محمد اسامہ حفیظ
رکن ختم نبوت فورم
؎حسن یوسف دم عیسیٰ یدبیضاداری
آنچہ خوباں ہمہ دار ند توتنہاداری
آنچہ خوباں ہمہ دار ند توتنہاداری
اعترض نمبر۶ :خاتم کا معنی انگشتری
قادیانی :خاتم النبیین میں خاتم بمعنی نگینہ ‘ انگشتری لے کر زینت مراد لیا جائے اور کلام کے معنے یہ ہوں کہ آپ ﷺ سب انبیاء کی زینت ہیں۔ اور اس صورت میں آیت کو ختم نبوت سے کوئی تعلق ہی باقی نہیں رہتا۔جواب:لیکن جب ہم اس کو اصول تفسیر پر رکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ محض قرآن پر افتراء ہے۔ اس کی ہرگز وہ مراد نہیں۔
۱… اول تو اس وجہ سے کہ خاتم بمعنے زینت مراد لینا مجازی معنی ہیں۔ اور جبکہ اس جگہ حقیقی معنی بلاتکلف درست ہیں تو حسب تصریحات علماء لغت وبلاغت واصول ‘ معنی مجازی کی طرف جانے کی کوئی وجہ نہیں۔
۲… احادیث متواترہ نے جو تفسیر اس آیت کی صاف صاف بیان کی ہے۔ یہ اس کے خلاف ہے۔
۳… یہ تفسیر اجماع اور آثار سلف کے بھی خلاف ہے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر مفصل عرض کیا ہے۔
۴…آئمہ تفسیر کی شہادتیںبھی اس کے خلاف ہیں۔
پھر کیا کوئی مسلمان قرآن عزیز کے ایسے معنے تسلیم کرسکتا ہے؟ جو قواعد عربیت کے بھی خلاف ہوں اور خود تصریحات قرآن مجید کے بھی‘ احادیث متواترہ اور آثار سلف بھی اس کو رد کرتے ہوں اور آئمہ تفسیر بھی۔
اور اگر اسی طرح ہر کس وناکس کے خیالات اور ہر حقیقی یا مجازی معنی قرآن عزیز کی تفسیر بن سکتے ہیں تو کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ تمام قرآن مجید میں جہاں کہیں اقیموالصلوٰۃ وغیرہ کے الفاظ سے نماز کی فرضیت کی تاکید کی گئی ہے سب جگہ محض درود بھیجنا اور دعا کرنا مراد ہے۔ جو لفظ صلوٰۃ کے لغوی معنی ہیں۔
اسی طرح آیت کریمہ : ’’ من شھد منکم الشھر فلیصمہ ‘‘ وغیرہ جن میں روزہ کی فرضیت ثابت ہے۔ اس کا لغوی ترجمہ اور مطلب یہ ہے کہ جب رمضان کا مہینہ آئے تو تم رک جائو۔ کیونکہ لغت عرب میں صوم کے لغوی معنی صرف رک جانا ہیں۔
اسی طرح حج اور زکوٰۃ وغیرہ کے الفاظ میں ان سب کے معنی اگر احادیث اور آثار سلف وغیرہ سے آنکھیں بند کرکے صرف ازروئے لغت کئے جائیں تو مرزا قادیانی اور ان کے اذناب کی عنایت سے سارے فرائض سے چھٹی ہوجائے گی ۔ بلکہ عجب نہیں کہ خود دین اسلام سے بھی آزادی مل جائے۔ (والعیاذ باﷲ تعالی۰)
لیکن آیات مذکورہ میں صوم وصلوٰۃ اور حج وغیرہ کے الفاط سے ان کے معنی لغوی کو اس لئے چھوڑا جاتا ہے کہ قرآن عزیز کی دوسری آیات اور احادیث متواترہ اور آثار سلف سے جو تعبیر ان کی ثابت ہے اس کے خلاف ہے۔ اور اگر آج کوئی ان آیات کے وہ لغوی معنی بتلا کر لوگوں کو ان فرائض کی پابندیوں سے آزاد کرنا چاہے تو بحمداﷲ مسلمانوں کا ہر جاہل وعالم یہی جواب دے گا: ’’ اذا خاطبہم الجاہلون قالوا سلاما۰‘‘
غرض کوئی جاہل سے جاہل بھی اس قسم کی تحریفات کے ماننے پر تیار نہیں ہوسکتا۔ ٹھیک اسی طرح اگرچہ خاتم بمعنیزینت مجازا مراد لینا محتمل ہے۔ لیکن چونکہ یہ احتمال نصوص قرآن وحدیث اور تفاسیر سلف کے خلاف ہے۔ اس لئے اسی طرح مردود اور ناقابل قبول ہوگا۔ جس طرح صوم وصلوٰۃ وحج وزکوٰۃ وغیرہ ارکان دین کے مشہور لغوی معنی لینا باتفاق مردود ہیں۔