• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قادیانی شبہات کے جوابات (کامل )

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

حیات مسیح علیہ السلام کی ساتویں دلیل​

’’ اِذْ قَالَتِ الْمَلٰئِکَۃُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکَ بِکَلِمَۃٍ مِّنْہُ اسْمُہُ الْمَسِیْحُ عِیْسٰی ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْہًا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ (آل عمران:۴۵) ‘‘ {جب کہا فرشتوں نے اے مریم اﷲ تجھ کو بشارت دیتا ہے اپنے ایک حکم کی جس کانام مسیح ہے عیسیٰ مریم کا بیٹا مرتبہ والا دنیا میں اور آخرت میں اور اﷲ کے مقربوں میں۔}
حضرت مسیح علیہ السلام کو قرآن وحدیث میں کئی جگہ ’’کلمۃ اﷲ‘‘ فرمایا ہے: ’’ اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسٰی ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَکَلِمَتُہٗ اَلْقَاہَا اِلٰی مَرْیَمَ وَرُّوْحُ مِّنْہُ (نساء:۱۷۱) ‘‘ یوں تو اﷲ کے کلمات بے شمار ہیں جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا: ’’ قُلْ لَوْکَانَ الْبَحْرُ مِدَادً الِّکَلِمَاتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ کَلِمَاتُ رَبِّیْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہٖ مَدَدَا (کہف:۱۰۹) ‘‘ لیکن بالتخصیص حضرت مسیح کو ’’کلمۃ اﷲ‘‘ (اﷲ کا حکم) کہنا اس حیثیت سے ہے کہ ان کی پیدائش باپ کے توسط کے بدون عام سلسلۂ اسباب کے خلاف محض خدا کے حکم سے ہوئی اور جو فعل عام اسباب عادیہ کے سلسلہ سے خارج ہو۔ عموماً اس کی نسبت براہ راست حق تعالیٰ کی طرف کردی جاتی ہے۔ جیسے فرمایا: ’ ’وَمَا رَمَیْتَ اذرَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہ رَمٰی (انفال:۱۷) ‘‘ ’’مسیح‘‘ اصل عبرانی میں ’’ماشیح‘‘ یا ’’مشیحا‘‘ تھا۔ جس کے معنی مبارک کے ہیں۔ معرب ہوکر ’’مسیح‘‘ بن گیا۔ باقی دجال کو جو ’’مسیح‘‘ کہا جاتا ہے وہ بالاجماع عربی لفظ ہے جس کی وجہ تسمیہ اپنے موقع پر کئی طرح بیان کی گئی ہے۔ ’’مسیح‘‘ کا دوسرا نام یا لقب ’’عیسیٰ‘‘ ہے۔ یہ اصل عبرانی میں ’’ایشوع‘‘ تھا۔ معرب ہوکر ’’عیسیٰ‘‘ بنا۔ جس کے معنی سید کے ہیں۔ یہ بات خاص طور پر قابل غور ہے کہ قرآن کریم نے یہاں ’’ابن مریم‘‘ کو حضرت مسیح علیہ السلام کے لئے بطور جزء علم کے استعمال کیا ہے۔ کیونکہ خود مریم علیہا السلام کو بشارت سناتے وقت یہ کہنا کہ تجھے ’’کلمۃ اﷲ‘‘ کی خوشخبری دی جاتی ہے جس کا نام ’’مسیح عیسیٰ ابن مریم‘‘ ہوگا۔ عیسیٰ علیہ السلام کا پتہ بتلانے کے لئے نہ تھا بلکہ اس پر متنبہ کرنا تھا کہ باپ نہ ہونے کی وجہ سے اس کی نسبت صرف ماں ہی کی طرف ہوا کرے گی۔ حتیٰ کہ لوگوں کو خدا کی یہ آیت عجیبہ ہمیشہ یاد دلانے اور مریم کی بزرگی ظاہر کرنے کے لئے گویا نام کا جز بنادی گئی۔ ممکن تھا کہ حضرت مریم کو بمقتضائے بشریت یہ بشارت سن کر تشویش ہوکہ دنیا کس طرح باور کرے گی کہ تنہا عورت سے لڑکا پیدا ہو جائے۔ ناچار مجھ پر تہمت رکھیں گے اور بچہ کو ہمیشہ برے لقب سے مشہور کر کے ایذا پہنچائیں گے۔ میں کس طرح برأت کروں گی؟ اس لئے آگے ’’ وَجِیْہًا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃ ‘‘ کہہ کر اطمینان دلا دیا کہ خدا اس کو نہ صرف آخرت میں بلکہ دنیا میں بھی بڑی عزت ووجاہت عطاء کرے گا اور دشمنوں کے سارے الزام جھوٹے ثابت کر دے گا۔ ’’وجیہ‘‘ کا لفظ یہاں ایسا سمجھو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے متعلق فرمایا: ’’ یَاَیُّہَا الَّذِینَ اٰمَنُوْا لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ اَذَوْا مُوْسٰی فَبَرَّاہُ اللّٰہُ مِمَّا قَالُوْا وَکَانَ عِنْدَ اللّٰہُ وَجِیْہًا (احزاب:۶۹) ‘‘ گویا جو لوگ ’’وجیہ‘‘ کہلاتے ہیں ان کو حق تعالیٰ خصوصی طور پر جھوٹے طعن وتشنیع یا الزامات سے بری کرتا ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کے نسب پر جو خبیث باطن طعن کریں گے یا خدا کو یا کسی انسان کو جھوٹ موٹ ان کا باپ بتلائیں گے یا خلاف واقع ان کو مصلوب ومقتول یا بحالت زندگی مردہ کہیں گے یا الوہیت وابنیت وغیرہ کے باطل عقائد کی مشرکانہ تعلیم ان کی طرف منسوب کریں گے۔ اس طرح کے تمام الزامات سے حق تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اعلانیہ بری ظاہر کر کے ان کی وجاہت ونزاہت کا علیٰ رؤس الاشہاد اظہار فرمائے گا جو وجاہت ان کو ولادت وبعثت کے بعد دنیا میں حاصل ہوئی۔ اس کی پوری پوری تکمیل نزول کے بعد ہوگی۔ جیسا کہ اہل اسلام کا اجماعی عقیدہ ہے۔
پھر آخرت میں خصوصیت کے ساتھ ان سے ’’أاَنْتَ قلت للناس اتخذونی‘‘ کا سوال کر کے اور انعامات خصوصی یاد دلا کر تمام اوّلین وآخرین کے روبرو وجاہت وکرامت کا اظہار ہوگا جیسا کہ سورہ ’’مائدہ‘‘ میں مذکور ہے اور نہ صرف یہ کہ دنیا وآخرت میں باوجاہت ہوں گے بلکہ خداتعالیٰ کے اخص خواص مقربین میں ان کا شمار ہوگا۔ (تفسیر عثمانی)

تفسیر القرآن بالقرآن​

اﷲ رب العزت نے جہاں کہیں کسی کو مقرب کے لفظ سے خطاب فرمایا ہے۔ اس سے مراد یا اہل جنت ہیں یا فرشتے ہیں۔ ذیل میں قرآنی آیات ملاحظہ ہوں۔
۱… ’’لَنْ یَسْتَنْکِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّکُوْنَ عَبْدًا لِلّٰہP وَلَا الْمَلَائِکَۃُ الْمُقَرَّبُوْنَ (النساء:۱۷۳)‘‘
۲… ’’وَالسَّابِقُوْنَ السَّابِقُوْنَ اُوْلٰئِکَ الْمُقَرَّبُوْنَ (الواقعۃ:۱۱)‘‘
۳… ’’کِتَابٌ مَّرْقُوْم یَشْہَدُہُ الْمُقَرَّبُوْنَ (المطففین:۲۱)‘‘
۴… ’’وَمِزَاجُہٗ مِنْ تَسْنِیْم عَیْنًا یَشْرَبُ بِہَا الْمُقَرَّبُوْنَ (المطففین:۲۸)‘‘
۵… ’’وَجِیْہًا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ (آل عمران:۴۰)‘‘
۶… ’’قَالَ نَعَمْ وَاِنَّکُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ (الاعراف:۱۱۴)‘‘
۷… ’’قَالَ نَعَمْ وَاِنَّکُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ (الشعراء:۴۲)‘‘
۸… ’’فَاَمَّا اِنْ کَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ فَرَوْحٌ وَرِیْحَانٌ وَجَنَّۃُ نَعِیْمُ (الواقعۃ:۸۸)‘‘

قرآن مجید میں انہی مقامات پر مقرب کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ سات نمبر میں فرعون نے اپنے ساحرین کو اپنا مقرب قرار دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ مقرب کا لفظ فرعون کا قول ہے۔ اﷲ رب العزت نے جن کو مقرب کے لفظ سے خطاب فرمایا۔ وہ یا اہل جنت ہیں یا فرشتے۔ جنت آسمانوں میں ہے۔ فرشتوں کا مستقر بھی آسمان ہے۔ اب عیسیٰ علیہ السلام کے لئے بھی یہی لفظ استعمال کیاگیا۔ جس سے بخوبی سمجھ میں آتا ہے کہ اس میں بھی عیسیٰ علیہ السلام کے لئے آسمانوں پر جانے کا حق تعالیٰ نے وعدہ کا ذکر (بوقت بشارت ولادت مسیح) حضرت مریم سے فرمایا۔ جس کا تحقق ووقوع ’’بل رفعہ اﷲ‘‘ میں ہوا۔ اب یہ ہماری رائے نہیں بلکہ مفسرین بھی یہی ارشاد فرماتے ہیں۔ اسی طرح اسی آیت میں دوسرا لفظ ’’وجیہا فی الدنیا‘‘ ہے۔ وجاہت دنیوی کے لئے یاد رہے کہ عیسیٰ علیہ السلام پیدائش سے یہود کے معتوب ہوئے۔ یہود آپ کے در پے آزار رہے۔ ساری زندگی فقر وزہد میں گزار دی۔ وجاہت دنیوی رفع تک آپ کو حاصل نہ ہوئی۔ وہ نزول کے بعد ہو گی۔ جس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یکون حکمًا عدلاً حکمًا مقسطا‘‘ کہ نزول کے بعد سیدنا عیسیٰ علیہ السلام حاکم عادل ہوں گے۔ گویا وجاہت دنیوی کا مظہر اتم ہوں گے۔
نکتہ: نیز آپ کی وجاہت دنیوی کے وعدہ قرآنی کا تقاضہ تھا کہ آپ مصلوب نہیں ہوسکتے تھے۔ کیونکہ مصلوبیت اس عالم دنیوی میں ذلت کا سبب ہے جو وجاہت کے منافی ہے۔ جیسا کہ خود قرآن مجید میں صلیب دئیے جانے کے ذکر کے بعد فرمایا ’’ ذالک لہم خزی فی الدنیا (مائدہ:۳۳) ‘‘ یہ ان کے اس زندگی دنیوی میں خواری ہے۔ معاذ اﷲ! اگر حضرت روح اﷲ علیہ السلام صلیب پر لٹکائے جاتے جیسا کہ مرزاقادیانی کا خیال فاسد وعقیدہ باطل ہے۔ خواہ صلیب سے زندہ بھی اتارے جاتے تو بھی آپ کی وجاہت کے منافی ہوتا۔ پس عقیدہ ملعونیہ صلیبیہ قادیانیہ بالکل قادیانیت کی طرح مردود ہے۔

تفسیری شواہد:​

۱… اب حضرت امام رازی رحمہ اللہ تعالیٰ جن کی تفسیر مرزاقادیانی کے نزدیک بھی معتبر ہے جن کو قادیانی مجدد بھی تسلیم کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں۔
’’ معنی الوجیہ ذوالجاہ والشرف والقدر… اذا صارت لہ منزلۃ رفعیۃ عند الناس والسلطان ‘‘ (تفسیر کبیر ج۸ ص۵۳)
صاحب وجاہت وبزرگی، صاحب قدر ومنزلۃ کو وجیہ کہتے ہیں… جب کہ اسے عوام وخواص (بادشاہ) میں خاص قدر ومنزلت حاصل ہو۔ اب ظاہر ہے کہ اگر بادشاہ وقت نے یہودیوں کے کہنے پر ان کو مصلوب کیا تو پھر منزلت ووجاہت حاصل نہ ہوئی۔ اس لئے ’’وجیہاً‘‘ کا تقاضہ ہے کہ وہ مصلوب نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح حضرت علامہ رازی رحمہ اللہ تعالیٰ ’’ ومن المقربین ‘‘ کے تحت فرماتے ہیں۔
’’ ان ہذا الوصف کالتنبیہ علی انہ علیہ السلام سیرفع الی السماء وتصاحبہ الملائکۃ ‘‘ (تفسیر کبیر ج۸ ص۵۴)
تحقیق (ومن المقربین) کا یہ وصف تنبیہ ہے۔ اس پر کہ عیسیٰ علیہ السلام عنقریب آسمانوں پر اٹھائے جائیں گے اور ملائکۃ کی صحبت میں جلوہ گر ہوں گے۔ دیکھئے کس صراحت سے حضرت امام رازی نے ’’ وجیہًا فی الدنیا والاٰخرۃ ومن المقربین ‘‘ میں امت کے مؤقف کی تصریح فرمائی۔ ’’ من شاء فلیؤمن ومن شاء فلیکفر ‘‘
۲… علامہ زمخشری جن کی تفسیر مرزاقادیانی کے ہاں معتبر ہے اور قادیانی ان کو مجدد تسلیم کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں: ’’ ومن المقربین رفعہ الی السماء وصحبتہ للملائکۃ ‘‘ (کشاف ج۱ ص۳۶۴)
۳… تفسیر جلالین میں ہے۔ ’’ ومن المقربین عند اﷲ ‘‘ اس کے بین السطور میں مرقوم ہے۔ ’’ یرفعہ الٰی السماء ‘‘ (جلالین ص۵۱، مطبع اصح المطابع کراچی)
۴… تفسیر خازن میں ہے۔ ’’ وجیہًا ای شریفًا رفیعًا ذا جاہ وقدر ومن المقربین… انہ رفع علی السماء ‘‘ (خازن ج۱ ص۲۵۰)
۵… تفسیر روح المعانی میں ہے: ’’ رفعہ الٰی السماء وصحبتہ الملائکۃ ‘‘
(روح المعانی ج۳ ص۱۴۴)
۶… تفسیر ابی السعود میں بھی ’’ رفعہ الیٰ السماء صحبتہ الملائکۃ ‘‘ مذکور ہے۔
(ابی السعود ج۲ ص۳۷)
قارئین آپ نے امت کا مؤقف اور اس کی صداقت کا ائمہ مفسرین کی کتب تفسیر سے بخوبی اندازہ فرمالیا۔ اب چلیں قادیانی مؤقف اور اس کا بطلان اور اہل اسلام کے مؤقف کی صداقت ملاحظہ کریں۔

قادیانی مؤقف ان کی مسلمات کی رو سے​

۱… مرزاقادیانی نے ’’ وجیہًا فی الدنیا ‘‘ کے معنی لکھے ہیں: ’’دنیا میں راست بازوں کے نزدیک باوجاہت یا باعزت ہونا۔‘‘ (ایام الصلح ص۱۶۴، خزائن ج۱۴ ص۴۱۲)
۲… مرزاقادیانی کے نزدیک ’’تمام نبی دنیا میں وجیہ ہی تھے۔‘‘
(ایام الصلح ص۱۶۶، ملخص خزائن ج۱۴ ص۴۱۴)
۳… (الف)مرزاقادیانی کے لاہوری خلیفہ اپنی تفسیر بیان القرآن ج۱ مطبوعہ ۱۳۴۰ھ ص۳۱۱ پر لکھتے ہیں: ’’وجیہ کے معنی ہیں ذوجاہ یا ذووجاہۃ یعنی مرتبہ والا یا وجاہت والا۔‘‘ (ب)’’اﷲتعالیٰ کے انبیاء سب ہی وجاہت والے ہوتے ہیں۔‘‘
ناظرین باتمکین! اس آیت مبارکہ میں حضرت مریم علیہا السلام کو بطور بشارت کہاگیا ہے کہ وہ لڑکا (عیسیٰ علیہ السلام) دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی باعزت، بآبرو اور باوجاہت ہوگا۔ قابل توجہ الفاظ یہاں ’’ وَجِیْہًا فِی الدُّنْیَ ا‘‘ کے ہیں۔ ان الفاظ سے صاف عیاں ہے کہ اس سے مراد صرف دنیوی وجاہت ہی ہے۔ جیسا کہ خود الفاظ ڈنکے کی چوٹ اعلان کر رہے ہیں۔ پھر دنیوی وجاہت سے بھی وہ معمولی وجاہت مراد نہیں ہو سکتی جو دنیا میں کروڑہا انسانوں کو حاصل ہے۔ اس سے کوئی خاص وجاہت (عزت مراد ہے) ورنہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دنیوی وجاہت سے خاص کرنا اور اس کی بشارت کو خصوصیت کے ساتھ بطور پیش گوئی بیان کرنا شان باری تعالیٰ کے لائق نہیں۔ حضرت مریم علیہا السلام کو معمولی دنیوی وجاہت سے قبل از وقت اطلاع دینا قرین قیاس نہیں۔ روحانی وجاہت کا یقین تو حضرت مریم علیہا السلام کو ’’ کلمۃ منہ ‘‘ اور ’’ وجیہًا فی الآخرۃ ‘‘ اور ’’ غلاما ذکیا ‘‘ وغیرہ خطابات ہی سے حاصل ہوگیا تھا۔ ہاں! ’’ وجیہًا فی الدنیا ‘‘ کے الفاظ کے اضافہ سے یقینا باری تعالیٰ کا یہ مقصود تھا کہ اے مریم اس دنیا میں اپنی قوم سے چند روز بدسلوکی کے بعد ہم انہیں تمام جہاں کی نظروں میں باعزت بھی کر کے چھوڑیں گے۔ اب سوال پیداہوتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو واقعہ صلیب تک دنیوی وجاہت حاصل تھی یا نہ؟ اس کا جواب قادیانی کے اپنے الفاظ میں پیش کرتا ہوں۔
’’ وجیہًا فی الدنیا والآخرہ ‘‘ دنیا میں بھی مسیح علیہ السلام کو اس کی زندگی میں وجاہت یعنی عزت، مرتبہ، عظمت، بزرگی ملے گی اور آخرت میں بھی۔ اب ظاہر ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے ہیرودیس کے علاقہ میں کوئی عزت نہیں پائی۔ بلکہ غایت درجہ کی تحقیر کی گئی۔ (مسیح ہندوستان میں ص۵۳، خزائن ج۱۵ ص۵۳) واقعی مرزاقادیانی سچ کہہ رہے ہیں۔

محمد علی لاہوری کی شہادت​

’’یہاں اشارہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگ سمجھیں گے کہ یہ شخص ذلیل ہوگیا مگر ایسا نہ ہوگا بلکہ اسے دنیا میں بھی ضرور وجاہت حاصل ہوگی اور آخرت میں بھی۔ جس قدر تاریخ حضرت مسیح علیہ السلام کی عیسائیوں کے ہاتھ میں ہے۔ وہ بظاہر انہیں ایک ذلت کی حالت میں چھوڑتی ہے۔ کیونکہ ان کا خاتمہ چوروں کے ساتھ صلیب پر ہوتا ہے۔ مگر اﷲتعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ وہ انبیاء کو کچھ نہ کچھ کامیابی دے کر اٹھاتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق ’’ وجیہًا فی الدنیا ‘‘ فرمانا بھی یہی معنی رکھتا ہے کہ لوگ انہیں ناکام سمجھیں گے۔ مگر فی الحقیقت وہ کامیابی کے بعد اٹھائے جائیں گے۔ یہ کامیابی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہود بیت المقدس میں حاصل نہیں ہوئی۔‘‘ (تفسیر بیان القرآن ج۱ ص۳۱۱)
معزز حضرات! جب یہ طے ہوگیا کہ واقعہ صلیب تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دنیوی وجاہت وعزت حاصل نہ تھی۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ واقعہ صلیب اور اس کے بعد کے زمانہ میں کیا انہیں یہ وجاہت اس وقت تک نصیب ہوئی ہے یا نہ؟ اس کا جواب بھی قادیانی کے اپنے اقوال اور مسلمات سے پیش کرتا ہوں۔ یعنی ابھی تک دنیوی وجاہت اور عزت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حاصل نہیں ہوئی۔
۱… واقعہ صلیبی کو آیت: ’’ واذ کففت بنی اسرائیل عنک ‘‘ کے ذیل میں مرزاقادیانی کے الفاظ میں پڑھ لیا جائے۔ اگر مرزاقادیانی کا بیان صحیح تسلیم کر لیا جائے تو اس سے بڑھ کر دنیوی بے وجاہتی اور بے عزتی کا تصور انسانی دماغ کے تخیل سے محال ہے۔ یہی حال انجیل کے بیانات کو صحیح ماننے کا ہے۔ ہاں! اسلامی حقائق کو قبول کر لینے سے واقعہ صلیبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دنیوی وجاہت کی ابتداء معلوم ہوتی ہے۔ وہ اس طرح کہ یہود کے مکروفریب کے خلاف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا معجزانہ رنگ میں آسمان پر اٹھایا جانا اور یہود نامسعود کا اپنی تمام فریب کاریوں میں بدرجہ اتم فیل ہوجانا گویا وجاہت کی ابتداء ہے۔
۲… اب ہم واقعہ صلیب کے زمانہ مابعد کو لیتے ہیں۔ اس زمانہ میں یہود اور عیسائی بالعموم یہی عقیدہ رکھتے چلے آئے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب پر چڑھائے گئے اور بالآخر قتل کئے گئے اور اس وجہ سے دونوں مذاہب کے ماننے والے یعنی یہودی اور عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو (نعوذ باﷲ) لعنتی قرار دیتے ہیں۔ (اگر قادیانی تصدیقات کی ضرورت ہو تو دیکھو ’’ ومکروا ومکر اللّٰہ واللّٰہ خیر الماکرین ‘‘ کے ذیل میں)
پس کیا کروڑہا انسانوں کا آپ کو لعنتی قرار دینا موجب وجاہت ہے یا بے عزتی؟ پہلے تو صرف مخالف یہودیوں کی نظر ہی میں بے عزت تھے مگر واقعۂ صلیب سے لے کر اس وقت تک عیسائی بھی لعنت میں یہود کے ہمنوا ہوگئے۔

قادیانی نظریہ وجاہت عیسیٰ علیہ السلام اور اس کی حقیقت​

’’سچی بات یہ ہے جب مسیح نے ملک پنجاب کو اپنی تشریف آوری سے شرف بخشا تو اس ملک میں خدا نے ان کو بہت عزت دی… حال ہی میں ایک سکہ ملا ہے۔ اس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام درج ہے۔ اس سے یقین ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے اس ملک میں آکر شاہانہ عزت پائی۔‘‘ (مسیح ہندوستان میں ص۵۳، خزائن ج۱۵ ص۵۳)
ناظرین! مرزاقادیانی کے اس بیان کو ایجاد مرزاقادیانی کہنا ہی زیادہ زیبا ہے۔ کیونکہ یہ سب کچھ مرزاقادیانی کا اپنا تخیل اور اپنے عجیب وغریب دماغ کی پیداوار ہے۔ قرآن وحدیث، تفاسیر، مجددین، انجیل اور کتب تواریخ یکسر اس بیان کی تصدیق اور تائید سے خالی ہیں۔ تینوں آسمانی مذاہب اسلام، یہودیت، مسیحیت کوئی اس کو تسلیم نہیں کرتا۔ ہاں! اتنا معلوم ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی بھی ’’وجیہًا فی الدنیا‘‘ کی تفسیر دنیوی جاہ وجلال اور بادشاہت سے کرتے ہیں۔ کوئی قادیانی حضرات سے دریافت کرے کہ علاقہ ہیرودیس میں مسیح علیہ السلام ساڑھے تینتیس برس تک رہے اور بغیر وجاہت دنیوی عزت کے رہے۔ دنیوی جاہ وجلال سے بھی عاری رہے۔ باوجود اس کے اس زمانہ میں جو انجیل نازل ہوئی۔ اس کے نام پر انجیل موجود ہے اور ساڑھے تینتیس سال کے حالات سے ساری انجیلیں بھری پڑی ہیں۔ اگر آپ کے بیان میں ذرہ بھر بھی صداقت کا نام ہو تو پنجاب میں جو حضرت مسیح علیہ السلام نے شاہانہ عزت پائی۔ اس زمانہ کے حالات کہاں درج ہیں؟ آپ کے خیال میں واقعہ صلیبی کے ۸۷برس بعد تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ رہے۔ اس علاقہ میں آپ نے جس انجیل کی تعلیم دی۔ وہ کہاں ہے اور اس کا کیا ثبوت ہے؟ بلکہ آپ کا بیان اگر صحیح مان لیا جائے۔ یعنی صلیب کے واقعہ کے ۸۷برس بعد تک حضرت مسیح گمنامی کی زندگی بسر کر کے کشمیر میں فوت ہوگئے تو کیا یہ بھی کوئی دنیوی وجاہت اور عزت ہے کہ جلاوطنی اور مسافری کے مصائب وآلام برداشت کر کے آخر ۸۷برس کے بعد بے نام ونشان فوت ہوگئے؟ سبحان اﷲ! کہ اتنی بڑی وجاہت کے باوجود اوراق تاریخ ان کے تذکرہ سے خالی ہیں۔ طرفہ تر یہ کہ تواریخ کشمیر پر یہ الہامی ضمیمہ کسی طرح چسپاں نہیں ہوسکتا۔ بینوا توجروا!
لیجئے! ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ ’’وجیہًا فی الدنیا‘‘ کا مطلب کیا ہے۔ لیجئے! ’’ وجیہًا فی الدنیا ‘‘ کی بشارت ووعدہ کی تکمیل کے لئے اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں۔ ’’ وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ‘‘ یعنی تمام اہل کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے ان پر ایمان لے آئیں گے۔ (مفصل دیکھو اسی آیت کی ذیل میں)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی کا حال ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں: ’’ عن ابی ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم قال: قال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم : والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم حکمًا عدلًا۔ فیکسر الصلیب ویقتل الخنزیر ویضع الحرب ویفیض المال حتّٰی لا یقبلہ احد، وتکون السجدۃ الواحدۃ خیرا من الدنیا وما فیہا ثم یقول ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم فاقروا ان شئتم! وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ (بخاری ومسلم) ‘‘ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدا کی قسم عنقریب ابن مریم علیہ السلام تم میں اتریں گے حاکم عادل ہوکر۔ پھر وہ صلیب (عیسائیوں کے نشان مذہب) کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کرادیں گے اور بوجہ غلبۂ اسلام جہاد کو موقوف کر دیں گے (یعنی جب کفار ہی نہ رہیں گے تو جہاد کس سے کریں گے۔ لہٰذا شروع میں جہاد ضرور کریں گے) اور مال اتنا فراوان ہو جائے گا کہ کوئی شخص اسے قبول نہ کرے گا۔ یہاں تک کہ ایک سجدہ ساری دنیا کی نعمتوں سے اچھا ہو گا۔ پھر ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم نے کہا کہ اگر تم (اس کی تصدیق کلام اﷲ سے) چاہو۔ تو پڑھو آیت: ’’ وَاِنْ مِّنْ اَہْلِ لْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنُنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ ‘‘
دیکھئے ناظرین! یہ ہے وہ وجاہت جس کی بشارت حضرت مریم علیہا السلام کو دی جا رہی ہے اور جو اہل اسلام کا عقیدہ ہے۔ بہرحال قادیانی مسلمات کی رو سے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیوی وجاہت سے بکلی محروم رہے۔ حالانکہ قادر مطلق خدا کا سچا وعدہ ہے وہ پورا ہوکر رہے گا۔

تصدیق از مرزاقادیانی​

حضرات! مرزاقادیانی کو جس زمانہ میں ابھی مسیح، عیسیٰ علیہ السلام، ابن مریم، بننے کا شوق نہیں چرایا تھا۔ تو اس زمانہ میں ان کا بھی وہی عقیدہ تھا۔ جو ایک ارب چالیس کروڑ مسلمانان عالم کا چودہ سو سال سے چلا آرہا ہے۔ براہین احمدیہ اپنی الہامی کتاب میں مجدد ومحدث کا دعویٰ کرنے کے بعد یوں لکھتے ہیں: ’’ ہُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہُ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لَیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ‘‘ یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیش گوئی ہے اور جس غلبہ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیاگیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ سے ظہور میں آئے گا اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا۔
(براہین احمدیہ ص۴۹۸، ۴۹۹، خزائن ج۱ ص۵۹۳)
’’ عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یَّرْحَم عَلَیْکُمْ اِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَ ا‘‘ یہ آیت اس مقام میں حضرت مسیح کے جلالی طور پر ظاہر ہونے کا اشارہ ہے… تو وہ زمانہ بھی آنے والا ہے۔ جب خداتعالیٰ مجرمین کے لئے شدت اور عنف اور قہر اور سختی کو استعمال میں لائے گا اور حضرت مسیح علیہ السلام نہایت جلالیت کے ساتھ دنیا پر اتریں گے اور تمام راہوں سڑکوں کو خس وخاشاک سے صاف کردیں گے اور کج وناراست کا نام ونشان نہ رہے گا اور جلال الٰہی گمراہی کے تخم کو اپنی تجلی قہری سے نیست ونابود کر دے گا۔ (براہین احمدیہ ص۵۰۵، خزائن ج۱ ص۶۰۱،۶۰۲)
ناظرین! یہ ہے وہ وجاہت جس کی طرف اﷲتعالیٰ حضرت مریم علیہا السلام کو توجہ دلا رہے ہیں۔ چونکہ ابھی تک یہ وجاہت حضرت مسیح علیہ السلام کو حاصل نہیں ہوئی۔ پس معلوم ہوا کہ وہ ابھی تک دنیا میں نازل بھی نہیں ہوئے اور بقول مرزا ’’نزول جسمانی رفع جسمانی کی فرع ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۲۶۹، خزائن ج۳ ص۲۳۶) اس لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام (فداہ ابی وامی، روحی وجسدی واولادی) کا رفع بھی ثابت ہوگیا۔ فالحمد ﷲ علٰی ذالک!
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

حیات مسیح علیہ السلام کی آٹھویں دلیل​

’’ وَاِذْ عَلَّمَّتُکَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَالتَّوْرَاۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَاِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّیْنَ کَہَیْئَۃٍ الطَّیْرَ (مائدہ:۱۱۰) ‘‘ {اور جب سکھائی میں نے تجھ کو کتاب اور تہہ کی باتیں اور توریت اور انجیل اور جب تو بناتا تھا گارے سے جانور کی صورت۔}
’’ وَیُعَلِّمُہُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَالتَّوْرَۃَ وَالْاِنْجِیْلَ (آل عمران:۴۸) ‘‘
قرآن مجید میں جہاں کہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ’’ یعلمہم الکتاب والحکمۃ ‘‘ کا لفظ آیا ہے۔ امت کے اجتماعی فہم قرآن کے مطابق ’’ الکتاب والحکمۃ ‘‘ سے مراد قرآن وسنت ہے۔ اب سورۂ مائدہ آیت:۱۱۰ اور آل عمران کی آیت:۴۸ میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے لئے بھی جہاں تورات وانجیل کے علم دئیے جانے کا ذکر ہے۔ وہاں ’’ الکتاب والحکمۃ ‘‘ سے مراد بھی قرآن وسنت کا علم دیا جانا مذکور ہو تو یہ نہ صرف قرین قیاس بلکہ قرآن کی قرآنی تفسیر قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس لئے کہ ’’ الکتاب والحکمۃ ‘‘ معرفہ ہے۔ بدیں وجہ عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری پر ’’ یحکم بشرعنا لا بشرعہ (الیواقیت) یہلک الملل کلہا الاملۃ الاسلام (حدیث) ‘‘ کے مطابق قرآن وسنت کا ان کو علم دیا جائے گا۔ وہ کسی سے قرآن وسنت کا علم حاصل نہیں کریں گے بلکہ قرآن وسنت کا علم بذریعہ الہام والقاء منجانب اﷲ ان کو عطاء کیا جائے گا۔ اس لحاظ سے مذکورہ بالا آیات سیدنا مسیح علیہ السلام کے نزول کی دلیلیں قرار پائیں گی۔ یہ صرف ہماری رائے نہیں بلکہ قدیم مفسرین نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے۔ جیسا کہ:

تفسیری شواہد:​

۱… علامہ خازن نے اپنی شہرہ آفاق تفسیر خازن میں ’’الحکمۃ‘‘ یعنی ’’العلم والسنۃ واحکام الشرائع‘‘ لکھا ہے۔ (خازن ج۱ ص۲۵۱)
۲… علامہ زمخشری نے (کشاف ج۱ ص۶۹۱) پر ’’الکتاب والحکمۃ‘‘ کے تحت ’’ لان المراد بہما جنس الکتاب والحکمۃ ‘‘ لکھا ہے۔
۳… تفسیر ابی السعود اور روح المعانی میں بھی اسی طرح مذکور ہے۔
۴… علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی تفسیر عثمانی میں لکھا ہے: ’’یعنی لکھنا سکھائے گا یا عام کتب ہدایت کا عموماً اور تورات وانجیل کا خصوصاً علم عطاء فرمائے گا اور بڑی گہری حکمت کی باتیں تلقین کرے گا اور بندہ کے خیال میں ممکن ہے کتاب وحکمت سے مراد قرآن وسنت ہو۔ کیونکہ حضرت مسیح علیہ السلام نزول کے بعد قرآن وسنت رسول اﷲ کے موافق حکم کریں گے اور یہ جب ہی ہوسکتا ہے کہ ان چیزوں کا علم دیا جائے۔ واﷲ اعلم!‘‘
۵… (معالم العرفان ج۳ ص۱۶۶) پر ہے: ’’ وَیُعَلِّمُہُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ ‘‘ اور اﷲتعالیٰ اسے یعنی عیسیٰ علیہ السلام کو کتاب اور حکمت سکھائے گا۔ عام مفسرین کرام کتاب سے مراد لکھنا لیتے ہیں اور حکمت سے دانائی۔ مگر بہت سے دوسرے مفسرین فرماتے ہیں کہ کتاب سے مراد قرآن اور حکمت سے مراد سنت ہے۔ مسلم شریف میں امام ابن ابی ذئب رحمہ اللہ تعالیٰ کی روایت میں ہے کہ جب مسیح علیہ السلام دنیا میں دوبارہ نازل ہوں گے تو وہ کتاب وسنت کے مطابق فیصلے کریں گے۔ اﷲتعالیٰ آپ کو قرآن وسنت کا علم بھی بلاواسطہ دیں گے۔ آپ کسی استاد سے نہ تفسیر پڑھیں گے اور نہ سنت سیکھیں گے بلکہ اﷲتعالیٰ یہ چیزیں خود بخود سکھائے گا۔
۶… (مسلم شریف ج۱ ص۸۷) پر مستقل باب ہے جس کا عنوان ہے۔
’’بَ ابُ نُزُوْلِ عِیْسٰی بْنِ مَرْیَمَ عَلَیْہِمَا السَّلَامُ حَاکِمًا بِشَرِیْعَۃِ نَبِیِّنَا صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ باب نزول عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے بارہ میں (جب وہ نازل ہوں گے) تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت (کتاب وسنت) کے مطابق فیصلہ کرنے والے ہوں گے۔‘‘
۷… (مسلم شریف ج۱ ص۸۷، باب نزول عیسیٰ بن مریم علیہما السلام) میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے دو روایتیں ہیں: (۱)’’ کیف انتم اذا نزل ابن مریم فیکم وامامکم منکم ‘‘ عیسیٰ علیہ السلام امت محمدیہ میں نازل ہوں گے اور تمہارا امام (حضرت مہدی علیہ الرضوان) تم میں سے ہوگا۔ اس میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی دو علیحدہ علیحدہ شخصیات کا تذکرہ ہے۔ (۲)دوسری روایت میں ہے کہ: ’’ کیف انتم اذا نزل فیکم ابن مریم فامکم ‘‘ عیسیٰ علیہ السلام تم میں نازل ہوں گے اور وہ تمہارے امام ہوں گے۔
ا س روایت کی شرح میں حضرت امام مسلم رحمہ اللہ تعالیٰ ایک روایت لائے ہیں۔ ’’ قال ابن ابی ذئب تدری ما امکم منکم قلت تخبرنی قال فامکم بکتاب ربکم عزوجل وسنۃ نبیکم صلی اللہ علیہ وسلم (مسلم ج۱ ص۸۷) ‘‘ ابن ابی ذئب فرماتے ہیں کہ تم جانتے ہو کہ وہ کس چیز پر تمہاری رہنمائی کریں گے۔ میں (راوی) نے کہا کہ آپ فرمائیں۔ فرمایا کہ وہ اﷲ رب العزت کی کتاب اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق رہنمائی فرمائیں گے۔

حیات مسیح علیہ السلام کی نویں دلیل​

’’ یکلم الناس فی المہد وکہلاً ومن الصالحین (آل عمران:۴۶) ‘‘ {اور باتیں کرے گا لوگوں سے جب کہ ماں کی گود میں ہوگا اور جب ادھیڑ عمر کا ہوگا اور نیک بختوں میں سے۔}
سیدہ مریم علیہا السلام کو جب بشارت دی گئی تو مسیح علیہ السلام کی دیگر خصوصیات کے ساتھ اس خصوصیت کا اﷲتعالیٰ نے وعدہ فرمایا۔ اسی طرح جب قیامت کے دن مسیح علیہ السلام سے حق تعالیٰ فرمائیں گے کہ ہم نے آپ پر یہ احسان کئے تو دیگر انعامات کے علاوہ ’’ تکلم الناس فی المہد وکہلا (مائدہ:۱۱۰) ‘‘ {تو کلام کرتا تھا لوگوں سے گود میں اور بڑی عمر میں۔} اس کا اﷲتعالیٰ تذکرہ فرمائیں گے۔

تفسیری شواہد:​

۱… حضرت مولانا محمد شفیع رحمہ اللہ تعالیٰ (معارف القرآن ج۲ ص۶۲،۶۳) پر لکھتے ہیں: ’’اس آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ایک صفت یہ بھی بتلائی ہے کہ وہ بچپن کے گہوارے میں جب کوئی بچہ کلام کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اس حالت میں بھی کلام کریں گے۔ جیسا کہ دوسری آیت میں مذکور ہے کہ جب لوگوں نے ابتداء ولادت کے بعد حضرت مریم علیہا السلام پر تہمت کی بناء پر طعن کیا، تو یہ نومولود بچے حضرت عیسیٰ علیہ السلام بول اٹھے، ’’ اِنِّیْ عَبْدُاللّٰ ہِ‘‘ اور اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ جب وہ ’’کہل‘‘ یعنی ادھیڑ عمر کے ہوں گے۔ اس وقت بھی لوگوں سے کلام کریں گے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ بچپن کی حالت میں کلام کرنا تو ایک معجزہ اور نشانی تھی اس کا ذکر تو اس جگہ کرنا مناسب ہے مگر ادھیڑ عمر میں لوگوں سے کلام کرنا تو ایک ایسی چیز ہے جو ہر انسان مومن کافر، عالم، جاہل کیا ہی کرتا ہے۔ یہاں اس کو بطور وصف خاص ذکر کرنے کے کیا معنی ہو سکتے ہیں۔ اس سوال کا ایک جواب تو وہ ہے جو بیان القرآن کے خلاصہ تفسیر سے سمجھ میں آیا، کہ مقصد اصل میںحالت بچپن ہی کے کلام کا بیان کرنا ہے۔ اس کے ساتھ بڑی عمر کے کلام کا ذکر اس غرض سے کیاگیا کہ ان کا بچپن کا کلام بھی ایسا نہیں ہوگا جیسے بچے ابتداء میں بولا کرتے ہیں۔ بلکہ عاقلانہ، عالمانہ، فصیح وبلیغ کلام ہوگا۔ جیسے ادھیڑ عمر کے آدمی کیا کرتے ہیں اور اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے واقعہ اور اس کی پوری تاریخ پر غور کیا جائے تو اس جگہ ادھیڑ عمر میں کلام کرنے کا تذکرہ ایک مستقل عظیم فائدہ کے لئے ہو جاتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اسلامی اور قرآنی عقیدہ کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا ہے۔ روایات سے یہ ثابت ہے کہ ان کو اٹھانے کے وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عمر تقریباً تیس پینتیس سال کے درمیان تھی جو عین عنفوان شباب کا زمانہ تھا۔ ادھیڑ عمر جس کو عربی میں کہل کہتے ہیں وہ اس دنیا میں ان کی ہوئی ہی نہ تھی۔ اس لئے ادھیڑ عمر میں لوگوں سے کلام جبھی ہوسکتا ہے جب کہ وہ پھر دنیا میں تشریف لائیں۔ اس لئے جس طرح ان کا بچپن کا کلام معجزہ تھا اسی طرح ادھیڑ عمر کا کلام بھی معجز ہی ہے۔‘‘
۲… علامہ ابن جریر طبری رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ معنی قولہ وکہلا انہ سیکلمہم اذا ظہر ‘‘ عیسیٰ علیہ السلام کا جب نزول ہوگا اس وقت بھی کلام فرمائیں گے۔ اسی کے آگے ابن زید رحمہ اللہ تعالیٰ کا اثر لائے ہیں۔ ’’ قد کلمہم عیسٰی فی المہد وسیکلم اذا قتل الدجال وہو یومئذ کہل (ابن جریر ج۳ ص۲۷۲،۲۷۳) ‘‘ عیسیٰ علیہ السلام نے ان لوگوں سے پنگھوڑے میں باتیں کیں۔ اسی طرح جب قتل دجال (نزول کے بعد) کریں گے اس وقت بھی باتیں کریں گے۔ اس وقت وہ ادھیڑ عمر کے ہوں گے۔ یعنی اتنا لمبا عرصہ مرور زمانہ کا ان پر کوئی اثرانداز نہ ہوگا۔
۳… علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی حضرت زید رحمہ اللہ تعالیٰ کے اسی اثر کو نقل فرمایا ہے: ’’ قد کلمہم عیسٰی علیہ السلام فی المہد وسیکلمہم اذا قبل الدجال وہو یومئذ کہل (درمنثور ج۲ ص۲۵) ‘‘ عیسیٰ علیہ السلام نے پنگھوڑے میں جس طرح باتیں کیں۔ اسی طرح دجال کے مقابل (نزول کے بعد) جب آئیں گے ادھیڑ عمر کے ہوں گے اور باتیں کریں گے۔
۴… علامہ آلوسی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ وعلی ما ذکر فی سن الکہولۃ یراد بتکلیمہ علیہ السلام کہلا تکلیمہ لہم کذالک بعد نزولہ من السماء ‘‘ ادھیڑ عمر سے مراد عیسیٰ علیہ السلام کاادھیڑ عمر میں اس وقت باتیں کرنا ہے جب وہ آسمانوں سے نازل ہوں گے۔ پھر وہی مذکورہ ابن جریر کے مذکورہ اثر کو اس کی تائید میں ذکر کیا ہے۔ (روح المعانی ج۳ ص۱۴۵)
۵… حضرت قاضی ثناء اﷲ پانی پتی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ وفیہ اشارۃ الٰی رفعہ یعمر ولا یموت حتی یکہل والٰی ان سنہ لا یتجاوز الکہولۃ قال الحسن بن فضل وکہلا یعنی بعد نزولہ من المساء فانہ رفع الٰی السماء قبل سن الکہولۃ (مظہری ج۳ ص۵۰) ‘‘ اس (وکہلا) میں اشارہ ہے کہ وہ طویل عمر پائیں گے۔ حتیٰ کہ ادھیڑ عمر اور (مرور زمانہ کا ان پر کوئی اثر نہ ہوگا) ان کی عمر (یعنی جیسے قبل از رفع تھے ویسے بعد النزول) کہولت سے تجاوز نہ کرے گی۔ حسن بن فضل رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کہولت (کی باتوں سے مراد) ان کا آسمانوں سے نازل ہونے کے بعد باتیں کرنا ہے۔ اس لئے کہ وہ کہولت سے قبل آسمانوں پر اٹھائے گئے ہیں۔
۶… علامہ علی بن محمد بن ابراہیم بغدادی المعروف بالخازن رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ عن الحسن بن الفضل وکہلا یعنی ویکلم الناس کہلا بعد نزولہ من السماء ‘‘ حسن بن فضل رحمہ اللہ تعالیٰ سے روایت ہے کہ کہولت یعنی عیسیٰ علیہ السلام کا ادھیڑ عمر میں باتیں کرنا یہ آسمانوں سے نزول کے بعد ہوگا۔
’’ وفی ہذہٖ نص علٰی انہ سینزل من السماء الی الارض ویقتل الدجال (تفسیر خازن ج۲ ص۲۵۰) ‘‘ اور یہ نص (صریح قطعی) ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں سے زمین پر نازل ہوں گے اور دجال کو قتل کریں گے۔
۷… حضرت فراء بغوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ تفسیر نقل فرمائی ہے۔ (معالم التنزیل ج۱ ص۱۵۹)
۸… علامہ رازی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ کہلا ان یکون کہلا بعد ان ینزل من السماء فی آخرالزمان ویکلم الناس ویقتل الدجال قال الحسن بن الفضل وفی ہذہ الایۃ نص فی انہ علیہ الصلوٰۃ والسلام سینزل الٰی الارض ‘‘ کہلا سے مراد وہ ادھیڑ عمر ہے جو ان کے آسمانوں سے زمانہ نزول میں (قرب قیامت) میںہوگی کہ وہ لوگوں سے باتیں کریں گے۔ دجال کو قتل کریں گے۔ حسن بن فضل رحمہ اللہ تعالیٰ اس آیت کو عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ زمین پر نازل ہونے کے لئے نص (قطعی) قرار دیتے ہیں۔ (تفسیر کبیر ج۸ ص۵۵)
۹… ابوالسعود العمادی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ انہ رفع شابا والمراد کہلاً بعد نزولہ ‘‘
(تفسیر ابوالسعود ج۲ ص۳۷)
۱۰… تفسیر جلالین میں ہے: ’’ فی المہدای طفلا وکہلا یفید نزولہ قبل الساعۃ لانہ رفع قبل الکہولۃ ‘‘ (جلالین المائدہ ص۱۱۰)
۱۱… (تفسیر جامع البیان پ۷ ص۴۸) پر اس آیت کے تحت میں مذکور ہے: ’’کیونکہ وہ سن کہولت سے پہلے آسمان کو اٹھائے گئے اور قیامت سے کچھ پہلے اتارے جائیں گے تو اس قدر زمانہ دراز کے باوجود اس عالم میں ان کو کچھ تغیر نہ ہوگا بلکہ وہی سن کہولت کے ہوگا… یہاں (اس آیت) سے نکلا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے اترنا اقتضاء النص سے ثابت ہے۔‘‘
۱۲… حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی تفسیر (معارف القرآن ج۴ ص۱۵۲) پر فرماتے ہیں: ’’لفظ کہلاً میں آپ کے نزول من السماء کی طرف اشارہ ہے جس کی تفصیل احادیث میں آئی ہے۔ اس لئے کہ آپ زمانہ کہولت سے پہلے آسمان کو اٹھائے گئے، نزول کے بعد آپ کہولت کو پہنچیں گے اور حکمت وموعظت کی باتیں لوگوں کو بتلائیں گے۔‘‘
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

حیات مسیح علیہ السلام کی دسویں دلیل​

’’ ہَوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لَیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ ولوکرہ المشرکون (توبہ:۳۳) ‘‘ {اسی نے بھیجا اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر تاکہ اس کو غلبہ دے ہر دین پر اور پڑے برا مانیں مشرک۔}
بعینہٖ اسی طرح یہی آیت سورۃ صف آیت:۸ میں ہے۔ اس میں بجائے ’’مشرکون‘‘ کے ’’کافرون‘‘ ہے۔
(تفسیر انوار البیان ج۴ ص۲۶۶،۲۶۷) پر غالب ہونے کی تین صورتیں بیان کی گئی ہیں: (۱)دلیل وحجت کے ساتھ غلبہ یہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ (۲)اسلام کے غالب ہونے کی یہ صورت کہ مسلمان اقتدار کے اعتبار سے غالب ہوں۔ جب صرف تین براعظم دنیا میں مصروف تھے تو قیصروکسریٰ۔ ایشیاء وافریقہ اور یورپ پر مسلمان غالب رہے۔ اس وقت بھی دنیا کے بڑے حصہ پر مسلمان برسراقتدار ہیں۔ (۳)تیسری صورت کہ تمام اقوام جو مختلف ادیان کے ماننے والے ہیں، مسلمان ہو جائیں، اور دنیا میں اسلام ہی اسلام ہو ایسا قیامت سے پہلے ضرور ہوگا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مہدی علیہ السلام کے زمانہ میں اسلام خوب پھیل جائے گا۔ (ملخص) دونوں مقامات پر ان آیات سے قبل کی آیات میں سیدنا مسیح علیہ السلام کا تذکرہ ہے۔ چنانچہ مفسرین نے ان آیات کو سیدنا مسیح علیہ السلام کی دوبارہ تشریف آوری سے متعلق قرار دیا ہے۔

تفسیر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم​

اس آیت سراپا انعام وہدایت میں دین اسلام کو جملہ دینوں پر ایک نمایاں غلبہ دینے کا وعدہ دیا ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ یہ غلبۂ کاملہ حضرت مسیح ابن مریم کے نزول کے زمانہ میں ہوگا: ’’ وَعَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ: لَا یَذْہَبْ الِّیْلُ وَالنَّہَارُ حَتّٰی یُعِبْدُ اللَّاتُ وَالْعُزی فَقُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ انی کُنْتُ لَا ظُنُّ حِیْنَ اَنْزَلَ اللّٰہُ ہُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی الآیۃ اَنَّ ذَالِکَ تَامًا فَقَالَ اِنَّہٗ سَیَکُوْنُ مَنْ ذَالِکَ مَا شَائَ اللّٰہُ ثُمَّ یَبْعَثَ اللّٰہُ رِیْحًا طَیِّبَۃً فَتُوُفِّیْ کُلُّ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِّنْ اَیْمَانٍ ‘‘ حضرت عائشہ صدیقہt فرماتی ہیں میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے قیامت قائم نہ ہو گی حتیٰ کہ بت پرستی کا دوبارہ زور شور نہ ہو۔ میں نے عرض کی یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم میں تو جب آیت: ’’ ہُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ ‘‘ نازل ہوئی اس وقت سمجھ چکی تھی کہ دین کا غلبہ پورا ہو چکا۔ فرمایا تحقیق بات یہ ہے کہ اس کا غلبہ عنقریب پھر ہو گا جتنا عرصہ اﷲ چاہے گا (مسیح ابن مریم علیہما السلام کے زمانہ میں نزول کے بعد) پھر خدا ایک پاک ہوا بھیجے گا جس سے ہر وہ مومن جس کے دل میں رائی کے دانہ برابر ایمان ہو گا مر جائے گا۔ ’’ فَیَبْقٰی مَنْ لَا خَیْرَ فِیْہِ فَلَیَرْجِعُوْنَ اِلٰی دِیْنِ اَبَائِہِمْ ‘‘ پس باقی رہ جائیں گے ایسے شخص جن میں ذرہ بھر بھی بھلائی نہ ہوگی پس وہ جھک جائیں گے اپنے آبائی دین بت پرستی کی طرف۔
(مسلم ج۲ ص۳۹۴، کتاب الفتن واشراط الساعۃ مشکوٰۃ ص۴۸۱، باب لاتقوم الساعۃ الاعلی شرار الناس فصل اوّل، درمنثور ج۳ ص۲۳۰)
اسی باب کی دوسری حدیث میں مزید وضاحت ہے کہ خداعیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو بھیجے گا پھر سات سال مسلمانوں پر ایسے آئیں گے کہ کسی دل میں رنج وبغض، حسد وعداوت نہ ہوگا۔ پھر خدا ایک پاک ہوا بھیجے گا جو ہر مومن کو قبض کر لے گی اور باقی رہ جائیں گے شریر تب ان پر قیامت قائم ہوگی۔ ( عن عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم مشکوٰۃ ص۴۸۱، مسلم ج۱ ص۴۰۳ )
الغرض اس آیت کی تفسیر حدیثی سے عیاں ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم زندہ ہیں جو آخری زمانہ میں نازل ہوں گے۔ ان کے ہاتھ سے دین اسلام جملہ مذاہب پر پھر غلبہ حاصل کرے گا۔

تفسیری شواہد:​

۱… علامہ عثمانی رحمہ اللہ تعالیٰ (سورۃ صف:۸) کے فائدہ میں فرماتے ہیں: ’’اسلام کا غلبہ باقی ادیان پر معقولیت اور حجت ودلیل کے اعتبار سے۔ یہ تو ہر زمانہ میں بحمداﷲ نمایاں طور پر حاصل رہا ہے۔ باقی حکومت وسلطنت کے اعتبار سے وہ اس وقت حاصل ہوا ہے اور ہوگا جب کہ مسلمان اصول اسلام کے پوری طرح پابند اور ایمان وتقویٰ کی راہوں میں مضبوط اور جہاد فی سبیل اﷲ میں ثابت قدم تھے یا آئندہ ہوں گے اور دین حق کا ایسا غلبہ کہ باطل ادیان کو مغلوب کر کے بالکل صفحۂ ہستی سے محو کر دے۔ یہ نزول مسیح علیہ السلام کے بعد قریب قیامت کے ہونے والا ہے۔‘‘
۲… علامہ رازی رحمہ اللہ تعالیٰ (تفسیر کبیر ج۱۶ ص۴۰) پر غلبہ دین اسلام کا جمیع ادیان پر کیسے؟ کے کئی جواب دئیے ہیں۔ دوسرے جواب میں فرماتے ہیں: ’’ الوجہہ الثانی فی الجواب ان نقول روی عن ابی ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم بانہ تعالٰی یجعل الاسلام عالیًا علی جمیع الادیان وتمام ہذا انما یحصل عند خروج عیسٰی ‘‘ دوسرے جواب میں کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے روایت ہے کہ اﷲتعالیٰ دین اسلام کو تمام دینوں پر بلندی نصیب کریں گے۔ یہ عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری پر ہوگا۔
۳… (تفسیر ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم ص۱۲۱) پر ہے: ’’ یظہر دین الاسلام علی الادیان کلہا من قبل ان تقوم الساعۃ ‘‘ تمام ادیان پر غلبہ قیامت سے قبل نزول مسیح علیہ السلام کے وقت ہوگا۔
۴… (درمنثور ج۳ ص۲۳۱) پر ایک تو وہ روایت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نقل کی گئی ہے جو اس آیت کی تشریح میں ہم پہلے نقل کر چکے ہیں۔ (۲)دوسرے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی روایت نقل کی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں یہ غلبہ ہوگا۔ (۳)اسی طرح تیسری روایت عبد بن حمید رحمہ اللہ تعالیٰ سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی نقل ہے: ’’ عن ابی ہریرۃ فی قولہ لیظہرہ علی الدین کلہ قال خروج عیسٰی علیہ السلام ‘‘ تمام ادیان پر دین اسلام کا غلبہ عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری پر ہوگا۔
۵… علامہ آلوسی رحمہ اللہ تعالیٰ (روح المعانی پارہ:۲۸ ص۸۸) پر لکھتے ہیں: ’’ عن مجاہد رحمہ اللہ تعالیٰ اذا نزل عیسٰی علیہ السلام لم یکن فی الارض الادین الاسلام ‘‘ حضرت مجاہد رحمہ اللہ تعالیٰ سے منقول ہے کہ جب عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے تو روئے زمین پر دین اسلام کے سوا کوئی (دین) نہ ہوگا۔
۶… (روح المعانی پارہ:۱۰ ص۷۷) پر ایک قول نقل کر کے فیصلہ فرماتے ہیں: ’’ واکثر المفسرون علی احتمال الثانی قالوا وذالک عند نزول عیسٰی علیہ السلام فانہ حینئذ لا یبقی دین سوی دین الاسلام ‘‘ اکثر مفسرین دوسرے قول کے مطابق فرماتے ہیں کہ (غلبۂ اسلام) نزول عیسیٰ علیہ السلام کے وقت میں ہوگا پس اس وقت سوائے دین اسلام کے اور کوئی دین باقی نہ رہے گا۔
۷… (تفسیر مظہری پارہ:۱۰ ص۲۶۰) پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم ، حضرت ضحاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے دین اسلام کا غلبہ عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے زمانہ میں لکھا ہے۔
۸… ’’تفسیر کشاف سورۃ صف‘‘ کی آیت بالا میں مذکور ہے: ’’ عن مجاہد اذا نزل عیسٰی علیہ السلام لم یکن فی الارض الا دین الاسلام ‘‘ حضرت مجاہد رحمہ اللہ تعالیٰ سے منقول ہے کہ جب عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے تو روئے زمین پر صرف اور صرف اسلام ہی ہوگا۔
۹… (تفسیر طبری ج۲۸ ص۸۸) پر ہے: ’’ لیظہر الدین دینہ الحق الذی ارسل بہ رسولہ علی کل دین سواہ وذالک عند نزول عیسٰی بن مریم حین تصیر الملۃ واحدۃ فلا یکون دین غیر الاسلام ‘‘ تاکہ غالب کریں دین حق کو جو آنحضرت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے۔ تمام دوسرے مذاہب پر اور یہ عیسیٰ بن مریم کے نزول کے وقت ہوگا جب کہ ایک ملت (اسلام) ہو جائے گی۔ دین اسلام کے سوا کوئی دین باقی نہ رہے گا۔
۱۰… (طبری ج۱۰ ص۱۱۶) پر بھی عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے نزول کے وقت غلبہ دین اسلام ہوگا۔ منقول ہے۔
۱۱… (تفسیر ابن کثیر مع البغوی ص۱۵۲) سورۃ توبہ کی مذکورہ آیت کے تحت تمام احادیث متعلقہ نقل کر کے سب کے آخر میں قول فیصل کے طور پر سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی مذکورہ بالا روایت نقل کی گئی ہے۔ فالحمدﷲ!
۱۲… تفسیر معالم التنزیل سورۃ توبہ کی آیت مذکورہ کے تحت ص۷۴ پر حضرت ضحاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ بالا تفسیر نقل کی گئی ہے۔
۱۳… (تفسیر خازن ج۳ ص۶۹) پر بھی اس طرح منقول ہے۔
۱۴… (تفسیر مواہب الرحمن پ۲۸ ص۳۱۷) پر اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداﷲ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تورات کے حوالہ سے یہ روایت نقل فرمائی کہ: ’’تورات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف مذکور ہے اور یہ کہ عیسیٰ علیہ السلام آپ کے پاس دفن ہوں گے۔‘‘
۱۵… (بیان القرآن پ۲۸ ص۳) پر بھی حضرت عبداﷲ بن سلام کی یہی روایت منقول ہے اور سورۃ توبہ کی آیت کی تفسیر میں ص۱۰۸ پر منقول ہے۔ ’’اتمام بمعنی اثبات وتقویت دلائل تو اسلام کے لئے ہر زمانہ میں عام ہے… اور (اتمام) مع اعتبار انضمام سلطنت مشروط ہے۔ اصلاح اہل دین کے ساتھ اور مع محو کل بقیہ ادیان واقع ہوگا زمانہ عیسیٰ علیہ السلام میں۔ (باقی تفسیری شواہد طوالت کے خوف سے نقل نہیں کئے)‘‘

قادیانی شہادت​

اس کی مزید تائید مرزاقادیانی کی تحریر سے کی جاتی ہے۔ (براہین احمدیہ ص۴۹۸،۴۹۹، خزائن ج۱ ص۵۹۳) پر مرزالکھتا ہے: ’’ ہو الذی ارسل رسولہ بالہدٰی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ ‘‘ یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح علیہ السلام کے حق میں یہ پیش گوئی ہے اور جس غلبہ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیاگیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعے ظہور میں آئے گا اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق واقطار میں پھیل جائے گا۔ لیکن اس عاجز پر ظاہر کیاگیا ہے کہ یہ خاکسار اپنی غربت اور انکسار اور توکل اور ایثار اور آیات اور انوار کے رو سے مسیح کی پہلی زندگی کا نمونہ ہے۔‘‘
سوال: مرزاقادیانی کے مرید کہتے ہیں کہ یہ رسمی عقیدہ لکھ دیا تھا۔
جواب: مرزاقادیانی نے براہین کو ملہم ومامور ہوکر لکھا۔ قرآنی آیت سے استدلال کیا اور بقول اس کے یہ کتاب براہین احمدیہ، حضور علیہ السلام کو دیکھا کر منظوری حاصل کی اور یہ کہ یہ کتاب قطبی یعنی قطب ستارہ کے مانند ہے۔ مرزاقادیانی نے (تتمہ حقیقت الوحی ص۵۱، خزائن ج۲۲ ص۴۸۵) پر لکھا ہے: ’’اﷲتعالیٰ براہین احمدیہ میں فرماتا ہے۔‘‘ گویا براہین احمدیہ اﷲتعالیٰ کی کتاب ہے۔ ان تصریحات کے ہوتے ہوئے قادیانیوں کا یہ عذر عذرلنگ ہے۔
جواب: ۲… عبارت مذکورہ میں ہے: ’’لیکن اس عاجز پر ظاہر کیاگیا۔‘‘ یہ ظاہر کرنے والا کون تھا؟ رحمن یا شیطان۔ اگر رحمن تھا تو پھر قرآنی تفسیر سے رحمانی فہم کے ساتھ مرزا حیات مسیح علیہ السلام تسلیم کر رہا ہے۔ ’’ فہو المقصود ‘‘ اور اگر یہ ظاہر کرنے والا شیطان تھا تو قادیانیوں کو مبارک ہو۔ قصہ ہی تمام ہوا ’ ’فماذا بعد الحق الا الضلال ‘‘
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

حیات مسیح علیہ السلام کی گیارھویں دلیل​

’’ اَیَّدْنَاہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ (بقرہ۲۵۳) ‘‘ {ہم نے مسیح کو جبرائیل کے ساتھ تائید دی۔}
جو مدعا بالا کی مؤید ہے یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو بوقت محصوری آسمان پر لے جانے کو حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے جیسا کہ سابقاً بروایت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم جن کو ’’علم قرآن بدعا نبوی صلی اللہ علیہ وسلم حاصل تھا۔‘‘ مذکور ہو چکا ہے۔ اسی کی طرف قرآن مجید میں باربار توجہ دلائی گئی ہے۔ تفصیل اس کی یوں ہے کہ اگرچہ تمام انبیاء کے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام آتے رہے۔ مگر اس طرح کا واقعہ کسی نبی کے ساتھ پیش نہیں آیا جیسا مسیح علیہ السلام کے ساتھ، یعنی یہ کہ جبرائیل علیہ السلام انہیں دشمنوں کے نرغے سے نکال کر آسمان پر لے گئے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ خاص مسیح علیہ السلام کے متعلق آیات میں باربار آیا ہے۔ ’’ اَیَّدْنَاہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ‘‘ ہم نے مسیح علیہ السلام کو جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ تائید دی۔
اسی طرح خداتعالیٰ قیامت کے دن مسیح علیہ السلام کو یہ انعام یاد دلائے گا۔ ’’ اِذْ اَیَّدْتُکَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ (مائدہ:۱۱۰) ‘‘ اے عیسیٰ علیہ السلام وہ وقت یاد کر جب میں نے تجھے روح القدس سے تائید بخشی یعنی آسمان پر زندہ اٹھایا۔ (تفسیر ہذا مذکور برتفسیر کبیر ج۱ ص۲۲۶)
آیات بالا کی موجودگی میں یہ اعتقاد رکھنا کہ معاذ اﷲ یہود نے حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب پر چڑھا دیا اور آپ کے ہاتھوں میں میخیں ٹھونکیں۔ ایک صریح گندہ اور کفریہ عقیدہ ہے۔ یقینا حضرت مسیح علیہ السلام باعانت جبرائیل علیہ السلام بحکم وبموجب وعدہ الٰہی جو جلد اور بلا توقف پورا ہونے والا تھا۔ یہود کے ہاتھوں میں مبتلائے آلام ہونے سے پیشتر زندہ آسمان پر اٹھائے گئے۔ اب چند آیات قرآنی ملاحظہ ہوں۔
’’ وَآتَیْنَا عِیْسٰی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنَاتِ وَاَیَّدْنَاہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ (البقرہ:۸۷) ‘‘ روح القدس سے مراد جبرائیل علیہ السلام۔
’’ وَآتَیْنَا عِیْسٰی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنَاتِ وَاَیَّدْنَاہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ (البقرہ:۲۵۳) ‘‘ روح القدس سے مراد جبرائیل علیہ السلام۔
’’ وَکَلِمَتَہٗ اَلْقَاہَا اِلٰی مَرْیَمَ وَرُوْحٌ مِنْہُ (النساء:۱۷۱) ‘‘ اور اس کا کلام ہے جس کو ڈالا مریم کی طرف اور روح (مراد روح اﷲ)
’’ اَذْکُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْکَ وَعَلٰی وَاَلْدَتِکَ اِذْا اَیَّدْتُّکَ بِرُوْحِ الْقُدُس (المائدہ:۱۱۰) ‘‘ یاد کر میرا احسان جو ہوا ہے تجھ پر اور تیری ماں پر جب مدد کی میں نے تیری روح پاک سے۔ (مراد روح اﷲ)
’یُنَزِّلُ الْمَلٰئِکَۃُ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَائُ مِنْ عِبَادِہٖ (النحل:۲) ‘‘ یہاں روح سے مراد وحی الٰہی ہے۔
’’ قُلْ نَزَّلَہٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّکَ بِالْحَقِّ لِیُثَبِّتَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا (النحل:۱۰۲) ‘‘ مراد جبرائیل علیہ السلام۔
’’ وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ (الاسراء:۸۵) ‘‘ اس سے مراد روح ہے۔
’’ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَمَا اُوْتِیُتُمْ مِنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا (الاسراء:۸۵) ‘‘ اس سے مراد روح ہے۔
’’ نَزَّلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنَ عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذَرِیْنَ (الشعراء:۱۹۳) ‘‘ مراد جبرائیل علیہ السلام۔
’’ یُلْقِی الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَائُ مِنْ عِبَادِہٖ لِیُنْذِرَ یَوْمَ الطَّلَاقُ (غافر:۱۵) ‘‘ اس سے مراد وحی ہے۔
’’ اُوْلٰئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْاِیْمَانَ وَاَیَّدْہُمْ بِرُوْحٍ مِنْہُ (المجادلۃ:۲۲) ‘‘ اس سے مراد جبرائیل علیہ السلام۔
’’ وَالرُّوْحُ اِلَیْہِ فَیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃ (المعارج:۴) ‘‘ اس سے مراد جبرائیل علیہ السلام۔
’’ یَوْمَ یَقُوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلَائِکَۃُ صَفًّا (النباء:۳۸) ‘‘ اس سے مراد جبرائیل علیہ السلام۔
’’ تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْہَا بِاِذْنِ رَبِّہِمْ مِنْ کُلِّ اَمْرٍ (القدر:۴) ‘‘ اس سے مراد جبرائیل علیہ السلام۔
’’ وَکَذَالِکَ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ رُوْحًا مِنْ اَمْرِنَا (الشوریٰ:۵۲) ‘‘ اس سے مراد قرآن پاک۔
’’ فَارْسَلْنَا اِلَیْہَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَرًا سَوِیَّا (مریم:۱۷) ‘‘ اس سے مراد جبرائیل علیہ السلام۔
’’ اَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِیْہَا مِنْ رُّوْحِنَا (الانبیاء:۹۱) ‘‘ اس سے مراد جبرائیل علیہ السلام یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام۔
’’ وَمَرْیَمَ ابْنَۃَ عِمْرَانَ اَلَّتِیْ اَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا (التحریم:۱۲) ‘‘ اس سے مراد جبرائیل علیہ السلام یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام۔
استدلال:۱… قرآن مجید میں ۱۸آیات سے ثابت ہوا کہ جہاں کہیں اﷲرب العزت نے روح کا لفظ ارشاد فرمایا ہے وہاں روح سے مراد جبرائیل امین علیہ السلام، فرشتے، وحی یا روح اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں… اور ظاہر ہے کہ ان تمام چیزوں کا تعلق عالم بالا سے ہے۔ اﷲ رب العزت نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو روح منہ فرمایا یعنی روح اﷲ فرمایا۔ جس سے ثابت ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام میں عالم بالا کی طرف آنے جانے کی صلاحیت وخاصیت موجود ہے۔
استدلال:۲… سیدنا عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے۔ نفخۂ جبرائیل علیہ السلام سے اس لحاظ سے ان میں ملکوتی صفات ہیں۔ ملائکہ کا مستقر آسمان ہیں۔ ان کا زمین پر آنا جانا عارضی ہے۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام چونکہ سیدہ مریم علیہا السلام کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے۔ بشر ہیں تو ان کا ملکوتی صفات کے لحاظ سے آسمانوں پر جانا عارضی ہے۔ غرض جب آسمان پر ہیں ملکوتی صفات کا ظہور ہے۔ رفع سے پہلے اور نزول کے بعد جب زمین پر تھے یا ہوں گے تو بشری صفات کا ظہور ہے۔
استدلال:۳… سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو روح اﷲ فرمایا گیا۔ تمام ارواح کا مستقر عالم سماوی ہے۔ اس لئے کہ روح لطیف چیز ہے اورہر لطیف کا مرکز عالم سماوی ہے،جیسا کہ ہر کثیف چیز کا مرکز عالم دنیا ہے۔ روح اﷲ کا تقاضہ ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام عالم سماوی پر بھی تشریف لے جاتے تاکہ روح اﷲ کا منشاء پورا ہوتا۔ اس لئے اگر وہ آسمانوں پر نہ جاتے تو جائے تعجب ہوتا ان کا جانا تو عین تقاضہ ومنشاء کی تکمیل ہے۔
استدلال:۴… کلمۃ اﷲ! سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو کلمۃ اﷲ کہاگیا۔ دوسری آیت کریمہ ہے: ’’ الیہ یصعد الکلم الطیب (فاطر:۱۰) ‘‘ اﷲتعالیٰ کی طرف نیک کلمات اٹھائے جاتے ہیں۔ مسلمان مؤمن کے نیک کلمات اٹھائے جاتے ہیں، ان کا رفع ہوتا ہے تو کلمۃ اﷲ (عیسیٰ علیہ السلام) کے رفع میں کوئی اشکال نہیں ہونا چاہئے۔ عیسیٰ علیہ السلام کا رفع نہ ہوتا تو جائے اشکال تھا۔ رفع تو عین تقاضہ ومنشاء کی تکمیل ہے۔

تفسیری شواہد:​

۱… (درمنثور ج۲ ص۳۴۵) پر ’’اذ ایدتک بروح القدس‘‘ کے تحت علامہ سیوطی رحمہ اللہ تعالیٰ وہب رحمہ اللہ تعالیٰ کی روایت لاتے ہیں جس میں ہے: ’’ فقال لما رفع اللّٰہ عیسٰی علیہ السلام اقامہ بین یدی جبرائیل ومیکائیل ‘‘
۲… علامہ رازی رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی (تفسیر کبیر ج۱۲ ص۱۲۵) زیر آیت: ’’ اذ ایدتک بروح القدس ‘‘ فرماتے ہیں: ’’ فاللّٰہ تعالٰی خص عیسٰی بالروح الطاہرۃ النورانیۃ المشرقۃ العلویۃ الخیرۃ ‘‘ اﷲتعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو خاص طور پر پاک نورانی درخشندہ علویہ اور پسندیدہ روح سے مختص فرمایا۔ یہاں روح علویہ خصوصیت سے قابل توجہ ہے۔
۳… علامہ رازی رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی (تفسیر کبیر ج۶ ص۲۱۷) ’’ایدناہ بروح القدس‘‘ کے تحت فرماتے ہیں: ’’ والمعنی اعناہ جبرائیل علیہ السلام فی اوّل امرہ وفی وسطہ وفی آخرہ اما فی اوّل الامر فلقولہ فنفخنا فیہ من روحنا اما فی وسطہ فلأن جبرائیل علیہ السلام علمہ العلوم وحفظہ من الاعداء واما فی آخر الامر فحین ارادت الیہود قتلہ اعانہ جبرائیل علیہ السلام ورفعہ الی السماء ‘‘ تائید جبرائیل علیہ السلام کا معنی یہ ہے کہ سیدنا جبرائیل علیہ السلام اوّل، درمیان اور آخر، ہر دور میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی تائید میں رہے۔ اوّل اس طرح کہ نفخۂ جبرائیل سے پیدائش ہوئی۔ درمیان اس طرح کہ عیسیٰ علیہ السلام کو علوم سکھلائے اور دشمنوں سے حفاظت کی۔ آخر اس طرح کہ جب یہود عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کے درپے ہوئے تو جبرائیل علیہ السلام نے عیسیٰ علیہ السلام کی تائید کی کہ ان کو آسمانوں پر اٹھا کر لے گئے۔
۴… علامہ زمخشری رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی (تفسیر کشاف ج۱ ص۲۹۹) پر ان آیات کے تحت میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی روایت نقل کی ہے۔ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم نے فرمایا کہ ہم (صحابہi) مسجد میں انبیاء کے فضائل پر بات کر رہے تھے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی فضیلت طول عبادت (بوجہ طوالت عمر) حضرت ابراہیم علیہ السلام کی فضیلت یہ کہ وہ خلیل اﷲ تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فضیلت یہ کہ وہ کلیم اﷲ تھے اور عیسیٰ علیہ السلام کی فضیلت یہ کہ ان کو آسمانوں پر اٹھایا گیا۔
اس روایت کو اس آیت کے تحت میں لاکر علامہ زمخشری رحمہ اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس آیت سے صحابہi یہ سمجھتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں پر اٹھائے گئے۔
۵… (تفسیر خازن ج۱ ص۱۹۴) زیر آیت: ’’ ایدناہ بروح القدس ‘‘ لکھتے ہیں: ’’ وقویناہ بجبرائیل علیہ السلام فکان معہ الٰی ان رفعہ الٰی عنان السماء ‘‘ جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ عیسیٰ علیہ السلام کو تائید بخشی کہ جبرائیل علیہ السلام ان کو آسمانوں پر اٹھا کر لے گئے۔
۶… (تفسیر انوارالبیان ج۶ ص۱۸۶) زیر آیت: ’’ فنفحنا فیہا من روحنا ‘‘ لکھتے ہیں: ’’اﷲتعالیٰ نے فرشتہ بھیجا جس نے ان (مریم علیہا السلام) کے کرتہ کے گریبان میں پھونک ماردی۔ اس سے حمل قرار ہوگیا اور اس کے بعد لڑکا پیدا ہوگیا۔ یہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام تھے جو بنی اسرائیل کے سب سے آخری نبی تھے۔ اﷲتعالیٰ نے ان پر انجیل نازل فرمائی اور انہوں نے بنی اسرائیل کو تبلیغ کی اور شریعت کے احکام بتائے۔ بنی اسرائیل ان کے سخت مخالف ہوگئے اور ان کے قتل کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ اﷲتعالیٰ نے انہیں آسمان پر اٹھا لیا۔ قیامت سے پہلے دوبارہ تشریف لائیں گے۔ جیسا کہ احادیث شریفہ میں وارد ہے۔‘‘

حیات عیسیٰ علیہ السلام کی بارھویں دلیل​

’’ وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِکَ وَجَعَلْنَا لَہُمْ اَزْوَاجًا وَّذُرِّیَۃٌ (الرعد:۳۸) ‘‘ {اور بھیج چکے ہیں ہم کتنے رسول تجھ سے پہلے اور ہم نے دی تھیں ان کو بیویاں اور اولاد۔}
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کفار مکہ جیسے امیہ بن خلف وابی جہل (معالم) کی طرف سے اعتراض ہواکہ یہ کھاتے پیتے بازاروں میں چلتے اور نکاح کرتے ہیں۔ اﷲ رب العزت نے اس اعتراض کے جواب میں فرمایا کہ پہلے انبیاء علیہم السلام کی بھی تو تمام معاشرت انسانوں جیسی تھی۔ جب ان کی نبوت مسلم ہے اور ان انسانی افعال سے ان کی نبوت پر تم معترض نہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر اعتراض کیوں؟
اس آیت میں اﷲتعالیٰ کا یہ ارشاد کہ پہلے انبیاء علیہم السلام نے شادیاں کیں یہ توجہ کے قابل ہے۔ اس کے لئے ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی طرف مراجعت کرنی چاہئے۔

تفسیر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم​

چنانچہ (تفسیر درمنثور ج۴ ص۶۵) پر مصنف ابن ابی شیبہ، مسند احمد اور ترمذی کے حوالہ سے حضرت ابی ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ چار چیزیں انبیاء علیہم السلام کی سنت ہیں۔ خوشبو، نکاح، مسواک، ختنہ، اس روایت کو تفسیر ابن کثیر نے اور دیگر مفسرین نے نقل کیا ہے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج۱ ص۱۹۷، باب ۲۰۲، ماذکر فی السواک حدیث نمبر۲۱)
(مسند احمد ج۵ ص۴۲۱ (لیکن اس میں چوتھی چیز بجائے ختنہ کے حیاء ہے) ترمذی ج۱ ص۲۰۶ ابواب النکاح) پر یہ روایت موجود ہے۔ غرض اس روایت سے ثابت ہوا کہ نکاح کرنا انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے اور آیت مبارکہ یہ بتاتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل بھی انبیاء علیہم السلام نے بتوفیق وبحکم الٰہی نکاح کئے اور ان کی اولاد ہوئی۔

سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور نکاح​

نصاریٰ، یہود اور خود قادیانیوں کو اعتراف ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے نکاح نہیں کیا۔ مرزاقادیانی کی بدباطنی ملاحظہ ہو۔ شرافت سر پیٹ کر رہ جاتی ہے۔ جب مرزاقادیانی سیدنا مسیح علیہ السلام کے نکاح نہ ہونے کے واقعہ کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔
’’مردمی اور رجولیت انسان کی صفات محمودہ میں سے ہے۔ ہیجڑا ہونا کوئی اچھا صفت نہیں جیسے بہرہ اور گونگا ہونا کسی خوبی میں داخل نہیں ہاں! یہ اعتراض بہت بڑا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام مردانہ صفات کی اعلیٰ ترین صفت سے بے نصیب محض ہونے کے باعث ازواج سے سچی اور کامل حسن معاشرت کا کوئی عملی نمونہ نہ دے سکے۔‘‘
(نورالقرآن نمبر۲ ص۱۷، خزائن ج۹ ص۳۹۲)
سیدنا مسیح علیہ السلام کے متعلق بڑے سے بڑے یہودی نے بھی یہ بکواس نہیں کی اور ان کے نکاح نہ کرنے کی یہ وجہ نہیں بتائی جو مرزاقادیانی ملعون نے بیان کی۔ لیکن بہرحال اس حوالہ سے یہ ثابت ہوا کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے نکاح نہیں کیا۔ جب نکاح نہیں ہوا تو اولاد کا سوال ہی نہیں؟ لیکن اس کے باوجود اولاد نہ ہونے کا قادیانی حوالہ بھی ملاحظہ ہو۔ ’’ظاہر ہے کہ دنیوی رشتوں کے لحاظ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کوئی آل نہ تھی۔‘‘
(تریاق القلوب ص۲۳۵، خزائن ج۱۵ ص۳۶۳)
استدلال: قارئین! مرزاقادیانی کے دجل وبدزبانی پر لعنت بھیجیں۔ آیت قرآنی اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بموجب توجہ فرمائیں کہ نکاح رب کریم کا حکم اور انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی پہلی زندگی (قبل از رفع) میں نکاح نہیں کیا تو اس حکم باری تعالیٰ اور سنت انبیاء علیہم السلام پر عمل ان کے نزول من السماء کے بعد ہوگا۔ چنانچہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ عن ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم قال قال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ینزل عیسٰی بن مریم الٰی الارض فیتزوج ویولد لہ ‘‘ (مشکوٰۃ ص۴۸۰، باب نزول عیسیٰ بن مریم، التصریح ص۲۴۰، مرقات ج۵ ص۲۲۳، وفاء الوفاء للسمہودی ج۱ ص۵۵۸، شرح مواہب للزرقانی ج۸ ص۲۹۶، مواہب اللدنیہ ج۲ ص۳۸۲)
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام جب زمین پر تشریف لائیں گے تو شادی کریں گے اور ان کی اولاد ہوگی۔
لیجئے! اس حدیث شریف نے مذکورہ بالا آیت مبارکہ (شادی واولاد) کے بموجب کہ حکم الٰہی اور سنت انبیاء علیہم السلام پر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا عمل مبارک نزول من السماء کے بعد ہوگا۔ اس بحث کو ختم کرنے سے قبل ایک اور حوالہ پیش کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ مرزاقادیانی نے لکھا: ’’چنانچہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پہلے سے ایک پیش گوئی فرمائی کہ ’’یتزوج ویولد لہ‘‘ یعنی وہ مسیح موعود بیوی کرے گا اور نیز وہ صاحب اولاد ہوگا۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۵۳ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۳۳۷)
مرزاقادیانی نے اپنے دجل سے اس حدیث کو محمدی بیگم پر فٹ کرنا چاہا۔ اﷲتعالیٰ نے اسے ذلیل کیاکہ وہ پوری نہ ہوئی۔ تاہم اس حدیث شریف (کہ عیسیٰ علیہ السلام نزول کے بعد شادی کریں گے اولاد ہوگی) کی صحت مرزاقادیانی کے حوالہ بالا سے بھی ثابت ہوگئی۔ ’’ فہو المقصود (فالحمد ﷲ اوّلا وآخرا) ‘‘
نوٹ: انبیاء علیہم السلام میں سے صرف سیدنا یحییٰ علیہ السلام اور سیدنا مسیح علیہ السلام نے شادی نہیں کی۔ سیدنا یحییٰ علیہ السلام کے متعلق نص قرآنی ہے (حصوراً) اس اعزاز کے باعث ان کا استثناء ہے۔ رہے سیدنا مسیح علیہ السلام تو وہ نزول کے بعد شادی کریں گے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

باب سوم … حیات عیسیٰ علیہ السلام احادیث کی روشنی میں​

حیات عیسیٰ علیہ السلام پر عربی میں دس کتابوں کی جناب محدث کبیر الشیخ عبدالفتاح ابوغدہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے فہرست دی ہے جو درج ذیل ہیں۔​

۱… ’’نظرۃ عابرۃ فی مزاعم من ینکر نزول عیسٰی علیہ السلام قبل الآخرۃ‘‘ للامام محمد زاہد الکوثری رحمہ اللہ تعالیٰ ۔ (۱۳۶۲ھ)
۲… ’’عقیدۃ اہل الاسلام فی نزول عیسٰی علیہ السلام‘‘ للشیخ عبداﷲ ابن الصدیق الغماری۔ (م۱۳۶۹ھ)
۳… ’’اقامۃ البرہان علی نزول عیسٰی علیہ السلام فی آخر الزمان (لہ ایضًا)‘‘
۴… ’’عقیدۃ الاسلام فی حیاۃ عیسٰی علیہ السلام‘‘ للشیخ محمد انور شاہ الکشمیری رحمہ اللہ تعالیٰ ۔
۵… ’’تحیۃ الاسلام فی حیاۃ عیسٰی علیہ السلام‘‘ للشیخ محمد انور شاہ الکشمیری رحمہ اللہ تعالیٰ ۔
۶… ’’الجواب المقنع المحرر فی الرد من طغی وتحیر بدعوی أنہ عیسٰی او المہدی المنتظر‘‘ للشیخ محمد حبیب اﷲ الشنقیطی رحمہ اللہ تعالیٰ ۔ (م۱۳۴۵ھ)
۷… ’’ازالۃ الشبہات العظام فی الرد علی منکر نزول عیسٰی علیہ السلام‘‘ للشیخ محمد علی اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ ۔ (م۱۳۷۸ھ)
۸… ’’اعتقاد اہل الایمان بالقرآن بنزول المسیح ابن مریم علیہ السلام اٰخرالزمان‘‘ للشیخ محمد العربی التبانی الجزائری۔ (م۱۳۶۹ھ)
۹… ’’التوضیع فی تواتر ماجاء فی المنتظر والدجال والمسیح‘‘ للقاضی الشوکانی۔
۱۰… ’’فتوی العلامۃ الشیخ محمد بخیت مفتی الدیار المصریہ فی نزول سیدنا عیسٰی علیہ السلام‘‘

اس کے علاوہ بعض اور بزرگوں کی بھی حیات مسیح، علامات قیامت وغیرہ پر قدیم وجدید کتب اس وقت سعودی عرب میں کثرت سے چھپ رہی ہیں۔ ان میں سے ۷/۵ تو ہمارے اپنے کتب خانے میں موجود ہیں۔ نیز حیاۃ عیسیٰ علیہ السلام پر پاک وہند میں ۱۰۰سے زیادہ کتب ورسائل لکھی گئیں۔ جن میں سے ۷۹ کتابوں کا تو ’’قادیانیت کے خلاف قلمی جہاد کی سرگزشت‘‘ میں تعارف آچکا ہے۔ ’’التصریح بما تواتر فی نزول المسیح‘‘ حضرت مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ تعالیٰ نے مرتب کی تھی جس کی حلب شام کے شیخ عبدالفتاح ابوغدہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے تخریج بھی فرمائی اور حسب ضرورت تشریح بھی فرمائی۔ دوران تخریج شیخ ابوغدہ رحمہ اللہ تعالیٰ کو مزید احادیث وآثار ملیں جو انہوں نے ’’تتمہ واستدراک‘‘ کے نام سے شامل کر دیں۔
صحاح ستہ پر سرسری نظر ڈالنے سے ذیل کی روایات آسانی سے سامنے آتی ہیں جو پیش خدمت ہیں۔ دقت النظر سے دیکھا جائے تو اس سے کہیں زیادہ روایات صرف صحاح ستہ میں مل سکتی ہیں۔
۱… امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب (بخاری شریف ج۱ ص۴۹۰) پر ’’باب نزول عیسیٰ بن مریم‘‘ قائم کیا ہے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے دو روایات اس باب کے تحت درج فرمائیں۔ ویسے اس باب کی روایت اوّل کو حضرت امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ کئی جگہ اپنی کتاب میں لائے ہیں۔ مثلاً ’’کتاب البیوع‘‘، ’’باب قتل الخنزیر‘‘، ’’کتاب المظالم‘‘، ’’باب کسر الصلیب وقتل الخنزیر‘‘ وغیرہ۔
۲… حضرت امام مسلم رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب (مسلم شریف ج۱ ص۸۷) پر ’’باب نزول عیسیٰ بن مریم‘‘ موجود ہے۔ اس باب میں سات احادیث ہیں۔ ان میں سے چھ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے اور ایک حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے مروی ہیں۔ اسی طرح (مسلم ج۱ ص۴۰۸) ’’باب جواز التمتع فی الحج والقرآن‘‘ میں دو روایتیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد ’’فج روحاء‘‘ سے احرام باندھنے کی لائے ہیں۔ اس طرح کتاب (الفتن واشراط الساعۃ ج۲ ص۳۹۲) پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے ایک، (ص۳۹۳) پر حضرت حذیفہ بن اسید الغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے ایک، اور باب ذکر الدجال (ج۲ ص۴۰۰) پر حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے ایک روایت، (ص۴۰۳) پر حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے ایک روایت، کتاب الفتن باب خروج الدجال ومکثہ فی الارض ونزول عیسیٰ بن مریم کے تحت عروۃ بن مسعود ثقفی رحمہ اللہ تعالیٰ سے ایک۔ کل تیرہ روایات، مسلم شریف میں نزول عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق ان حوالوں کو آپ نے ملاحظہ کیا۔ علاوہ ازیں ’’الخبر الصحیح فیما وردعن سید المسیح علیہ السلام‘‘ مستقل تصنیف ہے۔ عرب عالم دین عبداﷲ الحسینی کی جو ۱۹۸۵ء میں بیروت سے شائع ہوئی اس میں انہوں نے سیدنا مسیح علیہ السلام سے متعلق بخاری ومسلم سے پچاس احادیث کو جمع کیا ہے۔
۳… (ترمذی شریف ج۲ ص۴۷) پر ’’باب ماجاء فی نزول عیسیٰ بن مریم‘‘ قائم فرمایا ہے اور اس میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی روایت لائے ہیں۔ (ج۲ ص۴۸) باب ماجاء فی فتنہ الدجال میں حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی روایت۔ باب ماجاء فی قتل عیسیٰ بن مریم الدجال میں حضرت مجمع بن جاریۃ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی روایت لائے ہیں اور اس باب میں وفی الباب کے تحت (۱)عمران بن حصین۔ (۲)نافع بن عتبہ۔ (۳)ابی برزہ۔ (۴)حذیفہ بن اسید۔ (۵)ابی ہریرہ۔ (۶)کیسان۔ (۷)عثمان بن ابی العاص۔ (۸)جابر۔ (۹)ابی امامہ۔ (۱۰)ابن مسعود۔ (۱۱)عبداﷲ بن عمر۔ (۱۲)سمرۃ بن جندب۔ (۱۳)نواس بن سمعان۔ (۱۴)عمرو بن عوف۔ (۱۵)حذیفۃ بن الیمان رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کی روایات کا حوالہ دیا ہے۔ گویا تین روایات نقل کر کے باقی پندرہ کا حسب معمول حوالہ دے کر نزول مسیح کی صریح وصحیح اٹھارہ روایات کو نقل فرمایا ہے۔
۴… (ابوداؤد شریف کتاب الفتن باب ذکر الفتن ودلائلہا ج۲ ص۱۲۷) پر حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے ایک حدیث، (کتاب الملاحم باب امارات الساعۃ ج۲ ص۱۳۴) پر حضرت حذیفہ بن اسید الغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے ایک حدیث، (باب خروج الدجال ج۲ ص۱۳۴) پر حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے ایک حدیث۔ اسی باب میں (ص۱۳۴) پر حضرت ابی امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے ایک حدیث، (ص۱۳۵) پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے ایک حدیث۔ گویا حضرت عیسیٰ بن مریم کے نزول پر صحیح اور صریح پانچ احادیث نقل فرمائی ہیں۔
۵… ابن ماجہ نے فتنہ الدجال اور خروج عیسیٰ بن مریم کا باب (ص۲۹۵) پر قائم فرمایا ہے۔ (ص۲۹۶) پر حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی حدیث (ص۲۹۷) پر حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم اور (ص۲۹۹) پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم اور (ص۲۹۹) پر حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے نزول مسیح بن مریم پر صحیح اور صریح روایات نقل فرمائی ہیں۔
۶… (سنن نسائی ج۲ ص۵۲) میں باب غزوۃ الہند کے تحت میں حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی روایت ہے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم کے ساتھ میری امت کا جو طبقہ دجال سے لڑے گا ان پر جہنم کی آگ حرام ہے۔ ان کے علاوہ مزید:
۷… اتحاف فضلاء البشر لدمیاطی۔
۸… الاجوبۃ الفاضلۃ للکھنوی۔
۹… احیاء علوم الدین للغزالی۔
۱۰… الاذاعۃ لما کان ویکون بین یدی الساعۃ للصدیق حسن خان۔
۱۱… ارشاد الساری للقسطلانی۔
۱۲… اسباب النزول للواحدی۔
۱۳… الاشاعۃ لاشراط الساعۃ برزنجی۔
۱۴… الاصابہ للعسقلانی۔
۱۵… الاعلام بحکم عیسٰی علیہ السلام للسیوطی۔
۱۶… اقامتہ البرہان لغماری۔
۱۷… البدایہ والنہایہ لا بن کثیر۔
۱۸… البحر المحیط لابی حیان اندلسی۔
۱۹… بہجۃ النفوس لابی جمرہ۔
۲۰… تاج العروس للمرتضی زبیدی۔
۲۱… تاریخ الامم والملوک للطبری۔
۲۲… تاریخ البغداد للخطیب البغدادی۔
۲۳… تاریخ الخلفاء للسیوطی۔
۲۴… تاریخ دمشق لابن عساکر۔
۲۵… التاریخ الکبیر للبخاری۔
۲۶… تاریخ الصغیر للبخاری۔
۲۷… تاریخ الاوسط للبخاری۔
۲۸… تذکرۃ الحفاظ للذہبی۔
۲۹… التذکرہ باحوال الموتی للقرطبی۔
۳۰… تفسیر ابن جریر طبری۔
۳۱… تفسیر ابن کثیر۔
۳۲… تحقیق النضرۃ بتلخیص معالم دار الہجرۃ للمراغی۔
۳۳… تقریب التہذیب لا بن حجر۔
۳۴… التخلیص الحبیر لا بن حجر۔
۳۵… تلخیص المستدرک للذہبی۔
۳۶… تنزیہ الشریعہ لابن عراق۔
۳۷… تہذیب تاریخ ابن عساکر لبدران۔
۳۸… تہذیب التہذیب لا بن حجر۔
۳۹… التیسیر بشرح الجامع الصغیر للمناوی۔
۴۰… الجامع الصغیر للسیوطی۔
۴۱… الجامع لاحکام القرآن للقرطبی۔
۴۲… الجرح والتعدیل لا بن ابی حاتم۔
۴۳… حاشیۃ السندھی علی المسلم۔
۴۴… الحاوی للسیوطی۔
۴۵… الحلیۃ الاولیاء لا بی نعیم۔
۴۶… الخطط للمقریزی۔
۴۷… الدرلمنثور فی تفسیر المأثور للسیوطی۔
۴۸… الدرۃ الثمینۃ فی اخبار المدینۃ لابن النجار۔
۴۹… دفع شبہۃ التشبیہ لا بن جوزی۔
۵۰… ذخائر المواریث للنابلسی۔
۵۱… رسالۃ المسترشدین للمحاسبی۔
۵۲… الرفع والتکمیل للکنوی۔
۵۳… الروض الانف للسہیلی۔
۵۴… روح المعانی لاٰلوسی۔
۵۵… الزہد لامام احمد۔
۵۶… السراج المنیر للعزیزی۔
۵۷… السیرۃ النبویہ لا بن ہشام۔
۵۸… السعایۃ للکنوی۔
۵۹… السنن الکبری للبیہقی۔
۶۰… شذرات الذہب لابن عمامہ۔
۶۱… شرح مسلم للنووی۔
۶۲… شرح المسلم لملا علی القاری۔
۶۳… شرح المواہب للزرقانی۔
۶۴… طبقات الشافعیہ لابن سبکی۔
۶۵… الطبقات الکبریٰ لابن سعد۔
۶۶… ظفرالامانی للکنوی۔
۶۷… العرف الوردی للسیوطی۔
۶۸… عقیدۃ الاسلام للکشمیری۔
۶۹… عقیدۃ اہل الاسلام للغماری۔
۷۰… عمدۃ القاری للعینی۔
۷۱… فتح الباری لابن حجر۔
۷۲… فضائل الشام للربیعی۔
۷۳… فیض الباری للکشمیری۔
۷۴… فیض القدیر للمناوی۔
۷۵… کشف الکربۃ لابن رجب۔
۷۶… کشف الظنون حاجی خلیفہ۔
۷۷… الکشف للسیوطی۔
۷۸… کنزالعمال لعلی متقی الہندی۔
۷۹… الکوکب الدری لکاندھلوی۔
۸۰… اللاٰلی المصنوعہ للسیوطی۔
۸۱… لسان المیزان للسیوطی۔
۸۲… سواطع الانوار البہیہ للسفارینی۔
۸۳… مجمع الزوائد للہیثمی۔
۸۴… محاسن التاویل للقاسمی۔
۸۵… مختصر تذکرہ للقرطبی۔
۸۶… مختصر سنن ابی داؤد للمنذری۔
۸۷… مرقات لملا علی قاری۔
۸۸… مرقاۃ السعود۔
۸۹… المستدرک للحاکم۔
۹۰… مسند احمد لامام احمد بن حنبل۔
۹۱… مسند ابوداؤد للطیالسی۔
۹۲… مشکوٰۃ شریف للتبریزی۔
۹۳… معالم السنن للخطابی۔
۹۴… معانی الاثار للطحاوی۔
۹۵… معجم البلدان لیاقوت الحموی۔
۹۶… معجم ابی عبید البکری۔
۹۷… المقالات للکوثری۔
۹۸… المقاصد الحسنۃ للسَّخاوی۔
۹۹… وفاء الوفاء للسمہودی۔
۱۰۰… النہایۃ لابن اثیر۔
ہم نے صرف ایک سو کتاب کا نام لکھا ہے جن میں حیات مسیح علیہ السلام یا اس کے متعلقات پر حوالہ جات موجود ہیں۔ ان کتب سے براہ راست حضرت علامہ عبدالفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ تعالیٰ محدث الشام نے مراجعت کر کے التصریح کی تخریج کی ہے۔
ان کے علاوہ ہمارے ممدوح جناب بابو پیر بخش نے اپنی کتاب ’’الاستدلال الصحیح فی حیات المسیح‘‘ (مشمولہ احتساب قادیانیت ج۱۲) میں ۱۸۷حضرات کی روایات وکتب سے اور ہمارے مخدوم حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ تعالیٰ نے ’’عقیدہ حیات ونزول چودہ صدیوں کے اکابر کی نظر میں‘‘ (مشمولہ تحفہ قادیانیت ج۳) دو صد پچیس حضرات کی شہادتوں کو شامل کیا ہے تو گویا امت کے گزشتہ صدہا سے زائد اکابر نے اپنی کتب میں حیات مسیح علیہ السلام کے مسئلہ کو بیان کیا ہے۔
ان محولہ بالا کتابوں کے علاوہ اور بھی سینکڑوں اسماء الرجال، لغت، تفسیر، شروحات حدیث کی کتابوں سے حوالہ جات دئیے ہیں۔ علیٰ وجہ البصیرت کہا جاسکتا ہے کہ حدیث کی کتابوں میں سے کوئی ایسی ’’جامع‘‘ نہیں جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع اور نزول کا ذکر نہ ہو۔ جن کتابوں کے ہم نے حوالہ جات نقل کئے ہیں یہ عرب ممالک کی چھپی ہوئی ہیں۔ آج کل زیادہ تر نئی چھپنے والی کتب احادیث میں حدیثوں کے نمبر دئیے جاتے ہیں۔ جب کہ ہمارے ہاں ایسا نہیں اس لئے حوالہ تلاش کرنے کے لئے کتب حدیث میں آیات رفع ونزول کے تحت کتاب التفسیر دیکھ لی جائے۔ بعض ائمہ حدیث نے کتاب الانبیاء، یا کتاب الفتن باب اشراط الساعۃ یا باب نزول ابن مریم کے ضمن میں ان احادیث کا ذکر کیا ہے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

ذیل میں ۳۴حضرات صحابہ کرامi، ۲۲تابعین رحمہم اﷲ سے ان کے اسمائے گرامی کے ساتھ ان سے رفع ونزول عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ میں روایات کی تعداد کا ذکر تفصیل سے ملاحظہ فرمائیں۔​

۱… حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم (۲۱) ۲… حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم ۔ (۷)
۳…حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم (۱) ۴… حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم (۳)
۵… حضرت ابوحذیفہ بن سعید غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم (۲) ۶… حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم (۱)
۷… حضرت مجمع بن جاریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم (۱) ۸… حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم (۱)
۹… حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم (۱) ۱۰… حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم (۱)
۱۱… حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم (۳) ۱۲… حضرت واثلہ بن الاسقع رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم (۱)
۱۳… حضرت عبداﷲ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم (۲) ۱۴… حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم (۱۲)
۱۵… حضرت اوس بن اوس الثقفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم (۱) ۱۶… حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم (۱)
۱۷… حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا (۲) ۱۸… حضرت سفینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم (۱)
۱۹… حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم (۱) ۲۰… حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم (۶)
۲۱… حضرت عبداﷲ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم (۱) ۲۲… حضرت عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم (۱)
۲۳… حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم (۱) ۲۴… حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم (۱)
۲۵… حضرت کیسان بن عبداﷲ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم (۱) ۲۶… حضرت عبداﷲ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم (۳)
۲۷… حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم (۷) ۲۸… حضرت سلمہ بن نفیل السکونی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم (۱)
۲۹… حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا (۱) ۳۰… حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم (۱)
۳۱… حضرت عمرو بن عوف المزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم (۱) ۳۲… حضرت جبیر بن نفیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم (۱)
۳۳… حضرت سلمہ بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم (۱) ۳۴… حضرت ابوالطفیل للیثی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم (۱)

تابعین​

۱… ربیع بن انس رحمہ اللہ تعالیٰ (۱) ۲… نافع بن کیسان رحمہ اللہ تعالیٰ (۱)
۳… حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالیٰ (۵) ۴… حضرت عمرو بن سفیان رحمہ اللہ تعالیٰ (۱)
۵… حضرت محمد بن علی ابن الحنفیہ رحمہ اللہ تعالیٰ (۲) ۶… حضرت شہر بن حوشب رحمہ اللہ تعالیٰ (۱)
۷… حضرت قتادہ رحمہ اللہ تعالیٰ (۴) ۸… حضرت محمد ابن زید رحمہ اللہ تعالیٰ (۲)
۹… حضرت ابومالک الغفاری رحمہ اللہ تعالیٰ (۱) ۱۰… حضرت مجاہد رحمہ اللہ تعالیٰ (۱)
۱۱… حضرت ابورافع رحمہ اللہ تعالیٰ (۱) ۱۲… حضرت ابوالعالیہ رحمہ اللہ تعالیٰ (۱)
۱۳… حضرت عبدالجبار بن عبیداﷲ رحمہ اللہ تعالیٰ (۱) ۱۴… حضرت وہب ابن منبہ رحمہ اللہ تعالیٰ (۱)
۱۵… حضرت ابن سیرین رحمہ اللہ تعالیٰ (۱) ۱۶… حضرت ارطاۃ رحمہ اللہ تعالیٰ (۱)
۱۷… حضرت کعب احبار رحمہ اللہ تعالیٰ (۴) ۱۸… حضرت زین العابدین رحمہ اللہ تعالیٰ (۱)
۱۹… حضرت عروہ بن رویم رحمہ اللہ تعالیٰ (۱) ۲۰… حضرت ولید ابن مسلم رحمہ اللہ تعالیٰ (۱)
۲۱… ابواشعث صنعانی رحمہ اللہ تعالیٰ (۱) ۲۲… عبدالرحمن بن جبیر رحمہ اللہ تعالیٰ (۱)
سے روایات منقول ہیں۔ ان سب سے صرف دس احادیث پیش خدمت ہیں۔
حدیث:۱ ’’ قال الامام احمد حدثنا عفان قال حدثناہمام قال اخبرنا قتادۃ عن عبدالرحمن بن آدم عن ابی ہریرۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ الْاَنْبِیَاء اِخْوَۃٌ لِعَلَّاتٍ اُمَّہَاتُہُمْ شَتّٰی وَدِیْنُہُمْ وَاحِدُ وانا اَوْلَی النَّاسِ بِعِیْسٰی بْنَ مَرْیَمَ لَاَنَّہُ لَمْ یَّکُنْ بَیْنِیْ وَبَیْنَہُ نَبِیٌّ وَاِنَّہُ نازل فاذا رأیتموہ فاعرفوہ رجل مربوع الی الحمرۃ والبیاض علیہ ثوبان ممصران کان راسہ یقطروان لم یصبہ بلل فیدق الصلیب ویقتل الخنزیر ویضع الجزیۃ ویدعوا الناس الی الاسلام ویہلک اﷲ فی زمانہ الملل کلہا الا الاسلام ویہلک اﷲ فی زمانہ المسیح الدجال ثم تقع الامانۃ علی الارض حتی ترتع الاسود مع الابل والنمار مع البقر والذئاب مع الغنم ویلعب الصبیان بالحیات لا تضرہم فیمکث اربعین سنۃ ثم یتوفی ویصلی علیہ المسلمون ‘‘ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی مسند میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمام انبیاء علاتی بھائی ہیں۔ ان کی مائیں یعنی شریعتیں مختلف ہیں اور ان کا دین یعنی اصول شریعت سب کا ایک ہے اور میں عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ سب سے زیادہ قریب ہوں۔ اس لئے کہ میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں۔ وہ نازل ہوں گے جب ان کو دیکھو تو پہچان لینا۔ وہ میانہ قد ہوں گے۔ رنگ ان کا سرخ اور سفیدی کے درمیان ہوگا۔ ان پر دورنگے ہوئے کپڑے ہوں گے۔ سر کی یہ شان ہوگی کہ گویا اس سے پانی ٹپک رہا ہے۔ اگرچہ اس کو کسی قسم کی تری نہیں پہنچی ہوگی۔ صلیب کو توڑیں گے جزیہ کو اٹھائیں گے۔ سب کو اسلام کی طرف بلائیں گے۔ اﷲتعالیٰ ان کے زمانہ میں سوائے اسلام کے تمام مذاہب کو نیست ونابود کر دے گا اور اﷲتعالیٰ ان کے زمانہ میں مسیح دجال کو قتل کرائے گا۔ پھر تمام روئے زمین پر ایسا امن ہوجائے گا کہ شیر اونٹ کے ساتھ اور چیتے گائے کے ساتھ اور بھیڑیے بکریوں کے ساتھ چرنے لگیں گے، اور بچے سانپوں کے ساتھ کھیلنے لگیں گے۔ سانپ ان کو نقصان نہ پہنچائیں گے۔ عیسیٰ علیہ السلام زمین پر چالیس سال ٹھہریں گے پھر وفات پائیں گے اور مسلمان ان کے جنازہ کی نماز پڑھیں گے۔
نوٹ: اس حدیث شریف کا متن (۱)(مسند احمد ج۲ ص۴۰۶) سے ہم نے نقل کیا ہے۔ یہ حدیث شریف مسند احمد کے علاوہ الفاظ کے معمولی تفاوت سے ذیل کی کتب میں بھی موجود ہے۔ (۲)بخاری ج۱ ص۴۸۹،۴۹۰۔ (۳)مسلم ج۱ ص۸۷۔ (۴)ابوداؤد ج۲ ص۱۳۵۔ (۵)ابن ماجہ ص۳۰۸۔ (۶)مسند احمد ج۲ ص۴۱۱، ۴۹۴۔ (۷)درمنثور ج۲ ص۲۴۲ پر ابن ابی شیبہ، احمد، ابوداؤد، ابن جریر ابن حبان کے حوالہ سے اس کو نقل کیا ہے۔ (۸)ابن کثیر ج۳ ص۱۶۔ (۹)فتح الباری ج۶ ص۳۵۷ پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ اس کو نقل کر کے فرماتے ہیں کہ اس روایت کی اسناد صحیح ہیں۔ (۱۰)التصریح ص۱۶۰۔ (۱۱)مصنف ابن ابی شیبہ ج۸ ص۶۵۴، حدیث نمبر:۴۱، باب ذکر فی فتنہ الدجال۔ (۱۲)صحیح ابن حبان ج۹ ص۲۸۹،۲۹۰ پر سے اس حدیث کے مکمل متن کو نقل کیا ہے۔ (۱۳)مرزاقادیانی کے بیٹے مرزامحمود نے حقیقت النبوۃ ص۱۹۲ پر مکمل اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ (۱۴)خود مرزاقادیانی نے ازالہ اوہام ص۵۹۴، خزائن ج۳ ص۴۲۰ پر اس حدیث کے بعض حصے نقل کر کے اس کی تصحیح وتصدیق کی بلکہ اس سے استدلال بھی کیا ہے۔

ضروری گزارش​

مرزاقادیانی کے مرید خدابخش مرزائی نے اپنی کتاب ’’عسل مصفی‘‘ لکھی اس کی جلد اوّل میں ص۱۶۲ سے ۱۶۵ تک تیرہ صدیوں کے مجددین کی فہرست نقل کی ہے۔ اس فہرست میں اس حدیث منقولہ بالا کو نقل کرنے والے مرزائیوں کے تسلیم شدہ مجددین سے امام احمد بن حنبل، ابن کثیر، ابن حجر عسقلانی، جلال الدین سیوطی، چار مجدد اس روایت کو نقل کرتے ہیں۔ مرزاقادیانی اور اس کا بیٹا اس روایت کو تسلیم کرتے ہیں۔ قادیانی حضرات اس صحیح روایت کے نتائج پر غور فرمائیں۔

اس حدیث مبارک کے نتائج​

اس حدیث مبارک سے جو نتائج مرتب ہوتے ہیں وہ یہ ہیں:

حدیث اوّل:​

۱… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام دوبارہ تم میں نازل ہوں گے۔
۲… وہی عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے جن کے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کوئی اور نبی نہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا علاتی بھائی تھا۔
۳… عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد تمام ادیان باطلہ مٹ جائیں گے۔
۴… عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد دین اسلام تمام ادیان پر غالب ہوگا۔
۵… عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں مسیح دجال ہلاک ہوگا۔
۶… عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں امن وامان قائم ہو جائے گا۔
۷… حتیٰ کہ ان کے زمانہ میں شیر اونٹ کے ساتھ، چیتے گائے کے ساتھ اور بھیڑیے بکریوں کے ساتھ چرنے لگیں گے۔
۸… زہریلی چیزوں (سانپ وغیرہ) کی زہر ختم ہو جائے گی۔
۹… نزول کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام چالیس برس کا عرصہ اس زمین پر رہیں گے۔
۱۰… اس کے بعد پھر عیسیٰ علیہ السلام وفات پائیں گے (ابھی ان کی وفات نہیں ہوئی)

اب مرزائیوں سے ہمارا سوال ہے​

۱… کیا مرزاقادیانی ابن مریم تھا؟ یا ابن چراغ بی بی؟
۲… کیا مرزاقادیانی وہی عیسیٰ ابن مریم ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تشریف لائے تھے؟ جن کے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کوئی نبی نہ تھا؟
۳… کیا مرزاقادیانی کے زمانہ میں تمام ادیان باطلہ یہودیت، نصرانیت مٹ گئی یا خود مرزاقادیانی کے جہنم بھومی ہندوستان میں بھی مرزا کے زمانہ میں نصرانیوں کی حکومت تھی؟
۴… کیا مرزاقادیانی کے زمانہ میں دین اسلام کا غلبہ ہوا؟ یا خود مرزاقادیانی نے دین اسلام کے ماننے والے مسلمانوں کو کافرقرار دے کر دین اسلام کی بیخ کنی کی؟
۵… مرزاقادیانی کے زمانہ میں دجال معہود کا قتل ہوا؟
۶… مرزاقادیانی کے زمانہ میں امن وامان ہوا؟ یا کود مرزاقادیانی زندگی بھر مقدمات کے لئے دربدر ٹھوکریں کھاتا پھرا؟ اس کے گھر پر چھاپے مارے گئے اور خود غیرمامون ہوا؟
۷… مرزاقادیانی کے زمانہ میں شیراونٹوں کے ساتھ، چیتے گائے کے ساتھ اوربھیڑیے بکریوں کے ساتھ چرے؟
۸… ان امور کے بعد مرزاقادیانی کی وفات ہوئی؟ خدا لگتی بات یہ ہے کہ مرزائی صحیح جواب قیامت کے دن کے لئے تیار رکھیں۔
۹… اس حدیث میں عیسیٰ علیہ السلام کے لئے ’’انہ نازل‘‘ کا صراحۃً لفظ ہے۔ کیا پورے ذیرۂ احادیث میں قادیانی ’’ان مثیلہ مولود‘‘ کا لفظ دکھا سکتے ہیں؟
۱۰… اس صحیح حدیث میں ’’ثم یتوفی‘‘ (ان امور کے بعد) عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوں گے۔ کیا قادیانی کسی صحیح حدیث میں ’’قد توفی‘‘ کہ عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے دکھا سکتے ہیں؟
۱۱… ’’ ویصلی علیہ المسلمون ‘‘ اور عیسیٰ علیہ السلام کی نماز جنازہ مسلمان پڑھیں گے۔ کیا قادیانی کسی صحیح حدیث ’’ قد صلی علیہ المسلمون ‘‘ کہ مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھ چکے دکھا سکتے ہیں؟
اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی ابھی وفات نہیں ہوئی۔ آسمان سے نازل ہونے کے بعد قیامت سے پیشتر جب یہ تمام باتیں ظہور میں آجائیں گی تب وفات ہوگی۔
حدیث:۲ ’’ عن الحسن مرسلا قال قال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم للیہود ان عیسٰی علیہ السلام لم یمت وانہ راجع الیکم قبل یوم القیمۃ ‘‘
امام حسن بصری رحمہ اللہ تعالیٰ سے مرسلاً روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود سے ارشاد فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام ابھی نہیں مرے وہ قیامت کے قریب ضرور لوٹ کر آئیں گے۔ (ابن کثیر ج۱ ص۳۶۶) (زیر آیت انی متوفیک)
(ابن جریر ج۳ ص۲۸۹، درمنثور ج۲ ص۳۶)
نوٹ: یہ روایت ابن کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ اور علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ تعالیٰ نے نقل فرمائی ہے۔ دونوں قادیانیوں کے نزدیک مجدد ہیں اور ابن جریر کو مرزاقادیانی نے (آئینہ کمالات اسلام ص۱۶۸، خزائن ج۵ ص۱۶۸) پر رئیس المفسرین تسلیم کیا ہے۔ تینوں اکابر، قادیانیوں کے نزدیک مسلمہ مجدد ہیں۔

نتائج حدیث دوم:​

۱۱… یہود (جو ’’ انا قتلنا المسیح ‘‘ سے) سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے قائل تھے ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ان عیسٰی لم یمت‘‘ تحقیق عیسیٰ علیہ السلام فوت نہیں ہوئے۔
۱۲… اس روایت میں ’’ان عیسٰی لم یمت‘‘ کی صراحت ہے۔
۱۳… اس روایت میں ’’ انہ راجع الیکم قبل یوم القیامۃ ‘‘ عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے قبل تم میں واپس لوٹیں گے کی صراحت ہے۔

 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

قادیانیوں سے سوال​

۱۲… کیا کسی روایت میں قادیانی دکھا سکتے ہیں کہ اس روایت کے برعکس کسی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا ذکر کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تصدیق کی ہو؟
۱۳… اس روایت میں ’’ لم یمت ‘‘ صراحت سے مذکور ہے کیا قادیانی کسی صحیح روایت میں ’’ قدمات عیسٰی بن مریم علیہ السلام ‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول دکھا سکتے ہیں؟
۱۴… اس روایت میں ’’ انہ راجع الیکم ‘‘ کی صراحت مذکور ہے کیا قادیانی کسی صحیح روایت میں ’’ انہ لا یرجع الیکم ‘‘ دکھا سکتے ہیں؟
۱۵… مرزاقادیانی نے (براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۴۱، خزائن ج۲۱ ص۵۲) پر لکھاہے: ’’نازل ہوگا اگر دوبارہ آنا مقصود ہوتا تواس جگہ ’’رجوع‘‘ کا لفظ چاہئے تھا نہ کہ نزول کا۔‘‘ یہی مطالبہ مرزاقادیانی نے اپنی کتاب، (کتاب البریہ ص۲۰۸ حاشیہ، خزائن ج۱۳ ص۲۲۶) پر بھی کیا ہے۔ مرزاقادیانی کے لفظ رجوع کے مطالبہ کو مذکورہ روایت میں ’’انہ راجع الیکم‘‘ کے الفاظ سے ہم نے پورا کر دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ مرزاقادیانی کو اس روایت کا علم تھا یا نہیں؟ اگر علم تھا پھر مطالبہ کیا تو یہ دجل ہے۔ اگر علم نہیں تھا تو یہ کم علمی ہے۔ اب مرزائی بتائیں کہ وہ کم علم تھا یا دجال تھا؟
قادیانی اعتراض: یہ حدیث مرسل ہے اس لئے قابل قبول نہیں۔
جواب: حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالیٰ کی مرسل حدیث میں تو وہی شخص کلام کرے گا جس کو ان کے اقوال کا پورا علم نہیں وہ خود فرماتے ہیں: ’’ کل شیٔ سمعتنی اقول فیہ قال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم فہو عن علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم غیر انی فی زمان لا استطیع ان اذکر علیا رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم ‘‘ (تہذیب الکمال للمزنی) میں جتنی احادیث میں قال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کہوں اورصحابی کا نام نہ لوں۔ سمجھ لو کہ وہ حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی روایت ہے۔ میں ایسے (سفاک دشمن آل رسول حجاج کے) زمانہ میں ہوں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کا نام نہیں لے سکتا۔ اے کاش! قادیانیوں نے حدیث پر اعتراض کرنے سے پیشتر علم حدیث کسی استاد سے پڑھ لیا ہوتا۔
قادیانی اعتراض: مرزائی بعض وقت کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ حدیث بلاسند ہے۔
الجواب: ۱… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ’’ انّ عیسٰی لم یمت ‘‘ کو باب مدینۃ العلم مولیٰ علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم نے سنا۔ ان سے حسن بصری رحمہ اللہ تعالیٰ (سید التابعین وشیخ الصوفیہ) نے اخذ کیا، ان سے ربیع نے، ان سے ابوجعفر رحمہ اللہ تعالیٰ نے، ان سے ان کے بیٹے عبداﷲ رحمہ اللہ تعالیٰ نے، ان سے اسحق رحمہ اللہ تعالیٰ نے ان سے مثنیٰ نے ان سے ابن جریر طبری رحمہ اللہ تعالیٰ نے (ابن جریر ج۳ ص۲۸۹، ابن کثیر ج۱ ص۳۶۶) تفسیر ابن جریر کتب متداولہ میں سے ہے اور اس میں حدیث کی سند بھی موجود ہے۔
۲… محمد بن جریر رحمہ اللہ تعالیٰ بڑے پایہ کا محدث ہے کہ ابن خلکان وغیرہ نے ان کو ائمہ مجتہدین میں سے لکھا ہے۔ بغیر سند کے بھی وہ لکھتے تب بھی ان کا لکھنا معتبر ہے۔ اس لئے کہ خود مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ: ’’ابن جریر نہایت معتبر اور ائمہ حدیث میں سے ہے۔‘‘ (چشمہ معرفت حاشیہ ص۲۵۰، خزائن ج۲۳ ص۲۶۱)
قادیانی اعتراض: اگر یہ معتبر حدیث ہے تو اس کو صحاح ستہ میں ہونا چاہئے تھا۔
الجواب: ۱… مرزاقادیانی نے (ضمیمہ انجام آتھم حاشیہ ص۵۳، خزائن ج۱۱ ص۳۳۷) میں جو حدیث ’’ یتزوج ویولدلہ ‘‘ لکھی ہے وہ صحاح ستہ میں کہاں ہے؟
۲… (حقیقت الوحی ص۱۹۴، خزائن ج۲۲ ص۲۰۲، حاشیہ، چشمہ معرفت ص۳۱۴، خزائن ج۲۳ ص۳۲۹) میں جو روایت کسوف وخسوف دررمضان تحریر کی ہے وہ صحاح ستہ میں کس جگہ ہے؟
۳… (ضمیمہ انجام آتھم ص۴۱، خزائن ج۱۱ ص۳۲۵) جو اثر خروج مہدی از کدعہ درج کیا ہے وہ صحاح ستہ کی کس کتاب میں ہے؟
۴… (کتاب مسیح ہندوستان میں ص۵۳،۵۴، خزائن ج۱۵ ص۵۳،۵۴) میں جو تین روایات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سیاحت سے متعلق تحریر ہیں ان کا پتہ صحاح ستہ سے بتاؤ؟
حدیث:۳ ’’ عن ابی ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم قال قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کیف انتم اذا نزل ابن مریم فیکم وامامکم منکم (بخاری ج۱ ص۴۹۰، باب نزول عیسٰی بن مریم، مسند احمد ج۲ ص۳۳۶، مسلم ج۱ ص۸۷، باب نزول عیسٰی بن مریم) ‘‘ یہی روایت حضرت امام بیہقی نے اپنی کتاب (الاسماء والصفات ص۴۲۴) پر نقل فرمائی جس کی سند اور الفاظ یہ ہیں: ’’ اخبرنا ابوعبداللّٰہ الحافظ انا ابوبکر بن اسحاق انا احمد بن ابراہیم ثنا ابن بکیرثنی اللیث عن یونس عن ابن شہاب عن نافع مولٰی ابن قتادۃ الانصاری قال ان اباہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم قال قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کیف انتم اذا نزل ابن مریم من السماء فیکم وامامکم منکم انتہی ‘‘
اس وقت تمہارا کیا عالم ہوگا (خوشی کے باعث) جب عیسیٰ بن مریم آسمان سے تم میں نازل ہوںگے اور تمہارا امام تم میں سے ہوگا۔
نوٹ: امام بیہقی رحمہ اللہ تعالیٰ قادیانیوں کے مسلمہ مجدد ہیں۔ آپ سے بخاری ومسلم ومسند احمد کی روایت میں ’’ من السماء ‘‘ کے الفاظ کی زیادتی مذکور ہے۔

نتائج حدیث سوم:​

۱۴… بیہقی کی اس حدیث شریف میں لفظ (السماء) آسمان کی صراحت مذکور ہے۔
۱۵… سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے لئے ’’ ینزل فیکم ‘‘ اور سیدنا مہدی علیہ الرضوان کے لئے ’’ وامامکم منکم ‘‘ کے الفاظ مذکور ہیں۔ ’’ فیکم ‘‘ اور ’’ منکم ‘‘ کی صراحت سے ثابت ہوا کہ مہدی علیہ الرضوان اور مسیح علیہ السلام علیحدہ علیحدہ شخصیات ہیں۔

قادیانیوں سے سوال​

۱۶… امام بیہقی کی روایت میں ’’من السماء‘‘ کی صراحت سے ثابت ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں سے نازل ہوں گے، نہ کہ ماں کے پیٹ سے۔ پس مرزا کا ماں کے پیٹ سے پیدا ہوکر مسیح ہونے کا دعویٰ کرنا غلط ثابت ہوا یا نہ؟
۱۷… ’’فیکم‘‘ اور ’’منکم‘‘ کی صراحت سے ثابت ہوا کہ سیدنا مسیح ومہدی دو علیحدہ علیحدہ شخصیات ہیں۔ ان دو کو ایک ماننا۔ بخاری ومسلم اور بیہقی ایسے محدثین کی روایات کے خلاف ہے یا نہیں؟
یاد رہے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ تعالیٰ نے جہاں ’’من السماء‘‘ کی صراحت کی ہے وہاں وہ اسے بخاری ومسلم کی روایات کی اسناد ذکر کر کے فرماتے ہیں: ’’ وانما اراد نزولہ من السماء بعد الرفع الیہ ‘‘ کہ ان روایات میں آسمان پر رفع کے بعد آسمان سے نزول مراد ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم تک، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ تک، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے امام مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم تک، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے امام بیہقی رحمہ اللہ تعالیٰ تک تمام رواۃ کی رفع الیٰ السماء اور نزول من السماء ہی مراد تھی۔
قادیانی اعتراض: امام بیہقی نے اس حدیث کو روایت کر کے بخاری شریف کا حوالہ دیا ہے۔ حالانکہ بخاری میں ’ ’مِنَ السَّمَآئِ ‘‘ کا لفظ نہیں۔
الجواب: حدیث کی کتاب بیہقی مخرَّج نہیں ہے بلکہ مسند ہے۔ یعنی ایسی کتاب نہیں ہے کہ دوسروں سے نقل کر کے ذخیرہ اکٹھا کرے جیسا کہ کنزالعمال وغیرہ ہے، بلکہ امام بیہقی رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی سند سے راویوں کے ذریعہ روایت کرتے ہیں اور بخاری کا حوالہ صرف اس لحاظ سے دیا گیا ہے کہ بخاری میں بھی یہ حدیث موجود ہے۔ اگرچہ لفظ ’ ’مِنَ السَّمَآئِ ‘‘ نہیں۔ مگر مراد نزول سے ’’ مِنَ السَّمَآئِ ‘‘ ہی ہے۔ چنانچہ امام بیہقی رحمہ اللہ تعالیٰ خود لکھتے ہیں: ’ ’اِنَّمَا اَرَادَ نَزُوْلَہٗ مِنَ السَّمَآئِ بَعْدَ الرَّفْ عِ‘‘ (کتاب الاسماء ص۴۲۴)
یعنی سوائے اس کے نہیں کہ اس کو روایت کرنے والے کا ارادہ ’’نزول من السماء‘‘ ہی ہے کیونکہ وہ آسمانوں پر اٹھائے گئے ہیں۔
پس معاملہ صاف ہے کہ بخاری میں ’’من السماء‘‘ نہ ہونا اس حدیث کے صحیح ہونے کے خلاف نہیں۔ امام بیہقی نے جو روایت کی ہے صحیح ہے۔ دیکھو مرزاقادیانی نے بھی تو (ازالہ اوہام ص۸۱، خزائن ج۳ ص۱۴۲) کی عبارت مسلم شریف کی طرف ’’من السماء‘‘ کا لفظ منسوب کیا ہے۔ حالانکہ مسلم میں نہیں ہے تو سوائے اس کے کیا کہا جائے گا کہ امام مسلم رحمہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ آسمان سے نزول کا ہی ہے۔ کیونکہ قرآن مجید کی آیات متعددہ اور احادیث نبویہ سے ان کا رفع آسمانی عیاں ہے۔ فافہم!
قادیانی اعتراض: امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس حدیث کو امام بیہقی رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب سے نقل کیا ہے مگر اس میں لفظ ’’من السماء‘‘ نہیں لکھا۔ پس معلوم ہوا کہ بیہقی میں موجود ہی نہیں یا امام بیہقی رحمہ اللہ تعالیٰ کی ذاتی تشریح ہے۔
الجواب: یہ اعتراض احمقانہ ہے بھلے مانسو! جب حدیث کی کتاب میں جو اصل ہے یہ لفظ موجود ہے اور تم اسے آنکھوں سے دیکھ رہے ہو تو اگر کسی ناقل نے غلطی سے اسی نقل نہ کیا ہو تو اس سے اصل کتاب کیسے مشکوک ہو جائے گی؟
دیکھئے تمہارے خود ساختہ ’’حضرت نبی اﷲ‘‘ مرزاقادیانی نے اپنی کتب میں قرآن مجید کی سو کے قریب آیات غلط الفاظ میں نقل کی ہیں۔ کہیں لفظ کم کر دیا۔ کہیں زیادہ کیا۔ اس سے کوئی تمہارے جیسا احمق یہ نتیجہ نکال لے کہ قرآن مشکوک ہے۔ صحیح آیات وہی ہیں جو مرزاقادیانی نے لکھی ہیں تو وہ صحیح الدماغ انسان کہلانے کا حق دار ہے؟
مرزائیو! اب خواہ تم اس منہ کی کالک کو کاتب کے سر ہی تھوپو۔ مگر مرزاقادیانی کی نقل کردہ آیت تو ہر حال غلط ہے۔ حالانکہ قرآن میں اس طرح نہیں۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ کسی ناقل کی غلطی اصل کتاب پر کوئی اثر نہیں کرسکتی۔

ایک نکتہ:​

ماضی میں ایک بڑا فتنہ ’’فرقہ جہمیہ‘‘ کے نام سے اسی طرح سے پیدا ہوا جس طرح آج کل فتنہ مرزائیہ ہے
۔ ’’فرقہ جہمیہ‘‘ اسماء وصفات باری تعالیٰ میں طرح طرح کی تاویلیں بلکہ تحریفیں کرتا تھا۔ اس لئے علمائے اسلام نے عموماً اور محدثین کرام نے خصوصاً اس فرقہ کی تردید میں بڑی بڑی کتابیں تصنیف کیں۔ ’’کتاب الاسماء والصفات للبیہقی‘‘ اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ جہمیہ کے عقائد باطلہ میں سے ایک عقیدہ یہ بھی تھا کہ ’’ا ن اﷲ لیس فی السماء ‘‘ (کتاب العلوم مطبوعہ مصر ص۳۴۷)
امام بیہقی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب مذکور میں اس کی تردید میں کئی باب منعقد کئے ہیں اور ’’اﷲ فی السماء‘‘ کو بہت سی حدیثوں سے ثابت کیا ہے۔ ص۴۲۰ میں باب ’’ ئَ اَمِنْتُمْ مِّنْ فِی السَّمَآئِ ‘‘ کا منعقد فرماتے ہیں اور مختلف احادیث نبویہ سے مسئلہ مذکور ثابت کرتے ہیں۔ اس کے ص۴۲۴ پر باب ’’ رَافِعُکَ اِلَیَّ، رَفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ، تَعْرُجُ الْمَلٰئِکَۃُ، اِلَیْہَ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ ‘‘ کا لائے ہیں اور مختلف حدیثوں سے فرشتوں، کلموں اور عملوں کا آسمان پر خدا کی طرف جانا ثابت کرتے ہیں۔ مثلاً ’’ عروج الملکۃ الی السماء (ص۴۲۴) ‘‘ اسی باب میں پہلی حدیث حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بابت بھی لائے ہیں۔ ’’ کیف انتم اذا نزل ابن مریم من السماء فیکم ‘‘ پس انصاف کرنا چاہئے کہ جب مصنف کا مقصود ہی یہی ہے کہ اس باب میں خصوصیت سے الیٰ السماء، فی السماء، من السماء ثابت کیا جائے تو یہ کیونکر کہا جاسکتا ہے کہ اصل بیہقی میں من السماء کا لفظ نہیں ہے؟ حالانکہ امام موصوف اسی چیز کے ثابت کرنے کے درپے ہیں۔
قادیانی اعتراض: اس حدیث میں ’ ’امامکم منکم ‘‘ سے مراد وہ عیسیٰ علیہ السلام ہے جو مسلمانوں میں سے ایک ہوگا۔
الجواب: قرآن وحدیث بلکہ کل دنیا بھر کے اہل اسلام کی کتابوں میں حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام جس کا نزول مذکور ہے سوائے مسیح رسول اﷲ کے اور کوئی شخص نہیں یہ افتراء ہے، اور ازسرتاپا یہود یا نہ تحریف ہے جو بیسیوں آیات وصدہا احادیث کے خلاف ہے۔ حدیث میں مسیح کے نزول کے وقت ایک دوسرے امام کا ذکر ہے جو باتفاق جملہ مفسرین ومحدثین ومجددین غیراز مسیح ہے جو یقینا امام مہدی علیہ الرضوان ہیں جن کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث ہے کہ ’’ رَجُلٌ مِّنْ اَہْلِ بَیْتِیْ یُؤَاطِیٔ اِسْمُہٗ اِسْمِیْ وَاِسْمُ اَبِیْہِ اِسْمَ اَبِیْ (ابوداؤد ج۳ ص۱۳۱، ترمذی ج۲ ص۴۷، مشکوٰۃ باب اشراط الساعۃ ص۴۷۰) ‘‘ مرزاقادیانی نے لکھا ہے: ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیش گوئی فرماتے ہیں۔ مہدی خَلق اور خُلق میں میری مانند ہوگا میرے نام جیسا اس کا نام ہوگا، میرے باپ کے نام کی طرح اس کے باپ کا نام۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۴۸، خزائن ج۳ ص۱۷۵)
اس کے علاوہ خود مرزاقادیانی بھی مانتے ہیں کہ ’’امامکم منکم‘‘ میں مسلمانوں کے امام الصلوٰۃ غیراز مسیح کا ذکر ہے۔ چنانچہ ایک شخص نے مرزاقادیانی سے سوال کیا کہ آپ خود امام بن کر نماز کیوں نہیں پڑھایا کرتے۔ کہا: ’’حدیث میں آیا ہے کہ مسیح جو آنے والا ہے وہ دوسروں کے پیچھے نماز پڑھے گا۔‘‘ (فتاویٰ احمدیہ ج۱ ص۸۲)
حدیث:۴ ’’ وعن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم (فی حدیث طویل) قال قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم فعند ذلک ینزل اخی عیسٰی بن مریم من السماء ‘‘ (کنزالعمال ج۱۴ ص۶۱۹ نمبر۳۹۷۲۶)
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم ایک طویل حدیث میں فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پس اس وقت میرے بھائی عیسیٰ بن مریم آسمان سے نازل ہوں گے۔
نوٹ: اس روایت کو ’’کنزالعمال‘‘ کے مصنف ’’علی بن حسام المتقی ہندی‘‘ نے نقل کیا ہے۔ قادیانیوں کے نزدیک یہ دسویں صدی کے مجدد ہیں۔ مرزاقادیانی نے (حمامۃ البشریٰ ص۱۴۸، خزائن ج۷ ص۳۱۴) پر اس کو حدیث رسول اﷲ تسلیم کیا ہے اور ’’ عن ابن عباس قال قال رسول اللّہ ‘‘ لکھا ہے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

نتائج حدیث چہارم:​

۱۶… اس روایت میں ’’ نزول من السماء ‘‘ کی صراحت ہے۔

قادیانیوں سے سوال​

۱۸… اس روایت کو نقل کرنے والے ’’علی المتقی ہندی رحمہ اللہ تعالیٰ ‘‘ قادیانیوں کے نزدیک مجدد ہیں۔ وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمانوں سے نزول کا ذکر کرتے ہیں۔ اب اس قول کے بعد قادیانی فرمائیں گے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کا حیات مسیح علیہ السلام کا عقیدہ تھا یا نہ؟
۱۹… مرزاقادیانی جگہ جگہ اپنی کتب میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کو وفات مسیح کا قائل ظاہر کرتے ہیں کیا یہ مرزاقادیانی کا سفید جھوٹ ہے یا نہ؟
۲۰… مرزاقادیانی نے اس روایت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کو (حمامۃ البشریٰ ص۱۴۸، خزائن ج۷ ص۳۱۴) پر نقل کیا ہے۔ مگر من السماء کا لفظ حذف کر کے خیانت کا ارتکاب کیا۔ کیا خائن نبی ہوسکتا ہے؟
حدیث:۵ ’’ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمَرَ وَقَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَنْزِل عِیْسٰی بْنَ مَرْیَمَ اَلَی الْاَرْضِ فَیَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدْ لَہٗ وَیَمْکُثِ خَمْسَا وَاَرْبَعِیْنَ سَنَۃً ثُمَّ یَمُوْتُ فَیُدْفَنْ مَعَی فِیْ قَبْرِی فاقوم انا وعیسٰی بن مریم فی قبرو احد بین ابی بکر وعمر ‘‘
’’عبداﷲ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ زمانہ آئندہ میں عیسیٰ علیہ السلام زمین پر اتریں گے (اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس سے پیشتر زمین پر نہ تھے بلکہ زمین کے بالمقابل آسمان پر تھے) اور میرے قریب مدفون ہوں گے۔ قیامت کے دن میں، مسیح بن مریم کے ساتھ اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم وعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کے درمیان قبر سے اٹھوں گا۔‘‘ اس حدیث کو ابن جوزی نے کتاب الوفا میں روایت کیا۔ (مشکوٰۃ کتاب الفتن باب نزول عیسیٰ علیہ السلام ص۴۸۰، وفاء الوفاء للسمہودی ج۱ ص۵۵۸، شرح مواہب للزرقانی ج۸ ص۲۹۶، مواہب لدنیہ القسطلانی ج۲ ص۳۸۲، مرقات ج۱۰ ص۲۳۳)
نوٹ: مرقات کے مصنف حضرت ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ قادیانیوں کے نزدیک مجدد ہیں۔ ان کی بیان کردہ یہ روایت ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم وعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی قبریں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں۔ ان کے متعلق مرزاقادیانی لکھتے ہیں۔
’’ان کو یہ مرتبہ ملا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے ملحق ہوکر دفن کئے گئے کہ گویا ایک ہی قبر ہے۔‘‘
(نزول المسیح ص۴۷، خزائن ج۱۸ ص۴۲۵)
جو مطلب ومراد اس تحریر کی ہے وہی مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متذکرہ حدیث کی ہے۔ ’’یدفن معی فی قبری‘‘ کے اصلی معنی یہ ہیں کہ وہ میرے ساتھ ایک ہی روضہ میں دفن ہوں گے جو حضرات عربی ادب سے ذوق رکھتے ہیں ان کو معلوم ہے کہ ’’فی‘‘ سے مراد کبھی قرب بھی ہوتا ہے جیسے ’’بورک من فی النار (سورۃ نمل)‘‘ یعنی موسیٰ علیہ السلام پر برکت نازل کی گئی جو آگ کے قریب تھے نہ کہ اندر۔
مرزاقادیانی بھی اس معنی کی تائید کرتے ہیں اور لکھتے ہیں: ’’اس حدیث کے معنی ظاہر پر ہی عمل کریں تو ممکن ہے کہ کوئی مثیل مسیح ایسا بھی آجائے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ کے پاس مدفون ہو۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۴۷۰، خزائن ج۳ ص۳۵۲)
مرزاقادیانی نے اس حوالہ میں قبر بمعنی مقبرہ بھی مانا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سیدنا مسیح کا مدفون ہونا بھی مانا ہے۔

نتائج حدیث پنجم:​

۱۷… اس حدیث شریف میں ’’ینزل عیسٰی بن مریم الی الارض‘‘ کی صراحت ہے۔
۱۸… اس حدیث شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روضہ طیبہ میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی تدفین کی صراحت ہے۔
۱۹… قیامت کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عیسیٰ علیہ السلام، سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم ، سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کے ایک ساتھ اٹھنے کی صراحت ہے۔

قادیانیوں سے سوال​

۲۱… قادیانی کسی حدیث میں ’’لاینزل الی الارض‘‘ دکھا سکتے ہیں؟
۲۲… حدیث شریف میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی تدفین کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم روضہ طیبہ میں آج بھی جگہ باقی ہے۔ جیسا کہ ترمذی شریف میں صراحۃً مذکور ہے۔
(حوالہ آگے آرہا ہے) مرزاقادیانی سیدنا مسیح علیہ السلام کی قبر مبارک سری نگر میں بتاتا ہے۔ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ طیبہ سری نگر میں ہے؟
۲۳… سری نگر کشمیر میں مسیح علیہ السلام کی قبر ہے۔ اس پر کسی آسمانی کتاب یا قرآن وسنت یا کسی ایک مجدد کا قول قادیانی قیامت تک پیش کر سکتے ہیں؟
۲۴… کیا مرزاقادیانی نے حدیث مبارک کے مقابلہ میں سری نگر کا ڈھکوسلہ تیار کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صریح فرمان کی تکذیب کا کفر اختیار نہیں کیا؟
۲۵… کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور عیسیٰ علیہ السلام صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم وفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کے درمیان سری نگر سے قیامت کے دن اٹھیں گے؟
۲۶… مرزاقادیانی مسیح تھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ طیبہ میں دفن ہوا؟
۲۷… قیامت کے دن مرزا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کے ساتھ ایک قبر سے اٹھے گا؟ (اس لئے کہ حدیث میں ’’فاقوم انا وعیسٰی بن مریم فی قبر واحد بین ابی بکر وعمر‘‘ کی صراحت ہے)

قادیانی اعتراض: قادیانی رذالت کی انتہاء​

ایک قادیانی نے کہا کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ مومن کی قبر حدنگاہ تک فراخ ہو جاتی ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک فراخ ہوتے ہوئے قادیان تک آگئی۔ مرزاقادیانی قادیان میں دفن ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ میں دفن ہوگیا۔
جواب: مرزاقادیانی کو اقرار ہے کہ ممکن ہے ایسا مسیح آجائے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ طیبہ میں مدفون ہو۔ (حوالہ گزر چکا) مرزاقادیانی کی یہ عبارت پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ روحانی قبر مراد نہیں۔
۲… اگر روحانی قبر مراد ہے تو پھر سیدنا صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم وفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم بھی روحانی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقبرہ میں مدفون ہیں؟ اس حدیث میں تین اشخاص سیدنا مسیح علیہ السلام، سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم ، سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تدفین کا ذکر ہے۔ دو حضرات کی تدفین کو جسمانی تدفین اور تیسرے کی تدفین کو روحانی تدفین ماننا۔ کیا یہ یہودیانہ خصلت نہیں؟
۳… اگر روحانی تدفین مراد لی جائے تو سیدنا صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم وفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم ومسیح علیہ السلام کی تخصیص ختم ہو جاتی ہے۔
۴… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک مدینہ طیبہ سے فراخ ہوتے ہوئے قادیان پہنچ گئی۔ معاذ اﷲ ثم معاذ اﷲ! نقل کفر کفر نباشد ۔ تو مدینہ طیبہ سے قادیان تک جاتے ہوئے راستہ میں جدہ، کراچی، حیدرآباد، سکھر، رحیم یارخان، بہاولپور، ملتان، اوکاڑہ، خانیوال، ساہیوال، لاہور، بٹالہ آتے ہیں۔ اس کے بعد قادیان، تو کیا حجاز سے قادیان تک جتنے غیرمسلم دفن ہیں وہ معاذ اﷲ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دفن ہیں؟ ’’ فبہت الذی کفر ‘‘
قارئین! اندازہ کریں قادیانی خبث وبدباطنی کفر ودجل کاکہ کس طرح بکواس کرتے ہیں؟ نتائج سے قطعاً نہیں شرماتے۔ چاہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہی کیوں نہ ہو؟ سچ ہے کہ قادیانیت گندگی ہے۔ ہر قادیانی کا دماغ گندگی کا ڈپو ہے اور گندگی کبھی پاک نہیں ہوتی۔ گندگی کا ایک ذرہ بھی ہو تو وہ ناپاک ہے۔ جتنا پانی ڈالتے جائیں گندگی زائل ہو جائے گی اس کا وجود مٹ جائے گا۔ مگر کبھی گندگی پاک نہ ہوگی۔ اس لئے قادیانیت کا علاج ہی اس کا مٹ جانا ہے۔ آج نہیں تو کل۔ مسیلمہ کذاب کی پارٹی کی طرح مٹ جائیں گے۔ ان شاء اﷲ!
قادیانی اعتراض: مرزاقادیانی نے اپنی کتاب (حقیقت الوحی ص۳۱۳، خزائن ج۲۲ ص۳۲۶) پر اس کی تاویل یہ کی کہ اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب نصیب ہوگا۔ ظاہری تدفین مراد نہیں اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ طیبہ کھولا گیا تو اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین لازم آئے گی۔
جواب: ۱… روضہ طیبہ کی دیواروں کو توڑا نہیں جائے گا ایک دیوار جالی مبارک والی ہے جہاں پر کھڑے ہوکر درود وسلام پڑھا جاتا ہے اس میں تو دروازہ موجود ہے۔ مسلم سربراہان اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے خدام کے لئے کھولا جاتا ہے۔ آگے والی دیوار مبارک جس پر پردہ مبارک ہے قبور مقدسہ تک جتنی دیواریں یا پردے ہیں ان سب میں دروازے موجود ہیں۔ بعد میں ان کو چن دیا گیا۔ جب عیسیٰ علیہ السلام کی تدفین ہوگی تو معمولی سی کوشش سے ان دروازوں کو دوبارہ کھول دیا جائے گا اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہ ہوگی۔
۲… نیز یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان اقدس کو پورا کرنے کے لئے تمام رکاوٹوں کو دور کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عین اطاعت ہے نہ کہ توہین، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا فرماتی ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زندہ رہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اجازت دیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دفن کی جاؤں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کیسے ممکن ہے کیونکہ وہاں چار قبروں میری، ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم ، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم ، عیسیٰ علیہ السلام کی قبور کے سوا اور جگہ ہی نہیں۔ (کنزالعمال برحاشیہ مسند احمد ج۶ ص۵۷)
یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کا مرض الوفات تھا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم نے فرمایا کہ میری تدفین جنت البقیع میں ہو۔ آپ کے عزیزوں نے درخواست کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں ایک قبر مبارک کی جگہ باقی ہے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم نے فرمایا کہ اس کی ریزرویشن نبی علیہ السلام نے عیسیٰ علیہ السلام کے لئے فرمادی ہے۔ وہی یہاں پر دفن ہوں گے۔ چنانچہ آج تک روضہ شریف میں وہ جگہ، پکار پکار کر مرزائیت کے غلط عقائد کا اعلان کر رہی ہے تو یہ حدیث شریف ظاہر کر رہی ہے کہ قبر بمعنی مقبرہ ہے۔
۳… (مصنف ابن ابی شیبہ ج۳ ص۲۲۹، مطبوعہ ملتان) کی (کتاب الجنائز۱۵۱، باب فی الرجل یوصی ان یدفن فی موضع) پر ایک ساتھ دو حدیثیں ہیں۔ ایک ہی امر سے متعلق ایک حدیث شریف میں قبر کا لفظ ہے۔ دوسری حدیث شریف میں مقبرہ کا لفظ ہے۔ ایک ہی امر کے لئے ایک ہی حدیث میں قبر اور دوسری میں اسی امر سے متعلق مقبرہ کا لفظ صاف ظاہر کر رہا ہے کہ قبر بمعنی مقبرہ بھی مستعمل ہے۔
۴… قادیانی کے مسلمہ مجدد حضرت ملا علی قاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم فرماتے ہیں: ’’ (ثم یموت فیدفن معی) ای مصاحبالی (فی قبری) ای مقبرتی وعبرعنہا بالقبر قرب قبرہ بقبرہ فکانہما فی قبر واحد (فاقوم انا وعیسٰی فی قبر واحد) ای من مقبرۃ واحدۃ ففی القاموس ان فی تاتی بمعنی من کذافی المغنی ‘‘ (مرقاۃ ج۱۰ ص۲۳۳، مطبوعہ امدادیہ ملتان)
پھر فوت ہوں گے عیسیٰ علیہ السلام اور میرے ساتھ دفن ہوں گے۔ میری مصاحبت میں دفن ہوں گے۔ فی قبری (میری قبر میں) قبر سے مراد مقبرہ ہے۔ میری قبر اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعبیر کی کہ عیسیٰ علیہ السلام کی قبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے ساتھ قریب ہوگی۔ گویا دونوں ایک ہی قبر ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور عیسیٰ علیہ السلام ایک قبر سے قیامت کو اٹھیں گے۔ یعنی ایک مقبرہ سے اٹھیں گے۔ قاموس میں ہے کہ ’’فی‘‘ من کے معنی میں بھی آتا ہے جیسا کہ مغنی میں ہے۔ اس حدیث شریف کی شرح میں ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے دو جگہ قبر کا معنی مقبرہ کیا ہے۔
۵… خود قرآن مجید میں بھی بعض جگہ فی بمعنی مع کا مستعمل ہے۔ جیسے فرمایا: ’’ بورک من فی النار (نمل) ‘‘ یعنی موسیٰ علیہ السلام پر برکت نازل کی گئی جو آگ کے قریب تھا، نہ کہ اندر، چنانچہ (تفسیر کبیر ج۲۴ ص۱۸۳) پر اسی آیت کے تحت علامہ رازی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ وہذا اقرب لان القریب من الشی قدیقال انہ فیہ ‘‘ کبھی کبھار قریب ترین کے متعلق کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ بھی اس میں ہے۔ یاد رہے کہ امام رازی کو بھی قادیانی مجدد مانتے ہیں۔ اب دو مجددین کے معنوں سے قادیانیوں کا انحراف زیغ نہیں تو اور کیا ہے؟
۶… خود مرزاقادیانی کا حوالہ گزر چکا ہے کہ ’’ممکن ہے کہ کوئی مثیل مسیح ایسا بھی آجائے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ کے پاس مدفون ہو۔‘‘ اس حوالہ میں بھی مرزاقادیانی نے قبر بمعنی مقبرہ یعنی روضہ کے تسلیم کیا ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ: ’’فیدفن عیسٰی فی قبری‘‘ کہ عیسیٰ علیہ السلام میرے ساتھ میری قبر میں دفن ہوں گے اس کا یہی معنی ہے کہ میرے ساتھ میرے مقبرہ میں دفن ہوں گے۔
قادیانی اعتراض: اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقبرہ میں دفن ہونا صحیح ہے تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کو تین چاند کیوں دکھائے گئے؟ پھر تو چارچاند دکھائے جانے چاہئے تھے۔
الجواب: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کو خواب میں تین چاند اس لئے دکھائے گئے کہ ان کی زندگی میں صرف تین چاند ہی ان کے حجرے میں دفن ہونے والے تھے اور وہ صرف تینوں ہی کو دیکھنے والی تھیں۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اور اپنے والد ماجد حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کو۔ باقی رہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام۔ سو وہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی زندگی میں دفن ہونے والے نہ تھے اس لئے وہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کو نہ دکھائے گئے۔ مزید برآں حدیث نبوی اگر کسی امتی کے خواب کے خلاف یا قول کے خلاف ہونے سے غلط ہو جائے تو آج حدیث کا سارا دفتر مردود ہو جائے گا اور اسلام دنیا سے رخصت۔
اس حدیث شریف کی بحث کو ختم کرنے سے قبل قادیانیوں سے ایک سوال ہے۔

قادیانیوں سے سوال​

الف… ’’مسیح علیہ السلام کی قبر سری نگر میں ہے۔‘‘ (راز حقیقت ص۲۰، خزائن ج۱۴ ص۱۷۲)
ب… ’’مسیح اپنے وطن گلیل میں جاکر فوت ہوا۔‘‘ (ازالہ ص۲۷۳، خزائن ج۳ ص۳۵۳)
ج… ’’عیسیٰ علیہ السلام کی قبر بلدہ قدس میں ہے۔‘‘ (اتمام الحجہ ص۲۱،۲۲، خزائن ج۸ ص۲۹۹،۳۰۰)
ایک شخص کی قبر تین جگہ نہیں ہوسکتی۔ ایک جگہ ہوگی تو دو قبروں کے متعلق مرزاقادیانی نے جھوٹ بولا۔ اس طرح ستاسٹھ فیصد جھوٹا ہوا۔ قادیانی بتائیں کہ ایک شخص تین جگہ کیسے دفن ہوا؟
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

حدیث:۶… سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی قبر مبارک کہاں ہوگی؟​

نزول من السماء کے بعد سیدنا عیسیٰ علیہ السلام پینتالیس سال دنیا میں قیام فرمائیں گے۔ دجال کو قتل کریں گے۔ حج وعمرہ کریں گے۔ شادی ہوگی، اولاد ہوگی، پینتالیس سال نزول کے بعد دنیا میں رہ کر مدینہ طیبہ میں انتقال فرمائیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ طیبہ میں دفن ہوں گے۔ (۱)آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، (۲)سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم ، (۳)سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم ۔ تین قبور مبارکہ موجود ہیں۔ چوتھی قبر مبارک سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی مدینہ طیبہ مسجد نبوی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ طیبہ میں ہوگی۔
حوالہ نمبر:۱… ’’ عن عبداللّٰہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم قال یدفن عیسٰی بن مریم علیہ السلام مع رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم وصاحبیہ رضی اللّٰہ عنہما فیکون قبرہ رابعً ا‘‘ (مجمع الزوائد ج۸ ص۲۰۹، درمنثور ج۲ ص۲۴۶)
’’حضرت عبداﷲ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم فرماتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کے ساتھ دفن ہوں گے اور ان کی چوتھی قبر ہوگی۔‘‘
حوالہ نمبر:۲… ’’ عن عائشۃ رضی اللہ تعالیٰ عنھا قالت قلت یا رسول اللّٰہ انی اری انی اعیش بعدک فتاذن لی ان ادفن الٰی جنبک فقال وانّٰی لک بذالک الموضع مافیہ الاموضع قبری وقبر ابی بکر وعمر وعیسٰی بن مریم ‘‘ (کنزالعمال ج۱۴ ص۶۲۰، حدیث نمبر۳۹۷۲۸، ابن عساکر ج۲۰ ص۱۵۴)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم بظاہر یہ ہے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زندہ رہوں گی۔ اپنے پہلو میں مجھے دفن ہونے کی اجازت مرحمت فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ آپ کے لئے جگہ کہاں۔ وہاں تو صرف میری (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم ، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم اور عیسیٰ علیہ السلام کی قبور کی جگہ ہے۔
حوالہ نمبر:۳… ’’ عن عبداللّٰہ بن سلام قال وجدت فی الکتٰب ان عیسٰی بن مریم یدفن مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی القبر وقد بقیی فی البیت موضع قبر ‘‘ (ابن عساکر ج۲۰ ص۱۵۴)
’’حضرت عبداﷲ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم فرماتے ہیں کہ میں نے کتب سماویہ میں پایا کہ بے شک عیسیٰ بن مریم علیہ السلام دفن ہوں گے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قبر میں اور تحقیق باقی ہے روضہ طیبہ میں ایک قبر کی جگہ۔‘‘
حوالہ نمبر:۴… ’’ عن عبداللّٰہ بن سلام نظرت فی التورۃ صفۃ محمد وعیسٰی بن مریم یدفن معہ ‘‘ (ابن عساکر ج۲۰ ص۱۵۴)
حضرت عبداﷲ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم فرماتے ہیں کہ تورات میں، میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں لکھا دیکھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بن مریم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دفن ہوں گے۔
حوالہ نمبر:۵… ’’ عن عبداللّٰہ بن سلام لیدفن عیسٰی بن مریم مع النبی فی بیتہ ‘‘
(تاریخ الکبیر للبخاری ج۱ ص۲۶۳، ابن عساکر ج۲۰ ص۱۵۴)
حوالہ نمبر:۶… ’’ قال ابومودود وقد بقیی موضع قبر ‘‘
(ابن عساکر ج۲۰ ص۱۵۴، ترمذی ج۲ ص۲۰۲، باب فضل النبی صلی اللہ علیہ وسلم )
’’حضرت ابومودود رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارکہ میں صرف ایک قبر کی جگہ باقی ہے۔ (عیسیٰ علیہ السلام کے لئے)‘‘
حوالہ نمبر:۷… ’’ عن عبداللّٰہ بن سلام قال مکتوب فی التوراۃ صفۃ محمدٍ وعیسٰی بن مریم یدفن معہ ‘‘ (ترمذی ج۲ ص۲۰۲، باب فضل النبی صلی اللہ علیہ وسلم )
’’حضرت عبداﷲ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم فرماتے ہیں کہ تورات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عیسیٰ بن مریم کی شان میں لکھا ہے کہ وہ ایک ساتھ دفن ہوں گے۔‘‘
درمنثور، ترمذی، کنزالعمال، مجمع الزوائد، ابن عساکر، التاریخ الکبیر للبخاری، ایسی وقیع اور امہات الکتب کے حوالہ جات کے بعد بھی کوئی بدنصیب قادیانی اس بات کو نہیں مانتا تو پھر ان کا علاج خود عیسیٰ علیہ السلام ہی تشریف لا کر کریں گے۔ جیسا کہ (صحیح بخاری ج۱ ص۴۹۰) پر ہے: ’’ یقتل الخنزیر ‘‘ خذوکن من الشاکرین!

نتائج حدیث ششم:​

۲۰… اس حدیث شریف میں عیسیٰ علیہ السلام کی قبر مبارک روضہ طیبہ میں چوتھی قبر ہونے کی صراحت ہے۔
۲۱… اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ طیبہ میں ابھی ایک قبر مبارک کی جگہ کے باقی ہونے کی صراحت ہے۔
۲۲… عبداﷲ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم فرماتے ہیں کہ تورات میں عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق لکھا تھا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دفن ہوں گے۔

قادیانیوں سے سوال​

۲۹… کیا روضہ طیبہ مدینہ منورہ میں چوتھی قبر مرزا کی بنی؟
۳۰… کیا روضہ طیبہ کی چوتھی قبر مبارک کی باقی جگہ (ترمذی کی صراحت کے مطابق) پر ہوگئی ہے؟
۳۱… کیا مرزا کے متعلق تورات میں تھا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دفن ہوںگے؟
حدیث:۷ ’’ عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم قال قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم لن تہلک امۃ انا فی اولہا وعیسٰی بن مریم فی آخرہا والمہدی فی وسطہا ‘‘ وہ امت کبھی ہلاک نہیں ہوگی جس کے اوّل میں میں ہوں اور آخر میں عیسیٰ بن مریم علیہ السلام اور درمیان میں مہدی علیہ الرضوان۔ (جامع الاحادیث للسیوطی ج۵ ص۱۱۰، حدیث:۱۷۵۰۱، کنزالعمال ج۱۴ ص۲۶۶، حدیث:۳۸۶۷۱، ص۲۶۹، حدیث:۳۸۶۸۲، ص۳۳۷ حدیث:۳۸۸۵۸، سراج منیر ج۴ ص۱۳۹ (مطبوعہ مکتبہ الایمان مدینہ) فیض القدیر ج۵ ص۳۰۱، حدیث:۷۳۸۴، ابن عساکر ج۲۰ ص۱۵۴)
نوٹ: اس حدیث میں علامہ سیوطی، علاء الدین بن حسام الدین صاحب الکنز یہ دونوں قادیانیوں کے نزدیک مجدد ہیں۔ ان کی بیان کردہ روایت ہے۔

نتائج حدیث ہفتم:​

۲۳… اس حدیث شریف میں صراحت ہے کہ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام امت محمدیہ میں آئیں گے۔
۲۴… اس حدیث شریف میں سیدنا مسیح ومہدی علیہما السلام کی علیحدہ علیحدہ شخصیات کی تصریح ہے۔

قادیانیوں سے سوال​

۳۲… کیا مرزاقادیانی مریم کابیٹا تھا؟
۳۳… اس کا ذاتی نام غلام احمد تھا یا عیسیٰ؟
۳۴… مہدی ومسیح دو ہیں یا ایک؟
حدیث:۸ مشکوٰۃ ’’ باب قصۃ ابن صیاد ‘‘ میں مذکور ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم بمعہ صحابہi، ابن صیاد کو دیکھنے گئے۔ ابن صیاد کے بارے میں صحابہi کو شبہ تھا کہ یہ ہی دجال نہ ہو۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم نے عرض کی ’ ’ائذن لی یارسول اللّٰہ فاقتلہ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم اِنْ یَکُنْ ہُوَ فَلَسْتَ صَاحِبَہٗ اِنَّمَا صَاحِبُہٗ عِیْسٰی ابْنُ مَرْیَمَ ‘‘ اجازت دو مجھ کو یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کہ میں ابھی اسے قتل کردوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ ابن صیاد دجال ہے تو پھر تو اسے قتل نہ کر سکے گا۔ کیونکہ اس کا قتل عیسیٰ بن مریم کے ہاتھوں ہوگا۔ (مشکوٰۃ ص۴۷۹، باب قصۃ ابن صیاد، شرح السنۃ بغوی ج۷ ص۴۵۳،۴۵۴، حدیث:۴۱۶۹، کتاب الفتن باب ذکر ابن صیاد مسند احمد ج۳ ص۳۶۸، مجمع الزوائد ج۸ ص۶، باب ماجاء فی ابن صیاد، وقال رجالہ صحیح، کنزالعمال ج۱۴ ص۳۳۱، باب ابن صیاد حدیث:۳۸۸۳۸، فتح الباری ج۶ ص۱۲۱، بخاری ج۱ ص۴۲۹، کتاب الجہاد باب یعرض الاسلام علی الصبی)
بخاری کے الفاظ یہ ہیں: ’’ قال عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم یا رسول اللّٰہ ائذن لی فیہ اضرب عنقہ قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان یکن ہو فلن تسلّط علیہ وان لم یکن ہو فلا خیر لک فی قتلہ ‘‘ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا اجازت دیں کہ میں اس کی گردن اتاردوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ وہی (دجال) ہے تو تم اسے قتل نہیں کر سکتے۔ (اس لئے کہ اس کے قاتل عیسیٰ علیہ السلام ہوں گے) اور اگر یہ وہ (دجال) نہیں تو اس کے قتل میں تمہاری بھلائی نہیں۔
نوٹ: امام احمد، صاحب کنزالعمال، علامہ عسقلانی۔ یہ سب قادیانیوں کے مسلمہ مجدد ہیں۔ یہ روایت ان کی بیان کردہ ہے۔
مرزاقادیانی بھی یہی لکھتے ہیں: ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر کو قتل کرنے سے منع (کیا اور فرمایا) اگر یہی دجال ہے تو اس کا صاحب عیسیٰ بن مریم ہے جو اسے قتل کرے گا۔ ہم اسے قتل نہیں کر سکے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۲۲۵، خزائن ج۳ ص۲۱۳)
ثابت ہوا کہ حضرت مسیح زندہ آسمان پر موجود ہیں جو زمین پر اتر کر دجال کو قتل کریں گے جیسا کہ حدیث معراج میں اس کی مزید تائید ہے۔

نتائج حدیث ہشتم:​

۲۵… اس حدیث میں صراحت ہے کہ دجال کے قاتل عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔
۲۶… یہ کہ دجال ایک شخص معیّن ہے نہ کہ اقوام۔
۲۷… یہ کہ دجال تلوار سے قتل ہوگا۔

قادیانیوں سے سوال​

۳۵… کسی حدیث شریف میں قادیانی دکھا سکتے ہیں کہ دجال کا قاتل عیسیٰ علیہ السلام کے سوا کسی اور کو قرار دیا گیا ہو؟
۳۶… کیا قادیانی حدیث میں دکھا سکتے ہیں کہ دجال کوئی قوم ہے نہ کہ شخص معین؟
۳۷… قادیانی کسی حدیث میں دکھا سکتے ہیں کہ دجال کا قتل دلائل سے ہوگا؟
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
حدیث:۹ ’’ عن عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم ، عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لقیت لیلۃ اسری بی ابراہیم وموسٰی وعیسٰی قال فتذاکروا امر الساعۃ فردوا امرہم الی ابراہیم، فقال لا علم لی بہا فردوا الامر الی موسٰی، فقال لا علم لی بہا فردوا الامر الٰی عیسٰی، فقال: اما وجبتہا فلا یعلمہا احد الا اللّٰہ تعالٰی ذلک وفیہما عہد الٰی ربی عزوجل ان الدجال خارج قال ومعیی قضیبان فاذا رآنی ذاب کما یذوب الرصاص قال فیہلکہ اللّٰہ، حتی ان الحجر والشجر لیقول: یا مسلم ان تحتی کافرًا فتعال فاقتلہ قال: فیہلکہم اللّٰہ تعالٰی ‘‘ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے شب معراج میں ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام سے ملاقات کی تو وہ قیامت کے بارے میں باتیں کرنے لگے۔ پس انہوں نے اس معاملہ میں ابراہیم علیہ السلام سے رجوع کیا (کہ وہ وقت قیامت کے بارے میں کچھ بتائیں) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے اس کا کوئی علم نہیں۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف رجوع کیا تو انہوں نے بھی فرمایا کہ مجھے اس کا کوئی علم نہیں۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف رجوع کیا تو انہوں نے فرمایا جہاں تک وقت قیامت کا معاملہ ہے تو اس کا علم سوائے اﷲتعالیٰ کے کسی کو نہیں۔ یہ بات تو اتنی ہی ہے البتہ جو عہد پروردگار نے مجھ سے کیا ہے اس میں یہ ہے کہ دجال نکلے گا اور میرے پاس دو باریک سی نرم تلواریں ہوں گی پس وہ مجھے دیکھتے ہی رانگ (یا سیسہ) کی طرح پگھلنے لگے گا۔ پس اﷲ اس کو ہلاک کرے گا۔ یہاں تک کہ پتھر اور درخت بھی کہیں گے کہ اے مرد مسلم میرے نیچے کافر چھپا ہوا ہے آکر اسے قتل کر دے۔ چنانچہ اﷲ ان سب (کافروں) کو ہلاک کر دے گا۔ (مسند احمد ج۱ ص۳۷۵ واللفظ لہ، ابن ماجہ ص۲۹۹، باب خروج الدجال وخروج عیسیٰ بن مریم علیہما السلام وخروج یاجوج وماجوج (اس میں ہے کہ میں دجال کو قتل کروں گا) ابن جریر ج۱۷ ص۹۱، زیر آیت:’’ حَتّٰی اِذَا فُتِحَتْ یَاجُوْجُ وَمَاجُوْجُ وَہُمْ مِنْ کُلِّ حَدَبٍ یَّنْسِلُوْنَ ‘‘ مستدرک حاکم ج۵ ص۶۸۷، باب مذاکرۃ الانبیاء فی امر الساعۃ (امام حاکم فرماتے ہیں کہ یہ روایت صحیحین کی شرط پر صحیح الاسناد ہے) فتح الباری ج۱۳ ص۷۹، درمنثور ج۴ ص۳۳۶، مصنف ابن ابیشیبہ ج۸ ص۶۶۱، حدیث:۷۱، کتاب الفتن باب ماذکر فی فتنۃ الدجال)
نوٹ: امام احمد، حاکم، جلال الدین سیوطی، قادیانیوں کے مسلّم مجدد اور ابن جریر رئیس المفسرین ہیں ان سے یہ روایت منقول ہے۔

نتائج حدیث نہم:​

۲۸… تمام انبیاء علیہم السلام کی موجودگی میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام قتل دجال کے لئے دوبارہ دنیا میں آنے کا تذکرہ فرماتے ہیں۔ کسی نبی نے اس پر نکیر نہ کی گویا انبیاء علیہم السلام کا قرب قیامت نزول مسیح علیہ السلام پر اجماع ثابت ہوا۔
۲۹… اس واقعہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرماتے ہیں۔
۳۰… عیسیٰ علیہ السلام نزول کو وعدہ خداوندی فرماتے ہیں۔
۳۱… عیسیٰ علیہ السلام کی دجال سے لڑائی کے وقت میں پتھر ودرخت کلام کریں گے۔
۳۲… دجال کے ساتھی جو جنگ میں شامل ہوں گے ہلاک ہو جائیں گے۔

قادیانیوں سے سوال​

۳۸… انبیاء علیہم السلام کے اجماع کا مرزاقادیانی اور قادیانیت منکر ہیں یا نہ؟
۳۹… جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ واقعہ کو تسلیم نہ کرے وہ کون ہے؟
۴۰… جو شخص اﷲتعالیٰ کے وعدہ کا منکر ہو وہ کون ہے؟
۴۱… مرزاقادیانی کے زمانہ میں لڑائی ہوئی؟
۴۲… پتھر اور درختوں نے کلام کیا؟
۴۳… دجال کے ساتھی ہلاک ہوئے؟
حدیث:۱۰ ’’ حدثنی المثنی ثنا اسحاق ثنا ابن ابی جعفر عن ابیہ عن الربیع فی قولہ تعالٰی الم اللّٰہ لا الہ الا ہو الحی القیوم قال ان النصارٰی اتو رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم فخا صموہ فی عیسٰی بن مریم وقالوا لہ من ابوہ وقالوا علی اللّٰہ الکذب والبہتان لا الہ الا ہو لم یتخذ صاحبۃ ولا ولدا فقال لہم النبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم الستم تعلمون انہ لا یکون ولدا الا وہو یشبہ اباہ قالوا بلی قال الستم تعلمون ان ربنا حی لا یموت وان عیسٰی یاتی علیہ الفناء قالوا بلی قال الستم تعلمون ان ربنا قیم علی کل شیٔ یکلؤہ ویحفظہ ویرزقہ قالوا بلٰی قال فہل یملک عیسٰی من ذلک شیئا قالوا لا، قال: افلستم تعلمون ان اللّٰہ عزوجل لا یخفی علیہ شیٔ فی الارض ولا فی السماء قالوا بلٰی قال فہل یعلم عیسٰی من ذلک شیئا الاما علم قالوا لا قال فان ربنا صوّر عیسٰی فی الرحم کیف شاء فہل تعلمون ذلک قالوا بلی قال الستم تعلمون ان ربنا لا یاکل الطعام ولا یشرب الشراب ولا یحدث الحدث قالوا بلٰی قال الستم تعلمون ان عیسٰی حملتہ امرأۃ کما تحمل المرأۃ ثم وضعتہ کما تضع المرأۃ ولدہا ثم غذی کما یغذی الصبی ثم کان یطعم الطعام ویشرب الشراب ویحدث الحدث قالوا بلٰی قال فکیف یکون ہذا کما زعمتم قال فعر فواثم ابوا الاجحودا فانزل اللّٰہ عزوجل الم اللّٰہ لا الہ الا ہو الحی القیوم ‘‘ (تفسیر ابن جریر ج۳ ص۱۶۳، تفسیر درمنثور ج۲ ص۳)
نوٹ: ابن جریر قادیانیوں کے نزدیک رئیس المفسرین اور علامہ سیوطی رحمہ اللہ تعالیٰ مجدد ہیں۔ ان دونوں کی یہ بیان کردہ روایت ہے۔
’’ربیع‘‘ سے ’’ الٓمٓ اَللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُوْم ‘‘ کی تفسیر میں منقول ہے کہ جب نصاریٰ نجران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضرت مسیح علیہ السلام کی الوہیت کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مناظرہ اور مکالمہ شروع کیا اور یہ کہا کہ اگر حضرت مسیح ابن اﷲ نہیں تو پھران کا باپ کون ہے۔ حالانکہ وہ خدا وحدہٗ لاشریک بیوی اور اولاد سے پاک اور منزہ ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یہ ارشاد فرمایا کہ تم کو خوب معلوم ہے کہ بیٹا باپ کے مشابہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کیوں نہیں بے شک ایسا ہی ہوتا ہے۔ (یعنی جب یہ تسلیم ہوگیا کہ بیٹا باپ کے مشابہ ہوتا ہے تو اس قاعدہ سے حضرت مسیح علیہ السلام بھی خدا کے مماثل اور مشابہ ہونے چاہئیں۔ حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ خدا بے مثل ہے اور بے چون وچگون ہے ’’ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ، وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَد ‘‘)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کو معلوم ہے کہ ہمارا پروردگار ’’حی لا یموت‘‘ ہے۔ یعنی زندہ ہے کبھی نہ مرے گا اور عیسیٰ علیہ السلام پر موت اور فنا آنے والی ہے (اس جواب سے صاف ظاہر ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام ابھی زندہ ہیں مرے نہیں۔ بلکہ زمانہ آئندہ میں ان پر موت آئے گی) نصاریٰ نجران نے کہا بے شک صحیح ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کو معلوم ہے کہ ہمارا پروردگار ہرچیز کا قائم رکھنے والا تمام عالم کا نگہبان اور محافظ اور سب کا رزاق ہے۔ نصاریٰ نے کہا بے شک! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام بھی کیا ان چیزوں کے مالک ہیں؟ نصاریٰ نے کہا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم کو معلوم ہے کہ اﷲ پر زمین اور آسمان کی کوئی شئے پوشیدہ نہیں۔ نصاریٰ نے کہا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا عیسیٰ علیہ السلام کی بھی یہی شان ہے؟ نصاریٰ نے کہا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم کو معلوم ہے کہ اﷲ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو رحم مادر میں جس طرح چاہا بنایا۔ نصاریٰ نے کہا ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کو خوب معلوم ہے کہ اﷲ نہ کھانا کھاتا ہے نہ پانی پیتا ہے اور نہ بول وبراز کرتا ہے۔ نصاریٰ نے کہا بے شک۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کو معلوم ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام سے اور عورتوں کی طرح ان کی والدہ مطہرہ حاملہ ہوئیں اور پھر مریم صدیقہ نے ان کو جنا۔ جس طرح عورتیں بچوں کو جنا کرتی ہیں۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام کو بچوں کی طرح غذا بھی دی گئی۔ حضرت مسیح علیہ السلام کھاتے بھی تھے پیتے بھی تھے اور بول وبراز بھی کرتے تھے۔ نصاریٰ نے کہا بے شک ایسا ہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر عیسیٰ علیہ السلام کس طرح خدا کے بیٹے ہوسکتے ہیں؟ نصاریٰ نجران نے حق کو خوب پہچان لیا مگر دیدہ ودانستہ اتباع حق سے انکار کیا۔ اﷲ عزوجل نے اس بارے میں یہ آیتیں نازل فرمائیں: ’’ الٓمٓ اَللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ ‘‘

نتائج حدیث دہم:​

۳۳… اس روایت میں صراحت ہے کہ نصاریٰ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو ہوئی۔ نصاریٰ عیسیٰ علیہ السلام کی حیات کے قائل تھے اور ہیں۔ یہ موقع تھا کہ اگر عیسیٰ علیہ السلام فوت شدہ تھے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سامنے وفات مسیح علیہ السلام کو الم نشرح کرتے کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کیا؟
۳۴… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نصاریٰ کے سامنے اﷲتعالیٰ کے ہمیشہ حی وقیوم کا ذکر کیا اور عیسیٰ علیہ السلام کے لئے کہ ان پر فنا آئے گی۔ فرمایا اگر عیسیٰ علیہ السلام فنا شدہ (یعنی وفات شدہ تھے) تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ اﷲتعالیٰ حی وقیوم ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام تو فوت ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دلیل اور پختہ ہو جاتی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا کہ ان پر فنا آئے گی یہ صریح دلیل ہے حیات عیسیٰ علیہ السلام کی۔
۳۵… اس حدیث میں ’’ ان عیسٰی یاتی علیہ الفناء ‘‘ کی تصریح ہے۔

قادیانیوں سے سوال​

۴۴… نصاریٰ حیات مسیح کے قائل تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حیات مسیح کا کیس آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فیصلہ دیا۔ قادیانی فرمائیں کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کو نہ مانے وہ کون؟
۴۵… اگر عیسیٰ علیہ السلام فوت شدہ تھے تو نصاریٰ کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کا کیا عقیدہ پیش کیا؟
۴۶… قادیانی فرمائیں کہ نصاریٰ حیات مسیح کے قائل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حیات مسیح کا اثبات فرمایا۔ اگر وہ فوت شدہ تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصاریٰ کی تائید کر کے اسلام کا کیس غلط پیش کیا؟ معاذ اﷲ!
۴۷… مرزاقادیانی کے نزدیک عیسیٰ علیہ السلام کی حیات کا عقیدہ شرک ہے (الاستفتاء) کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ اﷲ شرک کی تائید کی؟
۴۸… کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ابن جریر رحمہ اللہ تعالیٰ اور جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ تعالیٰ تک سب راویوں نے شرک کو پھیلایا؟
۴۹… اس حدیث میں: ’’ان عیسٰی یاتی علیہ الفناء‘‘ ہے کیا قادیانی ’’ان عیسٰی علیہ السلام اتی علیہ الفناء‘‘ کا لفظ کسی روایت میں پورے ذخیرہ احادیث سے دکھا سکتے ہیں؟
۵۰… ہم نے ان روایات میں مرزائیوں کے مسلمہ مجددین کی بیان کردہ روایات کو نقل کیا۔ کیا یہ مجددین صحیح تھے یا مرزاقادیانی؟
۵۱… تیرہ صدیوں کے مجددین حیات مسیح کے قائل چودھویں صدی کا (بزعم خود) مرزامجدد ان کے خلاف عقیدہ رکھتا ہے۔ کیا وہ تیرہ صدیوں کے مجددین صحیح تھے یا صرف مرزا؟
۵۲… وہ عقیدہ جو تیرہ صدیوں کے مجددین کا ہے ان کا انکارکرنے والا خود مجدد ہو سکتا ہے؟
ان روایات سے ہم نے ۳۵نتائج نکالے چونکہ ہر قادیانی باون گزکا ہے ان سے باون سوال کئے۔

قادیانیوں کو چیلنج​

۱… ان روایات میں ہم نے نزول عیسیٰ بن مریم کے ابواب کے حوالے دئیے۔
۲… ’’ ینزل من السماء ‘‘
۳… ’’ ان عیسٰی یاتی علیہ الفناء ‘‘
۴… ’’ انہ نازل ‘‘
۵… ’’ ان عیسٰی لم یمت ‘‘
۶… ’’ انہ راجع الیکم ‘‘
۷… ’’ یہبط عیسٰی (کنز ج۱۴، حدیث:۳۹۷۲۰) ‘‘
۸… ’’ ینزل عیسٰی بن مریم الی الارض ‘‘
۹… ’’ فیکون قبرہ رابعا ‘‘
۱۰… ’’ فیدفن معی ‘‘ کے صریح الفاظ دکھائے اس کے مقابلہ میں کوئی قادیانی ماں کا لعل صراحۃً۔

سوال:​

۱… ذخیرہ احادیث میں وفات مسیح کا باب دکھا سکتا ہے؟
۲… ذخیرہ احادیث میں ’’ لا ینزل من السماء ‘‘ کا لفظ دکھا سکتا ہے؟
۳… ذخیرہ احادیث میں ’’ ان عیسٰی اتی علیہ الفناء ‘‘ کا لفظ دکھا سکتا ہے؟
۴… ذخیرہ احادیث میں ’’ انہ لا ینزل ‘‘ دکھا سکتا ہے؟
۵… ذخیرہ احادیث میں ’’ ان عیسٰی قدمات ‘‘ دکھا سکتا ہے؟
۶… ذخیرہ احادیث میں ’’ انہ (عیسٰی) لا یرجع الیکم ‘‘ دکھا سکتا ہے؟
۷… ذخیرہ احادیث میں ’’ لا یہبط عیسٰی ‘‘ دکھا سکتا ہے؟
۸… ذخیرہ احادیث میں ’’ لا ینزل عیسٰی الی الارض ‘‘ دکھا سکتا ہے؟
۹… ذخیرہ احادیث میں مسیح علیہ السلام کی قبر درروضہ طیبہ کی نفی دکھا سکتا ہے؟
۱۰… ذخیرہ احادیث میں مسیح علیہ السلام کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تدفین کی نفی کا صراحۃً ذکر دکھا سکتا ہے؟ ’’ وان لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتقوا النار ‘‘

ایک ضروری تنبیہ​

ان تمام احادیث اور روایات سے یہ امر بخوبی واضح ہو گیا کہ احادیث میں جس مسیح کے نزول کی خبر دی گئی اس سے وہی مسیح مراد ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے۔ یعنی وہی مسیح مراد ہیں کہ جو حضرت مریم علیہا السلام کے بطن سے بلا باپ کے نفخۂ جبرائیل سے پیدا ہوئے اور جن پر اﷲ نے انجیل اتاری۔ معاذ اﷲ! نزول سے امت محمدیہ میں سے کسی دوسرے شخص کا پیدا ہونا مراد نہیں کہ جو عیسیٰ علیہ السلام کا مثیل ہو۔ ورنہ اگر احادیث نزول مسیح سے کسی مثیل مسیح کا پیدا ہونا مراد ہوتاتو بیان نزول کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کا آیت کو بطور استشہاد تلاوت کرنے کا کیا مطلب ہوگا؟ معاذ اﷲ! اگر احادیث نزول میں مثیل مسیح اور مرزاقادیانی کا قادیان میں پیدا ہونا مراد ہے تو لازم آئے گا کہ قران کریم میں جہاں کہیں مسیح کا ذکر آیا ہے سب جگہ مثیل مسیح اور مرزاقادیانی ہی مراد ہوں۔ اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نزول مسیح کو ذکر فرما کر بطور استشہاد آیت کو تلاوت کرنا اس امر کی صریح دلیل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود انہیں مسیح بن مریم علیہما السلام کے نزول کو بیان کرنا ہے۔ جن کے بارے میں یہ آیت اتری، کوئی دوسرا مسیح مراد نہیں اور علیٰ ہذا امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ اور دیگر ائمہ احادیث کا احادیث نزول کے ساتھ سورۂ مریم اور آل عمران اور سورۂ نساء کی آیات کو ذکر کرنا اس امر کی صریح دلیل ہے کہ احادیث میں ان ہی مسیح بن مریم کا نزول مراد ہے کہ جن کی توفی (اٹھائے جانے) اور رفع الی السماء کا قرآن میں ذکر ہے۔ حاشا وکلا قرآن کریم کے علاوہ احادیث میں کوئی دوسرا مسیح مراد نہیں۔ دونوں جگہ ایک ہی ذات مراد ہے۔
اس حقیقت کے واضح اور آشکارا ہونے کے بعد بھی اگر کوئی بدعقل اور بدنصیب ایسے مکار پر اپنی ایمان کی دولت کو قربان اور نثار کرنا چاہتا ہے تو اس کو اختیار ہے ہمارا کام تو حق اور باطل کے فرق کو واضح کر دینا ہے۔ سو الحمدﷲ! وہ کر چکے۔ دوا کر چکے اور دعا بھی کرتے ہیں اور آپ سے یہ درخواست ہے کہ اﷲتعالیٰ کی طرف رجوع کریں اور اس سے رشد وہدایت کی دعا کریں۔

باب چہارم … حیات عیسیٰ علیہ السلام پر اجماع امت​

۱… حافظ عسقلانی رحمہ اللہ تعالیٰ (تلخیص الحبیر ج۳ ص۴۶۲ مطبوعہ مکہ تحت روایت نمبر۱۶۰۷) میں فرماتے ہیں: ’’ اما رفع عیسٰی فاتفق اصحاب الاخبار والتفسیر علی انہ رفعہ ببدنہ حیا وانما اختلفوا ہل مات قبل ان یرفع اونام فرفع انتہٰی ‘‘ یعنی تمام محدثین اور مفسرین اس پر متفق ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اسی بدن کے ساتھ زندہ آسمان پر اٹھائے گئے۔ اختلاف صرف اس بارے میں ہے کہ رفع الی السماء سے پہلے کچھ دیر کے لئے موت طاری ہوئی یا حالت نوم میںاٹھائے گئے۔
۲… (تفسیر بحرالمحیط ج۲ ص۴۷۳) پر ہے: ’’ قال ابن عطیۃ واجمعت الامۃ علی ماتضمنہ الحدیث المتواتر من ان عیسٰی فی السماء حی وانہ ینزل فی اٰخر الزمان ‘‘ یعنی تمام امت کا اس پر اجماع ہوچکا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں اور اخیر زمانہ میں نازل ہوں گے جیسا کہ احادیث متواترہ سے ثابت ہے۔
۳… (تفسیر النہر الماد ج۲ ص۴۷۳) پر ہے: ’’ واجتمعت الامۃ علٰی ان عیسٰی حی فی السماء وینزل الی الارض ‘‘ امت کا اجماع ہے اس پر کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں پر زندہ ہیں اور زمین پر دوبارہ نازل ہوں گے۔
۴… (تفسیر وجیز برحاشیہ جامع البیان ص۵۲) میں ہے: ’’ والاجماع علی انہ حی فی السماء وینزل ویقتل الدجال ویؤید الدین ‘‘ اس پر اجماع ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں پرزندہ ہیں نازل ہوکر دجال کو قتل کریں گے اور اسلام کی تائید کریں گے۔
۵… امام ابوالحسن اشعری قدس اﷲ سرہ (کتاب الابانۃ عن اصول الدیانۃ ص۴۶) پر فرماتے ہیں: ’’ قال اللّٰہ عزوجل یعیسٰی انی متوفیک ورافعک الی وقال اللّٰہ تعالٰی وما قتلوہ یقینا بل رفعہ اللّٰہ الیہ واجمعت الامۃ علی ان اللّٰہ عزوجل رفع عیسٰی الی السماء ‘‘ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں اے عیسیٰ علیہ السلام میں آپ کو پورا پورا لوں گا اور آپ کو اٹھاؤں گا اور اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کو یہود نے یقینا قتل نہیں کیا بلکہ ان کو اﷲتعالیٰ نے اپنی طرف اٹھالیا اور امت کا اس پر اجماع ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو آسمانوں پر اٹھایا گیا۔
۶… شیخ اکبر قدس اﷲ سرہ (فتوحات مکیہ باب۷۳ ج۲ ص۳) میں فرماتے ہیں: ’’ لاخلاف فی انہ ینزل فی اخر الزمان ‘‘ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام آخری زمانہ میں نازل ہوں گے۔
۷… (علامہ سفارینی شرح عقیدۂ سفارینیہ ج۲ ص۹۰) پر فرماتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کا نزول من السماء کتاب اور سنت اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ اوّل آیت: ’’ وان من اہل الکتٰب الآیۃ ‘‘ نقل کی اور ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی حدیث نقل کی اب اس کے بعد فرماتے ہیں: ’’ واما الاجماع: فقد اجتمعت الامۃ علٰی نزولہ ولم یخالف فیہ احد من اہل الشریعۃ وانما انکر ذلک الفلاسفۃ والملاحدۃ ممن لا یعتد بخلافہ وقد انعقد اجماع الامۃ علی انہ ینزل ویحکم بہذہ الشریعۃ المحمدیۃ ولیس ینزل بشریعۃ مستقلۃ عند نزولہ من السماء وان کانت النبوۃ قائمۃ بہ وہو متصف بہا ‘‘ یعنی رہا اجماع سو تمام امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجماع ہوگیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ضرور نازل ہوں گے اور اہل اسلام میں سے اس کا کوئی مخالف نہیں۔ صرف فلاسفہ اور ملحد اور بے دین لوگوں نے اس کا انکار کیا ہے جن کا اختلاف قابل اعتبار نہیں اور نیز تمام امت کا اجماع اس پر ہوا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہونے کے بعد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے موافق حکم کریں گے۔ مستقل شریعت لے کر آسمان سے نازل نہ ہوں گے۔ اگرچہ وصف نبوت ان کے ساتھ قائم ہوگا۔ (شرح عقیدہ سفارینیہ ج۲ ص۹۰)
۸… علامہ طبری تفسیر (جامع البیان ج۳ ص۲۹۱) پر ہے: ’’ لتواتر الاخبار عن رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال ینزل عیسٰی بن مریم فیقتل الدجال ‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تواتر کے ساتھ احادیث ہیں کہ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نازل ہوکر دجال کو قتل کریں گے۔
۹… علامہ محمود آلوسی اپنی تفسیر (روح المعانی پارہ:۲۲، زیر آیت: خاتم النّبیین ص۳۲) پر فرماتے ہیں: ’’ واجمعت الامۃ علیہ وأشتہرت فیہ الاخبار ولعلہا بلغت مبلغ التواتر المعنوی ونطق بہ الکتاب علٰی قول ووجب البیان بہ واکفر منکرہ کا لفلاسفۃ من نزول عیسٰی علیہ السلام ‘‘ نزول عیسیٰ علیہ السلام پر امت کا اجماع ہے۔ اس کی احادیث حد شہرت کو پہنچ گئی ہیں شاید تواتر معنوی کا درجہ ان کو حاصل ہے۔ اس قول پر کتاب اﷲ گواہ ہے۔ اس پر ایمان لانا واجب ہے۔ اس کا منکر کافر ہے۔ جیسے فلاسفہ (یا آج کل کے قادیانی)
۱۰… علامہ ابن کثیر اپنی تفسیر (ابن کثیر زیر آیت: وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ) میں فرماتے ہیں: ’’ وانہ باق حیی وانہ سینزل قبل یوم القیامۃ کما دلّت علیہ الاحادیث المتواترۃ ‘‘ عیسیٰ علیہ السلام ابھی زندہ موجود ہیں۔ وہ قیامت سے قبل نازل ہوں گے۔ اس پر احادیث متواترہ دلالت کرتی ہیں۔ حافظ ابن کثیر اپنی تفسیر سورۃ زحرف ’’ وانہ لعلم الساعۃ ‘‘ کے تحت لکھتے ہیں کہ: ’’ وَقَدْ تَوَاتَرَتَ الْحَدِیْثَ عَنْ رَسُوْلَ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم انہ اخبر بنزول عیسٰی علیہ السلام قبل یوم القیامۃ اماما عادلاً وحکمًا مقسطًا ‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر احادیث مذکور ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسیٰ علیہ السلام کے قیامت سے قبل نزول کی خبر دی کہ وہ امام عادل اور منصف حکمران بن کر تشریف لائیں گے۔
۱۱… ’’ وقد تواترت الاحادیث بنزول عیسٰی جسما اوضح ذلک الشوکانی فی مؤلف مستقل یتضمن ذکرا اورد فی المہدی المنتظر والدجال والمسیح وعزہ فی غیرہ وصححہ الطبری ہذا القول واورد بذلک الاحادیث المتواترۃ (فتح البیان ج۲ ص۳۴۴) ‘‘ عیسیٰ علیہ السلام کے جسماً نازل ہونے میں احادیث متواترہ وارد ہیں۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک مستقل رسالہ میں جو مہدی موعود اور دجال ومسیح کے بارے میں ہے واضح کیا ہے اور اس کے غیر میں بھی اس کو بیان کیا ہے اور اس قول کی طبری نے تصحیح کی اور اس کے بارے میں احادیث متواترہ وارد ہیں۔
۱۲… ’’ فتفرد ان الاحادیث الواردۃ فی المہدی المنتظر متواترۃ والاحادیث الواردۃ فی نزول عیسٰی علیہ السلام بن مریم متواترۃ انتہی کلام الشوکانی واما الاجماع فقال السفارینی فی اللوامع قد اجتمعت الامۃ علی نزولہ ولم یخالف فیہ احد من اہل الشریعۃ وانما انکر ذٰلک الفلاسفۃ والملاحدۃ ممن لا یعتد بخلافہ وقد انعقد اجماع الامۃ علی انہ ینزل ویحکم بہذہ الشریعۃ المحمدیۃ ولیس ینزل بشریعۃ مستقلۃ عند نزولہ من السمآء وان کانت النبوۃ قائمۃ بہ وہو متصف بہا (کتاب الاذاعہ ص۷۷) ‘‘
پس ثابت ہوچکا کہ وہ احادیث جو مہدی موعود کے بارے میں وارد ہیں متواتر ہیں اور وہ احادیث جو نزول عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے بارے میں وارد ہیں انتہی کلام الشوکانی، لیکن اجماع پس سفارینی نے لوامع میں فرمایا کہ نزول عیسیٰ علیہ السلام پر امت کا اجماع ہے کسی نے اہل شریعت یں سے اس میں خلاف نہیں کیا۔ بس صرف فلاسفہ اور ملاحدہ نے انکار کیا ہے۔ جن کے خلاف کا کچھ اعتبار نہیں اور تحقیق امت کا اجماع منعقد ہوا کہ وہ نازل ہوں گے اور شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حکم کریں گے اور آسمان سے نزول کے زمانہ میں شریعت مستقل لے کر نازل نہ ہوں گے۔ اگرچہ نبوۃ ان کے ساتھ قائم ہے اور وہ نبوۃ کے ساتھ متصف ہوں گے۔
۱۳… علامہ زمخشری امام المعتزلیین (تفسیر کشاف ج۳ ص۵۴۴،۵۴۵) میں لکھتے ہیں: ’’ فان قلت کیف کان اٰخر الانبیآء وعیسٰی علیہ السلام ینزل فی اٰخرالزمان قلت معنی کونہ اٰخر الانبیآء انہ لا ینبأ احد بعدہ وعیسٰی ممن نبی قبلہ ‘‘ اگر تو کہے کہ حضور علیہ السلام آخر الانبیاء کیسے ہوئے حالانکہ عیسیٰ علیہ السلام آخرزمانہ میں نازل ہوں گے؟ میں کہوں گا کہ آخرالانبیاء ہونے کے معنی یہ ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں بنایا جائے گا، اور عیسیٰ علیہ السلام ان نبیوں میں سے ہیں جن کو نبوۃ پہلے مل چکی ہے۔ معلوم ہوا کہ معتزلہ بھی اس عقیدہ میں خلاف نہیں ہیں جیسا کہ عقیدہ سفارینی میں مذکور ہے۔ صرف ملاحدہ اور متفلسفہ خلاف ہیں اور بعض علماء نے جو لکھا ہے کہ معتزلہ اس کے خلاف ہیں وہ وہی معتزلہ ہیں جو فلسفی العقیدہ ہوکر ملاحدہ میں جا ملے یہ بالکل لَا یُعْبَأُبِہٖ ہیں۔ اجماع میں ان کے خلاف سے کچھ خلل لازم نہیں آتا۔
 
Top