخری حصہ میں ڈال دی جو قرب قیامت کا زمانہ ہے اور اس تکمیل کے لئے اسی امت میں سے ایک نائب مقرر کیا . جو مسیح موعود کے نام سے موسوم ہے اور اُسی کا نام خاتم الخلفاء ہے . پس زمانہ محمدی کے سر پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور اس کے آخر میں مسیح موعود ہے . اور ضرور تھا کہ یہ سلسلہ دنیا کا منقطع نہ ہو جب تک کہ وہ پیدا نہ ہولے کیونکہ وحدت اقوامی کی خدمت اسی نائب النبوت کے عہد سے وابستہ کی گئی ہے اور اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے . اور وہ یہ ہے ھُوَالَّذِی اَرسَلَ رَسوْلَہ بِالھُدٰی وَدِینِ الحَقِّ لِیُظھِرَہ عَلَی الدِّینِ کُلِّہ یعنی خدا وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو ایک کامل ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تا اُسکو ہر ایک قسم کے دین پر غالب کر دے یعنی ایک عالمگیر غلبہ اُس کو عطا کرے اور چونکہ وہ عالمگیر غلبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ظہور میں نہیں آیا اور ممکن نہیں کہ خدا کی پیش گوئی میں کچھ تخلف ہو اس لئے اس آیت کی نسبت اُن سب متقدمین کا اتفاق ہے جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں کہ یہ عالمگیر غلبہ مسیح موعود کے وقت میں ظہور میں آئے گا ‘‘. ( چشمہ معرفت ص 83،82)

اس عبارت کی تشریح یہ ہے کہ بقول مرزا صاحب زمانہ محمدی کی ابتداء رسالت محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ والتحیۃ سے ہوئی پھر وہی زمانہ ممتد ہو کر مسیح موعود کے زمانہ تک ایک ہی رہا . اس زمانہ کے ایک سرے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو دوسرے سرے پر مسیح موعود ( مرزا صاحب ) ہیں . زمانہ محمدی سے اشاعت اسلام شروع ہو کر زمانہ مسیح موعود میں تکمیل کو پہنچ جائے گی یعنی دنیا کی کل قومیں مسلمان ہو کر ایک واحد اسلامی قوم (مسلمان ) بن جائیں گی . چونکہ یہ سب کام مسیح موعود کی معرفت ہو گا اس لئے آیت ھوالذی ارسل مسیح موعود ( مرزا صاحب )کے حق میں چسپاں ہے . بہت خوب .

اب سوال یہ ہے کیا مسیح موعود ( مرزا صاحب ) کے زمانہ میں یہ نتیجہ پیدا ہو گیا ؟ بترتیب غور کرنے کے لئے ہم مسیح موعود کے گھر سے چلتے ہیں۔
کیا قادیان کے کل ہندو مسلمان ہو گئے ؟ کیا قادیان کے ضلع گور داس پور کے کل غیر مسلم اسلام میں آ گئے ؟ کیا پنجاب کے کل منکرین اسلام قائل اسلام بن گئے ؟ کیا ہندوستان میں اسلامی وحدت پیدا ہو گئی ؟ہندوستان سے باہر چلو . کیا انگلستان ، فرانس ، جرمنی وغیرہ ممالک یورپ اسلام قبول کر گئے ؟ کیا افریقہ اور امریکہ کے سب لوگ مسلمان ہو گئے ؟ اگر سب سوالوں کا جواب ہاں میں ہے تو ہمارا یقین ہونا چاہیے کہ

حضرت مرزا صاحب مسیح موعود ہیں

اور اگر ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے . تو

احمدی دوستو ! للہ فی اللہ غور کرکے بتاؤ کہ مرزا صاحب کون ہیں ؟ ہمیں افسوس ہے مرزا صاحب اپنے اس فرض کی ادائیگی میں بہت قاصر رہے اور بغیر ادا کئے فرض ( اشاعت ) کے جلدی چل دئیے .

کیا آگ لینے آئے تھے کیا آئے کیا چلے ؟
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
فتنہ ارتداد اور سنگھٹن کا ذکر


کفر اور مخالفت کا زورجیسا اب ہے مرزا صاحب کے زمانہ میں نہ تھا . خود ہندوستان کو دیکھئے کہیں فتنہ ارتداد ہے تو کہیں سنگھٹن . خطرہ ہے کہ کوئی مرزائی دوست گھبرا کر جلدی میں نہ کہہ دیں کہ فتنہ ارتداد میں ہم نے یہ خدمت کی وہ کی اس لئے ہم خادمان اسلام ہیں اور ہمارا پیشوا سچا ہے .

جواب : بات کو ذرا سوچ سمجھ کر منہ سے نکالنا چاہیے . سنئے ! فتنہ ارتداد کیا ہے ؟ اور اس کی تہہ میں کیا ہے ؟ ہم سے پوچھو تو یہ بھی مرزا صاحب کے دعوے کی قدرتی تردید ہے . کیونکہ مرزا صاحب تو کہتے تھے میرے زمانہ میں کل کفری قومیں مٹ کر ایک اسلامی وحدت پر آ جائیں گی . مگر واقعہ یہ ہوا کہ غیر مسلموں اور اسلام کے دشمنوں نے یہاں تک غلبہ کیا ہے کہ بجائے اس کے کہ داخل ہو کر ایک اسلامی وحدت پیدا کرتے . کلمہ گو یوں کو داخل کفر کرکے ہندو سنگھٹن بنا رہے ہیں جس سے مرزا صاحب کے دعوے کی بہت کافی تردید ہوتی ہے . کہ آئے تھے اسلامی وحدت پیدا کرنے اور ہو گئی ہندو سنگھٹن .

نو شدارو نے کیا کیا اثرِ رسم پیدا

آخری التماس :
ناظرین آپ شہادت دے سکتے ہیں کہ ہم نے مرزا صاحب کے دعوے کی تکذیب پر جو شہادات عشرہ پیش کی ہیں . ایسی ہیں کہ ہر ایک منصف مزاج ان کو تسلیم کرے گا . اس لئے امید ہے کہ احمدی دوست بھی ان سے مستفید ہوں گے .

اعلان انعام :
اور اگر وہ اس کو قبول کرنے کی بجائے جواب دینے کی کوشش کریں تو میں اُن کی محنت کی قدر کرنے کو ’’ ایک ہزار روپیہ انعام دوں گا ‘‘
احمدی دوستو ! جواب کا ارادہ کرنے سے پہلے سوچ لینا کہ مخاطب کون ہے ؟


سَتَعلَمُ لَیلیٰ اَیَّ دِینٍ تَدَا یَنت وَاَیُّ غَرِیمٍ فِی التَّقَاضِی غَرِیمُھَا


ابو الوفاء ثناء اللہ ( مولوی فاضل )امرتسری
ربیع الاول 1342ھ اکتوبر1923ء
طبع اول
 
آخری تدوین :
Top