ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
’’ چونکہ وہ بروزمحمدی جو قدیم سے موعود تھا۔ وہ میں ہوں۔ اس لئے بروزی رنگ کی نبوت مجھے عطا کی گئی اور اس نبوت کے مقابل پر اب تمام دنیا بے دست وپا ہے۔ کیونکہ نبوت پر مہر ہے ایک بروزمحمدی جمیع کمالات محمدیہ کے ساتھ آخری زمانہ کے لئے مقدر تھا۔ سووہ ظاہر ہوگیا اب بجز اس کھڑکی کے اورکوئی کھڑکی نبوت کے چشمہ سے پانی لینے کے لئے باقی نہیں ۔‘‘
(۳)… حقیقت النبوۃ ص ۱۳۸ پر مرزا محمود قادیانی نے لکھا کہ:
’’ اس لئے ہم اس امت میں صرف ایک ہی نبی کے قائل ہیں۔۔۔ ۔۔۔ پس ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اس وقت تک اس امت میں کوئی اور شخص نبی نہیں گزرا۔‘‘
(۴)… مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی کتاب کشتی نوح ص ۵۶‘ روحانی خزائن ص۶۱ ج ۱۹ پر لکھا ہے:
’’ ہلاک ہوگئے وہ جنہوں نے ایک برگزیدہ رسول کو قبول نہ کیا۔ مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا۔ میں خدا کی سب راہوں سے آخری راہ ہوں۔ اور میں اس کے نوروںمیں سے آخری نور ہوں۔ بدقسمت ہے جو مجھے چھوڑتا ہے۔ کیونکہ میرے بغیرسب تاریکی ہے۔‘‘
(۵)… مرزا قادیانی نے اپنی کتاب خطبہ الہامیہ ص ۱۱۲ خزائن ص ۱۷۸ ج ۱۶ پر لکھا ہے : ’’فارادﷲ ان یتم البناء ویکمل البناء باللبنۃ الا خیرۃ فانا تلک اللبنۃ۰‘‘
{پھر اﷲ نے چاہا کہ نبوت کی عمارت کو آخری اینٹ سے مکمل کرے وہ آخری اینٹ میں ہوں۔}
(۶)… مرزا قادیانی نے اپنی کتاب چشمہ معرفت ص ۳۱۸ خزائن ص ۳۳۳ ج ۱۸ پر لکھا ہے:
’’ مسیح موعود کے کئی نام ہیں۔ منجملہ ان کے ایک نام خاتم الخلفاء ہے یعنی ایسا خلیفہ جو سب سے آخر آنے والا ہے۔‘‘
قادیانی عقیدہ کے مطابق مرزا قادیانی مسیح موعود ہے تو وہ آخری ہوا۔
(۷)… اس اقتباس میں ’’ ایک بروز محمدیﷺ‘‘ کا جملہ زیر نظر رکھئے اور ان تمام اقتباسات کا ملخص عبارت ذیل میں ملاحظہ فرمایئے :
’’ امت محمدیہ ﷺ میں ایک سے زیادہ نبی کسی صورت میں بھی نہیں آسکتے۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ نے اپنی امت سے صرف ایک نبی اﷲ کے آنے کی خبر دی ہے جو مسیح موعود ہے اور اس کے سوا قطعا کسی کا نام نبی اﷲ یا رسول اﷲ نہیں رکھا جائے گا اور نہ کسی اور نبی کے آنے کی خبر آپ ﷺ نے دی ہے۔ بلکہ لانبی بعدی فرماکر اوروں کی نفی کردی اور کھول کر بیان فرمادیا کہ مسیح موعود کے سوا میرے بعد قطعا کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا۔‘‘ (رسالہ تشحیذ الاذہان قادیان ماہ مارچ ۱۹۱۴ئ)
ان اقتباسات کا ماحصل یہ ہے کہ مرزا قادیانی اپنے آپ کو آخری نبی قرار دیتا ہے۔گویا مرزا قادیانی خاتم النبیین ہے۔(معاذاﷲ)
ان حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ مرزائیوں کے نزدیک مرزا غلام احمد قادیانی پر نبوت ختم ہے۔ کیا قادیانی اس موقف کی صداقت کے لئے کوئی ایک آیت یا ایک حدیث پیش کرسکتے ہیں؟۔ قیامت آسکتی ہے قادیانی اس چیلنج کو قبول نہیں کرسکتے۔
قادیانی گفتگو میں عموما مطلق اجرائے نبوت کے لئے آیات واحادیث میں تحریف کرکے ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ نبوت جاری ہے۔حالانکہ قادیانیوں کے نزدیک ایک خاص قسم کی نبوت (وہ بھی بقول ان کے حضورﷺ کے بعد شروع ہوئی) جاری ہے۔ جب دعویٰ خاص ہے تو دلیل خاص ہونی چاہئیے۔ دعویٰ خاص قسم کاہو اور دلیل عام ہو تویہ اصول مناظرہ کے تحت دلیل ہی نہیں بنتی۔ اس لئے کہ دعویٰ ودلیل میں مطابقت ضروری ہے۔ ذیل میں قادیانیوں کے خاص دعویٰ کے حوالہ جات ملاحظہ ہوں:
(۱)… ’’ میں نبیوں کی تین اقسام مانتا ہوں۔ ایک جو شریعت والے ہوں۔ دوسرے جو شریعت تو نہیں لاتے لیکن ان کو نبوت بلاواسطہ ملتی ہے ۔ اور کام وہ پہلی امتوں کا ہی کرتے ہیں۔ جیسے سلیمان وزکریااور یحییٰ علیہم السلام ۔ اور تیسرے وہ جو نہ شریعت لاتے ہیں اور نہ ان کو بلاواسطہ نبوت ملتی ہے۔ لیکن وہ پہلے نبی کی اتباع سے نبی ہوتے ہیں۔ ‘‘ (قول فیصل‘ مرزا بشیر الدین محمود ص ۱۴)
(۲)… ’’اس جگہ یاد رہے کہ نبوت مختلف نوع پر ہے اور آج تک نبوت تین قسم پر ظاہر ہوچکی ہے۔ نمبر۱: تشریعی نبوت ‘ ایسی نبوت کو مسیح موعود نے حقیقی نبوت سے پکارا ہے۔ نمبر۲: وہ نبوت جس کے لئے تشریعی یا حقیقی ہونا ضروری نہیں ہے۔ ایسی نبوت حضرت مسیح موعود کی اصطلاح میں مستقل نبوت ہے۔ نمبر۳: ظلی اور امتی نبی ہے۔ حضور ﷺ کی آمد سے مستقل اور حقیقی نبوتوں کا در وازہ بند کیا گیا اور ظلی نبوت کا دروازہ کھولا گیا۔‘‘(مسئلہ کفر واسلام کی حقیقت ‘ مرزا بشیر احمد ایم اے ص ۳۱ ‘ کلمۃ الفصل ص ۱۱۹)
(۳)… ’’ انبیاء علیہم السلام دو قسم کے ہوتے ہیں۔ نمبر۱: تشریعی۔ نمبر۲: غیر تشریعی۔ پھر غیر تشریعی بھی دو قسم کے ہوتے ہیں۔ نمبر۱: براہ راست نبوت پانے والے۔ نمبر۲: نبی تشریعی کی اتباع سے نبوت کے حاصل کرنے والے۔۔۔۔۔ آنحضرت ﷺ کے پیش تر صرف پہلی دو قسم کے نبی آتے تھے۔‘‘(مباحثہ روالپنڈی ص ۱۷۵)
ان حوالہ جات سے قادیانیوں کا یہ دعویٰ واضح ہوگیا کہ ان کے نزدیک نبوت کی تین قسمیں ہیں۔ جن میںسے دو بند ہیں اور ایک خاص قسم یعنی ظلی بروزی نبوت جو آنحضرت ﷺ کی اتباع سے حاصل ہوتی ہے جاری ہے۔ نیز یہ خاص قسم نبی کریم ﷺ سے پہلے نہیں پائی جاتی تھی۔ آپ ﷺ کے بعد ظہور میں آئی اور یہ وہبی نہیں بلکہ کسبی ہے ۔ کیونکہ اس میں اتباع کا دخل ہے۔ تو گویا دعویٰ کے تین جز ہوئے۔ …الف: …ظلی بروزی نبوت۔…ب:… آنحضرتﷺکے بعد جاری ہوئی ۔…ج:… یہ کسبی ہے وہبی نہیں۔ اب تینوں اجزاء کی تنقیح کے بعدموضوع ہذا پر گفتگو کرتے وقت یہ دیکھنا چاہئیے کہ مرزائی اپنے عقیدہ کے ثبوت میں جو دلیل پیش کریں وہ ان کے دعویٰ خاص سے مطابقت رکھتی ہے یا نہیں؟ اگر نہ رکھیں تو بالکل ان پر بحث نہ کی جائے۔ مثلا ایسی دلیل اگر پیش کی جائے جس میں ظلی بروزی وہبی کسبی۔ اسی طرح آنحضرت ﷺ کے بعد یا پہلے ہونے کا ذکر نہ کیا گیا تو اس جانب التفات نہ کیا جائے۔ بلکہ اسے رد کردیا جائے۔
(۳)…ظلی اور بروزی
قادیانی ‘ مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت کے لئے ظلی اور بروزی کی اصطلاح استعمال کرکے مسلمانوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ ان الفاظ کی آڑ میں بھی وہ دراصل رحمت دو عالم ﷺ کی ذات اقدس کی توہین کے مرتکب ہوتے ہیں۔ چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی کتاب کشتی نوح ص ۱۵ خزائن ص ۱۶ج۱۹ پر لکھا ہے:
’’خدا ایک اور محمد ﷺ اس کا نبی ہے۔ اور وہ خاتم الانبیاء ہے اور سب سے بڑھ کر ہے۔ اب بعد اس کے کوئی نبی نہیں مگر وہی جس پر بروزی طور پر محمدیت کی چادر پہنائی گئی۔۔۔۔ جیسا کہ تم جب آئینہ میں اپنی شکل دیکھو تو تم دو نہیں ہوسکتے۔ بلکہ ایک ہی ہوا اگرچہ بظاہر دو نظر آتے ہیں۔ صرف ظل اور اصل کا فرق ہے۔‘‘
قارئین محترم! مرزا غلام احمد قادیانی کا کفریہاں ننگا ناچ رہا ہے۔ اس کا کہنا کہ میں ظلی بروزی ہوں۔ کیا معنی؟ کہ جب آئینہ میں حضور ﷺ کی شکل دیکھنا چاہو تو وہ غلام احمد ہے۔ دونوں ایک ہیں۔ قطع نظر اس خبث وبدطینتی کے مجھے یہاں صرف یہ عرض کرنا ہے کہ ظلی و بروزی کہہ کرمرزا غلام احمد قادیانی کی جھوٹی نبوت کو قادیانی جو فریب کا چولا پہناتے ہیں۔ وہ اصولی طور پر غلط ہے۔ اس لئے کہ :
(۱)… سرمہ چشم آریہ ص۲۷۱ ‘۲۷۲ حاشیہ روحانی خزائن ص ۲۲۴ ج۲
’’نقطہ ٔمحمدیہ ۔۔۔۔ ایسا ہی ظل الوہیت ہونے کی وجہ سے مرتبہ الہیہ سے اس کو ایسی مشابہت ہے جیسے آئینہ کے عکس کو اپنی اصل سے ہوتی ہے۔ اور امہات صفات الہیہ یعنی حیات‘ علم‘ ارادہ‘ قدرت‘ سمع‘ بصر‘ کلام مع اپنے جمیع فروع کے اتم اور اکمل طور پر اس (آنحضرت ﷺ ) میںانعکاس پذیر ہیں۔‘‘
(۲)… ایام الصلح ص ۳۹ روحانی خزائن ص ۲۶۵ ج۱۴
’’ حضرت عمر کا وجود ظلی طور پر گویا آنجناب ﷺ کا وجود ہی تھا۔‘‘
(۳)… شہادت القرآن ص ۵۷روحانی خزائن ص ۳۵۳ج۶
’’ خلیفہ درحقیقت رسول کا ظل ہوتا ہے۔‘‘
کیا اب کسی قادیانی کی ہمت ہے کہ وہ کہہ دے کہ آنحضرت ﷺ خدا ہیں۔ اور حضرت عمر ؓ اور خلفاء نبی اور رسول ہیں۔ نعوذباﷲ
مثلا بقول مرزا قادیانی آنحضرت ﷺ ظلی خدا ہوکر صحیح اور حقیقی اور سچے اور واقعی خدا بن جائیں گے ؟ یا محمود قادیانی کے باپ مرزا قادیانی کے اقرار سے خلفاء آنحضرت ﷺ کے ظل ہوتے ہیں اور صحابہ کرام ؓ میں بھی حضرت عمر ؓ آنحضرت ﷺ کے ظل ہیں۔ تو کیا خلفاء اور حضرت عمر ؓ بھی ظلی نبی ہوکر واقعی اور سچے اور صحیح اور حقیقی نبی قرار پائیں گے؟۔ اس کا جواب یقینا نفی میں ہوگا تو مرزا قادیانی بزعم خود اگر ظلی نبی خاکم بدہن ثابت بھی ہوجائے تو پھر بھی وہ سچا اور حقیقی اور واقعی اور صحیح نبی نہیں ہوگا۔ بلکہ محض نقلی نبی ہی ہوگا۔
(۴)… حدیث شریف میں ہے:
’’ السلطان (المسلم) ظل اﷲ فی الارض۰‘‘
کیا سلطان خدا بن جاتا ہے یا اس کا وجود خدا کا وجود بن جاتا ہے۔ غرض ظلی وبروزی خالص قادیانی ڈھکوسلہ ہے۔
(۴)… امکان کی بحث
اکثر اوقات مرزائی امکان نبوت کی بحث چھیڑ دیتے ہیں۔ یہاں امکان کی بحث نہیں ہے۔ وقوع کی بحث ہے اگر وہ امکان کی بحث چھیڑیں تو تریاق القلوب کی درج ذیل عبارت پیش کریں۔
’’ مثلا ایک شخص جو قوم کا چوہڑا یعنی بھنگی ہے اور ایک گائوں کے شریف مسلمانوں کی تیس چالیس سال سے یہ خدمت کرتا ہے کہ دو وقت ان کے گھروں کی گندی نالیوں کو صاف کرنے آتا ہے۔ اور ان کے پاخانوں کی نجاست اٹھاتا ہے اور ایک دو دفعہ چوری میں پکڑا گیا ور چند دفعہ زنا میں بھی گرفتار ہوکر اس کی رسوائی ہوچکی ہے اور چند سال جیل خانہ میں قید بھی رہ چکا ہے اور چند دفعہ ایسے برے کاموں پر گائوں کے نمبرداروں نے اس کو جوتے بھی مارے ہیں اور اس کی ماں اور دادیاں اورنانیاں ہمیشہ سے ایسے ہی نجس کام میں مشغول رہی ہیں اور سب مردار کھاتے ہیں اور گوہ اٹھاتے ہیں۔ اب خدا تعالیٰ کی قدرت پر خیال کرکے ممکن تو ہے کہ وہ اپنے کاموں سے تائب ہوکر مسلمان ہوجائے اور پھر یہ بھی ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کا ایسا فضل اس پر ہو کہ وہ رسول اور نبی بھی بن جائے اور اسی گائوں کے شریف لوگوں کی طرف دعوت کا پیغام لے
کر آوے اور کہے کہ جو شخص تم میں سے میری اطاعت نہیں کرے گا خدا اسے جہنم میں ڈالے گا۔ لیکن باوجود اس امکان کے جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے کبھی ایسا نہیں ہوا۔‘‘(تریاق القلوب ص ۱۳۳‘ روحانی خزائن ص ۲۸۰ ج ۱۵)
جب یہ عبارت پڑھیں تو ساری پڑھ دیں کیونکہ عموما تھوڑی سی عبارت پڑھنے کے بعد قادیانی کہتے ہیں کہ آگے پڑھو اور مجمع پربرا اثر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں پر یہ واقعہ بھی ملحوظ خاطر رہے کہ جب حضرت ابو سفیان ؓ زمانہ جاہلیت میں تجارتی سفر پر روم گئے تھے اور قیصر روم نے انہیں اپنے دربار میں بلاکر سوال پوچھے تھے جن میں سے ایک سوال حضور ﷺ کے خاندان کے بارے میں تھا۔ جس کا انہوں نے جواب دیا تھا کہ وہ ایک بلند مرتبہ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔اور قیصر روم کا اس پر تبصرہ یہ تھا کہ انبیاء عالی نسب قوموں سے ہی مبعوث کیے جاتے ہیں۔‘‘(صحیح بخاری ص ۴ ج ۱)
نبی عالی نسب ہوتا ہے۔ یہ ایسا امر ہے جس پر کافروں کو بھی اتفاق تھا۔ مگر غلام احمد قادیانی ایسا بدتر ین کافر تھا کہ وہ اپنے جیسے ہر ذلیل وکمینہ وبدکار کے لئے نبوت کی گنجائش پیدا کررہا ہے۔ دراصل وہ اپنے ذلیل خاندان کے لئے منصب نبوت کی گنجائش نکالنے کے چکر میں ہے۔
آیت خاتم النبیین پر قادیانی اعتراضات کے جوابات
اعتراض نمبر۱:خاتم النبیین کا معنی نبیوں پر مہر
قادیانی : ’’اﷲ جل شانہ آنحضرت ﷺ کو صاحب خاتم بنایا۔ یعنی آپ ﷺ کو افاضئہ کمال کے لئے مہر دی جو کسی اور نبی کو ہر گز نہیں دی گئی۔ اسی وجہ سے آپ ﷺ کا نام خاتم النبیین ٹھہرا۔ یعنی آپ ﷺ کی پیروی کمالات نبوت بخشتیہے۔اور آپ ﷺ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے۔‘‘(حقیقت الوحی ص ۹۷ حاشیہ روحانی خزائن ص ۱۰۰ ج۲۲)
جواب ۱: مرزا قادیانی کا یہ معنی اس کے دجل وکذب کا شاہکار ہے۔ جو قرآن وسنت ‘ قواعد عربیت لغت کے سراسر خلاف ہے۔ قادیانیوں میں غیرت وحمیت نام کی کوئی چیز ہے تو لغت عرب سے ایک مثال بتادیں۔ کہ خاتم النبیین کا معنی آپ کی مہر سے نبی بنتے ہیں۔ کلام عرب سے ایک نظیر ہی پیش کردیں۔ کیا خاتم القوم کا معنی کہ اس کی مہر سے قوم بنتی ہے ؟۔ خاتم اولاد کا معنی اس کی مہر سے اولاد بنتی ہے؟۔
ختم اﷲ علیٰ قلوبھم
کا معنی بالکل مہمل ہوں گے۔ غرض جو معنی مرزا قادیانی نے اپنی نبوت کو سیدھا کرنے کی دھن میں کئے ہیں عرب میں ہر گز ہرگز مستعمل نہیں۔ مرزا قادیانی کو وسوسہ شیطان ہوگیا ہے اور بس۔
لیجئے تفسیر ابن جریر ص ۱۱ ج ۲۲ میں حضرت قتادہ ؓسے خاتم النبیین کی یہ تفسیر منقول ہے: ’’ عن قتادہ ؓولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین ای آخرھم۰‘‘
جواب۲ :مرزا نے حقیقت الوحی ص ۳۹۱ خزائن ص ۴۰۶ ج۲۲ پر لکھا ہے کہ نبوت کا نام پانے کے لئے میں مخصوص کیا گیا ہوں۔ اور چودہ سو سال میں نبی اور کوئی نہیں بنا۔(ملخص) اگر خاتم النبیین کا یہ معنی ہے کہ آپ ﷺ کی مہر سے نبی بنتے ہیں ۔تو کسی کے نبی بننے سے مہر کے ٹوٹنے کا کیوں خطرہ ہے؟۔ بلکہ پھر تو جتنے زیادہ انبیاء ہوںگے اس مہر کا کمال ظاہر ہونا چاہئیے نہ یہ کہ مہر ٹوٹنے کے خطرہ کی وجہ سے صرف ایک مرزا صاحب نبی ہوں اور وہ بھی ظلی۔
اعتراض نمبر۲: پہلوں کے لئے خاتم
قادیانی :خاتم النبیین کا معنی آخر النبیین ہے۔ لیکن آپ ﷺ پہلوں کے لئے آخری ہیں۔
جواب:اگر یہ معنی ہو کہ اپنے سے پہلوں کے لئے خاتم تو ہر نبی آدم علیہ السلام کے علاوہ اپنے سے پہلے انبیاء کا خاتم اور آخر ہے۔ تو خاتم النبیین حضور ﷺ کا وصف مخصوص نہ رہا۔ حالانکہ حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ مجھے چھ چیزوں کے ساتھ تمام انبیاء علیہم السلام پر فضیلت دی گئی ۔ ان میں ایک یہ ہے:
’’ ارسلت الی الخلق کافۃ وختم بی البنییون۰‘‘
آپﷺ کی وصف اور خاصہ ہے:
’’ خاصۃ الشیٔ یوجد فیہ ولا یوجد فی غیرہ۰‘‘
کے تحت قادیانی موقف صحیح مان لیا جائے تو پھر ختم نبوت‘ خاتم النبیین کا وصف یا خصوصیت نہ رہے گی۔
اعتراض نمبر۳: الف لام عہد کا
قادیانی :خاتم النبیین کا معنی آخرالنبیین ہے۔ لیکن اس میں الف لام عہد کا ہے نہ استغراق کا۔ معنی یہ کہ آپ ﷺ انبیاء شریعت جدیدہ کے خاتم ہیں‘ نہ کل نبیوں کے۔
جواب۱:اگر الف لام عہد کا ہوتا تو معہود(کلام) میں مذکور ہونا چاہئیے تھا۔اور کلام سابق میں خاص انبیاء تشریعی کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ بلکہ اگر ذکر آیا ہے تومطلق انبیاء کاجو اس امرکی دلیل ہے کہ تمام انبیاء کے آپﷺخاتم ہیں۔
جواب۲: جبکہ لانبی بعدی کے معنی بقول شما مسیلمہ کذاب وغیرہ مخالفین سے نبوت کی نفی ہے۔ مسلمانوں سے نہیں تو پھر تشریعی اور غیر تشریعی شرط کے کیا معنی ؟ کیا مخالفین یعنی مسیلمہ کذاب وغیرہ کے گروہ میں غیر تشریعی نبی کا امکان ہے؟۔ تو پھر مرزا صاحب ایسا ہی دعویٰ کرتے تھے۔ (ملاحظہ ہو تجلیات الہیہ ص ۲۵ روحانی خزائن ص ۴۱۲ج ۲۰)
قادیانیو ! غور کرو تمہاری بددیانتی تمہیں کہاں کہاں دھکے دلوارہی ہے؟۔ ہاں جناب جب صرف شریعت والے انبیاء کی نفی ہے اور مرزا صاحب نے جو کہا ہے کہ وہ ’’ لا نفی عام ہے‘‘ یہ جھوٹ اور افترا ہے ‘ تو پھر آنحضرتﷺ کی فضیلت کیا ہوئی؟۔ اور آپ ﷺ بقول شماآئندہ کے نہ سہی۔ سابقہ انبیاء جن میں ’’صد ہا ‘‘ بغیر کتاب کے تھے۔ ان کے خاتم کیسے ہوئے؟۔ صاحبان ! انصاف فرمائیے کہ جب آپ ﷺ بغیر شریعت والے نبیوں کے خاتم ہی نہیں ہیں تو پھر مرزائیوں کا یہ کہنا کہ آنحضرت ﷺ پہلے سب نبیوں کے خاتم تھے۔ (مفہوم پاکٹ بک ص ۵۴۱) کیا معنی رکھتا ہے۔ الغرض یہ عذر باطل ہے۔
جواب ۳:’’ خدا نے اپنی تمام نبوتوں اورر سالتوں کو قرآن شریف اور آنحضرت ﷺ پر ختم کردیا ۔‘‘(اخبار الحکم اگست ۱۸۹۹)کا کیا مفہوم ہے؟۔ تمام نبوتوں میں تشریعی وغیر تشریعی شامل نہیں؟۔
جواب ۴:مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے : ’’ ہست اوخیرالرسل خیر الانام ۰ ہر نبوت رابروشد اختتام۰ درثمین فارسی ص ۱۱۴‘سراج منیر ص۹۵‘ روحانی خزائن ص ۹۷‘ ج۱۲‘‘
قادیانی دنیا میں اگر انصاف نام کی کوئی چیز ہے تو خود غور کریں کہ ہر نبوت رابروشد اختتام میں تشریعی ‘غیر تشریعی کیا سب شامل نہیں؟۔
اعتراض نمبر۴: استغراق عرفی
قادیانی :خاتم النبیین میں الف لام استغراق عرفی کے لئے ہے۔ استغراق حقیقی کے لئے نہیں۔ جیسا کہ
’’ ویقتلون النبیین ‘‘
میں استغراق عرفی ہے۔ حقیقی نہیں۔
جواب : پہلے تو استغراق حقیقی اور عرفی کی تعریف دیکھیں کیا ہے؟ الف لام استغراق حقیقی‘ اصطلاح میں اس کو کہا جاتا ہے کہ وہ جس لفظ پر داخل ہو اس کے تمام افراد بے کم وکاست مراد ہوں۔ مثلا عالم الغیب میں لفظ غیب جس پر الف لام داخل ہے اس سے اس کے تمام افراد مراد ہیں۔ یعنی عالم تمام غائبات کا ‘ اور استغراق عرفی میں تمام افراد نہیں ہوتے۔ جیسے ’’جمع الا میرالصاغتہ ‘‘ یعنی بادشاہ نے سناروں کو جمع کیا۔ پس صاغہ جس پر الف لام داخل ہے اس کے تمام افراد مراد نہیں بلکہ اپنے شہر کے یعنی اپنے شہر یا قلمرو کے سناروں کو جمع کیا۔ بااتفاق علماء عربیت واصول استغراق عرفی اس وقت مراد ہوتا ہے جب استغراق حقیقی نہ بن سکتا ہو۔ یا عرفا اس کے تمام افراد مراد نہ لیے جاسکتے ہوں اور یہاں استغراق حقیقی متعین ہے۔ خاتم النبیین میں جب قرائن ودلائل سے استغراق حقیقی مراد لیا جاسکتا ہے تو استغراق عرفی مراد لینا جائز نہ ہوگا۔ خاتم النبیین کے بلا تکلف استغراق حقیقی کے ساتھ یہ معنی صحیح ہیں کہ آپ ﷺ تمام انبیاء کے ختم کرنے والے ہیں۔ پھر کیا وجہ
ہے کہ استغراق حقیقی کو چھوڑ کر بلا دلیل وقرینہ اور بلا وجہ استغراق عرفی کی طرف جائیں اور مطلق نبیین کو صرف انبیاء تشریعی کے ساتھ مقید کردیں؟۔
باقی رہا مسئلہ آیت کریمہ
’’ویقتلون النبیین ‘‘
کو اپنے دعوے کی شہادت میں پیش کرنا اگر اس جگہ لام کو استغراق عرفی کے لئے تسلیم بھی کرلیا جائے تب بھی ہم عرض کرچکے ہیں کہ جب استغراق حقیقی نہیں بن سکتا تو پھر استغراق عرفی کی طرف جاتے ہیں۔ اور اس آیت میں بالکل کھلی ہوئی بات ہے کہ یقتلون النبیین کا الف لام استغراق حقیقی کے لئے کسی طرح نہیں ہوسکتا۔ ورنہ آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ بنی اسرائیل تمام انبیاء علیہم السلام کو قتل کرتے تھے۔ حالانکہ یہ بات کسی طرح درست نہیں ہوسکتی۔ بلکہ بالکل کذب محض ہوگی ۔ کیونکہ اول تو بنی اسرائیل کے زمانہ میں تمام انبیاء موجود نہ تھے۔ بہت سے ان سے پہلے گزر چکے تھے اور بعض ابھی پیدا بھی نہ ہوئے تھے۔ پھر ان کا تمام انبیاء کو قتل کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟۔
دوم یہ بھی ثابت نہیں کہ بنی اسرائیل نے اپنے زمانہ کے تمام انبیاء موجودین کو بلا استثناء قتل ہی کرڈالا ہو۔ بلکہ قرآن عزیز ناطق ہے:
’’ففریقا کذبتم وفریقا تقتلون ‘‘
جس نے صاف طور سے اعلان کردیا کہ بنی اسرائیل نے تما م انبیاء موجودین کو بھی قتل نہیں کیا۔ اس اعلان کے بعد بھی اگر ویقتلون النبیین کے الف لام کو استغراق حقیقی کے لئے رکھا جاوے تو جس طرح واقعات اور مشاہدات اس کی تکذیب کریں گے اسی طرح خود قرآن کریم اس کو غلط ٹھہرائے گا۔‘‘
آیت کریمہ
ویقتلون النبیین
میں اگر استغراق حقیقی مراد لیاجائے گا تو آیت کا مضمون (معاذاﷲ)بالکل کذب صریح اور غلط فاحش ہوجائے گا۔ جس کو مشاہدہ جھٹلا چکا ہے۔ پس اس آیت میں جب آفتاب کی طرح یہ بات روشن ہوگئی کہ استغراق حقیقی مراد نہیں ہوسکتا اس وقت استغراق عرفی قرار دیا گیا۔
بخلاف آیت خاتم النبیین کے کہ اس میں تخصیص کرنے کی کوئی وجہ نہیں اس کے معنی استغراق حقیقی لینا بلاتامل درست ہیں۔ یعنی تمام انبیاء علیہم السلام کے ختم کرنے والے اور اگر اسی طرح بے وجہ استغراق عرفی جہاں چاہیں مراد لے سکتے ہیں تو کیا ہمارے مہربان آیت کریمہ :
’’ولکن البر من آمن باﷲ والیوم الآ خر والملائکۃ والکتاب والنبیین۰ بقرہ ۱۷۷‘‘
{لیکن بڑی نیکی تو یہ ہے جو کوئی ایمان لائے اﷲ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر اور ملائکہ پر اور سب کتابوں پر اور پیغمبروں پر۔}
میں بھی یہی فرمائیں گے ؟ کہ النبیین کا الف لام استغراق عرفی کے لئے ہے۔ اور تمام انبیاء پر ایمان لانا ضروری نہیں۔ اور کیا آیت ذیل میں بھی ان کے خیال میں استغراق عرفی ہی ہوگا: ’’فبعث اﷲ النبیین مبشرین ومنذرین ۰ بقرہ ۲۱۳‘‘
{پھر یھیجے اﷲ نے پیغبر خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے۔}
اور کیا استغراق عرفی کے ساتھ آیت کے یہ معنی صحیح ہوجائیں گے کہ اﷲ تعالیٰ نے بعض انبیاء کو بشیر ونذیر بنایا اور بعض کو نہیں۔ اسی طرح آیت ذیل میں: ’’ ولا یامرکم ان تتخذوا الملائکۃ والنبیین اربابا۰ آل عمران ۸۰‘‘
{اور نہ یہ کہے تم کو کہ ٹھہرالو فرشتوں کو اور نبیوں کو رب۔}
کیا اس میں بھی استغراق عرفی کے ساتھ ہمارے مہربان آیت کا یہی مطلب بتلائیں گے کہ اﷲ تعالیٰ بعض انبیاء کے رب بنانے کا حکم نہیں کرتا اور بعض انبیاء کے متعلق اس کا حکم فرماتا ہے ۔ اور کیا یہ آیت کریمہ :
’’ مع الذین انعم اﷲ علیھم من النبیین۰‘‘
میں بھی ان کے خیال میں استغراق عرفی کے ساتھ بعض انبیاء مراد ہیں۔ اور آیت کریمہ :
’’ ووضع الکتاب وجییٔ باالنبیین والشھدائ‘‘
میں بھی کہا جائے گا کہ بعض نبیین مراد ہیں۔ اسی طرح آیت کریمہ :
’’ واذ اخذاﷲ میثاق النبیین۔۔۔۔۔۔ الایۃ‘‘
{اور جب کہ اﷲ تعالیٰ نے تمام انبیاء علیہم السلام سے عہد لیا ۔۔۔۔۔ تا ختم آیت۔} میں بھی کیا ہمارے مجتہدین صاحبان استغراق عرفی ہی قرار دے کر یہ معنی بتلائیں گے کہ اﷲ تعالیٰ نے بعض نبیین سے عہد لیا ؟اور کیا ان کے نزدیک :
’’ ولقد فضلنا بعض النبیین علیٰ بعض‘‘
میں بھی استغراق عرفی ہوسکتا ہے۔؟
الحاصل اگر اسی طرح ہر جگہ جہاں چاہیں استغراق عرفی مراد لینا جائز ہوتو کوئی وجہ نہیں کہ آیات مذکورۃ الصدر میں جائز نہ ہو۔ علاوہ بریں آیات ذیل کی امثال میں بھی استغراق عرفی کو جائز کہنا پڑے گا۔ ’’ الحمد ﷲ رب العالمین۰ غیر المغضوب علیھم ولاالضالین۰ ھدی اللمتقین۰ واﷲ محیط باالٰکفرین۰ اعدت للکافرین۰ انھا لکبیرۃ الا علی الخاشعین۰ وموعظۃ اللمتقین۰ واﷲ علیم باالظالمین۰ انہ لایفلح الظالمون۰ وھوارحم الراحمین۰ والیٰ غیر ذالک من الا یات التی ھی غنیۃ عن التعداد۰‘‘
اور ان کی دوسری نظائر جن سے قرآن مجید کی ہر ہر سطر بھری ہوئی ہے۔ سب میں استغراق عرفی کو جائز کہنا پڑے گا۔ حالانکہ جس شخص کو عربی عبارت پڑھنے کا تھوڑا سا سلیقہ ہے وہ کسی طرح ان جیسی آیات میں استغراق عرفی کو جائز نہیں کہہ سکتا۔
اور اگر آیات مذکورۃ الصدر اور ان کے امثال میں استغراق عرفی مراد نہیں لیا جاسکتا تو کوئی وجہ نہیں کہ خاتم النبیین میں استغراق عرفی مراد لیا جائے۔ یا للعجب ! سارا قرآن اول سے آخر تک خاتم النبیین کے نظائر سے بھرا ہوا ہے ان میں کوئی نظیر پیش نہ کی گئی اور کسی پر ان کو قیاس نہ کیا گیا ۔ قیاس کے لئے ملی تو آیت ’’ویقلتون النبیین۰‘‘جس میں بداہت اور مشاہدہ نے آفتاب کی طرح استغراق حقیقی کو غیر ممکن بنادیا ہے۔ اور پھرقرآن کریم نے اس کا اعلان صاف صاف لفظوں میں کردیا ہے۔
جواب۲ :سب سے زیادہ قابل غور بات یہ ہے کہ اگر ان سب امور سے قطع نظر کریں اور قواعد عربی سے بھی آنکھیں بند کرلیں اور آیت میں کسی طرح استغراق عرفی مراد لے لیں تو پھر آیت خاتم النبیین کے معنی ہوںگے۔ آنحضرت ﷺ تما م انبیاء کے خاتم نہیں ہیں۔ لیکن جس شخص کو خدا وند تعالیٰ نے سمجھ بوجھ سے کچھ حصہ دیا ہے وہ بلا تامل سمجھ سکتا ہے کہ اس صورت میں خاتم النبیین ہونا آنحضرت ﷺ کی کوئی خصوصی فضیلت نہیں رہتی۔ بلکہ آدم علیہ السلام کے بعد ہر نبی اپنے سے پہلے انبیاء کا خاتم ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے سے پہلے انبیاء کے لئے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے سے پہلے انبیاء کے لئے۔(اور اسی طرح سلسلہ بسلسلہ)
حالانکہ آیت مذکورہ کا سیاق بتلارہا ہے کہ خاتم النبیین ہونا آپ ﷺ کی مخصوص فضیلت ہے۔ علاوہ بریں خود آنحضرت ﷺنے ختم نبوت کو اپنے ان فضائل میں شمار فرمایا ہے جو آپ ﷺ کے ساتھ مخصوص ہیں اور آپ ﷺ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔ چنانچہ حدیث مسلم بروایت ابوہریرہ ؓ پہلے گزر چکی ہے۔ جس میں آ پ ﷺ نے اپنی چھ مخصوص فضلیتیں شمار کرتے ہوئے فرمایا ہے: ’’ وارسلت الی الخلق کافۃ ختم بی النبیون۰ رواہ مسلم‘‘
{اور منجملہ مخصوص فضائل کے یہ ہے کہ میں تمام مخلوقات کی طرف مبعوث ہوا ہوں۔ اور مجھ پر انبیاء ختم کردئیے گئے۔}
جواب۳ :اگر ان تمام چیزوں سے آنکھیںبند کرلیں اور اپنی دھن میں اس کا بھی خیال نہ کریں کہ آیت میں استغراق عرفی کے ساتھ بعض انبیاء یعنی اصحاب شریعت مراد لینے سے آیت کے معنی درست ہوں گے یا غلط۔ اور بفرض محال اس احتمال کو نافذ اور جائز قرار دیں۔ تب بھی مرزا قادیانی اور ان کے اذناب کا مقصد ’’ ہنوز دلی دوراست‘‘ کا مصداق ہے۔ کیونکہ ہم اوپر عرض کرچکے ہیں کہ قرآن مجید کی تفسیر محض احتمالات عقلیہ اور لغویہ سے نہیں ہوسکتی۔ جب تک کہ مذکورہ سابقہ اصول تفسیر سے اس کی صداقت پر شہادت نہ لے لی جائے۔
لیکن مرزا قادیانی اور ان کی ساری امت مل کر قرآن مجید کی کسی ایک آیت میںکیا یہ دکھلا سکتے ہیں (اور وہ ہرگز نہ دکھلاسکیں گے:
ولوکان بعضھم لبعض ظھیرا۰)
کہ آیت خاتم النبیین میں فقط انبیاء تشریعی یعنی اصحاب شریعت جدیدہ مراد ہیں؟۔
یا وہ اور ان کی تمام ذریت ‘ احادیث کے اتنے وسیع دفتر میں کسی ایک صحیح بلکہ ضعیف حدیث میںبھی آیت خاتم النبیین کی یہ تفسیر دکھلا سکتے ہیں کہ اس سے خاتم النبیین التشریعین مراد ہے۔ اور ہم بحول اﷲ وقوتہ دعویٰ سے کہتے ہیں کہ وہ قیامت تک ایک حدیث میں یہ تفسیر نہ دکھلاسکیں گے۔
کیا مرزا قادیانی اور ان کے تمام اذناب ‘ آثار صحابہ وتابعین کے وسیع ترمیدان میں سے کوئی ایک اثر اس تفسیر کے ثبوت میں پیش کرسکتے ہیں؟ نہیں اور ہر گز نہیں !
اور اگر یہ سب کچھ نہیں تو کم از کم آئمہ تفسیر کی مستند ومعتبر تفاسیر ہی میں سے کوئی تفسیر پیش کریں جس میں خاتم النبیین کی یہ مراد بیان کی گئی ہو۔ کہ ختم کرنے والے تشریعی انبیاء کے۔ مرزا قادیانی اور ان کی ساری امت ایڑی چوٹی کا زور لگاکر بھی قیامت تک اصول مذکورہ میں سے کسی ایک اصل کو بھی اپنی گھڑی ہوئی اور مخترع تفسیر (نہیں بلکہ تحریف) کی شہادت میں پیش نہ کرسکیں گے۔
اور جب یہ سب کچھ نہیں تو باوجود انقلاب زمانہ اور کثرت جہل ‘ میں اب بھی کوئی مسلمانوں پر یہ بدگمانی نہیں کرسکتا کہ وہ ایک ایسی بے معنی آواز کو قرآن مجید کی تفسیر سمجھ بیٹھیںگے جس کی کوئی اصل نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں‘ نہ اقوال صحابہ میں اس کا کوئی اثر ہے نہ اقوال تابعین میں‘ نہ آئمہ تفسیر اس کی موافقت کرتے ہیں۔ اور نہ کتب تفسیر بلکہ یہ سب کے سب ہم آہنگ ہوکر اس کی مخالفت کرتے ہیں۔
جو اب۴ :جب ہم علاوہ تفسیر اور اصول تفسیر کے خود اسی آیت کے سیاق وسباق پر نظر ڈالتے ہیں تو بلا تامل آیت بول آٹھتی ہے کہ خاتم النبیین میں نبیین سے عامۃ تمام انبیاء مراد ہیں جو صاحب شریعت جدیدہ ہوں یا شریعت سابقہ اور کتاب سابق کے متبع ‘ جمہور عربیت واصول کا مذہب یہی ہے کہ لفظ نبی عام ہے اور لفظ رسول خاص۔ یعنی رسول صرف اس نبی کو کہا جاتا ہے کہ جس پر شریعت مستقلہ نازل ہوئی ہو اور نبی اس سے عام ہے۔صاحب شریعت مستقلہ کو بھی نبی کہتے ہیں اور اس کو بھی جس پر شریعت مستقلہ نازل نہیں ہوئی۔ اس کا کام صرف یہ ہے کہ امت کو شریعت سابقہ پر چلائے اور اس کے خلاف جہاں کہیں استعمال ہے وہ بطور مجاز ہے ۔ اور ظاہر ہے کہ آیت میں آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیین کہا گیا ہے۔خاتم الرسل یا خاتم المرسلین نہیں فرمایا۔ کیونکہ اس سے پہلے آپ ﷺ کی نسبت لفظ رسول فرمایا گیا ہے:’’ ولکن رسول اﷲ‘‘ لفظ رسول کے ساتھ ظاہر ہے کہ خاتم المرسلین بہ نسبت خاتم النبیین کے زیادہ چسپاں ہے۔ مگر سبحان اﷲ! خدائے علیم وخبیر کا کلام ہے وہ جانتا ہے کہ امت میں وہ لوگ بھی پیدا ہوں گے جو آیت میں تحریف کریں گے۔ اس لئے یہ اسلوب بدل کر اس تحریف کا دروازہ بند کردیا ۔ چنانچہ امام المفسرین علامہ ابن کثیر ؒنے اس پر متنبہ فرمایا ہے: ’’وقولہ تعالیٰ ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین وکان اﷲ بکل شیٔ علیما۰ فھذہ الایۃ نص فی انہ لانبی بعدہ ‘فلا رسول باالطریق الاولی والاخریٰ لان مقام الرسالۃ اخص من مقام النبوۃ فان کل رسول نبی ولا ینعکس وبذالک ورد الا حادیث المتواترۃ عن رسول اﷲ ﷺ من حدیث جماعۃ من الصحابۃ۰ تفسیر ابن کثیر ص ۸۹ ج۸ ‘‘
{اور فرمان اﷲ تعالیٰ ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین وکان اﷲ بکل شیٔ علیما۰ پس یہ آیت اس بارہ میں صاف وصریح ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا اور جبکہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں‘ تو رسول بھی بدرجہ اولیٰ نہ ہوگا۔ اس لئے کہ مقام رسالت بہ نسبت مقام نبوت خاص ہے۔ کیونکہ ہر رسول کے لئے نبی ہونا شرط ہے اور نبی کے لئے رسول ہونا ضروری نہیں۔ اور اسی پروارد ہوئیں احادیث رسول اﷲ ﷺ جن کو صحابہ کرام ؓ کی ایک بڑی جماعت نے روایت کیا ہے۔}
اسی طرح سید محمود آلوسی ؒ نے اپنی تفسیر میں بیان فرمایا ہے: ’’والمراد بالنبی ماھو اعم من الرسول فیلزم من کونہ ﷺ خاتم النبیین خاتم المرسلین۰روح المعانی ص۶۰ج۸ ‘‘
{اور نبی سے وہ مراد ہے جو رسول سے عام ہے اور اس لئے آپ ﷺ کے خاتم النبیین ہونے سے خاتم المرسلین (یعنی اصحاب شریعت انبیاء کا خاتم )ہونا بھی لازم آتا ہے۔}
اور کلیات ابوالبقا میں ہے کہ آیت میں نفی نبوت ‘نفی رسالت کو بھی شامل ہے۔
اعتراض نمبر۵ :خاتم المحدیثن
قادیانی :کہتے ہیں کہ حضرت شاہ عبدالعزیز ؒکے لئے خاتم المحدیثن بعض حضرات کے لئے خاتم المفسرین کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں اور وہ سب مجازی معنوں میں مستعمل ہیں تو خاتم النبیین بھی مجاز پر محمول کیا جائے گا۔
جواب:خاتم المحدیثن ‘ خاتم المحققین ‘ خاتم المفسرین وغیرہ انسان کا کلام ہے۔ جس کو کل کی کچھ خبرنہیں کہ کل کیا ہونے والا ہے۔کتنے آدمی پیدا ہوں گے‘ کتنے مریں گے‘ کتنے عالم ہوں گے‘ کتنے جاہل ہوں گے‘ کتنے محدث ومفسر بنیں گے‘ اور کتنے آوارہ پھریں گے۔ اس لئے اس کو کوئی حق نہیں کہ وہ کسی کو خاتم المحدثین کہے۔ اگر کہیں کسی کے کلام میں ایسے الفاظ پائے جائیں تو سوائے اس کے چارہ نہیں کہ اسے مجاز یا مبالغہ پر محمول کیا جائے۔ ورنہ یہ کلام لغو اور بے معنی ہوجائے گا۔ لیکن کیا عالم الغیب ذات کے کلام کو بھی اس پر قیاس کیا جائے گا؟ جس کے علم محیط سے کوئی چیز باہر نہیں اور جو اپنے علم واختیار کے ساتھ انبیاء کرام کو مبعوث فرماتا ہے۔ پس علیم وخبیر اور قدوس وحکیم ذات کے کلام پاک میں کسی ذات کے متعلق خاتم النبیین کا لفظ جو ارشاد کیا گیا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کے حقیقی معنی مراد نہ لئے جائیں جو کہ بلاتکلف بنتے ہیں اور ان کو چھوڑکر مجاز ومبالغہ پر حمل کرنا صریحا ناجائز ہے۔ الغرض انسان کے کلام میں ہم مجبور ہیں کہ ان کلمات کو ظاہری معنی سے پھیر کر مبالغہ یا مجاز پر محمول کریں۔ مگر خدائے قدوس کے کلام میں ہمیں اس کی ضرورت نہیں اور بلا ضرورت حقیقی معنی کو چھوڑ کر مجاز کی طرف جانا اصول مسلم کے خلاف ہے۔
امام غزالی ؒ فرماتے ہیں: ’’ولیس فیہ تاویل ولا تخصیص ومن اولہ بتخصیص فکلامہ من انواع الہذیان لا یمنع الحکم بتکفیرہ لانہ مکذب لھذا النص الذی اجتمعت الامۃ علیٰ انہ غیر ماول ولا مخصوص۰ الاقتصاد‘‘
{آیت خاتم النبیین میں نہ کوئی تاویل ہے نہ تخصیص۔ اور جو شخص اس میں کسی قسم کی تخصیص کرے اس کا کلام ہذیان کی قسم سے ہے اور یہ تاویل اس کو کافر کہنے کے حکم کے لئے کافی ہے۔ کیونکہ وہ اس آیت (خاتم النبیین) کی تکذیب کررہا ہے جس کے متعلق امت کا اجماع ہے کہ وہ ماؤل یا مخصوص نہیں۔}
الغرض چونکہ قرآن عزیز اور احادیث نبویہ اور اجماع صحابہ اور اقوال سلف نے اس کا قطعی فیصلہ کردیا کہ خاتم النبیین اپنے حقیقی معنی پر محمول ہے ۔ نہ اس میں مجاز ہے نہ کوئی مبالغہ اور نہ تاویل وتخصیص۔ اب اسے کسی مجازی معنی پر محمول کرنے کے لئے قیاس کے اٹکل پچوچلانا جائز نہیں۔
مخفی نہ رہے کہ حق تعالیٰ کے ارشاد ’’ ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین‘‘ کو عوام الناس کے قول فلاں خاتم محققین ہے۔ پر قیاس کرنا انتہائی جہالت ونادانی کا کرشمہ ہے۔ کیونکہ اول تو یہ مقولہ ایک عامی محاورہ ہے جو تحقیق پر مبنی نہیں۔ بہت سے محاورات مقامات خطابیہ میں استعمال ہوتے ہیں جن کا مدار تحقیق پر نہیں ہوتا۔ بخلافت ارشاد خدا وندی کے کہ وہ سراسر تحقیق ہے اور حقیقت واقعیہ سے سر مومتجاوز نہیں بلکہ قرآن کریم کے وجوہ اعجاز میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کے ایک کلمہ کی جگہ مخلوق دوسرا کلمہ نہیں لاسکتی۔ کیونکہ اس مقام کے حق اور حقیقت غرض کی گہرائی کا احاطہ انسانی طاقت سے خارج ہے۔
دوم …یہ کہ اس فقرہ کے قائل نے خود بھی تحقیق کا ارادہ نہیں کیا۔ کیونکہ نہ تو اسے غیب کا علم ہے اور نہ وہ پردہ مستقبل میں چھپی ہوئی چیزوں سے باخبر ہے۔ کہ دوام کی رعایت رکھ کر بات کہتا۔ بخلاف باری تعالیٰ کے کہ اس کے لئے ماضی ومستقبل یکساں ہیں۔
سوم … یہ کہ یہ فقرہ ہر شخص اپنے گمان کے موافق کہتا ہے۔ اور ایک ہی زمانے میں متعدد لوگ کہتے ہیں اور انہیں ایک دوسرے کے قول کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔ بلکہ ایک شخص اس اطلاع کے باوجود کہ اس زمانے میں دیگر اصحاب کمال بھی موجود ہیں۔ اس لفظ کا اطلاق کرتا اور قطعی قرینہ پر اعتماد کرتا ہے۔ کہ دوسرے لوگ خود مشاہدہ کرنے والے ہیں ۔ اس لئے میرے سامعین ایک ایسی چیز کے بارے میں ۔ جسے وہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور اپنے کانوں سے سنتے ہیں۔ میرے کلام کی وجہ سے غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہوں گے۔
چہارم… یہ کہ ہر شخص کی مراد بس اس کے اپنے زمانہ تک محدود ہوتی ہے۔ مستقبل سے اسے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔
پنجم … یہ کہ اس قادیانی دجال کے خیال کے مطابق نعوذباﷲ آئندہ آنے والے ہر نبی پر ایک اعتبار سے خاتم کا اطلاق کرسکتے ہیں۔ اندریں حالت آیت کے مضمون کا کوئی حاصل اور نتیجہ ہی نہیں نکلتا۔
ششم… یہ کہ جس صورت میں کہ (دجال قادیان کے بقول) خاتم کے معنی مہر لگانے والا کے لئے جائیں تو اس صورت میں اگر حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کا زمانہ تمام انبیاء کرام سے مقدم ہوتا۔ جب بھی آپ ﷺ خاتم بالمعنی المذکور ہوتے۔ حالانکہ یہ قطعا بے معنی بات ہے ۔ ایسی حالت میں مقدام المحققین بولتے ہیں۔ نہ کہ خاتم المحققین ۔
ہفتم … یہ کہ اس تقدیر پر حضرت خاتم النبیین ﷺ کو امت مرحومہ کے ساتھ کوئی زائد خصوصی تعلق باقی نہیں رہ جاتا۔ حالانکہ آیت کا سیاق یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو امت کے ساتھ ابوت کے بجائے خاتم نبوت کا علاقہ ہے۔ اور شاید آنحضرت ﷺ کی نرینہ اولاد اسی واسطے نہیں رہی تاکہ آپﷺ کے بعد نبوت کی طمع بکلیمنقطع ہوجائے۔آیت کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ سے علاقہ ابوت مت تلاش کرو۔ بلکہ اس کی جگہ علاقہ نبوت ڈھونڈو اور وہ بھی ختم نبوت کا علاقہ۔ اور آپ ﷺ کی نرینہ اولاد کے زندہ نہ رہنے میں یہ اشارہ تھا کہ آپ ﷺ کے بعد سلسلہ نبوت باقی نہیں رہے گا۔ جیسا کہ بعض صحابہ مثلا عبدا ﷲابن اوفی ؓ اور ابن عباس ؓ کے الفاظ سے سمجھا جاتا ہے۔ دیکھئے شرح مواہب جلد ثالث۔ ذکر ابراھیم اور وراثت نبوت کے لئے جامع البیان اوائل سورۃ مریم معہ حاشیہ اور مواہب لدینہ میں خصائص کی بحث دیکھئے۔
غرض یہ کہ محاورۂ عامیہ‘ تحقیقی کلام نہیں۔ بلکہ تساہل اور تسامح پر مبنی ہے۔ اور اس کے نظائر احیاء العلوم( مصنفہ امام غزالی ؒ) کے ’’ باب آفات لسان‘‘ میں ملاحظہ کیے جائیں۔ نیز جو کلام انہوں نے فخریہ القاب ۔ مثلا شہنشاہ پر کیا ہے اسے بھی ملاحظہ کیے جائیں۔ اور ممدوحین کے روبروان کی تعریف وتوصیف کی ممانعت معلوم ہی ہے۔ پس یہ محاورات نہ تو تحقیقی ہیں اور نہ شرعی ہیں۔ (اس نوعیت کے غیر ذمہ دارانہ القاب ومحاورات تو کیا شرعی ہوتے ہیں۔) چہ جائیکہ شارع علیہ السلام نے برہ نام کو بھی پسند نہیں فرمایا(کہ اس میں تزکئیہ وتوصیف کی جھلک تھی۔)
ہشتم …یہ کہ لفظ ختم کا مدلول یہ ہے کہ خاتم کا حکم وتعلق اس کے ماقبل پر جاری ہوتا ہے۔ اور سابقین اس کی سیادت وقیادت کے ماتحت ہوتے ہیں۔ جس طرح کہ بادشاہ موجودین کا قائد ہوتا ہے۔ نہ کہ ان لوگوں کا جو ہنوز پر دہ عدم میں ہوں اور اس کی سیادت کا ظہور اور اس کے عمل کا آغاز رعایا کے جمع ہونے کے بعد ہوتا ہے۔ نہ کہ اس سے پہلے ۔ گویا اجتماع کے بعد کسی قوم کا کسی کی آمد کے لئے منتظر اور چشم براہ ہونا اس امر کا اظہار ہے کہ معاملہ اس کی ذات پر موقوف ہے۔ بخلاف اس کی برعکس صورت کے کہ (قائد آئے اور چلا جائے اور ماتحت عملہ اس کے بعد آئے۔ اس صورت میں کسی قرینے سے اس امر کا اظہار نہیں ہوتا ۔ بلکہ اس پیشرو کی برتری اور سیادت کا تصور)محض ایک معنوی اور ذہنی چیز ہے۔ (جس کا خارج میں کوئی اثرونشان نہیں ہوتا۔ نہ اس پر کوئی دلیل وبرہان ہے۔) یہی وجہ ہے کہ عاقب‘ حاشر اور مقفی جو سب آنحضرت ﷺ کے اسمائے گرامی ہیں مابعد کے لحاظ سے نہیں(بلکہ ماقبل کے لحاظ سے ہیں۔ جیسا کہ ان کے معانی پر غور کرنیسے بادنیٰ تامل معلوم ہوسکتا ہے ) اور خاتمیت سے یہ مراد لینا کہ چونکہ آ پ ﷺ کی نبوت بالذات ہے اور دوسروں کی نبوت بالعرض۔ لہذا آپ ﷺ سے استفاد ہ کے ذریعہ اب بھی نبوت مل سکتی ہے۔ خاتمیت کا یہ مفہوم غلط ہے کیونکہ مابالذات اور مابالعرض کا ارادہ فلسفہ کی اصطلاح ہے۔ نہ تو یہ قرآن کریم کا عرف ہے ۔ نہ زبان عرب ہی اس سے آشنا ہے۔ اور نہ قرآن کریم کی عبارت میں اس کی جانب کسی قسم کا اشارہ یا دلالت موجود ہے۔ پس اس آیت میں ’’ استفادہ نبوت ‘‘ کا اضافی مضمون داخل کرنا محض خود غرضی اور مطلب براری کے لئے قرآن پر زیادتی ہے۔ البتہ سنت اﷲ یہی واقع ہوئی ہے کہ ختم زمانی کا منصب عالی اسی شخصیت کے لئے تجویز فرمایا گیا جو قطعی طور پر امتیازی کمال میں سب سے فائق تھی اور تمام سابقین کو اس کی سیادت وقیادت کے ماتحت رکھا گیا۔
اور انبیاء کرام کو نبوت پیدا کرنے کے لئے نہیں بھیجا جاتا (کہ مہر لگا لگا کر نبی پیدا کریں) بلکہ سیادت وقیادت اور سیاست وریاست کے لئے مبعوث کیا جاتا ہے۔ قوم نماز کے لئے پہلے جمع ہو تو اس کے بعد امام مقرر کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یہی محمل ہے حق تعالیٰ کے ارشاد :
’’ یوم ندعوا کل اناس بامامھم‘‘
کا پہلی امتوںمیں انبیاء کرام تکمیل کار کے لئے رسولوں کے ماتحت ہوتے تھے۔
چنانچہ موسیٰ علیہ السلام کی دعا ہے :
’’ اشددبہ ازری واشرکہ فی امری‘‘
نیز موسیٰ علیہ السلام کی درخواست کے جواب میں ارشاد خدوندی ہے :
’’ سنشد عضدک باخیک ‘‘
اور حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کے مقام میں کمال کا کوئی جزوباقی نہیں چھوڑا گیا (بلکہ کار نبوت کی تکمیل من کل الوجوہ آپ ﷺ کی ہی ذات گرامی سے کرادی گئی۔ لہذا اب کوئی منصب باقی نہ رہا جس کے لئے کسی نئے نبی کو مبعوث کیا جاتا۔ چنانچہ آپ ﷺ کی شان تو یہ ہے۔)