محمد اسامہ حفیظ
رکن ختم نبوت فورم
قادیانی سوال:۲۵
قادیانی جماعت یہ اعتراض کرتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دشمنوں سے بچانے کے لئے اﷲتعالیٰ نے آسمانوں کا انتخاب فرمایا اور حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو دشمنوں سے بچانے کے لئے غارثور کا، چنانچہ مرزاقادیانی نے اپنی کتاب (تحفہ گولڑویہ ص۱۱۲، خزائن ج۱۷ ص۲۰۵ حاشیہ) پر لکھا ہے کہ: ’’خداتعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چھپانے کے لئے ایک ایسی ذلیل جگہ تجویز کی جو نہایت متعفن اور تنگ اور تاریک اور حشرات الارض کی نجاست کی جگہ تھی (استغفراﷲ) مگر حضرت مسیح کو آسمان پر جو بہشت کی جگہ اور فرشتوں کی ہمسائیگی کا مکان ہے بلالیا۔‘‘ نیز یہ کہ مرزامحمود نے اپنی کتاب (دعوت الامیر ص۱۳۳) پر لکھا ہے کہ: ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں پر اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم زمین میں یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اور تنقیص ہے۔‘‘جواب: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان پر جانا اور حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا زمین میں مدفون ہونا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بلندی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے زمین کا انتخاب کرنا پستی کی دلیل نہیں۔ غرض یہ کہ کسی کا اوپر ہونا یا کسی کا نیچے ہونا اس سے عظمت یا تنقیص لازم نہیں آتی۔ کوئی اوپر ہو یا نیچے جس کی جو شان ہے وہ برقرار رہے گی۔ آسمان والوں کی زیادہ شان ہو اور زمین والوں کی کم، مرزائیوں کی یہ بات عقلاً ونقلاً غلط ہے۔
الف… فرشتے آسمانوں میں رہتے ہیں اور انبیاء علیہم السلام زمین میں مدفون ہیں اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ فرشتے انبیاء علیہم السلام سے افضل ہیں۔ فرشتے آسمانوں پر ہیں اور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم روضہ طیبہ میں۔ حالانکہ جبرائیل امین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دربان تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اﷲتعالیٰ نے زمین پر آباد کر کے عالم ملکوت کے سردار جبرائیل کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خادم بنادیا اور عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر چڑھا کر پھر مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری میں زمین پر بھیج دے تویہ سب اس کے اختیار میں ہے۔
ب… ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں پر مدینہ طیبہ کے بازار میں حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سوار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو کندھوں پر اٹھایا ہوا تھا۔ جس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم نے ارشاد فرمایا کہ حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم تمہیں سواری اچھی ملی ہے۔ اس کے جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم اگر سواری اچھی ہے تو سوار بھی اچھا ہے۔ تو کیا حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں پر سوار ہونا اس سے یہ لازم آتا ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل تھے؟ نہیں اور ہرگز نہیں۔ اس طرح فتح مکہ کے موقع پر کعبہ شریف سے بتوں کو ہٹانے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے پر سوار ہوئے تو کیا اس سے یہ لازم آتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل تھے؟
ج… صحابہ کرامi نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو روضہ طیبہ میں دفن کیا۔ اس وقت صحابہi زمین کے اوپر تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زیرزمین۔ کیا اس سے صحابہi کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ہونا لازم آتا ہے؟
د… امتی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ پر کھڑے ہوکر سلام عرض کرتے ہیں۔ اس وقت امتی زمین پر ہوتے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم زیرزمین۔ تو کیا اس سے یہ لازم آتا ہے کہ امتی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ہیں؟ نہیں اور ہر گز نہیں۔ غرض یہ کہ اﷲ رب العزت نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جو شان بخشی ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر حال میں برقرار رہے گی۔ چاہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں پر کوئی سوار ہو یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے کندھے پر سوار ہوں۔ جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی رات ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کے کندھوں پر بیٹھ کرسواری کی۔
(بلا تشبیہ) موتی دریا کی تہہ میں ہوتے ہیں اور گھاس پھوس تنکے اور جھاگ سمندر کی سطح پر ہوتے ہیں تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ تنکے یا جھاگ موتیوں سے افضل ہوں یا جیسے مرغی زمین پر ہوتی ہے لیکن کوا اور گدھ فضا میں اڑتے ہیں۔ ان کے فضا میں اڑنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ کوّا اور گدھ مرغی سے افضل ہوں یا جیسے رات کو آدمی سوتا ہے تو رضائی اس کے اوپر ہوتی ہے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ رضائی انسان سے افضل ہو، بادام کا سخت چھلکا اوپر ہوتا ہے اور مغز اندر تو اس سے لازم نہیں آتا کہ مغز سے چھلکا افضل ہو۔
ہ… باقی رہا مرزائیوں کا یہ کہنا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا زمین میں مدفون ہونا اس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تنقیص لازم آتی ہے تو ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ اہل سنت کے نزدیک رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم جس مبارک مٹی میں آرام فرمارہے ہیں اس مٹی کی شان عرش سے بھی زیادہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہائش گاہ کا نام قرآن میں حجرات آیا ہے آسمان پر تو شیطان بھی جانے کی راہیں بناتا ہے۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں تو بغیر اجازت کے فرشتے کو بھی قدم رکھنے کی اجازت نہیں۔
و… مرزائیوں کے منہ بند کرنے کے لئے یہ واقعہ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ قادیان کے قادیانی مرگھٹ کی جب چاردیواری نہیں تھی تو لوگ چشم دید واقعہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے دیکھا کہ کتا مرزاقادیانی کی قبر پر پیشاب کر رہا ہے۔ کیا اس سے یہ لازم آتا ہے کہ وہ مرزاقادیانی سے افضل ہوگیا؟
جواب: بعض کو بعض پر بعض کو کل پر فضیلت ہوتی ہے۔ بعض خصوصیات ہوتی ہیں۔ خصوصیت کی تعریف یہ ہے: ’’یوجد فیہ ولا یوجد فی غیرہ‘‘
تمام انبیاء علیہم السلام میں سب سے افضل واعلیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ لیکن بعض انبیاء کو جزئی فضیلت حاصل تھی۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کل فضیلت کے ہرگز مخالف نہیں۔ اس پر پوری امت کا ایمان وعقیدہ ہے۔
الف… آدم علیہ السلام کی عمر ۹۳۰برس۔ سیدنا نوح علیہ السلام کی ہزاربرس اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ۶۳برس تو کیا اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہے؟ نہیں ہرگز نہیں۔
ب… سیدنا مسیح بغیر باپ کے کنواری مائی مریم علیہا السلام سے پیدا ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد گرامی تھے تو یہ عیسیٰ علیہ السلام کی خصوصیت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک نہیں۔
ج… موسیٰ علیہ السلام کو کلیم اﷲ فرمایا گیا۔ بغیر واسطہ جبرائیل علیہ السلام کے موسیٰ علیہ السلام کو ذات باری سے ہم کلامی کا شرف نصیب ہوا۔ یہ ان کی خصوصیت تھی۔ دیگر انبیاء علیہم السلام بشمول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی کی اس میں ہتک نہیں۔
د… حدیث شریف میں ہے کہ قیامت کے دن ایک مرحلہ پر سب لوگ بیہوش ہو جائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے پہلے میں اٹھوں گا۔ مگر موسیٰ علیہ السلام کو دیکھوں گا کہ وہ عرش کا پایہ تھامے کھڑے ہیں۔ یہ موسیٰ علیہ السلام کی خصوصی فضیلت ہوئی۔ اس میں کسی دیگر کی ہتک نہیں۔
ہ… سیدنا یونس علیہ السلام تین دن رات مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہے۔ کوئی اور نہیں۔ یہ ان کی خصوصی فضیلت وشرف ہوا۔ دیگر کی ہتک نہیں۔
غور طلب یہ امر ہے کہ ان تمام خصوصی فضائل کے باوجود تمام انبیاء علیہم السلام شب معراج یا کل قیامت کے روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت وسیادت کے زیرسایہ ہوں گے۔
وہ مسیح علیہ السلام جن کی رفعت جسمانی آسمانوں سے پار گئی۔ وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں شامل ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمہ کا ورد کریں گے تو فرمائیے شان کن کی اعلیٰ وافضل؟
جواب: قادیانیو! تم مکان کی وجہ سے مکین کی عزت سمجھتے ہو۔ ہم مکین کی وجہ سے مکان کی عزت کے قائل ہیں۔ ’’ لَا اَقْسِمُ بِہٰذَا الْبَلَدْ ‘‘ ہمارے مؤقف پر نص صریح ہے۔
قادیانی سوال:۲۶
جب کہ دیگر تمام انبیاء کو اﷲتعالیٰ نے اسی دنیا میں رکھ کر شر اعداء سے محفوظ رکھا تو حضرت مسیح علیہ السلام کی کیا خصوصیت تھی کہ انہیں آسمان پر اٹھالیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کیوں نہ اٹھالیا؟الجواب: چونکہ امر مقدر یونہی تھا کہ حضرت مسیح علیہ السلام نہ صرف بلا باپ پیدا ہونے کے بلکہ ایک عرصہ دراز تک زندہ رہنے اور آسمان پر اٹھائے جانے کے نشان قدرت بنائے جائیں اور آخری زمانہ میں ان کے ہاتھ سے خدمت اسلام لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو دوبالا کیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ مرتبہ ہے کہ مستقل اور صاحب شریعت وکتاب رسول بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کو اپنی سعادت سمجھیں۔ حتیٰ کہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے ہوکر امام الصلوٰۃ بھی بنیں اور گواہی دیں کہ ’’ تَکْرِمَۃَ اللّٰہِ ہٰذِہِ الْاُمَّۃِ (مشکوٰۃ باب نزول عیسٰی علیہ السلام) ‘‘ اس لئے اﷲتعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان پر اٹھالیا۔
مرزائیوں سے ایک سوال
صاحبان! آپ مسیح کی ولادت بلاباپ کو مانتے ہیں۔ جیسا کہ مرزاقادیانی کی تصریحات موجود ہیں۔ پس بتلائیے کہ کیا وجہ ہے، خدا نے دیگر انبیاء علیہم السلام کو تو ماں باپ دونوں کے ذریعہ پیدا کیا۔ مگر مسیح علیہ السلام کو بلاباپ، جو جواب تم اس کا دو گے اسی کے اندر ہمارا جواب موجود ہے۔۲… حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو روح اﷲ فرمایا گیا ہے اور روح کا تعلق آسمان سے ہے۔ اس لئے ان کو آسمانوں پر اٹھانا ہی قرین انصاف تھا۔
قادیانی سوال:۲۷
یاجوج ماجوج سے مراد مرزاقادیانی نے روس اور امریکہ لیا ہے۔ نیز کہ یاجوج ماجوج پر عذاب نازل ہوگا۔ حالانکہ ان کو تبلیغ نہیں ہوئی۔جواب: یاجوج ماجوج ایک قوم ہے۔ کہاں ہے؟ اس کے ہم ذمہ دار نہیں۔ بے شمار ایسی چیزیں ہیں جن کی ابھی تک دریافت نہیں ہوئی۔ اس کا یہ معنی تو نہیں کہ جس چیز کا ہمیں علم نہ ہو وہ چیز بھی نہ ہو۔ مرزاقادیانی نے بھی لکھا ہے کہ: ’’عدم علم سے عدم شئی لازم نہیں آتا۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۱۷، خزائن ج۲۲ ص۱۲۰)
آج سے ڈیڑھ دو سو سال پہلے امریکہ کا کسی کو علم نہ تھا۔ آج اگر دجال کے گدھے کی کیفیت ایک عجوبہ معلوم ہوتی ہے تو یاد رکھئے کہ کل یہ عجوبہ نہ ہوگا۔ ایک سفر میں مجھے ایک ماہی پروری کے پروفیسر ناروے میں ملے۔ انہوں نے بتایا کہ سائبریا میں ایسی مچھلی پائی جاتی ہے جو بیک وقت اڑھائی ہزار انسان کا لقمہ بناسکتی ہے۔ فرمائیے! آج سے ایک صدی پہلے کوئی یہ بات کہتا تو دنیا کیا سے کیا طوفان قائم کر دیتی۔
آدم علیہ السلام کی اوّلین اولاد کو کوئی کہتا کہ لوہا فضا میں پرواز کرے گا۔ کون مانتا۔ مگر آج ایک حقیقت ہے آپ کی سوچ اور اعتراض چیونٹی جیسے ہیں۔ جس کے کان میں کہہ دیا جائے کہ ہاتھی سومن وزن اٹھاسکتا ہے تو وہ تڑپ تڑپ کر مر جائے گی۔ مرزائی بھی ہزار تڑپیں یاجوج ماجوج ایک قوم ہیں۔ گدھا اتنے فاصلے کے کانوں والا ہوگا۔ مجھے اپنی آنکھوں دیکھی چیز پر شبہ ہوسکتا ہے مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر شبہ نہیں ہوسکتا۔
آپ کا یہ کہنا کہ یاجوج ماجوج کو تبلیغ نہیں ہوئی تو پھر ان پر عذاب کیوں آئے گا۔ یہ بھی غلط ہے۔ ان کو تبلیغ ہوچکی ہے۔ اس کا ثبوت بھی حدیث شریف میں ہے کہ وہ ہر روز اس دیوار کو چاٹتے ہیں بالآخر تھک کر چلے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ باقی کل، مگر ان شاء اﷲ نہیں کہتے۔ جس روز ان کا خروج اﷲ رب العزت کو منظور ہوگا تو وہ اس دن ان شاء اﷲ کہیں گے کہ باقی دیوار کل ان شاء اﷲ گرائیں گے۔ ان کا ان شاء اﷲ کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کو تبلیغ ہوچکی ہے۔
قادیانی سوال:۲۸
مرزاقادیانی نے کہا کہ وہ گدھا دجال کی ملکیت ہوگا نہ کہ اس کی سواری۔جواب: اگر دجال سے مراد انگریز ہیں اور ان کے گدھے سے مراد ریل ہے اور وہ ملکیت ہوگی نہ کہ سواری، اس کا معنی یہ ہے کہ ریل صرف انگریز کی ملکیت ہوتی اور وہ بھی اس پر سواری نہ کرتے۔ نمبر۲ کسی اور کی ملکیت نہ ہوتی۔ پھر حدیث شریف میں ملکیت کا لفظ نہیں بلکہ یہ ہے کہ وہ ایک گدھے پر سوار ہوگا جس کے دونون کانوں کا درمیانی فاصلہ چالیس ہاتھ ہوگا۔
(مسند احمد، حاکم)
سواری کے الفاظ کو آپ جس طرف ہیر پھیر کریں یہ تحریف کے زمرہ میں آئے گا۔ گدھے کے ایک کان سے دوسرے کان تک چالیس ہاتھ کا فاصلہ ہوگا۔ قادیانی کہتے ہیں کہ ریل اتنی لمبی ہوتی ہے۔ یہ دلیل ہے کہ مراد ریل گاڑی ہے۔ ایک کان سے دوسرے کان تک اتنا لمبا فاصلہ ہوگا۔ ظاہر ہے کہ مراد اس سے چوڑائی ہے نہ کہ لمبائی۔ ریل گاڑی جتنی چاہے لمبی ہو چوڑائی تو کہیں بھی چالیس ہاتھ نہیں ہے۔ دجال کے گدھے کے پیٹ میں قمقمے جلتے ہوں گے۔ یہ مرزاطاہر کی کذب بیانی ہے۔ کہیں نہیں لکھا۔ ہمت ہے تو حوالہ لائیں۔ ’’ وان لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتقوا النار ‘‘
۲… مرزاقادیانی نے ریل گاڑی کو دجال کا گدھا کہا۔ عمر بھر اس کی مرزا سواری کرتا رہا۔ حتیٰ کہ مرنے کے بعد آخری سفر اس کی نعش کا اسی گدھے پر ہوا۔ مرزاعمر بھر جسے دجال کا گدھا کہتارہا اس پر آخری سواری کر کے خود دجال ثابت ہوا۔
قادیانی سوال:۲۹
حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں پر کیا کھاتے ہوں گے یا پیتے ہوں گے۔ کہاں رفع حاجت کرتے ہوں گے؟جواب: جو میزبان ہواس کو مہمان کی فکر ہوتی ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں پر مہمان ہیں۔ اﷲ رب العزت ان کے میزبان ہیں۔ جن کے میزبان اﷲتعالیٰ ہوں اس کے بارے میں قادیانیوں کو اس کی فکر نہیں کرنی چاہئے۔ مرزائی کرم فرما۔ اس طرح سوال کرتے ہیں کہ کھاتے کیا ہوں گے جس طرح کہ مرزائیوں نے وہاں آسمانوں پر ہوٹل کھولنا ہو کہ ان کی مرضی کی ڈش تیار کریں۔ کبھی کہتے ہیں کہ جی حجامت بڑھ گئی ہوگی۔ جس طرح مرزائیوں نے وہاں پر حمام کھولنا ہو۔ کبھی کہتے ہیں کہ جی عیسیٰ علیہ السلام پیشاب کہاں کرتے ہوں گے۔ ایسے بیہودہ اعتراض کا مولانا ثناء اﷲ امرتسری رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہ جواب دیا تھا کہ اﷲتعالیٰ نے فلش سسٹم کا انتظام کر کے آسمانوں سے گٹر کا پائپ لگا کر مرزاقادیانی کی قبر میں فٹ کر دیا ہے۔ خیر یہ تو ہوا لطیفہ اب جواب سنئے۔
حدیث شریف میں ہے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک وقت آئے گا کہ کھانے پینے کی تمام اشیاء پر دجال کا قبضہ ہو گا۔ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم پھر مسلمان کیا کھائیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو وہ غذا کفایت کرے گی جو آسمان والوں کی عذا ہے۔ صحابہ کرامi نے عرض کیا کہ آقا آسمان والوں کی کیا غذا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اﷲتعالیٰ کی تحمید وتقدیس۔ (مشکوٰۃ ص۴۷۷، باب العلامات بین یدی الساعۃ بحوالہ ابوداؤد الطیالسی واحمد)
اس حدیث شریف نے عقدہ حل کر دیا کہ آسمان والوں کی غذا تحمید وتقدیس باری تعالیٰ ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں پر ہیں تو ان پر آسمان والوں کے احکام جاری ہوتے ہیں۔
جواب: ۲… انسانی وملکوتی دونوں صفات سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام متصف ہیں۔ کیونکہ والدہ مریم انسان تھیں۔ اس لحاظ سے ان میں بشری صفات ہوئیں۔ بغیر باپ کے پیدا ہوئے روح القدس کی پھونک سے تو ملکوتی صفات بھی ہوئیں۔ جب تک زمین پر تھے انسانی تقاضوں پر عمل کر کے کھاتے پیتے تھے اور آسمانوں پر ملکوتی صفات کا مظہر ہیں تو ان کی غذا حمد وتقدیس ہے۔ جب واپس تشریف لائیں تو زمین پر پھر انسانی صفات کے مطابق کھانا شروع کر دیں گے۔
جواب: ۳… (نورالحق ج۱ ص۵۱، خزائن ج۸ ص۶۹) پر ہے: ’’ ہذا ہو موسٰی فتی اللّٰہ الذی اشار اللّٰہ فی کتابہ الٰی حیاتہ وفرض علینا ان نؤمن بانہ حی فی السماء ولم یمت ولیس من المیتین ‘‘ یہ وہی موسیٰ مرد خدا ہے جس کی نسبت قرآن مجید میں اشارہ ہے کہ وہ زندہ ہے اور ہم پر فرض ہوگیا کہ ہم اس بات پر ایمان لائیں گے کہ وہ زندہ آسمانوں پر موجود ہے اور مردوں میں سے نہیں۔ یہ عبارت اور ترجمہ مرزاقادیانی کا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام آسمانوں پر زندہ موجود ہیں اورکہتا ہے کہ قرآن سے ثابت ہے اور اس پر ایمان لانا مرزائیوں پر فرض ہے تو جناب عالیٰ! جو موسیٰ علیہ السلام آسمانوں پر کھاتے ہوں گے وہی عیسیٰ علیہ السلام، جو کچھ موسیٰ علیہ السلام پیتے ہوں گے وہی عیسیٰ علیہ السلام، جہاں وہ حجامت بنواتے ہوں گے وہاں سے عیسیٰ علیہ السلام، غرض یہ کہ تمام ضروریات ایک ساتھ پوری کرتے ہوں گے۔ اس حوالہ کو ہم ’’ایٹم بم‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں کہ جس سے پوری مرزائیت کی عمارت دھڑام سے نیچے گر جاتی ہے۔ جو اشکال عیسیٰ علیہ السلام کی حیات پر کرتے ہیں ان تمام کا توڑ یہ حوالہ ہے جس کا کوئی مرزائی جواب نہیں دے سکتے۔ اب رہا مرزاقادیانی کا یہ کہنا کہ موسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں تو اس ضمن میں درخواست ہے کہ مرزاقادیانی کی عادت تھی کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات میں مخالفت کرتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بدترین ازلی ابدی دشمن تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نبوت بند ہے۔ مرزاقادیانی نے کہا کہ نہیں جاری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جہاد جاری ہے۔ مرزاقادیانی نے کہا کہ نہیں بند ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے حق کی قسم عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔ مرزاقادیانی نے کہا کہ حق کی قسم مرگیا ابن مریم۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے۔ مرزاقادیانی نے کہا کہ نہیں زندہ آسمانوں پر ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں محل نبوت کی آخری اینٹ ہوں۔ مرزاقادیانی نے کہا کہ نہیں میں آخری اینٹ ہوں۔
روضہ آدم کہ تھا وہ نامکمل اب تلک
میرے آنے سے ہوا کامل بجملہ برگ و بار
میرے آنے سے ہوا کامل بجملہ برگ و بار
(درثمین ص۱۳۵)
مرزاقادیانی نے خطبہ الہامیہ (تختی کلاں ص۱۱۲، خزائن ج۱۶ ص۱۷۸) پر کہا ہے کہ وہ آخری اینٹ میں ہوں۔جواب: ۴… رئیس المکاشفین حضرت عبدالوہاب شعرانی رحمہ اللہ تعالیٰ (الیواقیت والجواہر ج۲ ص۱۴۶) میں اس کا جواب لکھتے ہیں: ’’ فان قیل فما الجواب عن استغنآئہ عن الطعام والشراب مدۃ رفعہ فان اللّٰہ تعالٰی قال وما جعلنا ہم جسدًا لا یاکلون الطعام؟ والجواب ان الطعام انما جعل قوتًا ان یعیش فی الارض لانہ مسلط علیہ الہواء الحار والبارد فینحل بدنہ فاذا انحل عوضہ اللّٰہ تعالٰی بالغذاء اجراء لعادتہٖ فی ہٰذہ للحظۃ الغبراء واما من رفعہ اللّٰہ الٰی السمآء فانہ یلطفہ بقدرتہ ویغنیہ عن الطعام والشراب کما اغنی الملٰئکۃ عنہما فیکون حینئذٍ طعامہ التسبیح وشرابہ التہلیل کما قال صلی اللہ علیہ وسلم انی ابیت عند ربی یطعمنی ویسقینی وفی الحدیث مرفوعًا ان بین یدی الدجال ثلاث سنین الخ۔ فکیف بالمومنین حینئذٍ فقال یجزئہم ما یجزی اہل السماء من التسبیح والتقدیس ‘‘ اگر کہا جائے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ رفع میں کھانے پینے سے مستغنی ہونے کا کیا جواب ہے؟ اس لئے کہ اﷲتعالیٰ نے فرمایا ہے: ’ ’مَاجَعَلْنٰہُمْ جَسَدًا لاَّ یَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ ‘‘ جواب یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ نے طعام کو زمین پر پر معیشت پوری کرنے کے لئے قوت بنایا ہے۔ کیونکہ یہاں اس پر ہوا گرم اور سرد مسلط ہے۔ اس کے بدن کو تحلیل کرتی ہے۔ جب تحلیل ہوتا ہے تو اﷲتعالیٰ غذا سے اس کا عوض پیدا کرتا ہے۔ اس زمین میں اس کی یہ عادت جاری ہے۔ لیکن وہ شخص جس کو اﷲتعالیٰ نے آسمان پر اٹھالیا اس کو اپنی قدرت سے نوازتا ہے اور کھانے پینے سے بے پرواہ کرتا ہے۔ جیسے فرشتوں کو بے پرواہ کیا۔ پس اس وقت اس کا طعام تسبیح اور پانی اس کا تہلیل ہوگا۔ جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میں اپنے رب کے پاس رات گزارتا ہوں کہ مجھ کو اﷲتعالیٰ کھلا پلا دیتا ہے اور حدیث میں مرفوعاً روایت ہے کہ دجال سے تین برس پہلے قحط پڑے گا۔ اسی حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیاگیا کہ اس وقت جب مسلمانوں کے پاس کھانے پینے کو کچھ نہ ہوگا تو ان کا کیا حال ہوگا؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو کفایت کرے گا وہ کھانا جو آسمان والوں کو کیفیت کرتا ہے۔ یعنی تسبیح اور تقدیس۔‘‘ حضرت شیخ رحمہ اللہ تعالیٰ نے پہلے فلسفی دلیل سے سمجھا دیا اور پھر حدیث مرفوع بھی بیان کر دی کہ دجال کے زمانہ میں مومنین کو اہل سماء کی طرح صرف تسبیح وتقدیس ہی غذا کا کام دے گی۔ حضرت شیخ رحمہ اللہ تعالیٰ نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ ایک بزرگ ’’خلیفۃ الخراط‘‘ نامی کا جو بلاد مشرق کے شہروں میں سے ایک شہر ابہر میں رہتے تھے ذکر فرمایا کہ اس نے ۲۳سال سے برابر کچھ نہیں کھایا تھا اور دن اور رات عبادت الٰہی میں مشغول رہتا تھا اور کسی طرح کا ضعف بھی لاحق نہیں ہوا تھا۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام کے لئے تسبیح وتہلیل کی غذا ہونے میں کیا تعجب ہے؟ ’’ قال الشیخ ابوالطاہر وقد شاہد نار جلاً اسمہ خلیفۃ الخراط کان مقیمًا بہر من بلاد المشرق مکث لا یطعم طعامًا منذ ثلاث وعشرین سنۃ وکان یعبد اللّٰہ لیلا ونہارًا من غیر ضعف فاذا علمت ذلک فلا یبعدان یکون قوت عیسٰی علیہ السلام التسبیح والتہلیل واللّٰہ اعلم جمیع ذٰلک (الیواقیت ج۲ ص۱۴۶) ‘‘ مرزاقادیانی نے یہ کیونکر سمجھ لیا کہ ایک غذا کے بدلنے سے فوت ہونا لازم آتا ہے۔ روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ تمام حیوان ماں کے پیٹ میں خون سے پرورش پاتے ہیں اور خون ہی طعام ان کا ہوتا ہے۔ جب ماں کے پیٹ سے باہر آتے ہیں تو صرف دودھ ان کی غذا وطعام اور وجہ پرورش ہوتی ہے اور جب اس سے بھی بڑے ہوتے ہیں تو اناج وگھاس ومیوہ جات ان کا طعام وغذا ہوتے ہیں۔ کیا کوئی باحواس آدمی کہہ سکتا ہے کہ ماں کے پیٹ سے باہر آکر انسان یا دیگر حوانات فوت ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ ’ ’کَانَا یَاْکُلَانِ الطَّعَاَم ‘‘ نہیں رہتے۔ اس لئے کہ خون کی غذا بند ہو اجاتی ہے اور صرف دودھ ہی ملتا ہے۔ جب دودھ ملتا ہے تو کیا مرجاتے ہیں یا دودھ کا موقوف ہونا وفات کی دلیل ہے۔ ہرگز نہیں کیونکہ مشاہدہ ہے کہ غذا کے بدلنے سے کوئی فوت نہیں ہوتا۔ جب یہ امر ثابت ہے کہ غذا کے بدلنے سے کوئی فوت نہیں ہوتا۔ موت لازم نہیں ہوتی تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی غذائے زمینی سے غذائے آسمانی کیونکر باعث موت ہوسکتی ہے؟ یاکیونکر مرزاقادیانی کو معلوم ہوا کہ آسمان پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو طعام وغذا نہیں ملتی؟
جواب: ۵… جب قرآن سے ثابت ہے کہ لگا لگایا خوان آسمان سے بنی اسرائیل کی درخواست اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا سے اترا۔ (دیکھو قرآن میں کس طرح مفصل ذکر ہے) تو پھر مومن قرآن تو انکار نہیں کر سکتا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی آسمانوں پر کھانا ملنا محال ہو۔
قادیانی سوال:۳۰
قادیانی حیات مسیح علیہ السلام پر گفتگو کے لئے کہہ دیتے ہیں کہ آپ عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر زندہ ثابت کر دیں تو مسئلہ ختم۔جواب: ۱… میرے بھائی! دنیا میں کئی ایسے فرقے موجود ہیں جو عیسیٰ علیہ السلام کو فوت شدہ مانتے ہیں۔ (۱)یہودی۔ (۲)عیسائی۔ ان میں سے بعض کا عقیدہ ہے کہ فوت ہوئے پھر زندہ ہوکر آسمانوں پر گئے تو موت کے وارد ہونے کے وہ بھی قائل ہیں۔ (۳)پرویزی۔ (۴)سرسید اور ان کے خیالات کے نیچری۔ (۵)قادیانی۔ تو پہلے آپ ارشاد فرمائیں کہ اگر وفات مسیح ہی آپ کی الجھن ہے تو ان پانچ میں سے آپ نے قادیانیت کیوں قبول کی اور باقی فرقوں کو نظرانداز کیوں کیا؟ کیونکہ اگر وفات مسیح ہی آپ کی الجھن ہے تو آپ یہودی ہو جاتے۔ عیسائی ہو جاتے۔ جو پہلے سے وفات کے قائل ہیں آپ قادیانی کیوں ہوئے؟ آپ جب وجہ بیان کریں گے تو پھر بات آگے بڑھے گی۔ کیونکہ آپ کے جواب سے میں ثابت کروں گا کہ اصل میں آپ کی الجھن وفات مسیح نہیں بلکہ مرزاقادیانی کا روگ ہے جو آپ کو لگ گیا۔ اس لئے پہلے مرزاقادیانی پر بحث ہوگی۔
جواب: ۲… مرزاقادیانی نے اپنی کتاب (ازالہ اوہام ص۱۴۰، خزائن ج۳ ص۱۷۱) پر لکھا ہے کہ: ’’اوّل تو جاننا چاہئے کہ مسیح کے نزول کا عقیدہ کوئی ایسا عقیدہ نہیں ہے جو ہمارے ایمانیات کی کوئی جزو یا ہمارے دین کے رکنوں میں سے کوئی رکن ہو۔ بلکہ صدہا پیش گوئیوں میں سے ایک پیش گوئی ہے جس کو حقیقت اسلام سے کچھ بھی تعلق نہیں۔‘‘ تو دیکھئے مرزاقادیانی کے نزدیک جب یہ مسئلہ ایمانیات سے نہیں تو پھر اس پر اتنا زور کیوں؟
جواب: ۳… اگر حیات وممات مسیح علیہ السلام پر گفتگو کرنی ہے تو مرزاقادیانی بھی مسیح ہونے کا مدعی ہے۔ مسیح علیہ السلام کی حیات پر خوب بحث ہوچکی۔ اب نئے مسیح (معاذ اﷲ) مرزاقادیانی کی حیات وممات پر بحث ہونی چاہئے۔ ہمارے نزدیک اس کی حیات بھی لعنتی تھی اور ممات بھی لعنتی تھی۔
قادیانی سوال:۳۱
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہوں گے۔ جب پہلے تشریف لائے تھے تو نبی تھے۔ اب تشریف لائیں گے تو امتی ہوں گے۔ قیامت کے دن ان کی کیا پوزیشن ہوگی۔ نبی کی یا امتی کی؟ اس لئے کہ اگر قیامت کے روز نبی کی حیثیت سے حشر ہو، تو فوتگی بحیثیت امتی کے ہوئی تھی اور اگر حشر بحیثیت امتی کے ہوا تو وہ آپ کی امت جن کی طرف آپ پہلے نبی بن کر تشریف لائے تھے اور انہوں نے آپ کو نبی مانا تھا وہ کہاں جائیں گے۔ اس لئے کہ حدیث شریف میں ہے کہ قیامت کے دن امتی اپنی نبی کے جھنڈے کے نیچے ہوں گے۔جواب: اس کا بھی جواب ہماری کتابوں میں موجود ہے۔ (الیواقیت والجواہر ج۲ ص۷۳) میں ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا دو دفعہ حشر ہوگا۔ ایک دفعہ بحیثیت نبی کے جھنڈا لے کر اپنی امت کا حساب کرائیں گے۔ دوسری بار رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے کھڑے ہو کر اپنا حساب کتاب پیش کریں گے۔
قادیانی سوال:۳۲
’’ لوکان موسٰی وعیسٰی حیین لما وسعہما الاتباعی (الیواقیت ج۲ ص۲۲) ‘‘ ابن کثیر اور شرح فقہ اکبر مصری نسخہ میں یہ روایت موجود ہے۔ اس سے ثابت ہواکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں۔جواب: ۱… یہ غلط اور مردود قول ہے۔ کسی حدیث کی کتاب میں نہیں ہے۔ آج تک کوئی مرزائی اس کی سند پیش نہیں کر سکا۔ جن تینوں کتابوں کا ذکر کیاگیا ہے ان میں سے کوئی بھی حدیث کی کتاب نہیں۔ یہ حدیثیں دوسروں سے روایت کرتے ہیں۔ اگر یہ حدیث ہوتی تو کسی حدیث کی کتاب میں موجود ہوتی۔
۱… ابن کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ باسند روایت کرتے ہیں مگر انہوں نے بھی اس کو بے سند لکھا ہے۔
۲… یہ کہ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ میں بااسناد صحیحہ متعدد مقامات پر احادیث صحیحہ ونصوص قطعیہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات کے مسئلہ کو بیان کیاگیا ہے۔ یہ دلیل ہے اس بات کی کہ اس بے سند روایت کو نقل کرتے ہوئے ان سے سہو ہوا ہے۔ الیواقیت نے فتوحات مکیہ کا حوالہ دیا ہے۔ اب اگر قادیانیوں میں دیانت نام کی کوئی چیز ہے تو فیصلہ آسان ہے کہ الیواقیت نے جو ماخذ بیان کیا ہے اس کو دیکھ لینا چاہئے۔ سو فتوحات مکیہ میں ’’ لوکان موسٰی حیً ا‘‘ ہے۔ یہ دلیل ہے اس امر کی کہ الیواقیت میں سہو کاتب سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام آگیا ہے۔
اسی طرح شرح فقہ اکبر کے صرف مصری نسخہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام ہے۔ ہندوپاک اور دیگر دنیا بھر کے شرح فقہ اکبر کے نسخوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام نہیں۔
۳… اسی شرح فقہ اکبر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات کا مسئلہ ہے جو دلیل ہے اس امر کی کہ اس نسخہ میں غلطی اور سہو کاتب سے عیسیٰ علیہ السلام کا نام آگیا ہے۔
۴… شرح فقہ اکبر کی اس روایت کا بھی قادیانیوں میں دیانت نام کی کوئی چیز ہو تو آسانی سے فیصلہ ہوسکتا ہے۔ اس لئے کہ شرح فقہ اکبر میں ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ مصری نسخہ کے مطابق ’’ لوکان عیسٰی حیًا لما وسعہ الااتباعی وبینت وجہ ذالک عند قولہ فاذ اخذ اللّٰہ فی شرح شفاء (فقہ اکبر ص۹۹ مصری طبع) لو کان عیسٰی حیًا لما وسعہ الاتباعی ‘‘ کی تشریح ہم نے ’’ فاذا اخذ اللّٰہ ‘‘ کی بحث شرح شفاء میں کر دی ہے۔
اب شرح شفاء کو دیکھ لیتے ہیں کہ اس میں کیا ہے تو (شرح شفاء ج۱ فصل۷) میں آیت: ’’ اذا اخذ اللّٰہ ‘‘ میثاق النّبیین کے تحت لکھا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کو تورات پڑھتے دیکھا تو فرمایا کہ: ’’ لوکان موسٰی حیًا ما وسعہ الا اتباعی ‘‘ (شرح شفاء ج۱ ص۱۱۵ طبع بیروت)
تو مسئلہ واضح ہوگیا کہ مصری نسخہ فقہ اکبر میں ’’ لوکان موسٰ ی‘‘ کی جگہ غلطی اور سہو کاتب سے عیسیٰ لکھا گیا ہے۔ اب ذیل میں حضرت ملا علی قاری کی تصریحات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات پر ملاحظہ ہوں۔
۱… موضوعات کبیر میں جو ۱۲۸۹ھ میں طبع ہوئی تھی۔ حدیث: ’’ لوعاش ابراہیم لکان صدیقًا نبیا ‘‘ پر بحث کرتے ہوئے اس حدیث پر ختم کرتے ہیں۔ ’’لوکان موسٰی حیًا لما وسعہ الا اتباعی‘‘ (ص۶۷)
۲… (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ مطبوعہ مصر ج۱ ص۲۵۱) میں تحریر فرماتے ہیں: ’’ لوکان موسٰی حیً ا‘‘
۳… ’’ فینزل عیسٰی ابن مریم من السماء ‘‘ (مرقاۃ ج۵ ص۱۶۰، مطبوعہ مصر)
۴… ’’ نزول عیسٰی من السماء ‘‘ (فقہ اکبر مطبوعہ مصر ص۹۲، طبع ۱۳۲۳ھ، مطبع مجیدی کانپور ۱۳۴۵ھ)
اسی طرح تفسیر ابن کثیر، الیواقیت، فتوحات مکیہ کے لکھنے والے تمام حضرات کا اسی متذکرہ کتب میں صراحت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات کا ذکر کرنا،اور مرزائیوں کا اسے تسلیم نہ کرنا اور بے سند مردود قول سے استدلال کرنا یہ اس امرکو واضح کرتا ہے کہ صرف اعتراض برائے اعتراض برائے مغالطہ وبرائے شبہ ان کا مقصد ہے۔ اگر دیانت نام کی کوئی چیز ان میں ہوتی تو وہ اس کو پیش نہ کرتے۔
جواب: ۲… اب اصل واقعہ کو ملاحظہ فرمائیں جس سے تمام استدلال کی حقیقت واضح ہو جائے گی۔ ایک دن رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم آئے انہیں کہیں سے تورات کے چند اوراق ملے تھے۔ انہوں نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا تذکرہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منشاء معلوم ہونے سے قبل ان کی تلاوت شروع فرمادی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت مبارک پر یہ گراں گزرا۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم جو رمز شناس نبوت تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا تأثر معلوم کر کے فوراً حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کو ٹوکا۔ فرمایا کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم تجھے تیری ماں روئے کیا تو رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک سے ناراضگی کا اندازہ نہیں کرتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم نے تورات کے اوراق کی تلاوت بند کر دی اور فوراً کہا ’’ رضیت باللّٰہ ربا وباالاسلام دینًا وبمحمدٍ نبیً ا‘‘ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم : ’’ لوکان موسٰی حیًا لما وسعہ الا اتباعی ‘‘ تورات کی بات نہیں آج اگر صاحب تورات حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی زندہ ہوتے تو ان کو بھی میری اتباع کے بغیر چارہ کار نہ ہوتا۔ صحیح روایت یہ ہے۔
(رواہ احمد والبیہقی فی شعب الایمان مشکوٰۃ ص۳۰، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ)
جواب: ۳… موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے جیسا کہ معراج کی رات اتباع کی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں وہ تشریف لائیں گے تو اتباع کریں گے۔ ’’ یحکم بشرعنا لا بشرعہ ‘‘
جواب: ۴… پھر دیکھئے قادیانیوں کی بدبختی کی انتہاء کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔ بدبخت مرزاقادیانی کہتا ہے کہ وہ فوت ہوگئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے۔ مرزاقادیانی کہتا ہے کہ زندہ ہیں۔ حوالہ گزر چکا ہے۔
مرزائی جس روایت کو بیان کرتے ہیں۔ مرزاقادیانی کے حوالہ نے اس کی تردید کر دی۔ پس یہ روایت مرزائیوں کے لئے بھی وجہ استدلال نہیں ہوسکتی۔ اس لئے وہ اس مردود قول سے موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ اس حوالہ میں مرزاقادیانی نے موسیٰ علیہ السلام کی حیات ثابت کر دی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات قرآن وسنت نے بیان کر دی۔ پس مرزائیوں کے لئے یہ مردود قول بھی وجہ استدلال نہ رہا۔
جواب: ۵… اگر یہ روایت صحیح ہوتی تو قرآن وسنت اور اجماع امت کے حوالہ جات کے بعد اس کی توجیہ یہ کی جاتی۔ ’’ لوکان موسٰی وعیسٰی حیین (علی الارض) لما وسعہما الاتباعی ‘‘ غرض کہ کسی بھی طرح سے لیں۔ مرزائیوں میں یہ جس طرح ایمان نہیں ہے اس طرح اس قول میں جان نہیں ہے۔ ( فافہم وکن من الشکرین )
جواب: ۶… تمام طرق اور متابعات اور شواہد دلالت کرتے ہیں کہ اس حدیث میں ذکر عیسیٰ علیہ السلام کی کچھ اصل نہیں ہے اور کتب حدیث میں جہاں مسند روایتیں روایت کے ساتھ نقل کی جاتی ہیں۔ کہیں اس لفظ کا پتہ نہیں۔ صرف موسیٰ علیہ السلام کا ذکر ہے۔ (فتح الباری ج۱۳ ص۲۸۱) ’’ باب قولہ صلی اللہ علیہ وسلم لا تسالوا اہل الکتٰب عن شیئٍ وہو فی المسند ج۳ ص۳۳۸، عن جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم ، واخرجہ ابونعیم عن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم ذکرہ فی الخصائص ج۲ ص۱۸۷ (وکنزالعمال ج۱ ص۲۰۱، حدیث نمبر۱۰۱۰) وحاشیۃ ابی داؤد للمغربی من الملاحم وشرح المواہب وشرح الشفاء للقاری فی مواضع والدر المنثور تحت اٰیۃ المیثاق مسند الدارمی (مشکوٰۃ ص۳۰، باب بالکتاب والسنۃ) ‘‘ پس یہ قطعاً سہو کاتب اور زلّۃ قلم ہے۔