ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
ملکہ کی خدمت پورے طور سے اخلاص، اطاعت اور شکرگزاری کے جوش کو ادا نہیں کر سکے
’’اب میں مناسب نہیں دیکھتا کہ اس عریضہ نیاز کو طول دوں۔ گو میں جانتا ہوں کہ جس قدر میرے دل میں یہ جوش تھا کہ میں اپنے اخلاص اور اطاعت اور شکرگزاری کو حضورقیصرۂ ہند دام ملکہا میں عرض کروں۔ پورے طور پر میں اس جوش کو ادا نہیں کر سکا۔ بلکہ ناچار دعا سے ختم کرتا ہوں… وہ (اﷲتعالیٰ) آسمان پر سے اس محسنہ قیصرہ ہند دام ملکہا کو ہماری طرف سے نیک جزاء دے۔‘‘
(ستارۂ قیصرہ ص۱۲، خزائن ج۱۵ ص۱۲۵)
گورنمنٹ برطانیہ کے مخالف، چور، قزاق اور حرامی ہیں
’’ان لوگوں نے چوروں، قزاقوں اور حرامیوں کی طرح اپنی محسن گورنمنٹ پر حملہ کرنا شروع کیا اور اس کا نام جہاد رکھا۔‘‘
(ازالہ اوہام حصہ اوّل ص۷۲۴، خزائن ج۳ ص۴۹۰)
گورنمنٹ برطانیہ کی مخالفت حرامی اور بدکار آدمی کا کام ہے
’’میں سچ سچ کہتا ہوں کہ محسن (گورنمنٹ برطانیہ) کی بدخواہی کرنا حرامی اور بدکار آدمی کا کام ہے۔‘‘
(شہادۃ القرآن، گورنمنٹ کی توجہ کے لائق ص۳، خزائن ج۶ ص۳۸۰)
2499اسلام کے دو حصے ہیں دوسرا حصہ گورنمنٹ برطانیہ کی اطاعت
’’میں جو باربار ظاہر کرتا ہوں یہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں۔ ایک یہ کہ خداتعالیٰ کی اطاعت کریں۔ دوسرے اس سلطنت کی جس نے امن قائم کیا ہو۔ جس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سایہ میں ہمیں پناہ دی ہو۔ سو وہ سلطنت حکومت برطانیہ ہے۔‘‘
(گورنمنٹ کی توجہ کے لائق ص۳، ملحقہ شہادۃ القرآن، خزائن ج۶ ص۳۸۰)
میں نے ابتداء سے آج تک گورنمنٹ برطانیہ کی بے نظیر خدمت کی ہے
’’میں نے اپنی قلم سے گورنمنٹ کی خیرخواہی میں ابتداء سے آج تک وہ کام کیا ہے جس کی نظیر گورنمنٹ کے ہاتھ میں ایک بھی نہیں ہوگی۔‘‘
(انجام آتھم ص۶۸، خزائن ج۱۱ ص۶۸)
’’اور میں نے ہزارہا روپیہ کے صرف سے کتابیں تالیف کر کے ان میں جابجا اس بات پر زور دیا ہے کہ مسلمانوں کو اس گورنمنٹ کی سچی خیرخواہی چاہئے اور رعایا ہو کر بغاوت کا خیال بھی دل میں لانا نہایت درجہ کی بدذاتی ہے۔‘‘
(انجام آتھم ص۶۸، خزائن ج۱۱ ص۶۸)
آپ حوالہ جات مذکورہ کو باربار پڑھیں اور انصاف سے کہیں کہ جو شخص یہ کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم کی پوری روحانیت مجھ میں اتر آئی ہے اور کبھی کہتا ہے میں عین محمد( ﷺ ) ہوں، میں نبی اور رسول ہوں۔ پھر یہ کافر حکومت کی تعریف میں 2500زمین آسمان کے قلابے ملائے اور باربار ملکہ لنڈن کے لئے دعائیں کرے اور دام اقبالہا کہہ کہہ کر اس کی زبان خشک ہو جائے اور آرزو کرے کہ ایک لفظ شاہانہ ہی ملکہ اس کو لکھ کر بھیج دے۔ اپنے نور کے نزول کو ملکہ کے نورانی عہد کی کشش قرار دے انگریز کی حکومت کو خدا کی رحمت کہے اور تمام ملکوں میں اس کی خیرخواہی کے لئے اشتہارات بھیجے۔ کتنے افسوس اور شرم کی بات ہے۔ ایسے آدمی کو عام لوگ انگریز کا ٹوڈی کہتے ہیں۔ کاش کہ یہ اپنے کو مسلمان کہہ کر مسلمانوں کو ذلیل ورسوا نہ کرتا۔ ناظرین ان عبارتوں کو پڑھ کر خود سوچیں اور عبرت حاصل کریں۔ کیا خدا کے پیغمبر ایسے ہی ہوا کرتے ہیں؟
----------
مولانا عبدالحکیم: جناب والا! مجھے بلڈپریشر کی تکلیف ہورہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ کچھ وقفہ کریں تاکہ میں کچھ دوائی کھالوں۔
جناب قائمقام چیئرمین: آپ پانچ منٹ یہاں بیٹھے رہیں۔
مولانا عبدالحکیم: بیٹھ کر پڑھ لوں؟
جناب قائمقام چیئرمین: ہاؤس کی اجازت سے آپ بیٹھ کر پڑھ لیں۔
آوازیں: بیٹھ کر پڑھ لیں۔
(اس مرحلے پر مولانا عبدالحکیم بیٹھ گئے اور پڑھنا شروع کیا)
----------
2501مولانا عبدالحکیم: پہلا مسئلہ!
2502ناظرین کرام جیسا کہ ہم نے ’’دومسئلے‘‘ کے زیرعنوان لکھا تھا کہ مرزاناصر احمد صاحب کے بیان کے بعد اب ساری بحث ان دو مسئلوں پر ہوگی۔
۱… آیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں یا زندہ آسمان پر موجود ہیں اور آخری زمانہ میں دوبارہ نازل ہوں گے۔
۲… اگر بالفرض وہ فوت ہوچکے ہیں تو کیا مرزاغلام احمد قادیانی وہی آنے والا مسیح ابن مریم ہوسکتا ہے۔ جس کی خبر سینکڑوں حدیثوں میں موجود ہے؟
چنانچہ مسئلہ نمبر۲ پر کافی بحث کر دی گئی۔ جس سے یہ ثابت ہوگیا کہ مرزاغلام احمد قادیانی قطعاً آنے والا مسیح ہی نہیں بلکہ وہ مسلمان بھی ثابت نہیں ہوسکتا۔ اب ہم مسئلہ نمبر۱ یعنی حیات عیسیٰ علیہ السلام پر بحث کرتے ہیں۔
پہلے پہل جو سائنس کا چرچا ہوا اور انگریزوں کی غلامی کا طوق بھی گردنوں میں تھا اور ہرایرے غیرے کو سائنس کے نام سے اسلامی عقائد پر اعتراض کر کے اپنے کو روشن خیال ثابت کرنے کا شوق تھا۔ اس وقت قیامت کے دن ہاتھ پاؤں کی گواہی بھی قابل اعتراض سمجھی جاتی تھی۔ دور سے سننا بھی سمجھ نہ آتا تھا۔ وزن اعمال پر بھی بحث تھی۔ جسم کے ساتھ معراج اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی سے انکار تھا اور ان کے معجزات، مردوں کو زندہ اور بیماروں کو اچھا کرنے پر بھی اعتراض تھا۔ حتیٰ کہ آسمانوں اور فرشتوں کا وجود بھی محل نظر سمجھا جاتا تھا۔ مگر جوں جوں جدید فلسفے نے ترقی کی تمام شبہات خود بخود دور ہوتے چلے گئے۔
گراموفون کی سوئی اور پلیٹ نے جو انسانی دماغ کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ہاتھ پاؤں کی گواہی کو سمجھا دیا جس کا لوہے کی سوئی سے زیادہ انسانی دماغ سے تعلق ہے۔ ریڈیو کی ایجاد نے بھی بہت سے مسائل حل کر دئیے۔ فلموں نے تمام انسانی اعمال کے 2503محفوظ ہونے کا مسئلہ بھی سمجھادیا۔ ڈاکٹروں نے مردہ مینڈک کو زندہ کر کے بھی اپنا کمال دکھایا۔ چاند پر جانے اور مریخ کو راکٹ پہنچانے نے، اوپر جانے کی بات بھی سمجھا دی۔
ایسے ایسے اجرام (جسموں) کے ثبوت نے جو ہم سے اربوں کھربوں میل سے بھی زیادہ دور ہیں اور تمام کے تمام باقاعدہ حرکت کرتے اور مقررہ راستوں پر چلتے اور باہم ٹکراتے بھی نہیں، نے تمام ان باتوں کو معقول ثابت کر دیا جو غیر معقول معلوم ہو رہی تھیں اور ذرۂ بے مقدار کے تجربے سے روشنی، کڑک اور حرارت کی زبردست پیدائش نے تو طاقت کا معیار ہی بدل دیا۔ ہوائی جہاز کی اڑان نے تخت سلیمانی علیہ السلام کا مسئلہ بھی حل کر دیا۔ اس دریافت نے کہ درخت ہوا میں سے صرف اکسیجن جدا کر کے اپنی غذا بناتے ہیں۔ ہواؤں اور عناصر کے جدا کرنے اور ملانے کا فلسفہ بلکہ تجربہ بھی بتادیا۔ غرضیکہ ایک ناچیز انسان کی مادی توجہات سے وہ کام دیکھے گئے جن کو سو سال پہلے کوئی نہ مانتا۔ حالانکہ یہ تمام امور مادیات سے تعلق رکھتے ہیں اور مادیات سے تعلق رکھنے والی بجلی کا یہ عالم ہے کہ لوہے کی بیس ہزار میل موٹی چادر سے وہ آن کی آن میں گزرسکتی ہے اور روشنی جو اجسام سے تعلق رکھتی ہے وہ منٹوں میں کروڑوں میل کی رفتار سے چلتی ہے۔ اب آپ اس خدائے برتر کی طاقت کا کیا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ جس نے ان سب میں یہ یہ قوتیں رکھی ہیں۔ پھر ان قوتوں کو صرف دریافت کیاگیا ہے۔ ان کی حقیقت کسی کو معلوم نہیں ہوسکتی۔ پھر جو رسول اسی خدائے برتر سے سن کر اور معلوم کر کے فرماتے ہیں ان کی بات میں شبہ کرنا کسی صحیح الفطرۃ آدمی کا کام نہیں ہوسکتا۔
دراصل پہلے کسی کام کا امکان دیکھا جائے آیا ایسا ہونا ممکن ہے؟ گر ممکن ہے تو پھر پاک اور سچے پیغمبروں کی اطلاع پر یقین کیوں نہ کیا جائے جو لاکھ سے زیادہ ہوکر بھی سب متفق ہیں؟
لہٰذا اب بحث صرف اس بات پر کرنی ہے کہ خدا اور اس کے رسول ﷺ نے اس بارے میں کیا فرمایا۔ اس میں تو بحث نہیں رہی کہ ایسا ہوسکتا ہے یا نہیں اور ہم کو بحیثیت مسلمان ہونے کے اس بات کو دیکھنا ہے کہ آیا قرآن وحدیث نے یہ بتایا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودی سولی دے رہے تھے۔ مگر اﷲتعالیٰ نے انہیں اٹھا کر آسمان پر لے جاکر بچا لیا اور قرب قیامت کو پھر نازل کر کے یہود ونصاریٰ کو راہ راست پر لائیں گے اور اسلام کو ساری دنیا میں پھیلائیں گے۔ اگرقرآن وحدیث سے یہ بات ثابت ہو جائے تو پھر بحیثیت مسلمان کے ہم کو انکار کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اگر یہ بات ثابت ہو جائے تو وہ جھوٹے لوگ جو مسیح کے نام سے آتے ہیں یا آئے ہیں۔ سب کذاب اور جھوٹے ثابت ہو جائیں گے۔