ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
سوقادیان میں مرزاقادیانی کے مریدوں کے جنازہ اٹھ رہے تھے اور قادیانی عوام سوالیہ نظروں سے مرزاقادیانی کی طرف دیکھ رہے تھے۔ دوسری طرف مخالفین یہ اعتراض کر رہے تھے کہ خدا کا وہ وعدہ کہاں گیا۔ جس میں قادیان کو اور قادیانیوں کو طاعون سے بچانے کی بشارت سنائی گئی تھی؟ مرزاقادیانی کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ کیونکہ میت ان کے سامنے تھی۔ جنازے اٹھ رہے تھے۔ گھروں میںکہرام مچا ہوا تھا۔ مرزاقادیانی نے مخالفین کے اعتراض کے جواب میں جو مؤقف پیش کیا پہلے اسے ملاحظہ کیجئے۔
’’اگر خدانخواستہ کوئی شخص ہماری جماعت سے اس مرض سے وفات پاجائے تو گو وہ ذلت کی موت ہوئی۔ لیکن ہم پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اﷲ کا ہماری جماعت سے وعدہ ہے کہ وہ متقی کو اس سے بچائے گا۔‘‘
(ملفوظات احمدیہ ج۷ ص۴۹۲)
مرزاقادیانی نے تسلیم کیا کہ طاعون کی موت ذلت کی موت ہے۔ مگر چونکہ قادیانی اس کا شکار ہور ہے تھے۔ اس لئے اس کی یہ تاویل کرلی کہ خدا نے سب قادیانیوں کو بچانے کا وعدہ نہیں کیا۔ صرف متقیوں کو بچانے کا وعدہ کیا ہے۔ لیکن جب اس سے بھی کام نہ بنا تو اب صاف کہہ دیا کہ جو قادیانی اس ذلت کی موت مرتا ہے وہ تو مرزاقادیانی کی جماعت میں سے ہی نہیں۔ اس لئے ان پر اعتراض کہاں رہا۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔
مرزاقادیانی کہتے ہیں: ’’اگر ہماری جماعت کا کوئی شخص طاعون سے مرجائے اور اس وجہ سے ہماری جماعت کو ملزم گردانا جائے تو ہم کہیں گے کہ یہ محض دھوکہ اور مغالطہ ہے۔ کیونکہ طاعون ثابت کرتی ہے کہ وہ فی الحقیقت جماعت سے الگ تھا۔‘‘ (ملفوظات احمدیہ حصہ ۶ ص۳۵۸)
لیجئے! قصہ تمام شد!! مرزاقادیانی کا یہ بیان قادیانی عوام پر بجلی بن کر گرا۔ ایک طرف تو ان کے گھر ماتم کدہ بنے ہوئے تھے۔ اس حالت میں مرزاقادیانی پر لازم تھا کہ مرنے والے قادیانی کے گھر جاتے اور ان سے تعزیت کرتے۔ انہیں تسلی دیتے۔ مرزاقادیانی نے سرے سے ہی ان مرنے والے قادیانیوں کو جماعت سے الگ قرار دے دیا۔ آپ ہی سوچیں کہ جن لوگوں نے اپنی زندگی بھر کی کمائی مرزاقادیانی کو دے دی تھی اور وہ اپنے خون پسینے کی کمائی سے مرزاقادیانی کا گھر پال رہے تھے۔ اگر وہ اس حادثہ کا شکار ہوگئے تو محض اپنے جھوٹ کو بچانے کے لئے ان غریب قادیانیوں کو جماعت سے خارج بتانا کیا ظلم وزیادتی نہیں ہے؟ اور کیا یہ ان کے زخموں پر مزید نمک پاشی کرنا نہیں؟ کیا یہ ان دکھی گھر والوں پر حملہ نہیں؟
مرزاغلام احمد قادیانی کے اس اعلان سے کہ وہ قادیانی جماعت سے نہ تھے۔ کئی قادیانی اکھڑنے لگے اور مرزاقادیانی کے چندوں کا سلسلہ کم ہونے لگا۔ جب مرزاقادیانی کو معلوم ہوا کہ ان کے اس بیان سے کئی قادیانی جماعت سے نکل کر مخالفین کی صف میں جارہے ہیں تو اس نے ایک نیا اعلان جاری کیا کہ جو قادیانی طاعون کی موت کا شکار ہوں وہ تو شہید کہلائیں گے اور ان کی شہادت کو حضور ﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی شہادت کے مثل بتانے تک سے دریغ نہ کیا۔ مرزاقادیانی نے لکھا: ’’بعض نادان کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے بعض لوگ بھی طاعون سے ہلاک ہوئے ہیں… ہم ایسے متعصبوں کو یہ جواب دیتے ہیں کہ ہماری جماعت میں سے بعض لوگوں کا طاعون سے فوت ہونا بھی ایسا ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ کے بعض صحابہe لڑائیوں میں شہید ہوتے تھے۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۱۳۱، خزائن ج۲۲ ص۵۶۸)
قادیانی عوام مرزاقادیانی کی یہ دورنگی چال دیکھیں کہ پہلے تو یہ کہہ کر قادیانیوں کو تسلی دی گئی کہ طاعون قادیانیوں کے حق میں خدا کی رحمت ہے اور اس سے سلسلہ کی ترقی ہوگی۔ جب کہ مخالفین تباہ ہوںگے۔ مگر جب طاعون سے خود قادیانی فوت ہونے لگے تو مرزاقادیانی نے اپنی بات کی لاج رکھنے کے لئے یہ کہا کہ وہ متقی نہ تھے۔ جب اس سے بھی کام نہ بنا تو صاف کہہ دیا کہ وہ جماعت سے خارج تھے۔ اس لئے وہ طاعون کا شکار ہوئے۔ مگر جب چندوں میں کمی ہونے لگی اور قادیانی مرزاقادیانی سے علیحدہ ہونے لگے تو جھٹ بات بدل دی اور کہا کہ یہ نہ صرف شہید ہیں بلکہ صحابہe کی مثل ہیں۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون!
کیا اس دو چہرے والے آدمی سے جس کو حدیث میں منافق کہا گیا ہے۔ کچھ بھی خیر کی توقع ہوسکتی ہے؟ بڑا ہی بدنصیب ہے وہ شخص جو ان حقائق کے دیکھنے کے بعد بھی مرزاقادیانی کو خدا کا نبی اور اس کا رسول مانے۔ العیاذ باﷲ تعالیٰ!
ہماری مذکورہ گذارشات کا حاصل یہ ہے کہ مرزاقادیانی نے ’’قادیان‘‘ کے بارے میں جو پیش گوئی کی تھی کہ خدا تعالیٰ اسے محفوظ رکھے گا وہ پیش گوئی غلط نکلی اور قادیان میں طاعون پھیلا۔ پھر کئی قادیانی اس کا شکار ہوئے اور مرزاقادیانی نے خود قادیان سے بھاگنے میں عافیت سمجھی اور ایک باغ میں جاکر چھپ گئے۔
رہا یہ سوال کہ کیا مرزاقادیانی کا اپنا گھر جسے انہوں نے ’’کشتی نوح‘‘ قرار دیا تھا اور اس کی تعمیر کے لئے چندہ بھی کیا تھا۔ اس طاعون سے محفوظ رہا؟ مرزاقادیانی کے خطوط بتاتے ہیں کہ نہیں۔ اگر ان کا گھر محفوظ ہوتا تو وہ گھر چھوڑ کر کبھی باہر نہ جاتے اور نہ اپنے گھر میں دوائیں ڈال ڈال کر اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو بچانے کی فکر کرتے۔ مرزاقادیانی کا یہ بیان قادیانیوں کے لئے مقام عبرت ہے کہ: ’’طاعون کے دنوں میں جب کہ قادیان میں طاعون کا زور تھا۔ میرا لڑکا شریف احمد بیمار ہوگیا اور ایک سخت تپ محرقہ کے رنگ میں چڑھا۔ جس سے لڑکا بالکل بے ہوش ہوگیا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۸۴، خزائن ج۲۲ ص۸۷)
اس سے پتہ چلتا ہے کہ مرزاقادیانی کے گھر میں یہ طاعون داخل ہوا تھا۔ مرزاقادیانی کا اعتراف ملاحظہ کیجئے۔ مورخہ ۱۰؍اپریل ۱۹۰۴ء کو نواب محمد علی خان کے نام لکھے گئے خط کا یہ حصہ دیکھئے۔ ’’بڑی غوثاں (نوکرانی کا نام) کو تپ ہوگیا تھا۔ اس کو گھر سے نکال دیا ہے۔ لیکن میری دانست میں اس کو طاعون نہیں ہے۔ احتیاطاً نکال دیا ہے۔ ماسٹر محمد دین کو تپ ہوگیا اور گلٹی نکل آئی۔ اس کو بھی باہر نکال دیاہے۔ میں تو دن رات دعا کر رہا ہوں اور اس قدر زور اور توجہ سے دعا کی گئی کہ بعض اوقات ایسا بیمار ہوگیا کہ یہ وہم گذرا کہ شاید دو تین منٹ جان باقی ہے اور خطرناک آثار ظاہر ہوگئے۔‘‘ (مکتوبات احمدیہ ج۵ ص۱۱۵)
لاہور کے پیربخش پنشنر پوسٹ ماسٹر لکھتے ہیں: ’’خاص مرزاقادیانی کے گھر میں عبدالکریم اور پیراں دتہ طاعون سے ہلاک ہوئے۔‘‘ (تردید قادیانی ص۹۶)
مرزاقادیانی کے خدا نے بذریعہ وحی بتایا تھا کہ اس کی چاردیواری طاعون سے محفوظ رہے گی۔ لیکن مرزاقادیانی کی چاردیواری بھی محفوظ نہ رہی۔ اگر انہیں واقعی اس وحی پر یقین ہوتا تو وہ اپنے نوکر اور نوکرانی کو کبھی گھر سے باہر نہ نکالتا۔ ان دونوں کا طاعون کی لپٹ میں آنا اور مرزاقادیانی کا گھبرا کر دونوں کو نکال دینا واضح کرتا ہے کہ مرزاقادیانی کی یہ رحمت بی بی (طاعون) اس کے گھر قدم رنجہ فرما چکی تھی۔ معلوم نہیں مرزاقادیانی نے گھر بلائے مہمان کو باربار نکالنے کی کوشش کیوں کی اور وہ کیوں فینائل ڈال کر اسے ختم کرنے کی سازشیں کرتے رہے؟
مرزاقادیانی کا یہ خوف اور ان کی یہ احتیاط اور بچاؤ کی متعدد ترکیبیں ثابت کرتی ہیں کہ مرزاقادیانی اپنی پیش گوئی میں جھوٹے تھے اور انہوں نے جھوٹ بول کر اپنے لئے لعنت کا داغ خریدا۔ یہ الفاظ ان کے ہیں اور ہم انہی کے الفاظ انہی کی نذر کرتے ہیں۔
’’خدا پر جھوٹ باندھنا لعنت کا داغ خریدنا ہے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۴۱۸، تریاق القلوب ص۱۱۹، خزائن ج۱۵ ص۴۰۹)
آپ ہی فیصلہ کریں کہ جو خدا پر جھوٹ باندھ کر لعنت کا داغ خریدتا ہے تو کیا یہ داغ اسے نہیں ملے گا۔ جو اس جھوٹ کو نہ صرف یہ کہ مانتا ہے۔ بلکہ اس جھوٹے کو خدا کا مامور قرار دینے سے بھی باز نہیں آتا۔ قادیانی عوام سوچیں کہ لعنت کا داغ خریدنا عقلمندی ہے؟
زلزلہ
’’زندگی میں اس کا ظہور نہ ہوا تو میں خدا کی طرف سے نہیں۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ ص۹۳، خزائن ج۲۱ ص۲۵۳)
مرزاقادیانی کے اس بیان پر قادیانیوں نے سکھ کا سانس لیا کہ اب بات کسی کنارے لگی ہے۔ اگر یہ زلزلہ مرزاقادیانی کی زندگی میں نہ آیا اور مخالفین کو دھکا نہیں لگا تو پھر قادیانیوں کی خیر نہیں۔ زلزلہ کا نہ آنا نہ صرف یہ کہ قادیانیوں کے لئے قیامت کا نمونہ ہوگا۔ بلکہ مرزاغلام احمد قادیانی کا پرلے درجے کا جھوٹا ہونا اور اﷲ پر جھوٹ باندھنا بھی سب پر کھل جائے گا۔ مرزاقادیانی اور ان کے اصحاب زلزلہ آنے کے لئے دعائیں کرتے رہے۔ لیکن زلزلہ کو نہ آنا تھا نہ وہ آیا۔
مرزاغلام احمد قادیانی نے (براہین احمدیہ حصہ پنجم ۱۹۰۵ء) میں لکھنی شروع کی اور اس کا ضمیمہ اس کے بھی بعد لکھا۔ یہ کتاب مورخہ ۱۵؍اکتوبر ۱۹۰۸ء کو (یعنی مرزاقادیانی کے فوت ہونے کے تقریباً پانچ مہینے کے بعد) شائع ہوئی۔ آپ کسی بھی قادیانی سے دریافت کریں کہ کیا مرزاقادیانی کی یہ پیش گوئی پوری ہوئی تھی؟ کیا (براہین احمدیہ حصہ پنجم) کی مذکورہ عبارت لکھنے کے بعد مرزاقادیانی کی زندگی میں یہ زلزلہ آیا تھا؟ اگر نہیں آیا اور یقینا نہیں آیا تو آپ ہی بتائیں کہ مرزاقادیانی پر آنے والی زلزلہ کی باربار وحی اختراعی یا شیطانی نہیں تو اور کیا تھی؟ اگر یہ بات رحمانی ہوتی تو خداتعالیٰ کی یہ بات ضرور پوری ہوتی اﷲتعالیٰ اپنی بات ہمیشہ پوری کرتے ہیں۔ مرزاقادیانی کی یہ بات اس لئے پوری نہیں ہوئی کہ وہ مفتری اور کذاب تھا۔ سو خداتعالیٰ نے اسی دنیا میں اسے ذلیل ورسوا کردیا۔
ہم قادیانی عوام سے گذارش کریں گے کہ وہ مرزاغلام احمد قادیانی کی اس عبارت کو پھر سے پڑھیں اور خود فیصلہ کریں کہ مرزاغلام احمد قادیانی اپنی بات میں سچا تھا یا یہ جھوٹ کا کاروبار تھا۔ جو اس نے چلا رکھا تھا۔ مرزاقادیانی نے لکھا: ’’آئندہ زلزلہ کی نسبت جو پیش گوئی کی گئی ہے وہ کوئی معمولی پیش گوئی نہیں۔ اگر وہ آخر کو معمولی بات نکلی یا میری زندگی میں اس کا ظہور نہ ہوا تو میں خدا کی طرف سے نہیں۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۹۲، خزائن ج۲۱ ص۲۵۳)
مرزاقادیانی کے دعویٰ کے مطابق ان کی زندگی میں زلزلہ نہیں آیا اور مرزاقادیانی بقلم خود کذاب ٹھہرے اور انہوں نے یہ فیصلہ دے دیا کہ وہ خدا کی طرف سے نہیں۔ اب بھی اگر قادیانی عوام مرزاقادیانی کو خدا کی طرف سے آیا ہوا مانیں تو یہ ان کی بدبختی اور بدنصیبی نہیں تو اور کیا ہے؟
فاعتبروا یا اولی الابصار!
گیارھویں پیش گوئی … مرزاغلام احمد قادیانی کی عمر کی پیش گوئی
جس کو سچ ثابت کرنے میں قادیانی ناکام رہے ہیں
انسان کے اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی اﷲتعالیٰ اس کی عمر کا فیصلہ فرمادیتے ہیں اور جب وقت مقرر آجاتا ہے تو اسے اس دنیا سے واپس جانا پڑتا ہے۔ اس پہلو سے اگر کسی کی عمر بڑی ہو یا چھوٹی کوئی قابل تعجب بات نہیں ہوتی اور نہ اس پر کبھی اس نے مناظرہ ومباحثہ کے چیلنج دئیے ہیں اور نہ کسی نے اسے حق وباطل کا معیار بنایا ہے۔ کیونکہ یہ وہ مسئلہ ہے جس کا علم سوائے خدا کے کسی کو نہیں ہوتا۔ اب اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ اسے خدا نے بتادیا ہے کہ اسے عمر کے اتنے سال ملیں گے اور وہ لوگوں کو اس کی اطلاع کرے اور اسے اپنے سچ اور جھوٹ کا معیار بنائے تو لازماً ہر شخص کو جستجو ہوگی کہ اس کی عمر دیکھی جائے اور اسے اس کے اپنے دعویٰ پر پرکھا جائے کہ آیا وہ اپنی بات میں سچ کہہ رہا ہے یا یہ کذب محض ہے۔
مرزاغلام احمد قادیانی اس اعتبار سے واقعی اپنی مثال آپ تھا کہ وہ اپنے دعویٰ کو منوانے کے لئے بے تکی سی پیش گوئیاں کر دیتا تھا۔ جب لوگ اس پیش گوئی کی تحقیق میں اترتے اور اسے جھوٹا قرار دیتے تو مرزاغلام احمد قادیانی فوراً اپنی بات کی تاویل کر دیتا اور بحث پھر ایک دوسرا موضوع اختیار کر لیتی۔ سب دیکھتے کہ مرزاغلام احمد قادیانی جھوٹ پر جھوٹ بول رہا ہے اور اس کی پیش گوئی غلط ہوئی ہے۔ مگر نہ اسے توبہ کی توفیق ہوتی اور نہ اسے سچ کا سامنا کرنے کی ہمت ہوتی۔
مرزاغلام احمد قادیانی جب اپنی پیش گوئیوں میں ناکام ہوتا گیا تو اب اسے ایک نئی پیش گوئی کی سوجھی۔ یہ پیش گوئی اس کی اپنی عمر کی پیش گوئی تھی۔ اﷲتعالیٰ کے کسی نبی تو کجا خدا کے کسی مقربین نے بھی کبھی اس قسم کی کوئی پیش گوئی نہیں کی کہ میں اگر اتنی عمر پاکر مروں گا تو میں سچا ہوں گا ورنہ تم مجھے جھوٹا سمجھنا۔ لیکن قادیان کے مرزاغلام احمد قادیانی نے واقعی یہ پیش گوئی کر دی۔ مرزاقادیانی نے اعلان کیا کہ اﷲتعالیٰ نے اسے یہ خبر دی ہے: ’’وتری نسلاً بعیدا ولنحیینک حیٰوۃ طیبۃ ثمانین حولا اوقریباً من ذالک‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۳۵، خزائن ج۳ ص۴۴۳)
اس سے پتہ چلتا ہے کہ اﷲتعالیٰ نے مرزاغلام احمد قادیانی کو اسی سال یا اس کے قریب قریب عمر پانے کی خبر دی۔ یہ محض خبر نہیں تھی۔ خدا کی طرف سے بشارت بھی تھی۔ مرزاغلام احمد قادیانی کہتا ہے۔ ’’فبشرنا ربنا بثمانین سنۃ من العمر وھو اکثر عددا‘‘ میرے رب نے مجھے بشارت دی ہے کہ تیری عمر اسی برس یا اس سے زیادہ ہوگی۔‘‘
(مواہب الرحمن ص۲۱، خزائن ج۱۹ ص۲۳۹)
مرزاغلام احمد قادیانی نے یہی بات اپنی دوسری کتاب (نشان آسمانی ص۱۳) پر بھی لکھی ہے۔ مرزاغلام احمد قادیانی کے بعض معتقدین کو جب اس بشارت کی خبر ملی تو انہوں نے خیال کیا کہ شاید مرزاغلام احمد قادیانی کو اس کا وہم ہوا ہو۔ مرزاقادیانی کو ان کی بات کی اطلاع ہوئی تو اس نے کہا کہ یہ وہم نہیں ہے۔ خدا نے اسے یہ بات کھلے لفظوں میں بتائی ہے۔
’’خدا نے مجھے صریح لفظوں میں اطلاع دی تھی کہ تیری عمر اسی برس کی ہوگی یا یہ کہ پانچ چھ سال زیادہ یا پانچ سال کم۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ۵ ص۹۷، خزائن ج۲۱ ص۲۵۸)
مرزاغلام احمد قادیانی کے مخالفین کو جب اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے مرزاغلام احمد قادیانی کی کھلی تردید کی اور کہا کہ اﷲتعالیٰ اس قسم کی باتوں سے منزہ اور پاک ہیں۔ یہ سب مرزا کی اپنی دماغی اختراع ہے۔ مرزاغلام احمد قادیانی کو جب ان کی بات کی خبر پہنچی تو اس نے جواب میں لکھا کہ: ’’اس طرح ان لوگوں کے منصوبوں کے برخلاف خدا نے مجھے وعدہ دیا کہ میں ۸۰برس یا دوتین برس کم یا زیادہ تیری عمر کروں گا۔ تاکہ لوگ کمی عمر سے کاذب ہونے کا نتیجہ نہ نکال سکیں۔‘‘
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۸، خزائن ج۱۷ ص۴۴، اربعین نمبر۳ ص۵۲، خزائن ج۱۷ ص۳۹۴)
قبل اس کے ہم مرزاقادیانی کی عمر پر کچھ بحث کریں۔ قارئین اس پر غور کریں کہ کیا یہ بات خدا کی ہوسکتی ہے؟ ایک ایسی وحی جس کے بھیجنے والے کو بھی پتہ نہیں کہ وحی پانے والے شخص کی عمر آخر کتنی ہوگی؟ اسی برس، دوچار کم یا دوچار زیادہ۔ کیا خدا کو معلوم نہیں تھا کہ مرزاغلام احمد قادیانی کس تاریخ کو کس دن کتنے بجے کتنے منٹ اور کتنے سیکنڈ پر مرے گا؟ اگر اسے معلوم تھا کہ مرزا غلام احمد قادیانی ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو صبح ساڑھے دس بجے آنجہانی ہوگا تو اس نے تاریخ وفات کیوں نہ بتائی۔ یہ دو چار کم یا دوچارزیادہ کا باربار مذاق کس لئے کیا؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی کو یہ وحی اس نے بھیجی ہے جسے خود بھی معلوم نہیں کہ مرزاقادیانی کے پاس موت کا فرشتہ کب آنے والا ہے۔ مگر افسوس کہ مرزاقادیانی اپنی عمر کی بحث کو خواہ مخواہ سچ اور جھوٹ کا معیار بنانے لگ گئے اور یوں اپنے ہاتھوں اپنی رسوائی کا سامان تیار کر لیا۔ مرزاغلام احمد قادیانی نے اسی برس یا اس سے کم زیادہ عمر پانے کی پیش گوئی کی تھی۔ اب اس کی تشریح بھی اسی سے سنئے۔ اس نے لکھا کہ: ’’جو ظاہر الفاظ وحی کے وعدہ کے متعلق ہیں وہ تو چوہتر اور چھیاسی کے اندر اندر عمر کی تعین کرتے ہیں۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۹۶، خزائن ج۲۱ ص۲۵۹)
یعنی اگر مرزاقادیانی ۷۴اور ۸۶ سال کے اندر مر گئے تو بات قابل فہم ہوگی اور اس کی پیش گوئی پوری سمجھی جائے گی اور اگر اس سے پہلے وہ آنجہانی ہوجائیں تو یہ اس کے جھوٹا ہونے پر ایک اور مہر ثابت ہوگی۔ صاف اور سیدھی بات یہ ہے کہ کسی شخص کی عمر معلوم کرنے کے لئے اس کی تاریخ ولادت اور سال وفات دیکھ لینا چاہئے۔ اس کے لئے کسی لمبے چوڑے علم کی ضرورت نہیں ہے۔
مسلمانوں اور قادیانیوں میں اس بات پر کوئی اختلاف نہیں ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی مورخہ ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو آنجہانی ہوئے ہیں۔ اب صرف یہ معلوم کرنا باقی ہے کہ مرزاقادیانی کس سال پیدا ہوئے تھے؟ بجائے اس کے کہ ہم کچھ کہیں مرزاغلام احمد قادیانی کی اپنی تحریرات سے اس کا فیصلہ کر لیں۔ مرزاغلام احمد قادیانی اپنے حالات میں لکھتا ہے: ’’میری پیدائش ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء میں سکھوں کے آخری وقت میں ہوئی اور میں ۱۸۵۷ء میں سولہ برس یا سترھویں برس میں تھا اور ابھی رشی وبروت کا آغاز نہیں تھا۔‘‘ (کتاب البریہ ص۱۵۹ حاشیہ، خزائن ج۱۳ ص۱۷۷)
یہ مرزاغلام احمد قادیانی کی اپنی تحریر ہے۔ اس میں کہیں بھی کوئی پیچیدگی نہیں اور نہ تقریباً وغیرہ کے الفاظ ہیں نہ یہ لکھا ہے کہ یہ بات تخمینی ہے۔ صاف اور صریح لفظوں میں سال ولادت ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء لکھا ہوا ہے۔
مرزاغلام احمد قادیانی نے اس بات کی تائید اس سے بھی کی ہے کہ جب اس کے والد مرزاغلام مرتضیٰ فوت ہوئے تو اس کی عمر ۳۴،۳۵برس کی تھی۔ اس نے کہا: ’’میری عمر ۳۴،۳۵برس کی ہوگی جب والد صاحب کا انتقال ہوا۔‘‘
(کتاب البریہ ص۱۷۴، خزائن ج۱۳ ص۱۹۲)
مرزاغلام مرتضیٰ کا انتقال ۱۸۷۴ء میں ہوا۔ اس کا اقرار مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنی کتاب (نزول المسیح ص۱۱۶، خزائن ج۱۸ ص۴۹۴) پر کیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی کی ولادت ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء میں ہی ہوئی تھی۔ پھر مرزاغلام احمد قادیانی نے ایک اور عنوان سے بھی اپنے سال ولادت کی خبر دی ہے۔ مرزاغلام احمد قادیانی کا بیٹا مرزابشیر احمد لکھتا ہے۔ حضرت مسیح موعود فرماتے تھے۔ ’’جب سلطان احمد پیدا ہوا اس وقت ہماری عمر صرف سولہ سال کی تھی۔‘‘
(سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۲۷۳، بروایت۲۸۳)
یہ بات صرف مرزابشیر احمد ہی نہیں کہتے بلکہ قادیانیوں کے سب سے محتاط شخص اور مرزاقادیانی کے قریبی دوست مولوی شیر علی بھی کہتے ہیں۔ مرزابشیر احمد کا بیان ہے کہ اس کا بھائی یعنی سلطان احمد ۱۸۵۶ء میں پیدا ہوا۔ دیکھئے (سیرۃ المہدی حصہ دوم ص۱۵۰، روایت نمبر۴۶۷) اس حساب سے مرزاغلام احمد قادیانی ۱۸۴۰ء میں پیدا ہوا تھا۔
مرزاغلام احمد قادیانی کا سال ولادت ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء تھا اور سال وفات ۱۹۰۸ء۔ اب آپ حساب کر لیں کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے کل کتنی عمر پائی تھی؟ اگر سال ولادت ۱۸۳۹ء تسلیم کیا جائے تو کل عمر ۶۹سال بنتی ہے اور ۱۸۴۰ء مان لی جائے تو کل عمر ۶۸سال کی ہوئی ہے۔
اب مرزاغلام احمد قادیانی پر ہوئی وحی اور بشارت نیز خدائی وعدہ کو پھر ایک مرتبہ پڑھ لیجئے۔ ’’تیری عمر اسی برس کی ہوگی یا یہ کہ پانچ چھ سال زیادہ یا پانچ چھ سال کم۔‘‘
اگرچوہتر سال مانیں تو پانچ سال کم اور اسی سال مانیں تو پورے گیارہ سال کم اور چھیاسی سال مانیں تو پورے سترہ سال کم ہیں۔ اب آپ ہی فیصلہ کریں کہ مرزاغلام احمد قادیانی کی یہ الہامی پیش گوئی درست ہوئی یا یہ بھی دیگر پیش گوئیوں کی طرح جھوٹی ثابت ہوئی۔ ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو مرزاغلام احمد قادیانی کی وفات پر قادیانیوں کو توبہ کر کے مسلمانوں کی صف میں شامل ہوجانا چاہئے تھا کہ مرزاغلام احمد قادیانی کا کذاب ہونا سب پر کھل چکا تھا۔ مگر افسوس کہ انہوں نے دجل وفریب کا راستہ اختیار کیا اور مرزاغلام احمد قادیانی کے سال ولادت میں تبدیلیاں کرنی شروع کردیں۔ جہاں جہاں مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنا سال ولادت لکھا اس کی تاویل کی۔ جہاں سے صحیح بات معلوم ہوتی تھی اس میں دجل کی راہ چلائی۔ جو لوگ خود اپنے ہاتھوں مرزا غلام احمد قادیانی کی زندگی میں اس کا سال ولادت ۱۸۳۹ء بتاتے رہے بعد میں وہی لوگ اپنی تحریر بدلتے رہے۔ انہیں یہ تبدیلی کی ضرورت محض اس لئے پیش آئی کہ کسی نہ کسی طرح مرزاغلام احمد قادیانی کا سال ولادت وہ بتایا جائے جس سے مرزاقادیانی کی پیش گوئی پوری ہو جائے۔ کیا یہ کھلا دجل نہیں؟ اور کیا یہ قادیانی عوام سے سچی بات کو چھپانے کی ایک ناکام کوشش نہیں؟ بعض قادیانی کہتے ہیں کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنا سال ولادت اس وقت بتایا جب وہ مراحل نبوت طے کر رہا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ ان کی یہ بات پہلی زندگی کی ہو۔ جو ہمارے لئے حجت نہیں۔ ہاں ۱۹۰۱ء اور اس کے بعد کی کوئی تحریر ہو تو قابل غور ہوسکتی ہے؟
جواباً گذارش ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی کی کتاب ’’نزول المسیح‘‘ ۱۹۰۲ء کی تصنیف ہے۔ مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنی عمر کے بارے میں جو پیش گوئیاں کی تھیں۔ اس میں الہام وحی بشارت اور وعدہ کے الفاظ موجود ہیں۔ اگر قادیانیوں کو اس سے بھی تسلی نہ ہو تو ہم مرزاغلام احمد قادیانی کا وہ بیان بھی پیش کئے دیتے ہیں جو اس نے ۱۶؍مئی ۱۹۰۱ء کو گورداسپور کی عدالت میں مرزانظام الدین کے مقدمہ میں بطور گواہ کے دیا تھا۔ اس نے بھری عدالت میں کہا: ’’اﷲتعالیٰ حاضر ہے۔ میں سچ کہوں گا۔ میری عمر ساٹھ سال کے قریب ہے۔‘‘ (قادیانی اخبار الحکم ج۵ نمبر۲۹، منظور الٰہی ص۲۴۱، مرتبہ منظور الٰہی قادیانی)
مرزاغلام احمد قادیانی کی وفات ۱۹۰۸ء ہے۔ اگر ۱۹۰۱ء میں مرزاقادیانی ساٹھ سال کے تھے تو ۱۹۰۸ء میں کتنے سال کے ہوئے۔ اتنی بات سے تو مرزاطاہر اور مرزا مسرور وغیرہ بے خبر نہ ہوںگے۔
قادیانی علماء اور خلفاء نے مرزاغلام احمد قادیانی کی اس پیش گوئی میں تحریف وتاویل کے بڑے عجیب کرتب دکھائے ہیں۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سب کے سب اس پیش گوئی سے بہت پریشان ہیں اور یہ لوگ اسے جس قدر ۸۰سال والی پیش گوئی کے قریب لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ مسئلہ ان کے لئے اتنا ہی زیادہ پیچیدہ ہو جاتا ہے اور ان سے بات بنائے نہیں بنتی… اور مرزاغلام احمد قادیانی کا کذاب ہونا اور روشن ہوجاتا ہے۔
۱۹۰۷ء میں ڈاکٹر عبدالحکیم خان نے ایک بحث میں کہا تھا کہ مرزاغلام احمد قادیانی مورخہ ۴؍اگست ۱۹۰۸ء کو مر جائے گا۔ اس کا اعتراف مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنی کتاب ’’چشمہ معرفت‘‘ میں کیا ہے۔ دیکھئے (چشمہ معرفت ص۳۲۲، خزائن ج۲۳ ص۳۳۷) مرزا قادیانی نے اس کے جواب میں کہا کہ ایسا ہرگز نہ ہوگا بلکہ اس کی عمر بڑھے گی اور یہ بات اسے خدا نے کہی ہے۔ مرزاقادیانی نے ۵؍نومبر ۱۹۰۷ء کو ایک اشتہار شائع کیا کہ اسے خدا نے بذریعہ وحی بتایا ہے کہ: ’’اپنے دشمن سے کہہ دے کہ خدا تجھ سے مواخذہ لے گا… اور آخر میں اردو میں فرمایا کہ میں تیری عمر کو بڑھادوں گا۔ یعنی دشمن جو کہتا ہے کہ صرف جولائی ۱۹۰۷ء میں چودہ مہینے تک تیری عمر کے دن رہ گئے ہیں یا ایسا ہی جو دوسرے دشمن پیش گوئی کرتے ہیں۔ ان سب کو میں جھوٹا کروں گا اور تیری عمر کو بڑھادوں گا۔ تامعلوم ہوکہ میں خدا ہوں اور ہر ایک امر میرے اختیار میں ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۹۱)
مرزاغلام احمد قادیانی کا تو یہاں تک کہنا تھا کہ اس کی عمر ۹۵سال تک ہو جائے گی اور خدا کے ایک مقرب نے اس پر آمین تک کہہ دی ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ ایک قبر پر ہے اور صاحب قبر اس کے سامنے بیٹھا ہے۔ مرزاقادیانی کو خیال آیا کہ اس مقرب سے ضروری ضروری دعائیں کراکر اس پر آمین کہلوا دی جائے تاکہ بات پکی ہو جائے۔ پھر اس نے دعائیں شروع کر دیں اور وہ آمین کہتا جاتا تھا۔ اب آگے پڑھئے:
’’اتنے میں خیال آیا کہ یہ دعا بھی مانگ لوں کہ میری عمر ۹۵سال ہو جائے میں نے دعا کی اس نے آمین نہ کہی میں نے وجہ پوچھی وہ خاموش رہا۔ پھر میں نے سخت تکرار اور اصرار شروع کیا۔ یہاں تک کہ اس سے ہاتھا پائی کرتا تھا۔ بہت عرصہ کے بعد اس نے کہا اچھا دعا کرو میں آمین کہوں گا۔ چنانچہ میں نے دعا کی کہ الٰہی میری عمر ۹۵برس کی ہو جاوے۔ اس نے آمین کہی۔‘‘ (البدر مورخہ ۱۸؍ستمبر ۱۹۰۳ء ص۳۷۴، تذکرہ ص۴۹۷، طبع سوم)
افسوس کہ مرزاقادیانی کی عمر ۹۵سال نہ ہوئی۔ ورنہ اس مقرب کے ساتھ ساتھ اس کے بھی وارے نیارے ہو جاتے۔ سو مرزامسرور وغیرہ بتائیں کہ مرزاغلام احمد قادیانی جولائی ۱۹۰۷ء سے چودہ مہینہ کے اندر مر گئے یا نہیں؟ اور اشتہار شائع کرنے کے سات ماہ بعد آنجہانی ہوئے یا نہیں؟ خدا نے اس کے دشمنوں کی بات پوری کی۔ اس کی عمر نہیں بڑھائی۔ اسے جھوٹا کیا۔ قادیانی عوام اگر ضد اور ہٹ دھرمی چھوڑ کر مرزاغلام احمد قادیانی کا مذکورہ بیان دیکھیں تو انہیں مرزاغلام احمد قادیانی کے جھوٹا ہونے میں ذرا بھی شک نہیں رہے گا۔ مرزاقادیانی نے اپنی (اسی سال اور اس کے قریب والی) پیش گوئی کو نقل کرنے کے بعد یہ فیصلہ کن بات بھی لکھی ہے: ’’اب جس قدر میں نے بطور نمونہ کے پیش گوئیاں بیان کی ہیں۔ درحقیقت میرے صدق یا کذب آزمانے کے لئے کافی ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۳۵، خزائن ج۳ ص۴۴۲)
مرزاغلام احمد قادیانی کی اس تصریح کی رو سے دیکھیں تو کسی شخص کو یہ فیصلہ کرنے میں دشواری نہ ہوگی کہ مرزاغلام احمد قادیانی کی یہ پیش گوئی جھوٹی ثابت ہوئی اور وہ اپنی ہی تحریر کی رو سے جھوٹا ثابت ہوا۔ اب بھی اگر کوئی اسے جھوٹا نہ مانے تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔
خلاصہ بحث یہ کہ الہامی دعویٰ اور خدائی وحی اور بشارتوں کی روشنی میں مرزاقادیانی کی عمر کم ازکم ۷۴سال اور زیادہ سے زیادہ ۸۶سال ہونی چاہئے تھی۔ مگر مرزاقادیانی ۱۹۰۸ء کو بعمر ۶۸یا۶۹سال آنجہانی ہوگئے۔ اس لئے وہ سب پیش گوئیاں جو مرزاقادیانی نے اپنی عمر کے بارے خدا کے نام سے کی تھیں سب جھوٹی نکلیں اور مرزاقادیانی کا کذاب ہونا کسی دلیل کا محتاج نہ رہا۔
فاعتبروا یا اولی الابصار
!
بارھویں پیش گوئی … پنڈت لیکھرام کی موت کی پیش گوئی
مرزاغلام احمد قادیانی نے کہا پنڈت خرق عادت طور پر مرے گا۔ مگر وہ چھری سے مارا گیا
مرزاغلام احمد قادیانی اور آریہ پنڈت لیکھرام کے درمیان معرکہ آرائی اور بدزبانی کے قصوں نے پورے ملک میں بہت شہرت پائی تھی۔ یہ دونوں ایک دوسرے کو جی بھر کر برا بھلا کہتے تھے اور بدزبانیاں تو ان کے دن رات کا معمول بن چکا تھا۔ پنڈت لیکھرام سے تو توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنی زبان پر قابو رکھے گا اور شریفانہ گفتگو اختیار کرے گا۔ مگر مرزاغلام احمد قادیانی جواب ترکی بہ ترکی دینے میں پنڈت سے کچھ کم نہ تھا۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ ایک شخص جو اپنے آپ کو خدا کا ترجمان اور اس کا نبی کہتا ہے۔ اسے اس قسم کی زبان استعمال کرتے ہوئے ذرا بھی حیاء نہیں آرہی ہے؟ مرزاقادیانی نے آریہ قوم کے خلاف جو زبان استعمال کی ہے۔ ہم اسے کسی دوسرے وقت بیان کریں گے۔ سردست ان کی ایک تحریر دیکھیں اور فیصلہ کریں کہ مرزاقادیانی بدکلامی میں کس نیچی سطح تک گر چکے تھے۔
مرزاقادیانی لکھتے ہیں: ’’آریوں کا پرمیشر ناف سے دس انگل نیچے ہے ۔ سمجھنے والے سمجھ لیں۔‘‘
(چشمہ معرفت ص۱۰۶، خزائن ج۲۳ ص۱۱۴)
کیا یہ انداز کلام کسی مامور من اﷲ کے مدعی کا ہوسکتا ہے؟ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ مرزاقادیانی تہذیب وشرافت سے کس قدر دور تھے؟
مرزاغلام احمد قادیانی اور پنڈت لیکھرام کے مابین زبانی اور تحریری مباحثے ہوتے۔ جب اس سے کوئی بات نتیجہ خیز نہ ہوئی تو مرزاغلام احمد قادیانی نے ایک دن پنڈت لیکھرام سے کہا کہ اگر تم کہو تو میں تمہیں قضاء وقدر کا معاملہ بتاتا ہوں۔ جو تمہارے ساتھ ہونے والا ہے۔ پنڈت نے کہا بتادو۔ چنانچہ مرزاغلام احمد قادیانی نے پنڈت لیکھرام کے بارے میں ایک پیش گوئی کر دی اور کہا کہ: ’’خداوند کریم نے مجھ پر ظاہر کیا کہ آج کی تاریخ سے جو ۲۰؍فروری ۱۸۹۳ء ہے۔ چھ برس کے عرصہ تک یہ شخص اپنی بدزبانیوں کی سزا میں مبتلا ہو جائے گا سو اب میں اس پیش گوئی کو شائع کر کے تمام مسلمانوں اور آریوں اور عیسائیوں اور دیگر فرقوں پر ظاہر کرتا ہوں کہ اگر اس شخص پر چھ برس کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے کوئی ایسا عذاب نازل نہ ہوا جو معمولی تکلیفوں سے نرالا اور خارق عادت اور اپنے اندر الٰہی ہیبت رکھتا ہو تو سمجھو کہ میں خداتعالیٰ کی طرف سے نہیں اور نہ اس کی روح سے میرا یہ نطق ہے اور اگر میں اس پیش گوئی میں کاذب نکلا تو ہر ایک سزا کے بھگتنے کے لئے تیار ہوں اور اس بات پر راضی ہوں کہ مجھے گلہ میں رسہ ڈال کر کسی سولی پر کھینچا جائے۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۶۵۰،۶۵۱، خزائن ج۵)
مرزاغلام احمد قادیانی کی اس تحریر کو پھر سے ایک مرتبہ بغور ملاحظہ کیجئے۔ مرزاقادیانی نے پنڈت لیکھرام کی موت کی پیش گوئی کن الفاظ میں کی ہے؟ کہ پنڈت پر ایسا عذاب نازل ہوگا جو نرالا اور خارق عادت ہوگا۔ یعنی ایسا عذاب جس میں کسی انسانی ہاتھ کا دخل نہیں ہوگا۔ اس عذاب کو دیکھتے ہی لوگ پکار اٹھیں گے کہ یہ خدائی پکڑ ہے اور یہ انسان کے بس سے باہر ہے۔ مرزاغلام احمد قادیانی کے نزدیک خرق عادت کسے کہتے ہیں اسے بھی ملاحظہ کیجئے۔ ’’جس امر کی کوئی نظیر نہ پائی جائے اسی کو دوسرے لفظوں میں خارق عادت کہتے ہیں۔‘‘ (سرمہ چشم آریہ ص۱۹ حاشیہ، خزائن ج۲ ص۶۷)
مرزاقادیانی نے ایک اور جگہ لکھا: ’’خارق عادت اسی کو تو کہتے ہیں کہ جس کی نظیر دنیا میں نہ پائی جائے۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۹۶، خزائن ج۲۲ ص۲۰۴)
اس بات کو کچھ عرصہ گذرا تھا کہ پنڈت لیکھرام کو کسی نے چھری سے وار کر کے قتل کر دیا۔ مرزاغلام احمد قادیانی کو جب یہ خبر پہنچی کہ پنڈت لیکھرام خرق عادت کے طور پر عذاب میں مبتلا نہیں ہوا بلکہ اسے کسی نے چھری سے قتل کر دیا ہے تو اس کی ساری امیدوں پر پانی پھر گیا۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرلیتا اور پیش گوئی کے غلط ہونے کا اقرار کرتا۔ جھٹ سے اپنی پیش گوئی میں یہ سوچ کر تحریف کر ڈالی کہ پرانے جھگڑے کسے یاد رہتے ہیں۔
(آئینہ کمالات اسلام ص۹۳، سنہ۱۸۹۲ء) میں مرزاقادیانی نے اپنی پیش گوئی درج کی ہے۔ مگر جب مرزاقادیانی نے (نزول المسیح ۱۹۰۲ء میں) لکھی تو اس میں پنڈت لیکھرام کی میت کی تصویر شائع کی اور اس کے حاشیہ میں اب یہ پیش گوئی اس طرح پیش کی: ’’میں نے اس کی نسبت پیش گوئی کی تھی کہ چھ برس تک چھری سے مارا جائے گا۔‘‘
(نزول المسیح ص۱۷۵، خزائن ج۱۸ ص۵۵۳)
مرزاقادیانی نے (تریاق القلوب مؤلفہ۱۸۹۹ء) میں لکھا: ’’یہ پیش گوئی نہ ایک خارق عادت امر پر بلکہ کئی خارق عادت امور پر مشتمل تھی۔ کیونکہ پیش گوئی میں یہ بیان کیاگیا تھا کہ لیکھرام جوانی کی حالت میں ہی مرے گا اور بذریعہ قتل کے مرے گا۔‘‘ (تریاق القلوب ص۱۱۶، خزائن ج۱۵ ص۴۰۳)
مرزاغلام احمد قادیانی کا یہ جھوٹ بھی دیکھیں جو اس نے فروری ۱۹۰۳ء کو لکھا: ’’خدا نے دنیا میں اشتہار دے دیا کہ لیکھرام بوجہ اپنی بدزبانیوں کے چھ برس تک کسی کے ہاتھ سے مارا جائے گا۔‘‘
(نسیم دعوت ص۱۰۴، خزائن ج۱۹ ص۴۶۴، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۴۹۵)
مرزاقادیانی کی کتاب (حقیقت الوحی مطبوعہ ۱۹۰۷ء) میں لکھا یہ جھوٹ بھی ملاحظہ کریں۔ ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں جن میں قبل از وقوع خبر دی گئی تھی کہ لیکھرام قتل کے ذریعہ سے چھ سال کے اندر اس دنیا سے کوچ کر جائے گا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۲۹۴، خزائن ج۲۲ ص۲۹۴)
آپ ہی فیصلہ کریں کہ مرزاقادیانی نے ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں جو پیش گوئی نقل کی ہے۔ کیا اس پیش گوئی کے الفاظ یہی ہیں جو انہوں نے ’’نزول المسیح‘‘ اور ’’تریاق القلوب‘‘، ’’نسیم دعوت‘‘ اور ’’حقیقت الوحی‘‘ نامی کتابوں اور اشتہار میں لکھے ہیں۔ اگر الفاظ وہی ہوتے تو کسی کو اعتراض کی گنجائش نہیں۔ لیکن کیا کیا جائے۔ نہ الفاظ وہ ہیں اور نہ ہی پنڈت لیکھرام کی موت خرق عادت طور پر ہوئی ہے۔ مگر افسوس کہ مرزاقادیانی اتنی بڑی تحریف پر بھی ذرا نہیں شرمائے اور انہیں دن دھاڑے جھوٹ بولتے اور لکھتے ہوئے ذرا حیا نہیں آئی۔ سچ ہے ؎
بے حیا باش وہرچہ خواہی کن
چھری سے قتل ہونا تاریخ کا کوئی نرالا اور انوکھا واقعہ نہیں ہے۔ عام طور سے اس قسم کے واقعات ہر جگہ ظہور میں آتے ہیں۔ اس کو کسی نے بھی نرالا اور خرق عادت عذاب نہیں کہا۔ اس میں انسانی ہاتھ کام کرتے ہیں اور جو ہاتھ اس میں ملوث ہوتے ہیں۔ ان کی گردنیں بھی پھر ناپی جاتی ہیں اور اس پر پھر پھانسیاں لگتی ہیں۔ مرزاقادیانی کی پیش گوئی کے الفاظ اس بات کے پوری طرح گواہ ہیں کہ اس نے پنڈت کو ایسے عذاب میں مبتلا ہونے کی پیش گوئی کی تھی جو خرق عادت کے طور پر تھی۔ لیکن یہ پیش گوئی ہر گز پوری نہ ہوئی اور مرزاقادیانی اپنی اس پیش گوئی میں بھی غلط نکلے تو انہوں نے اپنی اس پیش گوئی کو صحیح ثابت کرنے کے لئے اپنے ہی الفاظ میں طرح طرح کی تحریف کی۔ تاکہ ان کی بات پوری ہو جائے۔ مرزاقادیانی نے ۵؍مارچ ۱۸۹۷ء کو ایک اشتہار شائع کیا۔ تو اس میں یہ الفاظ لکھ دئیے۔ ’’لیکھرام کی موت کسی بیماری سے نہیں ہوگی۔ بلکہ خدا کسی ایسے کو اس پر مسلط کرے گا۔ جس کی آنکھوں سے خون ٹپکتا ہوگا۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۳۴۸)
مرزاقادیانی نے جب جولائی، اگست ۱۸۹۹ء میں ’’تریاق القلوب‘‘ لکھی تو اس میں یہ الفاظ شامل کر دئیے۔ ’’یہ موت کسی معمولی بیماری سے نہیں ہوگی۔ بلکہ ایک ضرور ہیبت ناک نشان کے ساتھ یعنی زخم کے ساتھ اس کا وقوعہ ہوگا۔‘‘
(تریاق القلوب ص۲۶۰، خزائن ج۱۵ ص۳۸۸)
مرزاقادیانی یہ بھی لکھتے ہیں: ’’آسمان پر یہ قرار پاچکا ہے کہ لیکھرام ایک دردناک عذاب کے ساتھ قتل کیا جائے گا۔‘‘ (تریاق القلوب ص۲۶۷، خزائن ج۱۵ ص۳۹۵)
مرزاقادیانی کو اپنے الفاظ میں باربار تبدیلی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اسی لئے کہ ان کی پیش گوئی غلط ہوگئی تھی اور اب وہ تحریف کر کے اپنی بات کو صحیح بنانا چاہتے تھے اور پیش گوئی کو حالات کے مطابق ڈھالنا چاہتے تھے۔ مگر افسوس کہ اس میں بھی وہ ناکام رہے اور ان کا جھوٹ کھل کر سامنے آگیا۔ مرزاقادیانی کی اس پیش گوئی کے جھوٹا ہونے پر مرزاقادیانی کے یہ الفاظ ہم انہی کی نذر کئے دیتے ہیں۔ ’’کسی انسان کا اپنی پیش گوئیوں میں جھوٹا نکلنا خود تمام رسوائیوں سے بڑھ کر رسوائی ہے۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۶۵۱، خزائن ج۵ ص ایضاً)
(نوٹ) پنڈت لیکھرام کو کس نے قتل کیا۔ یہ معلوم نہ ہوسکا انگریزوں کا دور تھا وہی اس راز سے پردہ اٹھاسکتے ہیں۔ تاہم مرزاقادیانی کی تحریرات اس بارے میں کچھ کم دلچسپی سے خالی نہیں ہیں۔ مرزاغلام احمد قادیانی کا کہنا ہے کہ لیکھرام کو ایک فرشتے نے قتل کردیا تھا اور قتل سے پہلے فرشتے نے مرزاقادیانی سے آکر پوچھا تھا کہ وہ اس وقت کہاں ہوگا۔ مرزاقادیانی کے الفاظ یہ ہیں: ’’خونی فرشتہ جو میرے اوپر ظاہر ہوا اور اس نے پوچھا کہ لیکھرام کہاں ہے۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۲۸۴، خزائن ج۲۲ ص۲۹۷)
مرزاقادیانی یہ بھی لکھ آئے ہیں: ’’ایک شخص قوی ہیکل، مہیب شکل میرے سامنے آکر کھڑا ہوگیا اور اس کی ہیبت دلوں پر طاری تھی اور میں اس کو دیکھتا تھا کہ ایک خونی شخص کے رنگ میں ہے۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ لیکھرام کہاں ہے؟‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۸۴، خزائن ج۲۲ ص۲۹۷)
’’ایک شخص قوی ہیکل، مہیب شکل گویا اس کے چہرہ پر سے خون ٹپکتا ہے۔ میرے سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔ میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک نئی خلقت کا شخص ہے… اس نے مجھ سے پوچھا کہ لیکھرام کہاں ہے؟‘‘
(تریاق القلوب ص۲۶۶، خزائن ج۱۵ ص۳۹۴)
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس خونی فرشتہ کو معلوم نہ تھا کہ اس وقت لیکھرام کہاں پر ہے؟ کیا خدا نے اسے نہیں بتایا تھا کہ لیکھرام فلاں جگہ پر ملے گا؟ آخر اس خونی کو مرزاقادیانی سے پوچھنے کی ضرورت کیوں ہوئی؟ اس قسم کی باتیں وہی پوچھتے ہیں جنہیں اس خاص مقصد کے لئے تیار کیا جاتا ہے اور جب وہ وقت آتا ہے تو پھر وہ اسی کو آکر پوچھتے ہیں جس نے انہیں اس کام کے لئے تیار کیا ہوتا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس خدا کے فرشتے آئے اور پھر آپ سے رخصت ہوکر قوم لوط علیہ السلام کی بستی الٹنے چلے گئے۔ ان میں سے کسی نے بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام سے نہیں پوچھا کہ قوم لوط کی بستی کس جانب ہے؟ کیوں؟ اس لئےکہ یہ انسان نہیں، فرشتے تھے اور فرشتے اس قسم کے سوالات نہیں کیا کرتے۔ ہاں انسان پوچھا کرتے ہیں۔
بدر کے میدان میں خدا کے ہزاروں فرشتے اترے اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے انہیں دیکھا بھی کہ وہ خدا کے دشمنوں کا کام تمام کر رہے ہیں۔ مگر آپ ہی بتائیں کیا انہوں نے حضور ﷺ یا کسی صحابیرضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ فلاں فلاں خدا کا دشمن اس وقت کہاں ہے کہ میں اس کا کام تمام کروں؟
مگر مرزاقادیانی کے پاس آنے والا فرشتہ اتنا جاہل تھا کہ نہ اسے خدا نے بتایا کہ لیکھرام کہاں ہے؟ نہ خود اسے پتہ تھا۔ اسے مرزاقادیانی کے پاس آکر پوچھنا پڑا کہ اس وقت لیکھرام کہاں ہوگا؟ تاکہ میں جاکر اس کو قتل کردوں۔ بعض لوگ اس خونی فرشتے کا نام مٹھن لال بتاتے ہیں۔ مرزاقادیانی کے اس فرشتے کا ذکر ان کی مقدس کتاب (تذکرہ کے ص۵۵۶) پرملتا ہے۔
پنڈت لیکھرام کے حامیوں کا کہنا تھا کہ یہ قتل مرزاغلام احمد قادیانی کے اشارے پر کیاگیا ہے۔ انہوں نے اس کی رپورٹ بھی لکھوائی۔ تاکہ اس پر کاروائی کی جائے۔ انگریزوں کا دور تھا اور یہ ان کا خودکاشتہ پودا۔ حالات کی نزاکت کے پیش نظر مرزاقادیانی کے گھر کی ۱۸؍اپریل ۱۸۹۷ء کو تلاشی بھی لی گئی تھی۔ (دیکھئے مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۳۸۱) لیکن انگریزوں سے اس بات کی امید باندھنی کہ وہ اپنے خودکاشتہ پودا پر ہاتھ ڈالے، سوائے نادانی کے اور کیا ہے؟
ہم اس وقت صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مرزاغلام احمد قادیانی کواپنی جس پیش گوئی کے پورا ہونے پر بڑا ناز تھا اور جسے وہ ہمیشہ اپنی سچائی کے ثبوت کے طور پر پیش کرسکتے کبھی پوری نہیں ہوئی۔ نہ پنڈت ایسے عذاب کا شکار ہوا۔ جسے خرق عادت سمجھا جائے اور نہ ایسی موت پائی جو سب سے نرالی اور انوکھی سمجھی جائے۔ اس لئے مرزاقادیانی کا اور خصوصاً مرزامسرور کا پنڈت لیکھرام کی پیش گوئی کو باربار ذکر کرنا کھلی ڈھٹائی ہے اور ایک جھوٹ کو سچ بتانا قادیانیوں کا ہمیشہ کا طریق رہا ہے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار!
۱… ’’جھوٹ بولنا مرتد ہونے سے کم نہیں۔‘‘ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۱۳ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۵۶)
۲… ’’جھوٹ بولنے سے بدتردنیا میں اور کوئی براکام نہیں۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۲۶، خزائن ج۲۲ ص۴۵۹)
۳… ’’جھوٹ بولنا اور گوہ کھانا ایک برابر ہے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۰۶، خزائن ج۲۲ ص۲۱۵)
۴… ’’ظاہر ہے کہ جب ایک بات میں کوئی جھوٹا ثابت ہو جائے تو پھر دوسری باتوں میں بھی اس پر اعتبار نہیں رہتا۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۲۲۲، خزائن ج۲۳ ص۲۳۱)
۵… ’’سچ بات تو یہ ہے کہ جب انسان جھوٹ بولنا روارکھ لیتا ہے تو حیا اور خدا کا خوف بھی کم ہو جاتا ہے۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۱۳۵، خزائن ج۲۲ ص۵۷۳)
۶… ’’جھوٹ کے مردار کو کسی طرح نہ چھوڑنا یہ کتوں کا طریق ہے نہ انسانوں کا۔‘‘
(انجام آتھم ص۴۳، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)
۷… ’’جھوٹے پر بغیر تعین کسی فریق کے لعنت کرنا کسی مذہب میں ناجائز نہیں نہ ہم میں نہ عیسائیوں میں نہ یہودیوں میں۔‘‘ (انجام آتھم ص۳۱، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۸، خزائن ج۱۷ ص۴۸)
۱۵… ’’ہمارا ایمان ہے کہ خدا پر افتراء کرنا پلید طبع لوگوں کا کام ہے۔‘‘ (اربعین نمبر۳ ص۲۰ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۴۰۶)
۱۶… ’’خنزیر کی طرح جھوٹ کی نجاست کھائیں گے۔‘‘ (ایام الصلح ص۹۱، خزائن ج۱۴ ص۳۲۸)
۱۷… ’’جھوٹے پر اگر ہزارلعنت نہیں تو پانچ سو سہی۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۸۶۶، خزائن ج۳ ص۵۷۲)
۱۸… ’’جھوٹ اور تلبیس کی راہ کو چھوڑ دو۔‘‘ (نورالحق ج۲ ص۱۳، خزائن ج۸ ص۲۰۱)
۱۹… ’’افسوس کہ یہ لوگ خدا سے نہیں ڈرتے۔ انبار درانبار ان کے دامن میں جھوٹ کی نجاست ہے۔‘‘
(اعجاز احمدی ص۱۱، خزائن ج۱۹ ص۱۱۸)
۲۰… ’’اے مفتری نابکار کیا اب بھی ہم نہ کہیں کہ جھوٹے پر خدا کی لعنت۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ ص۱۱۱، خزائن ج۲۱ ص۲۷۵)
ان حوالہ جات مذکورہ کے ساتھ اب مرزاقادیانی کے ان کذبات واتہامات کو ملاحظہ فرمائیں۔ جو آپ کی زبان وقلم سے نکلے ہیں۔ تاکہ دعاوی مرزا کی حقیقت گورابطال میں مدفون ہو جائے اور مرزائیت کے طلسمی جال کا کوئی تار باقی نہ رہ جائے۔
پڑا فلک کو کبھی دل جلوں سے کام نہیں
جلا کے خاک نہ کردوں تو داغ نام نہیں
کذبات مرزاقادیانی
۱… ’’حدیثوں میں صاف طور پر یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ مسیح موعود کی بھی تکفیر ہوگی اور علمائے وقت اس کو کافر ٹھہرائیں گے اور کہیں گے کہ یہ کیا مسیح ہے۔ اس نے تو ہمارے دین کی بیخ کنی کر دی۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۷۴ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۲۱۳ حاشیہ)
۲… ’’لیکن ضرور تھا کہ قرآن، حدیث کی وہ پیش گوئیاں پوری ہوتیں۔ جن میں لکھا تھا کہ مسیح موعود جب ظاہر ہوگا تو اسلامی علماء کے ہاتھ سے دکھ اٹھائے گا۔ وہ اس کو کافر قرار دیں گے اور اس کے قتل کے لئے فتویٰ دئیے جائیں گے اور اس کی سخت توہین کی جائے گی اور اس کو دائرہ اسلام سے خارج اور دین کا تباہ کرنے والا خیال کیا جائے گا۔‘‘
(اربعین نمبر۳ ص۱۷، خزائن ج۱۷ ص۴۰۴)
۳… ’’اور میرا یہ بیان کہ میرے تمام دعاوی قرآن کریم اور احادیث نبویہ اور اولیاء گزشتہ کی پیش گوئیوں سے ثابت ہیں۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۳۵۶، خزائن ج۲۱ ص ۲۶۰ حاشیہ)
۴… ’’حدیثوں میں آیا ہے کہ مسیح موعود کے ظہور کے وقت ملک میں طاعون بھی پھوٹے گی۔‘‘
(ایام الصلح ص۱۱۰، خزائن ج۱۴ ص۳۴۷ حاشیہ)
۵… ’’ایسا ہی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ آدم سے لے کر اخیر تک دنیا کی عمر سات ہزارسال ہوگی۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۹۱، خزائن ج۱۷ ص۲۴۷،۲۴۸)
۶… ’’اس پیش گوئی (آتھم والی) کی نسبت تو رسول اﷲ ﷺ نے بھی خبردی تھی اور مکذبین پر نفرین کی تھی۔‘‘
(ایام الصلح ص۱۶۹،۱۷۰، خزائن ج۱۴ ص۴۱۸)
۷… ’’ایک حدیث میں آنحضرت ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر موسیٰ علیہ السلام ، عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو میری پیروی کرتے۔‘‘ (ایام الصلح ص۴۲، خزائن ج۱۴ ص۲۷۳)
۸… ’’اے عزیزو! تم نے وہ وقت پایا ہے جس کی بشارت تمام نبیوں نے دی ہے اور اس شخص (مرزاقادیانی) کو تم نے دیکھ لیا۔ جس کے دیکھنے کے لئے بہت سے پیغمبروں نے بھی خواہش کی تھی۔‘‘ (اربعین نمبر۴ ص۱۳، خزائن ج۱۷ ص۴۴۳)
۹… ’’ہاں میں (مرزاقادیانی) وہی ہوں جس کا سارے نبیوں کی زبان پر وعدہ ہوا اور پھر خدا نے ان کی معرفت بڑھانے کے لئے منہاج نبوت پر اس قدر نشانات ظاہر کئے کہ لاکھوں انسان ان کے گواہ ہیں۔‘‘ (فتاویٰ احمدیہ ج۱ ص۵۱)
مرزاقادیانی کی تاریخ دانی … نبی کریم ﷺ کی بارہ لڑکیاں
۱۰… ’’دیکھو ہمارے پیغمبر ﷺ کے ہاں بارہ لڑکیاں ہوئیں۔ آپ نے کبھی نہیں کہا کہ لڑکا کیوں نہ ہوا۔‘‘
(ملفوظات ج۳ ص۳۷۲، طبع جدید)
نبی کریم ﷺ کے گیارہ لڑکے
۱۱… ’’تاریخ دان لوگ جانتے ہیں کہ آپ ﷺ کے گھر میں گیارہ لڑکے پیدا ہوئے اور سب کے سب فوت ہوگئے۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۲۸۶، خزائن ج۲۳ ص۲۹۹)
صفر، چوتھا مہینہ، چار شنبہ چوتھادن
۱۲… مرزاقادیانی نے اپنے بیٹے کی پیدائش کے بارے میں لکھا ہے: ’’اور جیسا کہ وہ چوتھا لڑکا تھا۔ اسی مناسبت کے لحاظ سے اس نے اسلامی مہینوں میں سے چوتھا مہینہ لیا۔ یعنی ماہ صفر اور ہفتہ کے دنوں میں سے چوتھا دن لیا یعنی چارشنبہ اور دن کے گھنٹوں میں سے دوپہر کے بعد چوتھا گھنٹہ لیا۔‘‘ (تریاق القلوب ص۴۱، خزائن ج۱۵ ص۲۱۸)
۱۳… ’’قرآن کریم اور توریت سے ثابت ہے کہ آدم علیہ السلام بطور توأم (جوڑواں) پیدا ہوا تھا۔‘‘
(ضمیمہ تریاق القلوب ص۱۶۰، خزائن ج۱۵ ص۴۸۵)
۱۴… ’’مگر خدا ان کو (حضرت عیسیٰ علیہ السلام ) کو پیدائش میں بھی اکیلا نہیں رکھا۔ بلکہ کئی حقیقی بھائی، حقیقی بہنیں ان کی ایک ہی ماں سے تھیں۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۰۰ حاشیہ، خزائن ج۲۱ ص۲۶۲)
۱۵… ’’اب میرے ہاتھ پر ایک لاکھ کے قریب انسان بدی سے توبہ کر چکے ہیں۔‘‘
(ریویو ج۱ نمبر۹ ص۳۳۹، بابت ماہ ستمبر ۱۹۰۲ء، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۶۰۵)
۱۶… ’’مولوی غلام دستگیر قصوری نے اپنی کتاب میں اور مولوی اسماعیل علی گڑھ والے نے میری نسبت قطعی حکم لگایا کہ وہ اگر کاذب ہے تو ہم سے پہلے مرے گا اور ضرور ہم سے پہلے مرے گا۔ کیونکہ کاذب ہے۔‘‘
(اربعین نمبر۳ ص۹، خزائن ج۱۷ ص۳۹۴، ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۶، خزائن ج۱۷ ص۴۵)
۱۷… ’’اس روز کشفی طور پر میں نے دیکھا کہ میرے بھائی مرزاغلام قادر میرے قریب بیٹھ کر باآواز بلند قرآن کریم پڑھ رہے ہیں اور پڑھتے پڑھتے انہوں نے ان فقرات کو پڑھا کہ: ’’انا انزلناہ قریباً من القادیان‘‘ تو میں نے سن کر بہت تعجب کیا کہ قادیان کا نام بھی قرآن شریف میں لکھا ہوا ہے۔ تب انہوں نے کہا کہ یہ دیکھو لکھا ہوا ہے۔ میں نے نظر ڈال کر جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ فی الحقیقت قرآن کریم کے دائیں صفحہ میں شاید قریب نصف کے موقع پر یہی الہامی عبارت لکھی ہوئی موجود ہے۔ تب میں نے اپنے دل میں کہا کہ ہاں واقعی طور پر قادیان کا نام قرآن شریف میں درج ہے اور میں نے کہا کہ تین شہروں کا نام قرآن کریم میں اعزاز کے ساتھ درج کیا گیا ہے۔ مکہ، مدینہ اور قادیان۔ یہ کشف تھا جو مجھے کئی سال پہلے دکھلایا گیا تھا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۷۷ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۱۴۰)
۱۸… ’’ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں۔‘‘ (البشریٰ ج۲ ص۱۰۵، تذکرہ ص۵۹۱)
۱۹… ’’قرآن کریم خد اکی کتاب اور میرے منہ کی باتیں ہیں۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۸۴، خزائن ج۲۲ ص۸۷)
۲۰… ’’ہمارے نبی ﷺ کو بعض پیش گوئیوں میں خدا کر کے پکارا گیا ہے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۶۳، خزائن ج۲۲ ص۶۶)
۲۱… ’’میں وہ شخص ہوں جس کے ہاتھ پر صدہا نشان ظاہر ہوئے ہیں۔‘‘
(ملخصاً تذکرۃ الشہادتین ص۳۴، خزائن ج۲۰ ص۳۲، اکتوبر۱۹۰۳ء)
۲۲… ’’جتنے لوگ ہمارے سامنے مباہلہ کرنے والے آئے سب ہلاک ہوگئے۔‘‘
(چشمہ معرفت ص۳۱۸، خزائن ج۲۳ ص۳۳۳)
۲۳… ’’آپ سے پوچھا گیا کہ کیا زبان فارسی میں بھی کبھی خدا نے کلام کیا ہے۔ تو فرمایا ہاں خدا کا کلام زبان فارسی میں بھی اترا ہے۔ جیسا کہ وہ اس زبان میں فرماتا ہے۔‘‘
ایں مشت خاک راگرنہ بخشم چہ کنم
(ضمیمہ چشمہ معرفت ص۱۱، خزائن ج۲۳ ص۳۶۶)
باب نہم … تضادات مرزا
برادران اسلام! آئندہ درج شدہ حوالہ جات سے یہ صاف ظاہر ہو جائے گا کہ قادیانی نبی اپنے ہی فیصلہ کے مطابق کافر ہے، خارج از اسلام ہے، ملعون ہے، پاگل ہے، منافق ہے، مخبوط الحواس ہے اور جھوٹا ہے۔ اب مرزاقادیانی کی متضاد باتیں پڑھنے سے پہلے خود اس کے متضاد اقوال والے شخص کے متعلق دیے ہوئے فتوے ملاحظہ فرمائیں:
۱… ’’کسی سچیار، عقلمند اور صاف دل انسان کے کلام میں ہرگز تناقض نہیں ہوتا۔ ہاں اگر کوئی پاگل یا مجنوں یا ایسا منافق ہو کہ خوشامد کے طور پر ہاں میں ہاں ملا دیتا ہو اس کا کلام بے شک متناقض ہوتا ہے۔‘‘ (ست بچن ص۳۰، خزائن ج۱۰ ص۱۴۳)
۲… ’’اس شخص کی حالت ایک ’’مُخْبِطُ الْحَوَاسِ‘‘ انسان کی حالت ہے کہ ایک کھلا تناقض اپنے کلام میں رکھتا ہے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۸۴، خزائن ج۲۲ ص۱۹۱)
۳… ’’جھوٹے کے کلام میں تناقض ضرور ہوتا ہے۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۱۲، خزائن ج۲۱ ص۲۷۵)
مرزاقادیانی کے نزدیک پاگل، مجنوں، منافق، مخبط الحواس، جھوٹے کے کلام میں تناقض ہوتا ہے۔ مرزاقادیانی کی جوتی مرزا کا سر ؎
اگر ہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
قادیانی نبی کی متضاد باتیں
۱… ’’قادیان طاعون سے اس لئے محفوظ رکھی گئی ہے کہ وہ خدا کا رسول اور فرستادہ قادیان میں تھا۔‘‘
(دافع البلاء ص۵، خزائن ج۱۸ ص۲۲۶)
’’اگرچہ طاعون تمام بلاد پر اپنا پر ہیبت اثر ڈالے گی مگر قادیان یقینا اس کی دستبرد سے محفوظ رہے گا۔‘‘
(اخبار الحکم مورخہ۱۰؍اپریل ۱۹۰۲ء)
’’طاعون کے دنوں میں جب قادیان میں طاعون زور پر تھا۔ میرا لڑکا شریف احمد بیمار ہوا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۸۴ حاشیہ، خزائن ج۲۲ ص۸۷)
۲… ’’چونکہ یہ امر ممنوع ہے کہ طاعون زدہ لوگ اپنے دیہات کو چھوڑ کر دوسری جگہ جائیں۔ اس لئے اپنی جماعت کے ان تمام لوگوں کو جو طاعون زدہ علاقہ میں ہیں۔ منع کرتا ہوں کہ وہ اپنے علاقہ سے نکل کر قادیان یا دوسری جگہ جانے کا ہرگز قصد نہ کریں اور دوسروں کو بھی روکیں اور اپنے مقامات سے ہرگز نہ ہلیں۔‘‘
(اشتہار لنگر خانہ کا انتظام مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۴۶۷ حاشیہ)
’’مجھے معلوم ہوا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب کسی شہر میں وبا نازل ہو تو اس شہر کے لوگوں کو چاہئے کہ بلاتوقف اس شہر کو چھوڑ دیں۔ ورنہ خداتعالیٰ سے لڑنے والے ٹھہرائے جائیں گے۔‘‘ (ریویو ج۹ ص۳۶۵، ستمبر ۱۹۰۷ء)
۳… برادران اسلام! میں اس رسالہ میں مرزاقادیانی کی کتابوں کے حوالے سے ثابت کر چکا ہوں کہ مرزاقادیانی کو نبی نہ ماننے والے مسلمان حرامزادے ہیں۔ مرزاقادیانی کے مخالف سور اور ان کی عورتیں کتیوں سے بدتر ہیں۔ مرزاقادیانی کو نہ ماننے والے شیطان ہیں۔
’’کسی انسان کو حیوان کہنا بھی ایک قسم کی گالی ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۲۶ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۱۱۵)
’’جہاں تک مجھے معلوم ہے۔ میں نے ایک لفظ بھی ایسا استعمال نہیں کیا۔ جس کو دشنام دہی کہا جائے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۳، خزائن ج۳ ص۱۰۹)
’’گالیاں دینا اور بدزبانی کرنا طریق شرافت نہیں۔‘‘ (ضمیمہ اربعین نمبر۴ ص۵، خزائن ج۱۷ ص۴۷۱)
۴… ’’ہم ایسے ناپاک خیال اور متکبر اور راست بازوں کے دشمن کو ایک بھلامانس آدمی قرار نہیں دے سکتے۔ چہ جائیکہ نبی قرار دیں۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۹ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۳۹۳)
’’مسیح ایک کامل اور عظیم الشان نبی تھا۔ ‘‘ (البشریٰ ج۱ ص۲۴)
’’حضرت مسیح خدا کے متواضع اور حکیم اور عاجز اور بے نفس بندے تھے۔‘‘
(مقدمہ براہین احمدیہ ص۱۰۴ حاشیہ، خزائن ج۱ ص۹۴)
۵… مرزاقادیانی مسیح کے معجزے کے متعلق کہتے ہیں: ’’ان پرندوں کا پرواز کرنا قرآن مجید سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۳۰۷ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۲۵۶)
’’حضرت مسیح کی چڑیاں باوجود یہ کہ معجزہ کے طور پر ان کا پرواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۶۸، خزائن ج۵ ص ایضاً)
۶… ’’عیسائیوں نے بہت سے آپ کے (یسوع) معجزات لکھے ہیں۔ مگر حق بات یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہیں ہوا۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۲۹۰)
’’اور سچ صرف اس قدر ہے کہ یسوع مسیح نے بھی بعض معجزات دکھلائے۔ جیسا کہ نبی دکھلاتے تھے۔‘‘
(ریویو آف ریلیجنز ج۱ نمبر۹ ص۳۴۲، ماہ ستمبر ۱۹۰۲ء)
۷… ’’حضرت مسیح کی حقیقت نبوت کی یہ ہے کہ وہ براہ راست بغیر اتباع آنحضرت ﷺ کے ان کو حاصل ہے۔‘‘
(اخبار بدر ج۱ نمبر۸ ص۶۸، ۸؍رمضان ۱۳۲۰ھ)
’’حضرت مسیح کی جو بزرگی ملی۔ وہ بوجہ تابعداری حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے ملی۔‘‘ (مکتوبات احمدیہ ج۱۳ ص۱۲)
۸… ’’خدا نے مسیح کو بن باپ پیدا کیا تھا۔‘‘ (البشریٰ ج۲ ص۶۸)
’’حضرت مسیح بن مریم اپنے باپ یوسف کے ساتھ ۲۲برس کی مدت تک نجاری کا کام بھی کرتے رہے ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۰۳ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۲۵۵)
۹… ’’یہ قرآن شریف کا مسیح اور اس کی والدہ پر احسان ہے کہ کروڑہا انسانوں کو یسوع کی ولادت کے بارے میں زبان بند کردی اور ان کو تعلیم دی کہ تم یہی کہو کہ وہ بے باپ پیدا ہوا۔‘‘ (ریویو آف ریلیجنز ج۱ نمبر۴ ص۱۵۹، اپریل ۱۹۰۲ء)
’’خدا تعالیٰ نے یسوع کی قرآن شریف میں کچھ خبر نہیں دی کہ وہ کون تھا۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۹ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۲۹۳)
نوٹ: مرزاقادیانی کے نزدیک یسوع مسیح حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم کے نام ہیں۔ چنانچہ مرزاقادیانی کی عبارت ملاحظہ ہو: ’’مسیح ابن مریم جس کو عیسیٰ اور یسوع بھی کہتے ہیں۔‘‘ (توضیح المرام ص۳، خزائن ج۳ ص۵۲)
حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق متضاد باتیں
۱۰… ’’میرا یہ دعویٰ ہے کہ میں وہ مسیح موعود ہوں جس کے بارے میں خداتعالیٰ کی تمام پاک کتابوں میں پیش گوئیاں ہیں کہ وہ آخری زمانہ میں ظاہر ہوگا۔‘‘ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۱۱۸، خزائن ج۱۷ ص۲۹۵)
’’خداتعالیٰ نے میرے پر منکشف کیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ مسیح موعود میں ہی ہوں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۹، خزائن ج۳ ص۱۲۲)
’’اس عاجز نے جو مثل مسیح کا دعویٰ کیا ہے۔ جس کو کم فہم لوگ مسیح موعود کا خیال کر بیٹھے ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۹۵، خزائن ج۱۳ ص۱۹۲)
۱۱… ’’ھو الذی ارسل رسولہ بالہدیٰ‘‘ یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیش گوئی ہے اور جس غلبۂ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیاگیا ہے۔ وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ سے ظہور میں آئے گا اور جب مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق واقطار میں پھیل جائے گا۔‘‘
(براہین احمدیہ ص۴۹۹، خزائن ج۱ ص۵۹۳)
’’قرآن شریف میں مسیح ابن مریم کے دوبارہ آنے کا تو کہیں ذکر نہیں۔‘‘ (ایام الصلح ص۱۴۶، خزائن ج۱۴ ص۳۹۲)
۱۲… ’’وہ ابن مریم جو آنے والا ہے۔ کوئی نبی نہیں ہوگا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۲۹۱، خزائن ج۳ ص۲۴۹)
’’جس آنے والے مسیح موعود کا حدیثوں سے پتا لگتا ہے۔ اس کا انہیں حدیثوں میں یہ نشان دیاگیا ہے کہ وہ نبی ہو گا۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۶، خزائن ج۲۲ ص۳۱)
۱۳… ’’یہ ظاہر ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم اس امت کے شمار میں آگئے ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۲۶۳، خزائن ج۳ ص۴۳۶)
’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو امتی قرار دینا کفر ہے۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ۵ ص۱۹۲، خزائن ج۲۱ ص۳۶۵)
۱۴… ’’ہاں بعض احادیث میں عیسیٰ ابن مریم کے نزول کا لفظ پایا جاتا ہے۔ لیکن کسی حدیث میں یہ نہیں پاؤ گے کہ اس کا نزول آسمان سے ہوگا۔‘‘ (حمامتہ البشریٰ ص۲۱، خزائن ج۷ ص۲۰۲)
’’مسیح آسمان پر سے جب اترے گا تو دو زردچادریں اس نے پہنی ہوئی ہوں گی۔‘‘
(تشحیذ الاذہان ج۱ نمبر۲ ص۵، ماہ جون ۱۹۰۶ء، ملفوظات ج۸ ص۴۴۵)
۱۵… ’’بائبل اور ہماری حدیثوں اور اخبار کی کتابوں کی رو سے جن نبیوں کا اسی وجود عنصری کے ساتھ آسمان پر جانا تصور کیاگیا ہے۔ وہ دو نبی ہیں۔ ایک یوحنا جس کا نام ایلیا اور ادریس بھی ہے۔ دوسرے مسیح ابن مریم جن کو عیسیٰ اور یسوع بھی کہتے ہیں۔‘‘ (توضیح المرام ص۳، خزائن ج۳ ص۵۲)
’’حضرت عیسیٰ فوت ہو چکے ہیں اور ان کا زندہ آسمان پر مع جسم عنصری جانا اور اب تک زندہ ہونا اور پھر کسی وقت مع جسم عنصری زمین پر آنا۔ یہ سب ان پر تہمتیں ہیں۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ ۵ ص۲۳۰، خزائن ج۲۱ ص۴۰۶)
۱۶… ’’آپ کے ہاتھ میں سوائے مکرو فریب کے کچھ نہ تھا۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۷، خزائن ج۱۱ ص۳۹۱)
’’ہم تو قرآن شریف کے فرمودہ کے مطابق حضرت عیسیٰ کو سچا نبی مانتے ہیں۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ ۵ ص۱۰۱، خزائن ج۲۱ ص۲۶۳)
۱۷… ’’حضرت عیسیٰ تو انجیل کو ناقص کی ناقص ہی چھوڑ کر آسمان پر جا بیٹھے۔‘‘ (براہین احمدیہ ص۳۶۱، خزائن ج۱ ص۴۳۱)
’’حضرت عیسیٰ پر یہ ایک تہمت ہے کہ گویا وہ مع جسم عنصری آسمان پر چلے گئے۔‘‘
(نصرۃ الحق براہین احمدیہ ص۴۵، خزائن ج۲۱ ص۵۸)
۱۸… ’’میں نے صرف مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور میرا یہ دعویٰ بھی نہیں کہ صرف مثیل ہونا میرے پرہی ختم ہوگیا ہے۔ بلکہ میرے نزدیک ممکن ہے کہ آئندہ زمانوں میں میرے جیسے اور دس ہزار بھی مثیل مسیح آجائیں۔ ہاں اس زمانہ کے لئے میں مثیل مسیح ہوں۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۱۹۹، خزائن ج۳ ص۱۹۷)
’’فلیس المسیح من دونی موضع قدم بعد زمانی‘‘پس میرے سوا دوسرے مسیح کے لئے میرے زمانہ کے بعد قدم رکھنے کی جگہ نہیں۔ (خطبہ الہامیہ ص۱۵۸، خزائن ج۱۶ ص۲۴۳)
’’ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا۔ وہ مسلمان نہیں۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۶۳، خزائن ج۲۲ ص۱۶۷)
۲۲… مسیح کے چال چلن کے متعلق مرزاقادیانی لکھتا ہے: ’’ایک کھاؤ پیو، شرابی، نہ زاہد نہ عابد نہ حق کا پرستار، خودبین خدائی کا دعویٰ کرنے والا۔‘‘ (مکتوبات احمدیہ ج۳ ص۲۳،۲۴)
’’انہوں نے (مسیح نے) اپنی نسبت کوئی ایسا دعویٰ نہیں کیا۔ جس سے وہ خدائی کے مدعی ثابت ہوں۔‘‘
(لیکچر سیالکوٹ ص۴۳، خزائن ج۲۹ ص۲۳۶)
۲۳… ’’ہم باوا (نانک) صاحب کی کرامت کو اس جگہ مانتے ہیں اور قبول کرتے ہیں کہ وہ چولہ ان کو غیب سے ملا اور قدرت کے ہاتھ نے اس پر قرآن شریف لکھ دیا۔‘‘ (ست بچن ص۶۸، خزائن ج۱۰ ص۱۹۲)
’’اسلام میں چولے رکھنا اس زمانہ (باوا نانک) میں فقیروں کی ایک رسم تھا۔ پس یہ بات صحیح ہے کہ باوا نانک کے مرشد نے جو مسلمان تھا یہ چولہ ان کو دیا۔‘‘ (نزول المسیح ص۲۰۵، خزائن ج۱۸ ص۵۸۳)
مرزاقادیانی کا اپنے متعلق فیصلہ کہ خارج ازاسلام اور کافر ہے
۲۴… ’’
وما کان لی ان ادعی النبوۃ واخرج من الاسلام والحق بقوم کافرین
‘‘ اور مجھے کہاں یہ حق پہنچتا ہے کہ نبوت کا دعویٰ کروں اور اسلام سے خارج ہو جاؤں اور قوم کافرین سے جا کر مل جاؤں۔ یہ کیوں کر ممکن ہے کہ مسلمان ہوکر نبوت کا ادعاء کروں۔ (حمامتہ البشریٰ ص۷۹، خزائن ج۷ ص۲۹۷)
’’ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم رسول اور نبی ہیں۔‘‘ (اخبار بدر مورخہ ۵؍مارچ ۱۹۰۸ء، ملفوظات ج۱۰، ص۱۸۵)ص۱۲۷)
’’نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیاگیا ہوں۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۳۹۱، خزائن ج۲۲ ص۴۰۶)
۲۵… ’’اور خدا کی پناہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جب اﷲتعالیٰ نے ہمارے نبی اور سردار دوجہاں محمد مصطفیٰ ﷺ کو خاتم النّبیین بنادیا ۔ میں نبوت کا مدعی بنتا۔‘‘ (حمامتہ البشریٰ ص۸۳، خزائن ج۷ ص۳۰۲)
’’سچا خداوہی خدا ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔‘‘ (دافع البلاء ص۱۱، خزائن ج۸ ص۲۳۱)
مرزاقادیانی کا اپنے ملعون ہونے کا فیصلہ
۲۶… ’’ان پر واضح ہوکہ ہم بھی نبوت کے مدعی پر لعنت بھیجتے ہیں اور کلمہ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کے قائل ہیں اور آنحضرت ﷺ کی ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج۶ ص۲،۳، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۲۹۷)
’’ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم رسول اور نبی ہیں۔‘‘ (اخبار بدر مورخہ ۵؍مارچ ۱۹۰۸ء، ملفوظات ج۱۰ ص۱۲۷)
’’نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیاگیا ہوں۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۳۹۱، خزائن ج۲۲ ص۴۰۶)
۲۷… ’’جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلم میرے لئے نوکر رکھا گیا۔ جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں اور اس بزرگ کا نام فضل الٰہی تھا۔‘‘ (کتاب البریہ ص۱۶۲، خزائن ج۱۳ ص۱۸۰)
’’سو میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرا یہی حال ہے۔ کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ میں نے کسی انسان سے قرآن یا حدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہے۔‘‘ (ایام الصلح ص۱۴۷، خزائن ج۱۴ ص۳۹۴)
آپ نے مذکورہ بالا عبارات میں دیکھا کہ مرزاقادیانی نے کس طرح متضاد باتیں کہی ہیں اور اس کے فتوے بھی ملاحظہ فرمائے کہ پاگل، مجنوں، منافق، مخبط الحواس اور جھوٹے کے کلام میں تناقض ہوتا ہے۔ لو! مرزاقادیانی کی جوتی اور مرزاکا سر ۔
اگر ہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
الہام مرزا! ’’ہم نے تیری صحت کا ٹھیکہ لیا ہے۔‘‘ (تذکرہ مجموعہ الہامات ص۸۰۳ طبع دوم)
(۱)مرض ہسٹیریا کا دورہ
’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) کو پہلی دفعہ دوران سر اور ہسٹیریا کا دورہ بشیر اوّل ہمارا ایک بڑا بھائی ہوتا تھا۔ (جو ۱۸۸۸ء میں فوت ہوگیا تھا) کی وفات کے چند دن بعد ہوا تھا۔ رات کو سوتے ہوئے آپ کو اتھو آیا اور پھر اس کے بعد طبیعت خراب ہوگئی۔ مگر یہ دورہ خفیف تھا۔ پھر اس کے کچھ عرصہ بعد آپ ایک دفعہ نماز کے لئے باہر گئے اور جاتے ہوئے فرماگئے کہ آج کچھ طبیعت خراب ہے۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ تھوڑی دیر کے بعد شیخ حامد علی (حضرت مسیح موعود کا پرانا مخلص خادم تھا۔ اب فوت ہوچکا ہے) نے دروازہ کھٹکھٹایا کہ جلدی پانی کی ایک گاگر گرم کر دو۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میں سمجھ گئی کہ حضرت صاحب کی طبیعت خراب ہوگئی ہوگی۔ چنانچہ میں نے کسی ملازم عورت کو کہا کہ اس سے پوچھو میاں کی طبیعت کا کیا حال ہے۔ شیخ حامد علی نے کہا کچھ خراب ہوگئی ہے۔ میں پردہ کراکر مسجد میں چلی گئی تو آپ لیٹے ہوئے تھے میں جب پاس گئی تو فرمایا میری طبیعت بہت خراب ہوگئی تھی۔ لیکن اب افاقہ ہے میں نماز پڑھا رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ کوئی کالی کالی چیز میرے سامنے سے اٹھی ہے اور آسمان تک چلی گئی ہے۔ پھر میں چیخ مار کر زمین پر گر گیا اور غشی کی سی حالت ہو گئی۔ والدہ صاحبہ فرماتی ہیں اس کے بعد سے آپ کو باقاعدہ دورے پڑنے شروع ہوگئے۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ اوّل ص۱۶،۱۷، روایت نمبر۱۹)
(۲)دورے پر دورہ
’’والدہ صاحبہ فرماتی ہیں۔ اس کے بعد آپ کو باقاعدہ دورے پڑنے شروع ہوگئے۔ خاکسار نے پوچھا دوروں میں کیا ہوتا تھا۔ والدہ صاحبہ نے کہا ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوجاتے تھے اور بدن کے پٹھے کھنچ جاتے تھے۔ خصوصاً گردن کے پٹھے اور سر میں چکر ہوتا تھا۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ اوّل ص۱۷، روایت نمبر۱۹)
(۳)خونی قے
’’پھر یک لخت بولتے بولتے آپ کو ابکائی آئی اور ساتھ ہی قے ہوئی۔ جو خالص خون کی تھی۔ جس میں کچھ خون جما ہوا تھا اور کچھ بہنے والا تھا۔ حضرت نے تکیے سے سر اٹھاکر رومال سے اپنا منہ پونچھا اور آنکھیں بھی پونچھیں۔ جو قے کی وجہ سے پانی لے آئی تھیں۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ اوّل ص۹۷، روایت نمبر۱۰۷)
(۴)مراق
’’مراق کا مرض حضرت مرزاصاحب کو موروثی نہ تھا۔ بلکہ یہ خارجی اسباب کے ماتحت پیدا ہوا تھا اور اس کا باعث سخت دماغی محنت، تفکرات، غم اور سوئے ہضم تھا۔ جس کا نتیجہ دماغی ضعف تھا اور جس کا اظہار مراق اور دیگر ضعف کی علامات مثلاً دوران سر کے ذریعہ ہوتا تھا۔‘‘ (رسالہ ریویو قادیان ص۱۰، بابت اگست ۱۹۲۶ء)
(۵)ہسٹیریا
’’ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے کئی دفعہ حضرت مسیح موعود سے سنا ہے کہ مجھے ہسٹیریا ہے۔ بعض اوقات آپ مراق بھی فرمایا کرتے تھے۔ لیکن دراصل بات یہ ہے کہ آپ کو دماغی محنت اور شبانہ روز تصنیف کی مشقت کی وجہ سے بعض ایسی عصبی علامات پیدا ہو جایا کرتی تھیں جو ہسٹیریا کے مریضوں میں بھی عموماً دیکھی جاتی ہیں۔ مثلاً کام کرتے کرتے یک دم ضعف ہو جانا، چکروں کا آنا، ہاتھ پاؤں کا سرد ہوجانا، گھبراہٹ کا دورہ ہو جانا۔ ایسا معلوم ہوتا کہ ابھی دم نکلتا ہے۔ یا کسی تنگ جگہ یا بعض اوقات زیادہ آدمیوں میں گھر کر بیٹھنے سے دل کا سخت پریشان ہونے لگنا وغیرہ ذالک۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ دوم ص۵۵، روایت نمبر۳۶۹)
(۶)دق
’’حضرت اقدس نے اپنی بیماری دق کا بھی ذکر کیا ہے۔ یہ بیماری آپ کو حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب مرحوم کی زندگی میں ہوگئی تھی اور آپ قریباً چھ ماہ تک بیمار رہے۔ حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب آپ کا علاج خود کرتے تھے اور آپ کو بکرے کے پائے کا شوربا کھلایا کرتے تھے۔ اس بیماری میں آپ کی حالت بہت نازک ہوگئی تھی۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ اوّل ص۵۶، روایت نمبر۶۶)
(۷)نامردی
’’جب میں نے شادی کی تھی تو اس وقت تک مجھے یقین رہا کہ میں نامرد ہوں۔‘‘
(خاکسار غلام احمد قادیان مورخہ ۲۲؍فروری ۱۸۸۷ء، مکتوبات احمدیہ حصہ پنجم ص۲۱، خط نمبر۱۴)
اتنا پکا یقین تھا تو پھر شادی کیوں کی تھی؟ کس پر بھروسہ تھا؟ (ناقل)
(۸)کالی بلا
’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) نے فرمایا میری طبیعت بہت خراب ہوگئی تھی۔ لیکن اب افاقہ ہے میں نماز پڑھ رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ کوئی کالی کالی چیز میرے سامنے سے اٹھی اور آسمان تک چلی گئی۔ پھر میں چیخ مار کر زمین پر گر گیا اور غشی کی سی حالت ہو گئی۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ اوّل ص۱۶، روایت نمبر۱۹)
(۹)سخت دورہ اور ٹانگیں باندھنا
’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ اوائل میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) کو سخت دورہ پڑا۔ کسی نے مرزاسلطان احمد اور مرزافضل احمد کو بھی اطلاع دے دی اور وہ دونوں آگئے۔ پھر ان کے سامنے بھی حضرت (مرزاقادیانی) صاحب کو دورہ پڑا۔ والدہ صاحبہ فرماتی ہیں۔ اس وقت میں نے دیکھا کہ مرزاسلطان احمد تو آپ کی چارپائی کے پاس خاموشی کے ساتھ بیٹھے رہے۔ مگر مرزافضل احمد کے چہرہ پر ایک رنگ آتا تھا اور ایک جاتا تھا اور کبھی ادھر بھاگتا تھا اور کبھی ادھر۔ کبھی اپنی پگڑی اتار کر حضرت صاحب کی ٹانگوں کو باندھتا تھا اور کبھی پاؤں دبانے لگ جاتا تھا اور گھبراہٹ میں اس کے ہاتھ کانپتے تھے۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ اوّل ص۲۸، روایت نمبر۳۶)
(۱۰)اوپر اور نیچے والے امراض
’’دو مرض میرے لاحق حال ہیں۔ ایک بدن کے اوپر کے حصہ میں اور دوسرا بدن کے نیچے کے حصہ میں۔ اوپر کے حصہ میں دوران سر ہے اور نیچے کے حصہ میں کثرت پیشاب ہے اور دونوں مرضیں اس زمانہ سے ہیں جس زمانہ میں میں نے اپنا دعویٰ مامور من اﷲ ہونے کا شائع کیا ہے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۳۰۷، خزائن ج۲۲ ص۳۲۰)
(۱۱)پرانی اور دائمی بیماریاں
’’مجھے دو مرض دامن گیر ہیں۔ ایک جسم کے اوپر کے حصہ میں۔ یعنی سردرد اور دوران خون کم ہوکر ہاتھ پاؤں سرد ہوجانا۔ نبض کم ہوجانا اور دوسرے جسم کے نیچے کے حصہ میں کہ کثرت پیشاب اور اکثر دست آتے رہنا۔ دونوں بیماریاں قریب تیس برس کے ہیں۔‘‘ (نسیم دعوت ص۸۰، خزائن ج۱۹ ص۴۳۵)
(۱۲)اعصابی کمزوری
’’حضرت مرزاصاحب کی تمام تکالیف مثلاً دوران سر، درد سر، کمی خواب، تشنج دل اور بدہضمی، اسہال، کثرت پیشاب اور مراق وغیرہ کا صرف ایک ہی باعث تھا اور وہ عصبی کمزوری تھی۔‘‘ (رسالہ ریویو قادیان ج۲۶ نمبر۵ ص۲۶، مئی ۱۹۳۷ء)
(۱۳)حافظہ کا ستیاناس
’’مکرمی اخویم سلمہ، میرا حافظہ بہت خراب ہے۔ اگر کئی دفعہ کسی کی ملاقات ہو توتب بھی بھول جاتا ہوں یاد دہانی عمدہ طریقہ ہے۔ حافظہ کی یہ ابتری ہے کہ بیان نہیں کر سکتا۔‘‘ (مکتوبات احمدیہ ج۵ نمبر۳ ص۳۱)
نبی بننا تو خوب یاد رہا۔ ناقل!
(۱۴)پاخانوں کی یلغار
’’باوجود یہ کہ مجھے اسہال کی بیماری ہے اور ہر روز کئی کئی دست آتے ہیں۔ مگر جس وقت پاخانے کی بھی حاجت ہوتی ہے تو مجھے افسوس ہی ہوتا ہے کہ ابھی کیوں حاجت ہوئی۔ اسی طرح جب روٹی کھانے کے لئے کئی مرتبہ کہتے ہیں تو بڑا جبر کر کے جلد جلد چند لقمے کھا لیتا ہوں۔ بظاہر تو میں روٹی کھاتا ہوا دکھائی دیتا ہوں۔ مگر میں سچ کہتا ہوں کہ مجھے پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کہاں جاتی ہے اور کیا کھا رہا ہوں۔ میری توجہ اور خیال اسی طرف لگا ہوا ہوتا ہے۔‘‘
(ارشاد مرزاقادیانی مندرجہ اخبار الحکم قادیان ج۵ نمبر۴۰، مورخہ ۳۰؍اکتوبر۱۹۰۱ء، منقول از کتاب منظور الٰہی ص۳۴۹، مؤلفہ محمد منظور الٰہی)
(۱۵)بے ہوشی
’’پہلے بھی کئی دفعہ ایسا ہوا کہ جب حضور سخت جسمانی محنت کیا کرتے تو اچانک آپ کے دماغ پر ایک کمزوری کا حملہ ہوتا اور بے ہوش ہو جاتے۔‘‘ (منظر وصال از مفتی محمد صادق قادیانی مندرجہ اخبار الحکم قادیان خاص نمبر، مورخہ ۲۱؍مئی ۱۹۳۴ء)
(۱۶)مقعد سے خون
’’ایک مرتبہ میں قولنج زحیری سے سخت بیمار ہوا اور سولہ دن تک پاخانہ کی راہ سے خون آتا رہا اور سخت درد تھا۔ جو بیان سے باہر ہے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۳۴، خزائن ج۲۲ ص۲۴۶)
(۱۷)انتہائی کمزوری ولاچاری
’’مخدومی مکرمی حضرت مولوی صاحب السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ، اور اس عاجز کی طبیعت آج بہت علیل ہورہی ہے۔ ہاتھ پاؤں بھاری اور زبان بھی بھاری ہورہی ہے۔ مرض کے غلبے سے نہایت لاچاری ہے۔‘‘
(مکتوبات احمدیہ ج۵ نمبر۲ ص۱۲۱)
(۱۸)سستی نبض اور گھبراہٹ
’’کل سے میری طبیعت علیل ہوگئی ہے۔ کل شام کے وقت مسجد میں اپنے تمام دوستوں کے روبرو جو حاضر تھے۔ سخت درجہ کا عارضہ لاحق ہوا اور ایک دفعہ تمام بدن سرد اور نبض کمزور اور طبیعت میں سخت گھبراہٹ شروع ہوئی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا زندگی میں ایک دو دم باقی ہیں۔ بہت نازک حالت ہوکر پھر صحت کی طرف عود ہوا۔ مگر اب تک کلی اطمینان نہیں۔ کچھ کچھ اثرات عود مرض کے ہیں۔‘‘ (مکتوبات احمدیہ ج۵ حصہ اوّل ص۲۸، مکتوب نمبر۷۱)
(۱۹)دم الٹ دینے والی کھانسی
’’میری طبیعت بیمار ہے۔ کھانسی سے دم الٹ جاتا ہے۔‘‘ (مرزاقادیانی کا خط مفتی محمد صادق کے نام، ذکر حبیب ص۳۶۴)
(۲۰)پاؤں کی سردی
’’جوڑہ جراب خواہ سیاہ رنگ ہو یا کوئی اور رنگ ہو۔ مضائقہ نہیں۔ اس قدر پاؤں کو سردی ہے کہ اٹھنا مشکل ہے۔‘‘ (مرزاقادیانی کا خط حکیم محمد حسین قریشی کے نام خطوط امام بنام غلام ص۷)
(۲۱)کھانسی اور جوشاندہ
’’ایک دفعہ حضرت صاحب کو کھانسی تھی۔ حضور نے خرفہ ۲ماشہ السی ایک ماشہ کا جوشاندہ بنا کر پیا۔‘‘
(ذکر حبیب ص۲۱۷)
(۲۲)کھانسی اور گرم گرم گنا
’’سفر گورداسپور میں ۱۹۰۳ء میں ایک دفعہ حضرت صاحب کو کھانسی کی شکایت تھی۔ میں نے عرض کی کہ میرے والد مرحوم اس کا علاج، گرم کیا ہوا گنا بتلایا کرتے تھے۔ تب حضور کے فرمانے سے ایک گنا چند پوریاں لے کر آگ پر گرم کیاگیا اور اس کی گنڈیریاں بنا کر حضور کو دی گئیں اور حضور نے چوسیں۔‘‘ (ذکر حبیب ص۱۱۱)
(۲۳)سر کے بالوں کی بیماری
’’آخری عمر میں حضور کے سر کے بال بہت پتلے اور ہلکے ہوگئے تھے۔ چونکہ یہ عاجز ولایت سے ادویہ وغیرہ کے نمونے منگوایا کرتا تھا۔ غالباً اس واسطے مجھے ایک دفعہ فرمایا: ’’مفتی صاحب سر کے بالوں کے اگانے اور بڑھانے کے واسطے کوئی دوائی منگوائیں۔‘‘ (ذکر حبیب ص۱۷۳)
(۲۴)گنجا پن
’’دوا پہنچ گئی۔ ایک اشتہار بالوں کی کثرت کا شاید لندن میں کسی نے دیا ہے اور مفت دوا بھیجتا ہے۔ آپ وہ دوا بھی منگوالیں تاکہ آزمائی جائے۔ لکھتا ہے کہ اس سے گنجے بھی شفا پاتے ہیں۔‘‘ (ذکر حبیب ص۳۶۰)
(۲۵)مراق
’’سیٹھ غلام نبی نے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن کا ذکر ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے حضرت مسیح موعود سے فرمایا کہ حضور غلام نبی کو مراق ہے تو حضور نے فرمایا۔ ایک رنگ میں سب نبیوں کو مراق ہوتا ہے اور مجھ کو بھی ہے۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ سوئم ص۳۰۴، روایت نمبر۹۶۹)
(۲۶)دانت درد
’’ایک دفعہ مجھے دانت میں سخت درد ہوئی۔ ایک دم قرار نہ تھا کسی شخص سے میں نے دریافت کیا کہ اس کا کوئی علاج بھی ہے۔ اس نے کہا کہ علاج دنداں اخراج دنداں اور دانت نکالنے سے میرا دل ڈرا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۲۳۵، نشان نمبر۸۶، خزائن ج۲۲ ص۲۴۶)
(۲۷)پیر جھسوانا اور بدن دبوانا
’’ڈاکٹر میر محمد اسماعیل نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود سر کے دورہ میں پیر بہت جھسواتے تھے اور بدن زور سے دبواتے تھے۔ اس سے آپ کو آرام محسوس ہوتا تھا۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ سوئم ص۲۸۷، روایت نمبر۹۳۸)
(۲۸)دورہ دوران سر
’’میں چند روز سے سخت بیمار ہوں۔ بعض اوقات جب دورہ دوران سر شدت سے ہوتا ہے تو خاتمہ زندگی محسوس ہوتا ہے۔ ساتھ ہی سردرد بھی ہے۔ ایسی حالت میں روغن بادام سر اور پیروں کی ہتھیلیوں پر ملنا اور پینا فائدہ مند محسوس ہوتا ہے۔‘‘ (خطوط امام بنام غلام ص۵)
(۲۹)مرزاقادیانی کو پاخانے کی ضرورت
’’ایک انگریزی وضع کا پاخانہ جو ایک چوکی ہوتی ہے اور اس میں ایک برتن ہوتا ہے۔ اس کی قیمت معلوم نہیں۔ آپ ساتھ لاویں۔ قیمت یہاں سے دی جاوے گی۔ مجھے دوران سر کی بہت شدت سے مرض ہوگئی ہے۔ پیروں پر بوجھ دے کر پاخانہ پھرنے سے مجھے سر کو چکر آتا ہے۔ اس لئے ایسے پاخانہ کی ضرورت پڑی۔ اگر شیخ صاحب کی دوکان پر ایسا پاخانہ ہو تو وہ دے دیں گے۔ مگر ضرور لانا چاہئے۔‘‘ (خطوط امام بنام غلام ص۶)
(۳۰)پھٹی ہوئی ایڑیاں
’’پیر کی ایڑیاں آپ کی بعض دفعہ گرمیوں کے موسم میں پھٹ جایا کرتی تھیں۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ دوم ص۱۲۵، روایت نمبر۲۲۲)
(۳۱)سردی گرمی
’’گرم کپڑے سردی گرمی میں برابر پہنتے تھے۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ دوم ص۱۲۵، روایت نمبر۴۴۴)
(۳۲)انگوٹھے کا درد
’’حضرت صاحب کو کبھی کبھی پاؤں کے انگوٹھے کے نقرس کا درد ہوجایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ شروع میں گھٹنے کے جوڑ میں بھی درد ہوا۔ نامعلوم وہ کیا تھا۔ مگر دو تین دن زیادہ تکلیف رہی۔ پھر جونکیں لگانے سے آرام آیا۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ سوم ص۲۸، روایت نمبر۵۱۲)
(۳۳)انگوٹھے کی سوجن
’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ نقرس کے درد میں آپ کا انگوٹھا سوج جایا کرتا تھا اور سرخ بھی ہوجاتا تھا اور بہت درد ہوتی تھی۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ سوم ص۲۸، روایت نمبر۵۱۲)
(۳۴)ٹخنے کا پھوڑا
’’ایک دفعہ حضرت صاحب کے ٹخنے کے پاس پھوڑا ہوگیا تھا۔ جس پر حضرت صاحب نے اس پر سکہ یعنی سیسہ کی ٹکیا بندھوائی تھی۔ جس سے آرام آگیا۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ سوم ص۲۸، روایت نمبر۵۱۲)
(۳۵)لتاڑا
’’ایک دفعہ بمقام گورداسپور ۱۹۰۴ء میں حضرت مسیح موعود کو بخار تھا۔ آپ نے خاکسار سے فرمایا کہ کسی جسیم آدمی کو بلاؤ جو ہمارے جسم پر پھرے۔ خاکسار جناب خواجہ کمال الدین وکیل لاہور کو لایا وہ چند دقیقہ پھرے۔ مگر حضرت اقدس نے فرمایا کہ ان کا وجود چنداں بوجھل نہیں کسی دوسرے شخص کو لائیں۔ شاید حضور نے ڈاکٹر محمد اسماعیل خان دہلوی کا نام لیا۔ خاکسار ان کو بلالایا۔ جسم پر پھرنے سے حضرت اقدس کو آرام محسوس ہوا۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ سوئم ص۴۹، روایت نمبر۵۶۵)
(۳۶)خارش
’’ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) کو غالباً ۱۸۹۲ء میں ایک دفعہ خارش کی تکلیف بھی ہوئی تھی۔ (سیرت المہدی حصہ سوئم ص۵۳، روایت نمبر۵۷۴)
(۳۷)کیچڑ
’’بیان کیا مجھ سے مرزاسلطان احمد نے بواسطہ مولوی رحیم بخش ایم۔اے کہ ایک مرتبہ والد صاحب سخت بیمار ہوگئے اور حالت نازک ہوگئی اور حکیموں نے ناامیدی کا اظہار کر دیا اور نبض بھی بند ہوگئی۔ مگر زبان جاری رہی۔ والد صاحب نے کہا کہ کیچڑ لا کر میرے اوپر اور نیچے رکھو۔ چنانچہ ایسا کیاگیا اور اس سے حالت روبا اصلاح ہوگئی۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ اوّل ص۲۲۱، روایت نمبر۲۰۰)
(۳۸)سفید بال
’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود(مرزاقادیانی) بیان فرمایا کرتے تھے کہ ابھی ہماری عمر تیس سال کی ہی تھی کہ بال سفید ہونے شروع ہو گئے تھے اور میرا خیال ہے کہ ۵۵سال کی عمر تک آپ کے سارے بال سفید ہوچکے ہوںگے۔‘‘ (سیرت المہدی ص۱۱ حصہ دوم، روایت نمبر۳۱۶)
(۳۹)لکنت
’’حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) کی زبان میں کسی قدر لکنت تھی اور آپ پرنالے کو پنالہ فرمایا کرتے تھے۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ دوم ص۲۵، روایت نمبر۳۳۵)
(۴۰)چشم نیم باز
’’آپ کی آنکھیں ہمیشہ نیم بند رہتی تھیں اور ادھر ادھر آنکھیں اٹھا کر دیکھنے کی آپ کو عادت نہ تھی۔ بسا اوقات ایسا ہوتا تھا کہ سیر میں جاتے ہوئے آپ کسی خادم کا ذکر غائب کے صیغہ میں فرماتے تھے۔ حالانکہ وہ آپ کے ساتھ ساتھ جارہا ہوتا تھا اور پھر کسی کے بتلانے پر آپ کو پتہ چلتا تھا کہ وہ شخص آپ کے ساتھ ہے۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ دوم ص۷۷، روایت نمبر۴۰۳)
’’دندان مبارک آپ کے آخری عمر میں کچھ خراب ہوگئے تھے۔ یعنی کیڑا بعض داڑھوں کو لگ گیا تھا۔ جس سے کبھی کبھی تکلیف ہو جاتی تھی۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک داڑھ کا سرا ایسا نوکدار ہوگیا تھا کہ اس سے زبان میں زخم پڑ گیا تو ریتی کے ساتھ اس کو گھسوا کر برابر بھی کرایا تھا۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ دوم ص۱۲۵، روایت نمبر۴۴۴)
(۴۲)دل گھٹنے کا دورہ
’’ڈاکٹر میر محمداسماعیل نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ لدھیانہ میں حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) نے رمضان کا روزہ رکھا ہوا تھا کہ دل گھٹنے کا دورہ ہوا اور ہاتھ پائوں ٹھنڈے ہوگئے۔ اس وقت غروب آفتاب کا وقت بہت قریب تھا۔ مگر آپ نے روزہ توڑ دیا۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ سوئم ص۱۳۱،روایت نمبر۶۹۷)
(۴۳)پیچش
’’ایک دن حضورکو پیچش کی شکایت ہوگئی۔ بار بار قضائے حاجت کے لئے تشریف لے جاتے تھے۔ حضور نے ہمیں سوئے رہنے کے لئے فرمایا۔ جب حضور رفع حاجت کے لئے اٹھتے تو خاکسار اسی وقت اٹھ کر پانی کا لوٹا لے کر حضور کے ساتھ جاتا۔ تمام رات ایسا ہی ہوتا رہا۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ سوئم ص۱۳۳،روایت نمبر۷۰۱)
(۴۴)گرمی دانے
’’ڈاکٹر میر محمداسماعیل نے مجھ سے بیان کیا کہ بعض اوقات گرمی میں حضرت مسیح (مرزاقادیانی) کی پشت پر گرمی دانے نکل آتے تھے تو سہلانے سے ان کو آرام آتا تھا۔ بعض اوقات فرمایا کرتے کہ میاں جلون کرو جس سے مراد یہ ہوتی تھی کہ انگلیوں کے پوٹے بالکل آہستہ آہستہ اور نرمی سے پشت پر پھیرو۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ سوئم ص۱۹۵،روایت نمبر۷۶۵)
(۴۵)دردگردہ
’’ایک دفعہ حضرت صاحب کو بہت سخت درد گردہ ہوا جو کئی دن تک رہا۔ اس کی وجہ سے آپ کو بہت تکلیف رہتی اور رات دن خدام باہر کے کمرہ میں جمع رہتے۔‘‘ (ذکرحبیب ص۲۹، از مفتی محمدصادق قادیانی)
(۴۶)دوران سر
’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کو کبھی کبھی دوران سر کی تکلیف ہوجاتی تھی۔ جو بعض اوقات اچانک پیدا ہوجاتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب گھر میں ایک چار پائی کو کھینچ کر ایک طرف کرنے لگے تو اس وقت اچانک چکر آگیا اور لڑکھڑاکر گرنے کے قریب ہوگئے۔ مگر پھر سنبھل گئے۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ سوئم ص۲۱۳،روایت نمبر۷۸۸)
(۴۷)پشت پر پھنسی
’’ایک دن آپ کی پشت پر ایک پھنسی نمودار ہوئی جس سے آپ کو بہت تکلیف ہوئی۔ خاکسار کو بلایا اور دکھایا اور بار بار پوچھا کہ یہ کاربنکل تو نہیں۔ کیونکہ مجھے ذیابیطس کی بیماری ہے۔ میں نے دیکھ کر عرض کیا کہ یہ بال توڑ یا معمولی پھنسی ہے۔ کاربنکل نہیں ہے۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ سوئم ص۲۲۷،روایت نمبر۸۱۲،مرزابشیراحمدقادیانی)
(۴۸)سردی اور متلی
’’ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب معتدل موسم میں بھی کئی مرتبہ پچھلی رات کو اٹھ کر اندر کمرہ میں جا کر سوجایا کرتے تھے اور کبھی کبھی فرماتے تھے کہ ہمیں سردی سے متلی ہونے لگتی ہے۔ بعض دفعہ تو اٹھ کر پہلے کوئی دوا مثلاً مشک وغیرہ کھا لیتے تھے اور پھر لحاف یا رضائی اوڑھ کر اندر جا لیٹتے تھے۔ غرض یہ کہ سردی سے آپ کو تکلیف ہوتی تھی اور اس کے اثر سے خاص طور پر اپنی حفاظت کرتے تھے۔ چنانچہ پچھلی عمر میں بارہ مہینے گرم کپڑے پہنا کرتے تھے۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ سوئم ص۶۶، روایت نمبر۵۹۷)
(۴۹)گرمیوں میں جرابیں
’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب بالعموم گرمی میں بھی جراب پہنا کرتے تھے۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ سوئم ص۶۶، روایت نمبر۵۹۷)
(۵۰)کھانسی
’’ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت صاحب کو سخت کھانسی ہوئی۔ ایسی کہ دم نہ آتا تھا۔ البتہ منہ میں پان رکھ کر قدرے آرام معلوم ہوتا تھا۔ اس وقت آپ نے اس حالت میں پان منہ میں رکھے رکھے نماز پڑھی۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ سوئم ص۱۰۳، روایت نمبر۶۳۸)
(۵۱)مائی اوپیا
’’ڈاکٹر میر محمد اسماعیل نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب کی آنکھوں میں مائی اوپیا تھا۔ اسی وجہ سے پہلی رات کا چاند نہ دیکھ سکتے تھے۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ سوئم ص۱۱۹، روایت نمبر۶۷۳)
(۵۲)چکر
’’میں نے حضرت ام المؤمنین (مرزاکی بیوی) سے پوچھا تو انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ حضرت صاحب نے مجھ سے یہ بھی فرمایا تھا کہ مجھے بعض اوقات کھڑے ہوکر چکر آجایا کرتا ہے۔ اس لئے تم میرے پاس کھڑے ہوکر نماز پڑھ لیا کرو۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ سوئم ص۱۳۱، روایت نمبر۶۹۶)
(۵۳)سل
’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے ایک دفعہ تمہارے دادا کی زندگی میں حضرت مرزا صاحب کو سل ہوگئی۔ حتیٰ کہ زندگی سے ناامیدی ہوگئی۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ تمہارے دادا خود حضرت صاحب کا علاج کرتے تھے اور برابر چھ ماہ تک انہوں نے آپ کو بکرے کے پائے کا شوربا کھلایا۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ اول ص۵۶ روایت نمبر۶۶،مرزا بشیراحمدقادیانی)
(۵۴)ذیابیطس اور پیشاب کی زیادتی
’’اور دوسری بیماری بدن کے نیچے کے حصہ میں ہے جو مجھے کثرت پیشاب کی مرض ہے جس کو ذیابیطس بھی کہتے ہیں اور معمولی طور پر مجھ کو ہر روز پیشاب بکثرت آتا ہے اور پندرہ یا بیس دفعہ تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۲۰۱،خزائن ج۲۱ ص۳۷۳)
(۵۵)دائمی مریض سو دفعہ پیشاب
’’میں ایک دائم المرض آدمی ہوں… ہمیشہ درد سر اور دوران سر، کمی خواب اورتشنج دل کی بیماری دورہ کے ساتھ آتی ہے۔ بیماری ذیابیطس ہے کہ ایک مدت سے دامن گیر ہے اور بسا اوقات سو سو دفعہ رات کو یادن کو پیشاب آتا ہے اور اس قدر کثرت پیشاب سے جس قدر عوارض ضعف وغیرہ ہوتے ہیں وہ سب میرے شامل حال رہتے ہیں۔‘‘
(ضمیمہ اربعین نمبر۴، مورخہ ۱۹؍دسمبر۱۹۰۰ء، ص۴، خزائن ج۱۷ ص۴۷۰)
(۵۶)ادھ کھلی آنکھیں
’’مولوی شیر علی صاحب نے بیان کیا کہ باہر مردوں میں بھی حضرت (مرزاقادیانی) صاحب کی یہ عادت تھی کہ آپ کی آنکھیں ہمیشہ نیم بند رہتی تھیں۔ ایک دفعہ حضرت مرزاصاحب مع چند خدام کے فوٹو کھنچوانے لگے تو فوٹو گرافر آپ سے عرض کرتا تھا کہ حضور آنکھیں کھول کر رکھیں۔ ورنہ تصویر اچھی نہیں آئے گی اور آپ نے اس کے کہنے پر ایک دفعہ تکلیف کے ساتھ آنکھوں کو کچھ زیادہ کھولا بھی مگر وہ پھر اسی طرح نیم بند ہوگئیں۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ دوم ص۷۷، روایت نمبر۴۰۴)
(۵۷)سرعت پیشاب، ریشمی آزاربند
’’اور والدہ صاحبہ بیان فرماتی ہیں کہ حضرت مسیح موعود عموماً ریشمی ازاربند استعمال فرماتے تھے۔ کیونکہ آپ کو پیشاب جلدی جلدی آتا تھا۔ اس لئے ریشمی ازاربند رکھتے تھے۔ تاکہ کھولنے میں آسانی ہو اور گرہ بھی پڑ جاوے تو کھولنے میں دقت نہ ہو۔ سوتی ازاربند میں آپ سے بعض اوقات گرہ پڑ جاتی تھی تو آپ کو بڑی تکلیف ہوتی تھی۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ اوّل ص۵۵، روایت نمبر۶۵)
(۵۸)ضعف دماغ
’’میری طبیعت آپ کے بعد پھر بیمار ہوگئی۔ ابھی ریزش کا نہایت زور ہے۔ دماغ میں بہت ضعف ہوگیا ہے۔ آپ کے دوست ٹھاکر رام کے لئے ایک دن بھی توجہ کرنے کے لئے مجھے نہیں ملا۔ صحت کا منتظر ہوں۔والسلام!‘‘
(خاکسار غلام احمد مورخہ یکم جنوری ۱۸۹۰ء،مکتوبات احمدیہ ج پنجم نمبر۲ ص۷۴،مکتوب نمبر۵۵)
(۵۹)مرض الموت ’’ہیضہ‘‘
’’والدہ صاحب نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود کو پہلا دست کھانا کھانے کے وقت آیا تھا۔ مگر اس کے بعد تھوڑی دیر تک ہم لوگ آپ کے پاؤں دباتے رہے اور آپ آرام سے لیٹ کر سو گئے اور میں بھی سو گئی۔ لیکن کچھ دیر کے بعد آپ کو پھر حاجت محسوس ہوئی اور غالباً ایک یا دو دفعہ رفع حاجت کے لئے آپ پاخانہ تشریف لے گئے۔ اس کے بعد آپ نے زیادہ ضعف محسوس کیا تو اپنے ہاتھ سے مجھے جگایا۔ میں اٹھی تو آپ کو اتنا ضعف تھا کہ آپ میری چارپائی پر ہی لیٹ گئے اور میں آپ کے پاؤں دبانے کے لئے بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب نے فرمایا تم اب سو جاؤ۔ میں نے کہا نہیں میں دباتی ہوں۔ اتنے میں آپ کو ایک اور دست آیا۔ مگر اب اس قدر ضعف تھا کہ آپ پاخانہ نہ جاسکتے تھے۔ اس لئے میں نے چارپائی کے پاس ہی انتظام کر دیا اور آپ وہیں بیٹھ کر فارغ ہوئے اور پھر اٹھ کر لیٹ گئے اور میں پاؤں دباتی رہی۔ مگر ضعف بہت ہوگیا تھا۔ اس کے بعد ایک اور دست آیا اور پھر آپ کو ایک قے آئی۔ جب آپ قے سے فارغ ہوکر لیٹنے لگے تو اتنا ضعف تھا کہ آپ لیٹتے لیٹتے پشت کے بل چارپائی پر گر گئے اور آپ کا سر چارپائی کی لکڑی سے ٹکرایا اور حالت دگرگوں ہوگئی۔ اس پر میں نے گھبرا کر کہا ’’اﷲ یہ کیا ہونے لگا ہے‘‘ تو آپ نے فرمایا کہ یہ وہی ہے جو میں کہا کرتا تھا۔ خاکسار نے والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ کیا آپ سمجھ گئیں تھیں کہ حضرت صاحب کا کیا منشاء ہے۔‘‘ والدہ صاحب نے فرمایا ’’ہاں‘‘ (سیرۃ المہدی ج اوّل ص۱۱،۱۲، روایت نمبر۱۲، از بشیر احمد قادیانی)
آپ نے ملاحظہ کیا کہ مہلک بیماریاں کس طرح عذاب الٰہی بن کر نبی افرنگ کے بدن پر برس رہی ہیں۔ کہیں کھانسی کا حملہ ہے۔ کہیں پیشاب کی یلغار ہے۔ کہیں ذیابیطس کا شب خون ہے۔ کہیں خارش کی اٹھکیلیاں ہیں۔ کہیں درد گردہ کی پٹخیاں ہیں۔ کہیں جونکیں ہم آغوش ہیں۔ کہیں سل ودق گلے کا ہار بنی بیٹھی ہیں۔ کہیں خونی قے کی طوفانی آمد ہے۔ کہیں مراق وہسٹریا کے تیروں کی بوچھاڑ ہے۔ کہیں دانت درد کی دھماچوکڑی ہے۔ کہیں عارضۂ دل کی جھپٹ ہے۔ کہیں ہیضہ کے کلہاڑے سرپر برس رہے ہیں۔ کہیں دورہ ختم کرنے کے لئے انگریزی نبوت کی ٹانگیں باندھی جارہی ہیں۔ کہیں بناسپتی نبی کے جسم پر کیچڑ ملاجارہا ہے۔ اور کہیں کالی بلا دیکھ کر بے ہوشی کے دورے پڑ رہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تمام بیماریاں جھوٹے نبی کو مل کر یوں گھسیٹ رہی ہیں جیسے مری ہوئی چھپکلی کو بہت سے چونٹیاں گھسیٹ کر لے جارہی ہوں یا مرے ہوئے کتے کو بہت سی گدھیں کھارہی ہوں۔
مندرجہ بالا سطور میں ہم نے صرف وہ بیماریاں رقم کی ہیں جو قادیانی کتابوں میں موجود ہیں۔ لیکن ہمارا دعویٰ ہے کہ مرزا قادیانی کو اس کے علاوہ سینکڑوں بیماریاں لاحق تھیں۔ جن کی اس وقت تشخیص نہ ہوسکی۔ اگر مرزا قادیانی آج کے تشخیصی دور میں ہوتا اور اس کا مکمل میڈیکل چیک اپ ہوتا تو اس کے جسم سے سینکڑوں بیماریاں دریافت ہوتیں۔ جن میں سے ’’ایڈز‘‘ سرفہرست ہوتی۔ یہ شخص پوری دنیا کے ڈاکٹروں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا۔ دنیا جہان کے ڈاکٹر اسے دیکھنے کے لئے آتے۔ ڈاکٹروں میں لڑائی چھڑ جاتی۔ ماہرین دل کہتے کہ یہ ہمارا مریض ہے۔ ماہرین جلد کہتے کہ یہ ہمارا مریض ہے۔ ماہرین ناک گلا کہتے کہ یہ ہمارا مریض ہے۔ ماہرین معدہ وجگر کہتے کہ یہ ہمارا مریض ہے۔ ماہرین ذیابیطس کہتے کہ یہ ہمارا مریض ہے۔ ماہرین نفسیات کہتے کہ یہ ہمارا مریض ہے۔ مرزا قادیانی کا ٹوٹا ہوا بازو دیکھ کر آرتھوپیڈک سرجن کہتے کہ یہ ہمارا مریض ہے۔ اور مرزا قادیانی کے حمل کا قصہ پڑھ کر ماہرین زچہ وبچہ کہتے یہ ہماری مریضہ ہے۔
غرضیکہ ڈاکٹروں میں ایک بحث وتکرار چھڑ جاتی اور چھینا جھپٹی شروع ہوجاتی۔ میڈیکل کے طلباء کہتے کہ اسے ہمارے حوالے کرو۔ ہم نے اس پر ریسرچ کرنی ہے۔ کوئی محقق کہتا کہ اسے میرے حوالے کرو میں نے اس پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھنا ہے۔ عجائب گھر والے کہتے کہ اسے ہمیں دے دو۔ ہم اس پر ٹکٹ لگائیں گے اور کروڑوں روپے کماکر قومی آمدنی میں اضافہ کریں گے۔ جس سے کمرتوڑ مہنگائی کا توڑ ہوگا۔ دنیا بھر کے صحافی اسے دیکھنے کے لئے آتے اور ساری دنیا کی اخباروں میں اس کے انٹرویو چھپتے اور فوٹو شائع ہوتے۔ ’’گنزبک آف ورلڈ ریکارڈ‘‘ میں اس کا نام آتا۔ معاملہ عدالتوں تک جاپہنچتا۔ حکومت برطانیہ عدالت میں دعویٰ کرتی کہ مرزا قادیانی ہماری تخلیق ہے۔ اسے نبی ہم نے بنایا تھا اور نبی بننے کے جرم کی پاداش میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس پر لعنتوں اور بیماریوں کی بوچھاڑ ہوئی۔ کیونکہ اسے نبی ہم نے بنایا تھا اور ہماری ہی وجہ سے اس کو اتنی بیماریاں لگیں۔ لہٰذا ہمارا حق بنتا ہے کہ ہم اس کا علاج معالجہ کرائیں۔ عدالت انگریز کے موقف کو درست تسلیم کرتے ہوئے مرزا قادیانی کو انگریز کے حوالے کردیتی اور بیماریوں کا عالمی چیمپئن مرزا قادیانی اپنی تمام لعنتوں، نحوستوں اور بیماریوں کے ساتھ برطانیہ روانہ ہوجاتا اور ہم کہتے: ’’جتھے دی کھوتی اتھے جا کھلوتی‘‘
’’
وَمَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ۰ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعَالَمِیْن (الشعراء:۱۸۰)
‘‘ کسی نبی نے بذریعہ تبلیغ دین واشاعت مذہب اپنی ذات کے لئے لوگوں سے روپیہ جمع نہیں کیا۔ ’’
وَمَا مِنْ نَبِیِّ دَعَاقَوْمَہٗ اِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی اِلَّاقَالَ لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا فَاُثْبِتَ الْاَجْرُ عَلَی الدُّعَا وَلَکِنْ اَخْتَارَ اَنْ یَأْخُذَہٗ مِنَ اللّٰہِ تَعَالٰی (الیواقیت ج۲ ص۲۸)
‘‘ مگر مرزاقادیانی نے تبلیغی سلسلہ کو جاری کرتے ہوئے۔ شروع سے چندہ اور کتابوں کی قیمت ایک ایک کے دس دس کر کے وصول کئے۔
جیسا کہ مرزاقادیانی کی اس تحریر سے ظاہر ہے کہ: ’’چونکہ یہ مخالفین پر فتح عظیم اور مومنین کے دل وجان کی مراد تھی۔ اس لئے کہ امراء اسلام کی عالی ہمتی پر بڑا بھروسہ تھا۔ جو وہ ایسی کتاب لاجواب کی بڑی قدر کریںگے اور جو مشکلات اس کی طبع میں پیش آرہی ہیں ان کے دور کرنے میں بدل وجان متوجہ ہو جائیںگے۔‘‘ (براہین احمدیہ ص ب، خزائن ج۱ ص۶۲)
نیز بلاطلب کے اشتہاری اور بازاری لوگوں کی طرح کتابیں رؤساء کے نام روانہ کردیں اور جب ان کی طرف سے تسلی بخش جواب نہ ملا تو کتابوں کی قیمت یا ان کی واپسی کی بڑی لجاجت سے درخواست کی ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں کہ: ’’ہم نے پہلا حصہ جو چھپ چکا تھا اس میں قریب ایک سو پچاس جلد کے بڑے بڑے امیروں اور دولت مندوں اور رئیسوں کی خدمت میں بھیجی تھیں اور یہ امید کی گئی تھی کہ جو امراء عالی قدر خریداری کتاب کی منظوری فرماکر قیمت کتاب جو ایک ادنیٰ رقم ہے۔ بطور پیشگی بھیج دیں گے… اور بہ انکسار تمام حقیقت حال سے مطلع کیا۔ مگر باستثناء دوتین عالی ہمتوں کے سب کی طرف سے خاموشی رہی… اگر خدانخواستہ کتابیں بھی واپس نہ ملیں تو سخت دقت پیش آئے گی اور بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا۔… ہم بکمال غربت عرض کرتے ہیں کہ اگر قیمت پیشگی کتابوں کا بھیجنا منظور نہیں تو کتابوں کو بذریعہ ڈاک واپس بھیج دیں۔ ہم اسی کو عطیۂ عظمیٰ سمجھیں گے اور احسان عظیم خیال کریںگے۔‘‘ (براہین احمدیہ ص ب، ج، خزائن ج۱ ص۶۲،۶۳)
’’کبھی عیسائیوں کی کوششوں کا ذکر کر کے چندہ کے لئے اکسایا۔‘‘ (براہین احمدیہ ص الف، خزائن ج۱ ص۶۰)
’’اور کبھی اپنی غربت اورافلاس کو سامنے رکھا اور کہیں امداد باہمی اور اسلامی ہمدردی کا گیت گایا۔‘‘
(دیکھو اشتہار عرض ضروری بحالت مجبوری، براہین احمدیہ ص الف، خزائن ج۱ ص۵۹)
آخر کار اس جدوجہد کا نتیجہ ایک دن حسب دلخواہ بامراد نکل آیا۔ جیسا کہ مرزاقادیانی فرماتے ہیں کہ: ’’یہ مالی امداد اب تک پچاس ہزار روپیہ سے زیادہ آچکی ہے۔ بلکہ میں یقین کرتا ہوں کہ ایک لاکھ کے قریب پہنچ گئی ہے۔ اس کے ثبوت کے لئے ڈاکخانہ جات کے رجسٹر کافی ہیں۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ۵ ص۵۷، خزائن ج۲۱ ص۷۴)
’’جو کچھ میری مراد تھی سب کچھ دکھادیا ۔ میں ایک غریب تھا۔ مجھے بے انتہا دیا دنیا کی نعمتوں سے کوئی بھی نہیں رہی۔ جو اس نے مجھ کو اپنی عنایات سے نہ دی۔ ‘‘ (براہین حصہ۵، ص۱۰، خزائن ج۲۱ ص۱۹)
’’اس قدر بھی امید نہ تھی کہ دس روپیہ ماہواربھی آئیںگے… اب تک تین لاکھ کے قریب روپیہ آچکا ہے۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۲۱۱، خزائن ج۲۲ ص۲۲۱)
مرزاقادیانی نے ایک معمولی کتاب کو جو پانچ روپیہ سے زیادہ حیثیت کی نہ تھی۔ بڑی ضخامت میں پیش کر کے جس گندم نمائی اور جو فروشی کا ثبوت دیا ہے۔ اس کی نظیر ایک معمولی درجہ کے دیندار آدمی میں بھی نظر نہ آئے گی، اور جو رقم اشاعت اسلام کے نام سے بطور چندہ وصول کی گئی۔ اس کو بتمامہ دین کے کاموں میں صرف نہ کیا۔ بلکہ بہت سا روپیہ اپنی ضرورتوں میں لگایا۔ جائدادیں خریدیں اور غریب سے رئیس اور دولت مند بن گئے۔ ورنہ وہی مرزاقادیانی اس وقت بھی تھے جب کہ سیالکوٹ کی کچہری میں پندرہ روپیہ کے کلرک تھے اور گذارہ مشکل سے ہوتا تھا۔
مطالبہ: کیا انبیاء سابقین علیہم السلام میں سے ایسی کوئی مثال پیش کی جا سکتی ہے؟ جنہوں نے مذہب کی آڑ میں دنیا کمائی ہو؟ یا مسلمانوں کے بیت المال کے روپیہ کو اپنی ضرورتوں میں خرچ کیاہو؟
مرزا قادیانی اور دیانت
’’
اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْخَائِنِیْن (انفال :۵۸)
‘‘
نبوت او ر رسالت خداتعالیٰ کی رضامندی کی نشانی ہے اور خیانت خواہ کسی قسم کی ہو نفاق کی علامت ہے۔ اس لئے نبوت اور خیانت کسی جگہ جمع نہیںہو سکتی۔ قرآن مجید میں ہے کہ: ’’وَمَا کَانَ لِنَبِیَّ اَنْ یَّغُلَّ (آل عمران:۱۶۱)‘‘
’’والمعنی وماصح لہ ذالک۰ یعنی ان النبوۃ تنافی الغلول (مدارک:۱۴۹)‘‘ جامع البیان میں ہے کہ: ’’ای ینسب الیٰ خیانۃ‘‘ مگر مرزاقادیانی میں خیانت جیسا قبیح فعل نہ صرف چندہ وغیرہ کے معاملہ میں پایا جاتا ہے۔بلکہ نقل مذہب میں بھی خیانت سے کام لیاگیا ہے۔چنانچہ ’’تحفہ گولڑویہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ: ’’یعنی وہ لوگ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دوبارہ دنیا میں واپس لاتے ہیں۔ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ بدستور اپنی نبوت کے ساتھ دنیا میں آئیںگے اور برابر ۴۵ برس تک ان پر جبرائیل علیہ السلام وحی ٔ نبوت لے کر نازل ہوتا رہے گا۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۵۱، خزائن ج۱۷ ص۱۷۴)
مرزاقادیانی نے مسلمانوں کے اس عقیدہ کو نقل کرنے میں خیانت کی ہے۔ مسلمانوں کا عقیدہ اس بارے میں صرف اس قدر ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اگرچہ نزول کے بعد بھی نبی رہیں گے۔ لیکن وحی ٔ نبوت ان پر نازل نہ ہوگی اور وہ شریعت محمدیہ ( ﷺ) پر عمل کریں گے۔ جس کا علم ان کو بالہام الٰہی ہوتا رہے گا۔ جیسا کہ شیخ عبدالوہاب فرماتے ہیں کہ: ’’
ان عیسیٰ علیہ السلام وان کان بعدہ واولی العزم وخواص الرسل فقد زال حکمہ فی ہذا المقام بحکم الزمان علیہ الذی ہو بغیرہ فیرسل ولیا ذانبوۃ مطلقۃ وملہم بشرع محمد ﷺ ویفہمہ علی وجہہ کالاولیاء المحمدیین (یواقیت ج۲ ص۸۹)
‘‘
شیخ عبدالحق مدارج میں لکھتے ہیں کہ: ’’ولہذا عیسیٰ علیہ السلام در آخرزمان برشریعت وی بیاید وحال آنکہ وی نبی کریم ست وبا قیست برنبوت خود نقصان نشدہ است ازوی چیزے‘‘
(مدارج ج۱ ص۹۳)
اور یہی مطلب ’’حجج الکرامہ‘‘ والے کا ہے۔ یعنی ان کا مرتبہ نبیوں جیسا ہوگا۔ مگر معاملہ نبیوں کی طرح نہیں ہوگا۔ اسی لئے نہ ان پر وحی ٔ نبوت نازل ہوگی اور نہ ان کو عمل کرنے کے لئے کوئی خاص شریعت دی جائے گی، اور ابن عباسرضی اللہ عنہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ اور دیگر مفسرین اور محدثین کی طرف جو غلط عقیدے منسوب کئے ہیں۔ جن کی تفصیل جلد ثانی میں پہلے گذر چکی ہے۔ منجملہ خیانات کے چند خیانتیں ہیں۔ ’’براہین احمدیہ‘‘ کے اشاعت کے زمانہ میں جس گندم نمائی اور جَو فروشی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کی کسی قدر تفصیل پہلے معلوم ہو چکی۔ پھر ان خریداروں کا روپیہ جو پانچویں حصہ کے لکھنے سے پہلے ہی مر چکے تھے۔ وہ بمدامانت مرزاقادیانی کی تحویل میں تھا۔ لیکن مرزاقادیانی نے اس رقم کو ان کے وارثوں کی طرف واپس نہیں کیا اور امانت کو صاف ہضم کر گئے۔ نیز مسلمانوں کو مذہبی تبلیغ کا دھوکا دیاگیا، اور اشاعت مذہب کا نام لے کر ان سے روپیہ وصول کیاگیا۔ مگر کام اس پردہ میں گورنمنٹ برطانیہ کا ہوتا رہا۔ چنانچہ ’’قابل توجہ گورنمنٹ ہند‘‘ کے عنوان سے ایک چٹھی ’’انجام آتھم‘‘ میں درج کی ہے۔ جس میں وہ لکھتے ہیں کہ: ’’
واشعنا الکتب فی حمایۃ اغراض الدولۃ الیٰ بلاد الشام والروم وغیرہا من الدیار البعیدۃ وہذا امر لن تجد الدولۃ نظیرہا فی غیرہا من المخلصین
‘‘ (انجام آتھم ص۲۸۳، خزائن ج۱۱ ص۲۸۳)
’’دولت برطانیہ کے اغراض ومقاصد کی حمایت میں ہم نے بہت سی کتابیں لکھ کر شام اور روم اور دیگر بلادبعیدہ میں شائع کی ہیں۔ یہ ایک ایسا امر ہے۔ جس کی نظیر حکومت برطانیہ کو ہماری مخلص جماعت کے سوا غیر میں نظر نہیں آسکتی۔‘‘
’’میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید اور حمایت میں گذرا اور میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہار شائع کئے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔ میں نے ایسی کتابوں کو تمام ممالک عرب میں مصر، شام، کابل اور روم تک پہنچادیا ہے۔ میری ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ مسلمان اس سلطنت کے سچے خیرخواہ ہو جائیں، اور مہدی خونی اور مسیح خونی کی بے اصل روایتیں اور جہاد کے جوش دلانے والے مسائل جو احمقوں کے دلوں کو خراب کرتے ہیں۔ ان کے دلوںسے معدوم ہو جائیں۔‘‘ (تریاق القلوب ص۱۵، خزائن ج۱۵ ص۱۵۵،۱۵۶)
مطالبہ: اشاعت مذہب کا روپیہ کس شرعی حکم سے اس گناہ عظیم میں لگایا گیا کیا اس نام سے چندہ کی کوئی مد قائم کی جاسکتی ہے؟
مرزاغلام احمد قادیانی کی خیانت ملاحظہ فرمائیں
۱… حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے مولانا خواجہ محمد صدیق رحمۃ اللہ علیہ کو ایک خط تحریر فرمایا۔ جس میں آپ نے تحریر فرمایا: ’’
وقد یکون ذالک لبعض الکمل من متابعیہم بالتبعیۃ والوراثۃ ایضا واذ اکثر ہذا القسم من الکلام مع واحد منہم سمی محدثاً
‘‘
ترجمہ فارسی: ’’وگاہے ایں نعمت عظمیٰ بعضے را از کمل متابعان ایشاں نیز بہ تبعیت ووراثت میسر میگردد وایں قسم از کلام بایکے ازیشان ہر گاہ بکثرت واقع گردد آنکس محدث (بفتح دال وتشدید آں) نا میدہ میشود۔‘‘ (مکتوبات مجدد الف ثانی ص۱۴۲، دفتر دوم)
۲… (الف) مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنی ابتدائی تصنیف (براہین احمدیہ ص۵۴۶، خزائن ج۱ ص۶۵۲) پر اس کا حوالہ یوں نقل کیا ہے۔ ’’بلکہ امام ربانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنے مکتوبات کی جلد ثانی میں جومکتوب پنجاہ ویکم ہے۔ اس میں صاف لکھتے ہیں کہ غیر نبی بھی مکالمات ومخاطبات حضرت احدیت سے مشرف ہو جاتا ہے اور ایسا شخص محدث کے نام سے موسوم ہے۔‘‘
(ب) اسی طرح مرزاغلام احمد قادیانی (تحفہ بغداد ص۲۱، خزائن ج۷ ص۲۸) پر بھی بعینہ حضرت مجدد کا خط نقل کرتے ہوئے کثرت مکالمہ والے کو محدّث لکھا ہے۔
۳… لیکن برا ہو۔ خود غرضی، نفس پرستی اور بددیانتی کا، کہ جب مرزاغلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا تو مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات میں تحریف کرتے ہوئے لکھا کہ: ’’مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سرہندی نے اپنے مکتوبات میں لکھا ہے کہ اگرچہ اس امت کے بعض افراد مکالمہ ومخاطبہ الٰہیہ سے مخصوص ہیں اور قیامت تک مخصوص رہیں گے۔ لیکن جس شخص کو بکثرت اس مکالمہ ومخاطبہ سے مشرف کیا جائے اور بکثرت امور غیبیہ اس پر ظاہر کئے جائیں وہ نبی کہلاتا ہے۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۳۹، خزائن ج۲۲ ص۴۰۶)
نتیجہ: دیکھئے! مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ جسے کثرت مکالمہ ہو وہ محدّث ہوتا ہے۔ مرزاغلام احمد قادیانی نے ’’براہین احمدیہ‘‘ اور ’’تحفہ بغداد‘‘ میں مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے بھی یہی تحریر کیا کہ کثرت مکالمہ والا محدّث کہلاتا ہے۔ لیکن جب خود دعویٰ نبوت کیا تو ’’حقیقت الوحی‘‘ میں مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے کثرت مکالمہ والا نبی کہلاتا ہے لکھ دیا۔
اب آپ خود فیصلہ فرمائیں کہ ایک ہی حوالہ کو مرزا غلام احمد قادیانی تین جگہ لکھتا ہے۔ براہین احمدیہ، تحفہ بغداد، اس میں محدث لکھتا ہے اور اسی حوالہ کو مرزاغلام احمد قادیانی ’’حقیقت الوحی‘‘ میں نبی لکھتا ہے۔ محدّث کو نبی کرنا محض غلطی نہیں بلکہ صریح اور کھلی بددیانتی ہے۔
۴… چنانچہ حضرت مولانا نور محمد خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ مدرس مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور نے اپنی کتاب (کفریات مرزا ص۲۱، مطبوعہ خواجہ برقی پریس دہلی مئی ۱۹۳۳ء) میں یہ حوالہ نقل کر کے یہ چیلنج نقل کیا تھا: ’’حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت مذکورہ میں مرزاغلام احمد قادیانی نے جس خیانت مجرمانہ جرأت شیطنہ سے کام لیا ہے۔ اس پر قیامت تک علمی دنیا لعنت ونفرت کا وظیفہ پڑھ کر مرزاغلام احمد قادیانی کی روح کو ایصال ثواب کرے گی۔ کیا کوئی غلمدی جرأت کر سکتا ہے کہ نبی کا لفظ عبارت مکتوبات امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ میں دکھلا کر اپنے پیشوا کو کذابوں کی قطار سے علیحدہ کر دے۔‘‘
آج سے اٹھہتر(۷۸) سال قبل قادیانیوں کو جو چیلنج دیاگیا تھا۔ وہ جوں کا توں برقرار ہے۔ قادیانی امت مرزاغلام احمد قادیانی سے اس خیانت وبددیانتی کے الزام کو دور نہیں کر سکی اور نہ قیامت تک کر سکتی ہے۔ جھوٹا بددیانت نبی ہوسکتا ہے؟ یہ قادیانی امت کے لئے سوچنے کا مقام ہے۔
باب دوازدہم … مرزا قادیانی اور اغیار کی غلامی
’’
وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ھَوَاہٗ وَکَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا (کھف:۲۸)
‘‘ {کبھی کسی نبی نے کفاروں کی غلامی اختیار نہیں کی۔ بلکہ جب تک عزت کی زندگی حاصل نہ ہوئی وہ ہمیشہ ان کی مخالفت کرتے اور ان سے لڑتے رہے ہیں۔}
لیکن مرزاقادیانی جس حکومت برطانیہ کو دجال کہتے ہیں۔ اس کی غلامی پر فخر کرتے جاتے ہیں اور اس کو نعماء الٰہی میں سے ایک نعمت سمجھتے ہیں۔
۱… ’’بنظر ان احسانات کے کہ جو سلطنت انگلشیہ سے اس کی حکومت اور آرام بخش حکمت کے ذریعہ سے عامۂ خلائق پروارد ہیں۔ سلطنت ممدوحہ کو خداوند تعالیٰ کی ایک نعمت سمجھیں اور مثل اور نعماء الٰہی کے اس کا شکر بھی ادا کریں۔ لیکن پنجاب کے مسلمان بڑے ناشکر گذار ہوں گے۔ اگر وہ اس سلطنت کو جو ان کے حق میں خدا کی ایک عظیم الشان رحمت ہے۔ نعمت عظمیٰ یقین نہ کریں۔‘‘ (براہین احمدیہ ص ب ، خزائن ج۱ ص۱۴۰)
۲… ’’
اَلَمْ یُفَکَّرْ اِنَّنَا ذریۃ آباء انفذوا اعمارہم فی خدمات ہذہ الدولۃ
! کیا گورنمنٹ اتنا غور نہیں کرتی کہ ہم انہی بزرگوں کی اولاد ہیں۔ جنہوں نے اپنی عمریں حکومت برطانیہ کی خدمت میں صرف کردیں۔‘‘
(انجام آتھم ص۲۸۳، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)
۳… ’’خداتعالیٰ نے مجھے اس اصول پر قائم کیا ہے کہ محسن گورنمنٹ کی جیسا کہ گورنمنٹ برطانیہ ہے۔ سچی اطاعت کی جائے اور سچی شکر گذاری کی جائے۔ سو میں اور میری جماعت اس اصول کے پابند ہیں۔ چنانچہ میں نے اسی مسئلہ پر عمل درآمد کرانے کے لئے بہت سی کتابیں عربی، فارسی اور اردو میں تالیف کیں اور ان میں تفصیل سے لکھا کہ کیونکر مسلمانان ’’برٹش انڈیا‘‘ اس گورنمنٹ برطانیہ کے نیچے آرام سے زندگی بسر کرتے ہیں، اور کیوںکر آزادگی سے اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے پر قادر ہیں، اور تمام فرائض منصبی بے روک ٹوک بجالاتے ہیں۔ پھر اس مبارک اور امن بخش گورنمنٹ کی نسبت کوئی خیال بھی جہاد کا دل میں لانا کس قدر ظلم اور بغاوت ہے۔ یہ کتابیں ہزارہا روپیہ کے خرچ سے طبع کرائی گئیں اور پھر اسلامی ممالک میں شائع کی گئیں اور میں جانتا ہوں کہ یقینا ہزارہا مسلمانوں پر ان کتابوں کا اثر پڑا ہے۔ بالخصوص وہ جماعت جو میرے ساتھ تعلق بیعت ومریدی رکھتی ہے۔ وہ ایک ایسی سچی مخلص اور خیرخواہ اس گورنمنٹ کی بن گئی ہے کہ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ ان کی نظیر دوسرے مسلمانوں میں نہیں پائی جاتی۔ وہ گورنمنٹ کے لئے ایک وفادار فوج ہے۔ جن کا ظاہر وباطن گورنمنٹ برطانیہ کی خیرخواہی سے بھرا ہوا ہے۔‘‘ (تحفہ قیصریہ ص۱۲،۱۱، خزائن ج۱۲ ص۲۶۳،۲۶۴)
۴… ’’ہم پر اور ہماری ذریت پر یہ فرض ہوگیا کہ اس مبارک گورنمنٹ برطانیہ کے ہمیشہ شکر گذار رہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۳۲، خزائن ج۳ ص۱۶۶)
مطالبہ: حدیث میں آنے والے مسیح کو قاتل دجال فرمایا گیا ہے۔مگر مرزاقادیانی اس کی حمایت میں جس کو دجال اور یأجوج مأجوج کہتے ہیں۔ اپنی عمر کا بیشتر حصہ صرف کرتے نظرآرہے ہیں۔ تو کیا ایسے حامیٔ دجال مسیح کی حمایت میں کوئی حدیث یا آیت قرآنیہ پیش کی جاسکے گی؟
س… حضرت یوسف ویعقوب علیہ السلام ایک کافر کی حکومت میں مصر جاکر آباد ہوئے اور یوسف علیہ السلام نے بحیثیت ملازم حکومت کا کام کیا۔
ج… یوسف علیہ السلام کی زندگی مصر میں غلامانہ زندگی نہیں تھی۔ وہ مصر کے حل وعقد کے مالک اور باختیار حکمران تھے۔اﷲتعالیٰ فرماتا ہے کہ: ’’وَکَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ یَتَبَوَّأُ مِنْھَا حَیْثُ یَشَآئُ (یوسف: ۵۶)‘‘ {ہم نے یوسف علیہ السلام کو مصر میںایسی قوت اور طاقت عطاء فرمائی کہ وہ جہاں چاہتا رہتا اور ٹھہرتا تھا۔}
۲… مصر کا بادشاہ یوسف علیہ السلام کے دست حق پرست پراسلام لے آیا تھا۔
’’
واقام العدل بمصر وأجلۃ الرجال والنساء واسلم علے یدہ الملک وکثیر من الناس (تفسیر کبیر ص۱۶۲ ج۹ زیر آیت وکذلک مکنا لیوسف)
‘‘
’’
وعن مجاہدان الملک اسلم علے یدہ (بیضاوی ص۴۱۴)
‘‘
باب سیزدہم … مرزا قادیانی اور اعمال صالحہ
’’
وَکُلًّا جَعَلْنَا صَالِحِیْنَ وَجَعَلْنَاہُمْ اَئِمَّۃً یَّھْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَاَوْحَیْنَا اِلَیْہِمْ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَاِقَاَمَ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَائَ الزَّکٰوۃِ (الانبیاء :۷۳)
‘‘ {ہم نے ہر ایک نبی کو صالح اور نیک عمل بنایا اور ان کو پیشوا کیا کہ جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کرتے تھے اور ان کی طرف نیکیوں کے کرنے، نماز پڑھنے، زکوٰۃ دینے کی وحی کی۔} یعنی نبی کے لئے متقی، پرہیزگار ہونا شرط اوّل ہے۔ وہ ہمیشہ لوگوں کو نیک کام کے کرنے، زکوٰۃ اور نماز کے ادا کرنے کی طرف بلاتے رہے ہیں۔
مگر مرزاقادیانی کی تالیفات میں بقول مرزاقادیانی پچاس الماریاں بھری جاسکتی ہیں۔ زکوٰۃ کی ادائیگی نماز روزہ کی تلقین اعمال حسنہ کی طرف ترغیب وتحریض مطلقاً نہیں پائی جاتی اور ذاتی تقویٰ اور پرہیز گاری کا یہ حال ہے کہ جب آپ مسلمانوں کا حسن ظن حاصل کر رہے تھے اور دعویٰ مہدیت، مسیحیت وغیرہ کچھ نہیں کیا تھا اور براہین کے اشتہار بازی سے بہت سا روپیہ بھی جمع کر چکے تھے۔ اس وقت باوجود امن طریق کے اور دس ہزار روپیہ کی مالیت رکھنے کے حج کے لئے نہ گئے۔ چنانچہ اس اشتہار میں جو جمیع ارباب مذہب کے مقابلہ میں دس ہزار روپیہ انعام دینے کے وعدہ کا اعلان کرنے کے لیئے شائع کیا تھا۔ لکھتے ہیں کہ: ’’میں مشتہر ایسے مجیب کو بلاعذرے وحیلے اپنی جائداد قیمتی دس ہزار روپیہ پر قبض ودخل دیدوں گا۔‘‘ (براہین احمدیہ ص۲۵، ۲۶، خزائن ج۱ ص۲۸)
منہ میں پان اور نماز
مرزاغلام احمدقادیانی اور اعمال صالحہ کی ادائیگی ملاحظہ فرمائیں: ’’ ایک دفعہ حضرت صاحب کو سخت کھانسی ہوئی۔ ایسی کہ دم نہ آتا تھا۔ البتہ منہ میں پان رکھ کر قدرے آرام معلوم ہوتا تھا۔ اس وقت آپ نے اس حالت میں پان منہ میں رکھے رکھے نماز پڑھی۔ تاکہ آرام سے پڑھ سکیں۔‘‘ (سیرت المہدی ج۳ ص۱۰۳، روایت نمبر۶۳۸)
’’بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ میں نے کبھی حضرت مسیح (مرزاقادیانی) کو اعتکاف میں بیٹھے نہیں دیکھا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں عبداﷲ سنوری نے بھی مجھ سے یہی بیان کیا ہے۔‘‘ (سیرت المہدی ج۱ ص۶۸، روایت نمبر۸۶)
روزے تڑوادئیے
’’لاہور سے کچھ احباب رمضان میں قادیان آئے۔ حضرت صاحب (مرزاقادیانی) کو اطلاع ہوئی تو آپ مع کچھ ناشتہ کے ان سے ملنے کے لئے مسجد میں تشریف لائے۔ ان دوستوں نے عرض کیا کہ ہم سب روزے سے ہیں۔ آپ نے فرمایا سفر میں روزہ ٹھیک نہیں۔… چنانچہ ان کو ناشتہ کروا کے ان کے روزے تڑوادئیے۔‘‘ (سیرۃ المہدی ج۲ ص۵۹)
حج، اعتکاف، زکوٰۃ
’’ڈاکٹر میر محمد اسماعیل نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) نے حج نہیں کیا۔ اعتکاف نہیں کیا۔ زکوٰۃ نہیں دی۔ تسبیح نہیں رکھی… زکوٰۃ اس لئے نہیں دی کہ آپ کبھی صاحب نصاب نہیں ہوئے… اور تسبیح اور رسمی وظائف وغیرہ کے آپ قائل ہی نہیں تھے۔‘‘ (سیرت المہدی ج۳ ص۱۱۹، روایت نمبر۶۷۲)
کذب بیانی، وعدہ خلافی، تلبیس اور دھوکا دہی
خیانت چندہ کا ناجائز مصرف، حرص، وطمع دنیوی، نصاریٰ کی جاسوسیت وغیرہ نقائص شرعی اس کے علاوہ ہے۔ اگرچہ ان کی مثالیں پہلے گذر چکی ہیں۔ مگر مزید بصیرت کے لئے ایک دو حوالے اور نقل کئے جاتے ہیں۔
’’پہلے یہ کتاب (براہین) صرف تیس پینتیس جز تک تالیف ہوئی تھی اور پھر سو جزوتک بڑھادی گئی اور دس روپیہ عام مسلمانوں کے لئے اور پچیس روپیہ دوسری قوموں اور خواص کے لئے مقرر ہوئی۔ مگر اب یہ کتاب بوجہ جمیع ضروریات تحقیق وتدقیق اور اتمام حجت کے تین سو جزء تک پہنچ گئی۔‘‘
(اشتہار مندرجہ تبلیغ رسالت جلد اوّل ص۲۴، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۳۲،۳۳)
اس مثال میںسوائے خدمت نصاریٰ کے مذکورہ بالا تمام برائیاں موجود ہیں۔ اس کے بعد نصاریٰ کی خدمت گذاری کے شوق میں شریعت کی قطع وبرید ملاحظہ ہو۔
’’شریعت اسلام کا یہ واضح مسئلہ ہے۔ جس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ ایسی سلطنت سے لڑائی اور جہاد کرنا جس کے زیر سایہ مسلمان لوگ امن اور عافیت اور آزادی سے زندگی بسر کرتے ہوں اور جس کے عطیات سے ممنون منت اور مرہون احسان ہوں اور جس کی مبارک سلطنت حقیقت میں نیکی ہدایت پھیلانے کے لئے کامل مدد گار ہو۔ قطعی حرام ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ ص ب حصہ۳، خزائن ج۱ ص۱۳۹)
مطالبہ: سوائے معاہدہ کے شریعت اسلامیہ کا اس بارے میں وہ واضح اور متفق علیہ مسئلہ ہم بھی دیکھنا چاہتے ہیں، اور اگر یہ بات ثابت نہ کی جا سکے تو پھر اس کواتفاقی اور کھلا ہوا مسئلہ بتانا دھوکا دہی نہیں ہے تو کیا ہے؟ اور اگر یہ ایسا متفقہ اور کھلا ہوا شرعی مسئلہ تھا تو جہاد سے روکنے کی تحریک کو اپنی کوشش کا نتیجہ کیوں کہا جاتا ہے۔ پھر اگر برطانیہ سے معاہدہ تھا تو وہ ہندوستان کے مسلمانوں کا تھا۔ اس کی پابندی عرب، روم وشام کابل وغیرہ کے رہنے والے مسلمانوں پر نہیں تھی۔ مرزاقادیانی نے جو عمر کا بہت سا حصہ بلاد اسلامیہ میں امتناع جہاد کی بحث اور اغراض برطانیہ کی حمایت میں کتابیں بھیجنے پر صرف کردیا۔ وہ کس شرعی حکم کے ماتحت تھا۔ پھر لڑکے کو عاق کرنا چاہا۔ باوجود یہ کہ عاق کرنے والے پر رسول اﷲ ﷺ نے لعنت بھیجی ہے۔ (ابن ماجہ ص۲۹۴ باب لاوصیۃ للوارث)
ایسے ہی مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنے اصل ہدف دعویٰ نبوت تک پہنچنے کے لئے عیسائیت کے رد اور اشاعت اسلام کا سہارا لیا، اور کہا کہ کتاب مرتب کرنی ہے۔ تین سو دلائل ہوں گے۔ ۵۰جلدوں پر مشتمل ہوگی۔ لوگوں سے چندہ وصول کیا۔ وعدہ ۵۰ کا کیا۔ روپیہ پیسہ ۵۰جلدوں کا لیا۔ مگر ۵جلدوں پر اکتفا کیا۔ لوگوں کا مسلسل اصرار بڑھا۔ مرزاقادیانی نے کہا: ’’پہلے پچاس حصے لکھنے کا ارادہ تھا۔ مگر پچاس سے پانچ پر اکتفا کیاگیا اور کیونکر پچاس اور پانچ کے عدد میں صرف ایک نکتہ کا فرق ہے۔ اسی لئے پانچ حصوں سے وہ وعدہ پورا ہوگیا۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم دیباچہ ص۷، خزائن ج۲۱ ص۹)
قادیانی نبی کی عیاری پر غور فرمائیں۔ وعدہ پچاس کا، رقم پچاس کی۔ مگر وعدہ خلافی کی، حرام کا ارتکاب کیا، لوگوں کا مال حرام کیا، حرام کھایا۔ وعدہ خلاف، جھوٹ بولنے والا، حرام کھانے والا، اﷲ کا سچا نبی نہیں بلکہ قادیان کا دھقان مرزاغلام احمد قادیانی ہوسکتا ہے۔
مرزا قادیانی اور انبیاء سابقین علیہم السلام
’’
وَقَضَیْنَا عَلٰی اٰثَارِہِمْ بِعِیْسٰی اِبْنِ مَرْیَمَ مُصَدِّقًالِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ (مائدہ:۴۶)
‘‘ ہر ایک نبی پہلے علیہم السلام کی تعلیم کی تصدیق اور توثیق کرتا چلاآیا ہے۔ خصوصاً عقائد کے بارے میں تمام نبیوں کی ایک ہی تعلیم رہی ہے۔ قرآن کریم کی نسبت بھی یہی فرمایا گیا:
’’
وَاِنَّہٗ لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْنِ (شعراء :۱۹۶)
‘‘
’’
مَعْنَاہٗ لَفِی الکتب المقدمۃ (بیضاوی :۱۳۳)
‘‘
حدیث میں ہے کہ: ’’
نَحْنُ مَعْشَرُا لْاَنْبِیَآئْ اِخْوَۃً لِّعَلَّاتٍ اُمَّہَاتُہُمْ شَتّٰی وَدِیْنُہُمْ وَاحِدٌ (بخاری ج۱ ص۴۹۰ باب واذکر فی الکتاب مریم)
‘‘
یعنی اصول دین تمام انبیاء علیہم السلام کے درمیان مشترک ہیں۔ صرف عبادت کے طریقے بدلے ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ عیسیٰ علیہ السلام بھی جب دوبارہ دنیا میں نازل ہوںگے۔ تو وہ ہر ایک بات میں نبی عربی ﷺ کی تصدیق کریں گے اور ان کی تحقیق سے ایک انچ باہر نہ ہوں گے۔ چنانچہ (کنز العمال ج۱۴ ص۳۲۱ حدیث نمبر۳۸۸۰۸) میں ہے کہ: ’’
یَجِیْیُٔ عِیْسٰی بْنُ مَرْیَمَ مِنْ قِبَلِ الْمَغْرِبِ مُصَدِّقًا بِمُحَمَّدٍ عَلٰی مِلَّتِہٖ
‘‘
مگر مرزاقادیانی کو علیہم السلام کے عقائد سے سخت اختلاف ہے۔ بلکہ وہ اس بارے میں نبی عربی ﷺ کی تحقیق کی بھی پرواہ نہیں کرتا اور اس کی تکذیب کرتا جاتا ہے۔
چنانچہ دجال کے ایک شخص واحد ہونے اور یک چشم اور اعور ہونے پر تمام انبیاء علیہم السلام نے شہادت دی ہے اور حضور ﷺ نے اس پر یہ تحقیق مزید اضافہ فرمادی کہ اس کی پیشانی پر ک، ف، ر، لکھی ہوئی ہوگی۔ جیسا کہ ’’بخاری‘‘ اور ’’مسلم‘‘ کی اس روایت سے ظاہر ہے۔
’’
عَنْ اَنسرضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْل اللّٰہ ﷺ مَا مِنْ نَبِیْ اِلَّاوَقَدْ اَنْذَرَاُمَّتَہٗ الْاَعْوَارَ الْکَذَّابَ اِلَّااِنَّہٗ اَعْوَرَ وَاِنَّ رَبَّکُمْ لَیْسَ بِاَعْوَرٍ وَاِنَّ بَیْنَ عَیْنَیْہِ مَکْتُوْبًا کَافِرٌ (بخاری ج۲ ص۱۰۵۶ باب ذکر الدجال، مسلم ج۲ ص۴۰۰، باب ذکر الدجال)
‘‘
مرزاقادیانی نے بھی ’’ازالہ اوہام‘‘ میں اس حدیث کی تصدیق اس طرح کی ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر ہمارے سیدو مولیٰ خاتم الانبیاء ﷺ کے عہد تک اس مسیح دجال کی خبر موجود ہے۔ مرزاقادیانی نے اس کی تعیین شخصی سے جو علیہم السلام کے درمیان متفق علیہ چیز تھی۔ انکار کردیا۔ خواہ وہ کسی تاویل کے ماتحت ہو۔ لیکن تمام نبیوں کا اس کا ظاہر پر اتارنا اور اس میں کسی قسم کی تاویل نہ کرنا نہ صرف مرزاقادیانی کی تاویل کی تردید کرتا ہے۔ بلکہ کھلم کھلا مرزاقادیانی کی بطالت پر مہر تصدیق ثبت کرنا ہے۔ لہٰذا مرزاقادیانی کا دجال کی شخصیت سے انکار کرتے ہوئے یہ لکھنا سراسر لغو ہے کہ: ’’میرا یہ مذہب ہے کہ اس زمانہ کے پادریوں کی مانند کوئی اب تک دجال پیدا نہیں ہوا اور نہ قیامت تک پیدا ہوگا۔‘‘
(ازالہ ص۴۸۸، خزائن ج۳ ص۳۶۲)
’’اور بپایہ ثبوت پہنچ گیا کہ مسیح دجال جس کے آنے کی انتظار تھی یہی پادریوں کا گروہ ہے جو ٹڈی کی طرح تمام دنیا میں پھیل گیا ہے۔‘‘ (ازالہ ص۴۹۵،۴۹۶، خزائن ج۳ ص۳۶۶)
پھر یہ کہنا کہ رسول اﷲ ﷺ کو دجال کی حقیقت کا صحیح علم نہ تھا۔ آنحضرت ﷺ اور تمام علیہم السلام کی شان میں گستاخی کرنے کے علاوہ اس امر کی کھلی ہوئی شہادت ہے کہ مرزاقادیانی کے خیال میں ان کی اپنی تحقیق علیہم السلام کی تحقیق سے جدا اور اس کے مخالف ہے اور مخالفت ہی مرزاقادیانی کے باطل ہونے کی زبردست دلیل ہے۔ مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ: ’’آنحضرت ﷺ پر ابن مریم علیہم السلام اور دجال کی حقیقت کاملہ بوجہ نہ موجود ہونے کسی نمونہ کے موبمومنکشف نہ ہوئی ہو اور نہ دجال کے ستر باع کے گدھے کی اصل کیفیت کھلی ہو اور نہ یاجوج ماجوج کی عمیق تہ تک وحی الٰہی نے اطلاع دی ہو اور نہ دابۃّ الارض کی ماہیت ’’کماہی‘‘ ہی ظاہر فرمائی گئی اور صرف امثلہ قریبہ اور صور متشابہہ اور امور متشاکلہ کے طرز بیان میں جہاںتک غیب محض کی تفہیم بذریعہ انسانی قویٰ کے ممکن ہے۔ اجمالی طور پر سمجھایا گیا ہو تو کچھ تعجب کی بات نہیں۔‘‘
(ازالہ کلاں ص۶۹۱، خزائن ج۳ ص۴۷۳)
س… اگر دجال کی شخصیت کا مسئلہ متفق علیہ ہوتا تو آنحضرت ﷺ ابن صیاد کے دجال ہونے میں کبھی تردد کا اظہار نہ فرماتے؟
ج… حضور ﷺ کو دجال کے شخص واحد او ر ’’رجل من الرجال‘‘ ہونے میں تردد نہیں تھا۔ تردد اس بارے میں تھا کہ دجال ہونے والا شخص ابن صیاد ہے یا کوئی اور شخص ہے؟۔ علیہم السلام کا اتفاق یقین شخصی میں ہے۔ تعین ذاتی میں نہیں ’’این ہذا من ذاک‘‘ اسی طرح یاجوج ماجوج، خروج دجال، دابۃ الارض وغیرہ مسائل میں رسول اﷲ ﷺ کے بیان کی تصدیق نہ کرنا اور اس کے خلاف اپنی رائے پیش کرنا۔ آیت مذکورہ بالا کی رو سے بطالت کی نشانی ہے۔ مرزاقادیانی نے علیہ السلام کی حقیقت اور ان کے نزول جسمانی نزول وحی سے مراد اور معجزہ کی حقیقت وغیرہ میں بھی نبی کریم ﷺ کی تحقیق کی مخالفت کی ہے اور بجائے تصدیق کے ان کی تکذیب کر کے اپنا جھوٹا ہونا ثابت کردیا ہے۔ کیونکہ سچے کی مخالفت کرنے والا جھوٹا ہی ہوا کرتا ہے۔ سچا کبھی نہیں ہوتا۔ ’’انشاء اﷲ‘‘ ان تمام چیزوں کی تحقیق ’’ایمان مرزا‘‘کی بحث میں مفصل طور پر مذکور ہوگی۔ واﷲ أعلم!
مرزا قادیانی اور بہادری
’’
اَلَّذِیْنَ یُبَلِّغُوْنَ رِسَالٰتِ اللّٰہِ وَیَخْشَوْنَہٗ وَلَا یَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰہَ (احزاب:۳۹)
‘‘ {کبھی کوئی رسول یا نبی اظہار حق کے لئے کسی انسانی طاقت سے نہیں ڈرے۔} مرزاقادیانی تمام عمر حکومت کے خوف سے اس کی رضا جوئی کے متلاشی رہے، اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی رحمۃ اللہ علیہ کے مقدمہ میں قید وبند کے ڈر سے بعض الہامات کے ظاہر نہ کرنے کا عدالت کے روبرو عہد کیا۔ چنانچہ مولوی ثناء اﷲ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس اقرار نامہ کے چند دفعات (الہامات مرزا ص۸۴) پر نقل کئے ہیں۔جن میں سے یہ بھی ہیں۔
۱… میں (مرزاقادیانی) ایسی پیشین گوئی شائع کرنے سے پرہیز کروںگا۔ جس کے یہ معنے ہوں یا ایسے معنے خیال کئے جا سکیں کہ کسی شخص کو ذلت پہنچے گی یا وہ مورد عتاب الٰہی ہوگا۔
۲… میں خدا کے پاس ایسی اپیل کرنے سے بھی اجتناب کروںگا کہ وہ کسی شخص کو ذلیل کرنے سے یا ایسے نشان ظاہر کرنے سے کہ وہ مورد عتاب الٰہی ہے۔ یہ ظاہر کرے کہ مذہبی مباحثہ میں کون سچا اور کون جھوٹا ہے۔
۳… میں کسی چیز کو الہام جتا کر شائع کرنے سے مجتنب رہوں گا۔ جس کا یہ منشاء ہو یا جو ایسا منشاء رکھنے کی معقول وجہ رکھتا ہو کہ فلاں شخص ذلت اٹھائے گا یا موردعتاب الٰہی ہوگا۔ (الہامات مرزاص۸۴)
گورنمنٹ کے خوف سے لکھتے ہیں کہ: ’’ہر ایک ایسی پیش گوئی سے اجتناب ہوگا۔ جو امن عامہ اور اغراض گورنمنٹ کے مخالف ہو۔‘‘ (حاشیہ اربعین نمبر۱ ص۱، خزائن ج۱۷ ص۳۴۳)
آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ: ’’مجھے باقی علیہم السلام پر چھ چیزوں میں فضیلت دی گئی ہے۔ ان میں ایک چیز دشمن پر رعب ڈال دیا گیا ہے۔ میرا دشمن کئی میل کی مسافت سے مجھ سے ڈرتا ہے۔‘‘ یہ اﷲ کا سچا نبی ہے اور اس سچے نبی کی یہی خاصیت ہونی چاہئے۔ مگر جو جھوٹا نبی مرزے قادیانی کی طرح ہوگا۔ اس کا اور اس کی بہادری کا کیا حال ہوگا۔ ملاحظہ فرمائیں: ’’چند آدمی سامنے ہیں۔ ایک چادر میں کوئی شی ٔ ہے۔ ایک شخص نے کہا کہ یہ آپ لے لیں۔ دیکھا تو اس میں چند مرغ ہیں اور ایک بکرا ہے۔ میں ان مرغوں کو اٹھا کر اور سر سے اونچا کر کے لے چلا تاکہ کوئی بلی وغیرہ نہ پڑے۔ راستہ میں ایک بلی ملی۔ جس کے منہ میں کوئی شئی مثل چوہا ہے۔ مگر اس بلی نے اس طرف توجہ نہیں کی اور میں ان مرغوں کو محفوظ لے کر گھر پہنچ گیا۔‘‘ (تذکرہ ص۵۵۸، طبع اوّل)
جو شخص چند مرغے چھپا چھپا کر لے چلا اس ڈر سے کہ کہیں بلی حملہ نہ کردے وہ اﷲ کا نبی نہیں بلکہ خود چوہا ہوسکتا ہے۔ دوسری بات بقول مرزاقادیانی کے جو ان کی بہادری کو واضح کرتی ہے کہ بلی نے اس طرف توجہ نہیں کی اور میں محفوظ نکل گیا۔ اگر بلی توجہ کر لیتی۔ اس کی تو عید ہو جاتی۔ اس لئے کہ مرغے بھی مل جاتے اور مرزے جیسا پلا چوہا بھی۔
’’
اَلَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَہُمْ لَعِبًا وَّلَہْوًا وَغَرَّتْہُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا (انعام:۷۰)
‘‘ اس آیت میں کافروں کی دو نشانیاں بیان کی گئیں ہیں۔
۱… ’’لہو ولعب‘‘ کھیل اور تماشہ کو انہوں نے دین کا جز بنالیا ہے۔
۲… انہماک دنیوی نے ان کو غافل کر رکھا ہے کہ دن رات دنیا ہی کو حاصل کرنے کا فکر ہے اسی کے عیش وآرام پر فخر کرتے اور خوشیاں مناتے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ مرزاقادیانی بھی دنیا داروں کی طرح دنیوی شہرت کو پسند کرتے، اور مال ودولت کے جمع ہونے پر فخر کرتے ہوئے اس کو اپنی بڑی کامیابی سمجھتے ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں کہ: ’’جو میری مراد تھی سب کچھ دکھادیا۔ میں ایک غریب تھا مجھے بے انتہا دیا۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ۵ ص۱۰، خزائن ج۲۱ ص۱۹)
واقعی خداتعالیٰ کسی کی محنت رائیگاں نہیں کرتا۔ مرزاقادیانی کو دنیا کی دولت ہی جمع کرنی مقصود تھی سو ہوگئی۔ ایک جگہ اپنی شہرت پر فخر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ’’اس زمانہ میں ذرا سوچو کہ میں کیا چیز تھا۔ جس زمانہ میںبراہین کا دیا تھا اشتہار۔ پھر ذرا سوچو کہ اب چرچا میرا کیسا ہوا۔ کس طرح سرعت سے شہرت ہوگئی۔ درہردیار!
(براہین احمدیہ ص۱۱۲ حصہ۵، خزائن ج۲۱ ص۱۴۲)
یہ تو مرزاقادیانی کا حال ہے۔ مگر رسول خدا ﷺ اس کے مقابلہ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ: ’’
اَشَدُّا لنَّاسِ بَلَائُ الْاَنْبِیَائِ ثُمَّ الْاَمْثَلُ فَالْاَمْثَلُ
(کنز العمال ج۳ ص۳۲۷ حدیث ۶۷۸۳)‘‘ علیہم السلام پر دنیا کی مصیبتیں عام ہوتی ہیں اور امت میں سے جو شخص عمل میں ان کے قریب ہوتا ہے۔ اسی قدر مصیبتوں کا اس پر ہجوم ہوتا ہے۔ سچ ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کی فقیرانہ زندگی ہی اس امر کا قطعی فیصلہ ہے اور قارون وفرعون کی وراثت پر فخر کرنا فرعون صفت لوگوں ہی کا کام ہے۔
س… حضرت دائود اور سلیمان علیہما السلام بڑی سلطنت کے مالک تھے؟۔
ج… اوّل تو ان بزرگوں نے کبھی مال ودولت پر فخریہ کلمات نہیں فرمائے، دوسرے وہ بیت المال سے ایک کوڑی بھی اپنے اوپر خرچ نہیں کرتے تھے۔ وہ انبیاء علیہم السلام زرہ بناکر بیچتے اور اس سے گزارہ کرتے تھے۔ جیسا کہ ’’
وَعَلَّمْنَاہٗ صَنْعَۃَ لَبُوْسٍ
‘‘ سے ظاہر ہے اور یہی حال سلیمان علیہ السلام کا تھا۔ ٹوکریاں اپنے ہاتھ سے بنتے اور ان کو بازار میں بیچ کر اپنی ضروریات پوری کرتے تھے۔ مرزا کی طرح جھوٹ سچ کا مال جمع نہیں کرتے تھے۔ان کے نزدیک دنیا کے مال کی پرکاہ کے برابر بھی قدر نہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ گھوڑوں کی مشغولیت کے سبب نماز عصر کے قضا ہوجانے کی وجہ سے ان کو ذبح کردیا اور ملکۂ سباء کے ہدایا کو حقارت سے رد کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ: ’’
قَالَ اَتُمِدُّوْنَنَ بِمَالٍ۰ فَمَآ آتٰنِیَ اللّٰہُ خَیْرٌ مِّمَّآ آتٰکُمْ۰ بَلْ اَنْتُمْ بِہَدِیَّتِکُمْ تفْرَحُوْن (نمل :۳۶)
‘‘
چنانچہ ’’صاحب جمل‘‘ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ: ’’ای انکم اہل مفاخرۃ ومکاثرۃ بالدنیا تفرحون باہداء بعضکم الیٰ بعض واما انا فلا افرح بالدنیا ولیست الدنیا من حاجتی‘‘
(جمل حاشیہ نمبر۱۲ جلالین ص۳۲۰)
مگر مرزاقادیانی ہیں کہ تین سو دلائل والی کتاب لکھنے کا اعلان کر کے حسب وعدہ خریداروں کے پاس نہیں پہنچاتے اور جب خریدار تنگ آکر اپنی قیمت واپس کراتے ہیں تو بدل ناخواستہ واپس کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ مگر تمنا اور آرزو یہی رہتی ہے کہ یہ آئی ہوئی رقم واپس نہ ہوتی تو بہت اچھا ہوتا۔ چنانچہ اس حسرت بھری تمنا کو ان لفظوں میں ظاہر فرمایا ہے کہ: ’’پس جن لوگوں نے قیمتیں دی تھیں۔ اکثر نے گالیاں بھی دیں اور اپنی قیمت بھی واپس لی۔ اگر وہ اپنی جلد بازی سے ایسا نہ کرتے تو ان کے لئے اچھا ہوتا۔‘‘ (دیباچہ براہین ۵ ص۸، خزائن ج۲۱ ص۹)
کوئی ان سے پوچھے کہ اگر وہ قیمت واپس نہ کرتے تو کیا کرتے؟ کیا ان کو وہ کتاب مل جاتی جس کا معاملہ طرفین میں ہوا تھا؟ جب اس کتاب کا وجود ہی نہ تھا تو مرزاقادیانی کس وجہ شرعی سے یہ روپیہ دبانا چاہتے تھے؟
س… ’’جو لوگ کسی مکر سے دنیا کمانا چاہتے ہیں کیا ان کا یہی اصول ہوا کرتا ہے کہ بیکبارگی ساری دنیا کی عداوت کرنے کا جوش دلاویں اور اپنی جان کو ہر وقت فکر میں ڈالیں۔‘‘ (مقدمہ براہین ص۱۱۸، خزائن ج۱ ص۱۱۰)
ج… یہ فقرہ مرزاقادیانی نے اس وقت لکھا تھا۔ جب کہ آپ دنیا کو مقابلہ کی دعوت اور مسلمانوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔ چنانچہ آپ نے مسلمانوں کی توجہ کو اپنی طرف منعطف کرنے کے لئے مجددیت، مہدیت وغیرہ دعاوی کا سلسلہ اس خیال کے ماتحت جاری کیا کہ: ’’اگر کوئی نیا مصلح ایسی تعریفوں سے عزّت یاب نہ ہو کہ جو تعریفیں ان کو پیروں کی نسبت ذہن نشین ہیں۔ تب تک وعظ اور پند اس مصلح جدید کا بہت ہی کم مؤثر ہوگا۔ کیونکہ وہ لوگ ضرور دل میں کہیں گے کہ یہ حقیر آدمی ہمارے پیروں کی شان بزرگ کو کب پہنچ سکتا ہے… کیا حیثیت اور کیا بضاعت اور کیا رتبت اور کیا منزلت تا کہ ان کو چھوڑ کر اس کی سنیں۔‘‘ (براہین ص۲۴۶ حاشیہ درحاشیہ نمبر۱،خزائن ج۱ص۲۷۱)
جب مسلمانوں کی ایک جماعت کو مائل کر لیا تو پھر مسیحیت، مجددیت، نبوت وخدائی کے دعوے شروع کردئیے۔
ایک طرف مرزاغلام احمد قادیانی کا دعویٰ نبوت اور دوسری طرف مال کی محبت اور ہوس کا یہ عالم تھا کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنے ایک مرید کے خط کے جواب میں لکھا کہ اپنی بہن کی عصمت فروشی کا مال خدمت اسلام کے لئے مجھے قادیان بھیج دو۔ ملاحظہ فرمائیے: ’’ایک شخص نے حضرت سے فتویٰ دریافت کیا کہ میری بہن ایک کنچنی (کنجری) تھی۔ اس نے اس حالت میں بہت سا روپیہ کمایا۔ پھر وہ مرگئی اور مجھے اس کا ترکہ ملا۔ مگر بعد میں مجھے اﷲتعالیٰ نے توبہ اور اصلاح کی توفیق دی۔ اب میں اس مال کو کیا کروں۔ حضرت صاحب نے جواب دیا کہ ہمارے خیال میں اس زمانہ میں ایسا مال اسلام کی خدمت میں خرچ ہوسکتا ہے۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ اوّل ص۲۶۱، روایت نمبر۲۷۲)
شاعری اور نبوت
’’
وَالشُّعَرَآئُ یَتَّبِعُہُمْ الْغَاوٗن (الشعراء :۲۲۴)
‘‘
علیہم السلام میں سے کبھی کوئی نبی شاعر نہیں ہوا۔ مگر مرزاقادیانی شعر گوئی کا بھی شوق رکھتے ہیں اور مرزائی پارٹی میںان کی شاعری اونچے درجہ کی ہے۔ تمام نبیوں سے نرالا شاعر نبی کیونکر ہوسکتا ہے اور اگر ہے تو ایسے متنبی شاعر کے پیرو یقینا بحکم قرآن گم کردہ راہ ہدایت ہوںگے۔
عشقیہ
اﷲ کے سچے نبی شاعری سے کسی قسم کا تعلق نہیں رکھتے۔ مگر مرزاغلام احمد قادیانی شاعری بھی کرتا اور پھر عشقیہ شاعری کرتا۔ ایک تو شاعری ویسے بھی نبوت کے منصب کے لائق نہیں اور مرزاقادیانی نے جو شاعری کی وہ بھی ایسی کہ کیا کہنے۔ ملاحظہ فرمائیں:
عشقیہ شعر وشاعری
عشق کا روگ ہے کیا پوچھتے ہو اس کی دوا ایسے بیمار کا مرنا ہی دوا ہوتا ہے
کچھ مزا پایا مرے دل ابھی کچھ پاؤ گے تم بھی کہتے تھے کہ الفت میں مزا ہوتا ہے
ہائے کیوں ہجر کے الم میں پڑے مفت بیٹھے بٹھائے غم میں پڑے
اس کے جانے سے صبر دل سے گیا ہوش بھی ورطۂ عدم میں پڑے
سبب کوئی خداوند بنادے کسی صورت سے وہ صورت دکھادے
کرم فرما کے آ او میرے جانی بہت روئے ہیں اب ہم کو ہنسا دے
کبھی نکلے گا آخر تنگ ہوکر دلا اک بار شور و غل مچادے
نہ سر کی ہوش ہے تم کو نہ پاکی سمجھ ایسی ہوئی قدرت خدا کی
مرے بہت اب سے پردہ میں رہو تم کہ کافر ہوگئی خلقت خدا کی
نہیں منظور تھی گر تم کو الفت تو یہ مجھ کو بھی جتلایا تو ہوتا
مری دل سوزیوں سے بے خبر ہو مرا کچھ بھید بھی پایا تو ہوتا
دل اپنا اس کو دوں یا ہوش یا جاں کوئی اک حکم فرمایا تو ہوتا
(سیرت المہدی حصہ اوّل ص۲۳۲، روایت نمبر۲۲۸)
قومی زبان اور نبوت
’’
وَمَا اَرْسَلْنٰا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَہُمْ (ابراہیم: ۴)
‘‘ {نہیں بھیجا ہم نے کسی رسول کو مگر اس کی قومی زبان میں تاکہ وہ لوگوں پر وحی کو ظاہر کرے۔}
اس آیت میں رسول کے لئے دو قیدیں مذکور ہوئی ہیں۔
۱… رسول پر ہمیشہ وحی ربانی اس کی قومی زبان میں نازل ہوئی ہے۔ چنانچہ رسول اﷲ ﷺ پر اگرچہ وہ تمام جہان کی طرف مبعوث کئے گئے۔ وحی قومی زبان عربی ہی میں نازل ہوتی رہی۔
۲… نازل شدہ وحی کا سمجھنا رسول کے لئے لازمی ہے تاکہ وہ دوسروں کو اس کی حقیقت سے آگاہ کر سکے۔ خواہ وہ امت کو اس سے مطلع کرے یا نہ کرے۔ مگراس کا واقف اور باخبر ہونا ضروری ہے۔ چنانچہ اس اصول کو مرزاقادیانی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ: ’’یہ بالکل غیر معقول اور بیہودہ امر ہے کہ انسان کی اصلی زبان تو کوئی اور ہو اور الہام اس کو کسی اور زبان میں ہو جس کو وہ سمجھ بھی نہیں سکتا۔ کیونکہ اس میں تکلیف مالایطاق ہے اورایسے الہام سے کیا فائدہ ہوا۔ جو انسانی سمجھ سے بالاتر ہے۔ ‘‘ (چشمہ معرفت حصہ۲ ص۲۰۹، خزائن ج۲۳ ص۲۱۸)
چنانچہ مرزاقادیانی خود تحریر کرتے ہیں کہ: ’’وہ زیادہ تر تعجب کی یہ بات ہے کہ بعض الہامات مجھے ان زبانوں میں بھی ہوتے ہیں۔ جن سے مجھے کچھ بھی واقفیت نہیں۔ جیسے انگریزی، سنسکرت یا عبرانی وغیرہ۔‘‘
(نزول المسیح ص۵۷، خزائن ج۱۸ ص۴۳۵)
ایسے الہامات سے چند الہام بطور نمونہ درج کئے جاتے ہیں ملاحظہ ہو۔
’’ہوشعنا نعساً یہ دونوں فقرے شائد عبرانی ہیں اور ان کے معنے ابھی تک اس عاجز پر نہیں کھلے۔‘‘
(براہین احمدیہ ص۵۵۶، خزائن ج۱ ص۶۶۴)
۲… ’’آئی، لو، یو۔ آی شیل، گو، یو۔ لارج پارٹی آف اسلام۔ چونکہ اس وقت یعنی آج کے دن اس جگہ کوئی انگریزی خواں نہیں اور نہ اس کے پورے پورے معنے کھلے ہیں۔‘‘ (حاشیہ براہین احمدیہ ص۵۵۶، خزائن ج۱ ص۶۶۴)
۳… ’’پریشن عمر براطوس یا پلاطوس نوٹ آخری لفظ براطوس ہے۔ یا پلاطوس ہے۔ بباعث سرعت الہام دریافت نہیں ہوا اور نمبر۲ میں عمر عربی لفظ ہے۔ اس جگہ براطوس اور پریشن کے معنے دریافت کرنے ہیں کہ کیا ہیں اور کس زبان کے لفظ ہیں۔‘‘ (مکتوبات احمدیہ حصہ۱ ص۶۸،ا لبشریٰ ص۵۱، تذکرہ ص۱۱۵ طبع سوم)
۴… ’’غثم،غثم، غثم‘‘ (البشریٰ حصہ۲ ص۵۰، تذکرہ ص۳۱۹ طبع سوم)
۵… ’’ربنا عاج ہمارا رب عاجی ہے۔ عاجی کے معنی ابھی تک معلوم نہیں ہوئے۔ ‘‘
(البشریٰ ج۱ ص۴۳، براہین احمدیہ ص۵۵۵، ۵۵۶، خزائن ج۱ ص۶۶۲،۶۶۳)
اس قسم کے لغو اور لایعنی اور غیر زبان کے الہامات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ملہم وہ نہیں ہے جو رسول اﷲ ﷺکے زمانہ تک انبیاء علیہم السلام پر وحی نازل کرتا رہا ہے۔
نبوت اور معجزہ
’’
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ رُسُلاً اِلٰی قَوْمِہِمْ فَجَاؤٗہُمْ بِالْبَیِّنَاتِ (الروم:۴۷)
‘‘ {یعنی ہم نے آپ سے پہلے رسول اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجے۔ جو ان کے پاس اپنی صداقت کے روشن دلائل لے کر آئے۔}
’’
فان مدعی النبوۃ لا بدلہ من حجۃ (بیضاوی ج۲ ص۱۰۵)
‘‘
’’تمامی انیباء ورسل وصلوٰت اﷲ علیہم معجزات است وہیچ پیغمبرے بے معجزہ نیست (مدارج ج۱ ص۱۹۹)‘‘
اس لئے دنیا میں کبھی کوئی نبی بغیر معجزہ کے نہیں آیا اور ہمیشہ ان کا معجزہ کوئی خارق عادت ایسی شئے ہوتی رہی۔ جس کے کرنے میں انسانی طاقت کو مطلقاً دخل نہیں ہوا۔ بلکہ خدا کی طرف سے بطور نشان صداقت لوگوں کے مقابلہ میں ان کے ہاتھوں سے ظاہر کرادیاگیا۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ دنیا کے پیش آنے والے واقعات اور حوادث کو کسی نبی نے اپنی سچائی کے لئے پیش کیا ہو۔ یہ ایک جداگانہ بات ہے کہ قوموں کو ان کی نافرمانی کی سزا میں طاعون وغیرہ کی خبر دی گئی ہو جو انہی کے لئے اپنے وقت میں نکلی ہو۔ کیونکہ ایسی خبریں پیش گوئیاں کہلاتی ہیں۔ جن کا پورا ہونا ضروری تھا۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ دنیا کے کسی حصہ میں زلزلہ آیا ہو۔ وباء پھیلی ہوئی ہو۔ قحط پڑا ہو اور کسی نبی نے اس کو اپنی قوم کے مقابلہ میں اپنی صداقت کا نشان بتایا ہو۔ مگر نرالے نبی کے معجزے بھی نرالے ہی ہیں۔ کہیں زلزلہ آئے۔ کسی جگہ طاعون وغیرہ وبائی امراض کا زور ہو۔ وباء دنیا کے کسی خطہ میں باہمی تنگی ہو۔ پس وہ مرزاقادیانی کی صداقت کا نشان بن گیا۔ زلزلہ کا نگڑے پہاڑوں میں آئے جہاں ہندوئوں کی اکثریت ہے جن بے چاروں کو مرزاقادیانی کے دعاوی کی بھی خبر نہیں ہے اور مسلمان جو مرزاکی تکذیب کرنے والے تھے۔ ان کا بال بھی بیکا نہ ہو۔ کرے ڈاڑھی والا اور پکڑا جائے مونچھوںوالا۔ مگر اس سے سچائی مرزاقادیانی کی ظاہر ہو جائے۔ کیونکہ آپ نے زلزلہ کے آنے کی خبر دی تھی۔ باوجود یہ کہ اس قسم کی پیش گوئیوں کے نشان صداقت ہونے سے خود ہی انکاری بھی ہے ملاحظہ ہو: ’’یہ سب خبریں ایسی ہیں کہ جن کے ساتھ اقتدار اور قدرت الوہیت شامل ہے۔ یہ نہیں کہ نجومیوں کی طرح صرف ایسی چیزیں ہوں کہ زلزلہ آویں گے۔ قحط پڑیں گے۔ قوم قوم پر چڑھائی کرے گی۔ وباء پھیلے گی۔ مری پڑے گی۔‘‘ (براہین احمدیہ ص۲۴۵، خزائن ج۱ ص۲۷۱)
کوہاٹ میں ۱۹۳۲ء میں ایک زبردست زلزلہ آیا تھا۔ جس میں صدہا انسانوں کی ہلاکت اور مکانات کی تباہی واقع ہوئی۔ اگر مرزاقادیانی اس وقت زندہ ہوتے تو بڑے بڑے پوسٹروں اور اشتہاروں کے ذریعہ اپنی صداقت کے نشان ظاہر ہونے کا اعلان کرتے۔ دوسری پیشگوئیاں وہ تھیں۔ جو حالات حاضرہ کے مطالعہ سے قیاس اور تخمینہ اور انسانی اٹکلوں کے طور پر ذہن نے ان کی طرف رسائی کی تھی۔ مثلاً اخبارات میں حجاز ریلوے کا چرچا اور تیاری کی خبریں دیکھ کر جھٹ سے یہ پیش گوئی کردی کہ مسیح کے زمانہ میں جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ ’’لیترکن القلاص‘‘ اونٹوں کی سواری جاتی رہے گی۔ میرے زمانہ میں بھی مکہ ومدینہ کے درمیان ریلوے لائن تیار ہوگئی ہے اور اب اونٹوں پر آمدورفت بند ہو جائے گی۔ چنانچہ ’’تحفہ گولڑویہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ: ’’اونٹوں کے چھوڑے جانے اور نئی سواری کا استعمال اگرچہ بلاد اسلامیہ میں قریباً سو برس سے عمل میں آرہا ہے۔ لیکن یہ پیشگوئی اب خاص طور پرمکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی ریل تیار ہونے سے پوری ہو جائے گی… اور تعجب نہیں کہ تین سال کے اندر اندر یہ ٹکڑا مکہ اور مدینہ کی راہ کا تیار ہوجائے… اور یہ پیش گوئی ایک چمک لئے بجلی کی طرح دنیا کو اپنا نظارہ دکھائے گی اور تمام دنیا اس کو بچشم خود دیکھے گی اور سچ تو یہ ہے کہ مکہ اور مدینہ کی ریل تیار ہوجانا گویا تمام اسلامی دنیا میں ریل کا پھرجانا ہے۔ ‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۶۵، خزائن ج۱۷ ص۱۹۵،۱۹۶)
شاید اگر مرزاقادیانی اپنی پیش گوئی کی ٹانگ نہ اڑاتے تو حجاز ریلوے مکمل ہوجاتی اور سفر حجاز کی تکلیفیں جاتی رہتیں۔ مگر ان کا درمیان میں دخل دینا تھا کہ ریل ایسی جاتی رہی کہ مدینہ اور دمشق کی لائن بھی اکھڑ گئی اور ریلوے سلسلہ بالکل بند ہوگیا۔ جنگ عظیم میں نتیجہ کے متعلق مختلف خیالات تھے۔ لیکن برطانیہ کے حق میں لوگوں کا قیاس صحیح نکلا۔ کیا وہ قیاس لگانے والے سب کے سب ملہم تھے؟
تیسری قسم پیش گوئیوں کی وہ تمام الہامات اور خوابیں ہیں۔ جن کی نسبت مرزاقادیانی کا یہ خیال ہے کہ سچی خوابیں، اور صحیح الہام، کنجریوں، بدکاروں اور کافروں تک کو ہو جایا کرتے ہیں۔ سچے اور جھوٹے لوگوں میں اگر کوئی فرق ہے تو وہ قلت اور کثرت کا ہے۔ یعنی جھوٹوں کی خوابیں شاذونادر سچی ہوتی ہیںاور سچوں کی اکثر سچی اور بعض جھوٹی ہوجایا کرتی ہیں۔ چنانچہ ’تحفہ گولڑویہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ: ’’میں اس سے انکار نہیں کرسکتا کہ سچی خوابیں اکثر لوگوں کو آجاتی ہیں اور کشف بھی ہو جاتے ہیں۔ مگر بعض اوقات بعض فاسق اور فاجر اور تارک صلوٰۃ بلکہ بدکار اور حرام کار بلکہ کافر اور اﷲ اور اس کے رسول سے سخت بغض رکھنے والے اور سخت توہین کرنے والے اور سچ مچ اخوان الشیاطین شاذونادر طور پر سچی خوابیں دیکھ لیتے ہیں۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۴۷،۴۸، خزائن ج۱۷ ص۱۶۷،۱۶۸)
’’اس راقم کو اس بات کا تجربہ ہے کہ اکثر پلید طبع اور سخت گندے اور ناپاک اور بے شرم اورخدا سے نہ ڈرنے والے اور حرام کھانے والے فاسق بھی سچی خوابیں دیکھ لیتے ہیں۔ ‘‘ (حاشیہ تحفہ گولڑویہ ص۴۸، خزائن ج۱۷ ص۱۶۸)
’’متوجہ ہوکر سننا چاہئے کہ خواص کے علوم اور کشوف اور عوام کے خوابوں اور کشفی نظاروں میں فرق یہ ہے کہ خواص کا دل تو مظہر تجلیات الٰہیہ ہو جاتا ہے اور جیسا کہ آفتاب روشنی سے بھرا ہوا ہے۔ وہ علوم اور اسرار غیبیہ سے بھر جاتے ہیں۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۴۸، خزائن ج۱۷ ص۱۶۸)
’’تمام مدار کثرت علوم غیب اور استجابت دعا اور باہمی محبت ووفاء اور قبولیت اور محبوبیت پر ہے۔ ورنہ کثرت وقلت کا فرق درمیان سے اٹھا کر ایک کرم شب تاب کو کہہ سکتے ہیں کہ وہ بھی سورج کی برابر ہے۔ کیونکہ روشنی اس میں بھی ہے۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۴۸، خزائن ج۱۷ ص۱۶۸)
مرزاقادیانی نے قلت اور کثرت کا فرق اس لئے رکھا ہے تاکہ ان کی جھوٹی پیش گوئیوں پر پردہ پڑ جائے۔ ورنہ نبی کی ہر ایک پیش گوئی سچی اور ہرخواب وحی الٰہی کا حکم رکھتا ہے۔
۴… ایک قسم پیش گوئی کی ایسی ہے کہ جو مخالفین کے مقابلہ میں بطور نشان صداقت بیان کی گئی اور اس کا تعلق کسی خاص دشمن یا مخالف کے ساتھ ہے۔ اس قسم کی پیش گوئیاں علیہم السلام میں پائی جاتی تھیں۔جو اپنے اپنے وقت پر پوری ہوتی رہیں۔ لیکن مرزاقادیانی کے ایسے تمام الہامات اور پیش گوئیاں غلط اور جھوٹ نکلی ہیں۔
دعویٰ خدائی
’’
وَمَنْ یَّقُلْ مِنْہُمْ اِنِّی اِلٰہٌ مِّنْ دُوْنِہٖ فَذَالِکَ نَجْزِیْہٖ جَہَنَّمَ۰ کَذٰلِکَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ (الانبیاء:۲۹)
‘‘ {جو شخص ان میں سے یہ کہے کہ میں خدا ہوں تو ہم ایسے آدمی کو جہنم کی سزادیں گے اور ظالمین کو ہم ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں۔} اس آیت سے معلوم ہوا کہ ’’
اِنِّی اِلٰ
ہٗ‘‘ اپنے آپ کو عین خدا کہنے والا ظالم اور جہنمی ہے۔ اسی لئے کسی نبی نے آج تک بعینہ خدایا اس کی مثل ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ چنانچہ عیسیٰ علیہ السلام بھی قیامت کے روز ’’
ئَ اَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَاُمِّی اِلٰہیْنِ (المائدہ:۱۱۶)
‘‘ کے جواب میں یہی فرمائیں گے۔ ’’
قَالَ سُبْحَانَکَ مَا یَکُوْنُ لِیْ اَنْ اَقُوْلَ مَالَیْسَ لِیْ بِحَقٍّ (المائدہ:۱۱۶)
‘‘ {اے اﷲ تو شرک کی آمیزش سے پاک ہے۔ میں ایسی بات کب کہہ سکتا ہوں ۔ جو مجھے کہنی زیبا نہیں ہے۔} جبکہ مرزا قادیانی نے کہا کہ: ’’میں نے ایک کشف میں دیکھا کہ میںخود خدا ہوں اور یقین کیا کہ وہی ہوں۔‘‘ (کتاب البریہ ص۸۵، خزائن ج۱۳ ص۱۰۳)
’’ظہورک ظہوری‘‘تیرا ظہور میرا ظہور ہے۔‘‘ (البشریٰ ج۲ ص۱۲۶، تذکرہ ص۷۰۴، طبع سوم)
’’رأیتنی فی المنام عین اﷲ وتیقنت اننی ہو!’’میں نے خواب میں دیکھا کہ میں بعینہ اﷲ ہوں۔ میںنے یقین کر لیا کہ میں وہی ہوں۔‘‘ (آئینہ کمالات ص۵۶۴، خزائن ج۵ ص۵۶۴)
س… یہ ایک خواب کی حالت ہے۔ جو شرعاً حجت نہیں ہے۔
ج… مرزاقادیانی نبوت کے دعویدار ہیں اور نبی کی خواب بھی وحی ہے۔ (دیکھو ترمذی) اور یہی وجہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام خواب ہی کی وجہ سے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کے ذبح کرنے پر تیار ہوگئے تھے۔ جس پر اﷲتعالیٰ نے ’’یَا اِبْرَاہِیْم قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَاء (الصفت: ۱۰۳،۱۰۴)‘‘ ارشاد فرمایا کہ اسی طرح رسول اﷲ ﷺ کی خواب متعلقہ داخلۂ مکہ کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ: ’’
لَقَدْ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوْلَہٗ الرُّؤْیَائَ بِالْحَقِّ (فتح:۲۷)
‘‘ پھر مرزاقادیانی تو’’عین اﷲ‘‘ ہونے پر اپنا یقین ظاہر کر رہے ہیں۔ جس کے بعد شک ظاہر کرنے والا مرزاکا کافر سمجھا جائے گا۔ نیز یہ عینیت کا دعویٰ خواب ہی تک محدود نہیں رہا۔ بلکہ کشف سے بھی ثابت ہے۔ چونکہ مرزاقادیانی اپنے ’’عین اﷲ‘‘ ہونے پر یقین لے آئے تھے۔ اس لئے ان کو خدائی صفات کے ساتھ متصف ہونے کے بھی الہامات ہوئے۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں کہ: ’’واعطیت صفۃ الافناء والاحیاء‘‘ مجھ کو فانی کرنے اور زندہ کرنے کی صفت دی گئی۔
(خطبہ الہامیہ ص۵۵، ۵۶، خزائن ج۱۶ ص۵۵،۵۶)
۲… ’’
اِنَّمَا اَمْرُکَ اِذَا اَرَدْتَّ شَیْئًا اَنْ تَقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنَ
‘‘ (البشریٰ ج۲ ص۹۴، حقیقت الوحی ص۱۰۵، خزائن ج۲۲ ص۱۰۸، براہین احمدیہ حصہ۵ ص۹۵، خزائن ج۲۱ ص۱۲۴)میں اس کا مصداق مرزا نے اپنے آپ کو بتایا ہے کہ: ’’اے مرزاحقیقت میں تیرا ہی حکم ہے۔ جب تو کسی شئے کا ارادہ کرتا ہے تو ’’کن‘‘ ہو جا کہہ دیتا ہے۔ پس وہ ہو جاتی ہے۔‘‘ اس قسم کے کشف والہامات کا اولیاء اﷲ پر قیاس کرتے ہوئے سکر اور بے ہوشی کی حالت میں محمول کرنا صحیح نہیں۔ کبھی کسی نبی نے بے خودی اور سکر میں منصور کی طرح اناالحق نہیں کہا۔ صاحب یواقیت لکھتے ہیں کہ: ’’
لانہ لایکون صاحب التقدم والا مامۃ الاصاحباً غیر سکر ان (یواقیت ج۲ ص۷۳)
‘‘ مذہب کے پیشوا اور رہبر امت پر کبھی بے ہوشی اور سکر کی حالت طاری نہیں ہوتی۔
مرزاقادیانی ولایت سے بڑھ کر مہدیت، امامت اور نبوت کے دعوے دار ہیں۔ اس لئے ان پر بے ہوشی کبھی وارد نہیں ہوسکتی۔
مطالبہ: کیا کسی نے ہوشیاری یا بے ہوشی میں ایسے کلمات زبان سے نکالے ہیں؟۔ اگر ہے تو پیش کر کے انعام حاصل کرو۔
مردمیت اور نبوت
’’
وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالاً نُوْحِیْ اِلَیْہِمْ مِنْ اَہْلِ الْقُرٰی (یوسف:۱۰۹)
‘‘ {ہم نے آپ سے پہلے تمام رسول مردوں میں سے بھیجے کہ جن پر وحی کی جاتی تھی۔ یعنی گائوں کارہنے والا کبھی رسول یا نبی بناکر نہیں بھیجا گیا۔} ’’جلالین‘‘ میں اہل القریٰ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: ’’
الامصار لا نہم اعلم واعلم بخلاف اہل البوادی لجفائہم وجہلہم (تفسیر جلالین ص۱۹۹)
‘‘ اسی طرح قرآن کریم میں دوسری جگہ ارشاد ہے کہ ’’
حَتّٰی یَبْعَثَ فِیْ اُمِّہَا رَسُوْلاً یَّتْلُوْا عَلَیْہِمْ آیٰاتِنَا (القصص:۵۹)
‘‘ علامہ ابو السعود اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ: ’’
ای فی أصلہا وقصبتہا التی ہی اعمالہا وتوا بعہا لکون اہلہا افطن وانبل (ابوالسعود ج۷ ص۲۰)
‘‘ مرزاقادیانی ضلع گورداسپور کے ایک گائوں قادیان کے رہنے والے ہیں۔ جو تحصیل نہ ہونے کی وجہ سے قصبہ کہلانے کے لائق بھی نہیں ہے۔ اس زمانہ میں بمشکل دو ہزار کی آبادی ہوگی۔ اس کے علاوہ مرزاقادیانی کو بھی اس کے گائوں ہونے کا اقرار ہے: ’’اوّل لڑکی اور بعد میں اسی حمل سے میرا پیدا ہونا تمام گائوں کے بزرگ سال لوگوں کو معلوم ہے۔ ‘‘ (تریاق القلوب ص۱۶۰، خزائن ج۱۵ ص۴۸۵)
س… ’’
وَجَآئَ بِکُمْ مِّنَ الْبَدْوِ (یوسف :۱۰۰)
‘‘ {اﷲ تم کو جنگل سے لایا۔}
معلوم ہوا کہ یعقوب علیہ السلام بادیہ اور جنگل میں رہتے تھے۔
ج… حضرت یعقوب علیہ السلام کنعان کے رہنے والے تھے۔ اسی لئے ان کو پیر کنعان بھی کہتے ہیں۔ کنعان مصر جتنا بڑا شہر تو نہیں تھا۔ لیکن ایک اچھے قصبہ کی حیثیت میں ضرور تھا اور وہ اتنا بڑا ضرور تھا کہ وہاں کے باشندے بصورت قافلہ دوسرے شہروں میں تجارت کی غرض سے جاتے تھے۔ قرآن میں ہے کہ ’’
وَاسْئَلِ الْقَرْیَۃَ الَّتِیْ کُنَّا فِیْہَا وَالْعِیْرَ الَّتِیْ اَقْبَلْنَا فِیْہَا (یوسف:۸۲)
‘‘ قافلہ کے لوگ یعقوب علیہ السلام کے پڑوسی تھے۔ ’’وکانوا قوما من کنعان من جیران یعقوب علیہ السلام (ابوالسعود ج۴ ص۳۰۱)‘‘ آیت میں ’’بدو‘‘ کو اس لئے ذکر کیا ہے کہ یعقوب علیہ السلام مال مویشی کی وجہ سے کنعانی شہر کو چھوڑ کر جنگل یا گائوں میں سکونت پذیر ہوگئے تھے۔’’قال ابن عباسرضی اللہ عنہ کان یعقوب قد تحول الی بدوو سکنہا ومنہا قدم علی یوسف ولد بہا مسجد تحت جبلہا (تفسیر کبیر ج۹ ص۲۱۵)‘‘
اس کے علاوہ خود مرزاقادیانی نے کنعان کا شہر ہونا تسلیم کیا ہے اور ’’اسی طرح حضرت موسیٰ کلیم اﷲ علیہ السلام کو جو کنعان کی بشارتیں دی گئی تھیں۔ بلکہ صاف صاف حضرت موصوف کو وعدہ دیاگیا تھا کہ تو اپنی قوم کو کنعان میں لے جائے گا اور کنعان کی سرسبز زمین کا انہیں مالک کردوں گا۔‘‘ (ازالہ ص۴۱۶،۴۱۷، خزائن ج۳ ص۳۱۷)
تدریجی دعویٰ نبوت
’’
قُلْ یَا اَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیْ رُسُوْلُ اللّٰہ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا (اعراف:۱۵۸)
‘‘ تمام انبیاء علیہم السلام نے نبوت یا رسالت کا ایک ہی دعویٰ کیا ہے۔ مجددیت وغیرہ سے ترقی کر کے اوپر نہیں چڑھے۔ مگر مرزاقادیانی کے دعاوی کی بڑی لمبی فہرست ہے اور مجددیت سے زینہ بزینہ اوپر چڑھے ہیں۔ (دعاوی کی تفصیل پہلے گذر چکی ہے)
علامات نفاق اور مرزا قادیانی
’’
عن عبداﷲ بن عمرورضی اللہ عنہ قال قال رسول اﷲ ﷺ اَرْبَعُ مَنْ کُنَّ فِیْہٖ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا وَمَنْ کَانَتْ فِیْہٖ خَصْلَۃٌ مِّنْہُنَّ کَانَتْ فِیْہٖ خَصْلَۃٌ مِّنَ الْنِّفَاقِ حَتَّی یَدَعَہَا اِذَا أَوْتُمِنَ خَانَ وَاِذَا حَدَثَ کَذَبَ وَاِذَا عَاہَدَ غَدَرَ وَاِذَ اخَاصَمَ فَجَرَ (متفق علیہ، مشکوٰۃ باب الکبائر وعلامات النفاق ص۱۷)
‘‘
مرزاقادیانی میںیہ چاروں باتیں موجود ہیں۔ خیانت جھوٹ وعدہ خلافی کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ خصومت اور جھگڑے کے وقت گالی گلوچ پر اترآنا اب ملاحظہ فرمالیں:
۱… ’’یہ جو ہم نے کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے زمانہ کے بہت سے لوگوں کی نسبت اچھے تھے۔ یہ ہمارا کہنا محض نیک ظنی کے طور پر ہے… (ورنہ) مسیح کی راست بازی اپنے زمانہ میں دوسرے راست بازوں سے بڑھ کر ثابت نہیں ہوتی۔ بلکہ یحییٰ نبی کو اس پر ایک فضیلت ہے۔ کیونکہ وہ شراب نہیں پیتا تھا اور کبھی نہیں سناگیا کہ کسی فاحشہ عورت نے آکر اپنی کمائی کے مال سے اس کے سر پر عطر ملا تھا یا ہاتھوں اور اپنے سر کے بالوں سے اس کے بدن کو چھوأ تھا یا کوئی بے تعلق جوان عورت اس کی خدمت کرتی تھی۔ اسی وجہ سے خدا نے قرآن میں یحییٰ کا نام ’’حصور‘‘ رکھا۔ مگر مسیح کا نام یہ نہ رکھا۔ کیونکہ ایسے قصے اس نام کے رکھنے سے مانع تھے۔‘‘ (دافع البلاء ص۳،۴، خزائن ج۱۸ ص۲۱۹،۲۲۰)
۲… ’’یورپ کے لوگوں کو جس قدر شراب نے نقصان پہنچایا ہے۔ اس کا سبب تو یہ تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام شراب پیا کرتے تھے۔‘‘ (کشتی نوح ص۶۶ حاشیہ خزائن ج۱۹ص۷۱)
۳… ’’آپ کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے۔ تین دادیا ں اور نانیاں آپ کی زنا کار اور کسبی عورتیں تھیں۔ جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا۔ مگر شاید یہ بھی خدائی کے لئے ایک شرط ہوگی۔ آپ کا کنجریوں سے میلان اور صحبت بھی شاید اسی وجہ سے ہو کہ جدی مناسبت درمیان ہے۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۷، خزائن ج۱۱ ص۲۹۱ حاشیہ)
ہم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق مرزاقادیانی کی بدزبانی کے وہ حوالے نقل کئے ہیں۔ جن میں عیسیٰ علیہ السلام ، مسیح اور قرآن میں ان کو ’’حصور‘‘ نہ کہنا مصرحاً موجود ہے۔ تاکہ مرزائی جماعت یہ نہ کہہ سکے کہ مرزاقادیانی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں گستاخی نہیں کی۔ بلکہ اس یسوع کی توہین کی ہے۔ جس کو عیسائی خدا یا خدا کا بیٹا کہتے ہیں۔ اگرچہ ایسا کہنا بھی قرآنی تعلیم کے خلاف ہے۔ چنانچہ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے کہ: ’’
وَلَاتَسُبُّوْا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوْاللّٰہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ (انعام:۱۰۸)
‘‘
’’جن کو غیر مسلم اپنا بڑا کہتے اور ان کوپکارتے ہیں۔ تم ان کو برا نہ کہو ورنہ وہ ضد اور جہالت سے خداکو برا کہیں گے۔‘‘ اور ایسا ہی حدیث میں ہے۔
حرام زادہ ہونے کا ایک نیا طریقہ ملاحظہ ہو۔
۴… ’’
ویقبلنی ویصدق دعوتی الاذریۃ البغایا
!ان میری کتابوں کو ہر مسلمان محبت کی آنکھ سے دیکھتا ہے اور ان کے معارف سے فائدہ اٹھاتا ہے اور مجھے قبول کرتا ہے اور میری دعوت کی تصدیق کرتا ہے۔ مگر بدکار رنڈیوں (زناکاروں) کی اولاد۔ ‘‘ (آئینہ کمالات ص۵۴۷،۵۴۸، خزائن ج۵ ص۵۴۷،۵۴۸)
مولوی سعداﷲ لدھیانوی جو مرزا قادیانی کے مخالف تھے ان کو لکھتے ہیں کہ:
۵… ’’
اذیتنی خبثا فلست بصادق۰ ان لم تمت بالخزی یابن بغاء
‘‘ تو نے مجھے تکلیف دی ہے۔ اے زانیہ کے بیٹے اگر ذلت سے نہ مرا تو میں جھوٹا ہوں۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۱۵، خزائن ج۲۲ ص۴۴۶)
۶… ’’
ان العدی صا رواخنازیر الفلا۰ ونساء ہم من دونہن الاکلب
‘‘ ’’میرے مخالف جنگل کے سور ہیں اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ کر ہیں۔ یا ان کی عورتوں کے پیچھے کتے لگے ہوئے ہیں۔‘‘
(نجم الہدیٰ ص۱۰، خزائن ج۱۴ ص۵۳)
۷… ’’اے بدذات فرقہ مولویان۔‘‘ (انجام آتھم ص۲۱، خزائن ج۱۱ ص۲۱)
۸… ’’اے بدذات، خبیث، دشمن اﷲ رسول کے۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۵۰، خزائن ج۱۱ ص۳۳۴)
۹… ’’ہمارے دعوے پر آسمان نے گواہی دی۔ مگر اس زمانہ کے ظالم مولوی اس سے بھی منکر ہیں۔خاص کر رئیس الدجالین عبدالحق غزنوی اور اس کا تمام گروہ علیہم نعال لعن اﷲ الف الف مرہ‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۴۶، خزائن ج۱۱ ص۳۳۰)
۱۰… ’’مخالف مولویوں کا منہ کالا۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۵۸، خزائن ج۱۱ ص۳۴۲)
اس قسم کی سینکڑوں گالیاں ہیں۔ یہاں نمونتاً بیان کی گئیں ہیں۔ اس قسم کی بدزبانی اور دریدہ دہنی، خلاف تہذیب الفاظ استعمال کرنے کے متعلق ہمارا کچھ کہنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ اس کے لئے مرزاقادیانی کا فیصلہ ناظرین کی آگاہی کے لئے سامنے رکھا جاتا ہے کہ: ’’لعنت بازی صدیقوںکا کام نہیں۔ مومن لعّان نہیں ہوتا۔‘‘ (ازالہ ص۶۶۰، خزائن ج۳ ص۴۵۶)
’’تحریری شہادت دینا ہے کہ ایسے بدزبان لوگوں کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ خدا کی عزت اس کے پیاروں کے لئے آخر کوئی کام دیکھاتی ہے۔ بس اپنی زبان کی چھری سے کوئی اور بدتر چھری نہیں۔‘‘
(خاتمہ چشمہ معرفت ص۱۵، خزائن ج۲۳ ص۳۸۶،۳۸۷)
اور بقول خلیفہ قادیان مرزا محمود قادیانی: ’’بالکل صحیح بات ہے کہ جب انسان دلائل سے شکست کھاتا اور ہار جاتا ہے تو گالیاں دینی شروع کردیتا ہے اور جس قدر کوئی زیادہ گالیاں دیتا ہے۔ اسی قدر اپنی شکست کو ثابت کرتا ہے۔‘‘
(انوار خلافت ص۱۵)
نیز مرزاقادیانی معلم اخلاقیات کا خصائل حمیدہ کے ساتھ متصف ہونا ضروری کہتے ہیں۔ مگر خود عمل نہیں کرتے۔
’’اخلاقی معلم کا فرض ہے کہ پہلے آپ اخلاق کریمہ دکھلاوے۔‘‘ (چشمہ مسیحی ص۱۵، خزائن ج۲۰ ص۳۴۶)
قال یہ ہے اور حال وہ مصرع:
بہ بیں تفاوت رہ از کجاست تابہ کجا
مشکلے دارم زدانشمند مجلس باز پرس
توبہ فرمایاں چراخود توبہ کمترے میکنند
وراثت اور نبوت
’’
عن ابی بکررضی اللہ عنہ قال قال رسول اﷲ ﷺ لَانُوْرِثُ مَاتَرَکْنَا صَدَقَۃً (بخاری ج۲ ص۵۷۶ باب حدیث بنی النضیر)
‘‘ علیہم السلام نہ کسی کے مال ومتاع کے وارث ہوتے اور نہ کوئی آپ کے مال کا وارث ہوتا ہے۔ بلکہ ان کا ترکہ اﷲ کی راہ میں خرچ کردیا جاتا ہے۔ مگر مرزاقادیانی وارث بھی ہوتے ہیں اور اپنے مال میں وراثت کے حقوق بھی قائم کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو: ’’میںمشتہر ایسے مجیب کو بلاعذرے وحیلتے اپنی جائداد قیمتی دس ہزار روپیہ پر قبض ودخل دے دوں گا۔‘‘ (براہین احمدیہ ص۲۵،۲۶، خزائن ج۱ ص۲۸)
براہین کے اشتہار دینے کے وقت یہ جائیداد وہی تھی۔ جو ان کو اپنے والد غلام مرتضیٰ رئیس قادیان کے ترکہ میں پہنچی تھی۔ کیونکہ اس وقت تک فتوحات کا دروازہ نہیں کھلا تھا۔ وہ خطوط جو ’’محمدی بیگم‘‘ کے نکاح کے سلسلہ میں مرزاقادیانی نے مسماۃ کے والدین کو تحریض اور تخویف کے لکھے ہیں۔ اس میں اجرائے وراثت کاذکر اس طرح کیاگیا ہے۔
’’والدہ عزت بی بی کو معلوم ہو کہ مجھ کو خبر پہنچی ہے کہ چند روز تک مرزااحمد بیگ کی لڑکی کا نکاح ہونے والا ہے اور میں خدا کی قسم کھا چکا ہوں کہ اس نکاح سے سارے رشتے ناطے توڑدوں گا۔ کوئی تعلق نہ رہے گا۔ (صلہ رحمی کے خلاف ہے) اس لئے نصیحت کی راہ سے لکھتا ہوں کہ اپنے بھائی مرزااحمد بیگ کو سمجھا کر یہ ارادہ موقوف کراؤ اور جس طرح تم سمجھا سکتی ہو سمجھاؤ اور اگر ایسا نہیں ہوگا تو آج میں نے مولوی نورالدین اورفضل احمد کو خط لکھ دیا ہے کہ اگر تم اس ارادہ سے باز نہ آؤ تو فضل احمد عزت بی بی کے لئے طلاق نامہ ہم کو بھیج دے اور اگر فضل طلاق نامہ لکھنے میں عذر کرے تو اس کو عاق کیا جائے اور اپنی جائداد کا اس کو وارث نہ سمجھا جائے اور ایک پیسہ وراثت کا اس کو نہ ملے اور اگر فضل احمد نے نہ مانا تو میں فی الفور اس کو عاق کردوں گا اور پھر وہ میری وراثت سے ایک ذرہ نہیں پاسکتا …مجھے قسم ہے اﷲتعالیٰ کی کہ میں ایسا ہی کردوں گا اورخداتعالیٰ میرے ساتھ ہے۔ جس دن نکاح ہوگا اس دن عزت بی بی کا نکاح باقی نہ رہے گا۔ ‘‘
(راقم مرزاغلام احمد از لدھیانہ اقبال گنج ۴؍مئی ۱۸۹۱ء، کلمہ فضل رحمانی ص۱۲۸)
سوال:۱… کرمانی لکھتے ہیں کہ ’’
نحن معشر الانبیاء
‘‘ کی حدیث غیر معتبر ہے؟
سوال:۲… عدم توریث رسول اﷲ ﷺ کا خاصہ ہے۔ چنانچہ بخاری میں اس حدیث کو ذکر کرتے ہوئے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ کا قول ’’
یُرِیْدُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ نَفْسَہٗ
‘‘ نقل کیاگیا ہے۔ جس سے آپ ﷺ کی خصوصیت کا پتہ چلتا ہے اس لئے قسطلانی نے اس قول کی شرح کرتے ہوئے یہ لکھا ہے۔ ’’
عن الحسن رفعہ مرسلارحم اﷲ اخی زکریا وماکان علیہ من یرث مالہ فیکون ذالک مماخصہ اﷲ بہ ویؤید مقول عمر یرید نفسہ ای یرید اختصاصہ بذالک
‘‘
سوال:۳… ’’
وَرِثَ سُلَیْمَانُ دَاوٗدَ
‘‘ میں وراثت مال کی مراد ہے۔ کیونکہ نبوت میں وراثت جاری نہیں ہواکرتی۔ ایسا ہی ’’تفسیر ابن جریر اور تفسیر نیشاپوری‘‘ میں درج ہے۔
جواب:۱… کرمانی کے نزدیک تمام حدیثیں غیر معتبر نہیں ہے۔ محض لفظ نحن غیر معتبر ہے۔ جیسا کہ علامہ ابن حجر تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’
وأما اشتہر فی کتب اہل الاصول وغیرہم بلفظ نحن معاشر الانبیاء لانورث فقد أنکرہ جماعۃ من الأئمۃ وہو کذلک بالنسبۃ لخصوص لفظ نحن لکن اخرجہ النسائی من طریق ابن عیینہ عن ابے الزناد بلفظ انا معاشر الانبیاء لا نورث
‘‘ (فتح الباری ج۱۲ ص۶)
اور دار قطنی نے علل میں بروایت ام ہانیt عن فاطمہt ابوبکررضی اللہ عنہ سے اس طرح روایت کی ہے کہ: ’’
اَلْاَنْبِیَآئُ لَا یُوْرَثُوْنَ (قسطلانی ج۹ ص۳۴۱)
‘‘
اور نسائی میں ’’
اَنَا مَعْشَرُ الْاَنْبِیَآئَ لَا نُوْرِثُ
‘‘ آیا ہے۔ ’’وفی حدیث الزبیر عند النسائے انا معشر الانبیاء لا نورث (قسطلانی ج۵ ص۱۵۴)‘‘ ان دونوں صیغوں کے ساتھ اس حدیث کو تسلیم کرنے سے کسی نے انکار نہیں کیا۔ پھر اسی مضمون کی یہ صحیح حدیث بھی موجود ہے۔
’’
اِنَّ الْعُلَمَآئَ وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَآئَ، اِنَّ الْاَنْبِیَآئَ لَمْ یُوَرِّثُوْادِیْنَارًا وَلَادِرْ ہَمًا اِنَّمَا وَرَّثُوْا الْعِلْمَ فَمَنْ اَخَذَہٗ اَخَذَبِحَظٍّ وَافِرٍ (ابن ماجہ ص۲۰ باب فضل العلماء)
‘‘
جواب:۲… ’’یرید رسول نفسہ‘‘ کا یہ مطلب ہے کہ اس حکایت کرنے سے محض انبیاء سابقینعلیہ السلام کے حالات کو بیان کرنا مقصود نہیں تھا۔ بلکہ اس واقعہ کو ذکر کر کے یہ ظاہر کرنا تھا کہ جملہ علیہم السلام کی طرح میرے ترکہ میں بھی وراثت جاری نہ کی جائے۔ چنانچہ قسطلانی اس خصوصیت کی نفی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ’’
یرید رسول اﷲ نفسہ وکذاغیرہ من الانبیاء بدلیل قولہ فی الروایۃ الاخری انا معاشر الانبیاء فلیس خاصابہ علیہ السلام
‘‘
(مطبوعہ نو الکشور ج۵ ص۱۵۷)
’’
کذانفیا بقولہ فی الحدیث الآخر انا معاشر الانبیاء لانورث فلیس ذالک من الخصائص
‘‘ (نو الکشور ج۹ ص۳۴۲)
جس طرح بخاری کی حدیث ’’
لَعَنَ اللّٰہُ الْیَہُوْدَ وَالنَّصَارٰی اِتَّخَذُوْا قُبُوْرَ اَنْبِیَآئِ ہِمْ مَسَاجِدًا یحذر مَاصَنَعُوْا
‘‘ (بخاری ج۱ ص۲ ۶، مشکوٰۃ ص۶۹، باب المساجد)
اور دوسری روایت ’’
عَنْ عَائِشَۃt قالت قال رسول اﷲ ﷺ لَعَنَ اللّٰہُ الْیَہُوْدَ اِتَّخَذُوْا قُبُوْرَ اَنْبِیَآئِہِمْ مَسَاجِدَ قَالَتْt فَلَوْلَاذَالِکَ لَابَرَزَ قَبْرَہٗ اِنَّہٗ خَشِیَ اَنْ یَّتَّخِذُوْامَسْجِدًا (مسلم ج۱ص۲۰۱ باب النھی عن بناء المسجد علی القبور)
‘‘میں ’’یحذر ماصنعوا اور انہ خشی ان یتخذ مسجدا‘‘ سے آنحضرت ﷺ کی خصوصیت ظاہرنہیں ہوتی۔ اسی طرح ’’یرید رسول اﷲ‘‘ سے حضور ﷺ کی خصوصیت سمجھنا درست نہیں ہے۔
ب… عدم توریث بلحاظ امت کے آپ ﷺ کا خاصہ ہے اور باعتبار نبیوں کے خاصہ نہیں ہے۔ یعنی آپ ﷺ آیت میراث کے عموم میں داخل نہیں ہیں۔ یہ حکم امت ہی کے واسطے ہے۔ آپ ﷺ کے واسطے نہیں ہے نہ یہ کہ دیگر علیہم السلام کے مال میں وراثت جاری ہوتی تھی۔ مگر رسول اﷲ ﷺ میں نہیں ہوتی: ’’
فلا معارض من القرآن لقول نبینا ﷺ لانورث صدقۃ فیکون ذالک من خصائصہ التی اکرم بہا بل قول عمررضی اللہ عنہ یرید نفسہ یوئید اختصاصہ بذالک (فتح الباری ج۱۲ص۶)
‘‘ یہی مطلب علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ہے۔
ج… حضرت عمررضی اللہ عنہ کے قول کو آنحضرت ﷺ کے متعلق خصوصیت پر اتارنا ضعیف اور مرجوح قول ہے۔ جیسا کہ قسطلانی کے صیغہ تمریض (قیل) سے ظاہر ہورہا ہے ملاحظہ ہو۔
’’
وقیل ان عمررضی اللہ عنہ یرید نفسہ اشاربہ الیٰ ان النون فی قولہ لانورث المتکلم خاصۃ لا للجمیع وحکی ابن عبدالبر للعلماء فی ذالک قولین اوان الاکثر علی ان الانبیاء لا یورثون (قسطلانی ج۹ ص۳۴۳)
‘‘
پھر بھی راجح اور قوی رائے یہی رہی کہ علیہم السلام میں وراثت جاری نہیں ہوتی۔
جواب:۳… (الف)وراثت سے علم نبوت کی وراثت مراد ہے۔ مالی وراثت مراد نہیں ہے۔’’
والحکمۃ۱؎ فی ان لا یورثو لئلا یظن انہم جمعوا المال لوارثہم واما قولہ تعالیٰ وورث سلیمان داؤد فحملوہ علی العلم والحکمۃ وکذاقول زکریا فہب لی من لدنک ولیا یرثنی (قسطلانی ج۹ ص۳۴۳، ومثلہ فی فتح الباری ج۱۲ ص۹)
‘‘
------------------------------
۱؎ انبیاء میں وراثت اس لئے جاری نہیں کی گئی تاکہ کوئی شخص یہ بدگمانی نہ کرے کہ انہوں نے اپنے وارثوں کے لئے مال جمع کیا ہے۔
’’
واما قول زکریا یرثنی ویرث من اٰل یعقوب وقولہ وورث سلیمان داؤد فالمراد میراث العلم والنبوۃ والحکمۃ (قسطلانی ج۵ص۱۵۷)
‘‘ مفسر نیشا پوری کی وراثۃ فی النبوۃ کی نفی کرنے سے یہ غرض ہے کہ نبوۃ موہبۃ عظمیٰ ہے۔ جو نبی کی اولاد ہونے کی وجہ سے نہیں ملا کرتی۔ خداتعالیٰ جس کو چاہتا ہے۔ اس خدمت کے لئے منتخب کرلیتا ہے۔ سلیمان علیہ السلام کو بھی اگر نبوت ملی ہے تو انتخابی حیثیت سے ملی ہے۔ توریثی لحاظ سے نہیں ملی اور جن مفسرین نے سلیمان علیہ السلام کو حضرت دائود کا ’’وارث فی النبوۃ‘‘ کہا ہے۔
ان کی یہ مراد ہے کہ اﷲتعالیٰ نے محض اپنے کرم اور فضل سے دائود علیہ السلام کے بعد ان کے بیٹے سلیمان علیہ السلام کو نبی منتخب کر لیا۔ یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے ایک نبی کی اولاد ہونے کی وجہ سے نبوت حاصل کر لی۔ ’’
فلا معارضۃ بینہما
‘‘ دیکھو زکریا علیہ السلام نے لڑکے کے پیدا ہونے کی دعا کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ: ’’
فَہَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا۰ یَرِثُنِیْ وِیَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوْبَ (مریم:۵،۶)
‘‘ آل یعقوب کے وارث ہونے کے معنے اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتے کہ ان کو بنی اسرائیل کے نبیوں میں سے ایک نبی بنادے۔ اس لئے اس سے علم نبوت ہی کی وراثت مراد ہوگی۔
(ب)کبھی وراثت کا لفظ کسی کے بعد آنے والے پربھی بولا جاتاہے۔ قرآن مجید میں ہے کہ: ’’
وَاَوْرَثَکُمْ اَرْضَہُمْ وَدِیَارَہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ وَاَرْضًا لَمْ تَطَئُوْھَا (احزاب:۲۷)
‘‘
’’(اے مسلمانو) تم کو یہودیوں کی املاک وجائیداد اور ان کے گھروں کا ہم نے وارث بنادیا اس میں وراثت سے عرفی اور اصطلاحی وراثت مراد نہیں ہے۔ بلکہ ان کی املاک کو مسلمانوں کے قبضہ میں دے دینے کا نام وراثت رکھا ہے۔‘‘
۲… ’’
وَیَجْعَلَہُمُ الْوَارِثِیْنَ (القصص:۵)
‘‘ میں بنی اسرائیل کو قوم فرعون کے وارث بنا نے کا ذکر ہے۔ جو اصطلاحی حیثیت سے قطعاً ناممکن ہے۔
۳… حدیث ’’
اِنَّ الْعُلُمَآئَ وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَآئَ (ترمذی ج۲ ص۹۸، باب فضل الفقھ علی العبادۃ)
‘‘ میں علماء کو علیہم السلام کا وارث بنانا معنے عرفی کے لحاظ سے نہیں ہے۔ اسی طرح سلیمان علیہ السلام داؤد علیہ السلام کے وارث کہنے کا یہی مطلب ہے کہ ان کو علم وحکمت داؤد علیہ السلام کے بعد عطافرمائی گئی۔ جس سے نبوت کی دولت گھر کی گھر میںرہی اور باہر نہ گئی اور وہ صحیح معنوں میں اپنے والد بزرگوار کے جانشین ہوئے۔
۳… وراثت ذاتی املاک میں ہوا کرتی ہے۔ حکومت میں وراثت جاری نہیں ہوتی وہ ایک قومی امانت ہے۔ جس میں امیر کو قوم اور مالک کی مرضی کے بغیر کسی قسم کے تصرف کرنے کا حق نہیں ہوتا۔ ’’
عن ابی ذررضی اللہ عنہ قال: قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ( ﷺ) اَلَایَسْتَعْمَلَنِی قَالَ وَضَرَبَ بِیَدِہٖ عَلٰی مَنْکَبَیَّ ثُمَّ قَالَ یَا اَبَاذَرٍّاِنَّکَ ضَعِیْفٌ وَاِنَّہَا اَمَانَۃٌ (مشکوٰۃ کتاب الامارۃ ص۳۲۰)
‘‘(’’اے ابوذررضی اللہ عنہ ! حکومت ایک امانت ہے اور تو اس امانت کو نہیں اٹھا سکتا۔‘‘) لہٰذا سلیمان علیہ السلام کے وارث ہونے کے یہ معنے ہیں کہ وہ اپنے والد ماجد کے بعد حکومت کے تخت پر متمکن اور جلوہ افروز ہوئے۔ یہ کہ وہ شرعی طور پر وارث ہوئے تھے۔
نبی کی تدفین
’’قال ابوبکررضی اللہ عنہ سَمِعْتُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ شَیْئًا مَّانَسِیْتُہٗ قَالَ مَاقَبَضَ اللّٰہُ نَبِیَّا اِلَّافِی الْمُوْضَعِ الَّْذِیْ یُحِبُّ اَنْ یُّدْفَنَ فِیْہٖ فَدَفَنُوْہٗ فِیْ مُوْضِعِ فِرَاشِہٖ (ترمذی ج۱ ص۱۹۸، ابواب الجنائز)‘‘
{حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے خود رسول اﷲ ﷺ سے ایک بات سنی تھی۔ جسے میں بھولا نہیں ہوں! آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ اﷲتعالیٰ ہر نبی کی روح اس جگہ قبض کرتا ہے۔ جہاں وہ دفن ہونا پسند کرتا ہے لہٰذا آنحضرت ﷺ کو اس جگہ دفن کرنا چاہئے۔ جہاں آپ کا بستر مبارک ہے۔}مگر مرزاقادیانی کا مرض ایلاؤس یا ہیضہ میں بمقام لاہور انتقال ہوااور قادیان میں تالاب کے قریب اس کو دفن کیاگیا۔
تھوڑی دیر کے لئے اس امر پر بھی توجہ فرمائیں۔ تدفین سے پہلے مرحلہ مرنے کا آتا ہے اور مرزاغلام احمد قادیانی بھی اس مرحلہ سے گزرا۔ چنانچہ مرزاغلام احمد قادیانی مرنے سے پہلے کس حالت سے دوچار ہوئے وہ حالت قادیانیوں کے لئے قابل تقلید ہے۔ ہماری قادیانیوں سے ایک درخواست ہے کہ ہر محب اپنے محبوب کی اداؤں کو پسند کرتا اور اپناتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ محبوب کے نقش قدم پر چلے تو قادیانیوں کو چاہئے کہ وہ اپنے لئے دعا کریں۔ جس حالت میں مرزاغلام احمد قادیانی کو موت آئی وہ بھی اپنے لئے باری تعالیٰ سے ایسی ہی موت مانگیں تاکہ مرتے وقت کی مرزاغلام احمد قادیانی کی حالت پر عمل کر سکیں اور اپنی محبت کا کامل ثبوت دے سکیں۔ حالت کیا تھی اس کے لئے ملاحظہ فرمائیں۔
(سیرت المہدی حصہ اوّل ص۹تا۱۳، روایت نمبر۱۲)
انبیاء علیہم السلام کا بکریاں چراناق
’’
عن ابی ہریرۃرضی اللہ عنہ عن النبی ﷺ مَابَعَثَ اللّٰہُ نَبِیًا اِلَّا رَعٰی الْغَنَمَ فَقَالَ اَصْحَابُہٗ وَأَنْتَ؟ فَقَالَ نَعَمْ! کُنْتُ اَرْعٰی عَلٰی قَرَارِیْطَ لِاَہْلِ مَکَۃَ (بخاری ج۱ ص۳۰۱ باب الاجارہ، مشکوٰۃ باب الاجارہ ص۲۵۸)
‘‘
’’ہر نبی نے اجرت پر چرواہا بن کر بکریاں چرائیں رسول اﷲ ﷺ بھی چند پیسوں پر اہل مکہ کی بکریاں چرایا کرتے تھے۔‘‘ مرزاقادیانی اس ضابطہ سے خارج ہیں۔ مرزا قادیانی نے چرواہے کی طرح مزدوری پر بکریاں کبھی نہیں چرائیں۔
خاندان نبوت
’’
سَأَلْتُکَ ہَلْ کَانَ مِنْ آبَائِہٖ مِنْ مَلَکٍ؟ فَذَکَّرْتُ اَنْ لَّا فَقُلْتُ لَوْکَانَ مِنْ اٰبَائِہٖ مِنْ مَلَکٍ قُلْتُ رَجُلٌ یَّطُلُبُ مِلْکَ اَبِیْہٖ (بخاری ج۱ ص۴، باب کیف کان بدؤ الوحی الی رسول اﷲ ﷺ)
‘‘
’’ہر قل نے رسول اﷲ ﷺ کے نامہ مبارک پہنچنے پر حضور ﷺ کے حالات کی تحقیق اور تفتیش کرتے ہوئے ابوسفیانرضی اللہ عنہ سے چند باتیں دریافت کی تھیں۔ جن میں سے ایک یہ تھی کہ کیا کوئی آپ کے بزرگوں میں بادشاہ بھی تھا؟ ابوسفیانرضی اللہ عنہ نے کہا نہیں۔ ہرقل نے اس سوال کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی بادشاہ ہوتا تو میں کہتا کہ یہ شخص اپنی کھوئی ہوئی ریاست کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔‘‘
مرزاقادیانی کے والد کی حیثیت سکھوں کے عہد سے پہلے بہت اچھی تھی۔ سکھوں کی لوٹ مار کی وجہ سے کمزور ہوگئی تھی۔ پھر بھی پنجاب فتح ہونے کے موقع پر سرکار انگلشیہ کی کافی امداد فرمائی۔ جیسا کہ مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ: ’’ہمارے والد صاحب مرحوم نے بھی باوصف کم استطاعت کے اپنے اخلاص اور جوش خیرخواہی سے پچاس گھوڑے اپنی گرہ سے خرید کر کے اور پچاس مضبوط اور لائق سپاہی بہم پہنچا کر سرکار میں بطور امداد کے نذر کئے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ۳ ص الف، خزائن ج۱ ص۱۳۸،۱۳۹)
اسی برباد شدہ ریاست کو حاصل کرنے کے لئے مرزاقادیانی نے یہ جال پھیلا یا ہے۔
اوصاف نبوت
ایک مدعی نبوت کے لئے ان خصوصیات کے ساتھ متصف ہونا ضروری ہے۔ جس کا پایا جانا ہر ایک نبی میں بروایات صحیحہ ثابت ہے۔ مثلاً
۱… ’’
از عائشۃ آمدہ است وگفت مرا آنحضرت ﷺ را کہ تومی آئی متوضاً ونمی بیراز تو چیزے از پلیدی فرمود کہ آیا ندانستہ توای عائشہ مین فرومی بروآنچہ بیروں می آیداز انبیاء پس دیدہ نمی شودازاں رمزے
‘‘ (مدارج ج۱ ص۵۲)
۲… ’’
مروی ست از ابن عباسرضی اللہ عنہ کہ گفت محتلم نشد ہیچ پیغمبر ہر گز واحتلام از شیطانت رواہ الطبرانے
‘‘ (مدارج ج۱ ص۵۲)
۳… ’’
انفاست بران کہ انبیاء صلوٰۃ اﷲ وسلامہ علیہم براخلاق حمیدہ صفات حسنہ مجبول ومفطور اند
‘‘ (مدارج ج۱ ص۲۹)
مرزاقادیانی کی اخلاقیات کا نمونہ پہلے مذکور ہوچکا ہے۔
۴… ’’
روایتے آمد ماتناوب بنی قط ہیچ پیغمبرے خمیازہ نہ کرد
‘‘ (مدارج ج۱ ص۱۳۶)
۵… ’’مگس برہان مبارک وی نمی نشست وسپش درجاوے نمی افتاد واحتلام کرد آنحضرت ﷺ ہر گز ہمچنیں اندے دیگر رواہ الطبرانی‘‘ (مدارج ج۱ ص۳۶)
۶… ’’زمین نمیوخور وجسد شریف اور ا ﷺ وہمچنیں نمرد اجساد علیہم السلام را‘‘
(مدارج ج۱ ص۱۵۸)
’’نیز آمدہ است کہ خداتعالیٰ حرام گردانیدہ است اجساد انبیاء را برارض‘‘
(مدارج ج۱ ص۱۵۹)
۷… ’’ارث یافتہ نشدازوی ﷺ لابہمت بقاء ترکہ وی وملک وے بعضی میگویند صدقہ میگر ددوچنانچہ درحدیث آمدہ است ماترکناہ صدقہ… وہمچنیں حکم تمامہ ایں است کہ ایشانرا ارث نباشدو مراد درقول حق تعالیٰ وورث سلیمان داؤد وقولہ سبحانہ رب ہب لی من لدنک ولیایرثنی ارث علم نبوتست‘‘ (مدارج ج۱ ص۱۵۸)
۸… ’’پیغمبر خدا ﷺ زندہ است درقبر خود وہمچنیں علیہم السلام ‘‘ (مدارج ج۱ ص۱۵۸)
کیا ان نشانات میں سے کوئی نشانی مرزاقادیانی میں پائی جاتی ہے۔ ہر گز نہیں ہے تو بارثبوت بذمہ مدعی۔
۱… ’’سیدہ عائشہt بیان کرتی ہیں کہ حضور ﷺ استنجاء کر کے بیت الخلاء سے تشریف لاتے تو میں جاکر دیکھتی تو اس جگہ ازقسم براز کچھ نہ دیکھتی۔ حضور ﷺ نے فرمایا عائشہ تم نہیں جانتیں انبیاء علیہم السلام سے جو کچھ ان کے بطن سے نکلتا ہے زمین نگل جاتی ہے۔ چنانچہ اسے دیکھا نہیں جاتا۔‘‘ (اسے طبرانی نے نقل کیا) (مدارج نبوت ص۲۹)
۲… ’’حضرت ابن عباسرضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ کوئی نبی کبھی محتلم نہ ہوا۔ کیونکہ احتلام شیطان کے
اثر سے ہوتا ہے۔‘‘ (اس کو طبرانی نے نقل کیا) (مدارج نبوت ص۲۱)
۳… ’’شفائے قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ میں مذکور ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کے اخلاق کریمہ اور عمدہ اوصاف سب کے سب فطری، جبلی اور پیدائشی ہیں۔‘‘ (مدارج ج۱ ص۲۹)
۴… ’’ایک روایت میں آیا ہے کہ جس قوم وقبیلہ نے بھی کسی پیغمبر سے جنگ کی تو اس قوم وقبیلہ پر سب سے پہلے پیغمبر ہی حملہ کرتا ہے۔‘‘
۵… ’’آپ ﷺ کے چہرۂ انور پر اور آپ ﷺ کی مبارکہ جگہ پر کبھی مکھی نہیں بیٹھی اور نہ ہی آپ ﷺ اور دیگر علیہم السلام کو کبھی احتلام ہوا۔ (اس کو طبرانی نے نقل کیا ہے)‘‘
۶… ’’زمین آپ ﷺ کے جسد مبارک کو نہیں کھاتی اور اسی طرح دوسرے انبیاء علیہم السلام کے اجسام کو بھی۔ نیز حدیث میں آیا ہے کہ اﷲتعالیٰ نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انبیاء علیہم السلام کے اجسام کو کھائے۔‘‘
۷… آپ ﷺ سے کسی نے وراثت حاصل نہیں کی اور نہ آپ ﷺ کا ترکہ تقسیم ہوا اور نہ آپ کی ملک تھی۔ البتہ بعض علماء فرماتے ہیں کہ جو کچھ آپ ﷺ نے چھوڑا وہ صدقہ ہوگیا۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: ’’
ماترکناہ صدقۃ
‘‘ (جو کچھ ہم علیہم السلام ترکہ چھوڑتے ہیں۔ وہ صدقہ ہے) اور یہی حکم تمام علیہم السلام کا ہے کہ ان کا کوئی وارث نہیں ہوا۔ باقی رہا اﷲتعالیٰ کا فرمان ’’وورث سلیمان داوٗد‘‘ اور ’’رب ہب لی من لدنک ولیا‘‘ تو اس میں وراثت سے مراد وراثت علم نبوت ہے۔
۸… ’’پیغمبر خدا ﷺ اپنی قبر میں زندہ ہیں اور اسی طرح دوسرے علیہم السلام بھی اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔‘‘
عمر کی بابت
’’
عن عائشۃt قالت قال رسول اﷲ ﷺ اِنَّ جِبْرَآئِیْلَ کَانَ یُعَارِضُنِیَ الْقُرْآنَ فِیْ کُلِّ عَامِ مَرَّۃً وَاِنَّہٗ عَارَضَنِیُ بِالْقُرْآنِ الْعَامِّ مَرَّتَیْنِ وَاِنَّہٗ اَخْبَرَ اَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ نَبِیَّ اِلَّا عَاشَ نِصْفَ عُمَرَ الَّذِیْ قَبْلَہٗ وَاِنَّہٗ خَیَّرَنِیْ اِنَّ عِیْسٰی ابْنَ مَرْیَمَn عَاشَ عِشْرِیْنَ وَمِائَۃَ سَنَۃَ وَلَااَرَانِیْ اِلَّا ذَاہِبًا عَلٰی رَاْسِ السِّتِّیْنَ (طبرانی ج۲۲ ص۴۱۸ حدیث ۱۰۳۱)
‘‘ اس حدیث کو مرزائی حیات مسیح کے ثبوت میں پیش کیا کرتے ہیں۔ اس لئے مرزاقادیانی کی عمر بصورت نبی ہونے کے ۳۱ برس چھ ماہ ہونی چاہئے تھی۔ مگر چونکہ ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ ان کی عمر ۶۵ برس ہوئی ہے۔ اس واسطے وہ اپنے دعوے نبوت میں جھوٹے تھے۔
خلاصہ معیار نبوت
بنمائے بصاحب نظرے گوہر خودرا
عیسیٰ نتواں گشت تصدیق خرے چند
۱… ’’
اَمْ یَقُوْلُوْنَ بِہٖ جِنَّۃٌ بَلْ جَآئَ ہُمْ بِالْحَقِّ وَاَکْثَرُہُمْ لِلْحَقِّ کَارِہُوْنَ (مؤمنون:۷۰)‘‘ لہٰذا حق یعنی نبوت اور جنون میں تضاد ہے جو کبھی جمع نہیں ہوسکتے۔ اسی لئے آنحضرت ﷺ سے اس کی نفی کی گئی۔ ’’مَااَنْتَ بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ بِمَجْنُوْنَ (القلم:۲)
‘‘
۲… ’’
مَابِصَاحِبِکُمْ مِنْ جِنَّۃٍ (سباء:۴۶)
‘‘ نبی کی عقل کامل ہونی چاہئے۔
جنون غضب الٰہی ہے۔ (حاشیہ ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۳۱، خزائن ج۱۷ ص۶۷)
۳… ’’ملہم کے دماغی قوی کا نہایت مضبوط اور اعلیٰ ہونا ضروری ہے۔‘‘ (ریویو ستمبر۱۹۲۹ء)
۴… ’’ملہم کا دماغ نہایت اعلیٰ ہوتا ہے۔‘‘ (ریویو جنوری؍۱۹۳۰ء)
بحث پہلے گذر چکی ہے کہ مرزاقادیانی باقرار خود مراقی تھا۔ مرزاقادیانی نے کہا کہ: ’’مجھے مراق کی بیماری ہے۔‘‘
(ریویوج۲۴ نمبر۴ص۱۸۱، اپریل ۱۹۲۵ء)
۲… ’’مجھ کو دو بیماریاں ہیں۔ ایک اوپر کے دھڑ کی اور ایک نیچے کے دھڑ کی۔ یعنی مراق اور کثرت بول۔‘‘
(بدر ج۲ نمبر۲۳ ص۴ مورخہ۷جون۱۹۰۶ء، ملفوظات ج۸ص۴۴۵، تشحیذ الاذہان ج۱ نمبر۲ص۵)
’’مرزا غلام احمد قادیانی کو ہسٹیریا کا دورہ بھی پڑتا تھا۔‘‘ (سیرۃ المہدی ج۲ ص۵۵ روایت نمبر۳۶۹)
’’مالیخولیا جنون کا ایک شعبہ ہے اور مراق مالیخولیا کی ایک شاخ ہے۔ ‘‘ (بیاض نور الدین ص۲۱۱)
نتیجہ ظاہر ہے کہ: ’’ایک مدعی الہام کے متعلق اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اس کو ہسڑیا مالیخولیا یا مرگی کا مرض تھا تو اس کے دعوے کی تردید کے لئے پھر کسی اور ضرب کی ضرورت نہیں رہتی۔ ‘‘ (ریویو ج۲۵نمبر۸ ص۲۸۶،۲۸۷ اگست ۱۹۲۶ء)
۲… ’’
لَوْکَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا
! ’’اس شخص کی حالت ایک مخبوط الحواس انسان کی حالت ہے۔ جو ایک کھلا کھلا تناقض اپنے کلام میں رکھتا ہے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۸۴، خزائن ج۲۲ ص۱۹۱)
’’ایک دل سے دو متناقض باتیں نہیں نکل سکتیں۔ کیونکہ ایسے طریق سے یا انسان پاگل کہلاتا ہے یا منافق۔‘‘
(ست بچن ص۳۱، خزائن ج۱۰ ص۱۴۳)
۱… ’’میں مسیح موعود ہوں۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۹۶، خزائن ج۱۷ ص۲۵۳)
’’میں مسیح موعود نہیں۔‘‘ (ازالہ ص۱۹۲، خزائن ج۳ ص۱۴۳)
۲… ’’ابن مریم نبی نہ ہوگا۔‘‘ (ازالہ ص۲۹۲، خزائن ج۳ ص۲۴۹)
’’کیا مریم کا بیٹا امتی ہوسکتا ہے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۹، خزائن ج۲۲ ص۳۱)
۳… ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ۱۲۰برس کی عمر ہوئی تھی۔‘‘ (راز حقیقت ص۲، خزائن ج۱۴ ص۱۵۴ حاشیہ)
’’آخر سری نگر میںجاکر ۱۲۵ برس کی عمرمیں وفات پائی۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج۷ ص۶۰، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۴۹)
۴… ’’قرآن شریف میںفرمایاگیا ہے کہ وہ کتابیں محرّف، مبدّل ہیں۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۲۵۵، خزائن ج۲۳ ص۲۶۶)
’’یہ کہنا کہ وہ کتابیں محرف، مبدل ہیں۔ ان کابیان قابل اعتبار نہیں۔ ایسی بات وہی کہے گا جو خود قرآن سے بے خبر ہے۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۷۵، خزائن ۲۳ ص۸۳)
’’باوجود یکہ رسول اﷲ ﷺ نے بھی توریت وانجیل کے محرف ہونے کی خبر دی ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ ص۲۵)
۳… ’’
اِنَّمَا یَفْتَرِی الْکَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیَاتِ اللّٰہِ (النحل :۱۰۵)
‘‘
’’
لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ (آل عمران :۶۱)
‘‘
۱… ’’نبی کے کلام سے جھوٹ جائز نہیں۔‘‘ (مسیح ہندوستان میں ص۶۱، خزائن ج۱۵ ص۲۱)
۲… ’’جھوٹ بولنا مرتد ہونے سے کم نہیں۔‘‘ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۲۰، خزائن ج۱۷ ص۵۶ حاشیہ)
۳… ’’جھوٹ بولنے سے بدتر دنیا میں اور کوئی برا کام نہیں۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۲۶، خزائن ج۲۲ ص۴۵۹)
۱… ’’حدیث میں ہے کہ جب کسی شہر میں وبانازل ہوتو اس شہر کو بلاتوقف چھوڑ دیں۔‘‘
(ریویو قادیان ج۶ ش۹ ماہ ستمبر ۱۹۰۷ء ص۳۶۵)
۲… ’’حضور ﷺ نے فرمایاقیامت سو برس تک آجائے گی۔‘‘ (ازالہ ص۲۵۳، خزائن ج۳ ص۲۲۷)
۳… ’’حدیث میں ہے کہ:یخرج فی آخر الزمان دجال (بالدال) یختلون الدنیا بالدین! یعنی آخری زمانہ میں ایک گروہ دجال کا نکلے گا۔ ‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۸۷، خزائن ج۱۷ ص۲۳۵)
باوجود یہ کہ حدیث میں رجال (بالراء ہے) مگر دھوکا دہی کی غرض سے بالدال نقل کیا ہے۔
۴… ’’ہذا خلیفۃ اﷲ المہدی بخاری کی حدیث ہے۔‘‘ (شہادت القرآن ص۴۱، خزائن ج۶ ص۳۳۷)
۵… ’’مجدد صاحب سرہندی لکھتے ہیں کہ امت کے بعض افراد مکالمہ ومخاطبہ الٰہیہ سے مخصوص ہیں اور قیامت تک مخصوص رہیں گے اور اس کو نبی کہتے ہیں۔ ‘‘ (حقیقت الوحی ص۳۹۱، خزائن ج۲۲ ص۴۰۶)
باوجود یہ کہ (مکتوبات ج۲ ص۹۹) میں یوں ہے کہ: ’’اذا کثر ہذا القسم من الکلام من واحد منہم سمی محدثاً‘‘ (ازالہ ص۹۱۵، خزائن ج۳ ص۶۰۰)
’’براہین احمدیہ‘‘ کے معاملہ میں جس گندم نمائی اور جو فروشی کا مظاہرہ کیا وہ کسی سے مخفی نہیں۔ چونکہ جھوٹ کی فہرست لمبی ہے۔ اس لئے دوسرے مقام پر دیکھیں:
۴… ’’
وَمَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَمَا مِنَ نَبِیٍّ دَعَا قَوْمَہٗ اِلٰی اللّٰہِ تَعَالٰی اِلَّا قَالَ لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا (یواقیت ج۲ ص۲۵)
‘‘ مگر مرزاقادیانی نے تبلیغی چاٹ لگا کر بہت سا روپیہ جمع کیا۔ جیسا کہ لکھتا ہیں کہ: ’’یہ مالی امداد اب تک پچاس ہزار روپیہ سے زیادہ آچکی ہے۔ بلکہ میں یقین کرتا ہوں کہ ایک لاکھ کے قریب پہنچ گئی ہے۔‘‘ (براہین ج۵ ص۵۷، خزائن ج۲۱ ص۷۴)
’’اس قدر بھی امید نہ تھی کہ دس روپیہ ماہوار آئیںگے… اب تک ۳لاکھ کے قریب روپیہ آچکا ہے۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۲۱۲، خزائن ج۲۲ ص۲۲۱)
جو کچھ میری مراد تھی سب کچھ دکھا دیا
میں اک غریب تھا مجھے بے انتہاء دیا
دنیا کی نعمتوں سے کوئی بھی نہیں رہی
جو اس نے مجھ کو اپنی عنایت سے نہ دیا
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۰، خزائن ج۲۱ص۱۹)
مطالبہ: کسی نبی سے مذہب کی آڑ میں دنیا کمانا اور تبلیغی چندہ کو اپنی ضرورتوں میں خرچ کرنا ثابت کرو؟۔
۵… ’’
اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْخَائِنِیْنَ (انفال:۵۸)
‘‘
’’وہ لوگ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دوبارہ دنیا میں لاتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ وہ بدستور اپنی نبوت کے ساتھ دنیا میں آئیں گے اور برابر ۴۵سال تک جبرائیل علیہ السلام وحی نبوت لے کر آتا رہے گا۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۵۲، خزائن ج۱۷ ص۱۷۴)
نقل حدیث میں خیانت کی۔ اصل مذہب یہ ہے کہ: ’’
ان عیسیٰ علیہ السلام وان کان بعدہ واولی العزم وخواص الرسل فقدزال حکمہ من ہذا المقام بحکم الزمان علیہ الذی ہو لغیرہ فیرسل ولیاذا نبوۃ مطلقۃ ویلہم بشرع محمد ﷺ ویفہمہ علی وجہہ کالاولیاء المحمدیین (یواقیت ج۲ ص۸۹)
‘‘
اور ایسا ہی مدارج النبوۃ میں ہے۔ یعنی عیسیٰ علیہ السلام اگرچہ نبی ہوں گے۔ مگر ان پر وحی نبوت نازل نہ ہوگی۔ اسی لئے ان کے ساتھ نبیوں جیسا معاملہ نہ ہوگا۔ بلکہ وہ اس امت کے اولیاء اﷲ کی طرح ہوںگے۔
۲… ابن عباسرضی اللہ عنہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کی طرف وفات مسیح کے عقیدہ کی نسبت کرنا باوجود یہ کہ وہ آخری زمانہ میں مرنے یا مر کر دوبارہ زندہ آسمان پر مرفوع ہونے کے قائل ہیں۔
۳… نبی تشریعی کے یہ معنے کرنے کہ اس کو رسول اﷲ ﷺ کی اتباع کرنے سے نبوت مل جائے اور اس کو ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ اور ملا علی القاری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم کی طرف منسوب کرنا باوجود یہ کہ ان کے نزدیک نبی غیر تشریعی وہ ہے کہ اس پر وحی نبوت نازل نہ ہو اور وہ ہر حکم میں شریعت محمدیہ ﷺ کے فیصلہ کا پابند ہو کیونکہ ولایت کے ایک مقام کانام نبوت غیر تشریعی رکھا ہے۔ مرزانے اس کے معنے بدل کر حقیقی نبوت کے اجزاء کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کردیا۔ نیز مذہبی تبلیغ کا دھوکا دے کر بہت سا روپیہ جمع کیا اور اس کو اپنی ضروریات اور ’’گورنمنٹ برطانیہ کی حمایت میں خرچ کیا۔‘‘
(انجام آتھم ص۲۸۳، خزائن ج۱۱ ص۲۸۳)
مطالبہ: تبلیغی روپیہ کو گورنمنٹ کی اغراض کی اشاعت میں کس شرعی حکم کی وجہ سے خرچ کیا ہے۔ کیا کوئی ایسے چندہ کی مدد کی جا سکتی ہے؟۔
۶… ’’
وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذکرنا وَاتَّبَعَ ھَوَاہٗ وَکَانَ اَمْرُہٗ فرطًا وَلَا تُطِعِ الْکَافِرِیْنَ (کھف:۲۸)
‘‘ مرزاقادیانی جس حکومت برطانیہ کو دجال کا گروہ کہتے ہیں۔ اس کی غلامی پر فخر کرتے اور: ’’سلطنت ممدوح کو خداتعالیٰ کی ایک نعمت سمجھیں اور مثل اور نعماء الٰہی کے اس کا شکر بھی ادا کریں۔‘‘ (براہین ص ب، خزائن ج۱ ص۱۴۰)
۷… ’’
وَکُلاً جَعَلْنَا صَالِحِیْنَ وَجَعَلْنَاہُمْ اَئِمَّۃً یَّہْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَاَوْحَیْنَا اِلَیْہِمْ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاِیْتَأ الزَّکٰوۃِ (الانبیاء:۷۳)
‘‘ مرزاقادیانی کی سوانح حیات میں کذب بیانی وعدہ خلافی تلبیس اور دھوکا دہی چندہ کا ناجائز تصرف، حرص وطمع دنیوی، نصاریٰ کی حمایت وغیرہ۔ عیوب کھلے طور پر نظر آرہے ہیں۔
۸… ’’
وَقَفَّیْنَا عَلٰی آثَارِہِمْ بِعِیْسٰی اِبْنِ مَرْیَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ‘‘ (مائدہ:۴۶)
’’
اَلْاَنْبِیَآء اِخْوَۃٌ مِّنْ عَلَّاٍت وَاُمَّہَاتُھُمْ شَتّٰی وَدِیْنُھُمْ وَاحِدٌ (مسند احمد ج۲ص۳۱۹)
‘‘ یعنی اصول دین تمام نبیوں کے درمیان مشترک ہیں۔ مگر عبادت کے طریقے بدلے ہوئے ہیں۔‘‘
چنانچہ تمام علیہم السلام دجال کے شخص واحد ہونے کی شہادت دیتے آئے۔ مگر مرزا کو اس کی شخصیت سے انکار ہے اور دجال ایک گروہ کا نام رکھا ہے۔ نیز مرزاقادیانی نے علیہ السلام اور معجزہ کی حقیقت شرعیہ سے انکار کیا ہے اور فرشتوں کا نزول جسمانی بھی نہیں مانا۔ ان کی تفسیر کرنے میں اپنی رائے کو دخل دیا اور نزول وحی وغیرہ کی حقیقت میں رسول اﷲ ﷺ کی تحقیق کی مخالفت کی ہے۔
۹… ’’
اَلَّذِیْنَ یُبَلِّغُوْنَ رِسَالَاتِ اللّٰہِ وَیَخْشَوْنَہٗ وَلَا یَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰہَ (احزاب:۳۹)
‘‘ مگر مرزاقادیانی حکومت سے ڈر کر بعض الہامات کے ظاہر نہ کرنے کا عدالت میں عہد کر آتے ہیں۔
۱۰… ’’
اَلَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَہُمْ لَعِبًا وَلَہْوًا وَغَرَّتْہُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا (انعام:۷۰)
‘‘ مرزاقادیانی دنیا داروں کی طرح دنیوی شہرت اور مال دولت کے جمع ہونے پر فخر کرتے ہوئے اس کو اپنی بڑی کامیابی سمجھتے ہیں۔ ملاحظہ ہو۔
جو کچھ میری مراد تھی سب کچھ دکھادیا
میں ایک غریب تھا مجھے بے انتہا دیا
(براہین ص۱۰ حصہ۵، خزائن ج۲۱ ص۱۹)
اس زمانہ میں ذرا سوچو کیا چیز تھا
جس زمانہ میں براہین کا دیا تھا اشتہار
(براہین حصہ۵ ص۱۱۲، خزائن ج۲۱ ص۱۴۲)
پھر ذرا سوچو کہ اب چرچا میرا کیسا ہوا
کس طرح سرعت سے شہرت ہوگئی ہر سو یار
(براہین حصہ۵ ص۱۱۲، خزائن ج۲۱ ص۱۴۲)
ادھر آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد ہے کہ: ’’
اَلْاَنْبِیَآئُ اَشَدُّ بَلَآئً اَلْاَمْثَلُ فَالْاَمْثَلُ (کنز العمال ج۳ ص۳۲۷ حدیث ۶۷۸۳)
‘‘
۱۱… ’’
وَاَلشُّعَرَآئُ یَتَّبِعُہُمْ اَلْغَاوٗنَ (الشعراء :۲۲۴)
‘‘
’’
وَمَا عَلَّمْنَاہُ الشِّعْرَوَمَا یَنْبَغِی لَہٗ (یٰس:۶۹)
‘‘ مگر مرزاقادیانی کی شعر سازی کا مرزائیوں میں بڑا چرچا ہے۔
مطالبہ: کوئی نبی شاعر پیش کرو؟
۱۲… ’’یہ بالکل غیر معقول اور بیہودہ امر ہے کہ انسان کی اصل زبان تو کوئی ہو اور الہام اس کو کسی اور زبان میں ہو۔ جس کو وہ سمجھ بھی نہ سکتاہو۔‘‘ (چشمہ معرفت ج۲ ص۲۰۹، خزائن ج۲۳ ص۲۱۸)
مگر مرزاقادیانی خود اس کے قائل ہیں۔ ’’بعض الہامات مجھے ان زبانوں میں بھی ہوتے ہیں۔ جس سے مجھے کچھ واقفیت نہیں۔ جیسے انگریزی، سنسکرت یاعبرانی وغیرہ۔‘‘ (نزول مسیح ص۵۷، خزائن ج۱۸ ص۴۳۵)
۱۳… ’’
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ رُسُلاً اِلٰی قَوْمِہِمْ فَجَآؤُہُمْ بِالْبَیِّنَاتِ (الروم :۴۷)
‘‘
’’
فان مدعی النبوۃ لا بدلہ من نبوۃ (بیضاوی ج۲ ص۱۰۵)
‘‘
’’تمامی انبیاء ورسل راصلوات اﷲ علیہم معجزات است وہیچ پیغمبرے بے معجزہ نیست‘‘ (مدارج ج۱ ص۱۹۹)
معجزہ کی حقیقت
’’
وہی امر یظہر بخلاف العادۃ علیٰ ید مدعی النبوۃ عند تحدی المنکرین علیٰ وجہ یعجز المنکرین عن الاتیان بمثلہ
‘‘ جو عادت کے خلاف مدعی ٔ نبوت کے ہاتھ پر منکرین کے مقابلہ میں ظاہر ہو اور منکرین اس کی مثال دینے سے عاجز ہوں۔‘‘ (شرح العقائد)
’’نجومیوں کی سی خبریں زلزلے آئیں گے۔ مری پڑے گی، قحط ہوگا، جنگ ہوگی۔ معجزہ نہیں۔‘‘
(براہین ص۲۴۵، خزائن ج۱ ص۲۷۱ حاشیہ)
مرزاقادیانی کی پیشین گوئیاں نجومیوںجیسی ہیں۔ یا حالات حاضرہ کو دیکھ کر تجربہ کاروں کی طرح پیش گوئیاں کی تھیں۔ جن میں سے اکثر غلط اور بے بنیاد نکلیں اورجہاں کہیں بطور تحدیٔ منکرین کے مقابلہ میں اپنی صداقت کی نشانی پیش کرنی چاہی وہیں منہ کی کھائی۔
۱۴… ’’
وَمَنْ یَّقُلْ مِنْہُمْ اِنِّی اِلٰہٌ مِّنْ دُوْنِہٖ فَذَالِکَ نَجْزِیْہِ جَہَنَّمَ کَذَالِکَ نَجْزِیْ الظَّالِمِیْنَ (الانبیاء:۲۹)
‘‘ کبھی کسی نبی نے ہوشیاری یا سکر کی حالت میں الوہیت کا دعویٰ نہیں کیا۔ مگر مرزاکہتا ہے کہ: ’’کشف میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں اور یقین کیا وہی ہوں۔‘‘ (کتاب البریہ ص۷۵، خزائن ج۱۳ ص۱۰۳)
’’
رائیتنی فی المنام عین اﷲ وَتَیَقَّنْتُ اننی ہو
‘‘ (آئینہ کمالات ص۵۶۴، خزائن ج۵ ص۵۶۴)
۱۵… ’’
مَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالاً نُّوْحِیْ اِلَیْہِمْ مِّنْ اَہْلِ الْقُرٰی (یوسف :۱۰۹)
‘‘
’’
الامصار لانہم اعلم واحلم بخالف اہل البوادی لجفائہم وجہلہم (جلالین:۱۹۹ ومثلہ فی ابی سعود ج۴ص۳۱۰)
‘‘
قادیان گائوں ہے: ’’اوّل لڑکی اور بعد میں اس حمل سے میرا پیدا ہونا تمام گائوں کے بزرگ سال لوگوں کومعلوم ہے۔‘‘ (تریاق القلوب ص۱۶۰، خزائن ج۱۵ ص۴۸۵)
۱۶… ’’
عن عبداﷲ ابن عمرورضی اللہ عنہ قال قال رسول اﷲ ﷺ اَرْبَعُ مَنْ کُنَّ فِیْہِ کَانَ مُنَا فِقًا خَالِصًا وَمَنْ کَانَتْ فِیْہٖ خَصْلَۃٌ مِّنْہُنَّ کَانَتْ فِیْہٖ خَصْلَۃٌ مِّنَ النِّفَاقِ حَتّٰی یَدَعَہَا اِذَا اُؤْتُمِنَ خَانَ وَاِذَا حَدَثَ کَذَبَ وَاِذَا عَاہَدَ غَدَرَ وَاِذَا خَاصَمَ فَجَرَ (بخاری ج۱ ص۱۰باب علامۃ المنافق)
‘‘ مرزاقادیانی میں یہ سب خصلتیں موجود تھیں۔
۱۷… ’’
اَنَا مَعْشَرُ الْاَنْبِیَآء لَا نُوْرِثْ (مسند احمد ج۲ ص۴۶۳)
‘‘
۲… ’’
اَلْاَنْبِیَآئُ لَا یُوْرِثُوْنَ (دارقطنی)
‘‘
۳… ’’
اِنَّ الْعُلَمَآئَ وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَآئِ اِنَّ الْاَنْبِیَآئَ لَمْ یُوَرِّثُوْا دِیْنَارًا وَلْادِرْہَمًا اِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ اَخَذَہٗ اَخَذَبِحَظٍّ وَافِرٍ (ابن ماجہ ص۲۰ باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم)
‘‘
۴… ’’
نَحْنُ مَعْشَرُ الْاَنْبِیَآء لَا نَرِثُ وَلَا نُوْرَثُ (قسطلانی)
‘‘
۱۸… ’’
مَابَعَثَ اللّٰہُ نَبِیًّا اِلَّارَعٰی الْغَنَمَ فَقَالَ اَصْحَابُہٗ وَأَنْتَ؟ فَقَالَ نَعَمْ! کُنْتُ اَرْعَاھَا عَلَی قَرَارِیْطَ لِاَہْلِ مَکَّۃَ (بخاری ج۱ ص۳۰۱، باب رعی لغنم علیٰ قراریط)
‘‘
مرزاقادیانی نے کبھی مزدوری پر بکریاں نہیں چرائیں۔
۱۹… ’’
فی الحدیث مَا قَبَضَ اللّٰہُ نَبِیَّا اِلَّافِی الْمُوْضَعِ الَّذِیْ یُحِبُّ اَنْ یُّدْفَنَ فِیْہٖ (مشکوٰۃ ص۵۴۷، ترمذی ج۱ ص۱۹۸، ابواب الجنائز)
‘‘
مرزاقادیانی لاہور میں مرا اور قادیان میں دفن ہوا۔
۲۰… ’’
سَأَلْتُکَ ہَلْ کَانَ مِنْ آبَائِہٖ مِن مَّلِکٍ؟ فَذَکَّرْتُ اَنْ لَا فَقُلْتُ فَلَوْکَانَ مِنْ آبَائِہٖ مِنْ مَّلِکِ قُلْتُ رَجُلٌ یَّطْلُبُ مِلْکَ اَبِیْہٖ (بخاری باب کیف کان بدؤ الوحی الیٰ رسول ﷺ ص۴ ج۱)
‘‘
مرزاقادیانی کے آباؤ اجداد بڑے رئیس تھے۔ مگر سکھوں کے عہد میں کسی قدر کمزور ہوگئے تھے۔ دیکھو براہین احمدیہ وغیرہ۔ یہاں تک کہ ۱۵ روپیہ کی مرزاقادیانی کو کلرکی کرنی پڑی۔
۲۱… ’’
لَمْ یَکُنْ نَبِیٌ اِلَّاعَاشَ نِصْفَ الَّذِیْ قَبْلَہٗ (طبرانی ج۲۲ ص۴۱۸ حدیث ۳۰۳۰)
‘‘
اس حدیث کو مرزائی وفات مسیح کے ثبوت میں پیش کیا کرتے ہیں۔ اس لئے مرزاقادیانی کی عمر آنحضرت ﷺ سے آدھی ہونی چاہئے تھی۔ مگر آپ اور دو سال بعد یعنی ۶۵برس کے ہو کر مرے ہیں۔
خیال زاغ کو بلبل سے برتری کا ہے
غلام زادے کو دعویٰ پیمبری کا ہے
۱… مسیح موعود کے وقت میں اسلام ساری دنیا میں پھیل جائے گا۔
’’
ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلٰی الدِّیْنِ کُلِّہٖ!
یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیش گوئی ہے اور جس غلبۂ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیاگیا ہے۔ وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ سے ظہور میں آئے گا اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیںگے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق واقطار میں پھیل جائے گا۔‘‘ (حاشیۃ الحاشیہ براہین ص۴۹۹، خزائن ج۱ ص۵۵۳)
’’
ہوالذی ارسل رسولہ……
یعنی خدا وہ خدا ہے۔ جس نے اپنے رسول کو ایک کامل ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا، تاکہ اس کو ہر ایک قسم کے دین پر غالب کر دے۔ یعنی ایک عالمگیر غلبہ اس کو عطاء کرے، اور چونکہ وہ عالمگیر غلبہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ظہور میں نہیں آیا اور ممکن نہیں کہ خدا کی پیش گوئی میں کچھ تخلف ہو۔ اس لئے اس آیت کی نسبت ان سب متقدمین کا اتفاق ہے کہ جو ہم سے پہلے گذر چکے ہیں کہ یہ عالمگیر غلبہ مسیح موعود کے وقت میں ظہور میں آئے گا۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۸۳، خزائن ج۲۳ ص۹۱)
مگر مرزاقادیانی کے زمانہ میں ایسا نہیں ہوا۔ اس لئے مسیحیت کا دعویٰ محض افتراء ہے۔
۲… مسیح موعود کے زمانہ میں مکہ اور مدینہ کے درمیان ریل جاری ہوگی۔
’’اور پیش گوئی آیت کریمہ ’’
واذا العشا رعطلت
‘‘ پوری ہوئی اور پیش گوئی حدیث ’’
لیترکن القلاص ولا یسعی علیہما
‘‘ نے اپنی پوری چمک دکھلائی۔ یہاں تک کہ عرب وعجم کے ایڈیٹران اخبار، اور جرائد والے اپنے پرچوں میں بول اٹھے، کہ مدینہ اور مکہ کے درمیان جو ریل تیار ہو رہی ہے۔ یہی اس پیشگوئی کا ظہور ہے۔ جو قرآن اور حدیث میں ان لفظوں سے کی گئی تھی۔ جو مسیح موعود کے وقت کا یہ نشان ہے۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۲، خزائن ج۱۹ ص۱۰۸)
۳… مسیح موعود حج کرے گا۔ ’’آنحضرت ﷺ نے آنے والے مسیح کو ایک امتی ٹھہرایا اور خانہ کعبہ کا طواف کرتے اس کو دیکھا۔‘‘ (ازالہ ص۴۰۹، خزائن ج۳ ص۳۱۲)
۴… ’’دجال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ پر اسلام قبول کر کے ان کے ساتھ بیت اﷲ کا طواف کرے گا۔‘‘
’’
فی الحقیقت مارا وقتے حج راست وزیبا آید کہ دجال از کفر ودجل دست باز داشتہ ایماناً واخلاصاً وگرد کعبہ بگردد چنانچہ از قرار حدیث مسلم عیاں می شود کہ جناب نبوت انتساب(صلوٰۃ اﷲ علیہ وسلامہ) روید نددجال ومسیح موعود فی آن واحد طواف کعبہ میکند
‘‘ (ایام الصلح(اردو) ص۱۶۹، خزائن ج۱۴ ص۴۱۶،۴۱۷)
۵… ’’مسیح موعود بعد ظہور نکاح کریںگے اور اس سے اولاد پیدا ہوگی۔ اس پیش گوئی کی تصدیق کے لئے جناب رسول اﷲ ﷺ نے بھی پہلے ایک پیش گوئی فرمائی ہے کہ ’’
یتزوج ویولدلہ
‘‘ یعنی وہ مسیح موعود بیوی کرے گا اور نیز وہ صاحب اولاد ہوگا۔ اب ظاہر ہے کہ تزوّج اور اولاد کا ذکر کرنا عام طور پر مقصود نہیں۔ کیونکہ عام طور پر ہر ایک شادی کرتا ہے اور اولاد بھی ہوتی ہے۔ اس میں کچھ خوبی نہیں۔ بلکہ تزوّج سے مراد وہ خاص تزوّج ہے۔ جو بطور نشان ہوگا۔ ‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۵۳، خزائن ج۱۱ ص۳۳۷)
مرزاقادیانی کا نکاح بطور نشان ’’محمدی بیگم‘‘ سے ہونے والا تھا۔ مگر افسوس قسمت نے یاوری اور عمر نے وفانہ کی اور دل کی حسرت دل ہی میں رہ گئی ؎
اگر وہ جیتا رہتا یہی انتظار ہوتا
۶… ’’مسیح موعود دعوے کے بعد چالیس سال زندہ رہے گا۔ حدیث سے صرف اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ مسیح موعود اپنے دعوے کے بعد چالیس برس دنیا میں رہے گا۔ ‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۱۲۷، خزائن ج۱۷ ص۳۱۱)
مگر مرزاقادیانی ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء میں پیدا ہوا: ’’میری پیدائش سکھوں کے آخری وقت میںہوئی ہے۔ ‘‘
(کتاب البریہ ص۱۵۹، خزائن ج۱۳ ص۱۷۷)
مرزاغلام احمد قادیانی کی پیدائش ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء میں ہوئی ہے۔ (نور الدین ص۱۷۰)
’’۱۸۳۹ء مطابق ۱۲۵۵ھ دنیا کی تواریخ میں بہت بڑا مبارک سال تھا۔ جس میں خداتعالیٰ نے مرزاغلام مرتضی کے گھر قادیان میں موعود مہدی پیدا فرمایا۔ جس کے لئے اتنی تیاریاں زمین وآسمان پر ہورہی تھیں۔ ‘‘
(مسیح موعود کے مختصر حالات از عمر دین قادیانی ملحقہ براہین حصہ اوّل ص۶۰ طبع اوّل)
مرزاقادیانی نے دعویٰ مجددیت یا مسیحیت (براہین احمدیہ حصہ۴ ص۲۷۱) پر کیا۔ جس کی طباعت کی تاریخ یا غفور سے ۱۲۹۷ھ نکلتی ہے۔ گویا عمر کے بیالیسویں سال اور صدی سے تین سال پہلے دعویٰ کیاگیا یاپوری صدی پر دعویٰ کیا۔ جیسا کہ ازالہ اوہام کی اس عبارت اور مجدد کی حدیث ’’علے راس کل مائۃٍ‘‘ سے ظاہر ہے۔
’’یہی وہ مسیح ہے کہ جو تیرہویں صدی کے پورے ہونے پر ظاہر ہونے والا تھا۔ پہلے سے یہی تاریخ ہم نے نام میںمقرر کررکھی تھی اور وہ یہ نام ہے غلام احمد قادیانی۔‘‘ (ازالہ ص۱۸۶، خزائن ج۳ ص۱۸۹، ۱۹۰)
مگر اس صورت میں بعثت کی مدت مقرر چالیس سال سے پانچ سال زیادہ ہو جائیں گے۔
یا دعوی ۱۲۹۰ھ میں ہوا جیسا کہ تحفہ گولڑویہ میں مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ: ’’دانی ایل نبی‘‘ بتلاتا ہے کہ اس نبی آخر الزمان کے ظہور سے (جو محمد مصطفی ﷺ ہے) جب بارہ سو نوے برس گذریں گے تو وہ مسیح موعود ظاہر ہوگا۔
(حاشیہ تحفہ گولڑویہ ص۲۰۶، خزائن ج۱۷ ص۲۹۲)
اس صورت میں مرزا قادیانی کی عمر دعوے کے وقت ۳۵برس کی ہوگی۔ جو زمانۂ بعثت سے پانچ سال کم ہے۔ حدیث مجددیت کے بھی مخالف ہے۔
بالاتفاق ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء بمطابق ربیع الثانی۱۳۲۶ھ میں آپ کا انتقال ہوا۔ اس حساب سے دعوے کے بعد ۲۹ یا ۲۶ یا ۳۶ برس آپ زندہ رہے اور ۴۰برس جو مسیح موعود کے رہنے کی مدت تھی۔ اس سے پہلے ہی چل بسے اور مسیح کی نشانی آپ پر صادق نہ آئی۔
۷… ’’اگر قرآن نے میرا نام ابن مریم نہیں رکھا تو میں جھوٹا ہوں۔‘‘ (تحفۃ الندوہ ص۵،خزائن ج۱۹ ص۹۸)
ابھی ’’ازالہ اوہام‘‘ کے حوالے سے گذرا ہے کہ آپ نے اپنا نام ’’غلام احمد قادیانی‘‘ بتایا ہے۔ جس میںبحساب جمل ۱۳۰۰ عدد ہونے کی وجہ سے ۱۳۰۰ھ پر مبعوث ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ کیا قرآن میں غلام احمد قادیانی بن مریم لکھا ہوا ہے؟۔ اگر نہیں ہے تو مرزاقادیانی اپنے بیان کے موافق یقینا جھوٹا ہے۔
تردید صداقت مرزاقادیانی
لو تقول
تحریف نمبر: ۱… ’’
لَوْتَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِ لَاَخَذْنَا مِنْہٗ بِالْیَمِیْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْن (الحاقہ:۴۴،۴۶)
‘‘ {اور اگر وہ (محمد ﷺ) ہم پر بعض افتراء باندھتے تو ہم ان کو داہنے ہاتھ سے پکڑ لیتے اور اس کی شہ رگ کاٹ ڈالتے۔}
مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ: ’’اگر اس مدت تک اس مسیح کا ہلاکت سے امن میں رہنا اس کے صادق ہونے پر دلیل نہیں تو اس سے لازم آتا ہے کہ نعوذ باﷲ آنحضرت ﷺ کا ۲۳برس تک موت سے بچنا آپ کے سچا ہونے پر بھی دلیل نہیں… یہ قرآنی استدلال بدیہی الظہور جب ہی ٹھہر سکتا ہے۔ جبکہ یہ قاعدہ کلی مانا جائے کہ خدا مفتری کو… کبھی مہلت نہیں دیتا… آج تک علماء امت سے کسی نے یہ اعتقاد ظاہر نہیں کیا کہ کوئی مفتری علیٰ اﷲ تیئس برس تک زندہ رہ سکتا ہے… میرے دعوے کی مدت تیئس برس ہو چکی ہے۔‘‘ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ موسومہ اشتہار پانچ سو روپیہ ص۴، خزائن ج۱۷ ص۴۲،۴۳)
اسی کتاب کے (ص۲) پر لکھا ہے کہ: ’’شرح عقائد نسفی میں بھی عقیدے کے رنگ میں اس دلیل کو لکھا ہے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۲، خزائن ج۱۷ ص۳۹)
اور توریت میں بھی یہی درج ہے کہ جھوٹا نبی قتل کیا جاتا ہے۔
جواب نمبر:۱… یہ آیت رسول اﷲ ﷺ کی شان میں اس بات کو ظاہر کرنے کے لئے نازل ہوئی، کہ اگر وہ اﷲ سبحانہ کی طرف بعض باتوں کی جھوٹی نسبت کر دیتے تو ان کو فوراً ہلاک کر دیا جاتا، اور ایک زمانہ دراز تک کبھی مہلت نہ دی جاتی، اور سورۂ بنی اسرائیل میں اسی فیصلہ کو وضاحت کے ساتھ اس طرح بیان کیا ہے۔ کہ: ’’
وَاِنْ کَادُوْاَلْیَفْتِنُوْنَکَ عَنِ الَّذِیْ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ لِتَفْتَرِیَ عَلَیْنَا غَیْرَہٗ وَاِذً الَّا تَّخَذُوْکَ خَلِیْلًا۰ وَلَوْلَا اَنْ ثَبَتْنَاکَ لَقَدْ کِدْتَّ تَرْکَنُ اِلَیْہِمْ شَیْئًا قَلِیْلاً۰ اِذًا لَّاذَقْنٰکَ ضِعْفَ الْحَیٰوۃِ وَضِعْفَ الْمَمَاۃِ ثُمَّ لَا تَجِدُ عَلَیْنَا نَصِیْرًا (بنی اسرائیل:۷۳،۷۴،۷۵)
‘‘ یعنی قریب تھا کہ کفار تجھے وحی الٰہی سے ہٹا کر افتراء پردازی پر مائل کر دیں۔ اس صورت میں وہ تجھے اپنا دوست بنا لیتے۔ اگر ہم آپ کو ثابت قدم نہ رکھتے تو آپ کچھ نہ کچھ ان کی طرف مائل ہو جاتے ۔ مگر اس وقت ہم آپ کو دنیا اور آخرت میں دوگنا عذاب دیتے۔ جس پر تجھے کوئی مدد گار نہ ملتا۔‘‘
معلوم ہوا یہ ایک خاص واقعہ ہے۔ اس میں کوئی لفظ کلیت یا عموم پر دلالت کرنے والا موجود نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے اس کو عام ضابطہ یا قاعدہ کلیہ قرار دیا جائے۔ شرح عقائد نسفی میں علامہ تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مطلب ہے۔ کیونکہ وہ جامع کمالات فاضلہ اور اخلاق عظیمہ سے رسول اﷲ ﷺ کی نبوت پر استدلال کر رہے ہیں۔ ہر مدعی ٔ نبوت کی نبوت کو اس سے ثابت نہیں کرتے۔ جیساکہ اس عبارت سے ظاہر ہے۔ ’’
قد یستدل ارباب البصائر علیٰ نبوۃ بوجہین احد ہما بالتواتر من احوالہ قبل النبوۃ وحال الدعوۃ وبعد تما مہا واخلاقہ العظَمۃ واحکامہ الحکمیۃ واقدامہ حیث تحجم الابطال ووثوقہ بعصمۃ اﷲ تعالیٰ فی جمیع الاحوال وثباتہ علیٰ حالہ لدی الاہو بحیث لم تجد اعداؤہ مع شدۃ عداوتہم وحرصہم علے الطعن فیہ مطعنا ولا الی القدح فیہ سبیلا فان العقل یجزم بامتناع اجتماع ہذا الامور فی غیر الانبیاء وان یجمع اﷲتعالیٰ ہذہ الکمالات فی حق من یعلم انہ یفتری علیہ ثم یمہلہ ثلثا وعشرین سنۃ (شرح عقائد نسفی مجتبائی ص۱۳۶،۱۳۷، مبحث النبوات)
‘‘
اس میں جملہ ضمیریں رسول اﷲ ﷺ کی طرف راجع کی گئیں ہیں اور علیہم السلام میںسے وہی جامع کمالات اور اخلاق عظیمہ کے ساتھ متصف ہیں۔ جیسا کہ: ’’
بعثت لاتمم حسن الاخلاق (الحدیث مؤطا ص۷۰۵ باب فی حسن الخلق)
‘‘ وآیت ’’انک لعلیٰ خلق عظیم (القلم:۴)‘‘ سے ظاہر ہے۔ اس لئے شرح عقائد کی عبارت کو معیار نبوت میں کلیتاً پیش کرنا ہر گز صحیح نہیں اور اگر آیت کی دلالت بالفرض کلیت پر تسلیم کر لی جائے تو رسول اﷲ ﷺ کے حالات کو سامنے رکھ کر کلیت اخذ کرنی پڑے گی۔ جیسا کہ خود مرزاقادیانی نے ۲۳سالہ مہلت اور نبی کاذب کی قید آنحضرت ﷺ کے حالات ہی سے اربعین وغیرہ میں لگائی ہے۔ ورنہ آیت میںوحی نبوت اور۲۳سال مدت کی کوئی قید مذکور نہیں ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ: ’’خداتعالیٰ کی تمام پاک کتابیں اس بات پر متفق ہیں کہ جھوٹا نبی ہلاک کیا جاتا ہے۔ اب اس کے مقابل میں یہ پیش کرنا کہ ’’اکبر بادشاہ‘‘ نے نبوت کا دعویٰ کیا یا ’’روشن دین جالندھری‘‘ نے دعویٰ کیا۔ اور وہ ہلاک نہیں ہوئے۔ یہ ایک دوسری حماقت ہے۔ جو ظاہر کی جاتی ہے … پہلے ان لوگوں کی خاص تحریر سے ان کا دعویٰ ثابت کرنا چاہئے… کہ میں خدا کا رسول ہوں… کیونکہ ہماری تمام بحث وحی نبوت میں ہے۔‘‘
(ضمیمہ اربعین نمبر۴ ص۱۱، خزائن ج۱۷ ص۴۷۷)
۲… ’’ہر گز ممکن نہیں کہ کوئی شخص جھوٹا ہو کر اور خدا پر افتراء کر کے…تیئس برس تک مہلت پا سکے۔ ضرور ہلاک ہوگا۔‘‘ (اربعین نمبر۴ ص۵، خزائن ج۱۷ ص۴۳۴)
۳… ’’یہی قانون خدا تعالیٰ کی قدیم سنت میں داخل ہے کہ وہ نبوت کا جھوٹا دعوی کرنے والے کو مہلت نہیں دیتا۔‘‘
(تحفہ قیصریہ ص۶، خزائن ج۱۲ ص۲۵۸)
جس طرح نبوت اور تیئس سالہ مدت کی قید رسول اﷲ ﷺ کے حالات سے لگائی گئی ہے۔ اسی طرح سچے اور صادق ہونے کی قید کا اضافہ کرنا بھی ضروری ہوگا، اور اس وقت آیت کا مفادیہ ہوگا کہ جو سچا نبی کسی غیر نازل شدہ حکم کی جھوٹی نسبت اﷲ سبحانہ کی طرف کرے گا وہ ہلاک کیا جائے گا، اور آیت میں بعض الاقاویل کی قید کا فائدہ بھی اسی صورت میں ظاہر ہوسکتا ہے۔ جب کہ نبی سے سچا نبی مراد لیا جائے ورنہ جھوٹے مدعی نبوت کی ہر وہ بات جس کو وحی الٰہی کہتا ہے۔
جھوٹی ہے اور یہی مطلب توریت کی آیت کا ہے۔
معاملات دنیوی میں بھی اس بہروپیہ سے جو حاکم کے بہروپ میں کوئی حکم نافذ کرے مواخذہ نہیں ہوتا۔ مگر ایک سرکاری عہدہ دار حکومت سے حکم واحکام حاصل کرنے کے بغیر اگر کوئی حکم نافذ کرے گا تو حکومت اس سے باز پرس کرے گی۔شرح عقائد میں ۲۳سال مہلت اگر معیاربن سکتی ہے تو فی الجملہ اسی طرح بن سکتی ہے کہ اس کے ساتھ دیانت اور اتقاء راست گفتاری، استقامۃ توکل علیٰ اﷲ وغیرہ کو مدعی نبوت میں ثابت کیا جائے۔ جیسا کہ شرح عقائد میں کہا گیا ہے اور یہ شرط مرزاقادیانی میں کلیتاً مفقود ہے۔ شرح عقائد کی ایک بات کو ماننا اور جو اپنے خلاف ہو۔ اس کا نام نہ لینا کہاں کا انصاف ہے اور جو مدعیان کاذب ہیں۔ ان کی سزا دنیا میں کوئی نہیں بیان کی گئی۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے کہ: ’’
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ اِفْتَرٰی عَلٰی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْقَالَ اُوْحِیَ اِلَیَّ وَلَمْ یُوْحَ اِلَیْہٖ شَیْیٌٔ وَمَنْ قَالَ سَأُنْزِلُ مِثْلَ مَااَنْزَلَ اللّٰہُ وَلَوْتَرٰی اذ الظالمون فی غمرات الموت والملائکۃ باسطوا ایدیہم اخرجوا انفسکم الیوم تجزون عذاب الہون بماکنتم تقولون علی اﷲ غیر الحق (انعام :۹۳)
‘‘
اس میں مقررہ وقت پر موت آنے کے علاوہ نبوت کے جھوٹے دعویدار کی کوئی سزا دنیوی بیان نہیں کی۔ بلکہ سورۂ اعراف میں ہے کہ ایسے مفتری کی عمر مقررہ مدت تک پوری کر دی جائے گی۔ ’’
فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْکَذَّبَ بِاٰیٰتِہٖ اُوْلٰئِکَ یَنَا لَہُمْ نَصِیْبَہُمْ مِنَ الْکِتَابِ (اعراف:۳۷)
‘‘ جلالین میں’’من الکتاب‘‘ کی یہ تفسیر کی ہے کہ: ’’مما کتب لہم فی اللوح المحفوظ من الرزق والاجل وغیر ذالک (جلالین ص۱۳۲)‘‘
جواب نمبر:۲… لہٰذا یہ کہنا کہ نبوت کے جھوٹے مدعی کو ہلاک کرنا خدا کی سنت ہے۔ بالکل غلط اور سرتاپا جھوٹ ہے اور اگر مان لیں کہ جھوٹے مدعی نبوت کو ۲۳برس تک مہلت نہیں ملتی تو پھر بھی مرزاقادیانی کاذب کے کاذب ہی رہتے ہیں۔ کیونکہ مرزاقادیانی نے نبوت کا دعویٰ ۱۹۰۲ء میں کیا تھا۔ جیسا کہ مرزامحمود جانشین مرزا نے (القول الفصل ص۲۴) پر لکھا ہے کہ: ’’تریاق القلوب کی اشاعت تک جو اگست۱۸۹۹ء سے شروع ہوئی اور۲۵؍اکتوبر۱۹۰۲ء میں ختم ہوئی۔ آپ (مرزاقادیانی) کا یہی عقیدہ تھا کہ… آپ کو جو نبی کہا جاتا ہے یہ ایک قسم کی جزوی نبوت ہے۔ ۱۹۰۲ء کے بعد میں آپ کو خدا کی طرف سے معلوم ہوا کہ آپ نبی ہیں اور ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء بروز منگل قریبا ساڑھے دس بجے مرزاقادیانی مرض ہیضہ سے لاہور میں ہلاک ہوئے۔ اس دعویٰ نبوت کی کل مدت چھ برس ہوئی۔ مگر اربعین نمبر۴ ص۶ کی رو سے سچے نبی کی مدت تئیس برس ہونی چاہئے! جو مرزاقادیانی میں نہیں پائی جاتی۔ اس لئے آپ جھوٹے کے جھوٹے ہی رہے۔ جب کہ یہ آیت مرزاقادیانی کے خیال میں نبوت کا معیار ہے تو لاہوری پارٹی کا اس آیت سے مرزاقادیانی کی صداقت پر استدلال کرنا ان کے دعویٔ نبوت کو تسلیم کرنا ہے۔ جس کو وہ اپنے خیال میں افتراء سمجھے ہوئے ہیں۔ چنانچہ ’’محمد علی‘‘ امیر جماعت لاہور لکھتا ہے کہ:’’جو شخص اس امت میں سے دعویٔ نبوت کرے۔ کذاب ہے۔‘‘ (النبوۃ الاسلام ص۸۹،باب سوم ختم نبوت)
بلکہ جس کا دعویٔ نبوت نہ ہو اس کی صداقت پر اس آیت کو پیش کرنے والا بقول مرزاقادیانی بے ایمان ہے۔ ’’بے ایمانوں کی طرح قرآن شریف پر حملہ کرنا ہے اور آیت ’’
لوتقول
‘‘ کو ہنسی ٹھٹھے میں اڑانا۔‘‘
(ضمیمہ اربعین ص۱۲، خزائن ج۱۷ ص۴۷۷)
س… اور یہ کہنا کہ مفتری کے لئے قتل ہونا ضروری ہے اور مرزاقادیانی قتل نہیں ہوا۔ اس لئے وہی سچا تھا۔ کئی وجہ سے غلط ہے۔
۱… قرآن شریف میں قتل کی کوئی قید نہیں۔
۲… خود مرزاقادیانی نے مفتری کی سزا موت بتائی ہے۔ قتل نہیں کہا۔‘‘
’’اگر وہ ہم پر افتراء کرتا تو اس کی سزا موت تھی۔‘‘ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۳، خزائن ج۱۷ ص۳۸)
’’اس سے لازم آتا ہے کہ نعوذ باﷲ آنحضرت ﷺ کا تیئس برس تک موت سے بچنا آپ کے سچا ہونے پر بھی دلیل نہیں۔‘‘ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۴، خزائن ج۱۷ ص۴۲)
۳… مرزاقادیانی نے (ضمیمہ اربعین میں استثناء باب۱۸ آیت ۸تا۲۰) سے استدلال کیا ہے کہ جھوٹا نبی میت (یعنی مر جائے گا) اور اس بات کے ثبوت میں کہ میت کے معنے عبرانی زبان میں مرنے کے ہیں۔ مرزاقادیانی نے یہ عبارت لکھی ہے کہ: ’’جب میں صبح کو اٹھی کہ بچے کو دودھ دوں تو وہیں میت دیکھو وہ مرا پڑا تھا۔‘‘ (ضمیمہ اربعین ص۹، خزائن ج۱۷ ص۴۷۵)
آگے لکھتے ہیں کہ: ’’میت جس کا ترجمہ پادریوں نے قتل کیا ہے بالکل غلط ہے۔ عبرانی لفظ میت کے معنے ہیں۔ مر گیا یا مرا ہوا ہے۔‘‘
معلوم ہوا کہ مدعی کاذب کا قتل ہونا ضروری نہیں بلکہ مرزاقادیانی کے خیال میں تیئس برس سے پہلے مر جانا بھی اس کے کذب کی دلیل ہے۔ اس لئے مرزاقادیانی بموجب اپنے فیصلہ کے کاذب ٹھہرا۔‘‘
۴… ’’قتل ہونا کاذب ہونے کی نشانی نہیں ہے۔ قرآن شریف میں یہودیوں کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا گیاہے۔ ’’
قَتْلِہِمُ الْاَنْبِیَآئَ بِغَیْرِ حَقٍّ (النساء:۱۵۵)
‘‘ اگر جھوٹے مدعی کو قتل کیا جاتاتو ان کی کبھی مذمت نہ کی جاتی اور نہ ایسے قتل کو قتل ناحق کہنا صحیح ہوتا۔ چنانچہ خود مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ: ’’اے بنی اسرائیل کیا تمہاری یہ عادت ہوگئی کہ ہر ایک رسول جو تمہارے پاس آیا تو تم نے بعض کی ان میںسے تکذیب کی اور بعض کو قتل کر ڈالا۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۳۴، خزائن ج۵ ص۳۴)
جواب نمبر:۳… ایسی نشانی جس کا ظہور آغاز نبوت سے ۲۳برس بعد ہو صدق وکذب کا معیار نہیں بن سکتی۔ ورنہ تیئس سال تک نبوت کا ثبوت ہی موقوف رہے گا اور ایک نبی اس سے پہلے کبھی نبی نہیں بن سکے گا اور نہ اس عرصہ میں مرنے والے کافر یا مسلمان کہلانے کے مستحق ہوں گے۔ اس سے مرزاقادیانی کی یہ شرط بالکل غلط ہے کہ: ’’وہاں اس بات کا واقعی طور پر ثبوت ضروری ہے کہ اس شخص نے …تیئس برس کی مدت حاصل کرلی۔‘‘
(اربعین نمبر۳ ص۲۲، خزائن ج۱۷ ص۴۰۹)
جواب نمبر:۴… اور اگر یہ سزا مطلق الہام کے جھوٹے مدعی کے لئے ہے اور دعوے نبوت اس میں کوئی شرط نہیں تو چاہئے تھا کہ دنیا میں جھوٹے مدعیان الہام کو ۲۳سال کی مہلت کبھی نہ ملتی۔ باوجود یہ کہ دنیا کی تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ پہلے مدعیان الہام کو مرزاقادیانی سے زیادہ کامیابی نصیب ہوئی اور ان کو مہلت کا زمانہ مرزاقادیانی کے زمانۂ مہلت سے زیادہ ملا۔ چنانچہ :
۱… حسن بن صباح نے ۴۸۳ھ میں الہام کا دعویٰ کیا ۵۱۸ھ میں دعوے کے ۲۵سال بعد مرا اور ایک کثیر جماعت متبعین کی چھوڑی۔
۲… مسیلمۂ کذاب نے رسول اﷲ ﷺ کی زندگی میں نبوت کا دعویٰ کیا اور تھوڑے عرصہ میں بہت سے لوگ اس کے گرد جمع ہوگئے۔
جب حضرت ابوبکرصدیقرضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں اس کو قتل کرنے کے لئے خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں مسلمانوں کا لشکر بھیجا۔ تو مسیلمۂ کذاب ان کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک لاکھ کی جمعیت لے کر میدان میں نکلا اور شکست کھا کر مارا گیا۔
۳… عبدالمومن افریقی نے ۲۷۷ھ میں مہدیت کا دعویٰ کیا اور ۲۳برس بعد ۳۰۰ھ میں مرا۔
۴… عبداﷲ بن تومرت مہدی بن کر ۲۵برس تک تبلیغ کرتا رہا اور جب کافی جمعیت اکٹھی کر لی تو سلطنت حاصل کر کے ۲۰سال حکومت کی اور مرگیا۔
۵… سید محمد جونپوری نے سکندر لودھی کے زمانہ ۹۰۱ھ میں مکہ معظمہ پہنچ کر بیت اﷲ میں مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور ۹۰۱ھ تک اپنے وطن میں واپس آکر مذہب کی تبلیغ کرنی شروع کی۔ جس سے راجپوتانہ گجرات کا ٹھیا واڑ سندھ میں بہت سے لوگوں نے اس کی بیعت اختیار کرلی۔ اس قسم کی اور بہت سی مثالیں تاریخی کتابوں میں موجود ہیں اور مطلق مفتری علی اﷲ کی بھی یہ سزا نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ یہود ونصارٰی جو آئے دن توریت وانجیل میں تحریفیں کر کے محرف حصہ کواﷲ کی آیتیں کہتے رہے ہیں۔ آج تک ہلاک نہیں ہوئے اور نہ قرآن عزیز میں ان کی کوئی دنیاوی سزا بیان فرمائی گئی ہے۔ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے کہ: ’’
وَیَقُوْلُوْنَ ہُوَمِنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَمَا ہُوَ مِنْ عِنْدَاللّٰہِ وَیَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ (آل عمران:۷۸)
‘‘ عام کافروں کی نسبت ارشاد ہے۔ ’’
یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ (مائدہ:۱۰۳)
‘‘ مگر پھر بھی ان کو کوئی دنیاوی سزا نہیں ملتی بلکہ ایسے لوگوں کو مہلت دی جاتی ہے۔ سچ ہے کذابوں، دجالوں کی رسی دراز ہے مولانا فرماتے ہیں کہ:
تو مشو مغرور برحلم خدا
دیرگیرد سخت گیرد مرترا
جواب نمبر:۵… پھر مرزاقادیانی نے ۲۳برس کی مدت ابتداء ’’تجویز نہیں کی بلکہ جتنا زمانہ ان کے دعوے کو گذرتا گیا اتنی ہی مدت بڑھاتے رہے۔ پہلے یہ خیال تھا کہ مفتری علیٰ اﷲ کو فوراً اور دست بدست سزا دی جاتی ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں کہ: ’’قرآن شریف کی نصوص قطعیہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسا مفتری اس دنیا میں دست بدست سزا پا لیتا ہے۔‘‘
(انجام آتھم ص۴۹، خزائن ج۱۱ ص۴۹)
’’وہ پاک ذات جس کے غضب کی آگ وہ صاعقہ ہے کہ ہمیشہ جھوٹے ملہموں کو بہت جلد کھاتی رہی ہے… بے شک مفتری خدا کی لعنت کے نیچے ہے… اور جلد مارا جاتا ہے۔‘‘ (انجام آتھم ص۵۰، خزائن ج۱۱ ص۵۰)
’’تورات اور قرآن شریف دونوں گواہی دے رہے ہیں کہ خدا پر افتراء کرنے والا جلد تباہ ہوتا ہے۔‘‘
(انجام آتھم ص۶۳، خزائن ج۱۱ ص۶۳)
پھر (نشان آسمانی مطبوعہ جون ۱۸۹۲ء) میں لکھتے ہیں کہ: ’’دیکھو خداتعالیٰ قرآن کریم میں صاف فرماتا ہے کہ جو میرے پر افتراء کرے اس سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں اور میں جلد مفتری کو پکڑتاہوں اور اس کو مہلت نہیں دیتا۔ (قرآن میں ایسا کہیں نہیں آیا) لیکن اس عاجز کے دعوے مجدد اور مثیل مسیح ہونے پر اب بفضلہ تعالیٰ گیارہواں برس جاتا ہے کیا یہ نشان نہیں۔‘‘ (نشان آسمانی ص۳۷، خزائن ج۴ ص۳۹۷)
پھر اس کے آٹھ ماہ بعد (آئینہ کمالات مطبوعہ فروری ۱۸۹۳ء) میں لکھا ہے کہ: ’’یقینا سمجھو کہ اگر یہ کام انسان کا ہوتا تو… اپنی اس عمر تک ہر گز نہ پہنچتا جو بارہ برس کی مدت اور بلوغ کی عمر ہے۔‘‘ (آئینہ کمالات ص۵۴، خزائن ج۵ ص۵۴)
پھر انوار الاسلام مطبوعہ ۵؍دسمبر۱۸۹۴ء میں ایک سال نو ماہ بعد تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’یا کبھی خدا نے کسی جھوٹے کو ایسی لمبی مہلت دی ہے؟ کہ وہ بارہ برس سے برابر الہام اور مکالمہ الٰہیہ کا دعویٰ کر کے دن رات خداتعالیٰ پر افتراء کرتا ہو اور خداتعالیٰ اس کو نہ پکڑے۔ بھلا اگر کوئی نظیر ہے تو بیان کریں۔‘‘ (اس کی نظیریں گذر چکیں ہیں)
(انوار الاسلام ص۵۰، خزائن ج۹ ص۵۱)
اس کے ۵ ماہ بعد ضیاء الحق مطبوعہ بارہ مئی ۱۸۹۵ء کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ: ’’خداتعالیٰ نے آج سے سولہ برس پہلے الہام مندرجہ براہین احمدیہ میں اس عاجز کا نام عیسیٰ رکھا… اور خدا نے بھی اس قدر لمبی مہلت دے دی۔ جس کی دنیا میں نظیر نہیں۔‘‘ (ضیاء الحق ص۶۰، خزائن ج۹ ص۳۰۸)
نوٹ! براہین احمدیہ ۱۸۸۰ء، ۱۸۸۲ء کی تالیف ہے۔ (دیکھو نزول المسیح ص۱۱۹، خزائن ج۱۸ ص۴۹۷ حاشیہ)
اور ۱۳۰۸ھ مطابق ۱۸۹۱ء میں مرزاقادیانی نے (فتح الاسلام ص۱۷، خزائن ج۳ ص۱۱) اور (ازالہ اوہام ص۲۶۱، خزائن ج۳ ص۲۳۱) میں مسیحیت کا دعویٰ کیا۔
پھر قریباً ڈیڑھ سال بعد ’’انجام آتھم‘‘ مطبوعہ ۱۸۹۷ء میں رقم طراز ہیں کہ: ’’میرے دعویٰ الہام پر قریباً بیس برس گذر گئے۔‘‘ (انجام آتھم ص۴۹، خزائن ج۱۱ ص۴۹)
’’کیا یہی خداتعالیٰ کی عادت ہے کہ ایسے کذاب اور بے باک اور مفتری کو جلد نہ پکڑے۔ یہاں تک کہ بیس برس سے زیادہ عرصہ گذر جائے۔‘‘ (انجام آتھم ص۵۰، خزائن ج۱۱ ص۵۰)
اور (سراج منیر ص۲، خزائن ج۱۲ ص۴ مطبوعہ ۱۸۹۷ء) میں پچیس سال لکھے ہیں: ’’کیا کسی کو یاد ہے کہ کاذب اور مفتری کو افترائوں کے دن سے پچیس برس تک کی مہلت دی گئی ہو، جیسا کہ اس بندہ کو۔‘‘ ایک ہی سال میں بیس اور اسی میں پچیس کے جھوٹ کو مرزائی صاحبان سچ کر کے دکھادیںگے؟۔
پھر عجیب بات یہ ہے کہ ۱۹۰۰ء میں الہام کی مدت ۲۴ سال بتا رہے ہیں۔ ’’کیا کسی ایسے مفتری کا نام بطور نظیر پیش کر سکتے ہو۔ جس کو افتراء اور دعویٰ وحی اﷲ کے بعد میری طرح ایک زمانۂ دراز تک مہلت دی گئی ہو… یعنی قریباً ۲۴برس گذر گئے۔‘‘ (اشتہار مطبوعہ۱۹۰۰ء معیار الاخیار مندرجہ تبلیغ رسالت حصہ۹ ص۲۰، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۶۸)
پھر اربعین مطبوعہ ۱۹۰۰ء میں قریبا تیس برس لکھتے ہیں کہ: ’’قریب تیس برس سے یہ دعویٰ مکالمات الٰہیہ شائع کیاگیا ہے۔‘‘ (اربعین نمبر۳ ص۷، خزائن ج۱۷ ص۳۹۲)
اور ۱۹۰۲ء میں تیئس ہی برس رہ جاتے ہیں۔ ’’مفتری کو خدا جلد پکڑتا ہے اور نہایت ذلت سے ہلاک کرتا ہے۔ مگر تم دیکھتے ہو کہ میرا دعویٰ منجانب اﷲ ہونے کے تیئس برس سے بھی زیادہ ہے۔‘‘
(تذکرۃ الشہادتین ص۶۳، خزائن ج۲۰ ص۲۴، ونحوہ ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۳، خزائن ج۱۷ ص۴۰ مطبوعہ ۱۹۰۲ء)
مہلت کی مدت میںاختلاف بیانی اختیار کرنے کی یہ وجہ ہے کہ اگر پہلے ہی تیئس سال مہلت کی شرط لگادیتے تو لوگوں کی طرف سے قتل ہو جانے کا خطرہ زیادہ لاحق ہوجاتا۔ اس لئے اس کا نام تک نہ لیا اورجو وقت گورنمنٹ برطانیہ کی مہربانی سے ان کے زیر سایہ گذرتا رہا۔ اسی کو معیار صداقت بناتے رہے۔ اب تو بقول اکبر الہ آبادی یہ حال ہے۔
گورنمنٹ کی خیر یارو مناؤ گلے میںجو اتریں وہ تانیں اڑاؤ
کہاں ایسی آزادیاں تھیں میسر ’’انا الحق‘‘ کہو اور پھانسی نہ پائو
س… امام رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: ’’
ہذا ذکرہ علی سبیل التمثیل بما یفعلہ الملوک بمن یتکذب علیہم فانہم لا یمہلونہ بل یضربون رقبۃ فی الحال (تفسیر کبیر ج۳۰ص۱۱۸)
‘‘
پھر لکھتے ہیں کہ: ’’
ہذا ہو الواجب فی حکمۃ اﷲ تعالیٰ لئلا یشتبہ الصادق بالکاذب (تفسیر کبیر ج۳۰ص۱۱۹)
‘‘
تفسیر روح البیان میں ہے کہ:’’
وفی الایۃ تنبیہ علیٰ ان النبی ﷺ لوقال من عند لنفسہ شیئا اوزادو نقص حرفا واحد علی ما اوحی الیہ لعاقبہ اﷲ وہواکرم الناس علیہ فماظنک بغیرہ (تفسیر کبیر ج۴ص۴۶۳)
‘‘
معلوم ہوا کہ مفسرین کے خیال میں اس آیت کے یہی معنی ہیں کہ مفتری علیٰ اﷲ کو زیادہ مہلت نہیں ملتی۔ لہٰذا مرزاقادیانی کا دعویٰ کے بعد تئیس سال زندہ رہنا ان کی صداقت کی دلیل ہے؟
ج… امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کی پہلی عبارت کا یہ مطلب ہے کہ جس طرح بادشاہ ان لوگوں کو جو جعلی فرامین کو اصل کی طرح بنا کر لوگوں کو دھوکا دینا چاہتے ہیں پکڑ لیتا ہے۔ اسی طرح خداتعالیٰ اس شخص کو جو کذب کو سچ کی طرح بنا کر خدا کی طرف منسوب کرتا ہے۔ پکڑ لیتا ہے اور اس کے جھوٹ اور فریب کو عام لوگوں پر ظاہر کرادیتا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ جس کا کذب واضح نہ ہو اس کو بھی پکڑ لیا جائے اور کسی مفتری علی اﷲ کو جھوٹ نہیں بولنے دیتے۔ جس طرح حکومت اس شخص کو جو نوٹ کی شکل کی رسید تیار کرے سزا نہیںدیتی۔ لیکن جعلی نوٹ بنانے والوں کو فوراً گرفتار کر لیتی ہے۔ اسی طرح جس مفتری علیٰ اﷲ کا جھوٹ سچ کے مشابہ ہوا اس کو پکڑ لیا جاتا ہے۔ چنانچہ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کی وہ دوسری تحریر جس کو مرزائی صاحبان پورا نقل نہیں کرتے۔ ہمارے بیان کی زبردست مؤید ہے ملاحظہ ہو۔ ’’
واعلم ان حاصل ہذا الوجوہ انہ لونسب الینا قولا لم نقلہ لمعناہ عن ذلک امابواسطۃ اقامۃ الحجۃ فاماکنا نقیض لہ من یعارضہ فیہ وحینئذٍ یظہر للناس کذبہ فیہ فیکون ذالک بطالالدعواہ وہد مالکلامہ وامابان نسلب عندہ القدرۃ علیٰ التکلم بذالک القول وہذا ہو الواجب فی حکمۃ اﷲ لئلا یشتبہ الصادق بالکاذب (تفسیر کبیر ج۳۰ ص۱۱۹)
‘‘
ان تمام وجوہ مذکورہ کا یہ حاصل ہے کہ اگر ہماری طرف سے کسی جھوٹے قول کی نفی کی جائے تو ہم اس کو اور دلائل سے جھوٹا ثابت کر دیتے ہیں، اور ایسا آدمی اس کے مقابلہ میں کھڑا کردیتے ہیں جو اس سے معارضہ کرتا ہے۔ جس سے اس کا جھوٹ لوگوں پر ظاہر ہو جاتا ہے، اور اس کے دعوے کے باطل ہونے میںاہل فہم کو شبہ نہیں رہتا، اور یاکبھی اس کی زبان کو خدا کی طرف جھوٹی نسبت کرنے سے روک لیتا ہے، اور ایسا کرنا خداتعالیٰ پر ضروری ہے تاکہ جھوٹ سچ کے ساتھ مشتبہ نہ ہوجائے۔ معلوم ہوا کہ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مفتری علی اﷲ کو پکڑنے کے یہ معنی ہیں کہ اس کا کذب لوگوں پر ظاہر کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی آدمی اس کے مقابلہ میں کھڑا کردیاجائے گا، اور اس کے ہاتھ سے کوئی ایسی نشانی ظاہر نہیں کی جائے گی۔جس کو اس نے اپنی سچائی کے لئے بطور پیش گوئی ذکر کیا ہوگا۔ یا اس سے اس معاملہ میں کذب بیانی کی قدرت ہی لے لی جائے گی۔ دنیا جانتی ہے کہ جس روز سے مرزاقادیانی نے مجددیت اور مسیحیت کے جال پھیلانے کی کوشش کی تھی اسی دن سے علمائے کرام نے اس کے کذب کو ظاہر کرنا شروع کر دیا تھا اور بحمد اﷲ آج اس کے جھوٹ اور فریب کا پردہ ایسا چاک ہوا ہے کہ دنیائے اسلام کا بچہ بچہ اس کے جھوٹے اور مکار ہونے کا قائل ہے۔ مرزائیوں کے تسلیم کرلینے سے اس کا سچا ہونا لازم نہیں آتا۔ اگرایک چور اور ڈاکو کو چند لٹیرے نیک طینت انسان بتائیں تو ان کی گواہی سے وہ نیک نہیں بن جاتا۔ بلکہ حکومت اور سمجھدار لوگوں کی نظر میں وہ بدکار ہی رہتا ہے۔ اسی طرح کافروں کے کہنے سے بتوں کی الوہیت ثابت نہیں ہوتی۔ پھر اﷲتعالیٰ نے ان پیش گوئیوں کو جن کو مرزاقادیانی نے بطور تحدی اپنے صدق وکذب کا معیار بنا کر پیش کیا تھا۔ مرزاقادیانی کا جھوٹا ہونا ظاہر کردیا۔ اگر چہ بڑی تضرع سے ان کے پورے ہونے کی التجائیں کیں۔ مگر ایک نہ سنی، اور مرزاقادیانی کو سربازار رسوا کر کے چھوڑا۔ سبحانہ ما اعظم شانہ! اﷲ سبحانہ تعالیٰ نے وحی نبوت کے دعویٰ کرنے سے اس کی زبان کو روک کر رکھا۔ مرزاقادیانی نے کبھی وحی نبوت کا دعویٰ نہیں کیا۔ جو خداتعالیٰ کا کلام ہے۔ بلکہ مدتوں الہام ولایت ہی کا دعویٰ کرتے ہوئے اس کو غلط نظر سے وحی الٰہی کی مثل سمجھتا رہا۔ لیکن جب ۱۹۰۲ء میں مسند نبوت پر اپنے ناپاک قدم رکھنے کی کوشش کی تو غیرت الٰہی نے عذابی مرض سے ہلاک کردیا۔ جیسا کہ مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ: ’’پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ محض خدا کے ہاتھوں سے ہے۔ جیسے طاعون وہیضہ وغیرہ۔‘‘
(اشتہار متعلقہ مولوی ثناء اﷲ، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۷۸)
اور ’’روح البیان‘‘ کی عبارت سے توصاف ظاہر ہے کہ ایک سچا نبی اگر وحی ربانی میں کمی زیادتی کرے تو اس کو سزا دی جاتی ہے۔ ہر مفتری کی یہ سزا نہیں ہے ۔ کیا مرزائی جماعت عبداﷲ تیماپوری کو نبی ماننے کے لئے تیار ہے؟۔ جس کے دعویٔ نبوت کو آج ۱۹۳۳ء میں ۲۷سال گذر چکے ہیں۔
جواب نمبر:۶… اس آیت کا سیاق، سباق دیکھیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اﷲتعالیٰ کا ارشاد کسی قاعدہ کلیہ کے طور پر نہیں ہے۔ بلکہ یہ قضیہ شخصیہ ہے اور صرف حضور اکرم ﷺ کے متعلق یہ بات کہی جارہی ہے اور یہ بھی اس بناء پر کہ ’’بائبل‘‘ میں موجود تھا کہ اگر آنے والا پیغمبر اپنی طرف سے کوئی جھوٹا الہام یا نبوت کا دعویٰ کرے تو وہ جلد مارا جائے گا۔
چنانچہ عبارت درج ذیل ملاحظہ ہو۔
میں ان کے لئے ان ہی کے بھائیوں میں سے تجھ سا… ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا، اور جو کچھ میں اس کو حکم دوں گا۔ (مراد محمد عربی ﷺ ہیں) وہ سب ان سے (یعنی اپنی امتوں سے) کہے گا اور ایسا ہوگا کہ جو کوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لے کر کہے گا، نہ سنے گا تو میں اس کا حساب اس سے لوں گا۔ لیکن جو نبی گستاخ بن کر کوئی ایسی بات میرے نام سے کہے گا جس کے کہنے کا میں نے اس کو حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کچھ کہے گا تو وہ نبی قتل کیا جائے گا۔ (انجیل مقدس عہدنامہ قدیم ص۱۸۴، کتاب استثناء باب۱۸، آیت۱۸تا۲۱)
جواب نمبر:۷… مرزاقادیانی کبھی کہتا کہ میں نبی ہوں۔ پھر انکار کر دیتا۔ مرزاقادیانی نے اپنی زندگی کا آخری خط مورخہ۲۳؍مئی ۱۹۰۸ء کو لکھا جو ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو ’’اخبار عام‘‘ میں چھپا۔ جس میں لکھا: ’’اس نے میرا نام نبی رکھا ہے۔ سو میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں اور اگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہوگا اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے تو میں کیونکر انکار کر سکتا ہوں۔ میں اس پر قائم ہوں۔ اس وقت تک جو اس دنیا سے گزر جاؤں۔‘‘ یہ خط مورخہ ۲۳؍مئی ۱۹۰۸ء کو لکھاگیا اور ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو چھپا اور اسی روز ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء بروز منگل کو مرزاقادیانی وبائی ہیضہ سے عبرتناک موت کا شکار ہوا، اور اپنے قول کے مطابق کہ خدا جھوٹے کو مہلت نہیں دیتا۔ جھوٹا ثابت ہوا۔ اسی دن ہی ’’
لقطعنا منہ الوتین
‘‘ پر عمل ہوگیا۔ اﷲتعالیٰ نے ہیضہ سے مرزاقادیانی کی زندگی کی شہ رگ کاٹ دی۔