• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قادیانی شبہات کے جوابات (کامل )

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

قادیانیوں سے گفتگو کے لئے رہنما اصول​

قادیانیوں سے گفتگو کرنی ہو تو ہماری پہلی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ مرزاقادیانی کے کذب پر گفتگو ہو۔ اس موضوع سے قادیانی اس طرح بھاگتے ہیں جس طرح شکار تیر سے۔ اس لئے کہ قادیانی کتب سے مرزاقادیانی کی جو بھیانک صورت اجاگر ہوتی ہے اس سے قادیانیوں کو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ بدیں وجہ قادیانیوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ حیات مسیح علیہ السلام کے مسئلہ کو آڑ بنا کر، تحریف کے نشتر چلا کر، استعارہ کی اوٹ لے کر اور بات کا بتنگڑ بنا کر مرزاقادیانی کی حقیقت پر پردہ پوشی کریں۔ لہٰذا حیات مسیح علیہ السلام پر جب گفتگو کرنی پڑے تو اس کتاب سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ ان شاء اﷲ العزیز یہ مفید اور کارگر ہتھیار ثابت ہوگی۔ قادیانی تمام شبہات کا اس میں جواب موجود ہے۔ لیکن جب آپ گفتگو کریں تو قادیانیوں اور سامعین پر واضح کریں کہ قرآن مجید اﷲتعالیٰ کی کتاب ہے۔ اسے نازل ہوئے چودہ صدیاں بیت گئیں۔ آیا اسے آج تک کسی نے سمجھا بھی ہے یا نہیں؟ یقینا اس کا وہ جواب ہاں میں دیں گے، تو پھر آپ مؤقف اختیار کریں کہ قرآن مجید کی جس آیت کا ترجمہ ومفہوم سمجھنا ہو امت کے قدیم مفسرین، مجددین ومحدثین کی تفہیم کی روشنی میں ہم اسے سمجھیں گے۔ یعنی جو آیت زیربحث ہو اس کا ہم یا قادیانی جو ترجمہ ومفہوم بیان کریں وہ چودہ سو سالہ امت کی رائے کے خلاف نہ ہو۔ اگر ہم نیا ترجمہ کرتے ہیں تو لازم آئے گا کہ چودہ سو سال میں امت میں سے قرآن مجید کو کسی نے نہیں سمجھا اور یہ محال ہے۔ مرزاقادیانی کے فتنہ کو سوسال ہوگئے۔ اس سے اختلاف ہوا۔ اس سے قبل جو امت کے مفسرین، مجددین یا محدثین ہیں وہ تو متفقہ ہیں۔ اس لئے فریقین جو آیت پیش کریں اس کا ترجمہ ومفہوم امت کی سابقہ تفسیروں سے دکھائیں۔ جو تفسیر فریقین کے نزدیک مسلم ہو اس کو مدار بنائیں۔ ایک نہیں دس سابقہ قدیم تفاسیر کو مدار بنا کر گفتگو کریں جو ترجمہ ومفہوم ہو ہم ان تفاسیر میں دکھانے کے پابند ہوں اور قادیانی بھی ’’جی بسم اﷲ‘‘ قادیانی کسی ایک قدیم تفسیر یا تفاسیر جتنی چاہیں ان کے نام بتائیں۔ جس آیت کا ترجمہ ومفہوم پوچھنا ہو ان سے پوچھیں گے۔ اس نکتہ پر قادیانی کبھی نہ آئیں گے تو ان کا باربار کہنا کہ قرآن سے، قرآن سے، قرآن سے، بحث کریں۔ وہ سامعین پر واضح ہو جائے گا کہ یہ جو قرآن کا نام لے کر قرآن مجید پر الحاد کا کلہاڑا چلانا چاہتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ لغت سے ترجمہ نہ ہو۔ لیکن لغت میں ایک لفظ کے کئی معنی ہی، یہاں کون سا معنی مراد ہے۔ اس کے لئے قدیم مفسرین پر فیصلہ کی فریقین پابندی کریں۔ آخر قدیم مفسرین بھی تو لغت جانتے تھے۔ آج کے دور میں فہم قرآن پر ہم پابندی نہیں لگارہے۔ بلکہ اپنے فہم کو امت مسلمہ کے چودہ سو سالہ سلسلۃ الذہب سے منسلک کر رہے ہیں تاکہ الحاد سے بچ جائیں۔
۲… ہمارے نزدیک ہر صدی میں مجدد یا مجددین کا ہونا صحیح ہے۔ لیکن وہ کون ہے؟ کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن قادیانیوں نے ازخود مرزاقادیانی کو چودھویں صدی کا مجدد بنانے کے لئے تیرہ صدیوں کے مجددین کی فہرست شائع کر دی ہے۔ جو یہ ہے:
’’پہلی صدی میں اصحاب ذیل مجدد تسلیم کئے گئے ہیں: (۱)عمر بن عبدالعزیز۔ (۲)سالم۔ (۳)قاسم۔ (۴)مکحول۔ علاوہ ان کے اور بھی اس صدی میں مجدد مانے گئے ہیں۔ چونکہ جو مجدد جامع صفات حسنٰی ہوتا ہے وہ سب کا سردار اور فی الحقیقت وہی مجدد فی نفسہ مانا جاتا ہے۔
دوسری صدی کے مجدد اصحاب ذیل ہیں: (۱)امام محمد ادریس ابوعبداﷲ شافعی۔ (۲)احمد بن محمد بن حنبل شیبانی۔ (۳)یحییٰ بن معین بن عون عطفانی۔ (۴)اشہب بن عبدالعزیز بن داؤد قیس۔ (۵)ابوعمرمالکی مصری۔ (۶)خلیفہ مامون رشید بن ہارون۔ (۷)قاضی حسن بن زیاد حنفی۔ (۸)جنید بن محمد بغدادی صوفی۔ (۹)سہل بن ابی سہل بن رنحلہ شافعی۔ (۱۰)بقول امام شعرانی حارث بن اسعد محاسبی ابوعبداﷲ صوفی بغدادی۔ (۱۱)اور بقول قاضی القضات علامہ عینی۔ احمد بن خالد الخلال، ابوجعفر حنبلی بغدادی۔ (نجم الثاقب ج۲ ص۱۴، قرۃ العیون ومجالس الابرار)
تیسری صدی کے مجدد اصحاب ذیل ہیں(۱)قاضی احمد بن شریح بغدادی شافعی۔ (۲)ابوالحسن اشعری متکلم شافعی۔ (۳)ابوجعفر طحاوی ازدی حنفی۔ (۴)احمد بن شعیب۔ (۵)ابوعبدالرحمن نسائی۔ (۶)خلیفہ مقتدرباﷲ عباسی۔ (۷)حضرت شبلی صوفی۔ (۸)عبیداﷲ بن حسین۔ (۹)ابوالحسن کرخی صوفی حنفی۔ (۱۰)امام بقی بن مخلد قرطبی مجدد اندلس اہل حدیث ۔
چوتھی صدی کے مجدد اصحاب ذیل ہیں(۱)امام ابوبکر باقلانی۔ (۲)خلیفہ قادر باﷲ عباسی۔ (۳)ابوحامد اسفرانی۔ (۴)حافظ ابونعیم۔ (۵)ابوبکرخوارزمی حنفی۔ (۶)بقول شاہ ولی اﷲ ابوعبداﷲ محمد بن عبداﷲ المعروف بالحاکم نیشاپوری۔ (۷)امام بیہقی۔ (۸)حضرت ابوطالب ولی اﷲ صاحب قوت القلوب جو طبقہ صوفیا سے ہیں۔ (۹)حافظ احمدبن علی بن ثابت خطیب بغدادی۔ (۱۰)ابواسحق شیرازی۔ (۱۱)ابراہیم بن علی بن یوسف فقیہ ومحدث۔
پانچویں صدی کے مجدد اصحاب ذیل ہیں: (۱) محمد بن ابوحامد امام غزالی۔ (۲)بقول عینی وکرمانی حضرت راعونی حنفی۔ (۳)خلیفہ مستظہر بالدین مقتدی باﷲ عباسی۔ (۴)عبداﷲ بن محمدانصاری ابواسماعیل ہروی۔ (۵)ابوطاہر سلفی۔ (۶)محمدبن احمد ابوبکر شمس الدین سرخسی فقیہ حنفی۔
چھٹی صدی کے مجدد اصحاب ذیل ہیں: (۱)محمدبن عمر ابوعبداﷲ فخرالدین رازی۔ (۲)علی بن محمد۔ (۳)عزالدین ابن کثیر۔ (۴)امام رافعی شافعی صاحب زبدہ شرح شفا۔ (۵)یحییٰ بن حبش بن میرک حضرت شہاب الدین سہروردی شہید امام طریقت۔ (۶)یحییٰ بن اشرف بن حسن محی الدین لوذی۔ (۷)حافظ عبدالرحمن ابن جوزی۔ (۸)حضرت عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ سرتاج طریقہ قادری۔
ساتویں صدی کے مجدد اصحاب ذیل ہیں: (۱)احمدبن عبدالحلیم تقی الدین ابن تیمیہ حنبلی۔ (۲)تقی الدین ابن دقیق السعید۔ (۳)شاہ شرف الدین مخدوم بھائی سندی۔ (۴)حضرت معین الدین چشتی۔ (۵)حافظ ابن القیم جوزی شمس الدین محمد بن ابی بکر بن ایوب بن سعد بن القیم الجوزی درعی دمشقی حنبلی۔ (۶)عبداﷲ بن اسعد بن علی بن سلیمان بن خلاج ابومحمد عفیف الدین یافعی شافعی۔ (۷)قاضی بدرالدین محمد بن عبداﷲ الشبلی حنفی دمشقی۔
آٹھویں صدی کے مجدد اصحاب ذیل ہیں: (۱) حافظ علی بن حجر عسقلانی شافعی۔ (۲)حافظ زین الدین عراقی شافعی۔ (۳)صالح بن عمر بن ارسلان قاضی بلقینی۔ (۴)علامہ ناصرالدین شاذلی ابن سنت میلی۔
نویں صدی کے مجدد اصحاب ذیل ہیں: (۱)عبدالرحمن بن کمال الدین شافعی معروف بامام جلال الدین سیوطی۔ (۲)محمد بن عبدالرحمن سخاوی شافعی۔ (۳)سید محمد جون پوری مہدی ۔
اور بقول بعض دسویں صدی کے مجدد ہیں۔
دسویں صدی کے مجدد اصحاب ذیل ہیں: (۱)ملاعلی قاری۔ (۲)محمدطاہر فتنی گجراتی محی الدین محی السنۃ۔ (۳)حضرت علی بن حسام الدین معروف بعلی متقی ہندی مکی۔
گیارھویں صدی کے مجدد اصحاب ذیل ہیں: (۱) عالمگیر بادشاہ غازی اورنگ زیب۔ (۲)حضرت آدم بنوری صوفی۔ (۳)شیخ احمد بن عبدالاحد بن زین العابدین فاروقی سرہندی۔ معروف بامام ربانی مجدد الف ثانی۔
بارھویں صدی کے مجدد اصحاب ذیل ہیں: (۱) محمد بن عبدالوہاب بن سلیمان نجدی۔ (۲)مرزا مظہر جانِ جاناں دہلوی۔ (۳)سید عبدالقادر بن احمد بن عبدالقادر حسنی کوکیانی۔ (۴)حضرت احمد شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی۔ (۵)امام شوکانی۔ (۶)علامہ سید محمد بن اسماعیل امیریمن۔ (۷)محمد حیات بن ملاملازیہ سندھی مدنی۔
تیرھویں صدی کے مجدد اصحاب ذیل ہیں: (۱)سید احمد بریلوی۔ (۲)شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی۔ (۳)مولوی محمداسماعیل شہیددہلوی۔ (۴)بعض کے نزدیک شاہ رفیع الدین صاحب بھی مجدد ہیں۔ (۵)بعض نے شاہ عبدالقادر کو مجدد تسلیم کیا ہے۔ ہم اس کا انکار نہیں کرسکتے کہ بعض ممالک میں بعض بزرگ ایسے بھی ہوں گے جن کو مجدد مانا گیا ہو اور ہمیں ان کی اطلاع نہ ملی ہو۔‘‘ (عسل مصفّٰی ص۱۶۲تا۱۶۵،خدا بخش مرزائی تصدیق شدہ از مرزا غلام احمد قادیانی)
لیجئے! اس فہرست میں جو حضرات فریقین کے ہاں مسلم ہوں ان پر اتفاق کرلیاجائے۔
(الف)… جس آیت کا وہ جو ترجمہ کریں دونوں فریق قبول کریں۔
(ب)… وہ فرمادیں کہ مسیح علیہ السلام زندہ تو ہم دونوں فریق قبول کریں۔ وہ کہہ دیں فوت ہوگئے تو بھی فریقین قبول کریں۔
(ج)… وہ ختم نبوت کے مسئلہ پر جو موقف رکھتے ہوں فریقین مان لیں۔ قادیانیوں کو اس کا پابند کریں ۔ فیصلہ آسان ہوگا۔ قارئین یقین فرمائیے تیرہ صدیوں کا ایک بھی مسلمہ مفسر ومجدد ایسا نہیں جو حیات مسیح کا منکر یا اجرائے نبوت کا قائل ہو۔ قادیانی اس پر آجائیں۔ لیکن قادیانی اس سے بھاگیں گے۔ اس پر نہیں آئیں گے۔ حیات مسیح‘ ختم نبوت پر ان بزرگوں کے جو وہ حوالہ جات دیتے ہیں سب میں تحریف کرتے ہیں۔ کانٹ چھانٹ اور ہیر پھیر سے کام لیتے ہیں۔ دجل کرتے ہیں۔ ورنہ حقیقت میں ایک بھی مسلمہ بزرگ ان مسائل میں امت کے خلاف مؤقف نہیں رکھتا۔ جیسا کہ آپ اس کتاب میں ملاحظہ کریں گے۔
۳… قادیانی اس پر کبھی نہ آئیں گے۔ تو پھر آپ ان سے سوال کریں کہ تیرہ صدیوں کے مسلمہ مجدد حیات مسیح اور ختم نبوت کے قائل۔ چودھویں صدی کا ایک آپ کا نام نہاد مجدد مرزا قادیانی ان کا منکر۔ آیا تیرہ صدیوں کے مجدد صحیح ہیں یا یہ ایک؟ اس لئے کہ ایک مسئلہ پر تیرہ صدیوں کے مسلمہ بزرگوں کی رائے ایک ہے۔ اکیلے مرزا قادیانی کی ایک طرف۔ اگر تیرہ صدیوں کے حضرات حق پر ہیں تو مرزا قادیانی حق پر نہ ہوا۔اگر مرزا قادیانی حق پر ہے تو تیرہ صدیوں کے حضرات حق پر نہ ہوئے۔ اب مرزائی تیرہ صدیوں کے مسلمہ مجددین کا انکار کریں یا ایک کا؟ اس سے بھی سامعین اور انصاف پسند قادیانی سمجھ جائیں گے کہ حق کس طرف ہے۔
۴… ذیل میں چند حوالہ جات پیش خدمت ہیں۔ ان پر گفتگو کے وقت نظر رہے۔ نیز سابقہ نکات کی تائید کے لئے بھی یہ کارآمد ہیں۔
حوالہ نمبر۱: ’’ مومنوں کو قرآن کریم کا علم اور نیز اس پر عمل عطا کیا گیا ہے۔ ‘‘ (شہادۃ القرآن ص۵۵، خزائن ج۶ص۳۵۱)
 
آخری تدوین :

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
حوالہ نمبر۲: ’’ایسے ائمہ اور اکابر کے ذریعہ سے جن کو ہر ایک صدی میں فہم قرآن عطا ہوا ہے۔ جنہوں نے قرآن شریف کے اجمالی مقامات کی احادیث نبویہ کی مدد سے تفسیر کرکے خدا کے پاک کلام اور پاک تعلیم کو ہرایک زمانہ میں تحریف معنوی سے محفوظ رکھا۔‘‘ (ایام الصلح ص۵۵، خزائن ج۱۴ص۲۸۸)
حوالہ نمبر۳: ’’مگر وہ باتیں جو مدار ایمان ہیں اور جن کے قبول کرنے اور جاننے سے ایک شخص مسلمان کہلاسکتا ہے وہ ہرزمانہ میں برابر طور پر شائع ہوتی رہیں۔‘‘ (کرامات الصادقین ص۲۰، خزائن ج۷ص۶۲)
حوالہ نمبر۴: ’’غرض برخلاف اس متبادر مسلسل معنوں کے جو قرآن شریف میں … اول سے آخرتک سمجھے جاتے ہیں۔ ایک نئے معنی اپنی طرف سے گھڑنا یہی تو الحاد اور تحریف ہے۔ خدا تعالیٰ مسلمانوں کو اس سے بچاوے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۷۴۵، خزائن ج۳ص۵۰۱)
حوالہ نمبر۵: ’’کسی اجماعی عقیدہ سے انکار وانحراف موجب لعنت کلی ہے۔‘‘ (انجام آتھم ص۱۴۴،خزائن ج۱۱ص ایضاً)
ان حوالہ جات سے جو نتائج برآمد ہوئے وہ یہ ہیں:
(الف) مومنوں کو قرآن کا علم وعمل عطا کیا گیا۔
(ب) ہر صدی میں ائمہ واکابر قرآن مجید کے فہم کو جاننے والے موجود رہے۔
(ج) مدار ایمان چیزیں ہر زمانہ میں شائع (مشہور عام) رہیں۔
(د) متبادر مسلسل معنوں کے خلاف قرآن میں معنی گھڑنا الحاد وتحریف ہے۔
مرزا قادیانی کے ان حوالوں کی روشنی میں قادیانی گزشتہ صدیوں کے ائمہ واکابر کے فہم کے قرآن کے خلاف نئے معنی گھڑ کر الحاد وتحریف اختیار کرنے کی بجائے ہمارے ساتھ تمام مختلف فیہ مسائل میں تمام قرآنی آیات جو پیش ہوں وہ ترجمہ کریں۔ اس فہم کو پیش کریں جو مرزا قادیانی سے پہلے ہے گزشتہ صدیوں کے ائمہ واکابر کی تفاسیر سے معلوم ومتعین ہیں۔ تاکہ بات کسی نتیجہ پر پہنچ سکے۔
اختلاف تفاسیر: قادیانی تفاسیر کی آراء کے اختلاف کی بابت سوال کریں تو ان سے کہا جائے کہ امت کے اکابر نے دیانت داری سے جتنے اقوال وتشریحات ہوسکتی ہیں سب کو بیان کردیا۔ ان آراء کے باوجود جو مختار، راجح بلکہ ارجح معنی ومفہوم تھا۔ اسے بھی بیان کیا۔ اس کے مطابق جو عقیدہ اختیار کیا اس کو ماننا چاہئے۔ اب حیات مسیح، ختم نبوت پر جو امت کے اکابر وائمہ کا عقیدہ ہے اسے مانیں۔ وہ سب حیات مسیح اور ختم نبوت کے قائل تھے۔ ہاں اگر اختلاف اقوال کو دیکھا جاسکتا ہے تو وہ مختلف حضرات کے مختلف اقوال تھے۔ مختلف آیات کی ہر ایک نے ترجمہ وتفسیر کی۔ جس آیت کی جتنی تشریح یا جو جو آیت کا مفہوم ہوسکتا تھا بیان کیا۔ لیکن کسی نے ایک ہی مسئلہ پر کہ عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔ نہیں فوت ہوگئے۔ ختم نبوت نہیں اجرائے نبوت ہے۔ یہ نہیں کہا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ مرزا قادیانی کا ان امور پر کیا کردار تھا۔ دور نہ جائیں قادیانیوں کے گھر کی شہادت پیش خدمت ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی کا سالا مرزا محمود کا ماموں میراسماعیل قادیانی نے لاہوری قادیانی اختلاف کے سلسلہ میں ’’نبوت حضرت مسیح موعود پر ایک شہادت‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جو ’’فرقان قادیان جولائی ۱۹۴۳ء‘‘ میں شائع ہوا۔ اسی مضمون کو دوبارہ الفرقان ربوہ مئی،جون۱۹۶۵ء کی اشاعت میں شائع کیا گیا۔ جس میں وہ لاہوریوں کو مخاطب کرکے کہتے ہیں :
’’اس مسئلہ کے حل کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام(مرزا) ہر دو فریق کے مقتداء ہیں۔ نیز ہمارے اور آپ کے نزدیک وہ صادق اور راست باز ہیں۔ ان باتوں کے باوجود: (۱)حضور ایک جگہ فرماتے ہیں کہ مسیح ناصری زندہ ہیں۔ پھر یہ بھی فرماتے ہیں کہ مسیح ناصری فوت ہوچکے ہیں۔ (۲)اور یہ کہتے ہیں کہ مسیح ناصری آخری زمانہ میں آسمان سے نازل ہوں گے اور یہ بھی فرماتے ہیں کہ وہ ہرگز آسمان سے نازل نہیں ہوںگے۔ (۳)پھر کہتے ہیں مسیح اور مہدی دو شخص ہوں گے۔ پھر فرماتے ہیں کہ ہرگز نہیں مسیح اور مہدی ایک ہی شخص ہے۔ (۴)کبھی فرماتے ہیں کہ مہدی تو بنی فاطمہ سے ہوگا۔ پھر کہتے ہیں کہ میں مہدی ہوں۔ (۵)کہیں فرماتے ہیں کہ مجھے عیسیٰ سے کیا نسبت وہ عظیم الشان نبی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی فرماتے ہیں کہ میں مسیح ناصری سے افضل اور ہرشان میں بڑھ کر ہوں۔ (۶)کہیں فرماتے ہیں کہ میں نبی نہیں ہوں صرف مجدد اور محدث ہوں۔ ساتھ ہی یہ بھی فرماتے ہیں کہ ہم نبی اور رسول ہیں۔ (۷)اسی طرح فرماتے ہیں کہ میرے انکار سے کوئی کافر نہیں ہوتا پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ میرا منکر کافر ہے۔ (۸)غیر احمدیوں کے پیچھے نمازیں پڑھتے بھی رہے پھر حرام بھی فرمادیں۔ (۹)ان سے رشتے ناطے بھی کرتے تھے۔ پھر منسوخ بھی کردئیے۔ (۱۰)متوفیک کے معنے کئے کہ پوری نعمت دوں گا۔ پھر کہا کہ ہزار روپیہ انعام اگر سوائے موت۔ اس کے کوئی اور معنے ثابت ہوں۔ (۱۱)فرماتے تھے کہ ایک نبی دوسرے کا متبع نہیں ہوتا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ کسی نبی کے لئے ضروری نہیں کہ وہ کسی دوسرے نبی کا متبع نہ ہو۔ (۱۲)ایک کتاب میں نبی کی تعریف اور کی ہے۔ دوسری میں اس کے کچھ مخالف کی ہے۔ (۱۳)کبھی کہا کہ میں تو مسیح کا صرف مثیل ہوکر آیا ہوں۔ وہ خود بھی آئے گا۔ پھر کہا کہ میں ہی مسیح ہوں اور کوئی نہیں آئے گا۔ غرض حضور کی تصانیف میں دس حوالے اگر آپ ایک طرح کے دکھاسکتے ہیں تو سو ہم دوسری طرح کے۔‘‘ (مسیح موعود نمبر الفرقان ربوہ مئی جون ۱۹۶۵ء ص۴۴)
قادیانی دوست فرمائیں کہ یہ آپ کے مجدد، مہدی، مسیح، نبی کی یہ شان تھی۔ اعمال میں نہیں۔ عقائد واخبار میں بھی تفاوت اقوال ہے۔ کیا عقائد واخبار میں بھی نسخ ہوتا ہے؟
 
آخری تدوین :

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

باب اوّل … تمہیدات خمسہ​

تمہید اوّل​

رفع ونزول مسیح علیہ السلام کا عقیدہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرض منصبی​

الحمد ﷲ وکفٰی وسلام علی عبادہ الذین اصطفٰی۔ اما بعد!
حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت سرزمین عرب میں تین طبقے خصوصیت سے موجود تھے۔ (۱)مشرکین مکہ۔ (۲)نصاریٰ نجران۔ (۳)یہود۔ (خیبر میں)
اب ہمیں دیکھنا ہے کہ قرآن مجید کی رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے کیا فرائض تھے؟
(الف)… چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل کے جو طریق منہاج ابراہیمی کے موافق تھے ان میں تغیر وتبدل نہ ہوا تھا ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور زیادہ استحکام کے ساتھ قائم فرمایا اور جن امور میں تحریف، فساد یا شعائر شرک وکفر مل گئے تھے۔ ان کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی شدت سے علی الاعلان رد فرمایا۔ جن امور کا تعلق عبادات واعمال سے تھا ان کے آداب ورسومات اور مکروہات کو واضح کیا۔ رسومات فاسدہ کی بیخ کنی فرمائی اور طریق ہائے صالحہ کا عمل فرمایا اور جس مسئلۂ شریعت کو پہلی امتوں نے چھوڑ رکھا تھا یا انبیاء سابقہ نے اسے مکمل نہ کیا تھا۔ ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تروتازگی دے کر رائج فرمایا اور کامل ومکمل کر دیا۔
(ب)… اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل مختلف مذاہب کے پیروکاروں میں جن امور پر اختلاف تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لئے فیصل (فیصلہ کرنے والے) اور حکم بن کر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی کتاب قرآن مجید اور اس کی تفسیر (حدیث) کے ذریعے مختلف فیہ امور میں جو فیصلہ صادر ہو جائے وہ حتمی اور اٹل ہے۔ (اس سے روگردانی وانحراف موجب ہلاکت وخسران اور اسے دل سے تسلیم کرنا سعادت مندی اور اقبال بختی کی دلیل ہے) چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ وَمَا اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ اِلَّا لِتُبَیِّنَ لَہُمُ الَّذِی اخْتَلَفُوْا فِیْہِ وَہُدًی وَّرَحْمَۃً لِّقَوْمِ یُّوْمِنُوْنَ (النحل:۶۴) ‘‘ {اور ہم نے اتاری تجھ پر کتاب اسی واسطے کہ کھول کر سنا دے تو ان کو وہ چیز جس میں وہ جھگڑ رہے ہیں اور سیدھی راہ سمجھانے کو اور بخشش واسطے ایمان لانے والوں کے۔}
اب ہم دیکھتے ہیں کہ تینوں طبقات کے کون کون سے عقائد واعمال صحیح یا غلط تھے اور ان کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فیصلہ فرمایا؟

مشرکین مکہ​

۱… شرک میں مبتلا تھے۔ بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ چنانچہ قرآن مجید نے تردید شرک اور اثبات توحید باری تعالیٰ پر جتنا زور دیا ہے اور جس طرح شرک کو بیخ وبن سے اکھاڑا ہے بتوں کی عبادت کی تردید اور ابطال کا قرآن مجید نے جو انداز اختیار کیا ہے کیا کسی آسمانی مذہب یا آسمانی کتاب میں اس کی نظیر پیش کی جاسکتی ہے؟ نہیں اور ہرگز نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح معبودان باطلہ کو للکارا وہ صرف اور صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا حصہ تھا۔
۲… مشرکین مکہ بیت اﷲ کا طواف کرتے تھے۔ یہ عمل ان کا صحیح تھا۔ اسلام نے اس کو نہ صرف قائم رکھا۔ بلکہ زمانۂ نبوت سے تا آبد الآباد اس کو اسلامی عبادت کا بہترین حصہ قرار دیا۔ ’’ وَلْیَطَّوَّفُوْا بِالْبِیْتِ الْعَتِیْقِ (الحج:۲۹) ‘‘ {اور طواف کریں پس قدیم گھر کا۔} طواف امر الٰہی اور حکم ربی ہے۔ ہاں! مشرکین نے طواف میں جو غلط رسوم شامل کر لی تھیں۔ مثلاً وہ ننگے طواف کرتے تھے۔ یہ بیہودہ امر تھا اس کو محو کر دیا۔
۳… مشرکین مکہ حجاج کو ستو پلایا کرتے تھے۔ حجاج کی عزت وتکریم کرتے تھے۔ حجاج کو، بیت اﷲ کے زائرین کو ضیوف اﷲ سمجھتے تھے۔ یہ امر صحیح تھا۔ اس لئے اس کی توثیق فرمائی۔ جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ سِقَایَۃَ الْحَاجِّ (توبہ:۱۹) ‘‘ {حاجیوں کو پانی پلانا۔} اس سے قبل بیت اﷲ الحرام کی تعمیر اور اس میں حاجیوں کو پانی پلانا ذکر فرماکر ان امور خیر کی توثیق فرمائی۔
۴… مشرکین عرب اپنی بچیوں کو زندہ درگور کردیا کرتے تھے۔ ان کا یہ فعل قبیح اور حرام تھا۔ اس سے پیغمبر اسلام نے نہ صرف روکا بلکہ بچیوں کی تربیت کرنے والوں کو جنت کی خوشخبری سے نوازا۔ بچیوں کے قتل پر قرآن مجید میں ارشاد ہے: ’’ وَاِذَا الْمُؤْدَۃُ سُئِلَتْ بِاَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ (تکویر:۸،۹) ‘‘ {اور جب بیٹی زندہ گاڑ دی گئی تو پوچھیں کہ کس گناہ پر وہ ماری گئی۔}
غرض قرآن مجید نے مشرکین کے غلط عقائد ورسوم کو مٹایا اور صحیح کاموں کی توثیق کی اور ان کو اور زیادہ منقح اور مستحکم کیا۔

یہود کے عقائد​

۱… یہود بے بہبود حضرت عزیر علیہ السلام کو ابن اﷲ قرار دیتے تھے۔ ’’ وَقَالَتِ الْیَہُوْدُ عُزَیْرُنِ ابْنُ اللّٰہِ (توبہ:۳۰) ‘‘ {اور یہود نے کہا کہ عزیر اﷲ کا بیٹا ہے۔}
قرآن مجید نے اس کی تردید کی۔ ’ ’تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ ہَدًا۔ اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا۔ وَمَا یَنْبَغِیْ لِلرَّحْمٰنِ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًا (مریم:۹۰تا۹۲) ‘‘ {ابھی آسمان پھٹ پڑیں اس بات سے اور ٹکڑے ہو زمین اور گر پڑیں پہاڑ ڈھے کر اس پر کہ پکارتے ہیں رحمان کے نام پر اولاد اور نہیں پھبتا رحمان کو کہ رکھے اولاد۔}
۲… یہود حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے قتل کا اعتقاد رکھنے اور ’’ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسٰی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰہِ (النساء:۱۵۷) ‘‘ {ہم نے قتل کیا مسیح، عیسیٰ، مریم کے بیٹے کو جو رسول تھا۔} جتنی پختگی سے وہ دعویٰ کرتے تھے اس سے زیادہ زوردار بیان سے قرآن مجید نے ’’ وَمَا قَتَلُوْہُ ‘‘ {اور انہوں نے نہ اس کو مارا۔} کہہ کر قتل مسیح کی مطلق نفی کر کے اس غلط دعویٰ کی تردید فرمائی۔
۳… اور وہ حضرت مریم عذراء علیہا السلام کی پاک دامنی کے خلاف تھے۔ قرآن مجید نے ’’ وَاِذْ قَالَتِ الْمَلٓئِکَۃُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰکِ وَطَہَّرَکِ وَاصْطَفٰکِ عَلٰی نِسَائِ الْعٰلَمِیْن (آل عمران:۴۲) ‘‘ {اور جب فرشتے بولے اے مریم اﷲ نے تجھ کو پسند کیا اور ستھرا بنایا اور پسند کیا تجھ کو سب جہان کی عورتوں پر۔} ’ ’وَاُمُّہٗ صِدِّیْقَۃٌ (مائدہ:۷۵) ‘‘ {اور اس کی ماں ولیہ ہے۔} کہہ کر یہود کے عقیدۂ بد کی تردید فرمائی۔
خود مرزاقادیانی کو بھی اعتراف ہے۔ چنانچہ اس نے لکھا کہ: ’’یہودیوں کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت یہ خیال تھا کہ وہ قتل بھی کئے گئے اور صلیب بھی دئیے گئے۔ بعض یہود کہتے ہیں پہلے قتل کر کے پھر صلیب پر لٹکائے گئے اور بعض کہتے ہیں پہلے صلیب دے کر پھر ان کو قتل کیاگیا۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۷۶، خزائن ج۲۱ ص۳۴۵)
غرض یہود کے ان غلط دعوؤں کو ’’ وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا ‘‘ کے زوردار الفاظ سے ڈنکے کی چوٹ پر قرآن مجید نے نہ صرف رد کیا بلکہ قتل مطلق اور صلب مطلق کی نفی کی تلوار سے ان دعوؤں کو بیخ وبن سے اکھیڑ دیا۔ ’’وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا‘‘ تو ایسا قرآنی بم ہے جس نے یہود کے دعویٰ کو ملیا میٹ اور زمین بوس کر دیا۔

نصاریٰ کے عقائد​

۱… نصاریٰ تثلیث کے قائل تھے۔ ان کا یہ عقیدہ بداہۃً باطل تھا۔ قرآن مجید نے اس کا رد فرمایا۔ ’’ لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْا اِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلٰثَۃ (مائدہ:۷۳) ‘‘ {بے شک کافر ہوئے جنہوں نے کہا اﷲ ہے تین میں کا ایک۔} نیز فرمایا: ’’ وَمَا مِنْ اِلٰہٍ اِلَّا اِلٰہُ وَّاحِدٌ (مائدہ:۷۳) ‘‘ {حالانکہ کوئی معبود نہیں بجز ایک معبود کے۔}
۲… نصاریٰ الوہیت مسیح کے قائل تھے۔ ان کا یہ عقیدہ بھی بداہۃً باطل تھا۔ چنانچہ صراحۃً قرآن مجید نے اس کی تردید فرمائی۔ ’’لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْا اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ (مائدہ:۷۲)‘‘ {بے شک کافر ہوئے جنہوں نے کہا اﷲ وہی مسیح ہے مریم کا بیٹا۔} نیز فرمایا: ’’ مَا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ (مائدہ:۷۵) ‘‘ {نہیں ہے مسیح مریم کا بیٹا مگر رسول۔}
۳… نصاریٰ عیسیٰ بن مریم کو ابن اﷲ قرار دیتے تھے۔ ’’ وَقَالَتِ النَّصَارَی الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰہِ (توبہ:۳۰) ‘‘ {اور نصاریٰ نے کہا مسیح اﷲ کا بیٹا ہے۔}
ان کا یہ عقیدہ بھی بداہۃً باطل تھا۔ قرآن مجید نے صراحتاً اس کی بھی تردید فرمائی۔ ’’ قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌO اللّٰہُ الصَّمَدٌO لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْO وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدْ (سورۃ الاخلاص) ‘‘ {تو کہہ وہ اﷲ ایک ہے اﷲ بے نیاز ہے نہ کسی کو جنا نہ کسی سے جنا گیا اور نہیں اس کے جوڑ کا کوئی۔}
نیز سورۃ مریم کی آیات ۹۰تا۹۲ پہلے گزر چکی ہیں۔ غرض نصاریٰ کے اس (ابنیت مسیح) عقیدہ باطل کی بھی قرآن مجید نے تردید کی۔
۴… نصاریٰ کا عقیدہ تھا کہ مسیح علیہ السلام پھانسی پر چڑھ کر ہمارے گناہوں کا کفارہ ہو گئے۔ ان کے عقیدۂ کفارہ کی بنیاد مسیح علیہ السلام کا صلیب پر چڑھنا تھا۔ قرآن مجید نے اس کی تردید کی ’’ وَمَا صَلَبُوْہُ (النساء:۱۵۷) ‘‘ کہ وہ قطعاً پھانسی پر نہیں چڑھائے گئے تو عقیدہ کفارہ کی بنیاد ہی قرآن مجید نے گرادی کہ جب وہ سرے سے صلیب پر نہیں چڑھائے گئے تو تمہارے گناہوں کا کفارہ کا عقیدہ ہی سرے سے بے بنیاد ہوا۔
چونکہ یہ عقیدہ اصولاً غلط تھا۔ چنانچہ قرآن مجید نے صرف نفی صلیب پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ واقعاتی تردید کے ساتھ ساتھ اصولی اور معقولی تردید بھی کی۔ ’’ وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی (فاطر:۱۸) ‘‘ {اور نہ اٹھائے گا کوئی اٹھانے والا بوجھ دوسرے کا۔}
نیز فرمایا: ’’ فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ (زلزال:۷،۸) ‘‘ {سو جس نے ذرہ بھر بھلائی کی وہ دیکھ لے گا اسے اور جس نے کی ذرہ برابر برائی وہ دیکھ لے گا اسے۔}
مرزاقادیانی کو بھی تسلیم ہے کہ نصاریٰ کا عقیدہ تھا کہ: ’’مسیح عیسائیوں کے گناہ کے لئے کفارہ ہوا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۷۳، خزائن ج۳ ص۲۹۲)
نصاریٰ کا عقیدہ کفارہ غلط تھا۔ قرآن مجید نے بغیر رعایت کے اپنا فرض منصبی ادا کرتے ہوئے اس کی تردید کا علم بلند کیا۔
۵… نصاریٰ کا عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع جسمانی ہوا اور وہ دوبارہ اس دنیا میں واپس تشریف لائیں گے۔ حضرت مسیح کے رفع الیٰ السماء حیات مسیح اور نزول مسیح من السماء کے نصاریٰ قائل تھے اور مرزاغلام احمد قادیانی بھی مانتا ہے کہ: ’’اس خیال پر تمام فرقے نصاریٰ کے متفق ہیں کہ (مسیح علیہ السلام) آسمان کی طرف اٹھائے گئے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۲۴۸، خزائن ج۳ ص۲۲۵)
مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ: ’’ اِنَّ عَقِیْدَۃَ حَیَاتِہٖ قَدْ جَائَ تْ فِیْ الْمُسْلِمِیْنَ مِنَ الْمِلَّۃِ النَّصْرَانِیَ ۃِ‘‘
(الاستفتاء ضمیمہ حقیقت الوحی ص۳۹، خزائن ج۲۲ ص۶۶۰)
(حیات عیسیٰ علیہ السلام کا عقیدہ مسلمانوں میں امت نصاریٰ سے آیا ہے)
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

قادیانیوں سے سوال:۱​

مرزاقادیانی کا یہ کہنا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی حیات کا عقیدہ نصاریٰ قوم کی طرف سے آیا ہے۔ آیا حیات مسیح کا عقیدہ صحیح تھا یا غلط؟ اگر غلط تھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَیُوْشِکَنَّ اَنْ یَّنْزِلَ فِیْکُمْ اِبْنُ مَرْیَمَ (بخاری ج۱ ص۴۹۰) ‘‘ {قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے۔ تحقیق ضرور بالضرور عیسیٰ بیٹا مریم کا تم میں نازل ہوگا۔} ’’ اِنَّ عِیْسٰی لَمْ یَمُتْ وَاِنَّہٗ رَاجِعٌ اِلَیْکُمْ قَبْلَ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ‘‘
(ابن کثیر ج۱ ص۳۶۶، ابن جریر ج۳ ص۲۸۹)
تحقیق عیسیٰ علیہ السلام فوت نہیں ہوئے اور وہی تمہاری (امت محمدیہ کی) طرف واپس لوٹیں گے اور قرآن مجید نے ’’بل رفعہ اللّٰہ الیہ‘‘ میں نصاریٰ کے غلط عقیدے کو قبول کر لیا؟ ۱۱۲؍احادیث صحیحہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، عیسائیوں کے غلط عقیدہ کی ترجمانی کرتے رہے؟ اور چودہ سو سال سے امت مسلمہ اس غلط عقیدہ کی ترجمانی کرتی چلی آرہی ہے؟ قرآن مجید غلط عقائد کی ترجمانی کرتا رہا؟ کیا کوئی بڑے سے بڑا دشمن رسول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتنے بڑے افتراء کی جرأت کر سکتا ہے جو مرزاقادیانی نے کی؟ مرزاقادیانی کے اس الزام کو صحیح مان لیا جائے تو اس حالت میں معاذ اﷲ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عیسائیت کے ترجمان ٹھہریں گے۔ نہ ترجمان حق، خداوند کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر مرزاقادیانی کے اس افتراء کی دنیا کا کوئی قادیانی صفائی دے سکتا ہے؟

اصل صورتحال​

اب ہم اصل صورتحال قارئین کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ واقعتا رفع ونزول مسیح کا عقیدہ مسیحی حضرات کا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے یہ عقیدہ اس قوم میں پایا جاتا تھا۔ مگر چونکہ یہ عقیدہ صحیح تھا۔ عین واقعہ کے مطابق تھا۔ تبھی قرآن مجید کے ذریعہ اﷲ رب العزت نے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عقیدہ کی توثیق فرمائی۔ پھانسی پر چڑھنے، موت کا واقع ہونے اور پھر زندہ ہونے کی باتیں غلط تھیں۔ ان کی ’’ وَمَا قَتَلُوْہُ، وَمَا صَلَبُوْہُ، وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا ‘‘ میں واشگاف الفاظ سے تردید کر دی۔ ہاں! مسیح علیہ السلام کے زندہ اٹھائے جانے اور دوبارہ نازل ہونے کی بات صحیح تھی۔ اس حصہ کی خداتعالیٰ اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے تصدیق وتوثیق فرمائی۔

رفع ونزول مسیح اور انجیل​

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عیسائیوں کا یہ عقیدہ تھا کہ درحقیقت مسیح ابن مریم ہی دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے۔ جیسا کہ خود عیسائی کتب میں ہے۔
۱… ’’غرض خداوند یسوع ان سے کلام کرنے کے بعد آسمان پر اٹھایا گیا۔‘‘ (مرقس باب:۱۶، آیت:۱۹)
۲… ’’ان (حواریوں) سے جدا ہوگیا اور آسمان پر اٹھایا گیا۔‘‘ (لوقا باب:۲۴، آیت:۵۲)
ان دونوں حوالہ جات میں سیدنا مسیح علیہ السلام کے آسمانوں پر رفع کا جس صراحت سے ذکر ہے اس کا اندازہ قارئین خود فرمالیں کہ آیا اس سے زیادہ صراحت ہوسکتی ہے؟ یہ دو حوالہ جات آپ نے رفع کے ملاحظہ کئے۔ اب دو حوالہ جات نزول مسیح علیہ السلام کے بھی ملاحظہ فرمائیں۔
۳… ’’اس وقت ابن آدم کا نشان آسمان پر دکھائی دے گا اور اس وقت زمین کی سب قومیں چھاتی پیٹیں گی اور ابن آدم (عیسیٰ علیہ السلام) کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھیں گی۔‘‘
(متی باب:۲۴، آیت:۳۰)
۴… ’’اس وقت لوگ ابن آدم (عیسیٰ علیہ السلام) کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ بادلوں میں آتے دیکھیں گے۔‘‘ (مرقس باب:۱۳، آیت۲۶)
قارئین! حوالہ نمبر۴ میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا وہ جواب نقل کیا ہے جب آپ کے حواریوں نے پوچھا کہ آپ کا آنا کب ہوگا۔ اس کے جواب میں انہوں نے جو فرمایا وہ آپ حضرات نے ملاحظہ کیا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ مرقس اور متی کے بیان کے تقریباً الفاظ بھی ایک ہیں۔ اب اس سے زیادہ مزے کی بات ملاحظہ ہو۔
۵… ’’ہم کو بتا یہ باتیں کب ہوں گی اور تیرے آنے اور دنیا کے آخیر ہونے کا نشان کیا ہوگا۔ یسوع نے جواب میں ان سے کہا کہ خبردار کوئی تم کو گمراہ نہ کر دے۔ کیونکہ بہتیرے میرے نام سے آئیں گے۔ (مرزاقادیانی وبہاء اﷲ ایرانی) اور کہیں گے کہ میں مسیح ہوں اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیں گے۔‘‘ (متی باب:۲۴، آیت:۳تا۶)
۶… ’’اور بہت سے نبی اٹھ کھڑے ہوں گے اور بہتیروں کو گمراہ کریں گے۔‘‘ (متی باب:۲۴، آیت:۱۱)
۷… قارئین! اب مرقس کا بیان ملاحظہ ہو: ’’اور اگر کوئی تم سے کہے کہ دیکھو مسیح یہاں (قادیان) یا دیکھو وہاں (ایران) ہے تو یقین نہ کرنا۔ کیونکہ جھوٹے مسیح اور جھوٹے نبی اٹھ کھڑے ہوں گے اور نشان اور عجیب کام دیکھائیں گے۔ تاکہ اگر ممکن ہو تو برگزیدوں کو بھی گمراہ کر دیں۔ لیکن تم خبردار رہو۔ دیکھو میں نے تم سے سب کچھ پہلے کہہ دیا ہے۔‘‘
(مرقس باب:۱۳، آیت:۲۲،۲۳)
غرض مسیح علیہ السلام کے رفع ونزول اور جھوٹے مسیحیت کے دعویداروں کے بیان کے ساتھ ثابت ہوا کہ مسیحی کتب اور خود مرزاقادیانی کے اقرار کے بموجب مسیحی قوم رفع ونزول کے عقیدہ کی قائل تھی۔ اگر رفع مسیح کا عقیدہ، نصاریٰ کے دیگر عقائد کی طرح غلط تھا تو جس طرح قرآن مجید نے مسیحیوں کے دیگر غلط عقائد کی تردید کی۔ قرآن مجید اس غلط عقیدہ کی بھی دوٹوک الفاظ میں تردید کرتا۔ وضاحت سے قرآن مجید اور صاحب قرآن محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم ’’ما رفع ولا ینزل‘‘ ارشاد فرماتے۔

قادیانیوں سے سوال:۲​

کیا ساری دنیا کے قادیانی مل کر قرآن مجید اور ذخیرہ احادیث سے ’’ مَارَفَعَہُ اللّٰہُ وَلَا یَنْزِلُ عِیْسٰی بْنُ مَرْیَمَ ‘‘ دکھا سکتے ہیں؟ ہمارا دعویٰ ہے کہ رہتی دنیا تک کوئی قادیانی ہمارے اس مطالبہ کو پورا نہیں کرسکتا۔

حقیقت حال​

پھر جب یہ تسلیم ہے کہ عیسائیوں کا عقیدہ رفع ونزول کا تھا۔ اگر یہ عقیدہ غلط تھا تو قرآن مجید اس کی تردید کرتا۔ اگر تردید نہ کرتا اور صرف سکوت اختیار کر لیا جاتا تو بھی یہ عقیدہ صحیح تسلیم کر لیا جاتا۔ اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی بات یا کوئی کام ہو تو نبوت کا سکوت بھی تسلیم ورضا کی دلیل اور شریعت کا حکم بن جاتا ہے۔ خود مرزاقادیانی کو بھی اس کا اعتراف ہے۔ لکھتا ہے: ’’واقعہ صلیب کے متعلق قرآن کیا کہتا ہے۔ اگر یہ خاموش ہے تو پتہ چلا کہ یہود ونصاریٰ اپنے خیالات میں حق پر ہیں۔‘‘ (ریویو آف ریلیجنز، ش۱ ج۹ ص۴۹ا،۱۵۰)
اب ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ اس سلسلہ میں قرآن حکیم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کیا تعلیم دی؟ یہ ظاہر ہے کہ مسیح کے دوبارہ آنے کا عقیدہ اسلام کا پیدا کردہ نہیں۔ بلکہ مسیح علیہ السلام کا وہ ارشاد اور پیش گوئی ہے جو آپ نے ظالم فریسیوں کے پنجہ میں گرفتار ہونے سے چند روز پیشتر باطلاع خداوندی اپنی قوم کو دی تھی۔ غرض یہ عقیدہ اس زاہد اور مظلوم نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیش گوئی کی بناء پر عیسائیوں میں قائم ہوا اور برابر ظہور نبی صلی اللہ علیہ وسلم (تقریباً چھ سو برس) تک کمال استحکام کے ساتھ عیسائیوں میں چلا آیا اور حضرت مسیح کا بجسدہ العنصری آسمان سے اترنا اور بادلوں پر سے اترتے ہوئے نظر آنا مسیحیوں کا نہایت مسلم عقیدہ رہا۔ اب دیکھنا چاہئے کہ وہ پاک اسلام جس نے ملتہائے متفرقہ کی افراط وتفریط کو دور کر کے صراط مستقیم کو قائم کیا اور ادیان سابقہ کے دروازۂ تحریف کو بند کر کے ابواب تنقیح وتصحیح کو کھولا۔ ہم کو اس عقیدہ رفع ونزول مسیح کے بارے میں کیا تعلیم دیتاہے؟ وہ نبی جس کی شان ہے: ’’ ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیِّنَ رَسُوْلاً مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ (الجمعہ:۲) ‘‘ {وہی ہے جس نے اٹھایا اَن پڑھوں سے ایک رسول انہیں میں پڑھ کر سناتا ہے ان کو ان کی آیتیں اور ان کو سنوارتا ہے اور سکھلاتا ہے ان کو کتاب اور عقلمندی اور اس سے پہلے وہ پڑے ہوئے تھے صریح بھول میں۔} وہ مزکی نبی خداوند کریم کے حکم سے، وحی سے، کافہ اہل عالم کو اس عقیدہ کے بارہ میں کیا کھول کھول کر سناتے ہیں؟ کہ: (۱)مسیح دوبارہ دنیا میں آئیں گے۔ (۲)خدا کی قسم ضرور آئیں گے۔ (۳)اس شان وشوکت کے ساتھ آئیں گے۔ (۴)ایسے زمانہ میں آئیں گے۔ (۵)ایسی جگہ پر آئیں گے۔ (۶)آکر یہ کام کریں گے۔ (۷)اتنا عرصہ دنیا میں زندہ رہیں گے۔ (۸)پھر وفات پائیں گے۔ (۹)میرے ساتھ روضہ طیبہ میں دفن ہوں گے۔ (۱۰)اور قیامت کے دن میرے ساتھ اٹھیں گے۔
حضرت مسیح علیہ السلام کی وہ مختصر پیش گوئی جس کی کیفیت مسیحیوں میں بہت کچھ اجمالی تھی۔ اس کی شرح وتفسیر، تفصیل وتوضیح رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی فرمائی کہ جس سے بڑھ کر تشریح وتفصیل ممکن ہی نہیں۔ دوسو نو علامات رفع ونزول سے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائیں۔ (علامات قیامت ونزول مسیح ص۱۷۳)
اﷲ رب العزت فرماتے ہیں: ’’ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی (النجم:۳،۴) ‘‘ {اور نہیں بولتا اپنے نفس کی خواہش سے یہ تو حکم ہے بھیجا ہوا۔}
لیکن ان تمام توضیحات واعلان قرآنی کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ آج ایک ایسے عقیدہ کو مشتہر کیا جارہا ہے کہ مسیح نہیں آئیں گے جس مسیح کے آنے کا انتظار ہے۔ اس کے آنے سے درحقیقت ایک شخص کا پیدا ہونا ہے جو اپنی ذات میں کمالات مسیح کو لئے ہوئے ہو تو یہ دیکھ کر سوال پیدا ہوتا ہے کہ انجیل میں تحریف ہونا ممکن (اس لفظی ومعنوی تحریف کی ہمارے علماء کرام نے تصریح بھی کی) اس پیش گوئی (رفع ونزول) میں تحریف وتفسیر یا من گھڑت ہونا انجیل میں شامل کیا جانا۔ ہمارے نزدیک ممکن الوقوع۔ لیکن کیا یہی محرف ومبدل، غیر اسلامی وغیرسماوی عقیدہ مسلمانوں میں، اسلام میں، حضور علیہ السلام کی زبان مقدسہ سے، قرآن مجید کی آیت ’’بَلْ رَفَعَہُ اللّٰہُ‘‘ سے شامل ہوگیا۔ کیا یہ قرین قیاس ہے؟
۱… وہ رسول جن کو ’’ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسٰلَتَہٗ (مائدہ:۶۷) ‘‘ {اے رسول پہنچا دے جو تجھ پر اترا تیرے رب کی طرف سے اور اگر ایسا نہ کیا تو تو نے کچھ نہ پہنچایا اس کا پیغام۔} کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیاگیا۔
۲… جس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نشانی بتائی گئی: ’ ’یٰاَہْلَ الْکِتٰبَ قَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ کَثِیْرًا مِّمَّا کُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْکِتٰبِ (مائدہ:۱۵) ‘‘ {اے کتاب والو تحقیق آیا ہے۔ تمہارے پاس رسول ہمارا ظاہر کرتا ہے تم پر بہت سی چیزیں جن کو تم چھپاتے تھے کتاب میں سے۔}
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
۳… یا وہ رسول ’’ وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُوا الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (بقرہ:۴۲) ‘‘ {اور مت ملاؤ صحیح میں غلط اور مت چھپاؤ سچ کو جان بوجھ کر۔} کہہ کر اہل کتاب کو جھٹلاتے تھے۔ وہ نبی خود معاذ اﷲ ان پر معاملہ مشتبہ ہوگیا؟ وہ تلبس کا شکار ہوگئے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے جن علامات کو اپنی پیشین گوئی میں بیان نہ کیا تھا ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجود اصل واقعہ کے موضوع ہونے کے شامل عقائد کر لیا؟ اور وہ عقائد جو مرزاقادیانی کے نزدیک شرک تک پہنچتے ہیں اسلام میں داخل ہوگئے اور وہ بھی نبوت کی زبان سے؟ اے بدباطن خبردار؟ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی جناب میں یہ بیہودہ خیال نہ کر، معصوم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں تہمت نہ تراش، چاند پہ تھوکنا اپنے منہ پر تھوکنا ہے اور آفتاب پہ غبار ڈالنا اپنی آنکھوں کو خاک آلودہ کرنا ہے۔ ’’حذر کن‘‘
مرزاقادیانی نے اپنی کتاب (ازالہ اوہام ص۵۵۷، خزائن ج۳ ص۴۰۰) پر لکھا ہے کہ: ’’پس کمال درجہ کی بے نصیبی اور بھاری غلطی ہے کہ یک لخت تمام حدیثوں کو ساقط الاعتبار سمجھ لیں اور ایسی متواتر پیشین گوئیوں کو جو خیرالقرون میں ہی تمام ممالک اسلام میں پھیل گئی تھیں اور مسلمات میں سے سمجھی گئی تھیں بمد موضوعات داخل کر دیں۔ یہ بات پوشیدہ نہیں کہ مسیح ابن مریم کے آنے کی پیشین گوئی ایک اوّل درجہ کی پیشین گوئی ہے جس کو سب نے بالاتفاق قبول کر لیا ہے اور جس قدر صحاح میں پیشین گوئیاں لکھی گئی ہیں۔ کوئی پیشین گوئی اس کے ہم پہلو اور ہم وزن ثابت نہیں ہوتی۔ تواتر کا اوّل درجہ اس کو حاصل ہے۔ انجیل بھی اس کی مصدق ہے۔ اب اس قدر ثبوت پر پانی پھیرنا اور یہ کہنا کہ یہ تمام حدیثیں موضوع ہیں۔ درحقیقت ان لوگوں کا کام ہے جن کو خداتعالیٰ نے بصیرت دینی اور حق شناسی سے کچھ بھی بخرہ اور حصہ نہیں دیا اور بباعث اس کے کہ ان لوگوں کے دلوں میں ’ ’قَالَ اللّٰہُ ‘‘ اور ’’ قَالَ الرَّسُوْلُ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ کی عظمت باقی نہیں رہی۔ اس لئے جو بات ان کی اپنی سمجھ سے بالاتر ہو اس کو محالات اور ممتنعات میں داخل کر لیتے ہیں۔‘‘
اوّل درجہ کی پیشین گوئی جس کو تواتر کا درجہ حاصل ہے کے متعلق مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ ’’متواترات کا انکار کرنا گویا اسلام کا انکار کرنا ہے۔‘‘ (کتاب البریہ ص۸۸، خزائن ج۱۳ ص۲۰۶)
اور پھر (ایام الصلح ص۷۲، خزائن ج۱۴ ص۲۹۸) پر لکھا ہے کہ: ’’ہمیں اس بات کو اوّل درجہ کی دلیل قرار دینا چاہئے کہ ایک قوم باوجود ہزاروں اور لاکھوں اپنے افراد کے پھر ایک بات پر متفق ہو۔‘‘ اسی طرح (ازالہ اوہام ص۵۵۶، خزائن ج۳ ص۳۹۹) پر لکھا ہے کہ: ’’تواتر ایک ایسی چیز ہے کہ اگر غیرقوموں کی تواریخ کی رو سے بھی پایا جائے تو تب بھی ہمیں قبول کرنا ہی پڑتا ہے۔‘‘
عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے تشریف لانے کو اوّل درجہ کی پیشین گوئی قرار دے کر شرک قرار دینا کتنا بڑا شاخسانہ ہے۔ جیسا کہ اس نے اپنی کتاب (الاستفتاء ص۳۹، خزائن ج۲۲ ص۶۶۰) پر لکھا ہے کہ: ’’ فَمِنْ سُوْئِ الْاَدَبِ اَنْ یُّقَالَ اِنَّ عِیْسٰی مَامَاتَ وَاِنْ ہُوََ اِلَّاشِرْکٌ عَظِیْمٌ ‘‘
اور پھر لطف یہ کہ اقرار کرتا ہے کہ: ’’میرا بھی یہی اعتقاد تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۴۹، خزائن ج۲۲ ص۱۵۲)
گویا یہ خود مثیل مسیح بننے سے پہلے مشرک رہا اور اب مسیح علیہ السلام کا دوبارہ آنا جو انجیل کی تعلیم سے مسیحیوں کا عقیدہ ہے۔ اس کا طلسم صرف اتنی اظہار حقیقت سے ٹوٹ سکتا ہے کہ اس کے مثیل کا دنیا میں پیدا ہونا مان لیا جائے۔ جب کہ مرزاقادیانی خود لکھتا ہے کہ: ’’میں نے صرف مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور میرا یہ بھی ایمان نہیں کہ صرف مثیل مسیح
ہونا میرے پر ہی ختم ہو گیا ہے۔ بلکہ میرے نزدیک ممکن ہے کہ آئندہ زمانوں میں میرے جیسے اور بھی دس ہزار مثیل مسیح آجائیں… کسی زمانہ میں ایسا مسیح بھی آجائے جس پر حدیثوں کے بعض ظاہری الفاظ صادق آسکیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۹۰، خزائن ج۳ ص۱۹۲)
اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ: ’’اوّل تو یہ جاننا چاہئے کہ مسیح علیہ السلام کے نزول کا عقیدہ کوئی ایسا عقیدہ نہیں ہے جو ہمارے ایمانیات کی کوئی جزو ہو یا ہمارے دین کے رکنوں میں سے کوئی رکن ہو۔ بلکہ صدہا پیشین گوئیوں میں سے یہ ایک پیشین گوئی ہے جس کو حقیقت اسلام سے کچھ بھی تعلق نہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۱۴۰، خزائن ج۳ ص۱۷۱)
یہ بھی یاد رہے کہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ: ’’اس عاجز نے جو مثیل موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے جس کو کم فہم لوگ مسیح موعود خیال کر بیٹھے ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۱۹۰، خزائن ج۳ ص۱۹۲)
۱… مسیح ابن مریم کے رفع اور نزول کو اوّل درجہ کی پیشین گوئی قرار دینا۔
۲… قرآن وانجیل کی تصدیق شدہ ہونا قرار دینا۔
۳… تواتر کا درجہ اس کے لئے ماننا۔
۴… غیرقوموں کے تواتر کو بھی حجت ماننا۔
۵… تواتر کے انکار کو کفر قرار دینا۔
۶… پھر حیات عیسیٰ علیہ السلام کے عقیدے کو شرک قرار دینا۔
۷… اسے صدہا پیشین گوئیوں میں سے ایک پیشین گوئی قرار دینا۔ جس کا حقیقت اسلام سے کچھ تعلق نہیں۔
۸… پھر مثیل مسیح علیہ السلام ہونے کا دعویٰ کرنا۔
۹… جو اسے مسیح موعود سمجھے اسے کم فہم قرار دینا۔
۱۰… پھر دس ہزار مثیل مسیح کا آنا ماننا۔
۱۱… پھر ایسے مثیل مسیح کا آنا ماننا جس پہ حدیث کے ظاہری الفاظ بھی صادق آ سکیں۔
ان تمام مندرجہ بالا نتائج کو سامنے رکھ کر سوائے اس کے کیا کہا جاسکتا ہے کہ ؎
تف بر تواے چرخ گردوں تف
یا پھر ؎
ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہئے
کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسائیوں کو یہ نہ فرمایا کہ تم مجاز کو حقیقت سمجھتے ہو اور مسیح علیہ السلام کی دقیق تعلیم کو نہیں سمجھتے جس مسیح علیہ السلام کا تم انتظار کرتے ہو وہ تو میرے امتیوں میں سے ایک امتی ہوگا بلکہ اس کے علی الرغم یہود ونصاریٰ کے دو بڑے گروہوں میں رب کریم نے حکم بن کر ’’ اِنَّہٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌ وَّمَا ہُوَ بِالْہَزْلِ (الطارق:۱۳،۱۴) ‘‘ کی شان کو دکھلایا ہے اور دونوں گروہوں کے معتقدات میں سے جو حصہ درست اور صحیح تھا اسے درست وصحیح کہا اور جو حصہ غلطی یا کفر وشرک سے بھرا ہوا تھا اسے غلط وباطل فرمایا۔ پس ایسی حالت میں فریقین متنازعین کے درمیان فیصلہ صادر کیا جائے۔ کون عقلمند یہ تجویز کر سکتا ہے کہ اس فیصلہ میں اصل حقیقت اس لئے ظاہر نہیں کی گئی کہ فلاں تیسرا شخص بھی اس حقیقت سے واقف نہ ہو جائے۔
یاد رکھو کہ قرآن مجید اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانہ کے موجودہ مذاہب کے لوگوں میں جن مسائل میں وہ اختلاف میں پڑے ہوئے تھے خوب کھول کھول کر فیصلے سنائے۔ پھر اعتقادات وایمانیات میں سے فروگزاشت کیا کرنی تھی۔ نصاریٰ کہتے ہیں کہ ابن مریم علیہ السلام دنیا پر پھر آئے گا، بادشاہت کرے گا جب کہ یہود کہتے ہیں کہ وہ مر گیا۔ کبھی مردہ بھی پھر آیا ہے؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کا بیان سن لیں اور ارشاد فرمائیں کہ ہاں! ابن مریم علیہ السلام ضرور آئے گا، اور قوانین اسلام پر چلے گا تو ان بیانات پر کیا سمجھا جاتا ہے کہ وہی ابن مریم علیہ السلام جس کے بارے میں جھگڑا تھا یا کوئی اور؟ اگر یہ عیسائیوں کا گھڑاہوا عقیدہ تھا تو عیسیٰ علیہ السلام ایک نبی کی پیشین گوئی کو دوسرے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے چیستان بنادیا اور بھی پیچیدہ کر دیا۔ نہ پہلے نے حق رسالت ادا کیا اور نہ دوسرے نے حق تبلیغ؟ جس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’ جَائَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوْقًا ‘‘ پڑھ کر سنایا۔ جس نے اہل کتاب کو راست بازی اور انصاف سے ملزم ٹھہرایا۔ جس نے یہود ونصاریٰ کو ان کے افعال ملعونہ پر شرمایا۔ موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کی آسمانی تعلیمات کو نفسانی تاویلات سے علیحدہ کر کے دکھلایا۔ اب اس نئی روشنی کے زمانہ میں اس نبی کی نسبت مرزاقادیانی یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ اس نے بھی ہم کو دھوکہ میں رکھا اور جس مسیح کی مسیحی انتظار کر رہے تھے اسی انتظار کی مصیبت میں اپنی امت کو بھی شریک کر دیا۔ (معاذ اﷲ) کیا نبی علیہ السلام نے ایسے ناقص المعانی الفاظ کا استعمال کیا اور مغلق پیرایہ اختیار فرمایا۔ لفظی ومعنوی الجھنوں کو کام میں لائے کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان صحبت سے مستفید ہونے والے صحابی مقصود محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو صحیح نہ سمجھ سکے اور نہ امت، وارثان علم نبوت، آج تک اسے سمجھ سکی۔ کیا آج تک اس سے بھی بڑا کفر چودہ سو سال میں کسی کے خیال وذہن میں آیا ہے جس کا مرزاقادیانی مرتکب ہورہاہے؟
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

تمہید دوم​

نزول مسیح علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جلالت شان​

اﷲ رب العزت نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جلالت شان کی سیادت وقیادت کو صرف مسلمانوں تک محدود نہ رکھا بلکہ ایک خرق عادت امر کا ظہور مقدر فرمایا جس کے سامنے موافق ومخالف، مسلمان واہل کتاب کو خوشی یا ناگواری سے سرتسلیم خم کرنا ہوگا۔ جب حق وباطل کی فیصلہ کن گھڑی آن پہنچے گی۔ اس وقت بنی اسرائیل کے خاتم حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کو خاتم مطلق وسید برحق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب اور امت محمدیہ کا قائد بنا کر نہایت اکرام واجلال کے ساتھ آسمان سے زمین پر بھیجا جائے گا۔ یہودیت ومسیحیت تمام ادیان وملل کا خاتمہ ہوگا۔ اسلام کا چہار سو عالم غلغلہ بلند ہوگا۔ سیدنا مسیح علیہ السلام یہ سب کچھ اپنے نام سے نہیں بلکہ اپنے آقا وسید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے سرانجام دیں گے۔ جن کے آپ نائب بنا کر بھیجے جائیں گے۔ وہ انجیل کی طرف نہیں قرآن وسنت کی طرف مخلوق خدا کو بلائیں گے جو مقدس وجود نہایت اکرام کے ساتھ آسمانوں پر اٹھایا گیا۔ وہ وجود آج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی سربلندی اور آئین محمدی کی اتباع کو فخر سمجھ کر نزول فرمائیں۔ سبحان اﷲ! وہ کیسا منظر قابل فخر ہوگا کہ بنی اسرائیل کے خاتم آنحضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت وسیادت کا علم لئے ہوں گے۔ ذرا ایمان ووجدان کی نظروں سے اس کا تصور ذہن میں لائیے۔ جب ایک جلیل القدر نبی ورسول، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں صف باندھے کھڑا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سروری وسرداری کی علیٰ رؤس الاشہاد گواہی دے رہا ہوگا۔
وہ منظر اتنا جاذب اور ایمان افروز ہوگا جس کی اہمیت کی طرف خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی امت کو متوجہ فرمایا۔ ’’ کَیْفَ اَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ فِیْکُمْ اِبْنُ مَرْیَمَ (بخاری ومسلم) ‘‘ فرمایا اس وقت تمہاری خوشی کا کیا عالم ہوگا جب عیسیٰ بیٹا مریم علیہ السلام کا تم میں نازل ہوگا۔ افسوس امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں مسیحیت ویہودیت کے ایجنٹ، سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا انکار کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس جلالت شان کو دنیا پر ظاہر نہیں ہونے دیتے۔ قادیانی گروہ دجال کی نمائندگی کر کے، سیدنا مسیح علیہ السلام کی وفات کا پروپیگنڈہ کر کے، خود مسیح بن کر، جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جلالت شان کے اظہار میں روڑے اٹکاتا ہے۔ وہاں وہ سیدنا مسیح علیہ السلام کے ہاتھوں دجال کو قتل سے بچانے کے لئے کوشاں ہے۔ لیکن ذات باری تعالیٰ کے ارادہ وحکم کے سامنے نہ آج تک کسی فرعون ودجال کی تدبیر چلی نہ آئندہ چلے گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جلالت شان علی رؤس الاشہاد ظاہر وباہر ہوگی اور ضرور ہوگی۔ رب کریم ایسا ضرور فرمائیں گے۔ ہم نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ اَنْ یَّنْزِلَ فِیْکُمْ اِبْنُ مَرْیَمَ (بخاری، مسلم) ‘‘ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی) جان ہے۔ ضرور عیسیٰ بیٹا مریم کا تم میں نازل ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قسمیہ وحلفیہ اعلان کو جو شخص پس پشت ڈالتا ہے وہ ارادۂ خداوندی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جلالت شان کاانکاری ہے۔ پس ثابت ہوا کہ مسیح علیہ السلام کے نزول میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جلالت شان کے وقوع میں آنے کا دراصل وہ وقت عیسائیت کے لئے اتنا خفت وذلت کا باعث ہوگا کہ جس ذات کو اپنا معبود والہ مانتے ہیں۔ وہ خود اسلام کا نمائندہ بن کر ان مسیحیوں کو داخل اسلام کر رہا ہوگا۔ اس کے سفید فام آقاؤں کو ذلت سے بچانے کے لئے قادیانی حیات ونزول کا منکر ہو رہا ہے۔ خود مسیح بن کر سفید فام آقاؤں کی غلامی کا دم بھر رہا ہے۔ پس مسیح علیہ السلام کے نزول سے انکار کا باعث یہی وہ امر ہے جس کی مرزاقادیانی کو رعایت مقصود ہے۔ (فافہم)
مسلمانو! ہوشیار رہو۔ ان سفید فام انگریزوں کے چیلوں کی باتوں میں نہ آؤ۔ مسیح علیہ السلام کے نزول کو ہونے دو۔ ان کا نام ہی، مسیحیت ویہودیت، دجال زمان ودجال قادیان کے کفر کا جانا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب اعظم (سیدنا مسیح علیہ السلام) کی حیات میں کفر کی موت ہے۔ ’’ یُہْلِکُ اللّٰہُ فِیْ زَمَانِہِ الْمِلَلَ کُلَّہَا اِلَّا الْاِسْلَامُ ‘‘ ان کی آمد پرتمام ملتیں نیست ونابود ہو جائیں گی۔ ان کی آمد سے کل عالم پر اسلام کا غلبہ ہوگا۔
’’ ہُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ (القرآن) ‘‘ کا ایک بار پھر زمین وآسمان والے ایسا مسحور کن نظارہ دیکھیں گے کہ کل عالم مرحبا مرحبا کی صداؤں سے معمور ومخمور ہو جائے گا۔ ’’ اَللّٰہُمَّ انْصُرْ مَنْ نَصَرَ دِیْنَ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم وَاجْعَلْنَا مِنْہُمْ ‘‘
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

تمہید سوم​

امکان رفع کی بحث​

سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے رفع ونزول پر بحث سے قبل یہ دیکھنا چاہئے کہ آیا ’’امکان رفع‘‘ ہے؟ قرآن وسنت اور واقعات عالم پر نظر دوڑائیں کہ اس کی کوئی مثال ہے؟ کیا کبھی ایسے ہوا؟ واقعات سے اگر ثابت ہو جائے کہ رفع کا امکان ہے۔ ایک ثابت شدہ واقعہ کا انکار یا حقیقت واقعہ کا انکار سوائے احمقوں کے اور کوئی نہیں کیا کرتا۔ اس بحث سے ہم قادیانی عقائد کو نہیں لیتے کہ وہ ان سب واقعات کے انکاری محض اس لئے ہیں کہ ان واقعات کے اقرار سے رفع ونزول کی اگر مثال قائم ہوگئی، تو مسیح علیہ السلام کے رفع ونزول کا انکار بے معنی ہوکر رہ جائے گا۔ جس سے ان کے خود ساختہ مسیح کے دجل وکذب، افتراء وتلبیس کی پوری عمارت دھڑام سے گر پڑے گی۔ اس لئے وہ ان واقعات سے انکاری ہیں۔
ہم یہاں صرف مسلمانوں کے ایمان کی تازگی کے لئے قرآن وسنت وتاریخ وسوانح کے حوالہ سے، ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ رفع ونزول کے نظائر موجود ہیں۔ جن سے امکان رفع نہیں بلکہ وقوع رفع ثابت ہوتا ہے۔
دربیان امکان رفع جسمانی
مرزاقادیانی اور ان کی جماعت کا دعویٰ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر نہیں اٹھائے گئے بلکہ وفات پاکر مدفون ہوچکے اور دلیل یہ ہے کہ: ’’کسی جسم عنصری کا آسمان پر جانا محال ہے۔‘‘ جیسا کہ (ازالہ اوہام ص۴۷، خزائن ج۳ ص۱۲۶) پر ہے۔
جواب نمبر:۱… یہ ہے کہ جس طرح نبی اکرم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد اطہر کے ساتھ لیلۃ المعراج میں جانا اور پھر وہاں سے واپس آنا حق ہے۔ اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام کا بجسدہ العنصری آسمان پر اٹھایا جانا اور پھر قیامت کے قریب ان کا آسمان سے نازل ہونا بھی بلاشبہ حق اور ثابت ہے۔
جواب نمبر:۲… جس طرح آدم علیہ السلام کا آسمان سے زمین کی طرف ہبوط ہوا ہے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے زمین کی طرف نزول بھی ممکن ہے۔ ’’ اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ‘‘
جواب نمبر:۳… جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم بن ابی طالب کا فرشتوں کے ساتھ آسمانوں میں اڑنا صحیح اور قوی حدیثوں سے ثابت ہے۔ اسی وجہ سے ان کوجعفر طیار کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ ’’ اَخْرَجَ الطِّبْرَانِیُّ بِاِسْنَادٍ حَسَنٍ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ہَنِیْأً لَکَ اَبُوْکَ یَطِیْرُ مَعَ الْمَلَائِکَۃِ فِی السَّمَائِ ‘‘ امام طبرانی نے باسناد حسن عبداﷲ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم بیٹے جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے روایت کیا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایک بار یہ ارشاد فرمایا کہ اے جعفر کے بیٹے عبداﷲ تجھ کو مبارک ہو تیرا باپ فرشتوں کے ساتھ آسمانوں میں اڑتا پھرتا ہے (اور ایک روایت میں یہ ہے کہ جعفر جبرائیل ومیکائیل کے ساتھ اڑتا پھرتا ہے۔ ان ہاتھوں کے عوض میں جو غزوۂ موتہ میں کٹ گئے تھے اﷲتعالیٰ نے ان کو ملائکہ کی طرح دو بازو عطاء فرمادئیے ہیں) اور اس روایت کی سند نہایت جید اور عمدہ ہے۔
(الترغیب ج۲ ص۲۸۷، حدیث:۲۰۳۵، جامع الاحادیث ج۱۱ ص۲۷۹ حدیث:۳۳۴۸۹، زرقانی ص۲۷۵ ج۲، فتح الباری ج۷ ص۷۶)
اور حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کا اس بارے میں ایک شعر ہے ؎
وجعفرِ الَّذِی یضْحی و یَمْسِیْ یطیر مَع الملائکۃ ابنَ اُمّی
(وہ جعفر کہ جو صبح وشام فرشتوں کے ساتھ اڑتا ہے وہ میری ہی ماں کا بیٹا ہے)
جواب نمبر:۴… عامر بن فہیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کا غزوۂ بیر معونہ میں شہید ہونا اور پھر ان کے جنازہ کا آسمان پر اٹھایا جانا روایات میں مذکور ہے۔ جیسا کہ حافظ عسقلانی نے (اصابہ ج۲ ص۲۵۶، القسم الاوّل حرف العین) میں اور حافظ ابن عبدالبر نے (استیعاب ج۲ ص۳۴۵) میں علامہ زرقانی نے (شرح مواہب ج۲ ص۷۸) میں ذکر کیا ہے۔ جبار بن سلمیٰ جو عامر بن فہیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کے قاتل تھے۔ وہ اسی واقعہ کو دیکھ کر ضحاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم بن سفیان کلابی کی خدمت میں حاضر ہوکر مشرف باسلام ہوئے اوریہ کہا: ’’ دعانِی الی الاسلام مَا رایتُ مِنْ مَقَتَل عَامر بن فہیرۃ وَمن رَفعہ الی السمائِ ‘‘ عامر بن فہیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کا شہید ہونا اور ان کا آسمان پر اٹھایا جانا میرے اسلام لانے کا باعث بنا۔ عامر ابن فہیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم حضرت عائشہt کے ماں کی طرف سے بھائی طفیل بن صخرا کے غلام تھے۔ ہجرت کی شب یہی عامر ابن فہیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو غارثور پر بکریاں چراتے چراتے لے جا کر دودھ دیا کرتے تھے۔ عامر ابن فہیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم بیر معونہ کے واقعہ میں قتل ہوئے۔ بخاری شریف میں ہشام ابن عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے روایت ہے کہ: ’’ فقال لقد رأیتہٗ بعد ما قتل رفع الی السمآء حتی انی لا نظر الی السما بینہ وبین الارض ثم وضع فاتی النبی صلی اللہ علیہ وسلم خبرہم (بخاری ج۲ ص۵۸۷، باب غزوۃ الرحیع وبیرمعونہ) ‘‘
ضحاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم نے یہ تمام واقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت بابرکت میں لکھ کر بھیجا۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’فان الملائکۃ وارت جثتہ وانزل فی علیین‘‘ ’’فرشتوں نے اس کے جثہ کو چھپا لیا اور وہ علییّن میں اتارے گئے۔‘‘
ضحاک ابن سفیان کے اس تمام واقعہ کو امام بیہقی اور ابونعیم اصفہانی دونوں نے اپنی اپنی ’’دلائل النبوۃ‘‘ میں بیان کیا۔ (شرح الصدور فی احوال الموتی والقبور للعلامۃ السیوطی ص۲۵۷، طبع بیروت ودلائل النبوۃ للبیہقی ج۳ ص۳۵۳)
اور حافظ عسقلانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے (اصابہ ج۱ ص۲۲۰، القسم الاوّل حرف الجیم) میں جبار بن سلمیٰ کے تذکرہ میں اس واقعہ کی طرف اجمالاً اشارہ فرمایا ہے۔
شیخ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ تعالیٰ (شرح الصدور ص۲۵۸) میں فرماتے ہیں کہ عامر بن فہیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کے آسمان پر اٹھائے جانے کے واقعہ کو ابن سعد ج۳ ص۱۷۴ نمبر۴۹ اور حاکم اور موسیٰ بن عقبہ نے بھی روایت کیا ہے۔ غرض یہ کہ یہ واقعہ متعدد اسانید اور مختلف روایات سے ثابت اور محقق ہے۔
جواب نمبر:۵… ’’ واقعہ رجیع، رجیع اسمہ لموضع من بلاد ہذیل کانت الواقعہ بالقرب منہ فی صفر سنۃ اربع ‘‘ (حاشیہ بخاری ج۲ ص۵۸۵)
واقعہ رجیع میں جب قریش نے خبیب بن عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کو سولی پر لٹکایا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کو خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی نعش اتار لانے کے لئے روانہ فرمایا۔ عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم بن امیہ وہاں پہنچے اور خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی نعش کو اتارا۔ دفعۃً ایک دھماکہ سنائی دیا۔ پیچھے پھر کر دیکھا تو اتنی دیر میں نعش غائب ہوگئی۔ عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم بن امیہ فرماتے ہیں گویا زمین نے ان کو نگل لیا۔ اب تک اس کا کوئی نشان نہیں ملا۔ اس روایت کو امام ابن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے۔
(زرقانی شرح مواہب ج۲ ص۷۳)
شیخ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کو زمین نے نگلا! اسی وجہ سے ان کا لقب ’’بلیغ الارض‘‘ ہوگیا اور ابونعیم اصفہانی فرماتے ہیں کہ صحیح یہ ہے کہ عامر بن فہیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی طرح خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کو بھی فرشتے آسمان پر اٹھالے گئے۔ ابونعیم کہتے ہیں کہ جس طرح حق تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا اسی طرح رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے عامر بن فہیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم اور خبیب بن عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم اور علاء بن حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کو آسمان پر اٹھایا۔ انتہی!
جواب نمبر:۶… ’’ ومما یقوی قصۃ الرفع الی السماء ما اخرجہ النسائی والبیہقی والطبرانی وغیرہم من حدیث جابر بن طلحۃ اصیبت انا ملُہٗ یَوْمَ احدٍ فقال حِسِّ، فقال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم لو قلت بسم اللّٰہ لرفعتک الملائکۃ والناسُ یَنْظَرُوْنَ الیکَ حَتّٰی تلج بک فی جَوْ السمائِ ‘‘ (شرح الصدور ص۲۵۸، نسائی ج۶ ص۳۳۶، حدیث:۳۱۴۹)
شیخ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ عامر بن فہیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم اور خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کے واقعۂ رفع الیٰ السماء کی وہ واقعہ بھی تائید کرتا ہے جس کو نسائی اور بیہقی اور طبرانی نے جابر بن عبداﷲ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے روایت کیا ہے کہ غزوۂ احد میں حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی انگلیاں زخمی ہوگئیں تو اس تکلیف کی حالت میں زبان سے ’’حس‘‘ یہ لفظ نکلا۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تو بجائے حس کے بسم اﷲ کہتا تو لوگ دیکھتے ہوئے ہوتے اور فرشتے تجھ کو اٹھا کر لے جاتے۔ یہاں تک کہ تجھ کو آسمان میں لے کر گھس جاتے۔
جواب نمبر:۷… علماء انبیاء کے وارث ہوتے ہیں۔ اولیاء کا الہام وکرامت انبیاء کرام علیہم السلام کی وحی اور معجزات کی وراثت ہے۔
’’ واخرج ابن ابی الدنیا فی ذکر الموتی عن زید بن اسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم قال کان فی بنی اسرائیل رجل قد اعتزل الناس فی کہف جبل وکان اَہَلْ زمانِہٖ اذا قحطُوْا استغَاثَوْا بِہٖ فدعی اللّٰہ فسقاہُمْ فَمَاتَ فاخذوا فی جہازہ بینہم کَذَلِکَ اِذاہَمَّ بسریر فرفع فی، عنان السماء حتی انتہی الیہ فقام رجل فاخذہ فوضعہ علی السریر والناس لینظرون الیہ فی الہواء حتی غَابَ عَنْہُمْ ‘‘ (شرح الصدور ص۲۵۷)
’’ابن ابی الدنیا نے ذکر الموتی میں زید بن اسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے روایت کیا ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک عابد تھا کہ جو پہاڑ کی غار میں رہتا تھا جب قحط ہوتا تو لوگ اس سے بارش کی دعا کراتے وہ دعا کرتا اﷲتعالیٰ اس کی دعا کی برکت سے باران رحمت نازل فرماتا۔ اس عابد کا انتقال ہوگیا۔ لوگ اس کی تجہیز وتکفین میں مشغول تھے۔ اچانک ایک تخت آسمان سے اترتا ہوا نظر آیا۔ یہاں تک کہ اس عابد کے قریب آکر رکھا گیا۔ ایک شخص نے کھڑے ہوکر اس عابد کو اس تخت پر رکھ دیا۔ اس کے بعد وہ تخت اوپر اٹھتا گیا۔ لوگ دیکھتے رہے یہاں تک کہ وہ غائب ہوگیا۔‘‘
جواب نمبر:۸… اور حضرت ہارون علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جنازہ کا آسمان پر اٹھایا جانا اور پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے آسمان سے زمین پر اتر آنا ’’مستدرک حاکم‘‘ میں مفصل مذکور ہے۔ (مستدرک ج۲ ص۵۷۹)
جواب نمبر:۹… حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر آسمان سے مائدہ کا نازل ہونا قرآن کریم میں صراحۃً مذکور ہے۔ ’’ کما قال تعالٰی اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ہَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّکَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآئِ (الٰی قولہ تعالٰی) قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ اللّٰہُمَّ رَبَّنَا اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآئِ تَکُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَاٰخِرِنَا وَاٰیَۃً مِّنْکَ وَارْزُقْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الرَّازِقِیْنَP قَالَ اللّٰہُ اِنِّیْ مُنَزِّلُہَا عَلَیْکُمْ (مائدہ:۱۱۴،۱۱۵) ‘‘
جواب نمبر:۱۰… سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے لئے من وسلویٰ آسمانوں سے اترا تھا۔ اس کے لئے (ان تمام کروں سے) آنا قرآن سے ثابت ہے۔ پس کھانا انبیاء علیہم السلام کے اجساد سے زیادہ مادی جسم ہے۔ کھانے کی نسبت انبیاء علیہم السلام کا وجود زیادہ لطیف بلکہ الطف ہے۔ اگر مادی جسم آسمانوں سے آنا محال نہیں تو ان سے لطیف بلکہ الطف اجساد کا آنا کیوں کر محال ہے؟
مقصد ان واقعات عشرہ کے نقل کرنے سے یہ ہے کہ منکرین اور ملحدین خوب سمجھ لیں کہ حق جل شانہ نے اپنے محبیّن اور مخلصین کی اس خاص طریقہ سے بارہا تائید فرمائی کہ ان کو صحیح وسالم فرشتوں کے ذریعے آسمانوں پر اٹھوا لیا اور دشمن دیکھتے ہی رہ گئے تاکہ اس کی قدرت کاملہ کا ایک نشان اور کرشمہ ظاہر ہو اور اس کے نیک بندوں کی کرامت اور منکرین معجزات وکرامات کی رسوائی وذلت آشکارا ہو اور اس قسم کے خوارق کا ظہور مومنین اور مصدقین کے لئے موجب طمانیت اور مکذبین کے لئے اتمام حجت کا کام دے۔
ان واقعات سے یہ امر بھی بخوبی ثابت ہوگیا کہ کسی جسم عنصری کا آسمان پر اٹھایا جانا نہ قانون قدرت کے خلاف ہے نہ سنت اﷲ کے متصادم ہے۔ بلکہ ایسی حالت میں سنت اﷲ یہی ہے کہ اپنے خاص بندوں کو آسمان پر اٹھا لیا جائے تاکہ اس ’’ملیک مقتدر‘‘ کی قدرت کا کرشمہ ظاہر ہو اور لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ حق تعالیٰ کی اپنے خاص الخاص بندوں کے ساتھ یہی سنت ہے کہ ایسے وقت میں ان کو آسمان پر اٹھا لیتا ہے۔ غرض یہ کہ کسی جسم عنصری کا آسمان پر اٹھایا جانا قطعاً محال نہیں بلکہ ممکن اور واقع ہے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

تمہید چہارم​

رفع الی السماء اور نزول من السماء الی الارض کی حکمت​

۱… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع اور نزول کی حکمت علماء نے یہ بیان کی ہے کہ یہود کا یہ دعویٰ تھا کہ ہم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کر دیا۔ ’’ کما قال تعالٰی وقَوْلِہِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰ ہِ‘‘ اور دجال جو اخیر زمانہ میں ظاہر ہوگا وہ بھی قوم یہود سے ہوگا اور یہود اس کے متبع اور پیرو ہوں گے۔ اس لئے حق تعالیٰ نے اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پر اٹھایا اور قیامت کے قریب آسمان سے نازل ہوں گے اور دجال کو قتل کریں گے تاکہ خوب واضح ہو جائے کہ جس ذات کی نسبت یہود یہ کہتے تھے کہ ہم نے اس کو قتل کر دیا وہ سب غلط ہے۔ ان کو اﷲتعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے زندہ آسمان پر اٹھایا اور اتنے زمانہ تک ان کو زندہ رکھا اور پھر تمہارے قتل اور بربادی کے لئے اتارا تاکہ سب کو معلوم ہو جائے کہ تم جن کے قتل کے مدعی تھے ان کو قتل نہیں کر سکے۔ بلکہ ان کو اﷲتعالیٰ نے تمہارے قتل کے لئے نازل کیا اور یہ حکمت (فتح الباری باب نزول عیسیٰ ج۱۰ ص۳۵۷) پر مذکور ہے۔
۲… حضرت عیسیٰ علیہ السلام ملک شام سے آسمان پر اٹھائے گئے تھے اور ملک شام ہی میں نزول ہوگا تاکہ اس ملک کو فتح فرمائیں۔ جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے چند سال بعد فتح مکہ کے لئے تشریف لائے۔ اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام نے شام سے آسمان کی طرف ہجرت فرمائی اور وفات سے کچھ عرصہ پہلے شام کو فتح کرنے کے لئے آسمان سے نازل ہوں گے اور یہود کا استیصال فرمائیں گے اور نازل ہونے کے بعد صلیب کا توڑنا بھی اسی طرف اشارہ ہوگا کہ یہود اور نصاریٰ کا یہ اعتقاد کہ مسیح بن مریم علیہا السلام صلیب پر چڑھائے گئے بالکل غلط ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام تو اﷲتعالیٰ کی حفاظت میں تھے۔ اسی لئے نازل ہونے کے بعد صلیب کا نام ونشان بھی نہ چھوڑیں گے۔
۳… اور بعض علماء نے یہ حکمت بیان فرمائی ہے کہ حق تعالیٰ نے تمام انبیاء سے یہ عہد لیا تھا کہ اگر تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پاؤ تو ان پر ضرور ایمان لانا اور ان کی ضرور مدد کرنا۔ ’’ کما قال تعالٰی لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ ‘‘
اور انبیاء بنی اسرائیل کا سلسلہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ختم ہوتا تھا۔ اس لئے حق تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا تاکہ جس وقت دجال ظاہر ہو اس وقت آپ آسمان سے نازل ہوں اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی مدد فرمائیں۔
کیونکہ جس وقت دجال ظاہر ہوگا وہ وقت امت محمدیہ پر سخت مصیبت کا وقت ہوگا اور امت شدید امداد کی محتاج ہوگی۔ اس لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس وقت نازل ہوں گے تاکہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت واعانت کا جو وعدہ تمام انبیاء کر چکے ہیں۔ وہ وعدہ اپنی طرف سے اصالۃً اور باقی انبیاء کی طرف سے وکالۃً ایفاء فرمائیں۔ ’’ فافہم ذلک فانہ لطیف ‘‘
۴… اور بعض علماء نے یہ حکمت بیان فرمائی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب انجیل میں نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے اوصاف دیکھے تو حق تعالیٰ سے یہ دعا فرمائی کہ مجھے بھی امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کر دیجئے۔ حق تعالیٰ نے ان کی یہ دعا قبول فرمائی اور ان کو آخر زمانہ تک باقی رکھا اور قیامت کے قریب دین اسلام کے لئے ایک مجدد کی حیثیت سے تشریف لائیں گے تاکہ قیامت کے نزدیک ان کا حشر امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمرہ میں ہو۔ ’’ وَاللّٰہُ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی اَعْلَمُ ‘‘

تمہید پنجم​

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع ونزول کے متعلق چند مختصر اور منصفانہ گزارشات​

۱… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع ونزول بے شک عالم کے عام دستور کے خلاف ہے۔ لیکن ذرا اس پر بھی تو غور فرمائیے کہ ان کی ولادت کیا عالم کے عام دستور کے موافق ہے؟ بایں ہمہ اس اعجازی ولادت کا ذکر خود قرآن کریم نے فرمایا ہے۔ پھر ان کا نزول عالم کے درمیانی واقعات میں سے نہیں بلکہ عالم کی تخریب کے علامات میں شمار ہے اور تخریب عالم یعنی قیامت کی بڑی علامات میں سے ایک علامت بھی ایسی نہیں جو عالم کے عام دستور کے موافق ہو۔ لہٰذا اگر ان کے نزول کو قیاس کرنا ہی ہے تو عالم کے تعمیری دور کی بجائے اس کے تخریبی دور پر قیاس کرنا چاہئے۔
۲… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کا مسئلہ صرف عام انسانوں کی موت پر قیاس کر کے طے کر دینا صحیح نہیں۔ کیونکہ عام انسانوں کی حیات وموت سے مذہبی عقیدہ کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ وہ صرف ظن وتخمین سے بھی طے کیاجاسکتا ہے۔ اس کے برخلاف اس اولوالعزم رسول کی موت وحیات کا مسئلہ ہے۔ اس سے مذہبی عقیدے کا تعلق ہے۔ مزید برآں یہاں ایک طرف کتاب وسنت کی تصریحات، دوسری طرف نصاریٰ کی مذہبی تاریخ ان کی حیات کی گواہی بھی دے رہی ہے۔ اس لئے اس کو صرف قیاس سے کیسے طے کیا جاسکتا ہے۔
۳… یہ بات بہت زیادہ غور کرنے کے قابل ہے کہ دنیا میں پہلے بہت سے رسول گزرچکے ہیں۔ بلکہ ان میں سے بعض وہ بھی ہیں جن کو یہود ملعون نے قتل کیا ہے۔ مگر کیا ان کی موت میں کسی متنفس کو بھی اختلاف ہے۔ پھر خاص حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی کے معاملہ میں بات کیا ہے کہ ان کی موت وحیات میں آج تک ان کی امت کو بھی اختلاف ہے۔ کیا اس سے یہ نتیجہ برآمد نہیں ہوتا کہ ان کی موت کا معاملہ ضرور دوسروں سے کچھ مختلف ہے۔
۴… لغت عرب میں موت کے لئے ایک صریح لفظ ’’موت‘‘ کا موجود ہے۔ پس اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت واقع ہوچکی تھی تو کیا وجہ ہے کہ ان کے معاملہ میں قرآن کریم نے اس صریح لفظ کو کہیں استعمال نہیں فرمایا تاکہ ایک طرف ان کی موت کا مسئلہ طے ہوجاتا اور دوسری طرف ان کی الوہیت کا افسانہ بھی باطل ہوجاتا۔
۵… یہ کتنی تعجب کی بات ہے کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت واقع ہوچکی تھی تو آج تک ان کی قبر کیسے لاپتہ رہی۔ جبکہ ان کی امت میں ان کے موافق اور مخالف دونوں فریق کسی انقطاع کے بغیر مسلسل چلے آرہے ہیں۔ دیکھئے اس امت میں نہ معلوم کتنے اولیاء اﷲ گزر چکے ہیں۔ جن کی وفات کو بڑی بڑی مدتیں گزرچکی ہیں۔ مگر ان کی قبروں کا لاپتہ ہونا تو درکنار اب تک وہ زندہ یادگاریں بنی ہوئی ہیں۔ پھر یہ کیسے قرین قیاس ہے کہ نصاریٰ کی اس فرط عقیدت کے باوجود ان کی قبر لاپتہ ہوجاتی۔
۶… ہم ہرگز اس امر کے مجاز نہیں کہ کسی اولوالعزم رسول کی اپنی جانب سے کوئی ایسی جدید تاریخ بناڈالیں جو اس کے موافق ومخالف میں سے کسی کو بھی مسلم نہ ہو اور نہ اس کے لئے کوئی اور خارجی قطعی ثبوت موجود ہو۔ مثلاً یہ کہنا کہ عیسیٰ علیہ السلام سولی دئیے گئے۔ مگر وہ اس پر مرے نہیں بلکہ کشمیر جاکر مدتوں کے بعد اپنی موت سے مرگئے ہیں۔ یہ ان کی ایک ایسی جدید تاریخ ہے جس کا دنیا میں کوئی بھی قائل نہیں اور نہ اس کے لئے خارجی کوئی قطعی شہادت موجود ہے۔
۷… اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ سلف صالحین کے دور میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق یہی عقیدہ تھا کہ وہ وفات پاچکے ہیں تو پھر تاریخی طور پر یہ ثابت کرنا ہوگا کہ مسلمانوں میں ان کی حیات کا عقیدہ کب سے پیدا ہوا۔ یہ واضح رہنا چاہئے کہ نزول کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سب کے نزدیک بالاتفاق ثابت ہے۔ جو موت کہ متنازع فیہ ہے وہ ان کی گزشتہ موت ہے۔ پس اگرکسی کے قلم سے موت کا لفظ نکلا بھی ہو تو جب تک یہ بھی ثابت نہ کیا جائے کہ وہ ان کی گزشتہ موت کا قائل ہے اور آیت نزول کا منکر ہے۔ اس وقت تک صرف موت کا لفظ پیش کرنا باکل بے سود ہے۔
۸… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معاملہ میں قرآنی آیتوں کی تفسیر صرف لغت کی مدد سے کرنی صحیح نہیں۔ بلکہ اس پر بھی نظر رکھنی لازم ہے کہ یہاں مدعیین کے بیانات کیا نقل کئے گئے ہیں؟ اور ان کے معاملہ کی پوری روئیداد کیا ہے؟ پھر جو قرآنی فیصلہ ہے وہ بھی اسی روشنی میں دیکھنا چاہئے۔
۹… قرآن کریم پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معاملہ میں اصل لفظ جو قابل بحث ہے وہ ’’رفع‘‘ کا ہے۔ اس لئے اس نے اسی لفظ کو اپنے فیصلہ میں لیا ہے اور اسی پر زور دیا ہے اور توفیٰ کا لفظ اپنے فیصلہ میں لیا ہی نہیں۔ یعنی ’’ وماقتلوہ یقینا بل رفعہ اﷲ الیہ ‘‘ فرمایا ہے اور ’’ بل توفاہ اﷲ ‘‘ نہیں فرمایا۔
۱۰… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معاملہ میں زیر بحث ان کا جسم ہی تھا۔ یہود اس کے قتل کے مدعی تھے اور نصاریٰ اس کے رفع کے قائل تھے۔ روح کا معاملہ نہ زیر بحث تھا۔ نہ یہ معاملہ زیر بحث آنے کے قابل تھا۔ ظاہر ہے کہ روح کا معاملہ ایک غیبی اور پوشیدہ معاملہ ہے۔ اس پر کوئی حجت قائم نہیں کی جاسکتی۔ نیز جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت ابھی ثابت ہی نہیں ہے تو ان کی روح زیر بحث آہی نہیں سکتی۔ اس کے علاوہ جب رفع روحانی میں عام مؤمنین بھی شریک ہوسکتے ہیں تو انبیاء علیہم السلام کے متعلق اس میں شبہ ہی کیا ہوسکتا ہے۔
۱۱… یہ بات بڑی اہمیت کے ساتھ غور کرنے کے قابل ہے کہ جب دوسرے انبیاء علیہم السلام کا مقتول ہونا قرآن کریم نے خود تسلیم کرلیا ہے۔ حالانکہ ان کے قاتلین بھی وہی یہود تھے جو یہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کے مدعی ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اگر کسی کے مقتول ہونے سے اس کے رفع روحانی میں شبہ پیدا ہوسکتا تھا تو قرآن کریم نے ان کے رفع روحانی کی تصریح نہیں کی اور خاص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں یہ تصریح کرنی کیوں ضروری سمجھی ہے۔ حالانکہ دیگر انبیاء علیہم السلام کے قتل سے بھی ان کا مقصد ان کے رفع روحانی کا انکار کرنا تھا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کسی کا مقتول ہوجانا اس کے لعنتی ہونے کا ہرگز ثبوت نہیں بن سکتا۔ ورنہ دوسرے مقتول انبیاء علیہم السلام کا لعنتی ہونا ماننا پڑے گا۔ والعیاذباﷲ!
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
۱۲… یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جب یہود نے :’’اناقتلنا‘‘ کہا (یعنی ہم نے ان کو یقینا قتل کرڈالا ہے) تو قرآن کریم نے ان کی تردید میں دوبار :’’وماقتلوہ‘‘ فرمایا (یعنی ہرگز ان کو قتل نہیں کیا) لیکن جب عیسائیوں نے: ’’ان عیسیٰ رفع‘‘ کہا (یعنی عیسیٰ علیہ السلام اٹھالئے گئے) تو اس نے ایک بار بھی :’’ومارفع‘‘ نہیں کہا (یعنی ہرگز نہیں اٹھائے گئے) بلکہ: ’’بل رفعہ اللّٰہ الیہ‘‘کہہ کر ان کی اور تائید فرمادی۔ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اتنی بات میں یعنی ان کے رفع کے بارے میں نصاریٰ کا عقیدہ درست تھا۔
۱۳… قرآن کریم سے کہیں معلوم نہیں ہوتا کہ اہل کتاب نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا مقدمہ کبھی آپ کے سامنے پیش کیا تھا۔ بلکہ ان کے نزدیک وہ پیش کرنے کے قابل ہی نہ تھا۔ ظاہر ہے کہ جو فریق ان کے قتل کا یقین رکھتا ہو وہ ان کے نزول کی بحث ہی کیا کرسکتا تھا۔ ہاں جو فریق ان کے رفع جسمانی کا مدعی تھا وہ لازمی طور پر ان کے نزول کا بھی قائل تھا۔ پس براہ راست ان کے نزول کا مسئلہ نہ ان کے نزدیک قابل بحث تھا نہ ان کے نزدیک۔ لہٰذا جب اس وقت یہ مسئلہ زیر بحث ہی نہ تھا تو قرآن کریم اس صریح لفظ کے ساتھ اس پر بحث کیسے کرتا۔ اس لئے یہ خیال کتنا غلط ہے کہ قرآن کریم میں چونکہ نزول کا صریح لفظ کہیں موجود نہیں۔ اس لئے ان کا نزول قابل تسلیم نہیں۔ جی ہاں رفع کا لفظ جہاں موجود تھا۔ کیا آپ نے اس کو مان لیا؟
۱۴… قرآن کریم اور حدیث پر سرسری نظر ڈالنے سے ہم کو یہ ثابت ہوتا ہے کہ جہاں قرآن کریم کسی خاص مقصد سے بحث کا ایک پہلو لے لیتا ہے۔ وہاں حدیث فوراً اس کا دوسرا پہلو اپنے بیان میں لے لیتی ہے اور اس طرح اس کے دونوں پہلو سامنے آجاتے ہیں اور درحقیقت حدیث کے بیان ہونے کا بھی منشاء یہی ہے۔ اسی اصول کے مطابق چونکہ یہاں قرآن کریم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع کا پہلو لے لیا تھا۔ اس لئے حدیث نے اس کا دوسرا پہلو یعنی نزول کا لے لیا ہے اور اس کو اتنا روشن کیا ہے۔ اس کی اتنی تفصیلات بیان کی ہیں اور اس کو اتنا پھیلایا ہے کہ اس کے بعد قرآن کریم میں رفع سے جسمانی رفع کے سوا روحانی رفع کا احتمال ہی باقی نہیں رہتا۔ ظاہر ہے کہ حدیثوں میں جو تفصیلات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی مذکور ہیں۔ ان میں جسمانی نزول کے سوا دور کا بھی کوئی دوسرا احتمال نہیں۔ لہٰذا ماننا پڑتا ہے کہ جو شخص اپنے جسم کے ساتھ اترے گا وہ ضرور اپنے جسم ہی کے ساتھ اٹھایا گیا تھا اور اس طرح اب آپ جتنا قرآنی رفع کو حدیثی نزول اور حدیثی نزول کو قرآنی رفع کے ساتھ ملا ملا کر پڑھتے جائیں گے اتنا ہی آپ پر یہ روشن ہوتا چلا جائے گا کہ جو شخص جسم کے ساتھ اترے گا وہ ضرور اپنے جسم ہی کے ساتھ اٹھایا گیا تھا اور جو جسم کے ساتھ اٹھایا گیا تھا وہ ضرور اپنے جسم ہی کے ساتھ اترے گا۔
۱۵… یہ سوال بھی کتنا عجیب ہے کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے جسم ہی کے ساتھ نازل ہوں گے تو کیا لوگ ان کو اپنی آنکھوں سے اترتا ہوابھی دیکھیں گے۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ سوال ان کے آسمان پر جانے کے متعلق ہوسکتا ہے تو اترنے کے متعلق بھی ہوسکتا ہے۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہوگی جیسا یہ کہا جائے کہ اگر عرش بلقیس کا حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس آنا تسلیم کرلیا جائے تو کیا اس کو لوگوں نے اڑتا ہوا بھی دیکھا تھا؟ یا مثلاً اگر شق القمر کا معجزہ تسلیم کیا جائے تو کیا اس کو دوٹکڑے ہوکر اس کا پھرمل جانا عام لوگوں نے بھی دیکھا تھا۔ پس جو حیثیت اس سوال کی ان ثابت شدہ مقامات میں ہوگی وہی حیثیت اس کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معاملہ میں سمجھنی چاہئے۔
۱۶… یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ جب کوئی واقعہ اپنے دلائل کے ساتھ ثابت ہوجاتا ہے تو اس میں ضمنی اختلافات کا پیدا ہوجانا اس کی واقعیت پر ذرا اثرانداز نہیں ہوتا۔ آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف میں بھی اختلافات منقول ہیں۔ مگر اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات میں کوئی ادنیٰ شبہ پیدا ہوسکتا ہے؟ پھر یہ کتنی ناانصافی ہے کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں راویوں نے بعض غیر متعلق باتوں میں اختلاف کیا ہے تو اس کی وجہ سے ایک متفق علیہ واقعہ کا بھی انکار کردیاجائے۔ کیا نماز کی ہیئت یا زکوٰۃ یا روزے اور حج کی روایات میں اختلاف نہیں؟ پھر کیا اس کی وجہ سے ان کے ثبوت بلکہ ان کی رکنیت میں کسی مسلمان کو ادنیٰ شبہ ہے؟
۱۷… دین اسلام کا یہ بھی ایک طرۂ امتیاز ہے کہ اس کے بیانات میں غیر متعارف مجازات اور نامانوس استعارات کا کہیں استعمال نہیں ہوا اور درحقیقت ایک آخری دین کی یہی صفت ہونی بھی چاہئے۔ اس کے برخلاف یہود ونصاریٰ ہیں جن کے ہاں بات بات میں استعارات حتیٰ کہ توحید جوکہ اصول دین میں داخل ہے۔ اس میں بھی مجاز واستعارہ کا دخل موجود ہے۔
۱۸… صریح الفاظ کی تاویل کرنی کبھی مبارک نہیں ہوئی۔ اسی منحوس عادت کی بدولت یہودونصاریٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق صریح پیشگوئیوں کے منکر ہوگئے اور اسی کی بدولت یہود نے پہلی بار حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مسیح ہدایت ہونے کا انکار کیا اور آخر میں ان کی بجائے دجال کی تصدیق کریں گے۔ یعنی ان کو مسیح ہدایت مانیں گے۔ لہٰذا اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس صاف پیش گوئی میں پھروہی تاویل کی راہ اختیار کی گئی تو وہ بھی ہرگز مبارک نہیں ہوگی اور اس کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ جب مسیح برحق نازل ہوں تو ان کا انکار کردیا جائے اور اگر بالفرض ان صریح بیانات کی تاویل کرنی بھی درست ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ یہودونصاریٰ آپ کی آمد کی پیش گوئیوں میں تاویل کرنے میں معذور نہ ٹھہرائے جائیں۔ فاعتبروا یآاولی الابصار !
۱۹… آخر میں یہ تنبیہ کرنی ضروری ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معاملہ میں ان کی حیات ووفات پر بحث کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ کیونکہ مسلمان اگر ان کی حیات کے قائل ہیں تو وہ صرف ان کی عام حیات کے قائل نہیں بلکہ اس حیات کے قائل ہیں جو رفع کے بعد اس وقت بھی آسمانوں میں ان کو حاصل ہے۔ اسی طرح یہود اگر ان کی موت کے قائل ہیں تو وہ بھی ان کی عام موت کے قائل نہیں ہیں۔ بلکہ اس موت کے قائل ہیں جو خود ان کے فعل سے واقع ہوئی ہے۔ اب اگر آپ ان کی حیات وموت کو رفع وقتل کی بحث سے الگ کرکے دیکھیں تو پھر خود انصاف فرمائیے کہ اس کی اہمیت کیا رہ جاتی ہے۔ جس بات سے ان کی حیات وموت کی اہمیت پیدا ہوتی ہے۔ وہ صرف ان کے رفع وقتل کا مسئلہ ہے۔ اس لئے یہاں حیات ووفات کو اصل موضوع بنائے رکھنا بالکل ایک عبث مشغلہ ہے اور اسی طرح اس کی جواب دہی میں مصروف رہنا بھی اضاعت وقت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے ان کے رفع وقتل ہی کو موضوع بحث بنایا ہے اور صرف حیات وموت کو بحث کے قابل نہیں سمجھا۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

باب دوم … حیات عیسیٰ علیہ السلام پر قرآنی دلائل​

حیات عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پہلی دلیل​

’’ قَالَ اللّٰہُ عَزِّوَجَلّ فَبِمَا نَقْضِہِمْ مِیْثَاقَہُمْ وَکُفْرِہِمْ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَقَتْلِہِمُ الْاَنْبِیَآئَ بِغَیْرِ حَقٍّ وَّقَوْلِہِمْ قُلُوْبُنَا غُلْفٌط بَلْ طَبَعَ اللّٰہُ عَلَیْہَا بِکُفْرِہِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًاP وَّبِکُفْرِہِمْ وَقَوْلِہِمْ عَلٰی مَرْیَمَ بُہْتَانًا عَظِیْمًاP وَّقَوْلِہِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰہِج وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَہُمْط وَاِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُط مَا لَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّج وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًاP بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِط وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًاP (نساء:۱۵۵تا۱۵۸) ‘‘
’’ان کو جو سزا ملی سو ان کی عہد شکنی پر اور منکر ہونے پر اﷲ کی آیتوں سے، اور خون کرنے پر پیغمبروں کا ناحق، اور اس کہنے پر کہ ہمارے دل پر غلاف ہے سو یہ نہیں بلکہ اﷲ نے مہر کر دی ان کے دل پر کفر کے سبب، سو ایمان نہیں لاتے مگر کم، اور ان کے کفر پر اور مریم پر بڑا طوفان باندھنے پر اور ان کے اس کہنے پر کہ ہم نے قتل کیا مسیح عیسیٰ مریم کے بیٹے کو جو رسول تھا اﷲ کا اور انہوں نے نہ اس کو مارا اور نہ سولی پر چڑھایا لیکن وہی صورت بن گئی ان کے آگے، اور جو لوگ اس میں مختلف باتیں کرتے ہیں تو وہ لوگ اس جگہ شبہ میں پڑے ہوئے ہیں۔ کچھ نہیں ان کو اس کی خبر صرف اٹکل پر چل رہے ہیں، اور اس کو قتل نہیں کیا بے شک بلکہ اس کو اٹھا لیا اﷲ نے اپنی طرف اور اﷲ ہے زبردست حکمت والا۔‘‘ (ترجمہ شیخ الہند)
فائدہ: اﷲتعالیٰ ان کے قول کی تکذیب فرماتا ہے کہ یہودیوں نے نہ عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کیا نہ سولی پر چڑھایا یہود جو مختلف باتیں اس بارہ میں کہتے ہیں اپنی اپنی اٹکل سے کہتے ہیں۔ اﷲ نے ان کو شبہ میں ڈال دیا۔ خبر کسی کو بھی نہیں۔ واقعی بات یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا اور اﷲتعالیٰ سب چیزوں پر قادر ہے اور اس کے ہر کام میں حکمت ہے۔ قصہ یہ ہوا کہ جب یہودیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کے قتل کا عزم کیا تو پہلے ایک آدمی ان کے گھر میں داخل ہوا۔ حق تعالیٰ نے ان کو تو آسمان پر اٹھا لیا اور اس شخص کی صورت حضرت مسیح علیہ السلام کی صورت کے مشابہ کر دی جب باقی لوگ گھر میں گھسے تو اس کو مسیح سمجھ کر قتل کر دیا۔ پھر خیال آیا تو کہنے لگے کہ اس کا چہرہ تو مسیح کے چہرہ کے مشابہ ہے اور باقی بدن ہمارے ساتھی کا معلوم ہوتاہے۔ کسی نے کہا کہ یہ مقتول مسیح ہے تو وہ آدمی کہاں گیا اور ہمارا آدمی ہے تو مسیح کہاں ہے۔ اب صرف اٹکل سے کسی نے کچھ کہا کسی نے کچھ کہا۔ علم کسی کو بھی نہیں حق یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہرگز مقتول نہیں ہوئے بلکہ آسمان پر اﷲ نے اٹھالیا اور یہود کو شبہ میں ڈال دیا۔ (تفسیر عثمانی)
(ربط) حق جل شانہ نے ان آیات شریفہ میں یہود بے بہبود کے ملعون اور مغضوب اور مطرود ومردود ہونے کے کچھ وجوہ واسباب ذکر کئے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ پس ہم نے یہود کو متعدد وجوہ کی بناء پر مورد لعنت وغضب بنایا۔ (۱)نقض عہد کی وجہ سے۔ (۲)اور آیات الٰہی کی تکذیب اور انکار کی وجہ سے۔ (۳)اور خدا کے پیغمبروں کو بے وجہ محض عناد اور دشمنی کی بناء پر قتل کرنے کی وجہ سے۔ (۴)اور اس قسم کے متکبرانہ کلمات کی وجہ سے کہ مثلاً ہمارے قلوب علم اور حکمت کے ظرف ہیں۔ ہمیں تمہاری ہدایت اور ارشاد کی ضرورت نہیں۔ ان کے قلوب علم اور حکمت اور رشد وہدایت سے اس لئے بالکل خالی ہیں کہ اﷲ نے ان کے عناد اور تکبر کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے۔ جس کی وجہ سے قلوب میں جہالت اور ضلالت بند ہے۔ اوپر سے مہر لگی ہوئی ہے۔ اندر کا کفر باہر نہیں آسکتا اور باہر سے کوئی رشد اور ہدایت کا اثر اندر نہیں داخل ہوسکتا۔ (پس اس گروہ میں سے کوئی ایمان لانے والا نہیں مگر کوئی شاذ ونادر جیسے عبداﷲ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم بن سلام اور ان کے رفقاء) (۵)اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کفر وعداوت کی وجہ سے۔ (۶)اور حضرت مریم علیہ السلام پر عظیم بہتان لگانے کی وجہ سے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اہانت اور تکذیب کو بھی مستلزم ہے۔ اہانت تو اس لئے کہ کسی کی والدہ کو زانیہ اور بدکار کہنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ شخص ولد الزنا ہے اور العیاذ باﷲ نبی کے حق میں ایسا تصور بھی بدترین کفر ہے اور تکذیب اس طرح لازم آتی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے معجزہ سے حضرت مریم علیہا السلام کی برأت اور نزاہت ثابت ہوچکی ہے اور تہمت لگانا برأت اور نزاہت کا صاف انکار کرنا ہے۔ (۷)اور ان کے اس قول کی وجہ سے کہ جو بطور تفاخر کہتے تھے کہ ہم نے مسیح بن مریم جو رسول اﷲ ہونے کے مدعی تھے ان کو قتل کر ڈالا۔ نبی کا قتل کرنا بھی کفر ہے بلکہ ارادۂ قتل بھی کفر ہے اور پھر اس قتل پر فخر کرنا یہ اس سے بڑھ کر کفر ہے اور حالانکہ ان کا یہ قول کہ ہم نے مسیح بن مریم کو قتل کر ڈالا۔ بالکل غلط ہے ان لوگوں نے نہ ان کو قتل کیا اور نہ سولی چڑھایا۔ لیکن ان کو اشتباہ ہوگیا اور جو لوگ حضرت مسیح کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں وہ سب شک اور تردد میں پڑے ہوئے ہیں اور ان کے پاس کسی قسم کا کوئی صحیح علم اور صحیح معرفت نہیں۔ سوائے گمان کی پیروی کے کچھ بھی نہیں۔ خوب سمجھ لیں کہ امر قطعی اور یقینی ہے کہ حضرت مسیح کو کسی نے قتل نہیں کیا بلکہ اﷲتعالیٰ نے ان کو اپنی طرف یعنی آسمان پر اٹھا لیا اور ایک اور شخص کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا شبیہ اور ہم شکل بنا دیا اور حضرت عیسیٰ سمجھ کر اسی کو قتل کیا اور صلیب پر چڑھایا اور اسی وجہ سے یہود کو اشتباہ ہوا اور پھر اس اشتباہ کی وجہ سے اختلاف ہوا اور یہ سب اﷲ کی قدرت اور حکمت سے کوئی بعید نہیں۔ بے شک اﷲتعالیٰ بڑے غالب اور حکمت والے ہیں کہ اپنی قدرت اور حکمت سے نبی کو دشمنوں سے بچا لیا اور زندہ آسمان پر اٹھایا اور ان کی جگہ ایک شخص کو ان کے ہم شکل بناکر قتل کرایا اور تمام قاتلین کو قیامت تک اشتباہ اور اختلاف میں ڈال دیا۔
یہ آیات شریفہ حضرت مسیح علیہ السلام کے رفع جسمی میں نص صریح ہیں۔
۱… ان آیات میں یہود بے بہبود پر لعنت کے اسباب کو ذکر فرمایا ہے۔ ان میں ایک سبب یہ ہے: ’’ وَقَوْلِہِمْ عَلٰی مَرْیَمَ بُہْتَانًا عَظِیْمًا ‘‘ یعنی حضرت مریم علیہا السلام پر طوفان اور بہتان لگانا۔ اس طوفان اور بہتان عظیم میں مرزاقادیانی کا قدم یہود سے کہیں آگے ہے۔ مرزاقادیانی نے اپنی کتابوں میں حضرت مریم علیہا السلام پر جو بہتان کا طوفان برپا کیا ہے یہود کی کتابوں میں اس کا چالیسواں حصہ بھی نہ ملے گا۔
۲… آیات کا سیاق وسباق بلکہ سارا قرآن روز روشن کی طرح اس امر کی شہادت دے رہا ہے کہ یہود بے بہبود کی ملعونیت اور مغضوبیت کا اصل سبب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عداوت اور دشمنی ہے۔ مرزاقادیانی اور مرزائی جماعت کی زبان اور قلم سے حضرت مسیح علیہ السلام کے بغض اور عداوت کا جو منظر دنیا نے دیکھا ہے وہ یہود کے وہم وگمان سے بالا اور برتر ہے۔ مرزاقادیانی کے لفظ لفظ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دشمنی ٹپکتی ہے۔ ’’ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآئُ مِنْ اَفْوَاہِہِمْ وَمَا تُخْفِیْ صُدُوْرُہُمْ اَکْبَرُ (اٰل عمران:۱۱۸) ‘‘ انتہائی بغض اور عداوت خود بخود ان کے منہ سے ظاہر ہورہی ہے اور جو عداوت ان کے سینوں میں مخفی اور پوشیدہ ہے وہ تمہارے خواب وخیال سے بھی کہیں زیادہ ہے۔
مرزاقادیانی نے نصاریٰ کے الزام کے بہانہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں اپنے دل کی عداوت دل کھول کر نکالی جس کے تصور سے بھی کلیجہ شق ہوتا ہے۔
۳… پہلی آیت میں ’’ وَقَتْلِہِمُ الْاَنْبِیَآئَ بِغَیْرِ حَقٍّ ‘‘ فرمایا۔ یعنی انبیاء کو قتل کرنے کی وجہ سے ملعون اور مغضوب ہوئے اور اس آیت میں: ’’ وَقَوْلِہِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ ‘‘ فرمایا۔ یعنی اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح کو قتل کر ڈالا۔ معلوم ہوا کہ محض قول ہی قول ہے اور قتل کا محض زبانی دعویٰ ہے۔ اگر دیگر انبیاء کی طرح حضرت مسیح واقع میں مقتول ہوئے تھے تو جس طرح پہلی آیت میں ’’ وَقَتْلِہِمُ الْاَنْبِیَائِ ‘‘ فرمایا تھا اسی طرح اس آیت میں: ’’ وقتلہم وصلبہم المسیح عیسٰی ابن مریم رسول اللّٰہ ‘‘ فرماتے۔ پہلی آیت میں لعنت کا سبب قتل انبیاء ذکر فرمایا اور دوسری آیت میں لعنت کا یہ سبب ان کا ایک قول بتلایا۔ یعنی ان کا یہ کہنا کہ ہم نے مسیح عیسیٰ ابن مریم کو قتل کر ڈالا۔ معلوم ہوا کہ جو شخص یہ کہے کہ مسیح ابن مریم مقتول اور مصلوب ہوئے وہ شخص بلاشبہ ملعون اور مغضوب ہے۔ نیز اس آیت میں حضرت مسیح کے دعویٰ قتل کو بیان کر کے ’’ بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰ ہُ‘‘ فرمایا اور انبیاء سابقین کے قتل کو بیان کر کے ’’ بل رفعہم اللّٰ ہ‘‘ نہیں فرمایا۔ حالانکہ قتل کے بعد ان کی ارواح طیبہ آسمان پر اٹھائی گئیں۔ ثابت ہوا کہ مسیح کے رفع جسمانی کا بیان ہے نہ کہ رفع روح کا۔
۴… اس مقام پر حق جل شانہ نے دو لفظ استعمال فرمائے۔ ایک ’’ مَا قَتَلُوْہُ ‘‘ جس میں قتل کی نفی فرمائی۔ دوسرا ’’ وَمَا صَلَبُوْہُ ‘‘ جس میں صلیب پر چڑھائے جانے کی نفی فرمائی۔ اس لئے کہ اگر فقط ’’ وَمَا قَتَلُوْہُ ‘‘ فرماتے تو یہ احتمال رہ جاتا کہ ممکن ہے قتل نہ کئے گئے ہوں۔ لیکن صلیب پر چڑھائے گئے ہوں اور علیٰ ہذا اگر فقط ’’ وَمَا صَلَبُوْہُ ‘‘ فرماتے تو یہ احتمال رہ جاتا کہ ممکن ہے صلیب تو نہ دئیے گئے ہوں۔ لیکن قتل کر دئیے گئے ہوں۔ علاوہ ازیں بعض مرتبہ یہود ایسا بھی کرتے تھے کہ اوّل قتل کرتے اور پھر صلیب پر چڑھاتے۔ اس لئے حق تعالیٰ شانہ نے قتل اور صلیب کو علیحدہ علیحدہ ذکر فرمایا اور پھر ایک حرف نفی پر اکتفاء نہ فرمایا۔ یعنی ’’ وَمَا قَتَلُوْہُ وَصَلَبُوْہُ ‘‘ نہیں فرمایا ہے بلکہ حرف نفی یعنی کلمہ ’’ما‘‘ کو ’’قتلوا ‘‘اور ’’صلبوا‘‘ کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ذکر فرمایا اور پھر ’’ما قتلوہ‘‘ اور پھر ’’ما صلبوہ‘‘ فرمایا تاکہ ہر ایک کی نفی اور ہر ایک کا جداگانہ مستقلاً رد ہو جائے اور خوب واضح ہو جائے کہ ہلاکت کی کوئی صورت ہی پیش نہیں آئی نہ مقتول ہوئے اور نہ مصلوب ہوئے اور نہ قتل کر کے صلیب پر لٹکائے گئے۔ دشمنوں نے ایڑی چوٹی کا سارا زور ختم کر دیا، مگر سب بے کار گیا۔ قادر وتوانا جس کو بچانا چاہے اسے کون ہلاک کر سکتا ہے؟

قادیانی اشکال​

مرزائی جماعت کا یہ خیال ہے کہ اس آیت میں مطلق قتل اور صلب کی نفی مراد نہیں بلکہ ذلت اور لعنت کی موت کی نفی مراد ہے۔
جواب: یہ ہے کہ یہ محض وسوسہ شیطانی ہے جس پر کوئی دلیل نہیں۔ جیسے ’’ ماضربوہ ‘‘ میں ضرب مطلق کی نفی ہے کہ اس پر سرے سے فعل ضرب واقع نہیں ہوا۔ اسی طرح ’’ مَاقَتَلُوْہُ ‘‘ اور ’’ وَمَاصَلَبُوْہُ ‘‘ میں بھی قتل مطلق اور صلب مطلق کی نفی ہے کہ فعل قتل وصلب سیدنا عیسیٰ علیہ السلام پر سرے سے واقع نہیں ہوا اور اگریہ کہا جائے کہ یہود کے خیال کی تردید ہے تو تب بھی آیت میں یہود کا، پورا رد ہے۔ اس لئے کہ یہود کا گمان یہ تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام العیاذ باﷲ جھوٹے نبی ہیں اور جھوٹا نبی ضرور قتل ہوتا ہے تو اﷲتعالیٰ اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ وہ قتل بھی نہیں کئے گئے اور نہ صلیب پر چڑھائے گئے۔ اس لئے کہ وہ خدا کے سچے نبی تھے۔ علاوہ ازیں اگر یہود کے اس عزم کی رعایت کی جائے تو ’’ وَقَتْلِہِمُ الْاَنْبِیَآئَ بِغَیْرِ حَقٍّ ‘‘ اور ’’ یَقْتُلُوْنَ النَّبِیِّیْنَ ‘‘ کے یہ معنی ہونے چاہئیں کہ معاذ اﷲ وہ انبیاء ذلت اور لعنت کی موت مرے۔ ’’ کَبُرَتْ کَلِمَۃً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاہِہِمْ اِنْ یَّقُوْلُوْنَ اِلَّا کَذِبًا (کہف:۵) ‘‘ {کیا بڑی بات نکلتی ہے ان کے منہ سے سب جھوٹ ہے جو کہتے ہیں۔}
۵… ’’ وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَہُمْ ‘‘ یعنی ان کے لئے اشتباہ پیدا کر دیا گیا۔ ’’شبہ‘‘ کی ضمیر حضرت مسیح کی طرف راجع کرو اور اس طرح ترجمہ کرو کہ عیسیٰ علیہ السلام کا ایک شبیہ اور ہم شکل ان کے سامنے کر دیا گیا تاکہ عیسیٰ سمجھ کر اس کو قتل کریں اور ہمیشہ کے لئے اشتباہ اور التباس میں پڑ جائیں۔ حضرت شاہ عبدالقادر رحمہ اللہ تعالیٰ اس طرح ترجمہ فرماتے ہیں: ’’لیکن وہی صورت بن گئی ان کے آگے۔‘‘ یہ ترجمہ اسی اشتباہ کی تفسیر ہے۔ یعنی اس صورت سے وہ اشتباہ اور التباس میں پڑ گئے۔
بعض روایات میں ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے رفع الی السماء سے پہلے ’’حواریین‘‘ کی دعوت فرمائی اور خود اپنے دست مبارک سے ان کے ہاتھ دھلائے اور بجائے رومال کے اپنے جسم مبارک کے کپڑوں سے ان کے ہاتھ پونچھے۔ یہ روایت (تفسیر ابن کثیر ج۳ ص۲۲۹) پر ہے۔
گویا کہ یہ دعوت رفع الیٰ السماء کا ولیمہ اور رخصتانہ تھا اور احباب واصحاب کی الوداعی دعوت تھی۔ الغرض غسل فرماکر برآمد ہونا اور احباب کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلانا یہ سب آسمان پر جانے کی تیاری تھی۔ جب فارغ ہوگئے تو اپنے ایک عاشق جان نثار پر اپنی شباہت ڈال کر روح القدس کی معیت میں عروج کے لئے آسمان کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ رفع الی السماء حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عروج جسمانی تھی جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جبرائیل امین علیہ السلام کی معیت میں آسمانوں کی معراج کے لئے روانہ ہوئے اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت جبرائیل علیہ السلام کی معیت میں عروج کے لئے آسمان پر روانہ ہوئے۔
فائدہ: صحیح مسلم میں نواس بن سمعان رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی حدیث میں ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام جب دمشق کے منارہ شرقیہ پر اتریں گے تو سرمبارک سے پانی ٹپکتا ہوا ہوگا۔ سبحان اﷲ! جس وقت آسمان پر تشریف لے گئے اس وقت بھی سرمبارک سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے اور جس وقت قیامت کے قریب آسمان سے اتریں گے اس وقت بھی سرمبارک سے پانی کے قطرے ٹپکتے ہوئے ہوں گے۔ جس شان سے تشریف لے گئے تھے اسی شان سے تشریف آوری ہوگی اور مرور زمانہ کا ان پر کوئی اثر نہ ہوگا۔
تنبیہ: سلف میں اس کا اختلاف ہے کہ جس شخص پر عیسیٰ علیہ السلام کی شباہت ڈالی گئی وہ یہودی تھا یا منافق عیسائی یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مخلص حواری گزشتہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص مومن مخلص تھا۔ اس لئے کہ اسی روایت میں یہ بھی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ جس پر میری شباہت ڈالی جائے گی وہ جنت میں میرا رفیق ہوگا۔ واﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم!
 
Top