• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قادیانی شبہات کے جوابات (کامل )

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

قادیانی سوال:۲۵​

قادیانی جماعت یہ اعتراض کرتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دشمنوں سے بچانے کے لئے اﷲتعالیٰ نے آسمانوں کا انتخاب فرمایا اور حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو دشمنوں سے بچانے کے لئے غارثور کا، چنانچہ مرزاقادیانی نے اپنی کتاب (تحفہ گولڑویہ ص۱۱۲، خزائن ج۱۷ ص۲۰۵ حاشیہ) پر لکھا ہے کہ: ’’خداتعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چھپانے کے لئے ایک ایسی ذلیل جگہ تجویز کی جو نہایت متعفن اور تنگ اور تاریک اور حشرات الارض کی نجاست کی جگہ تھی (استغفراﷲ) مگر حضرت مسیح کو آسمان پر جو بہشت کی جگہ اور فرشتوں کی ہمسائیگی کا مکان ہے بلالیا۔‘‘ نیز یہ کہ مرزامحمود نے اپنی کتاب (دعوت الامیر ص۱۳۳) پر لکھا ہے کہ: ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں پر اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم زمین میں یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اور تنقیص ہے۔‘‘
جواب: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان پر جانا اور حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا زمین میں مدفون ہونا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بلندی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے زمین کا انتخاب کرنا پستی کی دلیل نہیں۔ غرض یہ کہ کسی کا اوپر ہونا یا کسی کا نیچے ہونا اس سے عظمت یا تنقیص لازم نہیں آتی۔ کوئی اوپر ہو یا نیچے جس کی جو شان ہے وہ برقرار رہے گی۔ آسمان والوں کی زیادہ شان ہو اور زمین والوں کی کم، مرزائیوں کی یہ بات عقلاً ونقلاً غلط ہے۔
الف… فرشتے آسمانوں میں رہتے ہیں اور انبیاء علیہم السلام زمین میں مدفون ہیں اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ فرشتے انبیاء علیہم السلام سے افضل ہیں۔ فرشتے آسمانوں پر ہیں اور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم روضہ طیبہ میں۔ حالانکہ جبرائیل امین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دربان تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اﷲتعالیٰ نے زمین پر آباد کر کے عالم ملکوت کے سردار جبرائیل کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خادم بنادیا اور عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر چڑھا کر پھر مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری میں زمین پر بھیج دے تویہ سب اس کے اختیار میں ہے۔
ب… ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں پر مدینہ طیبہ کے بازار میں حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سوار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو کندھوں پر اٹھایا ہوا تھا۔ جس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم نے ارشاد فرمایا کہ حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم تمہیں سواری اچھی ملی ہے۔ اس کے جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم اگر سواری اچھی ہے تو سوار بھی اچھا ہے۔ تو کیا حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں پر سوار ہونا اس سے یہ لازم آتا ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل تھے؟ نہیں اور ہرگز نہیں۔ اس طرح فتح مکہ کے موقع پر کعبہ شریف سے بتوں کو ہٹانے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے پر سوار ہوئے تو کیا اس سے یہ لازم آتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل تھے؟
ج… صحابہ کرامi نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو روضہ طیبہ میں دفن کیا۔ اس وقت صحابہi زمین کے اوپر تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زیرزمین۔ کیا اس سے صحابہi کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ہونا لازم آتا ہے؟
د… امتی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ پر کھڑے ہوکر سلام عرض کرتے ہیں۔ اس وقت امتی زمین پر ہوتے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم زیرزمین۔ تو کیا اس سے یہ لازم آتا ہے کہ امتی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ہیں؟ نہیں اور ہر گز نہیں۔ غرض یہ کہ اﷲ رب العزت نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جو شان بخشی ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر حال میں برقرار رہے گی۔ چاہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں پر کوئی سوار ہو یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے کندھے پر سوار ہوں۔ جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی رات ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کے کندھوں پر بیٹھ کرسواری کی۔
(بلا تشبیہ) موتی دریا کی تہہ میں ہوتے ہیں اور گھاس پھوس تنکے اور جھاگ سمندر کی سطح پر ہوتے ہیں تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ تنکے یا جھاگ موتیوں سے افضل ہوں یا جیسے مرغی زمین پر ہوتی ہے لیکن کوا اور گدھ فضا میں اڑتے ہیں۔ ان کے فضا میں اڑنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ کوّا اور گدھ مرغی سے افضل ہوں یا جیسے رات کو آدمی سوتا ہے تو رضائی اس کے اوپر ہوتی ہے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ رضائی انسان سے افضل ہو، بادام کا سخت چھلکا اوپر ہوتا ہے اور مغز اندر تو اس سے لازم نہیں آتا کہ مغز سے چھلکا افضل ہو۔
ہ… باقی رہا مرزائیوں کا یہ کہنا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا زمین میں مدفون ہونا اس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تنقیص لازم آتی ہے تو ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ اہل سنت کے نزدیک رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم جس مبارک مٹی میں آرام فرمارہے ہیں اس مٹی کی شان عرش سے بھی زیادہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہائش گاہ کا نام قرآن میں حجرات آیا ہے آسمان پر تو شیطان بھی جانے کی راہیں بناتا ہے۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں تو بغیر اجازت کے فرشتے کو بھی قدم رکھنے کی اجازت نہیں۔
و… مرزائیوں کے منہ بند کرنے کے لئے یہ واقعہ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ قادیان کے قادیانی مرگھٹ کی جب چاردیواری نہیں تھی تو لوگ چشم دید واقعہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے دیکھا کہ کتا مرزاقادیانی کی قبر پر پیشاب کر رہا ہے۔ کیا اس سے یہ لازم آتا ہے کہ وہ مرزاقادیانی سے افضل ہوگیا؟
جواب: بعض کو بعض پر بعض کو کل پر فضیلت ہوتی ہے۔ بعض خصوصیات ہوتی ہیں۔ خصوصیت کی تعریف یہ ہے: ’’یوجد فیہ ولا یوجد فی غیرہ‘‘
تمام انبیاء علیہم السلام میں سب سے افضل واعلیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ لیکن بعض انبیاء کو جزئی فضیلت حاصل تھی۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کل فضیلت کے ہرگز مخالف نہیں۔ اس پر پوری امت کا ایمان وعقیدہ ہے۔
الف… آدم علیہ السلام کی عمر ۹۳۰برس۔ سیدنا نوح علیہ السلام کی ہزاربرس اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ۶۳برس تو کیا اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہے؟ نہیں ہرگز نہیں۔
ب… سیدنا مسیح بغیر باپ کے کنواری مائی مریم علیہا السلام سے پیدا ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد گرامی تھے تو یہ عیسیٰ علیہ السلام کی خصوصیت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک نہیں۔
ج… موسیٰ علیہ السلام کو کلیم اﷲ فرمایا گیا۔ بغیر واسطہ جبرائیل علیہ السلام کے موسیٰ علیہ السلام کو ذات باری سے ہم کلامی کا شرف نصیب ہوا۔ یہ ان کی خصوصیت تھی۔ دیگر انبیاء علیہم السلام بشمول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی کی اس میں ہتک نہیں۔
د… حدیث شریف میں ہے کہ قیامت کے دن ایک مرحلہ پر سب لوگ بیہوش ہو جائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے پہلے میں اٹھوں گا۔ مگر موسیٰ علیہ السلام کو دیکھوں گا کہ وہ عرش کا پایہ تھامے کھڑے ہیں۔ یہ موسیٰ علیہ السلام کی خصوصی فضیلت ہوئی۔ اس میں کسی دیگر کی ہتک نہیں۔
ہ… سیدنا یونس علیہ السلام تین دن رات مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہے۔ کوئی اور نہیں۔ یہ ان کی خصوصی فضیلت وشرف ہوا۔ دیگر کی ہتک نہیں۔
غور طلب یہ امر ہے کہ ان تمام خصوصی فضائل کے باوجود تمام انبیاء علیہم السلام شب معراج یا کل قیامت کے روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت وسیادت کے زیرسایہ ہوں گے۔
وہ مسیح علیہ السلام جن کی رفعت جسمانی آسمانوں سے پار گئی۔ وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں شامل ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمہ کا ورد کریں گے تو فرمائیے شان کن کی اعلیٰ وافضل؟
جواب: قادیانیو! تم مکان کی وجہ سے مکین کی عزت سمجھتے ہو۔ ہم مکین کی وجہ سے مکان کی عزت کے قائل ہیں۔ ’’ لَا اَقْسِمُ بِہٰذَا الْبَلَدْ ‘‘ ہمارے مؤقف پر نص صریح ہے۔

قادیانی سوال:۲۶​

جب کہ دیگر تمام انبیاء کو اﷲتعالیٰ نے اسی دنیا میں رکھ کر شر اعداء سے محفوظ رکھا تو حضرت مسیح علیہ السلام کی کیا خصوصیت تھی کہ انہیں آسمان پر اٹھالیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کیوں نہ اٹھالیا؟
الجواب: چونکہ امر مقدر یونہی تھا کہ حضرت مسیح علیہ السلام نہ صرف بلا باپ پیدا ہونے کے بلکہ ایک عرصہ دراز تک زندہ رہنے اور آسمان پر اٹھائے جانے کے نشان قدرت بنائے جائیں اور آخری زمانہ میں ان کے ہاتھ سے خدمت اسلام لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو دوبالا کیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ مرتبہ ہے کہ مستقل اور صاحب شریعت وکتاب رسول بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کو اپنی سعادت سمجھیں۔ حتیٰ کہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے ہوکر امام الصلوٰۃ بھی بنیں اور گواہی دیں کہ ’’ تَکْرِمَۃَ اللّٰہِ ہٰذِہِ الْاُمَّۃِ (مشکوٰۃ باب نزول عیسٰی علیہ السلام) ‘‘ اس لئے اﷲتعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان پر اٹھالیا۔

مرزائیوں سے ایک سوال​

صاحبان! آپ مسیح کی ولادت بلاباپ کو مانتے ہیں۔ جیسا کہ مرزاقادیانی کی تصریحات موجود ہیں۔ پس بتلائیے کہ کیا وجہ ہے، خدا نے دیگر انبیاء علیہم السلام کو تو ماں باپ دونوں کے ذریعہ پیدا کیا۔ مگر مسیح علیہ السلام کو بلاباپ، جو جواب تم اس کا دو گے اسی کے اندر ہمارا جواب موجود ہے۔
۲… حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو روح اﷲ فرمایا گیا ہے اور روح کا تعلق آسمان سے ہے۔ اس لئے ان کو آسمانوں پر اٹھانا ہی قرین انصاف تھا۔

قادیانی سوال:۲۷​

یاجوج ماجوج سے مراد مرزاقادیانی نے روس اور امریکہ لیا ہے۔ نیز کہ یاجوج ماجوج پر عذاب نازل ہوگا۔ حالانکہ ان کو تبلیغ نہیں ہوئی۔
جواب: یاجوج ماجوج ایک قوم ہے۔ کہاں ہے؟ اس کے ہم ذمہ دار نہیں۔ بے شمار ایسی چیزیں ہیں جن کی ابھی تک دریافت نہیں ہوئی۔ اس کا یہ معنی تو نہیں کہ جس چیز کا ہمیں علم نہ ہو وہ چیز بھی نہ ہو۔ مرزاقادیانی نے بھی لکھا ہے کہ: ’’عدم علم سے عدم شئی لازم نہیں آتا۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۱۷، خزائن ج۲۲ ص۱۲۰)
آج سے ڈیڑھ دو سو سال پہلے امریکہ کا کسی کو علم نہ تھا۔ آج اگر دجال کے گدھے کی کیفیت ایک عجوبہ معلوم ہوتی ہے تو یاد رکھئے کہ کل یہ عجوبہ نہ ہوگا۔ ایک سفر میں مجھے ایک ماہی پروری کے پروفیسر ناروے میں ملے۔ انہوں نے بتایا کہ سائبریا میں ایسی مچھلی پائی جاتی ہے جو بیک وقت اڑھائی ہزار انسان کا لقمہ بناسکتی ہے۔ فرمائیے! آج سے ایک صدی پہلے کوئی یہ بات کہتا تو دنیا کیا سے کیا طوفان قائم کر دیتی۔
آدم علیہ السلام کی اوّلین اولاد کو کوئی کہتا کہ لوہا فضا میں پرواز کرے گا۔ کون مانتا۔ مگر آج ایک حقیقت ہے آپ کی سوچ اور اعتراض چیونٹی جیسے ہیں۔ جس کے کان میں کہہ دیا جائے کہ ہاتھی سومن وزن اٹھاسکتا ہے تو وہ تڑپ تڑپ کر مر جائے گی۔ مرزائی بھی ہزار تڑپیں یاجوج ماجوج ایک قوم ہیں۔ گدھا اتنے فاصلے کے کانوں والا ہوگا۔ مجھے اپنی آنکھوں دیکھی چیز پر شبہ ہوسکتا ہے مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر شبہ نہیں ہوسکتا۔
آپ کا یہ کہنا کہ یاجوج ماجوج کو تبلیغ نہیں ہوئی تو پھر ان پر عذاب کیوں آئے گا۔ یہ بھی غلط ہے۔ ان کو تبلیغ ہوچکی ہے۔ اس کا ثبوت بھی حدیث شریف میں ہے کہ وہ ہر روز اس دیوار کو چاٹتے ہیں بالآخر تھک کر چلے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ باقی کل، مگر ان شاء اﷲ نہیں کہتے۔ جس روز ان کا خروج اﷲ رب العزت کو منظور ہوگا تو وہ اس دن ان شاء اﷲ کہیں گے کہ باقی دیوار کل ان شاء اﷲ گرائیں گے۔ ان کا ان شاء اﷲ کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کو تبلیغ ہوچکی ہے۔

قادیانی سوال:۲۸​

مرزاقادیانی نے کہا کہ وہ گدھا دجال کی ملکیت ہوگا نہ کہ اس کی سواری۔
جواب: اگر دجال سے مراد انگریز ہیں اور ان کے گدھے سے مراد ریل ہے اور وہ ملکیت ہوگی نہ کہ سواری، اس کا معنی یہ ہے کہ ریل صرف انگریز کی ملکیت ہوتی اور وہ بھی اس پر سواری نہ کرتے۔ نمبر۲ کسی اور کی ملکیت نہ ہوتی۔ پھر حدیث شریف میں ملکیت کا لفظ نہیں بلکہ یہ ہے کہ وہ ایک گدھے پر سوار ہوگا جس کے دونون کانوں کا درمیانی فاصلہ چالیس ہاتھ ہوگا۔
(مسند احمد، حاکم)
سواری کے الفاظ کو آپ جس طرف ہیر پھیر کریں یہ تحریف کے زمرہ میں آئے گا۔ گدھے کے ایک کان سے دوسرے کان تک چالیس ہاتھ کا فاصلہ ہوگا۔ قادیانی کہتے ہیں کہ ریل اتنی لمبی ہوتی ہے۔ یہ دلیل ہے کہ مراد ریل گاڑی ہے۔ ایک کان سے دوسرے کان تک اتنا لمبا فاصلہ ہوگا۔ ظاہر ہے کہ مراد اس سے چوڑائی ہے نہ کہ لمبائی۔ ریل گاڑی جتنی چاہے لمبی ہو چوڑائی تو کہیں بھی چالیس ہاتھ نہیں ہے۔ دجال کے گدھے کے پیٹ میں قمقمے جلتے ہوں گے۔ یہ مرزاطاہر کی کذب بیانی ہے۔ کہیں نہیں لکھا۔ ہمت ہے تو حوالہ لائیں۔ ’’ وان لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتقوا النار ‘‘
۲… مرزاقادیانی نے ریل گاڑی کو دجال کا گدھا کہا۔ عمر بھر اس کی مرزا سواری کرتا رہا۔ حتیٰ کہ مرنے کے بعد آخری سفر اس کی نعش کا اسی گدھے پر ہوا۔ مرزاعمر بھر جسے دجال کا گدھا کہتارہا اس پر آخری سواری کر کے خود دجال ثابت ہوا۔

قادیانی سوال:۲۹​

حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں پر کیا کھاتے ہوں گے یا پیتے ہوں گے۔ کہاں رفع حاجت کرتے ہوں گے؟
جواب: جو میزبان ہواس کو مہمان کی فکر ہوتی ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں پر مہمان ہیں۔ اﷲ رب العزت ان کے میزبان ہیں۔ جن کے میزبان اﷲتعالیٰ ہوں اس کے بارے میں قادیانیوں کو اس کی فکر نہیں کرنی چاہئے۔ مرزائی کرم فرما۔ اس طرح سوال کرتے ہیں کہ کھاتے کیا ہوں گے جس طرح کہ مرزائیوں نے وہاں آسمانوں پر ہوٹل کھولنا ہو کہ ان کی مرضی کی ڈش تیار کریں۔ کبھی کہتے ہیں کہ جی حجامت بڑھ گئی ہوگی۔ جس طرح مرزائیوں نے وہاں پر حمام کھولنا ہو۔ کبھی کہتے ہیں کہ جی عیسیٰ علیہ السلام پیشاب کہاں کرتے ہوں گے۔ ایسے بیہودہ اعتراض کا مولانا ثناء اﷲ امرتسری رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہ جواب دیا تھا کہ اﷲتعالیٰ نے فلش سسٹم کا انتظام کر کے آسمانوں سے گٹر کا پائپ لگا کر مرزاقادیانی کی قبر میں فٹ کر دیا ہے۔ خیر یہ تو ہوا لطیفہ اب جواب سنئے۔
حدیث شریف میں ہے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک وقت آئے گا کہ کھانے پینے کی تمام اشیاء پر دجال کا قبضہ ہو گا۔ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم پھر مسلمان کیا کھائیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو وہ غذا کفایت کرے گی جو آسمان والوں کی عذا ہے۔ صحابہ کرامi نے عرض کیا کہ آقا آسمان والوں کی کیا غذا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اﷲتعالیٰ کی تحمید وتقدیس۔ (مشکوٰۃ ص۴۷۷، باب العلامات بین یدی الساعۃ بحوالہ ابوداؤد الطیالسی واحمد)
اس حدیث شریف نے عقدہ حل کر دیا کہ آسمان والوں کی غذا تحمید وتقدیس باری تعالیٰ ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں پر ہیں تو ان پر آسمان والوں کے احکام جاری ہوتے ہیں۔
جواب: ۲… انسانی وملکوتی دونوں صفات سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام متصف ہیں۔ کیونکہ والدہ مریم انسان تھیں۔ اس لحاظ سے ان میں بشری صفات ہوئیں۔ بغیر باپ کے پیدا ہوئے روح القدس کی پھونک سے تو ملکوتی صفات بھی ہوئیں۔ جب تک زمین پر تھے انسانی تقاضوں پر عمل کر کے کھاتے پیتے تھے اور آسمانوں پر ملکوتی صفات کا مظہر ہیں تو ان کی غذا حمد وتقدیس ہے۔ جب واپس تشریف لائیں تو زمین پر پھر انسانی صفات کے مطابق کھانا شروع کر دیں گے۔
جواب: ۳… (نورالحق ج۱ ص۵۱، خزائن ج۸ ص۶۹) پر ہے: ’’ ہذا ہو موسٰی فتی اللّٰہ الذی اشار اللّٰہ فی کتابہ الٰی حیاتہ وفرض علینا ان نؤمن بانہ حی فی السماء ولم یمت ولیس من المیتین ‘‘ یہ وہی موسیٰ مرد خدا ہے جس کی نسبت قرآن مجید میں اشارہ ہے کہ وہ زندہ ہے اور ہم پر فرض ہوگیا کہ ہم اس بات پر ایمان لائیں گے کہ وہ زندہ آسمانوں پر موجود ہے اور مردوں میں سے نہیں۔ یہ عبارت اور ترجمہ مرزاقادیانی کا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام آسمانوں پر زندہ موجود ہیں اورکہتا ہے کہ قرآن سے ثابت ہے اور اس پر ایمان لانا مرزائیوں پر فرض ہے تو جناب عالیٰ! جو موسیٰ علیہ السلام آسمانوں پر کھاتے ہوں گے وہی عیسیٰ علیہ السلام، جو کچھ موسیٰ علیہ السلام پیتے ہوں گے وہی عیسیٰ علیہ السلام، جہاں وہ حجامت بنواتے ہوں گے وہاں سے عیسیٰ علیہ السلام، غرض یہ کہ تمام ضروریات ایک ساتھ پوری کرتے ہوں گے۔ اس حوالہ کو ہم ’’ایٹم بم‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں کہ جس سے پوری مرزائیت کی عمارت دھڑام سے نیچے گر جاتی ہے۔ جو اشکال عیسیٰ علیہ السلام کی حیات پر کرتے ہیں ان تمام کا توڑ یہ حوالہ ہے جس کا کوئی مرزائی جواب نہیں دے سکتے۔ اب رہا مرزاقادیانی کا یہ کہنا کہ موسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں تو اس ضمن میں درخواست ہے کہ مرزاقادیانی کی عادت تھی کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات میں مخالفت کرتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بدترین ازلی ابدی دشمن تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نبوت بند ہے۔ مرزاقادیانی نے کہا کہ نہیں جاری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جہاد جاری ہے۔ مرزاقادیانی نے کہا کہ نہیں بند ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے حق کی قسم عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔ مرزاقادیانی نے کہا کہ حق کی قسم مرگیا ابن مریم۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے۔ مرزاقادیانی نے کہا کہ نہیں زندہ آسمانوں پر ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں محل نبوت کی آخری اینٹ ہوں۔ مرزاقادیانی نے کہا کہ نہیں میں آخری اینٹ ہوں۔
روضہ آدم کہ تھا وہ نامکمل اب تلک
میرے آنے سے ہوا کامل بجملہ برگ و بار​
(درثمین ص۱۳۵)​
مرزاقادیانی نے خطبہ الہامیہ (تختی کلاں ص۱۱۲، خزائن ج۱۶ ص۱۷۸) پر کہا ہے کہ وہ آخری اینٹ میں ہوں۔
جواب: ۴… رئیس المکاشفین حضرت عبدالوہاب شعرانی رحمہ اللہ تعالیٰ (الیواقیت والجواہر ج۲ ص۱۴۶) میں اس کا جواب لکھتے ہیں: ’’ فان قیل فما الجواب عن استغنآئہ عن الطعام والشراب مدۃ رفعہ فان اللّٰہ تعالٰی قال وما جعلنا ہم جسدًا لا یاکلون الطعام؟ والجواب ان الطعام انما جعل قوتًا ان یعیش فی الارض لانہ مسلط علیہ الہواء الحار والبارد فینحل بدنہ فاذا انحل عوضہ اللّٰہ تعالٰی بالغذاء اجراء لعادتہٖ فی ہٰذہ للحظۃ الغبراء واما من رفعہ اللّٰہ الٰی السمآء فانہ یلطفہ بقدرتہ ویغنیہ عن الطعام والشراب کما اغنی الملٰئکۃ عنہما فیکون حینئذٍ طعامہ التسبیح وشرابہ التہلیل کما قال صلی اللہ علیہ وسلم انی ابیت عند ربی یطعمنی ویسقینی وفی الحدیث مرفوعًا ان بین یدی الدجال ثلاث سنین الخ۔ فکیف بالمومنین حینئذٍ فقال یجزئہم ما یجزی اہل السماء من التسبیح والتقدیس ‘‘ اگر کہا جائے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ رفع میں کھانے پینے سے مستغنی ہونے کا کیا جواب ہے؟ اس لئے کہ اﷲتعالیٰ نے فرمایا ہے: ’ ’مَاجَعَلْنٰہُمْ جَسَدًا لاَّ یَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ ‘‘ جواب یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ نے طعام کو زمین پر پر معیشت پوری کرنے کے لئے قوت بنایا ہے۔ کیونکہ یہاں اس پر ہوا گرم اور سرد مسلط ہے۔ اس کے بدن کو تحلیل کرتی ہے۔ جب تحلیل ہوتا ہے تو اﷲتعالیٰ غذا سے اس کا عوض پیدا کرتا ہے۔ اس زمین میں اس کی یہ عادت جاری ہے۔ لیکن وہ شخص جس کو اﷲتعالیٰ نے آسمان پر اٹھالیا اس کو اپنی قدرت سے نوازتا ہے اور کھانے پینے سے بے پرواہ کرتا ہے۔ جیسے فرشتوں کو بے پرواہ کیا۔ پس اس وقت اس کا طعام تسبیح اور پانی اس کا تہلیل ہوگا۔ جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میں اپنے رب کے پاس رات گزارتا ہوں کہ مجھ کو اﷲتعالیٰ کھلا پلا دیتا ہے اور حدیث میں مرفوعاً روایت ہے کہ دجال سے تین برس پہلے قحط پڑے گا۔ اسی حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیاگیا کہ اس وقت جب مسلمانوں کے پاس کھانے پینے کو کچھ نہ ہوگا تو ان کا کیا حال ہوگا؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو کفایت کرے گا وہ کھانا جو آسمان والوں کو کیفیت کرتا ہے۔ یعنی تسبیح اور تقدیس۔‘‘ حضرت شیخ رحمہ اللہ تعالیٰ نے پہلے فلسفی دلیل سے سمجھا دیا اور پھر حدیث مرفوع بھی بیان کر دی کہ دجال کے زمانہ میں مومنین کو اہل سماء کی طرح صرف تسبیح وتقدیس ہی غذا کا کام دے گی۔ حضرت شیخ رحمہ اللہ تعالیٰ نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ ایک بزرگ ’’خلیفۃ الخراط‘‘ نامی کا جو بلاد مشرق کے شہروں میں سے ایک شہر ابہر میں رہتے تھے ذکر فرمایا کہ اس نے ۲۳سال سے برابر کچھ نہیں کھایا تھا اور دن اور رات عبادت الٰہی میں مشغول رہتا تھا اور کسی طرح کا ضعف بھی لاحق نہیں ہوا تھا۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام کے لئے تسبیح وتہلیل کی غذا ہونے میں کیا تعجب ہے؟ ’’ قال الشیخ ابوالطاہر وقد شاہد نار جلاً اسمہ خلیفۃ الخراط کان مقیمًا بہر من بلاد المشرق مکث لا یطعم طعامًا منذ ثلاث وعشرین سنۃ وکان یعبد اللّٰہ لیلا ونہارًا من غیر ضعف فاذا علمت ذلک فلا یبعدان یکون قوت عیسٰی علیہ السلام التسبیح والتہلیل واللّٰہ اعلم جمیع ذٰلک (الیواقیت ج۲ ص۱۴۶) ‘‘ مرزاقادیانی نے یہ کیونکر سمجھ لیا کہ ایک غذا کے بدلنے سے فوت ہونا لازم آتا ہے۔ روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ تمام حیوان ماں کے پیٹ میں خون سے پرورش پاتے ہیں اور خون ہی طعام ان کا ہوتا ہے۔ جب ماں کے پیٹ سے باہر آتے ہیں تو صرف دودھ ان کی غذا وطعام اور وجہ پرورش ہوتی ہے اور جب اس سے بھی بڑے ہوتے ہیں تو اناج وگھاس ومیوہ جات ان کا طعام وغذا ہوتے ہیں۔ کیا کوئی باحواس آدمی کہہ سکتا ہے کہ ماں کے پیٹ سے باہر آکر انسان یا دیگر حوانات فوت ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ ’ ’کَانَا یَاْکُلَانِ الطَّعَاَم ‘‘ نہیں رہتے۔ اس لئے کہ خون کی غذا بند ہو اجاتی ہے اور صرف دودھ ہی ملتا ہے۔ جب دودھ ملتا ہے تو کیا مرجاتے ہیں یا دودھ کا موقوف ہونا وفات کی دلیل ہے۔ ہرگز نہیں کیونکہ مشاہدہ ہے کہ غذا کے بدلنے سے کوئی فوت نہیں ہوتا۔ جب یہ امر ثابت ہے کہ غذا کے بدلنے سے کوئی فوت نہیں ہوتا۔ موت لازم نہیں ہوتی تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی غذائے زمینی سے غذائے آسمانی کیونکر باعث موت ہوسکتی ہے؟ یاکیونکر مرزاقادیانی کو معلوم ہوا کہ آسمان پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو طعام وغذا نہیں ملتی؟
جواب: ۵… جب قرآن سے ثابت ہے کہ لگا لگایا خوان آسمان سے بنی اسرائیل کی درخواست اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا سے اترا۔ (دیکھو قرآن میں کس طرح مفصل ذکر ہے) تو پھر مومن قرآن تو انکار نہیں کر سکتا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی آسمانوں پر کھانا ملنا محال ہو۔

قادیانی سوال:۳۰​

قادیانی حیات مسیح علیہ السلام پر گفتگو کے لئے کہہ دیتے ہیں کہ آپ عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر زندہ ثابت کر دیں تو مسئلہ ختم۔
جواب: ۱… میرے بھائی! دنیا میں کئی ایسے فرقے موجود ہیں جو عیسیٰ علیہ السلام کو فوت شدہ مانتے ہیں۔ (۱)یہودی۔ (۲)عیسائی۔ ان میں سے بعض کا عقیدہ ہے کہ فوت ہوئے پھر زندہ ہوکر آسمانوں پر گئے تو موت کے وارد ہونے کے وہ بھی قائل ہیں۔ (۳)پرویزی۔ (۴)سرسید اور ان کے خیالات کے نیچری۔ (۵)قادیانی۔ تو پہلے آپ ارشاد فرمائیں کہ اگر وفات مسیح ہی آپ کی الجھن ہے تو ان پانچ میں سے آپ نے قادیانیت کیوں قبول کی اور باقی فرقوں کو نظرانداز کیوں کیا؟ کیونکہ اگر وفات مسیح ہی آپ کی الجھن ہے تو آپ یہودی ہو جاتے۔ عیسائی ہو جاتے۔ جو پہلے سے وفات کے قائل ہیں آپ قادیانی کیوں ہوئے؟ آپ جب وجہ بیان کریں گے تو پھر بات آگے بڑھے گی۔ کیونکہ آپ کے جواب سے میں ثابت کروں گا کہ اصل میں آپ کی الجھن وفات مسیح نہیں بلکہ مرزاقادیانی کا روگ ہے جو آپ کو لگ گیا۔ اس لئے پہلے مرزاقادیانی پر بحث ہوگی۔
جواب: ۲… مرزاقادیانی نے اپنی کتاب (ازالہ اوہام ص۱۴۰، خزائن ج۳ ص۱۷۱) پر لکھا ہے کہ: ’’اوّل تو جاننا چاہئے کہ مسیح کے نزول کا عقیدہ کوئی ایسا عقیدہ نہیں ہے جو ہمارے ایمانیات کی کوئی جزو یا ہمارے دین کے رکنوں میں سے کوئی رکن ہو۔ بلکہ صدہا پیش گوئیوں میں سے ایک پیش گوئی ہے جس کو حقیقت اسلام سے کچھ بھی تعلق نہیں۔‘‘ تو دیکھئے مرزاقادیانی کے نزدیک جب یہ مسئلہ ایمانیات سے نہیں تو پھر اس پر اتنا زور کیوں؟
جواب: ۳… اگر حیات وممات مسیح علیہ السلام پر گفتگو کرنی ہے تو مرزاقادیانی بھی مسیح ہونے کا مدعی ہے۔ مسیح علیہ السلام کی حیات پر خوب بحث ہوچکی۔ اب نئے مسیح (معاذ اﷲ) مرزاقادیانی کی حیات وممات پر بحث ہونی چاہئے۔ ہمارے نزدیک اس کی حیات بھی لعنتی تھی اور ممات بھی لعنتی تھی۔

قادیانی سوال:۳۱​

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہوں گے۔ جب پہلے تشریف لائے تھے تو نبی تھے۔ اب تشریف لائیں گے تو امتی ہوں گے۔ قیامت کے دن ان کی کیا پوزیشن ہوگی۔ نبی کی یا امتی کی؟ اس لئے کہ اگر قیامت کے روز نبی کی حیثیت سے حشر ہو، تو فوتگی بحیثیت امتی کے ہوئی تھی اور اگر حشر بحیثیت امتی کے ہوا تو وہ آپ کی امت جن کی طرف آپ پہلے نبی بن کر تشریف لائے تھے اور انہوں نے آپ کو نبی مانا تھا وہ کہاں جائیں گے۔ اس لئے کہ حدیث شریف میں ہے کہ قیامت کے دن امتی اپنی نبی کے جھنڈے کے نیچے ہوں گے۔
جواب: اس کا بھی جواب ہماری کتابوں میں موجود ہے۔ (الیواقیت والجواہر ج۲ ص۷۳) میں ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا دو دفعہ حشر ہوگا۔ ایک دفعہ بحیثیت نبی کے جھنڈا لے کر اپنی امت کا حساب کرائیں گے۔ دوسری بار رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے کھڑے ہو کر اپنا حساب کتاب پیش کریں گے۔

قادیانی سوال:۳۲​

’’ لوکان موسٰی وعیسٰی حیین لما وسعہما الاتباعی (الیواقیت ج۲ ص۲۲) ‘‘ ابن کثیر اور شرح فقہ اکبر مصری نسخہ میں یہ روایت موجود ہے۔ اس سے ثابت ہواکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں۔
جواب: ۱… یہ غلط اور مردود قول ہے۔ کسی حدیث کی کتاب میں نہیں ہے۔ آج تک کوئی مرزائی اس کی سند پیش نہیں کر سکا۔ جن تینوں کتابوں کا ذکر کیاگیا ہے ان میں سے کوئی بھی حدیث کی کتاب نہیں۔ یہ حدیثیں دوسروں سے روایت کرتے ہیں۔ اگر یہ حدیث ہوتی تو کسی حدیث کی کتاب میں موجود ہوتی۔
۱… ابن کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ باسند روایت کرتے ہیں مگر انہوں نے بھی اس کو بے سند لکھا ہے۔
۲… یہ کہ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ میں بااسناد صحیحہ متعدد مقامات پر احادیث صحیحہ ونصوص قطعیہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات کے مسئلہ کو بیان کیاگیا ہے۔ یہ دلیل ہے اس بات کی کہ اس بے سند روایت کو نقل کرتے ہوئے ان سے سہو ہوا ہے۔ الیواقیت نے فتوحات مکیہ کا حوالہ دیا ہے۔ اب اگر قادیانیوں میں دیانت نام کی کوئی چیز ہے تو فیصلہ آسان ہے کہ الیواقیت نے جو ماخذ بیان کیا ہے اس کو دیکھ لینا چاہئے۔ سو فتوحات مکیہ میں ’’ لوکان موسٰی حیً ا‘‘ ہے۔ یہ دلیل ہے اس امر کی کہ الیواقیت میں سہو کاتب سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام آگیا ہے۔
اسی طرح شرح فقہ اکبر کے صرف مصری نسخہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام ہے۔ ہندوپاک اور دیگر دنیا بھر کے شرح فقہ اکبر کے نسخوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام نہیں۔
۳… اسی شرح فقہ اکبر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات کا مسئلہ ہے جو دلیل ہے اس امر کی کہ اس نسخہ میں غلطی اور سہو کاتب سے عیسیٰ علیہ السلام کا نام آگیا ہے۔
۴… شرح فقہ اکبر کی اس روایت کا بھی قادیانیوں میں دیانت نام کی کوئی چیز ہو تو آسانی سے فیصلہ ہوسکتا ہے۔ اس لئے کہ شرح فقہ اکبر میں ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ مصری نسخہ کے مطابق ’’ لوکان عیسٰی حیًا لما وسعہ الااتباعی وبینت وجہ ذالک عند قولہ فاذ اخذ اللّٰہ فی شرح شفاء (فقہ اکبر ص۹۹ مصری طبع) لو کان عیسٰی حیًا لما وسعہ الاتباعی ‘‘ کی تشریح ہم نے ’’ فاذا اخذ اللّٰہ ‘‘ کی بحث شرح شفاء میں کر دی ہے۔
اب شرح شفاء کو دیکھ لیتے ہیں کہ اس میں کیا ہے تو (شرح شفاء ج۱ فصل۷) میں آیت: ’’ اذا اخذ اللّٰہ ‘‘ میثاق النّبیین کے تحت لکھا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کو تورات پڑھتے دیکھا تو فرمایا کہ: ’’ لوکان موسٰی حیًا ما وسعہ الا اتباعی ‘‘ (شرح شفاء ج۱ ص۱۱۵ طبع بیروت)
تو مسئلہ واضح ہوگیا کہ مصری نسخہ فقہ اکبر میں ’’ لوکان موسٰ ی‘‘ کی جگہ غلطی اور سہو کاتب سے عیسیٰ لکھا گیا ہے۔ اب ذیل میں حضرت ملا علی قاری کی تصریحات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات پر ملاحظہ ہوں۔
۱… موضوعات کبیر میں جو ۱۲۸۹ھ میں طبع ہوئی تھی۔ حدیث: ’’ لوعاش ابراہیم لکان صدیقًا نبیا ‘‘ پر بحث کرتے ہوئے اس حدیث پر ختم کرتے ہیں۔ ’’لوکان موسٰی حیًا لما وسعہ الا اتباعی‘‘ (ص۶۷)
۲… (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ مطبوعہ مصر ج۱ ص۲۵۱) میں تحریر فرماتے ہیں: ’’ لوکان موسٰی حیً ا‘‘
۳… ’’ فینزل عیسٰی ابن مریم من السماء ‘‘ (مرقاۃ ج۵ ص۱۶۰، مطبوعہ مصر)
۴… ’’ نزول عیسٰی من السماء ‘‘ (فقہ اکبر مطبوعہ مصر ص۹۲، طبع ۱۳۲۳ھ، مطبع مجیدی کانپور ۱۳۴۵ھ)
اسی طرح تفسیر ابن کثیر، الیواقیت، فتوحات مکیہ کے لکھنے والے تمام حضرات کا اسی متذکرہ کتب میں صراحت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات کا ذکر کرنا،اور مرزائیوں کا اسے تسلیم نہ کرنا اور بے سند مردود قول سے استدلال کرنا یہ اس امرکو واضح کرتا ہے کہ صرف اعتراض برائے اعتراض برائے مغالطہ وبرائے شبہ ان کا مقصد ہے۔ اگر دیانت نام کی کوئی چیز ان میں ہوتی تو وہ اس کو پیش نہ کرتے۔
جواب: ۲… اب اصل واقعہ کو ملاحظہ فرمائیں جس سے تمام استدلال کی حقیقت واضح ہو جائے گی۔ ایک دن رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم آئے انہیں کہیں سے تورات کے چند اوراق ملے تھے۔ انہوں نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا تذکرہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منشاء معلوم ہونے سے قبل ان کی تلاوت شروع فرمادی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت مبارک پر یہ گراں گزرا۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم جو رمز شناس نبوت تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا تأثر معلوم کر کے فوراً حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کو ٹوکا۔ فرمایا کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم تجھے تیری ماں روئے کیا تو رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک سے ناراضگی کا اندازہ نہیں کرتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم نے تورات کے اوراق کی تلاوت بند کر دی اور فوراً کہا ’’ رضیت باللّٰہ ربا وباالاسلام دینًا وبمحمدٍ نبیً ا‘‘ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم : ’’ لوکان موسٰی حیًا لما وسعہ الا اتباعی ‘‘ تورات کی بات نہیں آج اگر صاحب تورات حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی زندہ ہوتے تو ان کو بھی میری اتباع کے بغیر چارہ کار نہ ہوتا۔ صحیح روایت یہ ہے۔
(رواہ احمد والبیہقی فی شعب الایمان مشکوٰۃ ص۳۰، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ)
جواب: ۳… موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے جیسا کہ معراج کی رات اتباع کی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں وہ تشریف لائیں گے تو اتباع کریں گے۔ ’’ یحکم بشرعنا لا بشرعہ ‘‘
جواب: ۴… پھر دیکھئے قادیانیوں کی بدبختی کی انتہاء کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔ بدبخت مرزاقادیانی کہتا ہے کہ وہ فوت ہوگئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے۔ مرزاقادیانی کہتا ہے کہ زندہ ہیں۔ حوالہ گزر چکا ہے۔
مرزائی جس روایت کو بیان کرتے ہیں۔ مرزاقادیانی کے حوالہ نے اس کی تردید کر دی۔ پس یہ روایت مرزائیوں کے لئے بھی وجہ استدلال نہیں ہوسکتی۔ اس لئے وہ اس مردود قول سے موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ اس حوالہ میں مرزاقادیانی نے موسیٰ علیہ السلام کی حیات ثابت کر دی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات قرآن وسنت نے بیان کر دی۔ پس مرزائیوں کے لئے یہ مردود قول بھی وجہ استدلال نہ رہا۔
جواب: ۵… اگر یہ روایت صحیح ہوتی تو قرآن وسنت اور اجماع امت کے حوالہ جات کے بعد اس کی توجیہ یہ کی جاتی۔ ’’ لوکان موسٰی وعیسٰی حیین (علی الارض) لما وسعہما الاتباعی ‘‘ غرض کہ کسی بھی طرح سے لیں۔ مرزائیوں میں یہ جس طرح ایمان نہیں ہے اس طرح اس قول میں جان نہیں ہے۔ ( فافہم وکن من الشکرین )
جواب: ۶… تمام طرق اور متابعات اور شواہد دلالت کرتے ہیں کہ اس حدیث میں ذکر عیسیٰ علیہ السلام کی کچھ اصل نہیں ہے اور کتب حدیث میں جہاں مسند روایتیں روایت کے ساتھ نقل کی جاتی ہیں۔ کہیں اس لفظ کا پتہ نہیں۔ صرف موسیٰ علیہ السلام کا ذکر ہے۔ (فتح الباری ج۱۳ ص۲۸۱) ’’ باب قولہ صلی اللہ علیہ وسلم لا تسالوا اہل الکتٰب عن شیئٍ وہو فی المسند ج۳ ص۳۳۸، عن جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم ، واخرجہ ابونعیم عن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم ذکرہ فی الخصائص ج۲ ص۱۸۷ (وکنزالعمال ج۱ ص۲۰۱، حدیث نمبر۱۰۱۰) وحاشیۃ ابی داؤد للمغربی من الملاحم وشرح المواہب وشرح الشفاء للقاری فی مواضع والدر المنثور تحت اٰیۃ المیثاق مسند الدارمی (مشکوٰۃ ص۳۰، باب بالکتاب والسنۃ) ‘‘ پس یہ قطعاً سہو کاتب اور زلّۃ قلم ہے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

قادیانی سوال:۳۳​

ہمیں قادیانیوں کا یک ورقی چھوٹا سا اشتہار ملا ہے۔ جس کا عنوان ہے: ’’تلاش کریں‘‘ ان پیش گوئیوں کا مصداق کون اور کہاں ہے۔ اس میں قادیانیوں نے سب سے پہلے نمبر پر ابن ماجہ کی روایت نقل کی ہے۔ ’’ لا مہدی الا عیسٰی ‘‘ یعنی مہدی اور مسیح ایک ہے۔
جواب: ۱… یہ روایت ابن ماجہ کے ص۲۹۲ (مطبع نور محمد آرام باغ کراچی) پر ہے۔ اس کے حاشیہ پر شاہ عبدالغنی مجددی فرماتے ہیں: ’’ قال الذہبی فی المیزان ہذا خبر منکر تفردبہ یونس بن عبدالاعلی عن شافعی… قال حدثت عن الشافعی فہو علی ہذا منقطع الا ان جماعۃ ردوہ عن یونس قال حدثنا عن الشافعی والصحیح انہ لم یسمعہ منہ ومحمد بن خالد قال الازدی منکر الحدیث وقال الحاکم مجہول… قال الحافظ جمال الدین المزی فی التہذیب قال ابوبکر بن زیاد ہذا حدیث غریب… قد تواترت الاخبار واستفاضت بکثرۃ رواتہا عن المصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم فی المہدی وانہ من اہل بیتہ وانہ یملک، سبع سنین ویملاء الارض عدلا وانہ یخرج مع عیسٰی ابن مریم فیساعدہ علی قتل الدجال بباب لد بارض فلسطین وانہ یؤم ہذہ الامۃ وعیسٰی علیہ السلام یصلی خلفہ… فانہ غیر معروف عند اہل اکصناعۃ من اہل العلم والنقل۔ وقال البیہقی ہٰذا حدیث تفرد بہ محمد بن خالد الجندی۔ قال ابو عبداللّٰہ الحافظ وہو رجل مجہول… وہو مجہول… عن ابان ان ابی عیاش وہو متروک… وروی الحافظ ابو القاسم بن عساکر فی تاریخ دمشق باسنادہ عن احمد بن محمد بن راشد قال حدثنی ابو الحسن علی ابن محمد بن عبداللّٰہ الواسطی قال رایت محمد بن ادریس الشافعی فی المنام فسمعتہ یقول کذب علی یونس۔ فی حدیث الجندی حدیث الحسن عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی المہدی قال الشافعی ما ہذا من حدیثی ولا حدثت بہ کذب علی یونس وقال البیہقی فی کتاب بیان خطاء من اخطاء علی الشافعی ہذا الحدیث بما انکر علی الشافعی… وہو یقول کذب علی یونس لیس ہذا من حدیثی… وہذا الحدیث فیما یظہر ببادی الرائی مخالف لا حادیث الواردۃ فی ثبات مہدی غیر عیسٰی بن مریم ‘‘
اس طویل اقتباس سے ذیل کی باتیں روایت متذکرہ بالا میں معلوم ہوئیں۔
۱… ذہبی رحمہ اللہ تعالیٰ نے میزان میں فرمایا ہے کہ یہ خبر منکر ہے۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ سے یونس بن عبدالاعلیٰ اکیلے روایت کرتے ہیں۔ (باقی کسی نے نقل نہیں کیا)
۲… حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ سے یہ روایت منقطع ہے۔ علاوہ ازیں ایک جماعت اس کو رد کرتی ہے۔
۳… حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ سے یونس روایت کرتے ہیں جب کہ صحیح یہ ہے کہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ سے ان کا سماع (سرے سے) نہیں۔
۴… رازی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ منکر الحدیث ہے۔
۵… حاکم رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ مجہول ہے۔
۶… حافظ جمال الدین رحمہ اللہ تعالیٰ نے تہذیب میں ابوبکر بن زیاد کے حوالے سے فرمایا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔
۷… احادیث متواترہ جنہیں کثرت سے مختلف راوی حضرات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت مہدی علیہ السلام کے بارہ میں روایت کرتے ہیں کہ وہ (مہدی) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت سے ہوں گے۔ سات سال تک حکمرانی کریں گے۔ عدل وانصاف سے زمین کو بھردیں گے۔ اور وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ (ایک زمانہ میں) ظہور فرمائیں گے اور دجال کو مقام لدارض فلسطین میں قتل کرنے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مدد فرمائیں گے اور وہ (مہدی) اس امت کے امام ہوں گے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کے مقتدی ہوں گے۔ (یہ تمام تفصیلات جو احادیث میں مذکور ہیں بتاتی ہیں کہ حضرت مہدی علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام دو علیحدہ شخصیات ہیں)
۸… فن حدیث کے ماہرین اور اہل علم وعقل کے نزدیک یہ روایت غیرمعروف (غیرمقبول) ہے۔
۹… امام بیہقی رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک محمد بن خالد جندی (دوسرا راوی) کا تفرد ہے۔
۱۰… حافظ ابو عبداﷲ فرماتے ہیں یہ مجہول شخص ہے۔
۱۱… اور متروک ہے۔
۱۲… تاریخ دمشق میں ابن عساکر (سند بیان کر کے) فرماتے ہیں کہ علی بن محمد بن عبداﷲ واسطی رحمہ اللہ تعالیٰ نے خواب میں حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کو دیکھا وہ فرماتے ہیں کہ یونس نے مجھ پر جھوٹ بولا ہے۔ مہدی کے بارہ میں یہ روایت نہ میری ہے نہ میں نے اسے بیان کیا ہے۔ یونس نے مجھ پر جھوٹ بولا ہے۔
۱۳… بیہقی فرماتے ہیں کہ یہ امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ پر افتراء ہے۔ امام صاحب اس سے بری ہیں یونس نے ان پر کذب باندھا ہے یہ ان کی روایت نہیں۔
۱۴… نیزیہ کہ نظر بہ ظاہر یہ روایت ان تمام روایات کے مخالف ہے۔ جن سے یہ ثابت ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے علاوہ ہیں۔
اب قارئین غور فرمائیں کہ کس طرح قادیانی روایت مکذوبہ، متروکہ کی بنیاد پر تمام احادیث صحیحہ کو نظرانداز کرکے اپنے عقیدہ کی دیوار ریت کے گھروندہ پر قائم کرنے کے درپے ہیں۔
انصاف نام کی کوئی چیز، یا دیانت نام کی کوئی چیز قادیانیوں میں ہوتی تو وہ احادیث صحیحہ متواترہ جن میں حضرت مہدی علیہ السلام کا نام، ولدیت، جائے پیدائش، جائے ظہور، مدت قیام، کارہائے مفوضہ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام، والدہ کا نام، نزول من السماء، جگہ نزول اور بعد از نزول کارہائے کارکردگی کی تفصیل مذکور ہے۔ ان کے ہوتے ہوئے اس مکذوبہ، متروکہ روایت کا نام بھی نہ لیتے لیکن مقدر کی مار اسی کو کہتے ہیں کہ اپنے مطلب کے خلاف روایات متواترہ ہوں تو ان کو رد کر دیتے ہیں۔ اپنے عقیدہ کے مطابق غیرصحیح جھوٹی روایت ہو تو اس کو قبول کر لیتے ہیں۔
جواب: ۲… ’’ابن ماجہ‘‘ کے حاشیہ پر اس روایت کی بحث کا آخری حصہ یہ ہے کہ: ’’ بل یکون المراد ان المہدی حق الہدی ہو عیسٰی ابن مریم ولا ینفی ذالک ان یکون غیرہ مہدیا ‘‘ (اگر یہ روایت صحیح بھی ہوتی تو اس کا محمل یہ ہوتا) کہ یہاں مہدی سے مراد ہدایت یافتہ ہے۔ (یعنی مہدی نام مراد نہیں صفت مراد ہے) سب سے زیادہ ہدایت یافتہ (اپنے زمانہ میں) عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام ہوں گے۔ (یہ ان کی صفت ہے اس کا یہ معنی نہیں) کہ ان کے علاوہ اور کوئی مہدی نہیں ہوگا۔
جواب: ۳… مہدی نام کا ایک شخص معہود ہے جس کا احادیث میں تذکرہ ہے۔ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے علاوہ ہے۔ جہاں تک لغوی معنوں کے اعتبار سے (ہدایت یافتہ) لفظ مہدی کا تعلق ہے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کے متعلق فرمایا کہ ’’ اللہم اجعلہ ہاد یا مہدیا ‘‘ اے اﷲ معاویہ کو ہادی مہدی بنادے۔ یہاں لغوی معنی مراد ہے نہ کہ نام (علم) کا ذکر ہے اور خود مسند احمد کی روایت میں انہیں معنی میں عیسیٰ علیہ السلام کو ’’اماماً مہدیاً‘‘ فرمایا گیا اور دوسری روایات میں ’’ حکماً عدلاً وحکماً مقسطاً ‘‘
جواب: ۴… اگر یہ روایت صحیح ہوتی تو پھر احادیث متواترہ جو حضرت مہدی علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی علیحدہ علیحدہ شخصیات پر واضح دلیل ہیں۔ ان کی روشنی میں اس کا معنی یہ کیا جاتا: ’’ لا مہدی الافی زمن عیسٰی علیہ السلام ‘‘ یعنی مہدی نہیں ہوگا مگر عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں (یعنی مہدی کے ظہور اور مسیح کے نزول کا زمانہ ایک ہوگا) اور ظہور ونزول کے بعد دونوں مل کرکارہائے مشترکہ انجا دیں گے۔ دجال کو قتل کریں گے۔ روئے زمین پر عدل وانصاف سے حکمرانی کریں گے۔ وغیرہ ذالک! غرض یہ کہ کسی بھی اعتبار سے دیکھا جائے تو قادیانیوں کا اعتراض برائے اعتراض ہے اس میں کوئی شمع بھر بھی صداقت نہیں پائی جاتی۔
جواب: ۵… مرزاقادیانی نے اپنی کتاب (حمامۃ البشریٰ ص۸۹، خزائن ج۷ ص۳۱۴،۳۱۵) پر لکھا ہے کہ: ’’ واما احادیث محبیٔ المہدی فانت تعلم انہا کلہا ضعیفۃ مجروحۃ ویخالف بعضہا بعضا حتی جاء حدیث فی ابن ماجۃ وغیرہ من الکتب انہ لا مہدی الا عیسٰی بن مریم فکیف یتکاء علی مثل ہذہ الاٰحادیث مع شدۃ اختلافہا وتناقضہا وضعفہا والکلام فی رجالہا کثیرا کما لا یخفی علی المحدثین ‘‘ مہدی کی آمد کے بارے میں تمام روایات ضعیف اور مجروح ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف ہیں۔ حتیٰ کہ ابن ماجہ کی روایت ’’ لا مہدی الا عیسٰی ‘‘ بھی ان جیسی روایت ہے۔ ان روایات پر کیسے اعتماد کر لیا جائے۔ ان کے شدت اختلاف وتناقض اور ضعف کے باعث ان روایات کے رجال میں سخت کلام ہے۔ جیسا کہ محدثین پر مخفی نہیں۔‘‘
قادیانی صاحبان! غور فرمائیں آپ کا گرو مرزاقادیانی صرف اس روایت کو ہی نہیں بلکہ تمام روایات مہدی کو ضعیف ومتناقض قرار دے رہا ہے۔ اب غیرمعتبر روایات کو بنیاد بناکر صفات مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ایک شخصیت قرار دینا مرزائیوں کے لئے جائے عبرت وجائے تماشا ہے ؎
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن مرزے کا تو بن
غرضیکہ یہ روایت غلط ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں جس طرح کہ مرزائیوں کے ایمان وعقیدہ کی کوئی حقیقت نہیں۔

قادیانی سوال:۳۴​

اسی یک ورقی پمفلٹ پر قادیانیوں نے ذیل کی علامات لکھ کر ذیل کا نتیجہ نکالا ہے۔
O اسلام نام کا باقی رہ جائے گا۔ قرآن صرف رسماً ہوگا۔ مساجد بکثرت ہوں گی۔ مگر ہدایت سے خالی، علماء روئے زمین پر بدترین مخلوق ہوں گے۔ (مشکوٰۃ)
O دین کا علم اٹھ جائے گا۔ شراب کا عام استعمال ہوگا۔ زنا کی کثرت، مردوں کی کمی عورتوں کی زیادتی ہوگی۔ (بخاری)
O میری امت پہلے لوگوں یعنی یہود ونصاریٰ کے قدم بقدم چلے گی۔ (بخاری)
O نیک عمل گھٹ جائیں گے۔ بخیلی دلوں میں سما جائے گی۔ فتنے فساد پھوٹیں گے۔ قتل اور خون ریزی بہت ہوگی۔ (بخاری)
O امانتیں غنیمت سمجھی جائیں گی۔ زکوٰۃ چٹی ہوگی۔ مرد بیویوں کے ماتحت ہوں گے۔ ماں کے خلاف۔ دوست کے نزدیک اور باپ سے دور۔ قوم کے سردار فاسق ہوں گے اور رئیس کمینے ہوں گے۔ گانے بجانے زیادہ ہوں گے۔ (مشکوٰۃ)
O پہاڑ اڑائے جائیں گے۔ دریاؤں سے نہریں نکالی جائیں گی۔ اونٹ اونٹنیاں بیکار ہو جائیں گے۔ چڑیا گھر قائم ہوں گے۔ کتب واخبارات بکثرت شائع ہوں گے۔ دوردور کے لوگ جمع ہوں گے۔ (القرآن)
O دجال اور یاجوج ماجوج کا ظہور ہوگا۔ یعنی عیسائیت کا مذہبی اور سیاسی فتنہ غلبہ پائے گا۔
O دجال کا گدھا نئی سواری ظاہر ہوگی۔ جس کا مدار آگ اور پانی پر ہوگا۔ (مجمع البحار، طبرانی)
O بنی اسرائیل کے ۷۲؍فرقے ہوئے۔ میری امت کے ۷۳؍فرقے ہوں گے۔ (مشکوٰۃ)
O صلیبی مذہب عیسائیت کا غلبہ ہوگا۔ (بخاری، ترمذی)
O مذہبی جنگوں کا خاتمہ ہوگا۔ جزیہ اٹھالیا جائے گا۔ (بخاری)
O طاعون کی مرض پھیلے گی۔ ظلم فخر سے کیا جائے گا۔ امیر فاجر ہوں گے۔ وزیر خیانت کریں گے۔ اراکین ظالم ہوں گے۔ (کنزالعمال)
O عورتیں باوجود لباس کے ننگی ہوں گی۔ عورتیں منبروں پر چڑھ کر لیکچر دیں گی۔ (کنزالعمال)
O عورتیں مردوں کی اور مرد عورتوں کے ہم شکل ہوں گے۔
یہ چند اہم نشانات ہیں جو ظہور پذیر ہوچکے ہیں اور بنی نوع انسان کو دعوت دیتے ہیں کہ مدعی مہدویت ظاہر ہوچکا ہے اور اس کی صداقت کے ثبوت کے لئے شواہد بھی ظاہر ہوچکے ہیں۔
جواب: ۱… قادیانیت اور دیانت میں تضاد ہے جس طرح رات دن جمع نہیں ہو سکتے۔ اس طرح قادیانیت اور دیانت بھی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتی۔ قادیان کے قحبہ خانہ میں ہر شخص باون گز کا ہے۔ جتنا بڑا قادیانی ہوگا اتنا بڑا بددیانت ہوگا۔ بھلا ان شریفوں سے کوئی پوچھے کہ یہ حضرت مہدی علیہ السلام کی علامات ہیں یا قیامت کی۔ اگر ان علامتوں سے ظاہر ہوا کہ مہدی آگئے تو ان علامتوں سے یہ بھی ثابت ہوا کہ قیامت قائم ہوگئی۔ ماہو جوابکم فہو جوابنا!
جواب: ۲… قارئین محترم! رحمت عالم مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی دو قسم کی علامتیں بیان فرمائی ہیں۔ ایک وہ جو قیامت سے بہت پہلے ظاہر ہوں گی۔ جنہیں علامات صغریٰ کہا جاتا ہے اور دوسری وہ جو قیامت کے بہت قریب ظاہر ہوں گی جنہیں علامات کبریٰ کہا جاتا ہے۔ جو علامتیں اوپر ذکر کی گئی ہیں ان میں بھی قادیانیوں نے دجل آمیزی کی ہے۔ دجل نہ بھی ہوتا تو بھی یہ تمام کی تمام علامات صغریٰ ہیں جو قیامت سے بہت پہلے ظاہر ہونا تھیں۔ اکثر ظاہر ہوچکی ہیں۔ ابھی بہت کچھ باقی ہیں جو یقینا ظاہر ہوں گی۔ ان کے بعد علامات کبریٰ ظہور میں آئیں گی۔ جیسے ظہور مہدی، نزول عیسیٰ علیہ السلام، خروج دجال، خروج دابۃ الارض، خسف، کسف اور آخری علامات ’’طلوع الشمس من مغربہا‘‘ (سورج کا بجائے مشرق کے مغرب سے نکلنا) اور باب توبہ کا بند ہونا اور پھر قیامت کا قیام۔ یہ علامات کبریٰ احادیث سے محدثین نے قریباً دس بیان کی ہیں۔ غرض ان علامات صغریٰ وکبریٰ کو خلط کرنا قادیانی دجل کا شاہکار ہے۔ علامات صغریٰ میں سے بعض کو لے کر دلیل قائم کرنا کہ علامات کبریٰ (ظہور مہدی) ظاہر ہوگئی ہیں۔ پس وہ مرزاقادیانی ہے اس کو کہتے ہیں ؎
کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا بھان متی نے کنبہ جوڑا
پھر قادیانی اپنی عقل کو دہائی دیں کہ اگر ان علامات سے ثابت ہوا کہ مہدی آگئے تو احادیث کے مطابق ان کے بعد مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع شمس ہوگا اور قیامت قائم ہو جائے گی۔ تمہارے مزعومہ مہدی (مرزاقادیانی) کو آنجہانی ہوئے ایک صدی بیت گئی۔ پھر قیامت کیوں قائم نہ ہوئی؟ معلوم ہوا کہ ان علامات سے ظہور مہدی کی دلیل قائم کرنا دجل وکذب ہے۔ علامات صغریٰ علیحدہ امر ہے۔ علامات کبریٰ علیحدہ امر ہے۔ مہدی کا آنا اور قیامت کا نہ آنا یہ مرزائیوں کے کذب پر دلیل صریح ہے جو ان پہ استدلال کو جڑ سے اکھیڑ رہی ہے۔ البتہ اہل اسلام کے لئے وجہ اطمینان ہے کہ ہمارے نبی علیہ السلام کی احادیث وفرامین کے مطابق ان علامتوں اور ان جیسی دوسری سینکڑوں علامتوں کے ظہور کے بعد علامات کبریٰ کا ظہور ہوگا اور پھر قیامت قائم ہوگی۔ ان علامات صغریٰ کے بعد جب حضرت مہدی علیہ السلام وحضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائیں گے تو تمام برائیاں دور ہو جائیں گی۔ دنیا ایک دفعہ پھر منہاج نبوت پر مبنی معاشرہ کا نظارہ کرے گی۔ اگر قادیانیوں کے بقول مہدی آگیا تو کیا دنیا نے منہاج نبوت پر مبنی معاشرہ دیکھ لیا۔ منہاج نبوت پر مبنی معاشرہ تو درکنار، دنیا بھر کا معاشرہ تو بجائے خود، مرزائی مرزا کے گھر کی خبر لیں۔ مرزاقادیانی نے اپنی جماعت کے مریدوں کے متعلق کیا خوب منظر کشی کی ہے۔ ملاحظہ ہو۔
مرزاقادیانی نے ۲۷؍دسمبر ۱۸۹۳ء کے جلسہ کے ملتوی ہونے کا اشتہار دیا جو ان کی کتاب ’’شہادت القرآن‘‘ کے آخر پر ملحق طبع ہوا ہے۔ (شہادت القرآن ص۹۹،۱۰۰، خزائن ج۶ ص۳۹۵،۳۹۶) پر مرزاقادیانی نے اپنی جماعت کے متعلق (جو مرزاقادیانی کے نام نہاد صحابی تھے) تحریر کیا۔
’’اخی مکرمی حضرت مولوی نورالدین صاحب سلمہ تعالیٰ بارہا مجھ سے یہ تذکرہ کر چکے ہیں کہ ہماری جماعت کے اکثر لوگوں نے اب تک کوئی خاص اہلیت اور تہذیب اور پاک دلی اور پرہیزگاری اور للّٰہی محبت باہم پیدا نہیں کی۔ سو میں دیکھتا ہوں کہ مولوی صاحب موصوف کا یہ مقولہ بالکل صحیح مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض حضرات جماعت میں داخل ہوکر اور اس عاجز سے بیعت کر کے اور عہد توبہ نصوص کر کے پھر بھی ویسے کج دل ہیں کہ اپنی جماعت کے غریبوں کو بھیڑیوں کی طرح دیکھتے ہیں۔ وہ مارے تکبر کے سیدھے منہ سے السلام علیک نہیں کر سکتے۔ چہ جائیکہ خوش خلقی اور ہمدردی سے پیش آئیں اور انہیں سفلہ اور خود غرض اس قدر دیکھتا ہوں کہ وہ ادنیٰ ادنیٰ خود غرضی کی بناء پر لڑتے اور ایک دوسرے سے دست بدامن ہوتے ہیں اور ناکارہ باتوں کی وجہ سے ایک دوسرے پر حملہ ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات گالیوں تک نوبت پہنچتی ہے اور دلوں میں کینے پیدا کر لیتے ہیں اور کھانے پینے کی قسموں پر نفسانی بحثیں ہوتی ہیں۔ خادم القوم ہونا مخدوم بننے کی نشانی ہے اور غریبوں سے نرم ہوکر اور جھک کر بات کرنا مقبول الٰہی ہونے کی علامت ہے اور بدی کا نیکی کے ساتھ جواب دینا سعادت کے آثار ہیں اور غصہ کو کھا لینا اور تلخ بات کو پی جانا نہایت درجہ کی جوانمردی ہے۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ یہ باتیں ہماری جماعت کے بعض لوگوں میں نہیں بلکہ بعض میں ایسی بے تہذیبی ہے کہ اگر ایک بھائی ضد سے اس کی چارپائی پر بیٹھا ہے تو وہ سختی سے اس کو اٹھانا چاہتا ہے اور اگر نہیں اٹھتا تو چارپائی کو الٹا دیتا ہے اور اس کو نیچے گرادیتا ہے۔ پھر دوسرا بھی فرق نہیں کرتا اور وہ اس کوگندی گالیاں دیتا ہے اور تمام بخارات نکالتا ہے۔ یہ حالات ہیں جو اس مجمع میں مشاہدہ کرتا ہوں تب دل کباب ہوتا اور جلتا ہے اور بے اختیار دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ اگر میں درندوں میںر ہوں تو ان بنی آدم سے اچھا ہے۔ پھرمیں کس خوشی کی امید سے لوگوں کو جلسہ کے لئے اکٹھے کروں۔ یہ دنیا کے تماشوں میں سے کوئی تماشا نہیں۔ ابھی تک میں جانتا ہوں کہ میں اکیلا ہوں۔ بجز ایک مختصر گروہ رفیقوں کے جو دو سو سے کس قدر زیادہ ہیں۔‘‘
قادیانی صاحبان! لیجئے آپ کے مہدی نے اپنی جماعت کے دو سو افراد کے علاوہ باقی سب قادیانیوں کو جو آپ کے مہدی (مرزاقادیانی) کے ہاتھ پر بیعت بھی کر چکے تھے۔ ان کو درندوں سے بدتر قرار دے دیا۔ درندوں سے بدتر… کی زد میں یہ قادیانی ہوئے۔ درندے، خنزیر، بھیڑئیے اور یہ ان سے بھی بدتر کمال ہوگئی۔ جناب! یہ مہدی ہے اور یہ اس کا عدل وانصاف سے زمین کو بھرنے کا کارنامہ ہے۔ سوچئے اور باربار سوچئے اس کو کہتے ہیں کہ ’’جادو وہ جو سر پر چڑھ کر بولے‘‘ مرزاقادیانی اپنی جماعت قادیانیوں کے متعلق اور خوب بولے۔

ایک اشکال اور اس کا جواب​

ممکن ہے کہ کوئی قادیانی کہہ دے کہ یہ تو مرزاقادیانی کے زمانہ کی بات تھی۔ بعد میں قادیانی اچھے ہو گئے۔ تو لیجئے یہ حوالہ بھی پڑھ لیں۔ مرزاقادیانی نے ایک پیش گوئی کو اپنے پر منطبق کرتے ہوئے تحریر کیا: ’’اس کے مرنے کے بعد نوع انسانی میں علت سقم سرایت کر جائے گی۔ یعنی پیدا ہونے والے حیوانوں اور وحشیوں سے مشابہت رکھیں گے اور انسانیت حقیقی صفحہ عالم سے مفقود ہو جائے گی اور وہ حلال کو حلال نہیں سمجھیں گے اور نہ حرام کو حرام۔ پس ان پر قیامت قائم ہوگی۔‘‘ (تریاق القلوب مصنفہ مرزا ص۳۵۵، خزائن ج۱۵ ص۴۸۳)
لیجئے صاحب! بقول مرزاقادیانی کے اس زمانہ کے قادیانی درندوں سے بدتر اور اس کے (مرزاقادیانی کے) مرنے کے بعد پیدا ہونے والے قادیانی وحشیوں سے مشابہ ہیں۔ جن میں حلال وحرام کی کوئی تمیز نہ ہے۔
جواب: ۳… اس یک ورقی میں دیگر علامتوں کے علاوہ ایک علامت یہ بھی لکھی ہے کہ عورتیں باوجود لباس کے ننگی ہوں گی۔ اس پر ذیل کا حوالہ ملاحظہ ہو۔
’’وہ بھی کپڑے ہیں جو یورپ کی عورتیں پہنتی ہیں۔ جن کا نام اگرچہ کپڑا ہوتا ہے مگر جسم کا ہر حصہ اس میں سے ننگا نظر آتا ہے۔ جب میں ولایت گیا تو مجھے خصوصیت سے خیال آیا کہ یورپین سوسائٹی کا عیب والا حصہ بھی دیکھوں۔ مگر قیام انگلستان کے دوران میں مجھے اس کا موقعہ نہ ملا۔ واپسی پر جب ہم فرانس آگئے تو میں نے چوہدری ظفر اﷲ خان صاحب سے جو میرے ساتھ تھے کہا کہ مجھے کوئی ایسی جگہ دکھائیں جہاں پوریین سوسائٹی عریانی سے نظر آسکے۔ وہ بھی فرانس سے واقف تو نہ تھے مگر مجھے ایک اوپیرا میں لے گئے جس کا نام مجھے یاد نہیں رہا۔ اوپیرا سینما کو کہتے ہیں۔چوہدری صاحب نے بتایا کہ یہ اعلیٰ سوسائٹی کی جگہ ہے جسے دیکھ کر آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان لوگوں کی کیا حالت ہے۔ میری نظر چونکہ کمزور ہے اس لئے دور کی چیز اچھی طرح نہیں دیکھ سکتا۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے جو دیکھا تو ایسا معلوم ہوا کہ سینکڑوں عورتیں بیٹھی ہیں۔ میں نے چوہدری صاحب سے کہا کیا یہ ننگی ہیں۔ انہوں نے بتایا یہ ننگی نہیں بلکہ کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ مگر باوجود اس کے وہ ننگی معلوم ہوتی تھیں تو یہ بھی ایک لباس ہے۔ اس طرح ان لوگوں کے شام کی دعوتوں کے لباس گاؤں ہوتے ہیں۔ نام تو اس کا بھی لباس ہے۔ مگر اس میں سے جسم کا ہر حصہ بالکل ننگا نظر آتا ہے۔‘‘
(اخبار الفضل قادیان مورخہ ۲۸؍جنوری ۱۹۳۴ء)
مہدی کے آنے سے قبل ایسے لباس ہوں گے یا مہدی کے آنجہانی ہونے کے بعد اس کے خلیفہ ان عریاں لباسوں کو دیکھیں گے؟ اس کا جواب قادیانیوں کے ذمہ ہے۔

قادیانی سوال:۳۵​

قادیانی رسالہ یک ورقی میں ہے کہ مہدی کے زمانہ میں ایک دم دار ستارہ نکلے گا اور یہ کہ وہ ۱۸۸۸ء میں نکلا۔
جواب: اس دم دار ستارہ کا حضرت مہدی علیہ الرضوان سے کیا تعلق؟ اس کا حوالہ قادیانی پی گئے۔ ورنہ اس کی حقیقت مرزاقادیانی کی خود ساختہ مہدویت کے پرخچے اڑادیتی۔ لیجئے! اگر دم دار ستارے ہی مہدی کی علامت ہیں تو مرزاقادیانی کو مر کر صدی ہوئی۔ آنجہانی جہنم مکانی ہوگیا۔ مگر دم دار ستارے ابھی ظاہر ہورہے ہیں۔ ابھی حال میں دو ماہ ہوئے ایک دم دار ستارہ مشرق سے مغرب کی طرف حرکت کر کے غروب آفتاب کے بعد ظاہر ہوتا رہا ہے۔ بہت سے لوگوں نے دیکھا خود فقیر (اﷲوسایا) نے بھی دیکھا ہے۔ اب فرمائیے کہ اس دم دار ستارے کا مہدی کون ہے؟ لاحول ولا قوۃ الا باللّٰہ!

قادیانی سوال:۳۶​

رفع کا معنی: رفع کے حقیقی اور لغوی معنی جب کہ رفع کا مورد کوئی جسم ہوتا ہے تو رفع جسمانی ہی کے ہوتے ہیں۔ ’’ قال الراغب فی المفردات الرفع یقال تارۃ فی الاجسام الموضوعۃ اذا أعلیتہا من مقرہا نحو رفعنا فوقکم الطور، وقولہ تعالٰی اللّٰہ الذی رفع السمٰوٰت بغیر عمدٍ، وتارۃ فی البناء اذا اطولتہا نحو قولہ تعالٰی واذ یرفع ابراہیم القواعد من البیت واسمعیل، وتارۃ فی الذکر اذا نوہتہ نحو قولہ تعالٰی ورفعنا لک ذکرک، وتارۃ فی المنزلۃ اذا شرفتہا نحو قولہ تعالٰی رفعنا بعضہم فوق بعض درجت، نرفع درجت من نشاء ہ رفیع الدرجت انتہی کلامہ ‘‘ (تاج العروس ج۱۱ ص۱۸۱، مفردات ص۱۹۹)
’’امام راغب نے مفردات میں فرمایا ہے کہ رفع کا کبھی جسم میں استعمال ہوتا ہے جس کو تو اس کی جگہ سے اوپر اٹھائے جیسے: ’’ رَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّوْر (البقرۃ:۶۳) ‘‘ یعنی ہم نے تمہارے اوپر طور کو اٹھالیا اور ’’ قولہ تعالی اللّٰہ اَلَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ (الرعد:۲) ‘‘ یعنی وہ ذات جس نے بغیر ستون کے آسمانوں کو اٹھالیا، اور کبھی بنا میں استعمال ہوتا ہے جس کو تو طویل کرے۔ جیسے ’’ اِذْ یَرْفَعُ اِبْرَاہِیْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَاِسْمٰعِیْل (البقرۃ:۱۲۷) ‘‘ یعنی جب ابراہیم واسماعیل علیہم السلام بیت اﷲ شریف کی بنیاد کو اٹھاتے تھے، اور کبھی ذکر میں استعمال ہوتا ہے جب تو اس کی مدح کرے اور اس کو شہرت اور عزت دے جیسے ’’رَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ (الم نشرح:۴)‘‘ یعنی ہم نے تیرے ذکر کو بلند کیا، اور کبھی مرتبہ میں استعمال ہوتا ہے جب تو کسی کو بلند درجہ عطاء کرے یا بلند درجہ بیان کرنا چاہے۔ جیسے ’’ رَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰت (الزخرف:۳۲) ‘‘ یعنی ہم نے بعض کے مرتبہ کو بعض پر بلند کیا۔ ’ ’نَّرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَشَآئُ (انعام:۸۳) ‘‘ یعنی ہم جس کو چاہتے ہیں درجہ بلند کرتے ہیں۔ ’’ رفیع الدرجٰت (غافر:۱۵) ‘‘ بلند مرتبہ والا۔ لہٰذا آیت: ’’ رَفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْ ہِ‘‘ میں کہیں درجات کا لفظ تک نہیں اور نہ کوئی قرینہ صارفہ ہے۔ محض اپنی خود غرضی سے روح یا درجہ کا رفع مراد لینا نصوص قطعیہ سے اعراض ہے۔ حدیث شریف میں ہے۔ (۱)’’ لا یرفع ثوبہ حتّٰی یدنوا من الارض ‘‘ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم رفع حاجت کے لئے اپنا کپڑا نہیں اٹھاتے تھے۔ یہاں تک کہ زمین کے قریب ہوتے تھے۔ (مجمع البحار ج۲ ص۳۵۷ رفع) (۲)’’ کان یکثر ان یرفع طرفہ الی السماء ‘‘ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم انتظار وحی میں اکثر اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھاتے تھے۔ (مجمع البحار ج۲ ص۳۵۸) (۳)’’ فرفع الٰی رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم الصبی ونفسہ تقعقع (مشکوٰۃ ص۱۵۰، باب البکاء علی المیت) ‘‘ یعنی لڑکے کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اٹھا کر لایا گیا اور اس کا سانس اکھڑ رہا تھا۔ اور تیز حرکت کر رہا تھا۔ (۴)’ ’فرفعہ الٰی یدہ لیراہ الناس ‘‘ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کو اپنے ہاتھ میں لے کر بلند کیا تاکہ لوگ اس کو دیکھیں (مجمع البحار ج۲ ص۳۵۶) (۵)’’ لا ترفعن رؤسکن حتّٰی یستوی الرجال جلوسًا ‘‘ (حوالہ مذکورہ) یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے فرمایا تھا کہ اپنے سروں کو سجدے سے مت اٹھایا کرو۔ یہاں تک آدمی برابر سیدھے بیٹھ جائیں۔ (۶)’’ ارفع یدک فرفع یدہ فاذا ایۃ الرجم (بخاری ج۲ ص۱۰۰۷) ‘‘ یعنی عبداﷲ بن سلام نے یہودی سے فرمایا کہ اپنا ہاتھ تو اٹھا اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا اس کے نیچے آیت رجم نکلی۔ (۷)’’ رفع یدیہ، رفع راسہ ‘‘ کثرت سے احادیث میں آیا ہے۔ (۸)(بخاری شریف ج۲ ص۵۸۷، باب غزوۃ الرجیع ورعل وذکوان وبئر معونۃ) میں عامر بن فہیرہ کا بیر معونہ کے دن شہید ہونے کے بعد بجسد عنصری آسمان کی طرف اٹھ جانا درج ہے۔ ’’قال لقد رأیتہ بعد ماقتل رفع الی السماء حتی انی لا نظر الٰی السماء بینہ وبین الارض ثم وضع‘‘ یعنی میں نے قتل ہو جانے کے بعد ان کو دیکھا کہ آسمان کی طرف اٹھائے گئے۔ یہاں تک کہ میں نے ان کو زمین وآسمان میں معلق دیکھا۔ پھر رکھے گئے۔ (۹)حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ صاحبزادی امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا بنت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنھا کو کندھے پر اٹھا کر نماز پڑھی۔ ’’ فاذا رکع وضعہا واذا رفع رفعہا ‘‘ یعنی جب رکوع کو جاتے اتار دیتے تھے اور جب سجدہ سے فارغ ہو کر اٹھتے تھے تو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کو کندھے پر اٹھا لیتے تھے۔ (بخاری ج۲ ص۸۸۶، باب رحمۃ الولد وتقبیلہ ومعانقتہ) (۱۰)’’ قد رفع اکلتہ الٰی فیہ فلا یطعمہا (بخاری ج۲ ص۱۰۵۵، باب خروج النار) ‘‘یعنی اچانک قیامت قائم ہو جائے گی کہ ایک شخص لقمہ منہ کی طرف اٹھائے گا وہ اس کو کھا نہیں سکے گا۔‘‘
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

قادیانی سوال:۳۷​

اﷲ فاعل، ذی روح مفعول، توفی کا معنی موت اس چیلنج کو کوئی نہیں توڑ سکا۔
جواب: اگرکسی موقع پر دوسرے دلائل ایسے موجود ہوں جن کے پیش نظر توفی کے حقیقی معنی لئے جاسکتے ہوں یا حقیقی کے ماسوا دوسرے معنی بن ہی نہ سکتے ہوں تو اس مقام پر خواہ فاعل ’’اﷲتعالیٰ‘‘ اور مفعول ’’ذی روح انسان‘‘ ہی کیوں نہ ہو وہاں حقیقی معنی ’’پورا لے لینا‘‘ ہی مراد ہوں گے۔ مثلاً:
۱… آیت: ’’ اللّٰہ یتوفی الانفس حین موتہا والتی لم تمت فی منامہا (زمر:۴۲) ‘‘ اﷲ پورا لے لیتا ہے جانوں کو ان کی موت کے وقت اور ان جانوں کو جن کو ابھی موت نہیں آئی ہے۔ پورا لے لیتا ہے نیند میں۔ ’’والتی لم تمت‘‘ کے لئے بھی لفظ ’’توفی‘‘ بولا گیا یعنی ایک جانب یہ صراحت کی جارہی ہے کہ یہ وہ جانیں (نفوس) ہیں جن کو موت نہیں آئی اور دوسری جانب یہ بھی بصراحت کہا جارہا ہے کہ اﷲتعالیٰ نیند کی حالت میں ان کے ساتھ ’’توفی‘‘ کا معاملہ کرتا ہے تو یہاں اﷲ فاعل ہے۔ ’’متوفی‘‘ اور نفس انسانی مفعول ہے۔ ’’متوفی‘‘ مگر پھر بھی کسی صورت سے ’’توفی بمعنی موت‘‘ صحیح نہیں ہیں ورنہ تو قرآن کا جملہ ’’ والتی لم تمت ‘‘ العیاذ باﷲ مہمل ہوکر رہ جائے گا۔ یا مثلاً:
۲… ’’ وہو الذی یتوفکم بالیل ویعلم ما جرحتم بالنہار (انعام:۶۰) ‘‘ اور وہی (اﷲ) ہے جو پورا لے لیتا یا قبضہ میں کر لیتا ہے تم کو رات میں اور جانتا ہے جو تم کماتے ہو دن میں۔ اس میں بھی کسی طرح توفی بمعنی موت نہیں بن سکتے۔ حالانکہ فاعل اﷲ اور مفعول ذی روح انسانی نفوس ہیں۔ فعل توفی اور معنی نیند کے ہیں۔ یا مثلاً
۳… آیت: ’’ حتی اذا جاء احدکم الموت توفتہ رسلنا (انعام:۶۱) ‘‘ یہاں تک کہ جب آتی ہے تم میں سے ایک کسی کو موت، قبض کر لیتے ہیں یا پورا لے لیتے ہیں اس کو ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) میں ذکر موت ہی کا ہو رہا ہے۔ لیکن پھر بھی توفتہ میں توفی کے معنی موت کے نہیں بن سکتے۔ ورنہ بے فائدہ تکرار لازم آئے گا۔ یعنی ’’احدکم الموت‘‘ میں جب لفظ ’’موت‘‘ کا ذکر آچکا تو اب ’’ توفتہ ‘‘ میں بھی اگر توفی کے معنی موت ہی کے لئے جائیں تو ترجمہ یہ ہوگا۔ ’’یہاں تک کہ جب آتی ہے تم میں سے ایک کسی کو موت، موت لے آتے ہیں ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) اور ظاہر ہے کہ اس صورت میں دو بار لفظ موت کا ذکر بے فائدہ ہے اور کلام فصیح وبلیغ اور معجز تو کیا روزمرہ کے محاورہ اور عام بول چال کے لحاظ سے بھی پست اور لاطائل ہو جاتا ہے۔ البتہ اگر ’’توفی‘‘ کے حقیقی معنی ’’کسی شئے پر قبضہ کرنا یا اس کو پورا لے لینا‘‘ مراد لئے جائیں تو قرآن عزیز کا مقصد ٹھیک ٹھیک ادا ہوگا اور کلام بھی اپنے حد اعجاز پر قائم رہے گا۔‘‘
اب ہر ایک عاقل غور کر سکتا ہے کہ یہ دعویٰ کرنا کہ ’’توفی‘‘ کے حقیقی معنی موت کے ہیں۔ خصوصاً جب کہ فاعل خدا ہو اور مفعول ذی روح کہاں تک صحیح اور درست ہے؟
۴… ان تین مقامات کے علاوہ سورۂ بقرہ کی آیت نمبر۲۸ ’’ ثم توفی کل نفس بما کسبت ‘‘ پھر پورا دیا جائے گا ہر ایک نفس کو جو کچھ اس نے کمایا ہے۔
اور سورۃ نحل کی آیت نمبر:۱۱۱ ’’ وتوفی کل نفس ما عملت ‘‘ اور پورا دیا جائے گا ہر نفس کو جو کچھ اس نے کمایا ہے۔ میں بھی توفی کا فاعل اﷲتعالیٰ اور مفعول ’’نفس انسانی‘‘ ہے تاہم یہاں بھی توفی بمعنی موت نہیں بن سکتے اور یہ بہت واضح اور صاف بات ہے۔ ’’ یا وفیت کل نفس ماکسبت وہم لا یظلمون (اٰل عمران:۲۵) یا فاما الذین آمنوا وعملوا الصلحٰت فیوفیہم اجورہم (اٰل عمران:۵۷) ‘‘
غرض ان آیات میں باوجود اس امر کے کہ ’’توفی‘‘ کا فاعل اﷲتعالیٰ اور اس کا مفعول انسان یا نفس انسانی ہے پھر بھی باجماع اہل لغت وتفسیر ’’موت کے معنی‘‘ نہیں ہوسکتے۔ خواہ اس لئے کہ دلیل اور قرینہ اس معنی کے خلاف ہے اور یا اس لئے کہ اس مقام پر توفی کے حقیقی معنی (پورا لے لینا) یا قبض کر لینا کے ماسوا ’’موت کے معنی‘‘ کسی طرح بن ہی نہیں سکتے۔
تو مرزا قادیانی کا یہ دعویٰ کہ ’’توفی‘‘ اور ’’موت‘‘ مرادف الفاظ ہیں یا یہ کہ توفی کا فاعل اگر اﷲتعالیٰ اور مفعول انسان یا نفس انسانی ہو تو اس جگہ صرف ’’موت‘‘ ہی کے معنی ہوں گے۔ دونوں دعویٰ باطل اور نصوص قرآن کے قطعاً مخالف ہیں۔ ’’ فہاتوا برہانکم ان کنتم صدقین ‘‘
۵… قاعدہ: مرزاقادیانی نے یہ قاعدہ افتراء کیا ہے۔ دنیا کی کسی کتاب میں یہ قاعدہ مذکور نہیں۔ زیادہ نہیں چودہ صدیوں کے مسلمہ مجددین میں سے کسی ایک مجدد کی کتاب سے ہی قادیانی یہ قاعدہ دکھا دیں ورنہ اقرار کریں کہ یہ مرزاقادیانی کی دجالانہ اختراع تھی۔
۶… مرزاقادیانی نے کہا کہ اﷲ فاعل ذی روح مفعول تو فی کا معنی سوائے موت کے اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ گویا مرزاقادیانی نے اعتراف کر لیا کہ توفی کا حقیقی معنی موت نہیں۔ ورنہ ان شرائط کی کیا ضرورت تھی؟
بالفاظ دیگر مرزاقادیانی نے تسلیم کر لیا کہ توفی میں جہاں اﷲ فاعل نہ ہو۔ یا ذی روح مفعول نہ ہو وہاں اس کا معنی موت نہیں ہوگا۔ مرزاقادیانی کا اتنی بات تسلیم کرنا دلیل ہے۔ اس امر کی کہ توفی کا حقیقی معنی موت نہیں۔ ورنہ حقیقی معنی کبھی شرائط کا محتاج نہیں ہوتا۔
۷… مرزاقادیانی نے (براہین احمدیہ ص۵۱۹، خزائن ج۱ ص۶۲۰) پر لکھا ہے: ’’یا عیسٰی انی متوفیک ورافعک‘‘ میں تجھ کو پوری نعمت دوں گا اور اپنی طرف اٹھالوں گا۔‘‘ لیجئے! اﷲ فاعل ذی روح مفعول لفظ توفی لیکن خود مرزاقادیانی نے معنی موت نہیں کیا۔

مرزائیوں کو چیلنج​

اگر قاعدے ہی بنانے ہیں تو پھر ہمارا دعویٰ سنیں۔
۱… اگر فعل توفی رفع کے ساتھ مستعمل ہو اور فاعل دونوں کا اﷲ تعالیٰ ہو اور مفعول جسم ذی روح ذات واحد تو وہاں صرف اخذ جسم مع رفع جسم ہی کے معنی ہوں گے۔ کوئی دنیا کا قادیانی اس قاعدہ کو توڑ کر دکھائے۔
۲… اب ہمارا دعویٰ ہے کہ اگر توفی باب تفعل ہو۔ اﷲ اس میں فاعل ہو اور ذی روح اس کا مفعول بہ ہو جو بن باپ پیدا ہوا ہے وہاں پر توفی کا معنی پورا پورا لینا اور اٹھانا ہوگا۔ وہاں موت کا معنی نہیں ہوگا۔ کوئی قادیانی میدان میں آئے جو ہمارے اس قاعدے کو توڑ کر منہ مانگا انعام حاصل کرے۔ اگر قادیانی کہیں کہ یہ قاعدہ کہاں لکھا ہے؟ تو اس کا آسان جواب یہ ہے کہ علم نحو کی جس کتاب میں مرزاقادیانی کا قاعدہ لکھا ہوا ہے اس کے اگلے صفحہ پر ہمارے یہ قاعدے بھی لکھے ہوئے ہیں۔

مرزاقادیانی کا چیلنج قبول​

مرزاقادیانی نے لکھا: ’’اگر کوئی شخص قران کریم سے یا حدیث رسول سے یا اشعار وقصائد نظم ونثر قدیم وجدید عرب سے یہ ثبوت پیش کرے کہ کسی جگہ توفی کا لفظ خداتعالیٰ کا فعل ہونے کی حالت میں جو ذی روح کی نسبت استعمال کیاگیا ہو۔ وہ بجز قبض روح اور وفات دینے کے کسی اور معنی پر پایا گیا ہے۔ یعنی قبض جسم کے معنوں میں بھی مستعمل ہوا ہے تو میں اﷲ جل شانہ کی قسم کھا کر اقرار صحیح کرتا ہوں کہ ایسے شخص کو اپنا حصہ ملکیت کا فروخت کر کے مبلغ ہزارروپے نقد دوں گا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۹۱۹، خزائن ج۳ ص۶۰۳)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سیدنا عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری کے جواب میں فرمایا: ’’ اذا رمی الجمار لا یدری احد مالہ حتّٰی یتوفّاہ اللّٰہ عزوجل یوم القیامۃ ‘‘ جب کوئی رمی جمار (شیطانوں کو کنکریاں مارنا) کرتا ہے تو نہیں جانتا کہ اس کا کیا اجر ہے۔ حتیٰ کہ قیامت کے دن اﷲتعالیٰ اسے پورا پورا (اجر) دیں گے۔
(الترغیب والترہیب للمنذری ج۲ ص۱۶۰، باب ترغیب وقوف بعرفۃ والمزدلفۃ وفضل یوم عرفۃ، موارد الظمأن ص۲۴۰، حدیث نمبر۹۶۳)
لیجئے اس روایت میں مرزاقادیانی کی مطلوبہ تمام شرائط موجود ہیں اور توفی کا معنی موت مرزاقادیانی تو درکنار اس کا باپ بھی اس روایت میں نہیں کر سکتا۔

قادیانیوں کو چیلنج​

مرزاغلام احمد قادیانی نے (ازالہ اوہام ص۵۴۰، خزائن ج۳ ص۳۹۰) پر لکھا ہے: ’’توفی کا معنی روح کو قبض کر لینا اور جسم کو بے کار چھوڑ دینا‘‘ اس پر ہمارے مخدوم حضرت مولانا قاضی محمد سلیمان منصورپوری رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب (غایت المرام ص۷۹) پر مرزاقادیانی کو چیلنج دیا کہ: ’’ہم حیران ہیں کہ توفی کے معنی صرف ’’قبض روح‘‘ کس لغت میں ہیں۔ اگر براہ عنایت مرزاقادیانی کسی مستند کتاب لغت میں یہ الفاظ لکھے دکھا دیں کہ توفی کے معنی ’’صرف قبض روح اور جسم کو بے کار چھوڑ دینے‘‘ کے ہیں تو وہ ایک ہزار روپیہ کا انعام پانے کے مستحق ہوں گے۔ اس رقم میں ’’سراج منیر‘‘ بخوبی چھپ سکتا ہے۔‘‘
(احتساب قادیانیت ج۶ ص۲۳۵،۲۳۶)
یہ اس زمانہ کی بات ہے جب مرزاقادیانی زندہ تھا۔ ’’سراج منیر‘‘ اپنی کتاب چھاپنے کے لئے چندہ کی اپیلیں کر رہا تھا۔ مرزاقادیانی اس چیلنج کو قبول کرنے سے عاجز رہا۔ اب ہم مولانا قاضی محمد سلیمان منصورپوری رحمہ اللہ تعالیٰ کے ادنیٰ خادم ہونے کے ناتے پوری قادیانیت کو چیلنج کرتے ہیں کہ اس چیلنج کو قبول کرو اور ہم سے انعام پاؤ۔ نکلو میدان میں۔ مرد میدان بن کر سامنے آؤ اور مرزاقادیانی کی پیشانی سے ذلت وندامت کے داغ کو دھونے کے لئے کوشش کرو۔ مگر قیامت تک ایسا نہ کر سکو گے۔ ’’ہاتوا برہانکم ان کنتم صادقین‘‘

قادیانی سوال:۳۸​

رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات نہیں ہوئی بلکہ آپ کو اس طرح اٹھایا جائے گا، جیسا کہ مسیح علیہ السلام اٹھائے گئے۔ پس حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم نے ’’قد خلت من قبلہ الرسل‘‘ قرآنی آیت پڑھی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ وعنھم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر یقین ہوگیا۔ گویا عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر صحابہ رضی اللہ عنہ وعنھم کا اجماع ہوگیا۔
جواب: سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر سے ایسے وارفتہ ہوئے کہ اس پر یقین کرنا ان کے لئے مشکل ہوگیا۔ چونکہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہ وعنھم میں حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا رفع الی السماء ایسا متفق علیہ ومشہور عقیدہ تھا کہ اس پر قیاس کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسے رفع ہوگا جیسے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا۔ اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر استدلال کیا۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے رفع کا انکار نہیں کیا۔ ورنہ مقیس علیہ کا انکار کرنے سے مقیس کا خود انکار ہو جاتا کہ عیسیٰ علیہ السلام کا کہاں رفع ہوا؟ اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رفع کی خود بخود تردید ہو جاتی۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم نے رفع عیسیٰ کا انکار نہیں کیا۔ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کو ثابت کیا۔ اس پر تمام صحابہ رضی اللہ عنہ وعنھم خاموش رہے۔ گویا اجماع ہوگیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہ وعنھم کا اس امر پر کہ عیسیٰ علیہ السلام کا رفع برحق ہے۔

قادیانی سوال:۳۹​

بخاری شریف کی روایت ہے کہ قیامت کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے: ’’ فاقول کما قال العبد الصالح کنت علیہم شہیدا ما دمت فیہم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم ‘‘ پس عیسیٰ علیہ السلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توفی ایک جیسی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توفی سے مراد موت ہے تو عیسیٰ علیہ السلام کی توفی موت کیوںنہیں؟
جواب: پہلے تو بخاری شریف کی روایت مکمل نقل کرتے ہیں جو یہ ہے: ’’ انہ یجاء برجال من امتی فیوخذ بہم ذات الشمال فاقول یارب اصیحابی فیقال انک لا تدری ما احد ثوابعدک فاقول کما قال العبد الصالح کُنْتُ عَلَیْہِمْ شَہِیْدًا مَادُمْتُ فِیْہِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْہِمْ (بخاری ج۲ ص۶۶۵، باب قولہ وکنت علیہم شہیدا) ‘‘ میری امت کے بعض لوگ پکڑے جائیں گے اور بائیں طرف یعنی جہنم کی طرف ان کو چلایا جائے گا۔ میں کہوں گا اے میرے رب یہ تو میرے صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم ہیں۔ کہا جائے گا کہ آپ کو اس کا علم نہیں کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کچھ کیا۔ پس میں ویسے ہی کہوں گا۔ جیسا کہ عبد صالح یعنی عیسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ جب تک میں ان میں موجود تھا ان پر گواہ تھا اور جب تو نے مجھے بہ تمامہ بھرپور لے لیا تھا اس وقت آپ نگہبان تھے۔
جواب: یہ تو پہلے قرآن کے اسی رکوع سے اور حدیث رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے حتیٰ کہ مرزاقادیانی کے قول سے معلوم ہوچکا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ واقعہ قیامت کے دن ہوگا اور عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے دن فرمائیں گے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی اسی حدیث میں ظاہر ہے کہ قیامت کے دن حوض پر فرمائیں گے۔ اب رہا کہ یہ صیغہ ماضی کا ہے۔ یعنی عیسیٰ علیہ السلام کے لئے ’’قال‘‘ اور اپنے لئے ’’اقول‘‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا قول قیامت میں پہلے ہوچکے گا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ واقعہ بعد کو پیش آئے گا۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیںکہ میں ویسے ہی کہوں گا جیسا کہ اس سے پہلے عیسیٰ علیہ السلام نے کہا۔ یعنی قیامت کے دن عیسیٰ علیہ السلام کے قول کی ماضی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے اعتبار سے ہے۔
جواب: ۲… دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ حدیث بیان فرمائی تھی تو سورۂ مائدہ جس میں یہ حکایت مذکورہے پہلے نازل ہوچکی تھی اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہ وعنھم نے اس حکایت کو سن لیا تھا۔ اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس حکایت کو محکی عنہ بنا کر بیان فرماتے ہیں۔ یعنی ’’ فاقول کما قال العبد الصالح فی سورۃ المائدۃ ‘‘
جواب: ۳… یہ غلط ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توفی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توفی ایک ہی صورت کی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے: ’’ فاقول ما قال العبد الصالح ‘‘ حالانکہ ’’ فاقول کما قال ‘‘ صرف قول میں تشبیہ ہے مقولہ میں نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے یعنی اسی قسم کا قول میں بھی کہوں گا نہ یہ کہ وہی قول کہوں گا مشبہ اور مشبہ بہ میں تغائر ضروری ہے۔ ادنیٰ مشارکت سے تشبیہ متحقق ہو جاتی ہے۔ جیسے کا لاسد بہادری میں تشبیہ ہے نہ کہ من کل الوجوہ جیسے دم۔ ٹانگ، کھال۔ پس اس حدیث کا صرف یہ مطلب ہے کہ جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی غیرحاضری کا عذر کریں گے میں بھی اپنی غیرحاضری کا عذر کروں گا نہ کہ وہی الفاظ کہوں گا جو کہ عیسیٰ علیہ السلام نے کہے ہوں گے۔ کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بقول مرزاقادیانی جس سوال کا یہ جواب ہے یہ سوال ہوگا۔ ’’ ئَ اَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَاُمِّیَ اِلٰہِیْنِ (مائدہ:۱۱۶) ‘‘ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر گز یہ سوال نہ ہوگا تو پھریہ بعینہٖ جواب بھی نہیں ہوسکتا۔ بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم عیسیٰ علیہ السلام کے قول کے مانند کہیں گے اور غیرحاضری کا عذر دونوں فرمائیں گے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توفی یعنی غیرحاضری وعدم موجودگی بطور اصعاد الی السماء ہوئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توفی یعنی غیرحاضری وعدم موجودگی بطور توفی بالموت کے، تشبیہ کے لئے اس قدر بھی تغائر کافی ہے۔
جواب: ۴… اگر کوئی عیسائی اعتراض کرے کہ جیسے عیسیٰ علیہ السلام کو کوڑے پٹوائے گئے اور طمانچے مارے گئے۔ صلیب پر چار میخ کر کے عذاب دئیے گئے اور صلیب پر اس کی جان نکلی تھی۔ جیسا کہ اناجیل میں ہے کہ یسوع نے بڑے زور سے چلا کر جان دی اور اس کی توفی وقوع میں آئی۔ اسی طرح نعوذ باﷲ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی توفی ہوئی ہوگی اور یہی آپ کی دلیل پیش کرے کہ جیسے کہ مسیح علیہ السلام کی توفی ہوئی۔ اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی توفی وقوع میں آئی۔ کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی توفی اور عیسیٰ علیہ السلام کی توفی ایک ہی صورت کی تھی تو مرزاقادیانی اور مرزائی بتادیں کہ اس عیسائی کو وہ کیا جواب دیں گے؟ آیا ایسی تذلیل اور عذاب جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ہوئے ویسے ہی حضرت خلاصۂ موجودات افضل الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے ہونے قبول کریں گے یا اپنی اس دلیل کی اصلاح کریں گے کہ دونوں کی توفی ایک ہی قسم کی نہ تھی؟
جواب: ۵… کلمۂ ’’کما‘‘ کے ماقبل وما بعد کے لئے ضروری نہیں کہ وہ ہر طرح اور ہر وصف اور ہر حکم میں ایک جیسے ہوں۔ بلکہ بسا اوقات ان کی کیفیتوں میں بہت مغائرت ہوتی ہے۔ جیسے آیت کریمہ: ’’ کما بدأنا اوّل خلق نعیدہ (الانبیاء) ‘‘ یعنی جس طرح ہم نے پہلی دفعہ پیدا کر لیا تھا۔ اسی طرح پھر دوسری دفعہ بھی پیدا کر لیں گے۔ جو اس حدیث کی کتاب صحیح بخاری میں موجود ہے۔ پہلی دفعہ کی پیدائش اور قیامت کی پیدائش کو کلمہ کما سے ذکر کیا تو اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلے گا کہ پہلی دفعہ ماں کے پیٹ اور باپ کے نطفہ سے پیدا ہوئے تھے تو پھر قیامت کو بھی اسی طرح پیدا ہوں گے۔ معاذ اﷲ! پہلی دنیوی پیدائش، دوسری اخروی پیدائش۔ دونوں کے لئے لفظ ’’کما‘‘ آیا۔ مگر ان میں مماثلت صرف اس امر میں ہے کہ یہ دونوں باتیں اﷲتعالیٰ کی قدرت میں داخل ہیں۔ جس طرح پہلی پیدائش کو تم دیکھ چکے اس طرح دوسری دفعہ (موت کے بعد) زندہ کرنابھی اس خالق علیم کی قدرت سے باہر نہیں۔ دونوں تخلیقوں کے لئے لفظ کما آیا لیکن کیفیات میں فرق ہے۔ اس طرح ’’ اقول کما قال ‘‘ میں دونوں کے لئے کما ہے۔ مگر قول دونوں حضرات کے مختلف ہوں گے۔
جواب: ۶… اسی آیت میں ’’ فلما توفیتنی ‘‘ سے قبل ’’ تعلم ما فی نفسی ولا اعلم ما فی نفسک ‘‘ ہے۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور اﷲتعالیٰ دونوں کے لئے ایک ہی لفظ نفس استعمال ہوا ہے تو معاذ اﷲ اس سے کیا یہ لازم آیا کہ عیسیٰ علیہ السلام کا نفس اور اﷲتعالیٰ کا نفس ایک جیسے ہیں۔ اسی طرح گو ایک ہی لفظ توفی دونوں کے لئے مستعمل ہوا ہے۔ مگر ہر دو کے حالات مخصوصہ جو دلائل خارجہ سے ثابت ہیں ان پر نظر کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی توفی رفع الی السماء سے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توفی موت سے ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توفی بخاری ’’باب وفات النبی صلی اللہ علیہ وسلم وموضعہ‘‘ نے متعین کر دی اور عیسیٰ علیہ السلام کی متوفیک کے بعد رافعک نے متعین کر دی۔

قادیانی سوال:۴۰​

کیا اس بات میں امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو خیرالامت ہے اور اس کی شان میں ہے: ’’ علماء امتی کانبیآء بنی اسرائیل ‘‘ ہتک نہیں ہے کہ اصلاح امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک نبی کو محفوظ رکھاجائے اور امت میں کوئی لائق نہیں کہ اصلاح کرے اور خدا کو نبی بھیجنا پڑے۔ کیا یہ کام امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مجدد نہیں کر سکتا۔
جواب: ۱… چونکہ حضرت عیسیٰ نبی امتی بن کر آئیں گے۔ جیسا کہ حدیثوں میں مذکور ہے یہ امت محمدی کا فخر اور عزت ہے کہ اس میں ایک اولوالعزم پیغمبر علیہ السلام شامل ہوتا ہے اور اپنی دعا سے شامل ہوتا ہے۔ دیکھو انجیل برنباس: ’’اے رب بخشش کرنے والے اور رحمت میں غنی تو اپنے خادم (عیسیٰ علیہ السلام) کو قیامت کے دن اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ہونا نصیب فرما۔‘‘ (فصل ۲۱۲ ص۱۹۴)
اب بتاؤ کہ یہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہے یا علو درجہ کا ثبوت ہے کہ ایک نبی دعا کرتا ہے کہ اے خدا مجھ کو امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہونا نصیب فرما۔
جواب: ۲… کس قدر عالی مرتبہ اس امت کا ہے کہ عیسائیوں کا خدا اس امت کا ایک فرد ہو کر آتا ہے۔ مگر تعصب بھری آنکھ کو یہ عزت ہتک نظر آتی ہے یہ نظر کا قصور ہے۔ آہ! کس قدر کج فہمی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آنے سے توہتک ہے اور مرزاقادیانی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی بنانے سے ہتک نہیں؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی علت غائی احکام دین اسلام کی تنسیخ یا شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی کمی پوری کرنا نہیں۔ حدیثوں میں بصراحت موجود ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دجال کے قتل کے واسطے اور صلیب کے توڑنے کے لئے آئیں گے۔ جس سے ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام، یہود اور نصاریٰ کی اصلاح کے واسطے آئیں گے نہ کہ دین اسلام اور امت محمدی کی اصلاح کے واسطے۔ دیکھو قرآن مجید فرمارہا ہے: ’’ وَاِنْ مِّنْ اَہْلِ الْکَتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنُنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ ‘‘ یعنی مسیح علیہ السلام کی موت سے پہلے اہل کتاب اس پر ایمان لائیں گے۔ چونکہ مجدد اسلامی امت کا وہ صرف ایک فرد ہوتا ہے۔ اس لئے اس کا کہنا صرف مسلمانوں پر اثر کر سکتا ہے اور ارادۂ خداوندی میں کسر صلیب اور اصلاح یہود ہے اس لئے اسی پیغمبر علیہ السلام کو جسے ایک گروہ ان کو خدا بناکر گمراہ ہوا اور دوسرے گروہ نے نبوت سے انکار کر کے ان کو جھوٹانبی علیہ السلام کہا اور اپنی دانست میں ان کو طرح طرح کے عذاب دے کر صلیب پر قتل کر چکے۔ خداوند تعالیٰ نے ان دونوں گروہوں کے زعم باطل توڑنے اور کذب ظاہر کرنے اور امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا رتبہ بڑھانے اور ان کی دعا قبول کرنے اور ’’لتومنن بہ ولتنصرن‘‘ کا مصداق بنانے کے لئے ان کو مقدر کیا کہ جب وہ خود ہی زندہ اتر کر ان کے سب زعم باطل کر دے گا تو وہ آسانی سے سمجھ جائیں گے اور ایسا کھلا معجزہ اور کرشمہ قدرت دیکھ کر اور دجال کو اور اس کے ہمراہیوں کو قتل کرنے کے بعد آخرکار سب اہل کتاب یہود اور نصاریٰ ایمان لے آئیں گے۔
جواب: ۳… یہ کہاں لکھا ہے کہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اصلاح کے واسطے آئیں گے ’’ علماء امتی کانبیآء بنی اسرائیل ‘‘ کا صرف یہ مطلب ہے کہ جس طرح بنی اسرائیل کے نبی تبلیغ دین کرتے تھے اسی طرح میرے علماء امت تبلیغ دین کیا کریں گے۔ کیونکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں، یہ نہیں کہ علماء امت بنی اسرائیل کے نبیوں کے ہم مرتبہ ہوں گے یا کسی قسم کی نبوت کے مدعی ہوں گے۔ نیز یہ کہ اس روایت کی صحت بھی مخدوش ہے۔
جواب: ۴… پہلے نبیوں میں سے ایک نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں شامل ہورہا ہے نہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سے کسی شخص کو نبی بنایا جارہا ہے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

قادیانی سوال:۴۱​

اسی طرح ایک اور روایت مسلم وغیرہ میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سو سال تک تمام جاندار مر جائیں گے۔ (کنزالعمال راوی جابر ومسلم)
جواب: اگر یہی ترجمہ صحیح ہے جو کیاگیا ہے تو پھر ہر ’’جاندار‘‘ میں تو جناب موسیٰ، ملائکہ علیہم السلام بھی شامل ہیں۔ کیا یہ سب کے سب سو سال کے اندر اندر فوت ہوگئے تھے؟ تو صاحب جس دلیل سے تم ملائکہ کو ’’ہر جاندار‘‘ کے لفظ سے باہر کرو گے۔ اسی سے ہم مسیح کو نکال لیں گے۔ کیوں؟ کیسی کہی، ہاں! جس دلیل سے تم موسیٰ علیہ السلام کو بچاؤ گے ہم اس سے مسیح علیہ السلام کو۔
حضرات! اصل بات یہ ہے کہ مرزائی مذہب سراپا خیانت وفریب ہے۔ مرزاقادیانی کی بھی یہی عادت تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے اپنے مطلب کو نقل کرتے۔ مگر جو فقرہ اپنی نفسانیت کے خلاف ہوتا اس کو چھوڑ دیتے۔ چنانچہ (حمامۃ البشریٰ ص۸۸، خزائن ج۷ ص۳۱۲) پر کنزالعمال کی حدیث لکھتے ہیں جوہم اسی مضمون میں بذیل ثبوت حیات مسیح لکھ آئے ہیں۔ یعنی حدیث نمبر:۸۔ مگر اس میں لفظ ’’ من السماء ‘‘ چھوڑ گئے۔ یہی چالاکی مرزائی مصنف نے کی ہے۔ مسلم کی حدیث جو جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے مروی ہے اس میں ’’ مَا عَلَی الْاَرْضِ ‘‘ کا لفظ موجود ہے۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: آج جتنے لوگ زمین پر موجود ہیں سو سال تک ان میں سے کوئی باقی نہ رہے گا۔
’ما علی الارض من نفس منفوسۃ یاتی علیہا مائۃ سنۃ وہی حیۃ یومئذ (مسلم) ‘‘ یعنی روایت ہے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے۔ روئے زمین پر کوئی نفس نہیں جو پیدا کیاگیا ہو اور موجود ہو۔ پھر آج سے سو برس سے گزرے اور وہ زندہ ہو۔ دوسرے حدیث صحیح مسلم کی یہ ہے کہ زمین پر کوئی شخص بھی آج کے لوگوں میں سے زندہ موجود ہو۔ (ازالہ اوہام ص۴۸۱، خزائن ج۳ ص۳۵۸)
مگر مرزائی مصنف پاکٹ بک کی خیانت ہے کہ: ’’زمین پر آج کے لوگوں‘‘ کے الفاظ اڑا کر’’ہر جاندار‘‘ ترجمہ کر کے مسیح کی وفات ثابت کرتا ہے۔

قادیانی سوال:۴۲​

’’ ان ینزل فیکم ‘‘ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہ وعنھم کو مخاطب کیا ہے کہ ابن مریم تم میں نازل ہوگا۔
الجواب: خطاب صحابہ رضی اللہ عنہ وعنھم کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ عامہ امت محمدیہ تا قیامت مخاطب ہے۔ ’’ ابن خزیمہ وحاکم ‘‘ نے روایت نقل کی ہے: ’’ عن انس قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدرک رجال من امتی ابن مریم (کنزالعمال ج۱۴ ص۳۳۵، حدیث نمبر:۳۸۸۵۴) ‘‘ یعنی میری امت کے لوگ عیسیٰ علیہ السلام کا زمانہ پائیں گے نہ صحابہ لوگ، اور دیگر احادیث صحیحہ کثیرہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قرب قیامت تشریف لانا مصرح ہے۔ ملاحظہ ہوں: ’’قال لا تقوم الساعۃ حتی ینزل عیسٰی بن مریم (مسند احمد ج۲ ص۴۹۳، ابن ماجہ ص۲۹۹، باب فتنۃ الدجال وخروج عیسٰی بن مریم)‘‘
’’ لن تقوم الساعۃ حتی ترون قبلہا عشر اٰیات ونزول عیسٰی ابن مریم (مسلم ج۲ ص۳۹۳، کتاب الفتن) ظاہرین الٰی یوم القیامۃ فینزل عیسٰی ابن مریم (مسلم ج۱ ص۸۷، باب نزول عیسٰی بن مریم) کیف تہلک امۃ انا اولہا والمہدی وسطہا والمسیح اخرہا (مشکوٰۃ ص۵۸۳، باب ثواب ہذہ الامۃ) ‘‘ ان تمام حدیثوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول قرب قیامت میں مذکور ہے اور پچھلی روایت میں امت محمدیہ کے آخر زمانہ میں مسیح علیہ السلام کا ہونا مصرح ہے نہ عہد صحابہ رضی اللہ عنہ وعنھم میں نہ چودہ سو سال کے بعد۔

قادیانی سوال:۴۳​

’’ مُبَشِرًا بِرَسُوْلٍ یَأْتِیْ مِنْ بَعْدِیْ اِسْمُہٗ اَحْمَ د‘‘ عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: میرے بعد احمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم آئے گا۔ بعد سے مراد وفات ہے۔
جواب: ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ وَاِذْ وَعَدْنَا مُوْسٰی اَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِہٖ وَاَنْتُمْ ظَلِمُوْنَ (بقرہ:۵۱) ‘‘ یعنی تم نے موسیٰ علیہ السلام کے بعد بچھڑے کو پوجا اور تم ظالم ہو۔ جو معنی اس جگہ اور جو معنی ’’بعد‘‘ کے ہیں وہی معنی کلام مسیح میں بھی۔ کیا آیت ہذا میں ’’بعد‘‘ سے مراد موسیٰ علیہ السلام کی وفات ہے؟ ہرگز نہیں۔

قادیانی سوال:۴۴​

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج باقی انبیاء علیہم السلام میں عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھا۔ جب وہ فوت شدہ ہیں تو عیسیٰ علیہ السلام بھی وفات یافتہ ہے نہیں تو انہیں بھی زندہ مانو۔
الجواب: الف… جناب اگر ایک زندہ انسان کا وفات یافتہ روحوں میں شامل ہونا ثبوت وفات ہے تو پھر مرزاقادیانی زندگی میں ہر مرچکے تھے جو کہتے تھے کہ: (۱)’’اس (مسیح نے) کئی دفعہ مجھ سے ملاقات کی۔ ایک دفعہ میںنے اور اس نے عالم کشف میں جو گویا بیداری کا عالم تھا ایک جگہ بیٹھ کر ایک ہی پیالہ میں گائے کا گوشت کھایا۔‘‘ (ریویو ج۱ ص۳۴۸) (۲)’’ایک دفعہ میں نے بیداری کی حالت میں جناب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مع حسین وعلی وفاطمہ کے دیکھا یہ خواب نہ تھی بلکہ بیداری کی ایک قسم تھی۔‘‘ (فتاویٰ احمدیہ ج۱ ص۱۷۸، اخبار الحکم مورخہ ۱۰؍دسمبر ۱۹۰۲ء)
سنبھل کے رکھیو قدم دشت خار میں مجنوں کہ اس میں اک سودا برہنہ پا بھی ہے
ب… یہ استدلال درست نہیں۔ کیونکہ اس سے تو پھر یہ لازم آئے گا کہ اس وقت خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی فوت شدہ ہوں۔ حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دنیوی زندگی میں جسمانی معراج ہوئی۔ پس جس طرح دوسرے انبیاء کی ملاقات کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ تھے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی زندہ تھے اور آسمانوں پر تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے نزول قرب قیامت کی خبر دی تھی۔ جیسا کہ ’’ابن ماجہ‘‘ میں مصرح ہے۔
ج… یہ غلط ہے کہ معراج کی رات وفات شدگان کا اجتماع تھا۔ بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا جبرائیل علیہ السلام جیسے اس اجتماع میں زندہ تھے سیدنا مسیح علیہ السلام بھی تھے۔ معراج کی رات تین قسم کے حضرات کی باہمی ملاقات تھی۔ (۱)فوت شدگان کی فوت شدگان سے جیسے آدم وابراہیم علیہ السلام۔ (۲)فوت شدگان کی زندہ حضرات سے جیسے سیدنا آدم علیہ السلام کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ (۳)زندہ حضرات کی زندہ حضرات سے جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیدنا جبرائیل ومسیح علیہ السلام سے یا ان دونوں حضرات کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ پس قادیانی استدلال باطل ہے۔

قادیانی سوال:۴۵​

زمین سے آسمان تک کی طویل مسافت کا چند لمحوں میں طے کر لینا کیسے ممکن؟
جواب: ۱… کہ حکماء جدید لکھتے ہیں کہ نور ایک منٹ میں ایک کروڑ بیس لاکھ میل کی مسافت طے کرتا ہے۔
۲… بجلی ایک منٹ میں پانچ سو مرتبہ زمین کے گرد گھوم سکتی ہے۔
۳… اور بعض ستارے ایک ساعت میں آٹھ لاکھ اسی ہزار میل حرکت کرتے ہیں۔
۴… علاوہ ازیں انسان جس وقت نظر اٹھا کر دیکھتا ہے توحرکت شعاعی اس قدر سریع ہوتی ہے کہ ایک ہی آن میں آسمان تک پہنچ جاتی ہے۔ اگر یہ آسمان حائل نہ ہوتا تو اور دور تک وصول ممکن تھا۔
۵… نیز جس وقت آفتاب طلوع کرتا ہے تو نور شمس ایک ہی آن میں تمام کرۂ ارض پر پھیل جاتا ہے۔ حالانکہ سطح ارضی ۲۵۳۶۳۶۳۶؍فرسخ ہے۔ جیسا کہ سبع شداد ص۴۲ پر مذکور ہے اور ایک فرسخ تین میل کا ہوتا ہے۔ لہٰذا مجموعہ ۶۱۰۹۰۹۰۸؍کروڑ میل ہوا۔ حکماء قدیم کہتے ہیں کہ جتنی دیر میں جرم شمس بتمامہ طلوع کرتا ہے۔ اتنی دیر میں فلک اعظم کی حرکت ۵۱۹۶۰۰؍لاکھ فرسخ ہوتی ہے اور ہر فرسخ چونکہ تین میل کا ہوتا ہے۔ لہٰذا مجموعہ مسافت ۱۵۵۸۸۰۰؍لاکھ میل ہوئی۔ نیز شیاطین اور جنات کا شرق سے لے کر غرب تک آن واحد میں اس قدر طویل مسافت کا طے کر لینا ممکن ہے تو کیا خداوند عالم اور قادر مطلق کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ کسی خاص بندے کو چند لمحوں میں اس قدر طویل مسافت طے کرادے؟
۶… آصف بن برخیا کا مہینوں کی مسافت سے بلقیس کا تخت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں پلک جھپکنے سے پہلے پہلے حاضر کر دینا قرآن کریم میں مصرح ہے: ’’ کما قال تعالٰی وَقَالَ الَّذِیْ عِنْدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ اَنَا اٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْکَ طَرْفُکَ فَلَمَّا رَاٰہُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَہٗ قَالَ ہٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ (النحل:۴۰) ‘‘ اسی طرح سلیمان علیہ السلام کے لئے ہوا کا مسخر ہونا بھی قرآن کریم میں مذکور ہے کہ وہ ہوا سلیمان علیہ السلام کے تخت کو جہاں چاہے اڑا کر لے جاتی اور مہینوں کی مسافت گھنٹوں میں طے کرتی۔ ’’ کما قال تعالٰی وَسَخَّرْنَا لَہُ الرِّیْحَ تَجْرِیْ بِاَمْرِہ ‘‘
۷… آج کل کے ملحدین فی گھنٹہ تین سو میل کی مسافت طے کرنے والے ہوائی جہاز پر تو ایمان لے آئے ہیں مگر نہ معلوم سلیمان علیہ السلام کے تخت پر بھی ایمان لاتے ہیں یا نہیں؟ ہوائی جہاز بندہ کی بنائی ہوئی مشین سے اڑتا ہے اور سلیمان علیہ السلام کے تخت کو ہوا بحکم خداوندی اڑا کر لے جاتی تھی۔ کسی بندہ کے عمل اور صنعت کو اس میں دخل نہ تھا۔ اس لئے وہ معجزہ تھا اور ہوائی جہاز معجزہ نہیں۔
۸… مرزاقادیانی (چشمہ معرفت حصہ دوم ص۲۱۹، خزائن ج۲۳ ص۲۲۷،۲۲۸) پر لکھتے ہیں: ’’پھر مضمون پڑھنے والے نے قرآن پر یہ اعتراض کیا کہ اس میں لکھا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام مسیح مع گوشت پوست آسمان پر چڑھ گیا تھا۔ ہماری طرف سے یہ جواب کافی ہے کہ اوّل تو خداوند تعالیٰ کی قدرت سے کچھ بعید نہیں کہ انسان مع جسم عنصری آسمان پر چڑھ جائے۔‘‘ اور (ازالہ اوہام ص۲۷۲، خزائن ج۳ ص۲۳۸) میں اپنے ایک مطلب کے ثبوت میں تورات کی عبارت استدلال پیش کرتے ہیں جس میں یہ بھی لکھا ہے: ایلیا نبی جسم کے ساتھ آسمان کی طرف اٹھایا گیا اور چادر اس کی زمین پر۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

قادیانی سوال: ۴۶​

حیات مسیح عقل میں نہیں آتا؟
جواب: ۱… گو قرآن کی آیتوں، حدیثوں اور آثار صحابہ رضی اللہ عنہ وعنھم وتابعین رضی اللہ عنہ وعنھم اور اجماع امت یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں اور اصالۃً نزول فرمائیں گے لیکن عام عقلوں میں نہیں سماتا۔ اس کے جواب میں ان کے مرشد کا یہ حکم سنادینا چاہئے کہ (ازالہ اوہام ص۸۳۵، خزائن ج۳ ص۵۵۲) میں ہے: ’’اگر قرآن وحدیث کے مقابل پر ایک جہان عقلی دلائل کا دیکھو تو ہرگز اسکو قبول نہ کرو اور یقینا سمجھو کہ عقل نے لغزش کھائی ہے۔‘‘ اور (ازالہ اوہام ص۳۷۴، خزائن ج۳ ص۲۹۳) میں ہے: ’’سلف خلف کے لئے بطور وکیل کے ہوتے ہیں اور ان کی شہادتیں آنے والی ذریت کو ماننی پڑتی ہیں۔‘‘ اگر کہا جائے کہ خدا نے خود فرمایا ہے: ’’ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا (الاحزاب:۶۲) ‘‘ کہ ہم اپنی سنت جاریہ کے خلاف نہیں کرتے تو میں کہوں گا کہ اگر سنت اﷲ کے یہ معنی ہیں تو بتائیے کہ پہلے سب مخلوق محض عدم میں تھے پھر پیدا کر کے کیوں سنت کو بدلا اور پھر پیدا کر کے مار ڈالنے سے سنت کو بدلا اور پھر قیامت کو زندہ کر کے اپنی سنت کو بدل ڈالے گا اور نیز آدم علیہ السلام وحوا علیہا السلام کو بے ماں وباپ کے پیدا کیا اور عیسیٰ علیہ السلام کو بے باپ کے جو یہ بھی سنت جاریہ کے خلاف ہے اور انبیاء علیہم السلام کے معجزات سب خارق عادت ہی ہوتے ہیں۔ اگر کہا جائے کہ یہ مجموعہ حالت کا من حیث المجموع سنت اﷲ ہے تو میں کہوں گا کہ کسی کو مار کر زندہ نہ کرنا اور بعض کو بطور خرق عادت زندہ کرنااور کسی کو آسمان پر نہ اٹھانا اور بعض کسی کو اٹھا لینا یہ مجموعہ بھی سنت اﷲ ہے۔ چنانچہ (بخاری شریف ج۲ ص۵۸۷، باب غزوۃ الرجیع وبیرمعونہ) میں عامر بن فہیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کا بیرمعونہ کے دن شہید ہونے کے بعد بجسد عنصری آسمان کی طرف اٹھ جانا پھر زمین پر آجانا درج ہے۔ اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ تو سنت اﷲ کے بدل دینے کو نہیں پاسکتا۔ یعنی ہماری سنت کو کوئی نہیں بدل سکتا۔ ’’لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ (انعام:۳۴)‘‘ ہاں وہ خود بدل سکتا ہے اور سنت سے مراد سنت قولی یعنی وعدۂ نصرت بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی ہم اپنے وعدۂ نصرت کو نہیں بدلتے۔ ہمیشہ انبیاء علیہم السلام کو نصرت ہی دی ہے۔ ’’ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخْلِفُ وَعْدَہٗ رُسُلَہٗ ‘‘ اور نیز آیات اﷲ اور سنت اﷲ میں فرق ہے۔ آیات اﷲ جس جگہ قرآن مجید میں آیا ہے خارق عادت ہے اور سنت اﷲ سے عادت اکثر یہ مراد ہے۔ فافہم!
جواب: ۲… دین صرف عقل کی نہیں بلکہ نقل کی تابعداری کا نام ہے۔ صرف عقل کو شیطان نے استعمال کیا کہ میں آدم علیہ السلام کو کیسے سجدہ کروں۔ ’’ انا خیر منہ ‘‘ وہ ابلیس ہوا۔

قادیانی سوال:۴۷​

جیسے کہ حضرت الیاس علیہ السلام کے نزول کی پیشین گوئی حضرت یحییٰ علیہ السلام کی بعثت سے پوری ہوئی تھی۔ اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی پیشین گوئی کسی دوسرے مدعی کی بعثت سے ہوسکتی ہے۔ یہ کوئی ضروری نہیں کہ وہی عیسیٰ علیہ السلام اسرائیلی ہی نازل ہوں بلکہ مثیل مراد ہے۔ کیونکہ پیشین گوئی میں اکثر استعارہ ہوتا ہے۔
جواب: ۱… اوّل تو یہی غلط ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق پیشین گوئی کی ہے۔ کیونکہ پیشین گوئی اس کو کہتے ہیں جو کسی وجود کے ظہور سے پہلے خبر دی جائے۔ چونکہ یہود اور نصاریٰ کا باہمی اختلاف تھا۔ عیسائی کہتے تھے کہ مسیح علیہ السلام اب آسمان پر زندہ موجود ہیں۔ دوبارہ اخیر زمانہ میں نزول فرمائیں گے اور یہود کہتے تھے کہ ہم نے مسیح علیہ السلام کو قتل کر دیا ہے۔ خداتعالیٰ نے قرآن میں یہ فیصلہ فرمایا ہے کہ ’’ مَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ وَاِنْ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنُنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ ‘‘ اور ایسا ہی احادیث میں بکثرت موجود ہے۔ یہ بالکل غلط ہے کہ حیات ونزول مسیح علیہ السلام کا مسئلہ پیشین گوئی ہے اور پیشین گوئیاں استعارہ کے رنگ میں ہوتی ہیں۔ بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حیات ونزول مسیح علیہ السلام کا فیصلہ فرمایا ہے نہ کہ پیشین گوئی کی ہے۔ کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے چھ سو برس پہلے دنیا میں آکر آسمان پر جاچکے تھے اور یہود اس کے منکر تھے اور کہتے تھے کہ ہم نے ان کو قتل کر ڈالا ہے۔ یہود اور نصاریٰ میں یہی جھگڑا تھا۔ اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اﷲتعالیٰ سے وحی پاکر یہ فیصلہ دیا کہ بے شک عیسیٰ علیہ السلام مرے نہیں وہ اخیرزمانہ میں دوبارہ آئیں گے۔ پس اس فیصلہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تمام امت کا سرخم چلا آیا ہے اور تیرہ سو برس سے اس پر اجماع امت ہے۔ اگر نصاریٰ کا عقیدہ اصالۃً نزول عیسیٰ علیہ السلام کا شرک تھا یا کم ازکم غیر صحیح تھا تو قرآن شریف دوسرے عقائد ابن اﷲ وغیرہ کی طرح اس کو بھی خوب صراحۃً رد فرما دیتا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں اس کا رد بکثرت پایا جاتا نہ کہ برعکس۔ قرآن شریف اور احادیث اس عقیدے کے ہم نوا ہوں اور یہ بھی خوب کہی کہ پیشین گوئیاں استعارہ کے رنگ میں ہوتی ہیں تاکہ کوئی کاذب متنبی بھی جھوٹا نہ ہو سکے۔ جب چاہے جس پر چاہے گڑبڑ کر کے فریب دے سکے۔ دمشق سے مراد قادیان لے سکے۔ حالانکہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بتاکید منع فرمایا ہے۔ ’’ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم نہٰی عن الاغلوطات رواہ ابوداؤد (مشکوٰۃ ص۳۵، کتاب العلم) ‘‘ ہاں خوابوں کی تعبیر ہوا کرتی ہے نہ صریح وحی کی۔
جواب: ۲… تعجب یہ ہے کہ مرزاقادیانی شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں تو کوئی نظیر پیش نہیں کر سکتے۔ محرف کتابوں سے اپنی تائید کرنا چاہتے ہیں کہ شاید کوئی اسی سے دھوکہ میں آجائے۔ حالانکہ وہ خود اس کو رد بھی کر چکے ہیں۔ چنانچہ (حصہ پنجم براہین احمدیہ ص۳۲، خزائن ج۲۱ ص۴۲) میں لکھتے ہیں: پہلے نبیوں نے مسیح کی نسبت یہ پیشین گوئی کی تھی کہ وہ نہیں آئے گا جب تک کہ الیاس علیہ السلام دوبارہ دنیا میں نہ آجائے۔ مگر الیاس نہ آیا اور یسوع بن مریم نے یونہی مسیح معہود ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ حالانکہ الیاس دوبارہ دنیا میں نہ آیا اور جب پوچھا گیا تو الیاس علیہ السلام موجود کی جگہ یوحنا یعنی یحییٰ علیہ السلام نبی کو الیاس علیہ السلام ٹھہرادیا۔ تاکسی طرح مسیح موعود بن جائے… پہلے نبیوں اور تمام راست بازوں کے اجماع کے برخلاف الیاس علیہ السلام آنے والے سے مراد یوحنا اپنے مرشد کو قرار دے دیا اور عجیب یہ کہ یوحنا اپنے الیاس علیہ السلام ہونے سے خود منکر ہے۔ مگر تاہم یسوع بن مریم علیہ السلام نے زبردستی اس کو الیاس علیہ السلام ٹھہرا ہی دیا۔ اب ہم مرزاقادیانی سے پوچھتے ہیں کہ آپ کے نزدیک معاذ اﷲ ان دو نبیوں میں کون جھوٹا ہے۔ یوحنا خود منکر ہیں کہ میں ہرگز الیاس علیہ السلام نہیں ہوں اور عیسیٰ علیہ السلام زبردستی ان کو الیاس علیہ السلام ٹھہراتے ہیں کہ تو ہی وہ الیاس علیہ السلام ہے۔ یہاں پر مرزاقادیانی کا روئے سخن اور التفات جس طرف بھی ہو مگر اہل حق جانتے ہیں کہ دونوں سچے نبی علیہ السلام سے ہیں، قصہ جھوٹا ہے کتاب اﷲ میں تحریف کر دی گئی ہے۔ اسی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’ لا تصدقوا اہل الکتٰب ولا تکذبوہم (بخاری ج۲ ص۱۰۹۴، باب النبی لاتسئلوا اہل الکتاب) ان اہل الکتٰب بدلوا کتاب اللّٰہ وغیروہ وکتبوا بایدیہم الکتٰب وقالوا ہو من عند اللّٰہ ‘‘
اور حکیم نورالدین قادیانی جو مرزاقادیانی کا اوّل جانشین تھا (فصل الخطاب ص۳۶۵) میں لکھتا ہے: ’’یوحنا اصطباعی کا ایلیا میں ہونا بالکل ہندوؤں کے مسئلہ آواگون کے ہم معنی یا اسی کا نتیجہ ہے۔‘‘ افسوس یہ ہے کہ مرزاقادیانی کو اپنے دعوے کے اثبات میں اس قدر شوق ہے کہ جس بات کو ایک جگہ ثابت کرتے ہیں دوسری جگہ خود ہی اس کو رد کر دیتے ہیں۔ جیسا موقعہ مناسب سمجھتے ہیں اسی پر زور دیتے ہیں۔
جواب: ۳… نہیں سمجھا جاسکتا کہ کوئی مومن قرآن اس قصہ کی تصدیق کے لئے آمادہ بھی ہو کیونکہ قرآن نے خود اس قصہ کی تکذیب کر دی ہے۔ قرآن شریف میں ہے: ’’ یَا زَکَرِیَّا اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَامِ نِاسْمُہٗ یَحْیٰی لَمْ نَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا ‘‘ (ترجمہ از مرزاقادیانی) یعنی یحییٰ علیہ السلام سے پہلے ہم نے کوئی اس کا مثیل (یعنی جس کا نام یحییٰ علیہ السلام پر بوجہ مماثلۃ اطلاق کر سکیں) دنیا میں نہیں بھیجا۔ (ازالہ اوہام ص۵۳۹، خزائن ج۳ ص۳۹۰) تو پھر کیسے پہلے نبی کا نام یعنی ایلیا کا نام یحییٰ علیہ السلام پر اطلاق کیا جاسکتا ہے؟

قادیانی سوال:۴۸​

(تاریخ طبری ج۲ ص۷۳۹) میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر کے کتبہ کی یہ عبارت نقل کی گئی ہے۔ ’’ ہذا قبر رسول اللّٰہ عیسٰی علیہ السالم الٰی ہذہ البلاد ‘‘
جواب: ۱… (کتاب الوفاء باب:۳) میں قصہ حجر بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ فاخرجت الیہما الحجر فقراہ فاذا فیہ اناعبداللّٰہ الاسود رسول رسول اللّٰہ عیسٰی بن مریم علیہ السلام الٰی اہل قری عرینۃ ‘‘ اور باب:۷، فصل:۴ میں ہے۔ ’’ وروی الزبیر عن موسٰی بن محمد عن ابیہ قال وجد قبر اٰدمی علی راس جاء ام خالد مکتوب فیہ انا اسود بن سوادۃ رسول رسول اللّٰہ عیسٰی بن مریم علیہ السلام الٰی اہل ہذا القریہ وعن ابن شہاب قال وجد قبر علی جماء ام خالد اربعون ذرا عافی اربعین ذراعا مکتوب فی حجر فیہ انا عبداللّٰہ من اہل نینوی رسول رسول اللّٰہ عیسٰی بن مریم علیہم السلام اے اہل ہذہ القریۃ فادر کنی الموت فاوصیت ان ادفن فی جماء ام خالد ‘‘ پس معلوم ہوا کہ یہ کسی حواری عیسیٰ علیہ السلام اسود بن سوادہ نامی کی قبر ہے اور اس پتھر پر ’’رسول رسول اﷲ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام‘‘ لکھا ہے۔ لیکن تاریخ طبری میں قلم ناسخ سے لفظ رسول مضاف ساقط ہوگیا ہے اور مرزائیوں کا اس سے ایمان ساقط ہوگیا اور اس کو موت عیسیٰ علیہ السلام پر حجت بنالیا۔ العجب کل العجب!
جواب: ۲… قارئین کرام! آپ کو خوشی ہوگی ہم مسکینوں کی اس محنت پر کہ جب قادیانیوں کا یہ اعتراض پڑھا تو اس کتاب کی تلاش شروع کی۔ ہمارے کتب خانہ میں اردو ترجمہ تھا۔ اصل تاریخ طبری عربی نہ تھی۔ چنانچہ ۱۱؍مئی ۲۰۰۴ء کو کراچی سے کتاب عربی ایڈیشن خریدا گیا۔ ملتان دفتر آکر حوالہ تلاش کیا۔ جدید ایڈیشن دارالکتب العلمیۃ بیروت ج۱ ص۳۵۵ پر عبارت مل گئی۔ (الف)ص۳۴۵ سے مصنف نے سیدنا مسیح علیہ السلام کے زمانہ کے حالات قلمبند کرنے شروع کئے۔ ص۳۴۵، ۳۴۸، ۳۵۲، ۳۵۴ (اس ص پر چار بار) سیدنا مسیح علیہ السلام کے رفع کا حضرت ابن جریر طبری نے ذکرفرمایا ہے جو دلیل ہے اس بات کی کہ وہ سیدنا مسیح علیہ السلام کے رفع کے قائل ہیں۔ ’’ ہذا قبر رسول اللّٰہ عیسٰی بن مریم ‘‘ میں سہو ہے۔ اصل میں ’’ ہذا قبر رسول رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم عیسیٰ بن مریم ‘‘ تھا۔ یعنی یہ کتبہ عیسیٰ علیہ السلام کے حواری کی قبر کا ہے۔ (ب)اس پر ایک مزید دلیل یہ بھی ہے کہ اس کے بعد کئی صفحات تک سیدنا مسیح علیہ السلام کے حواریوں کا ذکر ہے۔
جواب: ۳… ہم مسیح علیہ السلام کی حیات رفع الی السماء ونزول الی الارض پر قرآنی دلائل میں ابن جریر کی تفسیر کے بیسیوں حوالے نقل کر چکے ہیں۔ اس کے باوجود قادیانیوں سے کہتے ہیں کہ تمام بحث کو اسی کتاب تاریخ طبری پر منحصر کر لیتے ہیں جو تاریخ طبری کہہ دے وہ آپ بھی مان لیں۔ ہم بھی بسروچشم تسلیم کر لیتے ہیں۔ لیجئے! (تاریخ طبری کی اسی ج۱ ص۴۹۵) پر حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کی یہ روایت موجود ہے۔ ’’ اِنَّ اللّٰہَ رَفَعَہُ بِجَسَدِہِ وَاِنَّہٗ لَحَیٌّ الان ‘‘ تحقیق اﷲتعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو جسم سمیت اٹھالیا اور وہ اس وقت تک زندہ ہیں۔ غرض قادیانیوں میں انصاف نام کی کسی چیز کی کوئی رمق باقی ہے تو وہ اس صریح عبارت اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم وابن جریر رحمہ اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کے مطابق اپنا عقیدہ بنا لیں۔ اﷲتعالیٰ توفیق بخشیں۔ ’’ ہو الہادی وہو یہدی الٰی السبیل الحق اٰمین بحرمۃ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘

قادیانی سوال:۴۹​

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عمر ازروئے احادیث؟
جواب: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عمر کے چار حصے ہیں۔ بعثت نبوت سے پہلے، زمانۂ بعثت نبوت، زمانۂ رفع، زمانہ بعد نزول، قبل از بعثت کا زمانہ اور اس کی تعیین کا ذکر حدیثوں میں کہیں نہیں اور زمانۂ رفع کابھی بوجہ غیرمتعلق ہونے کے احادیث میں مذکور نہیں اور زمانۂ بعثت نبوت کا ذکر احادیث میں آیا ہے: ’’ اخرج ابن سعد عن ابراہیم النخعی قال قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم یعیش کل نبی نصف عمر الذی قبلہ وان عیسٰی علیہ السلام مکث فی قومہ اربعین عامًا (خصائص الکبریٰ وکنزالعمال ج۱۱ ص۴۷۸، حدیث:۳۲۲۶۰، الباب الثانی فی فضائل سائر الانبیاء، فصل اوّل من الاکمال) یا فاطمۃ رضی اللہ تعالیٰ عنھا انہ لم یبعث نبی علیہ السلام عمر الذی بعدہ نصف عمرہ وان عیسٰی بن مریم علیہ السلام بعث رسولًا لاربعین وانی بعثت لعشرین (کنزالعمال ج۱۱ ص۴۷۸، حدیث:۳۲۲۵۹، باب ایضًا) ‘‘
یعنی ہر نبی کی عمر بعثت پہلے نبی کی عمر بعثت سے نصف ہوتی ہے۔ چنانچہ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام مبعوث ہوکر چالیس برس اپنی قوم میں ٹھہرے اور میں بیس بس کے لئے مبعوث ہوا ہوں۔
اور نزول کے بعد کا زمانہ بھی احادیث میں مذکور ہے: ’’ عن ابی ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم مرفوعًا ینزل عیسٰی علیہ السلام… فیمکث فی الارض اربعین سنۃ ثم یتوفٰی (ابوداؤد ج۲ ص۱۳۵، باب ذکر الدجال) عن عبداللّٰہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم قال قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ینزل عیسٰی بن مریم علیہ السلام الٰی الارض… ویمکث خمسًا واربعین سنۃ ثم یموت الخ رواہ ابن الجوزی فی کتاب الوفاء (مشکوٰۃ ص۴۸۰، باب نزول عیسٰی علیہ السلام)‘‘ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے ایک دوسری روایت بھی ہے۔ ’’عن ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم انہ یمکث فی الارض (بعد نزولہ) سبع سنین لیس بین اثنین عداوۃ (مشکوٰۃ ص۴۸۱، باب لاتقوم الساعۃ الاعلی شرار الناس) ‘‘ یعنی عیسیٰ علیہ السلام بعد نزول بحساب شمسی ۴۰برس اور حساب قمری سے جبر کسر کے ساتھ ۴۵برس زمین پر رہیں گے اور ان چالیس میں ۷برس دجال کے قتل کرنے کے بعد اور ملت واحدہ ہونے کے بعد جیسا کہ ’’ صفت لیس بین اثنین عداوۃ ‘‘ دلالت کرتی ہے۔ زمین پر رہیں گے جیسے کہ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام کا زمانہ بعثت ۴۰برس تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کے نصف۲۰ کیونکہ بعد کے نبی کا زمانہ بعثت پہلے نبی کے زمانہ بعثت سے نصف ہوتا ہے۔ ایسے ہی کل عمر کے متعلق بھی جو زمین پر گزری اور گزرے گی۔ احادیث میں ہے جو یہی اختلاط بین الناس کا زمانہ ہے۔ ’’ انہ لم یکن نبی کان بعدہ نبی الاعاش نصف عمر الذی قبلہ وان عیسٰی بن مریم علیہ السلام عاش عشرین ومأۃ وانی لا رانی الا ذاہبًا علی رأس الستین (کنزالعمال ج۱۱ ص۴۸۷، حدیث:۳۲۲۶۲، باب ایضاً) ‘‘ یعنی بعد کے نبی کا زمانہ معیشت پہلے نبی کے زمانہ معیشت سے نصف ہوتا ہے اور عیسیٰ علیہ السلام کا زمانہ معیشت ۱۲۰برس ہوا اور میراخیال ہے کہ میں ۶۰برس کے شروع پر انتقال کرنے والا ہوں۔ (اور عمر عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق ۳۳برس کی روایت تو مرفوعاً کہیں ثابت نہیں بلکہ اس کو قول نصاریٰ بتلایا گیا ہے۔ چنانچہ شرح مواہب وزاد المعاد وجمل میں مشرح لکھا ہے اور جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ تعالیٰ نے جلالین میں ۳۳برس لکھا اور مرقاۃ الصعود میں اپنا رجوع نقل کرتے ہیں) اور لفظ عاش ماضی لانے کی یہ وجہ ہوئی کہ دیگر انبیاء علیہم السلام کے حق میں تو ماضی ہی صادق تھا اور بحق عیسیٰ علیہ السلام دو حصوں یعنی زمانہ قبل از بعثت اور زمانہ بعثت قبل از رفع کے اعتبار سے تو صادق ہے۔ اس کے ساتھ ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف تنصیف عمر بیان کرنی منظور تھی۔ لہٰذا حصہ ثالثہ یعنی زمانہ بعد نزول کو ماضی ہی میں لپیٹ دیا تاکہ بیان تنصیف عمر میں تطویل لاطائل نہ اختیار کرنی پڑے اور تنصیف کل عمر اور تنصیف عمر نبوت ہر دو اعتبار سے معہ رعایت اختصار مستقیم ہو جائے اور سلسلہ نظم عبارت بھی بحال رہے۔ سبحان اﷲ! کس قدر بلاغت ہے۔ جب کہ یہ بات صاف ہو گئی کہ کل عمر جو زمین پر گزرے گی وہ ایک سو بیس برس ہے اور چالیس برس بحذف کسر بعد نزول زمین پر رہنے کی مدت ثابت ہے اور چالیس برس بعثت کے زمانہ کی بھی ثابت ہے۔ یہ ۸۰برس تو احادیث سے معلوم ہو گئے باقی رہے چالیس۔ معلوم ہوا کہ یہ زمانہ قبل بعثت کا ہے۔ کیونکہ آپ کی چالیس برس کی عمر میں بعثت ہوئی ہے جو کہ یہی عمر انبیاء ورسل کی بعثت کی مقرر ہے۔ جیسا کہ (زاد المعاد برحاشیہ شرح مواہب ج۱ ص۶۴) پر مذکور ہے اور جب یہ معلوم ہوگیا تو اب یہ بھی معلوم ہوگیا کہ آپ کا رفع اسی برس کی عمر میں ہوا۔ چنانچہ اصابہ میں سعید بن مسیب سے اسی طرح مذکور ہے اور چالیس برس بعد نزول رہ کر ۱۲۰برس ہوئے۔ یہ سب عمریں بحذف کسر ہیں اور بعض علماء نے ۱۲۰برس میں رفع فرمایا ہے اور ۴۰برس جو بعد نزول ہوگا اس کو نظرانداز کیا۔ کیونکہ یہ حصہ عمر بحیثیت خلافت وامامت گزرے گا۔ رسالت ونبوت کی ڈیوٹی پر نہ ہوں گے۔ افسوس مرزائی امت جس حدیث کو پیش کیاکرتے ہیں وہ تو انہی کی جڑ کاٹ رہی ہے۔ کیونکہ جب کہ بعد کے نبی کی عمر پہلے نبی کی عمر سے نصف ہوتی ہے تو مرزاقادیانی کدھر سے نبی ہوگئے۔ کیونکہ مرزاقادیانی کی عمر تو بجائے نصف کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر سے زیادہ ہے۔ بلکہ ان حدیثوں سے ہی یہ معلوم ہوگیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اگر کوئی نبی مبعوث ہوگا تو اس کی عمر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کے نصف یعنی ۳۰برس کی ہوگی۔ حالانکہ یہ عمر عمر بعثت ہی نہیں بلکہ ۱۰برس زمانہ مدت بعثت نکال کر ۲۰برس کی عمر میں بعثت ہوگی۔ وہو باطل!

خلاصۂ بحث​

۱… حضرت مسیح علیہ السلام کی عمر کے بارے میں اختلاف ضرور ہے۔ لیکن ٹھوس بات کسی کی نہیں۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ۳۳اور۱۲۰کے دونوں قول ذکر کر کے بلافیصلہ چھوڑ دیا ہے۔ (فتح الباری ج۲ ص۳۸۲) بعض ۳۳سال کہتے ہیں۔ جس کو حافظ ابن کثیر اور زرقانی شارح مواہب نے ترجیح دی ہے۔
(تفسیر ابن کثیر پارہ:۶، سورہ نساء وفتح البیان ج۲ ص۴۹۹)
مگر اس قول کو حافظ ابن القیم رحمہ اللہ تعالیٰ بے اصل قرار دیتے ہیں۔ (زادالمعاد ج۱ ص۱۹) دوسرا قال ۱۲۰سال کا ہے۔ جس کو حافظ ابن کثیر شاذ، غریب البعید (حوالہ مذکورہ) قرار دیتے ہیں۔ اس کی تائید میں طبرانی اور حاکم کے حوالہ سے بروایت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا جو روایت ذکر کی جاتی ہے وہ سخت ضعیف اور کمزور ہونے کے باعث دلیل بننے کے قابل نہیں۔ حافظ ابن کثیر نے بحوالہ مستدرک حاکم ذکر کر کے اس کو ’’حدیث غریب‘‘ (عجیب روایت) قرار دیا۔ (البدایۃ میں ج۲ ص۹۵ اور مجمع الزوائد ج۹ ص۲۳) بحوالہ طبرانی لاکر ضعیف کہہ دیا ہے۔
۲… البدایہ والی سند میں محمد بن عبداﷲ بن عمرو بن عثمان نامی ایک راوی ہے جو مختلف فیہ سمجھا گیا ہے۔ تاہم حضرت امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’عندہ عجائب‘‘ اس کے پاس عجیب عجیب روایتیں ہیں۔ (میزان ج۲ ص۷۸، تہذیب ج۲ ص۲۶۹) گویا ان کے نزدیک یہ راوی مشتبہ ٹھہرا۔
۳… حضرت مسیح علیہ السلام کی عمر کے بارے میں اختلاف کرنے والے دونوں فریق اصل مسئلہ پر متفق ہیں۔ یعنی اختلاف اس میں نہیں کہ آسمان کی طرف رفع ہوا یا نہیں۔ رفع آسمانی پر سب متفق ہیں۔ اختلاف اس میں ہے کہ آسمان کی طرف اٹھائے جانے کے وقت عمر کیا تھی؟ اور یہی حاصل نواب صدیق حسن خاں رحمہ اللہ تعالیٰ کی بحث کا ہے۔ جس کو مرزائی پاکٹ بک کا مصنف (ص۳۳۱ پر) لئے بیٹھا ہے۔ چنانچہ (حجج الکرامۃ ص۴۲۸) میں بات رفع کی ہورہی ہے۔ وفات کا تو یہاں کوئی قصہ ہی نہیں۔
قادیانی دوستو! اسی مردود روایت کی بناء پر احادیث صحیحہ اور آیات قرآنیہ کی تردید کرتے ہو۔

قادیانی سوال:۵۰​

کرہ زمہریر سے گزر کیسے؟
مرزاقادیانی (ازالہ اوہام ص۴۷، خزائن ج۳ ص۱۲۶) پر لکھتے ہیں کہ: ’’کسی جسد عنصری کا آسمان پر جانا سراسر محال ہے۔ اس لئے کہ ایک جسم عنصری طبقہ ناریہ اور کرۂ زمہریریہ سے کس طرح صحیح وسالم گزر سکتا ہے۔‘‘
جواب: ۱… جس طرح نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا لیلۃ المعراج میں اور ملائکۃ اﷲ کا لیل ونہار طبقہ ناریہ اور کرۂ زمہریریہ سے مرور وعبور ممکن ہے اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بھی عبور ومرور ممکن ہے اور:
۲… جس راہ سے حضرت آدم علیہ السلام کا ہبوط اور نزول ہوا ہے اسی راہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہبوط ونزول بھی ممکن ہے۔
۳… حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر آسمان سے مائدہ کا نازل ہونا قرآن کریم میں صراحۃً مذکور ہے: ’’ کما قال تعالٰی اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسٰی ابْنَ مَرْیَمَ ہَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّکَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآئِ (اِلٰی قولہ تعالٰی) قَالَ عِیْسٰی ابْنُ مَرْیَمَ اللّٰہُمَّ رَبَّنَا اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآئِ تَکُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَاٰخِرِنَا وَاٰیَۃً مِّنْکَ وَارْزُقْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الرَّازِقِیْنَ قَالَ اللّٰہُ اِنِّیْ مُنَزِّلَہَا عَلَیْکُمْ (مائدۃ:۱۱۲،۱۱۴،۱۱۵) ‘‘ پس اس مائدہ کا نزول بھی طبقہ ناریہ میں ہوکر ہوا ہے۔ مرزاقادیانی کے زعم فاسد اور خیال باطل کی بناء پر اگر وہ نازل ہوا ہوگا تو طبقہ ناریہ کی حرارت اور گرمی سے جل کر خاکستر ہوگیا ہوگا؟ نعوذ باﷲ من ہذہ الخرافات! یہ سب شیاطین الانس کے وسوسے ہیں اور انبیاء ومرسلین کی آیات نبوت اور کرامات رسالت پر ایمان نہ لانے کے بہانے ہیں۔ کیا خداوند ذوالجلال عیسیٰ علیہ السلام کے لئے طبقہ ناریہ کو ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرح برد اور سلام نہیں بناسکتا؟ جب کہ اس کی شان یہ ہے: ’’ اِنَّمَا اَمْرُہٗ اِذَا اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ (یٰسین:۸۲) ‘‘
۴… ان کروں سے روح القدس کا آسمان سے زمین اور زمین سے آسمانوں پر جانا تمام نیک ارواح کا آسمانوں پر جانا تسلیم ہے تو سیدنا روح اﷲ کے لئے یہ کرے مانع آگئے؟

قادیانی سوال:۵۱​

قادیانی بعض اکابر امت کی عبارات میں تحریف کر کے ثابت کرتے ہیں کہ معاذ اﷲ وہ وفات مسیح علیہ السلام کے قائل تھے۔
جواب: مرزاقادیانی نے (آئینہ کمالات اسلام ص۴۲۶، خزائن ج۵ ص ایضاً) پر لکھا ہے کہ: ’’وفات مسیح کا عقیدہ مجھ سے پہلے پردہ اخفاء میں تھا۔‘‘ اگر یہ صحیح ہے تو پہلے کے بزرگ کیسے وفات مسیح کے قائل تھے؟ اس سے ثابت ہوا کہ وہ بزرگوں پر افتراء کرتا ہے۔

قادیانی سوال: ۵۲​

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے مسیح اور آنے والے مسیح علیہ السلام کا رنگ، حلیہ، قد علیحدہ علیحدہ بیان کیا ہے۔
الجواب: اس طرح سے اگر دو عیسیٰ ہو جاتے ہیں تو دو موسیٰ بھی ماننا ہوں گے۔ کیونکہ ایسا ہی اختلاف سراپا موسیٰ میں بھی اسی حدیث میں مذکور ہے۔ ملاحظہ ہو: ’’ مُوْسٰی رَجُلاً اٰدَمَ طِوَالًا جَعْدَ کَاَنَّہٗ مِنْ رِجَالِ شَنُوْئَ ۃَ وَرَأَیْتُ عِیْسٰی رَجُلاً مَرْفُوْعًا مَرْبُوْعَ الْخَلْقِ اِلَی الْحُمُرَۃِ وَالْبَیَاضِ سَبَطَ الرَّأَس (بخاری ج۱ ص۴۵۹) ‘‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام گندمی رنگ، قد لمبا، گھنگریالے بال والے تھے۔ جیسے یمن کے قبیلہ شنوء ہ کے لوگ اور عیسیٰ علیہ السلام درمیانہ قد سرخ وسفید رنگ، سیدھے بال والے، اور کتاب الانبیاء میں ہے۔
’’لقیت موسٰی قال فنعتہ فاذا رجل حسبتہ قال مضطرب رجل الرأس کانہ من رجال شنوء ۃ قال ولقیت عیسٰی فنعتہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال ربعۃ احمر (وفی الحدیث الذی بعدہ) عیسٰی بعد مربوع (بخاری ج۱ ص۴۸۹، باب واذکر فی الکتاب مریم)‘‘ یعنی موسیٰ علیہ السلام دبلے سیدھے بال والے تھے۔ جیسے شنوء ہ کے لوگ اور عیسیٰ علیہ السلام میانہ قد سرخ رنگ کے گھنگرالے بال والے۔ پہلی حدیث میں موسیٰ علیہ السلام گھنگرالے بال والے تھے اور عیسیٰ علیہ السلام سیدھے بال والے۔ اس حدیث میں موسیٰ علیہ السلام سیدھے بال والے تھے اور عیسیٰ علیہ السلام گھنگریالے بال والے۔ پس دو موسیٰ اور دو عیسیٰ ہوئے (اور سنئے) ’’ وَاَمَّا عِیْسٰی وَاَحْمَرُ جَعْدٌ عَرِیْضُ الصَّدْرِ وَاَمَّا مُوْسٰی فَاٰدَمُ جَسِیْمٌ سَبط کَاَنَّہٗ مِنْ رِّجَالٍ الزُّطِّ (بخاری ایضاً) ‘‘ یعنی عیسیٰ علیہ السلام کا رنگ سرخ، بال گھنگرالے اور سینہ چوڑا ہے۔ لیکن موسیٰ علیہ السلام کا رنگ گندمی ہے۔ موٹے بدن کے سیدھے بال والے جیسے جاٹ لوگ ہوتے ہیں۔ پہلی حدیث کے موسیٰ دبلے پتلے شنوء ہ والوں کی طرح تھے اور اس حدیث کے موسیٰ موٹے بدن کے جاٹوں کی طرح ہیں۔ پہلی حدیث کے عیسیٰ علیہ السلام کا رنگ سفید سرخی مائل ہے۔ دوسری اور تیسری حدیث کے عیسیٰ کا رنگ بالکل سرخ۔ اس بناء پر جب دو عیسیٰ ہوسکتے ہیں ایک پہلا اور ایک ہونے والا تو موسیٰ بھی دو ہوسکتے ہیں؟ معاذ اﷲ!
ہیں۔ کیا خداوند ذوالجلال عیسیٰ علیہ السلام کے لئے طبقہ ناریہ کو ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرح برد اور سلام نہیں بناسکتا؟ جب کہ اس کی شان یہ ہے: ’’ اِنَّمَا اَمْرُہٗ اِذَا اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ (یٰسین:۸۲) ‘‘
۴… ان کروں سے روح القدس کا آسمان سے زمین اور زمین سے آسمانوں پر جانا تمام نیک ارواح کا آسمانوں پر جانا تسلیم ہے تو سیدنا روح اﷲ کے لئے یہ کرے مانع آگئے؟

قادیانی سوال:۵۱​

قادیانی بعض اکابر امت کی عبارات میں تحریف کر کے ثابت کرتے ہیں کہ معاذ اﷲ وہ وفات مسیح علیہ السلام کے قائل تھے۔
جواب: مرزاقادیانی نے (آئینہ کمالات اسلام ص۴۲۶، خزائن ج۵ ص ایضاً) پر لکھا ہے کہ: ’’وفات مسیح کا عقیدہ مجھ سے پہلے پردہ اخفاء میں تھا۔‘‘ اگر یہ صحیح ہے تو پہلے کے بزرگ کیسے وفات مسیح کے قائل تھے؟ اس سے ثابت ہوا کہ وہ بزرگوں پر افتراء کرتا ہے۔

قادیانی سوال: ۵۲​

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے مسیح اور آنے والے مسیح علیہ السلام کا رنگ، حلیہ، قد علیحدہ علیحدہ بیان کیا ہے۔
الجواب: اس طرح سے اگر دو عیسیٰ ہو جاتے ہیں تو دو موسیٰ بھی ماننا ہوں گے۔ کیونکہ ایسا ہی اختلاف سراپا موسیٰ میں بھی اسی حدیث میں مذکور ہے۔ ملاحظہ ہو: ’’ مُوْسٰی رَجُلاً اٰدَمَ طِوَالًا جَعْدَ کَاَنَّہٗ مِنْ رِجَالِ شَنُوْئَ ۃَ وَرَأَیْتُ عِیْسٰی رَجُلاً مَرْفُوْعًا مَرْبُوْعَ الْخَلْقِ اِلَی الْحُمُرَۃِ وَالْبَیَاضِ سَبَطَ الرَّأَس (بخاری ج۱ ص۴۵۹) ‘‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام گندمی رنگ، قد لمبا، گھنگریالے بال والے تھے۔ جیسے یمن کے قبیلہ شنوء ہ کے لوگ اور عیسیٰ علیہ السلام درمیانہ قد سرخ وسفید رنگ، سیدھے بال والے، اور کتاب الانبیاء میں ہے۔
’’ لقیت موسٰی قال فنعتہ فاذا رجل حسبتہ قال مضطرب رجل الرأس کانہ من رجال شنوء ۃ قال ولقیت عیسٰی فنعتہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال ربعۃ احمر (وفی الحدیث الذی بعدہ) عیسٰی بعد مربوع (بخاری ج۱ ص۴۸۹، باب واذکر فی الکتاب مریم) ‘‘ یعنی موسیٰ علیہ السلام دبلے سیدھے بال والے تھے۔ جیسے شنوء ہ کے لوگ اور عیسیٰ علیہ السلام میانہ قد سرخ رنگ کے گھنگرالے بال والے۔ پہلی حدیث میں موسیٰ علیہ السلام گھنگرالے بال والے تھے اور عیسیٰ علیہ السلام سیدھے بال والے۔ اس حدیث میں موسیٰ علیہ السلام سیدھے بال والے تھے اور عیسیٰ علیہ السلام گھنگریالے بال والے۔ پس دو موسیٰ اور دو عیسیٰ ہوئے (اور سنئے) ’’ وَاَمَّا عِیْسٰی وَاَحْمَرُ جَعْدٌ عَرِیْضُ الصَّدْرِ وَاَمَّا مُوْسٰی فَاٰدَمُ جَسِیْمٌ سَبط کَاَنَّہٗ مِنْ رِّجَالٍ الزُّطِّ (بخاری ایضاً) ‘‘ یعنی عیسیٰ علیہ السلام کا رنگ سرخ، بال گھنگرالے اور سینہ چوڑا ہے۔ لیکن موسیٰ علیہ السلام کا رنگ گندمی ہے۔ موٹے بدن کے سیدھے بال والے جیسے جاٹ لوگ ہوتے ہیں۔ پہلی حدیث کے موسیٰ دبلے پتلے شنوء ہ والوں کی طرح تھے اور اس حدیث کے موسیٰ موٹے بدن کے جاٹوں کی طرح ہیں۔ پہلی حدیث کے عیسیٰ علیہ السلام کا رنگ سفید سرخی مائل ہے۔ دوسری اور تیسری حدیث کے عیسیٰ کا رنگ بالکل سرخ۔ اس بناء پر جب دو عیسیٰ ہوسکتے ہیں ایک پہلا اور ایک ہونے والا تو موسیٰ بھی دو ہوسکتے ہیں؟ معاذ اﷲ!

عیسیٰ علیہ السلام کے رنگ وحلیہ کے اختلافات کی حدیثیں​

ورنہ حقیقت میں نہ موسیٰ علیہ السلام کے حلئے میں اختلاف ہے۔ نہ عیسیٰ علیہ السلام کے رنگ وحلیہ میں جس سے کہ دو ہستیاں سمجھی جاسکیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کے بیان میں لفظ ’’ جعد ‘‘ کے معنی گھنگرالے بال کے نہیں بلکہ کٹھیلے بدن کے ہیں۔ نہایہ ابن اثیر میں ہے: ’ ’مَعْنَاہُ شَدِیْدُ الْاَسْرِا وَالْخَلْقِ نَاقَۃٌ جْعَدَۃٌ اَیَ مُجْتَمِعَۃُ الْخَلْقِ شَدِیْدَۃٌ ‘‘ یعنی جعد کے معنی جوڑو بند کا سخت ہونا جعدہ اونٹنی مضبوط جوڑ بند والی۔ مجمع البحار میں ہے: ’’ اَمَّا مُوْسٰی فَجُعَدٌ اَرَادَ جُعُوْدَۃَ اَلْجِسِ وَہُوَ اِجْتَمَاعُہٗ وَاکتِنَازُہٗ لاضد سُبُوْطَۃُ الشِّعْرِ لِاَنَّہٗ رُوِیَ اَنَّہٗ رِجْلُ الشِّعْرِ وَکَذَا فِیْ وَصْفِ عِیْسٰی (ج۱ ص۱۹۶ کذافی فتح الباری ص۲۷۶ پ۱۳ ونووی شرح مسلم ج۱ ص۹۴) ‘‘ یعنی حدیث میں موسیٰ وعیسیٰ کے لئے جو لفظ جعد آیا ہے اس کے معنی بدن کا گٹھیلا ہونا ہے۔ نہ بالوں کا گھنگر ہونا کیونکہ ان کے بالوں کا سیدھا ہونا ثابت ہے۔ اسی طرح لفظ ضرب اور جسیم میں بھی اختلاف نہیں ہے۔ ضرب بمعنی نحیف البدن اور جسیم بمعنی طویل البدن: ’’ قال القاضی عیاض المراد باالجسیم فی صفۃ موسٰی الزیادہ فی الطول (فتح الباری ص۲۷۶ پ:۳) ‘‘ یعنی صفت موسیٰ میں لفظ جسیم کے معنی لمبائی میں زیادتی ہے۔ اسی طور سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رنگ میں بھی اختلاف نہیں ہے۔ لفظ احمر کا صحابی راوی نے سخت انکار کیا ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں موجود ہے: ’ ’عَنِ ابْنِ عُمُرُ قَالَ لَا وَاللّٰہِ مَاقَالَ النَّبِیٌّ صلی اللہ علیہ وسلم لَعِیْسٰی اَحْمَرَ (بخاری ج۱ ص۴۸۹) ‘‘ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم قسم کھا کر فرماتے ہیں کہ قسم ہے اﷲ کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صفت میں احمر (یعنی سرخ رنگ) کبھی نہیں فرمایا۔ پس پہلا رنگ برقرار رہا۔ یعنی سفید رنگ سرخی مائل لہٰذا رنگ وحلیہ کا اختلاف حضرت موسیٰ علیہ السلام وعیسیٰ علیہ السلام سے مدفوع ہے اور حقیقت میں جیسے موسیٰ علیہ السلام ایک تھے عیسیٰ علیہ السلام بھی ایک ہی ہیں۔

قادیانی سوال:۵۳​

یہ ایک عام قانون الٰہی ہر فرد بشر پر حاوی ہے تو کیونکر ہوسکتا ہے کہ اس کے صریح خلاف حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر موجود ہوں۔
الجواب: ۱… خاص دلائل سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات ثابت ہوچکی ہے اور علم اصول میں مقرر ومسلم ہے کہ خاص دلیل عام پر مقدم ہوتی ہے اور ان دونوں کے مقابلے میں دلیل خاص کا اعتبار کیا جاتا ہے۔ اس کے نظائر قرآن مجید میں بکثرت موجود ہیں۔ مثلاً عام انسانوں کی پیدائش کی نسبت فرمایا: ’’ اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ (دہر:۲) ‘‘ یعنی انسانوں کو ملے ہوئے نطفے سے پیدا کیا اور اس کے برخلاف حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوّا علیہا السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت خاص دلائل سے معلوم ہے کہ ان کی پیدائش بایں طور نہیں ہوئی پس ان کے متعلق دلیل خاص کا اعتبار کیاگیا اور دلیل عام کو ان کی نسبت چھوڑ دیا گیا ہے۔
۲… فرشتوں کی جائے قرار اصلی اور طبعی طور سے آسمان ہیں۔ مگر وہ عارضی طور پر مدت کے لئے زمین پر بھی رہتے ہیں۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

قادیانی سوال:۵۴​

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث شریف ہے کہ: ’’ عن عائشۃ رضی اللہ تعالیٰ عنھا قالت قال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم فی مرضہ الذی لم یقم منہ لعن اللّٰہ الیہود والنصاریٰ اتخذ واقبور انبیاء ہم مساجد (مسلم ج۱ ص۲۰۱، باب النہی عن بناء المساجد علی القبور) ‘‘ اﷲتعالیٰ یہود ونصاریٰ پر لعنت کریں کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبور کو سجدہ گاہ بنایا۔ پس یہود کی حد تک تو بات ٹھیک ہے۔ نصاریٰ کے لعنتی ہونے کے لئے ضروری ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی قبر کو وہ سجدہ گاہ بنائیں۔ ورنہ لعنتی کیسے؟ پس اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے۔
جواب: ۱… سیدنا آدم علیہ السلام سے سیدنا موسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیاء کو یہودی برحق مانتے ہیں۔ سیدنا آدم علیہ السلام سے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیاء کو نصاریٰ برحق مانتے ہیں۔ یہود ونصاریٰ کا صرف مسیح علیہ السلام پر اختلاف ہے۔ مسیحی ان کو برحق اور یہودی ناحق مانتے ہیں۔ پس آدم علیہ السلام سے موسیٰ علیہ السلام تک یہود ونصاریٰ جن انبیاء کی قبور کو سجدہ گاہ بناتے ہیں وہ سب کے سب اس حدیث کے بموجب ملعون ہیں۔
جواب: ۲… یہ حدیث شریف ’’ لعن اللّٰہ الیہود والنصاریٰ اتخذو قبور انبیاء ہم مساجد ‘‘ سیدنا مسیح علیہ السلام کی وفات کی دلیل نہیں بلکہ حیات کی دلیل ہے۔ اس لئے کہ اس حدیث کی رو سے اگر مسیح علیہ السلام فوت شدہ ہوتے یا ان کی کہیں قبر ہوتی تو وہ مسجود نصاریٰ ہونی چاہئے۔ کسی قبر کا بطور قبر مسیح کے مسجود نصاریٰ ہونا تو درکنار وہ مسیح علیہ السلام کو زندہ مانتے ہیں۔ کسی قبر کو مسیح علیہ السلام کی قبر ہی نہیں مانتے تو ثابت ہوا کہ مسیح علیہ السلام زندہ ہیں۔ اگر فوت شدہ ہوتے تو ان کی قبر مسجود نصاریٰ ہوتی۔ پس یہ حدیث سیدنا مسیح علیہ السلام کی حیات کی دلیل ہے نہ کہ وفات کی۔
جواب: ۳… مسلم شریف کی جس روایت سے قادیانیوں نے استدلال کیا ہے۔ اسی کتاب کے اس صفحہ پر اس حدیث سے آگے چوتھی روایت میں اس کی ایسی وضاحت وصراحت ہے جو قادیانی دجل کو بیخ وبن سے اکھاڑ دیتی ہے۔ ’’ عن جندب قال سمعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم قبل ان یموت بخمسوہو یقول وان من کان قبلکم کانوا یتخذون قبور انبیاء ہم وصالحیہم مساجد الا فلا تتخذوا القبور مساجد انی انہاکم عن ذالک (مسلم ج۱ ص۲۰۱، باب النہی عن بناء المسجد علی القبور) ‘‘ حضرت جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے پانچ دن قبل فرمایا: تم سے پہلے (امتوں کے لوگ) اپنے انبیاء وصلحاء کی قبور کو سجدہ گاہ بناتے تھے۔ خبردار تم قبور کو سجدہ گاہ نہ بنانا۔ میں تم کو اس سے منع کرتا ہوں۔
لیجئے! جب یہود ونصاریٰ کے ملعون ہونے کا ایک باعث یہ بھی ہے کہ وہ قبور انبیاء وصلحاء کو سجدہ گاہ بناتے تھے۔ پس ملعون ہونے کے لئے صرف قبور انبیاء کو سجدہ گاہ بنانا ضروری نہیں بلکہ اگر کوئی صلحاء کی قبور کو بھی سجدہ گاہ بناتا ہے تو وہ اس وعید کا مستحق ہے۔ نصاریٰ کے معلون ہونے کے لئے عیسیٰ علیہ السلام کی قبر کا ہونا شرط نہیں۔ بلکہ اگر وہ کسی صالح کی قبر کو سجدہ گاہ بنائیں گے تو اس وعید کے مستحق قرار پائیں گے۔ اس حدیث کی تعمیم نے سیدنا مسیح علیہ السلام کو اس سے خارج کر دیا۔ اس لئے کہ نہ ان کی قبر ہے نہ وہ مسجود نصاریٰ ہے۔ پس وہ زندہ ثابت ہوئے۔ مسیح کی حیات ثابت ہوئی نہ کہ وفات، البتہ اس حدیث نے قادیانی اعتراض کو ابدی موت دے دی۔
جواب: ۴… ’’ اتخذوا قبور انبیائہم مساجد ‘‘ میں ’’ انبیائہم ‘‘ میں اضافت استغراق کے لئے نہیں ہے کہ آدم علیہ السلام سے موسیٰ علیہ السلام تک ہر نبی کی قبر کو تمام یہودونصاریٰ نے سجدہ گاہ بنایا ہو۔ یہ یقینا اور واقعتا غلط ہے۔ اس لئے کہ ہزاروں انبیاء کی قبور کا تو پتہ تک نہیں۔ جب استغراق نہیں تو بعض میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو داخل کرلینا باطل اور مردود ہے۔ یہود ونصاریٰ کا بعض انبیاء کی قبور کو سجدہ گاہ بنالینا حدیث کی صداقت کے لئے کافی ہے۔

قادیانی سوال:۵۵​

سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اگر زندہ ہیں تو تم ان کو آسمانوں سے اتار کیوں نہیں لاتے؟
جواب: قادیانی جب جل بھن جاتے ہیں تو پھر یہ اعتراض کر دیتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں تو آسمانوں سے اتار لاؤ۔ عرصہ ہوا ایک بار قادیانیوں نے ’’منہ مانگا انعام‘‘ مقرر کر کے اشتہار شائع کیا۔ اس کا حضرت مولانا محمد اکرم طوفانی صاحب مدظلہ کی طرف سے جواب شائع ہوا۔ مولانا کا اشتہار سامنے نہیں تاہم مولانا نے جو شائع کیا اس کا مفہوم یہ تھا۔
۱… سیدنا عیسیٰ علیہ السلام قرآن وسنت واجماع امت کی رو سے آسمانوں پر زندہ ہیں۔ ان کو آسمانوں پر لے جانے والی ذات اﷲتعالیٰ کی ہے۔ کسی انسان سے نازل کرنے کے مطالبہ کی بجائے یہ مطالبہ اﷲتعالیٰ سے کریں تاکہ قادیانیوں کا کفار مکہ کی سنت پر عمل ہو جائے۔ جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ ہمارے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم آسمانوں سے اتر کر کتاب ہمراہ لائیں جو ہمارے نام لکھی گئی ہو۔ اسے پڑھ کر پھر ایمان لائیں گے۔
۲… سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا نزول من السماء قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے ہے۔ جسے دابۃ الارض کا خروج، دجال کا خروج وغیرہ۔ یہ اعتراض تب قادیانی کر سکتے تھے جب قیامت آجاتی۔ یہ علامات پوری ہو جاتیں اور عیسیٰ علیہ السلام تشریف نہ لاتے۔ تب قادیانی واویلا سمجھ میں آسکتا تھا۔ شریفو! جب قیامت کی دیگر علامات کبریٰ ظاہر نہیں ہوئیں تو اس ایک پرواویلا کرنا قبل از مرگ واویلا والی بات ہے۔
۳… انعام مقرر کرنے کرانے کا شوق ہے تو چشم ماروشن دل ماشاد۔ آئیے! غور کیجئے کہ کسی کو آسمانوں پر لے جانا واپس لانا انسان کے بس کی بات نہیں۔ یہ اﷲتعالیٰ کے کرم وقدرت کے فیصلے ہیں۔ اس میں انسان دخل نہیں دے سکتا۔ البتہ کسی انسان کی زندگی غلط یا صحیح۔ کردار درست یا غلط پر بحث کرنا انسان کے لئے آسان ہے۔ قادیانی آئیں، مرزاغلام احمد قادیانی کو نبی تو درکنار شریف انسان ثابت کر دیں اور ہم مرزاقادیانی کو بدکردار، شراب کا پاپی، غیر محرم عورتوں سے مٹھیاں بھروانے والا، کبھی کبھی زنا کرنے والا، بددیانت، بداخلاق، بدزبان، جھوٹا، مکار، عیار، فریبی، دغاباز ثابت کرتے ہیں۔ تم اسے شریف انسان ثابت کردو تو میں ایک کروڑ روپیہ تمہیں انعام دینے کے لئے تیار ہوں۔ آئیں، شرائط طے کریں۔ گفتگو ہو جائے جو انسانی بس میں ہے۔ اس پر عمل کر کے کروڑوں کا انعام حاصل کرو۔ چونکہ مولانا طوفانی صاحب کے اس اشتہار کو چناب نگر میں گلی گلی تقسیم کیاگیا تھا۔ قادیانی پریس نے الفضل لندن تک اس پر گالیوں کی بوچھاڑ کی۔ مگر قادیانی مردمیدان نہ بنے۔ سمجھئے صاحب! سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا نزول من السماء الی الارض الدنیا قیامت کی نشانی ہے۔ قیامت کے قریب سب کچھ ہوگا۔ قیامت کب آئے گی۔ اس کا علم سوائے اﷲتعالیٰ کے کسی کو نہیں۔ اس کے وقوع سے قبل اس قسم کے اعتراضات سنت کفار ہیں نہ کہ طریقہ اخیار۔ فافہم!

قادیانی سوال:۵۶​

سیدنا مسیح علیہ السلام ومہدی علیہ السلام کس فرقہ سے ہوں گے۔ اس وقت دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، شیعہ، حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی مختلف مسالک ہیں۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور سیدنا مہدی علیہ الرضوان کس مسلک کے ہوئے۔ نیز ان پر امت کا اتفاق کیسے ہوگا؟
جواب: ۱… سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اﷲ رب العزت کے جلیل القدر نبی ہیں۔ ان کی تشریف آوری کے صرف اہل اسلام ہی نہیں بلکہ اہل کتاب بھی منتظر ہیں۔ اسی طرح سیدنا مہدی علیہ الرضوان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے وہ جلیل القدر فرد ہیں جن کی تشریف آوری کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی اس لئے پوری امت ان کی تشریف آوری پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے پورا ہونے کا منظر دیکھنے کی سعادت کے لئے چشم براہ ہے۔ اس لئے ان کی آمد پر پوری امت کا ایسا اتحاد واتفاق کا قابل دید منظر ہوگا کہ اس وقت تمام اختلاف ورنجشیں ختم ہو جائیں گی۔ ایسا اتحاد واتفاق کا منظر کہ بچے سانپ سے کھیلیں گے۔ شیربکریوں کے ساتھ چرے گا۔ پس ان کی آمد پر اتفاق ہوگا نہ کہ اختلاف۔
۲… سیدنا عیسیٰ علیہ السلام وسیدنا مہدی علیہ السلام ایسے مقام پر فائز ہوں گے کہ پوری دنیا ان کی پیروی کرے گی۔ جیسا کہ ’’ یہلک الملل کلہا الاملۃ واحدۃ ‘‘ کا تقاضہ ہے۔ پس ان کے آنے پر تفرقہ بازی ختم ہوگی نہ کہ وہ خود تفرقہ کا شکار ہوں گے۔ سیدنا مہدی علیہ الرضوان کی بیعت بیت اﷲ شریف میں ہوگی۔ آج بھی بیت اﷲ شریف میں حاضر ہونے والوں کا عموماً منظر یہ ہے کہ ایک ہی امام کے پیچھے تمام فقہوں تمام مسالک وتمام ممالک والے صف آراء ہوتے ہیں تو سیدنا مسیح ومہدی علیہما السلام کی آمد پر امت کی ایسی صف بندی ہوگی کہ اس میں کسی کو کوئی دراڑ تک نظر نہ آئے گی۔ کاالجسد الواحد کا منظر ہوگا۔
۳… دور کیوں جاتے ہیں۔ خود پاکستان اور برصغیر میں مشترکہ مقاصد کے لئے اتفاق کی راہیں بنتی رہیں۔ تحاریک ختم نبوت میں تمام مسالک اکٹھے ہوئے۔ جعلی مہدی وفرضی مسیح مرزاقادیانی کے نظریات کے جواب کے لئے امت اکٹھی ہوئی۔ تاکہ سیدنا مسیح بن مریم علیہماالسلام اور مہدی علیہ الرضوان کی مسند پر کوئی غلط آدمی براجمان نہ ہو۔ جب ان ہر دو حضرات کے مسند ومقام کے تحفظ کے لئے امت کے اکٹھا ہونے کی لازوال مثالیںموجود ہیں تو ان کی تشریف آوری پر اتحاد ویگانگت کے نہ ہونے کی بات کرنا ابلہ فریبی نہیں تو اور کیا ہے؟
۴… غرض ان کی آمد پر اتفاق ہوگا۔ اس وقت اتحاد کا نہ ہونا غلام احمد قادیانی کے کذب کی صریح دلیل ہے۔ بلکہ اس کے ماننے والوں کا لاہوری وقادیانی گروپس میں تقسیم ہونا ’’ ظلمات بعضہا فوق بعض ‘‘ کا مصداق ہے۔

قادیانی اعتراض:۵۷​

تقدیم وتاخیر الحاد ہے۔
جواب: واؤ جمع کے لئے ہوتی ہے۔ ترتیب کے لئے ذیل میں قرآن مجید سے مثالیں ہوں:
’’ واسجدی وارکعی مع الراکعین ‘‘ حالانکہ رکوع، سجود پر بالاجماع مقدم ہے۔ ایک جگہ قرآن میں ہے: ’’ ادخلوا الباب سجدًا وقولوا حطۃ (سورۃ بقرہ) ‘‘ دوسری جگہ ہے: ’’ قولو حطۃ وادخلوا الباب سجدًا (سورۃ اعراف) ‘‘ اگر واؤ میں ترتیب ہو تو ان دونوں میں تعارض لازم آتا۔ ’’ واوحینا الٰی ابراہیم واسماعیل واسحق ویعقوب والاسباط وعیسٰی وایوب ویونس وہارون وسلیمان‘‘ حالانکہ ایوب، یونس، ہارون، سلیمان، حضرت عیسیٰ پر مقدم ہیں۔ ’’قال تعالٰی ماہی الا حیاتنا الدنیا نموت ونحیٰ ‘‘ حالانکہ حیاۃ موت پر مقدم ہے۔ ’’ قولہ تعالٰی حتی تستانسوا وتسلموا ‘‘ حالانکہ شرعاً سلام مقدم ہوتا ہے استیذان پر، اور ’’ ان الصفا والمروۃ من شعائر اﷲ ‘‘ جب نازل ہوئی تو صحابہ رضی اللہ عنہ وعنھم نے عرض کیا کہ پہلے صفا کا طواف کریں یا مروہ کا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صفا سے اگر واؤ ترتیب کے لئے موضوع ہوتا تو اس سوال کی کوئی حاجت نہ تھی اور جمیع نحاۃ کا اتفاق ہے کہ واؤ ترتیب کے لئے نہیں مطلق جمع کے لئے ہے۔

قادیانیوں سے سوال​

۱… مرزاقادیانی نے لکھا کہ: ’’سچ کی یہی نشانی ہے کہ اس کی کوئی نظیر بھی ہوتی ہے اور جھوٹ کی یہ نشانی ہے کہ اس کی کوئی نظیر نہیں ہوتی۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۶، خزائن ج۱۷ ص۹۵)
قادیانی فرمائیں کہ مرزاقادیانی نے کہا کہ میں مسیح علیہ السلام کا بروز ہوں۔ کیا امت میں سے آج تک کسی نے بروز مسیح ہونے کا دعویٰ کیا؟ نہیں تو مرزاقادیانی کے جھوٹے ہونے میں کیا کلام رہ جاتا ہے؟
۲… مرزا قادیانی نے کہا کہ میں اس صدی کا مجدد ہوں اور اپنا عقیدہ بتایا کہ مسیح فوت ہوگئے۔ ان کی جگہ میں مسیح ہوں۔ کیا تیرہ صدیوں کے کسی مجدد نے اپنا وفات مسیح کا عقیدہ بتایا؟ یا کسی مجدد نے اپنے آپ کو بروز مسیح کہا؟ کوئی اس کی نظیر لاسکتے ہو؟ نہیں تو اگر تیرہ صدیوں کے مجدد صحیح تھے تو مرزا قادیانی غلط اور اگر مرزا قادیانی صحیح تو تیرہ صدیوں کے مجدد غلط۔ مرزائی فیصلہ کریں۔
۳… مرزا قادیانی نے کہا کہ میں ظلی طور پر محمدرسول اﷲ ہوں۔ اس دعویٰ پر پوری امت میں کوئی نظیر قادیانی دکھاسکتے ہیں کہ آج تک کسی امت کے فرد نے خود کو محمدرسول اﷲ قرار دیا ہو؟
۴… مرزا قادیانی نے کہا کہ پوری امت سے نبوت کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا۔ (حقیقت الوحی ص۳۹۱، خزائن ج۲۲ص۴۰۶) ’’میں ہی مخصوص کیا گیا۔‘‘ یہ الفاظ بتارہے ہیں کہ اس کی امت میں نظیر نہیں۔ مرزا قادیانی کا اقرار ہے جس کی نظیر نہ ہو وہ جھوٹ ہے۔ تو مرزائی بتائیں کہ مرزا قادیانی کے جھوٹے ہونے میں کوئی کسر رہ گئی؟
۵… کیا تیرہ صدیوں کے کسی ایک مجدد نے کہا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی قبر کشمیر سری نگر محلہ خانیار میں ہے۔ کسی ایک مجدد یا تیرہ صدیوں کے کسی ایک قابل مفسر یا قابل ذکر ایک مؤرخ کا قادیانی نام بتاسکتے ہیں۔ قیامت تک؟
۶… مرزا قادیانی نے (حقیقت الوحی ص۳۱، خزائن ج۲۲ص۳۳) پر کہا کہ: ’’ أانت قلت للناس ‘‘ کا سوال حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے قیامت کے روز ہوگا۔‘‘ اور (ازالہ اوہام ص۲۴۸، خزائن ج۳ص۴۲۵) پر کہا کہ :’’ یہ قصہ وقت نزول آیت زمانہ ماضی کا……‘‘ کیا ایک ہی واقعہ میں زمانہ ماضی اور مستقبل دونوں پائے جاسکتے ہیں؟
۷… مرزا قادیانی نے (آئینہ کمالات ص۵۲۶، خزائن ج۵ ص ایضاً) پر لکھا ہے کہ: ’’وفات مسیح کا عقیدہ مجھ پر کھولا گیا۔ اس سے پہلے پردہ اخفاء میں رکھا گیا تھا۔‘‘ اگر پردہ اخفاء میں تھا تو پہلے کے بزرگ کیسے قائل تھے۔ اگر وہ قائل تھے تو پھر پردہ اخفاء کیسا؟
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

جلد 3​

تفصیلی فہرست!
پیش لفظ ………………………………………………………… ۴۶۴
باب اوّل … مرزاغلام احمد قادیانی کے حالات
نسب وخاندان ………………………………………………… ۴۶۵
چینی الاصل ………………………………………………………… ۴۶۶
شجرۂ نسب ………………………………………………………… ۴۶۶
شجرۂ مرزا ………………………………………………………… ۴۶۶
خاندان مرزا ………………………………………………………… ۴۶۶
پیدائش مرزا ………………………………………………………… ۴۶۷
مرزاقادیانی کی ماں کا نام ………………………………………………… ۴۶۷
مرزاقادیانی کے استاد ………………………………………………… ۴۶۷
مرزاغلام احمد قادیانی کا بچپن … ’’چڑیاں پکڑنا‘‘ ………………………………… ۴۶۸
میاں ’’محمود احمد‘‘ کا چڑیاں پکڑنا ………………………………………… ۴۶۸
چوری کرنا ………………………………………………………… ۴۶۸
روٹی پر راکھ ………………………………………………………… ۴۶۸
مرزا’’غلام احمد قادیانی‘‘ کی جوانی … باپ کی پنشن ………………………………… ۴۶۹
ٹہلتے ٹہلتے کھانا ………………………………………………… ۴۶۹
مرزاقادیانی کا ازار بند ………………………………………………… ۴۶۹
مرزاقادیانی کی گرگابی ………………………………………………… ۴۶۹
الٹی جراب، الٹے بٹن، الٹی جوتی ………………………………………… ۴۷۰
صدری کے بٹن کوٹ کے کاج میں ………………………………………… ۴۷۰
کپڑے تکیہ کے نیچے ………………………………………………… ۴۷۰
جیب میں اینٹ ………………………………………………… ۴۷۰
انگلی سے سالن لینا ………………………………………………… ۴۷۰
بائیں ہاتھ سے چائے، پانی پینا ………………………………………… ۴۷۰
مرزا قادیانی اور شراب ………………………………………………… ۴۷۱
گڑ اور ڈھیلے ………………………………………………………… ۴۷۱
مرزاقادیانی اور کتا ………………………………………………… ۴۷۱
مرزے کا کتا ………………………………………………………… ۴۷۱
مرزا کتوں کا شکار کھیلتا تھا ………………………………………………… ۴۷۱
اسٹیشن کی سیر ………………………………………………………… ۴۷۲
تھیٹر دیکھنا ………………………………………………………… ۴۷۲
مرزاغلام احمد قادیانی کی حالت زار … درد زہ ………………………………… ۴۷۳
جائے نفرت ………………………………………………………… ۴۷۳
احتلام ………………………………………………………… ۴۷۳
کبھی کبھی زنا ………………………………………………………… ۴۷۳
باب دوم … مرزاقادیانی اور صنف نازک
بدنظری کے متعلق مرزاقادیانی کا فتوی ………………………………………… ۴۷۳
مرزاقادیانی کا فعل
کھانا دینے والی عورت ………………………………………………… ۴۷۴
پاخانہ میں لوٹا رکھنے والی غیرمحرم عورت ………………………………………… ۴۷۴
خاص خدمت گار غیر محرم عورت ………………………………………… ۴۷۴
غیر محرم عورت بھانو پاؤں دبایا کرتی تھی ………………………………………… ۴۷۴
پہرہ دینے والی غیر محرم عورتیں ………………………………………… ۴۷۴
غیرمحرم عورت کو اپنا جوٹھا قہوہ پلایا ………………………………………… ۴۷۵
غیرمحرم عورت سے نظم کا قافیہ پوچھا ………………………………………… ۴۷۵
غیرمحرم عورت کا مراق اپنی خدمت کراکر دور کر دیا ………………………………… ۴۷۵
غیرمحرم عورت سے تین ماہ خدمت کرواکر اس کا دل خوشی اور سرور سے بھر دیا ………………… ۴۷۵
غیرمحرم لڑکیوں کو گھر میں رکھ کر ان کی شادی کا بندوبست کرتے تھے ………………………… ۴۷۶
ننگی عورت ………………………………………………………… ۴۷۶
غرارہ ………………………………………………………… ۴۷۶
اﷲ مرد اور مرزاقادیانی عورت ………………………………………… ۴۷۶
مرزاقادیانی کا حاملہ ہونا ………………………………………………… ۴۷۷
مرزا کے صحابی کا مبارک عمل
نماز میں مرزا کے جسم کو ٹٹولنا ………………………………………………… ۴۷۷
جسم پر نامناسب طور پر ہاتھ پھیرنا ………………………………………… ۴۷۷
باب سوم … مرزاغلام احمد قادیانی کے فرشتے
ٹیچی ٹیچی ………………………………………………………… ۴۷۸
شیر علی ………………………………………………………… ۴۷۸
مرزاغلام قادر………………………………………………………… ۴۷۹
خیراتی ………………………………………………………… ۴۷۹
مٹھن لال ………………………………………………………… ۴۷۹
حفیظ ………………………………………………………… ۴۷۹
درشنی ………………………………………………………… ۴۸۰
باب چہارم … مرزاقادیانی کی عملی زندگی
دادا کی پنشن کا ہڑپ کر جانا ………………………………………………… ۴۸۰
مختاری کے امتحان میں فیل ………………………………………………… ۴۸۱
ایک قادیانی روایت ملاحظہ ہو ………………………………………… ۴۸۲
گمنام منی آرڈروں کا ملنا ………………………………………………… ۴۸۲
انگریز کی اطاعت خدا کی اطاعت کی طرح فرض ………………………………… ۴۸۳
جہاد قطعی حرام ہے ………………………………………………… ۴۸۳
مرزاقادیانی قادیان میں ………………………………………………… ۴۸۳
مرزاقادیانی کا پہلا تصنیفی کارنامہ ………………………………………… ۴۸۴
تصنیف کی دنیا میں ایک لازوال کمال ………………………………………… ۴۸۵
پچاس جلدوں کا وعدہ ………………………………………………… ۴۸۵
مرزاقادیانی کے دجل کی انتہاء ………………………………………… ۴۸۶
پانچ اور پچاس ………………………………………………… ۴۸۶
مرزائیوں کے جواب کا تجزیہ ………………………………………… ۴۸۷
صداقت اسلام کے نعرہ سے اسلام کی بیخ کنی کا آغاز ………………………………… ۴۸۷
باب پنجم … دعاوی مرزا
بیت اﷲ ہونے کا دعویٰ ………………………………………………… ۴۸۸
۱۸۸۲ء مجدد ہونے کا دعویٰ ………………………………………………… ۴۸۸
۱۸۸۲ء مامور ہونے کا دعویٰ ………………………………………… ۴۸۸
۱۸۸۲ء نذیر ہونے کا دعویٰ ………………………………………………… ۴۸۸
۱۸۸۳ء آدم، مریم اور احمد ہونے کا دعویٰ ………………………………………… ۴۸۸
۱۸۸۴ء رسالت کا دعویٰ ………………………………………………… ۴۸۹
۱۸۸۶ء توحید وتفرید کا دعویٰ ………………………………………………… ۴۸۹
۱۸۹۱ء مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ ………………………………………… ۴۸۹
۱۸۹۱ء مسیح ابن مریم ہونے کا دعویٰ ………………………………………… ۴۸۹
۱۸۹۲ء صاحب ’’کن فیکون‘‘ ہونے کا دعویٰ ………………………………… ۴۸۹
۱۸۹۸ء مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ ………………………………………… ۴۹۰
۱۸۹۸ء امام زماں ہونے کا دعویٰ ………………………………………… ۴۹۰
۱۹۰۰ء تا ۱۹۰۸ء ظلی نبی ہونے کا دعویٰ ………………………………………… ۴۹۰
نبوت ورسالت کا دعویٰ ………………………………………………… ۴۹۰
مستقل صاحب شریعت نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ ………………………………… ۴۹۰
باب ششم … عقائد مرزا
حضرت حق تعالیٰ جل شانہ کی شان اقدس میں مرزاکی ہرزہ سرائی ………………………… ۴۹۱
حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم ………………………………………… ۴۹۳
ہلال اور بدر کی نسبت ………………………………………………… ۴۹۴
بڑی فتح مبین ………………………………………………… ۴۹۵
روحانی کمالات کی ابتداء اور انتہاء ………………………………………… ۴۹۵
ذہنی ارتقاء ………………………………………………………… ۴۹۵
محمد رسول اﷲ کی دو بعثتیں ………………………………………………… ۴۹۵
مرزاقادیانی بعینہ محمد رسول اﷲ ………………………………………… ۴۹۶
محمد رسول اﷲﷺ کے تمام کمالات مرزاقادیانی میں ………………………………… ۴۹۷
مرزاخاتم النّبیین ………………………………………………… ۴۹۷
مرزاافضل الرسل ………………………………………………… ۴۹۷
فخر اوّلین وآخرین ………………………………………………… ۴۹۸
پہلے محمد رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر ………………………………………… ۴۹۸
حضرات انبیاء کرام علیہم السلام ………………………………………………… ۴۹۸
حضرت مسیح علیہ السلام ………………………………………………… ۵۰۰
اسلام اور مرزا قادیانی ………………………………………………… ۵۰۲
اسلام وہی جو مرزا کہے، مسلمان وہی جو مرزا کو مانے ………………………………… ۵۰۳
حضرات صحابہ کرام علیہم الرضوان ………………………………………… ۵۰۳
قرآن وسنت ………………………………………………… ۵۰۵
حرمین شریفین زادہما اﷲ شرفاً وتعظیماً ………………………………………… ۵۰۷
علماء واولیاء امت ………………………………………………… ۵۰۸
جملہ مخالفین کے خلاف ………………………………………………… ۵۰۹
تمام مسلمانوں کے لئے فتویٰ کفر ………………………………………… ۵۱۰
مسلمانوں سے معاشرتی بائیکاٹ ………………………………………… ۵۱۱
الگ دین، الگ امت ………………………………………………… ۵۱۳
مرزائیوں کے قبرستان میں مسلمانوں کا بچہ بھی دفن نہیں ہوسکتا ………………………… ۵۱۴
مرزا قادیانی کے انٹ شنٹ الہامات ………………………………………… ۵۱۴
باب ہفتم … مرزاقادیانی کی پیش گوئیاں
دلیل اوّل ………………………………………………………… ۵۱۶
پہلی پیش گوئی … مرزاقادیانی کی موت سے متعلق ………………………………… ۵۱۷
دوسری پیش گوئی … زلزلہ اور پیر منظور محمد کے لڑکے کی پیش گوئی ………………………… ۵۱۷
تیسری پیش گوئی … ریل گاڑی کا تین سال میں چلنا ………………………… ۵۱۷
چوتھی پیش گوئی … غلام حلیم کی بشارت ………………………………………… ۵۱۸
پانچویں پیشگوئی … محمدی بیگم سے متعلق ………………………………… ۵۱۸
چھٹی پیش گوئی … عبداﷲ آتھم عیسائی ………………………………… ۵۲۰
ساتویں پیش گوئی … ڈاکٹر عبدالحکیم خان صاحب کے متعلق ………………………… ۵۲۱
آٹھویں پیش گوئی … مولانا ثناء اﷲ صاحب کے متعلق ………………………… ۵۲۲
نویں پیش گوئی … عالم کباب کے متعلق ………………………………… ۵۲۴
دسویں پیش گوئی … مرزاغلام احمد کی طاعون کی پیش گوئی ………………………… ۵۲۵
گیارھویں پیش گوئی … مرزاغلام احمد قادیانی کی عمر کی پیش گوئی ………………………… ۵۳۲
بارھویں پیش گوئی … پنڈت لیکھرام کی موت کی پیش گوئی ………………………… ۵۳۷
باب ہشتم … کذب بیانی اور مرزاقادیانی
کذبات مرزاقادیانی ………………………………………………… ۵۴۱
مرزاقادیانی کی تاریخ دانی … نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارہ لڑکیاں ………………………… ۵۴۲
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گیارہ لڑکے ………………………………………… ۵۴۲
صفر، چوتھا مہینہ، چار شنبہ چوتھادن ………………………………………… ۵۴۲
باب نہم … تضادات مرزا
قادیانی نبی کی متضاد باتیں ………………………………………………… ۵۴۴
حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق متضاد باتیں ………………………………………… ۵۴۵
مرزاقادیانی کا اپنے متعلق فیصلہ کہ خارج ازاسلام اور کافر ہے ………………………… ۵۴۷
مرزاقادیانی کا اپنے ملعون ہونے کا فیصلہ ………………………………………… ۵۴۸
باب دہم … مرزاقادیانی کی بیماریاں
مرض ہسٹیریا کا دورہ ………………………………………………… ۵۴۸
دورے پر دورہ ………………………………………………… ۵۴۹
خونی قے ………………………………………………………… ۵۴۹
مراق ………………………………………………………… ۵۴۹
ہسٹریا ………………………………………………………… ۵۴۹
دق ………………………………………………………… ۵۴۹
نامردی ………………………………………………………… ۵۵۰
کالی بلا ………………………………………………………… ۵۵۰
سخت دورہ اور ٹانگیں باندھنا ………………………………………………… ۵۵۰
اوپر اور نیچے والے امراض ………………………………………………… ۵۵۰
پرانی اور دائمی بیماریاں ………………………………………………… ۵۵۰
اعصابی کمزوری ………………………………………………… ۵۵۰
حافظہ کا ستیاناس ………………………………………………… ۵۵۱
پاخانوں کی یلغار ………………………………………………… ۵۵۱
بے ہوشی ………………………………………………………… ۵۵۱
مقعد سے خون ………………………………………………… ۵۵۱
انتہائی کمزوری ولاچاری ………………………………………………… ۵۵۱
سستی نبض اور گھبراہٹ ………………………………………………… ۵۵۱
دم الٹ دینے والی کھانسی ………………………………………………… ۵۵۱
پاؤں کی سردی ………………………………………………… ۵۵۲
کھانسی اور جوشاندہ ………………………………………………… ۵۵۲
کھانسی اور گرم گرم گنا ………………………………………………… ۵۵۲
سر کے بالوں کی بیماری ………………………………………………… ۵۵۲
گنجا پن ………………………………………………………… ۵۵۲
مراق ………………………………………………………… ۵۵۲
دانت درد ………………………………………………………… ۵۵۲
پیر جھسوانا اور بدن دبوانا ………………………………………………… ۵۵۳
دورہ دوران سر ………………………………………………… ۵۵۳
مرزاقادیانی کو پاخانے کی ضرورت ………………………………………… ۵۵۳
پھٹی ہوئی ایڑیاں ………………………………………………… ۵۵۳
سردی گرمی ………………………………………………………… ۵۵۳
انگھوٹھے کا درد ………………………………………………… ۵۵۳
انگوٹھے کی سوجن ………………………………………………… ۵۵۳
ٹخنے کا پھوڑا ………………………………………………… ۵۵۳
لتاڑا ………………………………………………………… ۵۵۴
خارش ………………………………………………………… ۵۵۴
کیچڑ ………………………………………………………… ۵۵۴
سفید بال ………………………………………………………… ۵۵۴
لکنت ………………………………………………………… ۵۵۴
چشم نیم باز ………………………………………………………… ۵۵۴
داڑھوں کا کیڑا ………………………………………………… ۵۵۵
دل گھٹنے کا دورہ ………………………………………………… ۵۵۵
پیچش ………………………………………………………… ۵۵۵
گرمی دانے ………………………………………………………… ۵۵۵
دردگردہ ………………………………………………………… ۵۵۵
دوران سر ………………………………………………………… ۵۵۵
پشت پر پھنسی ………………………………………………………… ۵۵۵
سردی اور متلی ………………………………………………………… ۵۵۶
گرمیوں میں جرابیں ………………………………………………… ۵۵۶
کھانسی ………………………………………………………… ۵۵۶
مائی اوپیا ………………………………………………………… ۵۵۶
چکر ………………………………………………………… ۵۵۶
سل ………………………………………………………… ۵۵۶
ذیابیطس اور پیشاب کی زیادتی ………………………………………… ۵۵۷
دائمی مریض سو دفعہ پیشاب ………………………………………………… ۵۵۷
ادھ کھلی آنکھیں ………………………………………………… ۵۵۷
سرعت پیشاب ………………………………………………… ۵۵۷
ریشمی ازاربند ………………………………………………… ۵۵۷
ضعف دماغ ………………………………………………………… ۵۵۷
مرض الموت ’’ہیضہ‘‘ ………………………………………………… ۵۵۷
باب یازدہم … مرزا قادیانی کے مالی معاملات
مرزا قادیانی اور دیانت ………………………………………………… ۵۶۰
مرزاغلام احمد قادیانی کی خیانت ملاحظہ فرمائیں ………………………………… ۵۶۱
باب دوازدہم … مرزا قادیانی اور اغیار کی غلامی

باب سیزدہم … مرزا قادیانی اور اعمال صالحہ
منہ میں پان اور نماز ………………………………………………… ۵۶۴
روزے تڑوادئیے ………………………………………………… ۵۶۴
حج، اعتکاف، زکوٰۃ ………………………………………………… ۵۶۴
کذب بیانی، وعدہ خلافی، تلبیس اور دھوکا دہی ………………………………… ۵۶۵
مرزا قادیانی اور انبیاء سابقین ………………………………………… ۵۶۶
مرزا قادیانی اور بہادری ………………………………………………… ۵۶۷
مال ودولت اور نبوت ………………………………………………… ۵۶۸
شاعری اور نبوت ………………………………………………… ۵۷۰
عشقیہ ………………………………………………………… ۵۷۰
عشقیہ شعر وشاعری ………………………………………………… ۵۷۰
قومی زبان اور نبوت ………………………………………………… ۵۷۱
نبوت اور معجزہ ………………………………………………… ۵۷۱
دعویٰ خدائی ………………………………………………………… ۵۷۳
مردمیت اور نبوت ………………………………………………… ۵۷۴
تدریجی دعویٰ نبوت ………………………………………………… ۵۷۵
علامات نفاق اور مرزا قادیانی ………………………………………… ۵۷۵
وراثت اور نبوت ………………………………………………… ۵۷۷
نبی کی تدفین ………………………………………………………… ۵۸۰
انبیاء کا بکریاں چرانا ………………………………………………… ۵۸۱
خاندان نبوت ………………………………………………… ۵۸۱
اوصاف نبوت ………………………………………………… ۵۸۲
عمر کی بابت ………………………………………………………… ۵۸۳
خلاصہ معیار نبوت ………………………………………………… ۵۸۳
معجزہ کی حقیقت ………………………………………………… ۵۸۷
صداقت کی نشانی مرزاقادیانی کی زبانی ………………………………………… ۵۸۹
تردید صداقت مرزاقادیانی ………………………………………… ۵۹۱
مرزاقادیانی کی تمنائے موت کا جواب ………………………………………… ۵۹۹
فقد لبثت فیکم ………………………………………………… ۵۹۹
دعویٰ سے قبل ………………………………………………………… ۵۹۹
صدق نبوت کی ایک دلیل ………………………………………………… ۶۰۲
دین کا داعی یا سیاسی قائد؟ ………………………………………………… ۶۰۲
مرزاقادیانی کی خانگی زندگی ………………………………………………… ۶۰۲
مالی اعتراضات ………………………………………………… ۶۰۳
آمدنی کے نئے نئے ذرائع ………………………………………………… ۶۰۴
قادیان اور ربوہ کی دینی ریاست ………………………………………… ۶۰۴
دور حاضر کا مذہبی آمر ………………………………………………… ۶۰۴
اظہار غیب ………………………………………………………… ۶۰۷
سلسلہ کی حفاظت وغلبہ ………………………………………………… ۶۰۷
مرزاقادیانی اور مخالفین ………………………………………………… ۶۰۸
اسمہ کا مصداق مرزا ………………………………………………… ۶۰۹
عذاب ………………………………………………………… ۶۱۱
مرزا سے استہزاء ………………………………………………… ۶۱۱
احادیث نبویہ سے مغالطہ دہی کے جوابات
اونٹوں کا بیکار ہونا ………………………………………………… ۶۱۱
خسوف وکسوف ………………………………………………… ۶۱۳
افتراء علی اﷲ ………………………………………………………… ۶۱۵
افتراء علی الرسول ………………………………………………… ۶۱۵
پینتالیس برس کی قلیل مدت میں گرہنوں کا نقشہ ملاحظہ ہو ………………………………… ۶۱۶
حدیث مجدد ………………………………………………………… ۶۱۸
باب چہاردہم … قادیانیوں سے سوالات
سوال نمبر۱…کیا حضورﷺ کی اتباع سے نجات مل سکتی ہے؟ ………………………… ۶۲۱
سوال نمبر۲…خاتم النّبیین کے کون سے معنی صحیح ہیں؟ ………………………… ۶۲۱
سوال نمبر۳…کیا نزول مسیح اور ختم نبوت کے منافی ہے؟ ………………………………… ۶۲۳
سوال نمبر۴…اسود عنسی اور مسیلمہ کیوں قتل ہوئے؟ ………………………………… ۶۲۳
سوال نمبر۵…کیا مرزاقادیانی جھوٹا اور مرتد تھا؟ ………………………………… ۶۲۳
سوال نمبر۶…سابقہ مدعیان نبوت کے جھوٹا ہونے کی کیا دلیل ہے؟ ………………………… ۶۲۳
سوال نمبر۷…کیا حضورa سابقہ انبیاءعلیہم السلام کے لئے خاتم نہیں؟ ………………………… ۶۲۴
سوال نمبر۸…کیا حضورﷺ خاتم النبی تھے؟ ………………………………… ۶۲۴
سوال نمبر۹…خاتم النّبیین کے معنی ’’نبیوں کی مہر‘‘ کا ثبوت؟ ………………………… ۶۲۴
سوال نمبر۱۰…اجراء نبوت پر کوئی آیت یا حدیث؟ ………………………………… ۶۲۴
سوال نمبر۱۱…نبوت غیرمستقلہ ملنے کے لئے معیار؟ ………………………………… ۶۲۴
سوال نمبر۱۲…کیا جھوٹا مدعی نبوت زندہ نہیں رہ سکتا؟ ………………………………… ۶۲۵
سوال نمبر۱۳…کیا حضرت ابوبکرؓ وحضرت عمرؓ منصب نبوت کے لائق نہ تھے؟ ………………… ۶۲۵
سوال نمبر۱۴…کیا اﷲ کے نبی دنیا کے معلمین کے پاس تعلیم حاصل کرتے ہیں؟ ………………… ۶۲۵
سوال نمبر۱۵…کیا مراقی نبی بن سکتا ہے؟ ………………………………… ۶۲۵
سوال نمبر۱۶…کیا مرزاقادیانی کی شہ رگ نہیں کٹی؟ ………………………………… ۶۲۶
سوال نمبر۱۷…کلمہ گو، اہل قبلہ کا کیا مطلب؟ ………………………………… ۶۲۶
سوال نمبر۱۸…مرزاقادیانی ’’مسیح موعود‘‘ کیسے؟ ………………………………… ۶۲۶
سوال نمبر۱۹…کیا دجال قتل ہوگیا؟ اور اسلام کو ترقی مل گئی؟ ………………………… ۶۲۷
سوال نمبر۲۰…مرزاقادیانی کے مسیح بننے کا امر مخفی کیوں؟ ………………………………… ۶۲۷
سوال نمبر۲۱…کیا عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے؟ ………………………………… ۶۲۸
سوال نمبر۲۲…حدیث صحیح اور مسیح موعود؟ ………………………………………… ۶۲۸
سوال نمبر۲۳…حدیث صحیح اور تیرھویں صدی کا لفظ؟ ………………………………… ۶۲۸
سوال نمبر۲۴…کیا سلف کے کلام میں لفظ نزول من السماء نہیں؟ ………………………… ۶۲۸
سوال نمبر۲۵…کیا مرزاقادیانی مفتری اور کذاب ہے؟ ………………………… ۶۲۹
سوال نمبر۲۶…مرزاقادیانی نے دس برس تک مسیحیت کیوں چھپائے رکھی؟……………………… ۶۲۹
سوال نمبر۲۷…کیا نبی وحی الٰہی سے جاہل ہوتا ہے؟ ………………………………… ۶۳۰
سوال نمبر۲۸…پھر مرزاقادیانی پر مسیحیت کا الزام کیوں؟ ………………………… ۶۳۰
سوال نمبر۲۹…مسیح موعود کی شش علامات کس آیت اور کس حدیث میں؟ ………………… ۶۳۱
سوال نمبر۳۰…مرزاقادیانی کی مسیحیت کی علامات اور احادیث؟ ………………………… ۶۳۱
سوال نمبر۳۱…کیا قادیانیوں کے نزدیک مرزا قادیانی بڑا جھوٹا ہے؟ ………………………… ۶۳۱
سوال نمبر۳۲…کیا وفات مسیح کا بھید صرف مرزا قادیانی پر کھلا؟ ………………………… ۶۳۳
سوال نمبر۳۳…کیا مسیح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہیں مرزا قادیانی ہے؟ ………………………… ۶۳۳
سوال نمبر۳۴…کیا مسیح موعود اور علماء کا تصادم آیت یا حدیث میں ہے؟ ………………… ۶۳۴
سوال نمبر۳۵…مرزا قادیانی حقیقی مسیح کیسے؟ ………………………………… ۶۳۴
سوال نمبر۳۶…کیا دوزرد چادروں سے دو بیماریاں مراد ہیں؟ ………………………… ۶۳۴
سوال نمبر۳۷…کیا علامات مسیح علیہ السلام ومہدی علیہ السلام مرزا میں ہیں؟ ………………………… ۶۳۵
سوال نمبر۳۸…مرزاقادیانی کی پہچان اپنی علامات میں………………………………… ۶۳۵
سوال نمبر۳۹…کیا مرزاقادیانی ۱۳۳۵ھ تک زندہ رہا؟………………………………… ۶۳۵
سوال نمبر۴۰…دمشق کا کون سا معنی صحیح ہے؟ ………………………………… ۶۳۵
سوال نمبر۴۱…مرزاقادیانی اپنے دام میں… نزول کا معنی اترنا ہے پیدائش نہیں ………………… ۶۳۶
سوال نمبر۴۲…کیا مرزاقادیانی قرآن کا معجزہ ہے؟ ………………………………… ۶۳۶
سوال نمبر۴۳…کیا مرزاقادیانی نے یہود کی بے گناہی بیان نہیں کی؟ ………………………… ۶۳۶
سوال نمبر۴۴…کیا مرزاقادیانی لعنتی اور بدذات تھا؟ ………………………………… ۶۳۷
سوال نمبر۴۵…کیا نبی برائی کو مستحکم کرنے آتا ہے یا مٹانے؟ ………………………… ۶۳۷
سوال نمبر۴۶…کیا مرزاقادیانی کی وحی، وحی ربانی ہے یا شیطانی؟ ………………………… ۶۳۸
سوال نمبر۴۷…کیا قرآن میں مرزاقادیانی کا نام ابن مریم ہے؟ ………………………… ۶۳۸
سوال نمبر۴۸…کیا قرآن میں ہے کہ جسم عنصری آسمان پر نہیں جاسکتا؟………………………… ۶۳۸
سوال نمبر۴۹…کیا یہ مرزاقادیانی کی حماقت نہیں؟ ………………………………… ۶۳۸
سوال نمبر۵۰…کیا یہ مرزاقادیانی کی نامعقول حرکت نہیں؟ ………………………… ۶۳۹
سوال نمبر۵۱…کیا مرزاقادیانی اب بھی ملعون نہیں؟ ………………………………… ۶۳۹
سوال نمبر۵۲…کیا غیرنبی، نبی سے افضل ہوسکتا ہے؟ ………………………………… ۶۳۹
سوال نمبر۵۳…کیا مرزاقادیانی کو مثیل محمدﷺ کہہ سکتے ہو؟ العیاذ باﷲ! ………………… ۶۳۹
سوال نمبر۵۴…مرزاقادیانی بارہ برس تک کفر میں کیوں؟ ………………………… ۶۴۰
سوال نمبر۵۵…کیا اﷲتعالیٰ مرزاقادیانی کے مرید؟ (العیاذ باﷲ) ………………………… ۶۴۰
سوال نمبر۵۶…کیا مرزاقادیانی مریم تھا؟ تو اس کا شوہر کون؟ ………………………… ۶۴۰
سوال نمبر۵۷…کیا سچے پیغمبر کے کئی نام ہوئے؟ ………………………………… ۶۴۱
سوال نمبر۵۸…مرزاقادیانی کی تحقیق عجیب اور اس کا مبلغ علم ………………………… ۶۴۱
سوال نمبر۵۹…کیا یہ مرزاقادیانی کا قرآن پر بہتان نہیں؟ ………………………… ۶۴۲
سوال نمبر۶۰…کیا مرزاقادیانی مہدی ہے؟ ………………………………… ۶۴۲
سوال نمبر۶۱…کیا مرزاقادیانی خودغرض تھا؟ ………………………………… ۶۴۲
سوال نمبر۶۲…کیا مرزا قادیانی کے نزدیک اعور کا معنی کانا نہیں؟ ………………………… ۶۴۳
سوال نمبر۶۳…کیا قرآن مجید میں ’’قادیان‘‘ کا نام ہے؟ ………………………… ۶۴۳
سوال نمبر۶۴…کیا مرزا قادیانی آدم زاد نہیں؟ ………………………………… ۶۴۳
سوال نمبر۶۵…کیا مرزا قادیانی شراب پیتا تھا؟ ………………………………… ۶۴۴
سوال نمبر۶۶…کیا مرزا قادیانی کے آنے سے جہاد منسوخ ہوگیا؟ ………………………… ۶۴۴
سوال نمبر۶۷…کیا نبی گھر کی طعن وتشنیع سے خوف کھا کر سرکاری ملازمت کرتا ہے؟ ………………… ۶۴۵
سوال نمبر۶۸…کیا ریل گاڑی دجال کا گدھا ہے؟ ………………………………… ۶۴۵
سوال نمبر۶۹…جو بخاری شریف پر جھوٹ باندھے وہ مسیح کیسے؟ ………………………… ۶۴۶
سوال نمبر۷۰…مرزاقادیانی کی سلطان القلمی یا جہالت؟ ………………………… ۶۴۶
سوال نمبر۷۱…مرزاقادیانی ’’رجل فارس‘‘ کیسے؟ ………………………………… ۶۴۷
سوال نمبر۷۲…کیا مرزا یزیدی؟ اور قادیان پلید جگہ ہے؟ ………………………… ۶۴۷
سوال نمبر۷۳…کیا خدا کا ’’حیّ‘‘ ہونا مرزے کی وحی ماننے پر موقوف ہے؟ ………………… ۶۴۷
سوال نمبر۷۴…مفسر بننے، صاحب تقویٰ ہونے کا معیار مرزاقادیانی کو ماننا؟ ………………… ۶۴۸
سوال نمبر۷۵…کیا مرزاقادیانی کی بڑھتی ہوئی ترقی معکوس ہوگئی؟ ………………………… ۶۴۸
سوال نمبر۷۶…کیا فلاسفہ کی پیروی نادانی ہے؟ ………………………………… ۶۴۹
سوال نمبر۷۷…کیا تمام انبیاءعلیہم السلام نے مرزاقادیانی کے بارے میں خبر دی؟ ………………… ۶۴۹
سوال نمبر۷۸…پیش گوئی پوری نہ ہونے کی کوئی شکل؟ ………………………………… ۶۴۹
سوال نمبر۷۹…گھر کا معنی اور کشتی کی توسیع ………………………………… ۶۵۰
سوال نمبر۸۰…ٹیکہ کے مقابلہ میں الہام اور ایام طاعون میں احتیاط ………………………… ۶۵۰
سوال نمبر۸۱…سلطنت برطانیہ تاہشت سال کے الہام سے مرزا انکاری بیٹا اقراری ………………… ۶۵۱
سوال نمبر۸۲…کیا جاہل محض مقتدا بن سکتا ہے؟ ………………………………… ۶۵۲
سوال نمبر۸۳…کیا نبی کا فرشتہ جھوٹ بول سکتا ہے؟ ………………………………… ۶۵۲
سوال نمبر۸۴…آئینہ کمالات اسلام یا نفسانی تحقیقات ………………………………… ۶۵۲
سوال نمبر۸۵…کیا ماہ صفر چوتھا اسلامی مہینہ ہے؟ ………………………………… ۶۵۳
سوال نمبر۸۶… کیا سورۃ لہب میں ابی لہب سے مرادمرزا قادیانی کی تکفیر؟ ………………… ۶۵۳
سوال نمبر۸۷…کیا انگلش ناخواندہ ملازم اور انگریزی الہامات ’’آئی لو یو‘‘وغیرہ کیسے؟ ………… ۶۵۳
سوال نمبر۸۸…کیا غیرزبانی الہام برحق ہونے کی دلیل؟ ………………………… ۶۵۴
سوال نمبر۸۹…بوقت دعویٰ پیٹ میں اب اولاد جوان؟ ………………………… ۶۵۴
سوال نمبر۹۰…کیا بکر وثیب والی پیش گوئی پوری ہوئی؟ ………………………………… ۶۵۴
سوال نمبر۹۱…کیا راست باز کا کام لعنت کرنا؟ ………………………………… ۶۵۴
سوال نمبر۹۲…کیا نبی گالیاں دیتا ہے؟ ………………………………………… ۶۵۵
سوال نمبر۹۳…کیا مرزاقادیانی کی جماعت بے تہذیب، درندہ صفت؟ ………………… ۶۵۵
سوال نمبر۹۴…کیا نبی امتی کی تقلید کر سکتا ہے؟ ………………………………… ۶۵۵
سوال نمبر۹۵…کیا نبی بدعت پر عمل کرتا ہے؟ ………………………………… ۶۵۶
سوال نمبر۹۶…مرزا قادیانی نماز کس وقت پڑھتا تھا؟ ………………………………… ۶۵۶
سوال نمبر۹۷…کیا اب بھی مرزا قادیانی کا انکار کفر ہے؟ ………………………… ۶۵۶
سوال نمبر۹۸…جو معجزہ کو مسمریزم کہے وہ کون؟ ………………………………… ۶۵۶
سوال نمبر۹۹…اﷲ کا فرمان سچا یا مرزاقادیانی کی بکواس؟ ………………………… ۶۵۷
سوال نمبر۱۰۰…کیا قابل نفرت عمل اﷲ کو پسند؟ ………………………………… ۶۵۷
سوال نمبر۱۰۱…کیا اﷲتعالیٰ نبیوں کو قابل نفرت عمل کا حکم دیتے تھے؟ ………………………… ۶۵۷
سوال نمبر۱۰۲…اگر نبی سچا تو پیش گوئیاں کیوں ٹلیں؟ ………………………………… ۶۵۸
باب پانزدہم … متفرق قادیانی سوالات کے جوابات
سوال نمبر۱…قادیانیوں کا کلمہ پڑھنا کیسے؟ ………………………………… ۶۵۸
سوال نمبر۲…حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے قتل کا واقعہ ………………………………… ۶۶۰
سوال نمبر۳…حضرت ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کی اذان، اور قبول اسلام ………………………… ۶۶۲
سوال نمبر۴…بزرگوں کے خلاف شرع اقوال حجت نہیں ………………………… ۶۶۳
سوال نمبر۵…قادیانی جماعت برابر بڑھ رہی ہے ………………………………… ۶۶۴
سوال نمبر۶…دیوبندی، بریلوی وغیرہ کے ایک دوسرے پر فتوے اور قادیانی ………………… ۶۶۴
سوال نمبر۷…جھوٹے نبی کا جھوٹا فرشتہ ………………………………………… ۶۶۷
سوال نمبر۸…کیا مرزاقادیانی مجدد تھا؟ ………………………………………… ۶۶۷
سوال نمبر۹…کیا حضورﷺ کے دشمنوں سے نرمی کرنا سنت نبوی ہے؟ ………………………… ۶۶۸
سوال نمبر۱۰…مرزاقادیانی کی موت ہیضہ سے ………………………………… ۶۶۹
سوال نمبر۱۱…کیا قادیانیوں کو گالیاں دی جاتی ہیں؟ ………………………………… ۶۷۱
سوال نمبر۱۲…کیا علماء سخت بیان ہیں؟ ………………………………………… ۶۷۲
سوال نمبر۱۳…کیا قادیانی بااخلاق ہیں؟ ………………………………………… ۶۷۲
سوال نمبر۱۴…حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور مرزاقادیانی اور تضادات مرزا ………………………… ۶۷۳
سوال نمبر۱۵…کیا مرزاقادیانی پر زناکا الزام ہے؟ ………………………………… ۶۷۴
سوال نمبر۱۶…کیا قادیانی یا قادیانیوں کو خنزیر کہنا جائز ہے؟ ………………………… ۶۷۴
سوال نمبر۱۷…مرزاقادیانی کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر زنا کا الزام ………………………… ۶۷۵
سوال نمبر۱۸…خود مدعی مسیحیت تو مسیح کی توہین کیسے؟ ………………………………… ۶۷۷
سوال نمبر۱۹…حضرت مریم کو صدیقہ کہا تو توہین کیسے؟ ………………………………… ۶۷۹
سوال نمبر۲۰…مرزاقادیانی نے مسیح کے متعلق جو کچھ کہا الزامی طور پر کہا ………………… ۶۷۹
سوال نمبر۲۱…یسوع، مسیح، ابن مریم ایک ہیں ………………………………… ۶۷۹
سوال نمبر۲۲…مسیح کے متعلق جو کہا جواباً وتردیداً کہا ………………………………… ۶۸۰
سوال نمبر۲۳…مرزاقادیانی نے فرضی مسیح کو کہا ………………………………… ۶۸۰
سوال نمبر۲۴…انجیل کے حوالہ سے کہا ………………………………………… ۶۸۰
سوال نمبر۲۵…مسیح کے بہن بھائی کا ذکر ’’انما المؤمنون اخوۃ‘‘ کے درجہ میں ………………… ۶۸۰
سوال نمبر۲۶…دشمنوں کے اعتراض نقل کئے ………………………………… ۶۸۱
سوال نمبر۲۷…وہ مسیح جو ابنیت کا مدعی تھا ………………………………………… ۶۸۱
سوال نمبر۲۸…رحمت اﷲ کیرانوی وغیرہ ………………………………………… ۶۸۱
قادیانی اعتراضات کے مسکت جوابات
سوال نمبر۲۹…عیسیٰ ٰ علیہ السلام کب فوت ہوئے؟ ………………………………… ۶۸۲
سوال نمبر۳۰…ابن مریم کی جگہ ابن چراغ بی بی کیسے؟ ………………………………… ۶۸۲
سوال نمبر۳۱…مرزاقادیانی کا الہام قرآن کا ناسخ؟ ………………………………… ۶۸۲
سوال نمبر۳۲…میں رانجھا ہوگئی؟ ………………………………………… ۶۸۳
سوال نمبر۳۳…قادیانی مسیلمہ کذاب؟ ………………………………………… ۶۸۴
سوال نمبر۳۴…پٹواری نہیں بلکہ مفسرین؟ ………………………………… ۶۸۴
سوال نمبر۳۵…مرزاجاہل تھا؟ ………………………………………… ۶۸۴
سوال نمبر۳۶…مرزاقادیانی دنیا کا سب سے بڑا جاہل؟ ………………………… ۶۸۵
سوال نمبر۳۷…شیطان کے ماننے والے بہت؟ ………………………………… ۶۸۵
سوال نمبر۳۸…دنیا میں مرزاقادیانی کا ایک بھی ماننے والا نہیں؟ ………………………… ۶۸۵
سوال نمبر۳۹…قرآن میں ربوہ؟ ………………………………………… ۶۸۶
سوال نمبر۴۰…مرزا کو ماننا ………………………………………………… ۶۸۶
سوال نمبر۴۱…مرزا کی دو سچی باتیں ………………………………………… ۶۸۷
سوال نمبر۴۲…مرزاقادیانی کو صاحب کیوں نہیں کہتے؟ ………………………… ۶۸۸
کیا کبھی ایسے ہوا؟ ………………………………………………… ۶۸۸
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

﷽​

پیش لفظ
الحمدﷲ وکفیٰ وسلام علیٰ سید الرسل وخاتم الانبیاء۰ امابعد!
قادیانی شبہات جلداوّل… ختم نبوت
قادیانی شبہات جلددوم…حیات عیسیٰ علیہ السلام کے مباحث پر مشتمل ہے
جلد اوّل ۱۴۲۰ھ جبکہ جلد دوم ۱۴۲۵ھ میں مرتب ہوئیں۔
اب ۱۴۳۲ھ میں اﷲ رب العزت نے اس سلسلہ کو پایۂ تکمیل تک پہچانے کی توفیق بخشی کہ ’’قادیانی شبہات جلد سوم‘‘ جو ’’کذب مرزا‘‘ کے مباحث پر مشتمل ہے۔ پیش خدمت ہے۔ جلد اوّل اور جلد دوم ہر سال ردقادیانیت کورس چناب نگر وملتان میں پڑھائی جاتی ہیں۔ یہ دونوں جلدیں ہندوستان میں بھی شائع ہوئیں۔ دیوبند میں اس سلسلہ میں جو کورسسز رکھے گئے ان میں بھی ان کتابوں کو شامل رکھا گیا۔ عرصہ سے رفقاء کی خواہش تھی کہ اس کا تیسرا حصہ مرتب ہوجائے۔ تاکہ تمام مباحث پر مشتمل مواد کورسسز کے شرکاء کو شائع شدہ نصاب کی طرح پڑھادیا جائے۔
اﷲ تعالیٰ کے ہاں ہر کام کے لئے وقت مقرر ہے۔ شدید خواہش وتقاضہ کے باوجود اتنا عرصہ تک یہ کام رکا رہا۔ برادرعزیز مولانا قاضی احسان احمدصاحب نے اصرار کیا اور وقت مقرر کیا کہ دس پندرہ دن لگاکر اس کو مکمل کرنا ہے۔ جو دن انہوں نے مقرر فرمائے ان دنوں ’’تحریک ناموس رسالت‘‘ کی مصروفیات آڑے آئیں۔ تحریک سے فارغ ہوتے ہی پندرہ دن انہوں نے عنایت کئے۔ ان دنوں ’’احتساب قادیانیت‘‘ کے مزید رسائل پر تخریج کے کام کے لئے حضرت مولانا محمدقاسم رحمانی دفترمرکزیہ میں قیام فرماتھے۔ ان ہر دو حضرات نے دن رات ایک کرکے اس کام کو مکمل کیا۔ فقیر ان کے شانہ بشانہ رہا۔ ورنہ تمام تر کام ان حضرات کی محنت کا مرہون منت ہے۔ فقیر نے مختلف لفافوں میں جو منتشر مواد رکھا تھا اسے ان حضرات نے مرتب کرکے قابل مراجعت بنادیا۔ فقیر نے سرسری دیکھا اور کمپوزنگ کے لئے دے دیا۔ البتہ ’’قادیانیوں سے سوالات‘‘ اور ’’قادیانی سوالات کے جوابات‘‘ کا حصہ فقیر نے حضرت مولانا غلام رسول دین پوری صدر مدرس مدرسہ عربیہ ختم نبوت مسلم کالونی چناب نگر کے سپرد کیا۔ انہوں نے فقیر کی گزارشات کے مطابق اس پر سر توڑ محنت کی۔ یوں یہ کتاب مرتب ہوگئی۔ پروف پڑھنے میں بھی حضرت مولانا غلام رسول دین پوری نے بھرپور محنت ومعاونت فرمائی۔ ان تمام حضرات کا بہت بہت شکریہ۔ لیجئے! اس کام سے فارغ ہوئے۔ اب ایک کام جو عرصہ سے رکا ہوا ہے ۔ تحریک ختم نبوت ۱۹۸۴ء کے لئے جو میٹر جمع کرکے ترتیب دینا شروع کیا تھا وہ اس سرے سے مل نہیں رہا۔ کبھی کبھی طبیعت میں ابال آتا ہے۔ لیکن مسودہ کی گمشدگی طبیعت کو سرد کردیتی ہے۔
قارئین دعا فرمائیں کہ یہ کام بھی ہوجائے تو اﷲ تعالیٰ کا احسان ہوگا۔ ۱۹۳۴ء سے ۱۹۸۴ء تک کی تاریخ کے قلمبند کرنے کا جو کام شروع کیا تھا جو ۱۹۷۴ء پر آکر رکا ہوا ہے۔ وہ پایۂ تکمیل کو پہنچ جائے تو بہت ہی سعادت کی بات ہوگی۔ اﷲ تعالیٰ توفیق عنایت فرمائیں۔ آمین ثم آمین! محتاج دعا: فقیر:اﷲوسایا
۱۴؍جمادی الثانی ۱۴۳۲ھ، بمطابق ۱۸؍مئی۲۰۱۱ء
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

﷽​

باب اوّل … مرزاغلام احمد قادیانی کے حالات​

نسب وخاندان​

مرزاغلام احمد قادیانی کا نسبی تعلق مغل قوم اور اس کی خاص شاخ برلاس سے ہے۔ مرزاغلام احمد قادیانی لکھتا ہے: ’’ہماری قوم مغل برلاس ہے۔‘‘ (کتاب البریہ ص۱۴۴ حاشیہ، خزائن ج۱۳ ص۱۶۲)
لیکن کچھ عرصہ کے بعد مرزاغلام احمد قادیانی کو بذریعہ الہام معلوم ہوا کہ ’’وہ ایرانی النسل ہے۔‘‘ چنانچہ اس نے لکھا ہے: ’’ خُذُوْا التَّوْحِیْدَ اَلتَّوْحِیْدَ یَا ابْنَائِ الْفَارِس ‘‘ (یعنی توحید کو پکڑ لو۔ توحید کو پکڑ لو۔ اے فارس کے بیٹو!)
پھر دوسرا الہام میری نسبت یہ ہے: ’ ’لَوْکَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرِیَّا لَنَالَہٗ رَجُلٗ مِّنْ فَارِسٍ ‘‘ (یعنی اگر ایمان ثریا سے معلق ہوتا تو یہ مرد جو فارس الاصل ہے۔ وہیں جاکر اس کو لے لیتا)۔
اور پھر ایک تیسرا الہام میری نسبت یہ ہے: ’’ان الذین کفروا رد علیہم رجل من فارس شکر اﷲ سعیہ‘‘ (یعنی جو لوگ کافر ہوئے اس مرد نے جو فارس الاصل ہے ان کے مذاہب کو رد کر دیا۔ خدا اس کی کوشش کا شکر گزار ہے) یہ تمام الہامات ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارے آباء اوّلین فارسی تھے۔‘‘
(کتاب البریہ ص۱۴۴،۱۴۵ حاشیہ، خزائن ج۱۳ ص۱۶۲،۱۶۳)
مرزاقادیانی مغل برلاس تھے۔ لیکن خود کو ایرانی النسل ثابت کرنے کے لئے اپنے نام نہاد الہامات کا بھی سہارا لیا۔ حالانکہ ان کا اعتراف موجود ہے۔
’’یاد رہے کہ اس خاکسار کا خاندان بظاہر مغلیہ خاندان ہے۔ کوئی تذکرہ ہمارے خاندان کی تاریخ میں یہ نہیں دیکھا گیا کہ وہ بنی فارس کا خاندان تھا۔ ہاں بعض کاغذات میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ہماری بعض دادیاں شریف اور مشہور سادات میں سے تھیں۔ اب خدا کے کلام سے معلوم ہوا کہ دراصل ہما را خاندان فارسی خاندان ہے۔ سو اس پر ہم پورے یقین سے ایمان لاتے ہیں۔ کیونکہ خاندانوں کی حقیقت جیسا کہ خداتعالیٰ کو معلوم ہے کسی دوسرے کو ہرگز معلوم نہیں۔ اسی کا علم صحیح اور یقینی اور دوسرے کا شکی اور ظنی۔‘‘ (اربعین نمبر۲ حاشیہ ص۱۸، خزائن ج۱۷ ص۳۶۵)
مرزاقادیانی مغل برلاس تھے۔ ایرانی النسل بننے کے لئے اپنے الہام کو سند کے طور پر لائے۔ لیکن مرزاقادیانی کا نام نہاد الہام تاریخ کے لئے حجت نہیں۔
مرزاقادیانی نے فارسی النسل بننے کے لئے کیوں الہام تراشا؟ اس سوال کا جواب خود اس کی عبارت میں موجود ہے۔ ’’ الایمان معلقاً باالثریا لنا لہ رجل من فارس ‘‘ یہ دراصل حدیث شریف ہے۔ مرزاقادیانی نے اسے اپنا الہام جتا کر اس کا مصداق بننے کے لئے خود کے ایرانی النسل ہونے کا گورکھ دھندا تیار کیا۔ اس کی خود غرضی نے اسے اس شیطانی کھیل کھیلنے پر مجبور کیا۔ یہ حدیث صحاح میں الفاظ کے خفیف اختلاف کے ساتھ آئی ہے۔ بعض روایتوں میں ’’رجال من فارس‘‘ بھی ہے۔ علماء ومحدثین نے اس سے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اور ان ایرانی النسل علماء واکابر کو مراد لیا ہے۔ جو اپنی قوت ایمانی اور خدمت دینی میں خاص امتیاز رکھتے تھے۔ انہیں میں امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابتؒ بھی ہیں۔ جوفارسی الاصل ہیں۔ مرزاقادیانی نے اس حدیث کا مصداق بننے کے لئے نام نہاد الہام وضع کیا۔ لیکن خود مرزاقادیانی دوسری جگہ لکھتے ہیں۔

چینی الاصل​

مرزاقادیانی مغل برلاس، چینی الاصل، ایرانی النسل کیا سمجھا جائے کہ مرزاقادیانی کون سی نسل سے تھے؟ ’’ایسا ہی میں بھی توأم پیدا ہونے کی وجہ سے حضرت آدم سے مشابہ ہوں اور اس قول کے مطابق جو حضرت محی الدین ابن عربی لکھتے ہیں کہ: ’’ خاتم الخلفاء صینئی الاصل ‘‘ ہوگا۔ یعنی مغلوں میں سے اور وہ جوڑا یعنی توأم پیدا ہوگا۔ پہلے لڑکی نکلے گی۔ بعد اس کے وہ پیدا ہوگا۔ ایک ہی وقت میں اسی طرح میری پیدائش ہوئی کہ جمعہ کی صبح کو بطور توأم میں پیدا ہوا۔ اوّل لڑکی اور بعدہٗ میں پیدا ہوا۔‘‘ (تذکرۃ الشہادتین ص۳۳، خزائن ج۲۰ ص۳۵)
’’اور اس پیش گوئی کو شیخ محی الدین ابن عربی نے بھی اپنی کتاب ’’فصوص‘‘ میں لکھا ہے اور لکھا ہے کہ وہ ’’ صینئی الاصل ‘‘ ہوگا۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۰۱، خزائن ج۲۲ ص۲۰۹)

شجرۂ نسب​

۱… ’’ہمارا شجرۂ نسب اس طرح پر ہے۔ میرا نام غلام احمد ابن مرزاغلام مرتضیٰ صاحب ابن مرزاعطاء محمد صاحب ابن مرزا گل محمد صاحب ابن مرزا فیض محمد صاحب ابن مرزا محمد قائم ابن مرزا محمد اسلم ابن مرزامحمد دلاور ابن مرزا الہ دین ابن مرزا جعفر بیگ ابن مرزا محمد بیگ ابن مرزا عبدالباقی ابن مرزامحمد سلطان ابن مرزا ہادی بیگ مورث اعلیٰ۔‘‘
(کتاب البریہ ص۱۴۲ حاشیہ، خزائن ج۱۳ ص۱۷۲، ضمیمہ حقیقت الوحی ص۷۷، خزائن ج۲۲ ص۷۰۳)

شجرۂ مرزا​

مرزاغلام احمد قادیانی کا شجرۂ نسب۔ مرزاہادی بیگ، مغل، حاجی برلاس، مغل خان کے ذریعے یافث بن حضرت نوح تک پہنچتا ہے۔ اگر مرزاقادیانی فارسی النسل یا بنی اسرائیل یا بنی اسحاق میں سے ہوتا تو چاہئے تھا کہ اس کا شجرۂ نسب حضرت یعقوب علیہ السلام ، حضرت اسحاق علیہ السلام ، حضرت ابراہیم کے ذریعے سام بن حضرت نوح علیہ السلام تک پہنچتا۔ مگر معاملہ برعکس ہے۔

خاندان مرزا​

’’اب میرے سوانح اس طرح پر ہیں کہ میرا نام غلام احمد میرے والد صاحب کا نام غلام مرتضیٰ اور دادا صاحب کا نام عطاء محمد اور میرے پردادا کا نام گل محمد تھا اور جیسا کہ بیان کیاگیا ہے۔ ہماری قوم مغل برلاس ہے اور میرے بزرگوں کے پرانے کاغذات سے جواب تک محفوظ ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس ملک میں سمرقند سے آئے۔‘‘
(کتاب البریہ ص۱۳۴ حاشیہ، خزائن ج۱۳ ص۱۶۲)

پیدائش مرزا​

عیسوی سنہ، مرزاقادیانی نے کہا: ’’میری پیدائش ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء میں سکھوں کے آخری وقت میں ہوئی ہے۔‘‘ (کتاب البریہ ص۱۴۶ حاشیہ، خزائن ج۱۳ ص۱۷۷، قادیانی اخبار بدر مورخہ ۸؍اگست ۱۹۰۴ء ص۵، کتاب حیات النبی (از شیخ یعقوب علی تراب قادیانی ایڈیٹر اخبار الحکم) ج اوّل ص۴۹، قادیانی رسالہ ریویو ج۵ نمبر۶ بابت ماہ جون ۱۹۰۶ء ص۲۱۹، قادیانی اخبار الحکم مورخہ ۲۱،۲۸؍مئی ۱۹۱۱ء ص۴)
نوٹ: تاریخ پیدائش کے مسئلہ پر یاد رہے کہ آج کل کے قادیانی، مرزاقادیانی کی تاریخ پیدائش ۱۹۳۵ء بتاتے ہیں۔ یہ دجل ہے۔ تفصیل پیش گوئیوں میں ’’عمر مرزا‘‘ میں دیکھو۔
تاریخ اور دن: ’’یہ عاجز بروز جمعہ چاند کی چودھویں تاریخ میں پیدا ہوا ہے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ (مطبوعہ ۱۹۱۴ء ضیاء الاسلام پریس قادیان) ص۱۸۱ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۲۸۱)
وقت: ’’میں بھی جمعہ کے روز بوقت صبح توأم پیدا ہوا تھا۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۰۱، خزائن ج۲۲ ص۲۰۹)
کیفیت ولادت: ’’میرے ساتھ ایک لڑکی پیدا ہوئی تھی۔ جس کا نام جنت تھا اور پہلے وہ لڑکی پیٹ میں سے نکلی تھی اور بعد اس کے میں نکلا تھا اور میرے بعد میرے والدین کے گھر میں اور کوئی لڑکی یا لڑکا نہیں ہوا اور میں ان کے لئے خاتم الاولاد تھا۔‘‘ (تریاق القلوب ص۱۵۷، خزائن ج۱۵ ص۴۷۹)
’’تیسری آدم سے مجھے یہ بھی مناسبت ہے کہ آدم توأم کے طور پر پیدا ہوا اور میں بھی توأم پیدا ہوا۔ پہلے لڑکی پیدا ہوئی۔ بعدہٗ میں، اور بایں ہمہ میں اپنے والد کے لئے خاتم الولد تھا۔ میرے بعد کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا اور میں جمعہ کے روز پیدا ہوا تھا۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۸۶، خزائن ج۲۱ ص۱۱۳)

مرزاقادیانی کی ماں کا نام​

مرزابشیر احمد ایم۔اے نے لکھا ہے: ’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہماری دادی صاحبہ یعنی حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) کی والدہ صاحبہ کا نام چراغ بی بی تھا۔ وہ دادا صاحب کی زندگی میں ہی فوت ہوگئی تھیں۔‘‘
(سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۸، روایت نمبر۱۰)
(ایک اور نام بھی زبان زد خلائق ہے ’’یعنی گھسیٹی‘‘ مرتب)

مرزاقادیانی کے استاد​

’’بچپن کے زمانہ میں میری تعلیم اس طرح پر ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلم میرے لئے نوکر رکھا گیا۔ جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں اور اس بزرگ کا نام فضل الٰہی تھا اور جب میری عمر قربیاً دس برس کے ہوئی تو ایک عربی خواں مولوی صاحب میری تربیت کے لئے مقرر کئے گئے۔ جن کا نام فضل احمد تھا اور میں نے صرف کی بعض کتابیں اور کچھ قواعد نحو ان سے پڑھے اور بعد اس کے جب میں سترہ یا اٹھارہ سال کا ہوا تو ایک اور مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ان کا نام گل علی شاہ تھا۔ ان کو بھی میرے والد صاحب نے نوکر رکھ کر قادیان میں پڑھانے کے لئے مقرر کیا تھا اور ان آخر الذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خداتعالیٰ نے چاہا حاصل کیا اور بعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں اور وہ فن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تھے۔‘‘ (کتاب البریہ ص۱۴۸تا۱۵۰ حاشیہ، خزائن ج۱۳ ص۱۷۹تا۱۸۱)

مرزاغلام احمد قادیانی کا بچپن … ’’چڑیاں پکڑنا‘‘​

’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم! بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہا: کہ تمہاری دادی ایمہ ضلع ہوشیار پور کی رہنے والی تھیں۔ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہم اپنی والدہ کے ساتھ بچپن میں کئی دفعہ ایمہ گئے ہیں۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ وہاں حضرت صاحب بچپن میں چڑیاں پکڑا کرتے تھے اور چاقو نہیں ملتا تھا تو سر کنڈے سے ذبح کر لیتے تھے۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ ایک دفعہ ایمہ سے چند بوڑھی عورتیں آئیں تو انہوں نے باتوں باتوں میں کہا کہ سندھی ہمارے گاؤں میں چڑیاں پکڑا کرتا تھا۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میں نے نہ سمجھا کہ سندھی سے کون مراد ہے۔ آخر معلوم ہوا کہ ان کی مراد حضرت صاحب سے ہے۔‘‘ (کتاب سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۴۵، روایت نمبر۵۱)
’’نیز والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہم بچپن میں چڑیاں پکڑا کر تے تھے اور چاقو نہ ہوتا تھا تو تیز سر کنڈے سے ہی حلال کر لیتے تھے۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ اوّل ص۲۵۰، روایت نمبر۲۵۱)

میاں ’’محمود احمد‘‘ کا چڑیاں پکڑنا​

’’بیان کیا مجھ سے ڈاکٹر میر محمد اسماعیل نے کہ ایک دفعہ میاں (مرزامحمود) دالان کے دروازے بند کر کے چڑیاں پکڑ رہے تھے کہ حضرت (مرزاقادیانی) نے جمعہ کی نماز کے لئے باہر جاتے ہوئے ان کو دیکھ لیا اور فرمایا۔ میاں! گھر کی چڑیاں نہیں پکڑا کرتے۔ جس میں رحم نہیں اس میں ایمان نہیں۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ اوّل ص۱۹۲، روایت نمبر۱۷۸)
چوری کرنا
’’بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب سناتے تھے کہ جب میں بچہ ہوتا تھا تو ایک دفعہ بعض بچوں نے مجھے کہا کہ جاؤ گھر سے میٹھا لاؤ۔ میں گھر میں آیا اور بغیر کسی کے پوچھنے کے ایک برتن میں سے سفید بورا اپنی جیبوں میں بھر کر باہر لے گیا اور راستہ میں ایک مٹھی بھر کر منہ میں ڈال لی۔ پس پھر کیا تھا۔ میرا دم رک گیا اور بڑی تکلیف ہوئی۔ کیونکہ معلوم ہوا کہ جسے میں نے سفید بورا سمجھ کر جیبوں میں بھرا تھا۔ وہ بورا نہ تھا بلکہ پسا ہو انمک تھا۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ اوّل ص۲۴۴، روایت نمبر۲۴۴)

روٹی پر راکھ​

’’بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ بعض بوڑھی عورتوں نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ بچپن میں حضرت صاحب نے اپنی والدہ سے روٹی کے ساتھ کچھ کھانے کو مانگا۔ انہوں نے کوئی چیز شاید گڑ بتایا کہ یہ لے لو۔ حضرت صاحب نے کہا نہیں یہ میں نہیں لیتا۔ انہوں نے کوئی اور چیز بتائی۔ حضرت صاحب نے اس پر بھی وہی جواب دیا۔ وہ اس وقت کسی بات پر چڑی ہوئی بیٹھی تھیں۔ سختی سے کہنے لگیں کہ جاؤ پھر راکھ سے روٹی کھا لو۔ حضرت صاحب روٹی پر راکھ ڈال کر بیٹھ گئے اور گھر میں ایک لطیفہ ہوگیا۔ یہ حضرت صاحب کا بالکل بچپن کا واقعہ ہے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ والدہ صاحبہ نے یہ واقعہ سنا کر کہا۔ جس وقت اس عورت نے مجھے یہ بات سنائی تھی۔ اس وقت حضرت صاحب بھی پاس تھے۔ مگر آپ خاموش رہے۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ اوّل ص۲۴۵، روایت نمبر۲۴۵)

مرزا’’غلام احمد قادیانی‘‘ کی جوانی … باپ کی پنشن​

’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ اپنی جوانی کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود تمہارے دادا کی پنشن وصول کرنے گئے۔ تو پیچھے پیچھے مرزاامام الدین بھی چلاگیا۔ جب آپ نے پنشن وصول کر لی تو وہ آپ کو پھسلا کر اور دھوکہ دے کر بجائے قادیان لانے کے باہر لے گیا اور ادھر ادھر پھراتا رہا۔ پھر جب اس نے سارا روپیہ اڑا کر ختم کر دیا تو آپ کو چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا۔ حضرت مسیح موعود اس شرم سے واپس گھر نہیں آئے۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ اوّل ص۴۳، روایت نمبر۴۹)
نوٹ: اس حوالہ میں ادھر ادھر بروزن زیر زبر اور ’’شرم کے باعث‘‘ قابل توجہ ہیں۔

ٹہلتے ٹہلتے کھانا​

’’بیان کیا مجھ سے میاں عبداﷲ صاحب سنوری نے کہ حضرت صاحب جب بڑی مسجد میں جاتے تھے تو گرمی کے موسم میں کنوئیں سے پانی نکلوا کر ڈول سے ہی منہ لگا کر پانی پیتے تھے اور مٹی کے تازہ ٹنڈیاتازہ آبخورہ میں پانی پینا آپ کو پسند تھا اور میاں عبداﷲ صاحب نے بیان کیا کہ حضرت صاحب! اچھے تلے ہوئے کرارے پکوڑے پسند کرتے تھے۔ کبھی کبھی مجھ سے منگوا کر مسجد میں ٹہلتے ٹہلتے کھایا کرتے تھے اور سالم مرغ کا کباب بھی پسند تھا۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ اوّل ص۱۸۱، روایت نمبر۱۶۷)

مرزاقادیانی کا اِزَارْ بَند​

’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ آپ معمولی نقدی وغیرہ اپنے رومال میں جو بڑے سائز کا ململ کا بنا ہوا تھا۔ باندھ لیا کرتے تھے اور رومال کا دوسرا کنارہ واسکٹ کے ساتھ سلوا لیتے یا کاج میں بندھوا لیتے اور چابیاں ازاربند کے ساتھ باندھتے تھے۔ جو بوجھ سے بعض اوقات لٹک آتا تھا اور والدہ صاحبہ بیان فرماتی ہیں کہ حضرت مسیح موعود عموماً ریشمی ازاربند استعمال فرماتے تھے۔ کیونکہ آپ کو پیشاب جلدی جلدی آتا تھا۔ اس لئے ریشمی ازاربند رکھتے تھے۔ تاکہ کھلنے میں آسانی ہو اور گرہ بھی پڑ جاوے تو کھولنے میں دقت نہ ہو۔ سوتی ازاربند میں آپ سے بعض وقت گرہ پڑ جاتی تھی تو آپ کو بڑی تکلیف ہوتی تھی۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ اوّل ص۵۵، روایت نمبر۶۵)

مرزاقادیانی کی گرگابی​

’’ایک دفعہ کوئی شخص آپ کے لئے گرگابی لے آیا۔ آپ نے پہن لی۔ مگر اس کے الٹے سیدھے پاؤں کا آپ کو پتہ نہیں لگتا تھا۔ کئی دفعہ الٹی پہن لیتے تھے اور پھر تکلیف ہوتی تھی۔ بعض دفعہ آپ کا الٹا پاؤں پڑ جاتا تو تنگ ہوکر فرماتے۔ ان کی (انگریز کی) کوئی چیز بھی اچھی نہیں۔ (اور خود ان کا خود کاشتہ پودا ہے) والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میں نے آپ کی سہولت کے واسطے سیدھے پاؤں کی شناخت کے لئے نشان لگا دئیے تھے۔ مگر باوجود اس کے آپ الٹا سیدھا پہن لیتے تھے۔ اس لئے آپ نے اسے اتار دیا۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ اوّل ص۶۷، روایت نمبر۸۳)

الٹی جراب، الٹے بٹن، الٹی جوتی​

’’ڈاکٹر میر محمد اسماعیل نے مجھ سے بیان کیا۔ حضرت مسیح موعود اپنے جسمانی عادات میں ایسے سادہ تھے کہ بعض دفعہ جب حضور جراب پہنتے تھے تو بے توجہی کے عالم میں اس کی ایڑھی پاؤں کے تلے کی طرف نہیں بلکہ اوپر کی طرف ہو جاتی تھی اور بارہا ایک کاج کا بٹن دوسرے کاج میں لگا ہوا ہوتا تھا اور بعض اوقات کوئی دوست حضور کے لئے گرگابی ہدیتہ لاتا تو آپ بسا اوقات دایاں پاؤں بائیں میں ڈال لیتے تھے اور بائیاں دائیں میں۔ چنانچہ اسی تکلیف کی وجہ سے آپ دیسی جوتی پہنتے تھے۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ دوم ص۵۸، روایت نمبر۳۷۵)

صدری کے بٹن کوٹ کے کاج میں​

’’بارہا دیکھا گیا کہ بٹن اپنا کاج چھوڑ کر دوسرے میں لگے ہوتے تھے۔ بلکہ صدری کے بٹن کوٹ کے کاجوں میں لگے ہوئے دیکھے گئے… کوٹ، صدری اور پاجامہ گرمیوں میں بھی گرم رکھتے تھے۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ دوم ص۱۲۶، روایت نمبر۴۴۴)

کپڑے تکیہ کے نیچے​

’’کپڑوں کی احتیاط کا یہ عالم تھا۔ صدری ٹوپی عمامہ رات کو اتار کر تکیے کے نیچے ہی رکھ لیتے اور رات بھر تمام کپڑے جنہیں محتاط لوگ شکن اور میل سے بچانے کو الگ جگہ کھونٹی پر ٹانگ دیتے ہیں۔ وہ بستر پر سر اور جسم کے نیچے ملے جاتے اور صبح کو ان کی ایسی حالت ہو جاتی کہ اگر کوئی فیشن کا دلدادہ اور سلوٹ کا دشمن دیکھ لے تو سر پیٹ لے۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ دوم ص۱۲۸، روایت نمبر۴۴۴)

جیب میں اینٹ​

’’آپ کے ایک بچے نے آپ کی واسکٹ کی ایک جیب میں ایک بڑی اینٹ ڈال دی۔ آپ جب لیٹتے تو وہ اینٹ چبھتی۔ کئی دن ایسا ہوتا رہا۔ ایک دن اپنے ایک خادم کو کہنے لگے کہ میری پسلی میں درد ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چیز چبھتی ہے۔ وہ حیران ہوا اور آپ کے جسم مبارک پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ اس کا ہاتھ اینٹ پر جا لگا۔ جھٹ جیب سے اینٹ نکال لی۔ دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا کہ چند روز ہوئے محمود نے میری جیب میں ڈالی تھی اور کہا تھا کہ اسے نکالنا نہیں۔ میں اسی سے کھیلوں گا۔‘‘ (حضرت مسیح موعود کے مختصر حالات ملحقہ براہین احمدیہ طبع چہارم ص ق)

انگلی سے سالن لینا​

’’بعض دفعہ تو دیکھا گیا کہ آپ روکھی روٹی کا نوالہ منہ میں ڈال لیا کرتے تھے اور پھر انگلی کا سرا شوربے میں تر کر کے زبان سے چھودیا کرتے تھے۔ تاکہ لقمہ نمکین ہو جاوے۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ دوم ص۱۳۱، روایت نمبر۴۴۴)

 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

بائیں ہاتھ سے چائے، پانی پینا​

’’کبھی کبھی آپ پانی کا گلاس یا چائے کی پیالی بائیں ہاتھ سے پکڑ کر پیا کرتے تھے اور فرماتے تھے۔ ابتدائی عمر میں دائیں ہاتھ میں ایسی چوٹ لگی تھی کہ اب تک بوجھل چیز اس ہاتھ سے برداشت نہیں ہوتی۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ دوم ص۱۳۱، روایت نمبر۴۴۴)

مرزا قادیانی اور شراب​

’’محبی اخویم حکیم محمد حسین صاحب سلمہ اﷲ تعالیٰ! السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ
اس وقت میاں یار محمد بھیجا جاتا ہے۔ آپ اشیاء خردنی خود خرید دیں اور ایک بوتل ’’ٹانک وائن‘‘ کی پلومر کی دوکان سے خرید دیں۔ مگر ٹانک وائن چاہئے۔ اس کا لحاظ رہے۔ باقی خیریت ہے۔ والسلام!‘‘ مرزاغلام احمد عفی عنہ!
(خطوط امام بنام غلام ص۵، از حکیم محمد حسین قریشی قادیانی)

گڑ اور ڈھیلے​

براہین احمدیہ کا پہلا ایڈیشن جو مرزاقادیانی کے زمانۂ حیات میں شائع ہوا۔ اس میں معراج الدین عمر احمدی نے ’’حضرت مسیح موعود مرزاغلام احمد قادیانی مؤلف براہین احمدیہ کے مختصر حالات‘‘ نامی مضمون بھی ساتھ شائع کیا۔ اس کے (ص۶۷) پر لکھا کہ: ’’آپ کو شرینی سے بہت پیار ہے اور مرض بول بھی عرصہ سے آپ کو لگی ہوئی ہے۔ اس زمانہ میں آپ مٹی کے ڈھیلے بعض وقت جیب میں ہی رکھتے تھے اور اسی جیب میں ہی گڑ کے ڈھیلے بھی رکھ لیا کرتے تھے۔‘‘

مرزاقادیانی اور کتا​

مولوی عبدالکریم سیالکوٹی قادیانی نے لکھا کہ: ’’مجھے یاد ہے کہ حضرت لکھ رہے تھے۔ ایک خادمہ کھانا لائی اور حضرت کے سامنے رکھ دیا اور عرض کیا کھانا حاضر ہے۔ فرمایا خوب کیا۔ مجھے بھوک لگ رہی تھی اور میں آواز دینے کو تھا وہ چلی گئی اور آپ پھر لکھنے میں مصروف ہوگئے۔ اتنے میں کتا آیا اور بڑی فراغت سے سامنے بیٹھ کر کھانا کھایا اور برتنوں کو بھی صاف کیا اور بڑے سکون اور وقار سے چل دیا۔ اﷲ اﷲ ان جانوروں کو بھی کیا عرفان بخشا گیا ہے۔ وہ کتا اگرچہ رکھا ہوا اور سدھا ہوا نہ تھا۔ مگر خدا معلوم اسے کہاں سے یقین ہوگیا اور بجا یقین ہوگیا کہ یہ پاک وجود بے ضرر وجود ہے اور یہ وہ ہے جس نے کبھی چیونٹی کو بھی پاؤں تلے نہیں مسلا اور جس کا ہاتھ کبھی دشمن پر بھی نہیں اٹھا۔ غرض ایک عرصہ کے بعد وہاں ظہر کی اذان ہوئی تو آپ کو پھر کھانا یاد آیا۔ آواز دی خادمہ دوڑی آئی اور عرض کیا کہ میں تو مدت ہوئی کھانا آپ کے آگے رکھ کر آپ کو اطلاع کر آئی تھی۔ اس پر آپ نے مسکرا کر فرمایا اچھا تو شام کو ہی کھائیں گے۔‘‘ (سیرت مسیح موعود ص۱۶)

مرزے کا کتا​

’’ڈاکٹر پیر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود نے اپنے گھر کی حفاظت کے لئے ایک گدی کتا بھی رکھا تھا۔ وہ دروازے پر بندھا رہتا تھا اور اس کا نام شیرو تھا۔ اس کی نگرانی بچے کرتے تھے یا میاںقدرت اﷲ خان صاحب مرحوم کرتے تھے۔ جو گھر کے دربان تھے۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ سوم ص۲۹۸، روایت نمبر۹۵۷)

مرزا کتوں کا شکار کھیلتا تھا​

’’میاں امام دین سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ بہت ابتدائی زمانہ کا ذکر ہے کہ مولوی غلام علی صاحب ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ بندوبست ضلع گورداسپور مرزانظام الدین صاحب کے مکان میں آکر ٹھہرے ہوئے تھے۔ ان کو شکار دیکھنے کا شوق تھا۔ وہ مرزانظام الدین صاحب کے مکان سے باہر نکلے اور ان کے ساتھ چند کس سانس بھی جنہوں نے کتے پکڑے ہوئے تھے نکلے۔ مولوی غلام علی صاحب نے شاید حضرت صاحب کو پہلے اطلاع دی ہوئی تھی۔ حضرت صاحب بھی باہر تشریف لے آئے۔ آگے چل پڑے۔ ہم پیچھے پیچھے جا رہے تھے۔ اس وقت حضرت کے پاؤں میں جو جوتا تھا۔ شاید وہ ڈھیلا ہونے کی وجہ سے ٹھپک ٹھپک کرتا جاتا تھا۔ مگر وہ بھی حضرت صاحب کو اچھا معلوم ہوتا ہے۔ چلتے چلتے پہاڑی دروازہ پر چلے گئے۔ وہاں ایک مکان سے سانسیوں نے ایک بلے کو چھیڑ کر نکالا۔ یہ بلا شاید جنگلی تھا۔ جو وہاں چھپا ہوا تھا۔ جب وہ بلا مکان سے باہر بھاگا تو تمام کتے اس کو پکڑنے کے لئے دوڑے۔ یہاں تک کہ اس بلے کو انہوں نے چیر پھاڑ کر رکھ دیا۔ یہ حالت دیکھ کر حضرت صاحب چپ چاپ واپس اپنے مکان کو چلے آئے اور کسی کو خبر نہ کی۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ صدمہ دیکھ کر آپ نے برداشت نہ کیا اور واپس آگئے۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ سوم ص۲۸۵، روایت نمبر۹۳۴)

اسٹیشن کی سیر​

’’بیان کیا حضرت مولوی نورالدین صاحب نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود کسی سفر میں تھے۔ اسٹیشن پر پہنچے تو ابھی گاڑی آنے میں دیر تھی۔ آپ بیوی صاحبہ کے ساتھ اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر ٹہلنے لگ گئے۔ یہ دیکھ کر مولوی عبدالکریم صاحب جن کی طبیعت غیور اور جوشیلی تھی۔ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ بہت لوگ اور پھر غیرلوگ ادھر ادھر پھرتے ہیں۔ آپ حضرت صاحب سے عرض کریں کہ بیوی صاحبہ کو کہیں الگ بٹھا دیا جاوے۔ مولوی صاحب فرماتے تھے میں نے کہا میں تو نہیں کہتا آپ کہہ کر دیکھ لیں۔ ناچار مولوی عبدالکریم صاحب خود حضرت صاحب کے پاس گئے اور کہا کہ حضور لوگ بہت ہیں۔ بیوی صاحبہ کو الگ ایک جگہ بٹھا دیں۔ حضرت صاحب نے فرمایا جاؤ جی! میں ایسے پردے کا قائل نہیں ہوں۔ مولوی صاحب فرماتے تھے کہ اس کے بعد مولوی عبدالکریم صاحب سر نیچے ڈالے میری طرف آئے۔ میں نے کہا مولوی صاحب جواب لے آئے۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ اوّل ص۶۳، روایت نمبر۷۷)

تھیٹر دیکھنا​

’’حضرت مرزاقادیانی کے امرتسر جانے کی خبر سے بعض اور احباب بھی مختلف شہروں سے وہاں آگئے۔ چنانچہ کپورتھلہ سے محمد خاں صاحب مرحوم اور منشی ظفر احمد صاحب بہت دنوں وہاں ٹھہرے رہے۔ گرمی کا موسم تھا اور منشی صاحب اور میں۔ ہر دو نحیف البدن اور چھوٹے قد کے آدمی ہونے کے سبب ایک ہی چارپائی پر دونوں لیٹ جاتے تھے۔ ایک شب دس بجے کے قریب میں تھیٹر میں چلا گیا۔ جو مکان کے قریب ہی تھا اور تماشہ ختم ہونے پر دو بجے رات کو واپس آیا۔ صبح منشی ظفر احمد نے میری عدم موجودگی میں حضرت صاحب کے پاس میری شکایت کی کہ مفتی صاحب رات تھیٹر چلے گئے۔ حضرت صاحب (مرزاقادیانی) نے فرمایا۔ ایک دفعہ ہم بھی گئے تھے تاکہ معلوم ہو کہ وہاں کیا ہوتا ہے۔ اس کے سوا اور کچھ نہ فرمایا۔ منشی صاحب نے خود ہی مجھ سے ذکر کیا کہ میں تو حضرت صاحب کے پاس آپ کی شکایت لے کر گیا تھا اور میرا خیال تھا کہ حضرت صاحب آپ کو بلا کر تنبیہ کریں گے۔ مگر حضور نے تو صرف یہی فرمایا کہ ایک دفعہ ہم بھی گئے تھے اور اس سے معلومات حاصل ہوتے ہیں۔ میں نے کہا کہ حضرت کا کچھ نہ فرمانا یہ بھی ایک تنبیہ ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ آپ مجھ سے ذکر کریں گے۔‘‘ (ذکر حبیب، مفتی صادق قادیانی ص۱۸)

مرزاغلام احمد قادیانی کی حالت زار … درد زہ​

خدا نے پہلے مجھے مریم کا خطاب دیا اور پھر نفخ روح کا الہام کیا۔ پھر بعد اس کے یہ الہام ہوا تھا۔ ’’فَاجَائَ ہَا الْمَخَاضُ اِلٰی جِذْعِ النَّخْلَۃِ قَالَتْ یَا لَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ہَذَا وَکُنْتُ نَسْیًا مَنْسِیًّا‘‘ (یعنی پھر مریم کو جو مراد اس عاجز سے ہے۔ دردزہ تنہ کھجور کی طرف لے آئی)۔ (کشتی نوح ص۴۷، خزائن ج۱۹ ص۵۱)

جائے نفرت​

کرم خاکی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں
ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۹۷، خزائن ج۲۱ ص۱۲۷)

احتلام​

’’ڈاکٹر میر محمد اسماعیل نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب کے خادم میاں حامد علی کی روایت ہے کہ ایک سفر میں حضرت صاحب کو احتلام ہوا۔ جب میں نے یہ روایت سنی تو بہت تعجب ہوا۔ کیونکہ میرا خیال تھا کہ انبیاء کو احتلام نہیں ہوتا۔ پھر بعد فکر کرنے کے اور طبعی طور پر اس مسئلہ پر غور کرنے کے میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ احتلام تین قسم کا ہوتا ہے۔ ایک فطری، دوسرا شیطانی خواہشات اور خیالات کا نتیجہ اور تیسرا مرض کی وجہ سے انبیاء کو فطرتی اور بیماری والا احتلام ہوسکتا ہے۔ مگر شیطانی نہیں ہوتا۔ لوگوں نے سب قسم کے احتلام کو شیطانی سمجھ رکھا ہے جو غلط ہے۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ سوم ص۲۴۲، روایت نمبر۸۴۳)

کبھی کبھی زنا​

’’حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) ولی اﷲ تھے اور ولی اﷲ بھی کبھی کبھی زنا کرلیا کرتے ہیں۔ اگر انہوں نے کبھی کبھار زنا کر لیا تو اس میں کیا حرج ہوا۔ پھر لکھا ہے ہمیں حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) پر اعتراض نہیں کیونکہ وہ کبھی کبھی زنا کیا کرتے تھے۔ ہمیں اعتراض موجودہ خلیفہ پر ہے۔ کیونکہ وہ ہر وقت زنا کرتا رہتا ہے۔‘‘
(الفضل قادیان مورخہ۳۱؍اگست ۱۹۳۸ء)

 
Top