• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قومی اسمبلی میں ہونے والی اکیس دن کی مکمل کاروائی

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مسلمانوں سے ہر چیز الگ)
جناب ڈپٹی چیئرمین! میں یہ گزارش کروں گا کہ جب ان لوگوں نے مذہب کے علاوہ معاشرت میں بھی، سوسائٹی میں بھی اپنا ایک الگ خول بنالیا، جب وہ ہمارے معاشرے میں مل جل کر نہیں رہنا چاہتے، جب رشتے ناطے ہمارے ساتھ نہیں کرتے، جب وہ ہماری عبادت میں شریک نہیں ہوتے تو پھر ان کا ہمارے مذہب کے ساتھ منسلک رہنے کا کیا مطلب ہے۔ جناب ڈپٹی چیئرمین! جب انہوں نے اپنا عدالتی نظام الگ کر لیا، جب انہوں نے اپنی مسجد اقصیٰ الگ بنالی، جب انہوں نے اپنی جنت البقیع الگ بنالی، جب انہوں نے اپنا قصر خلافت الگ تعمیر کر لیا، تو پھر وہ کہاں کے مسلمان ہیں۔ ان کے فرقے کا پھر ہمارے فرقے سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔ جناب ڈپٹی چیئرمین! انہوں نے ایک متوازی گورنمنٹ بھی ربوہ کے اندر قائم کی ہوئی ہے۔ ربوہ شہر کو انہوں نے Closed City (بند شہر) بنایا ہوا ہے۔ دوسرے مسلمانوں کو وہاں کاروبار کرنے کی اجازت نہیں، نہ ملازمت کرنے کی اور نہ جائیداد حاصل کرنے کی اجازت ہے۔ ان لوگوں نے اپنے طرز عمل، اپنے عقیدے اور اپنے سیاسی نظریات سے اپنے آپ کو خود ہم سے الگ ایک اقلیت قرار دے لیا ہے۔ اگر ان دونوں فرقوں کے اس اقدام کو ہم ایک آئینی اور قانونی شکل دے دیں تو میں سمجھتا ہوں کہ اس میں کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوگی…
Madam Deputy Chairman: Try to conclude.
(محترمہ ڈپٹی چیئرمین: ختم کرنے کی کوشش کریں)
چوہدری جہانگیر علی: … اور قومی اسمبلی اپنے اختیارات سے قطعاً تجاوز نہیں کرے گی۔ جناب ڈپٹی چیئرمین! کل چیئرمین صاحب نے یہ فرمایا تھا کہ اپنی تقریر کے علاوہ فاضل 2871ممبران کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ یہ تجویز پیش کریں کہ اس کا حل ان کی نظر میں کیا ہے۔ مختلف قراردادیں اس ہاؤس میں پیش ہوئی ہیں۔ کسی قرارداد سے میرا اختلاف نہیں ہے۔ بنیادی اور اصولی طور پر تمام قراردادوں کی روح صرف ایک ہے۔ صرف ان کے فروعات میں یا تفاصیل میں جاکر کچھ تھوڑا سا فرق پڑ جاتا ہے۔ تومیں یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ ہمیں اس قسم کا راستہ اختیار کرنا چاہئے جس سے نبی سازی کی بدعت کا ہمیشہ کے لئے قلع قمع ہو جائے۔ چاہے کوئی قادیانی ہو، چاہے کوئی مرزائی ہو، چاہے کوئی لاہوری ہو، چاہے کوئی ربوی ہو اور چاہے کوئی آنے والا ایسا فریق ہو جو خدانخواستہ آنے والے کل کو اپنی ایک الگ نبوت کا اعلان کر دے۔ تو ان سب باتوں کا اس ایک فیصلے سے سدباب اور علاج کر دینا چاہئے۔ اگر آج ہم مرزاغلام احمد کے پیروکاروں کو غیرمسلم اقلیتی فرقہ قرار دے دیتے ہیں تو اگر کل کو مرزاناصر احمد نے اپنی نبوت کا اعلان کر دیا تو کیا اس کا یہ مطلب ہوگا کہ پھر ملک میں خون خرابہ ہوگا، پھر یہاں پر بحرانی صورت پیدا ہوگی۔ پھر یہ اسمبلی بیٹھے گی، مہینوں لاکھوں روپیہ اس بات پر صرف کر دے گی اور ازسرنو اس بات کا جائزہ لے گی کہ کیا آنے والا نبی اور اس کے پیروکار بھی مسلمان ہیں یا نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اتمام حجت کر دینا چاہئے اور اس قسم کی گنجائش نہیں چھوڑنی چاہئے کہ آئندہ آنے والا کوئی فرضی جعلی نبی پر اس قسم کا شوشہ دین اسلام میں چھوڑے۔ جناب ڈپٹی چیئرمین! قادیانی لاہوری اور ربوی فرقوں کے لوگ جس قسم کی نبوت کا دعویٰ کرتے ہیں اس قسم کی نبوت کے متعلق آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ میرے امت میں آنے والے سالوں میں اور صدیوں میں کم ازکم تیس کذاب جھوٹی نبوت کا دعویٰ کرنے والے پیدا ہوں گے۔
آوازیں: تیس، تیس۔
چوہدری جہانگیر علی: تیس، میں تیس ہی کہہ رہا ہوں۔
محترمہ قائمقام چیئرمین: یہ تو ہوگیا ہے۔
2872چوہدری جہانگیر علی: میں یہ گزارش کرتا ہوں کہ اگر ہم جائزہ لیں تو ابھی تک تو پندرہ بھی پیدا نہیں ہوئے اور اگر آنے والے زمانے میں پندرہ اور کذاب پیدا ہوں تو ہمیں آج ہی ان کا حتمی فیصلہ کر دینا چاہئے۔
محترمہ قائمقام چیئرمین: جی شکریہ!
چوہدری جہانگیر علی: اس لئے میں گزارش کروں گا کہ میں یہ تجویز کرتا ہوں، جیسا کہ کل چیئرمین صاحب نے حکم دیا تھا۔ میں چھ منٹ اور لوں گا زیادہ وقت نہیں لوں گا۔
محترمہ قائمقام چیئرمین: ایک گھنٹہ تو ہوگیا ہے۔
چوہدری جہانگیر علی: میں دستور میں ترمیم کی مندرجہ ذیل تجویز پیش کرتا ہوں:
"In order to determine the status of Quadianis, Ahmadis and those who are non- believers in the faith of Khatam-i-Nabuwwat, the Constitution be amended in the following manner, namely:
1- That in the Third Schedule of the Constitution, in para 1, the words "of any kind" be added at the end of fifth line after the word Prophet."
(قادیانیوں، احمدیوں اور دوسرے لوگوں جو عقیدۂ ختم نبوت پر ایمان نہیں رکھتے، کی حیثیت کو متعین کرنے کے لئے آئین میں درج ذیل طریقے سے ترمیم کی جائے، یعنی:
۱… دستور پاکستان کے تیسرے شیڈول کے پیرانمبر۱ میں الفاظ کسی ’’قسم کا‘‘ پانچویں سطر کے آخر پر لفظ ’’نبی‘‘ کے بعد اضافہ کر دیا جائے)
اور میری اس ترمیم کے بعد اس کا مطلب یہ ہو جائے گا۔
"I.... do solemnly swear that I am a Muslim and believe in the Unity and Oneness of Almighty Allah, the Books of Allah, the Holy Quran being the last of them, the Prophethood of Muhammad (peace be upon him) as the last of the Prophets and that there can be no Prophet of any kind after him, the day of Judgement, and all the requirements and teachings of the Holy Quran and Sunnah."
(میں… سچے دل سے قسم اٹھاتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں اور اﷲتعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان رکھتا ہوں اور اﷲ کی کتابوں پر، قرآن پاک کے آخری کتاب ہونے پر، حضرت محمد ﷺ کی نبوت پر، آپ ﷺ کے آخری نبی ہونے پر اور اس پر کہ آپ ﷺ کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آئے گا۔ قیامت کے دن پر، اور قرآ ن پاک اور سنت کی تمام تعلیمات اور ضروریات پر ایمان رکھتا ہوں)
اور اس کے بعدمیری دوسری گزارش یہ ہے کہ:
2- 2873In Article 2 of the Constitution of Pakistan, the existing clause may be numbered as clause (1) and the following be added as clause (2):
(۲… دستور پاکستان کے آرٹیکل نمبر۲ میں موجودہ شق کو شق نمبر۱ شمار کیا جائے اور مندرجہ ذیل کا شق نمبر۲ کے طور پر اضافہ کیا جائے)
کلاز نمبر۱ یہ ہے:
"Islam shall be the State religion of Pakistan."
(اسلام پاکستان کا سرکاری مذہب ہوگا)
اس کے بعد پھر یہ کہاجائے:
"A person who has a faith different from that laid down in the Third Schedule of this Constitution made for the oath of the President and the Prime Minister of Pakistan shall be, considered a non- Mulslim, and the rights and obligations of the non-Muslims shall be determined by law."
(ایک شخص جو دستور کے تیسرے شیڈول، جو پاکستان کے صدر مملکت اور وزیراعظم کے حلف کے لئے تشکیل دیاگیا ہے، میں درج عقیدے سے مختلف عقیدہ رکھتا ہے، غیرمسلم سمجھا جائے گا اور غیرمسلموں کے حقوق وفرائض قانون سے متعین ہوں گے)
اور تیسری بات یہ ہوگی کہ:
3- In Clause (3) of Article 106 of the Constitution of the Islamic Republic of Pakistan, in the Sixth line, the word "and" be substituted by a comma, and the following be added between the words "Parsi" and "communities", "and other minorities."
(۳… اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے آرٹیکل نمبر۱۰۶ کی شق نمبر۳ میں چھٹی سطر پر لفظ ’’اور‘‘ کی جگہ سکتہ (،) ڈال دیا جائے اور الفاظ ’’پارسی‘‘ اور ’’گروہوں‘‘ کے درمیان میں الفاظ ’’اور دیگر گروہ‘‘ کا اضافہ کر دیا جائے)
ان خیالات کے ساتھ…
----------
[At this stage Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi vacated the Chair which was occupied by Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali).]
(اس موقع پر ڈاکٹر بیگم اشرف خاتون عباسی نے کرسی صدارت کو چھوڑا اور چیئرمین (جناب صاحبزادہ فاروق علی) نے ان کی جگہ لی)
----------
چوہدری جہانگیر علی: جناب سپیکر! میں جناب چیئرمین صاحب کا جنہوں نے کمیٹی کی کارروائی کے دوران اس ہاؤس کے ڈیکورم کو بہت اچھی طرح سے نبھانے کی کوشش کی، اور 2874جناب اٹارنی جنرل کا جنہوں نے اتنی اچھی طرح سے گواہوں کو اپنی گرفت میں رکھا کہ جو بات وہ بتانا نہیں چاہتے تھے وہ بھی ان سے اگلوا کر چھوڑی، مبارک باد پیش کرتا ہوں اور میں آخر میں پھر اپنے اس دعوے کو دھراتا ہوں کہ یہ فرقہ احمدیت قطعاً مسلمان نہیں ہے۔ اس کی دونوں جماعتوں کو غیرمسلم قرار دیا جائے اور جیسا کہ میں نے دستور میں ترمیم کے متعلق ایک ریزولیوشن پیش کیا ہے۔ اس کو منظور فرمایا جائے اور غیرمسلم اقلیتوں کے حقوق اور ان کی ذمہ داریوں کو، ان کے Rights and Obligations (حقوق وفرائض) کو متعین کرنے کے لئے ایک الگ مرکزی قانون بنایا جائے۔
جناب چیئرمین: شکریہ! مولانا ظفر احمد انصاری۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب مولانا ظفر احمد انصاری کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پرخطاب)
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: جناب والا! مجھے افسوس ہے کہ میرے بہت سے کاغذات کسی اور صاحب کے پاس رہ گئے اور میں جس طرح اس کو پیش کرنا چاہتا تھا۔ اس میں تھوڑی دشواری ہو گی۔ تاہم چونکہ سابقہ بیانات اور تقریروں میں بہت سی باتیں کافی حد تک واضح ہوگئی ہیں۔ خصوصاً جو مشترکہ بیان ہے۔ بہت سے آدمیوں کے دستخط سے، اس میں دینی پہلو اس مسئلے کا میرے نزدیک پوری طرح واضح ہو گیا ہے۔ اگرچہ مجھے مصروفیت اور طبیعت کی خرابی کے باعث ایک ایک لفظ پڑھنے کا موقع یا اس کے حوالہ جات کو چیک کرنے کا موقع نہیں ملا تاہم یہ دینی حصہ میںنے دیکھا ہے، میرے خیال میں یہ کافی ہے۔ اب میں اس مسئلے کی نوعیت کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزاقادیانی کو اختیار ہے، مگر قومی اسمبلی کو نہیں؟)

محضرنامے میں دونوں طرف سے اس طرح کے سوال کئے گئے ہیں کہ کیا پاکستان کی نیشنل اسمبلی کو یہ اختیار ہے یا نہیں ہے۔ یہ نہایت اہانت آمیز اور اشتعال انگیز سوال ہے، خصوصاً ایسے لوگوں کی طرف سے کہ جن کے نزدیک… میں یہ الفاظ استعمال نہیں کرنا چاہتا تھا… لیکن انگریزوں کا ایک خود کاشتہ پودا جو خود اقبالی طور پر انگریزوں کی مخبری کرتا رہا۔ ایک کچہری کا اہلمد، 2875اس کو تو یہ اختیار ہے کہ وہ ۷۵کروڑ آدمیوں کو کافر قرار دے دے، اس کے بیٹے کو یہ اختیار ہے کہ وہ دنیا کے ۷۵کروڑ مسلمانوں کو کافر قرار دے دے، اور یہ چھ کروڑ مسلمانان پاکستان کی نمائندہ اسمبلی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ اپنے رائے دہندگان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اسے قانونی شکل دے دے۔ میرے پاس، شاید اور ممبران کے پاس بھی بہت سے خطوط ایسے آئے ہوں گے۔ جن میں یہ کہاگیا ہے کہ یہ بڑی خطرناک بات ہے کہ آپ اسمبلی کو دینی معاملات میں فیصلہ کرنے کا حق دیتے ہیں کہ کون مسلمان ہے، کون مسلمان نہیں ہے؟ کل وہ کہیں گے سود جائز ہے، نہیں ہے جائز۔ حالانکہ میرے نزدیک مسئلے کی نوعیت یہ نہیں ہے۔ میں بھی اسمبلی کو دارالافتاء کی حیثیت دینے کے لئے تیار نہیں ہوں اور نہ یہ اسمبلی ایسے ارکان پر مشتمل ہے کہ جنہیں فتویٰ دینے کا مجاز ٹھہرایا جائے۔ لیکن یہاں فتویٰ دینے کی بات نہیں ہے۔ ہمارے فتویٰ دینے نہ دینے سے اس مسئلے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اگر آج ہم کہہ دیں ہم آج کہہ رہے ہیں کہ ان کو غیرمسلم اقلیت قرار دینا چاہئے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آج تک وہ غیرمسلم نہیں تھے، مسلمان تھے۔ پاکستان کے سارے مسلمان انہیں غیرمسلم سمجھتے رہے۔ وہ ہم کو غیرمسلم سمجھتے رہے اور عالم اسلام جیسے جیسے باخبر ہوتا جارہا ہے وہ ان کو غیرمسلم سمجھ رہا ہے، اور یہ تو پہلے ہی دن سے سب کو غیرمسلم سمجھ رہے تھے۔ بات صرف اتنی ہے کہ عوام جس چیز کو اپنے ایمان کا جزو سمجھتے تھے۔ حالات نے اس کو اتنی اہمیت دے دی کہ وہ اپنے نمائندوں سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کو دستوری اور قانونی شکل دے دی جائے۔ صرف اتنی بات ہے۔ اپنے دستور میں، قرارداد مقاصد میں ہم نے یہ کہا کہ دنیا کی حاکمیت صرف اﷲ وحدہ، کے لئے ہے تو ایسا نہیں ہے کہ ہم نے وہ حاکمیت دی ہے۔ نعوذ باﷲ! وہ تو تھی ہی، لیکن ہم نے ایک نظریاتی مملکت کی حیثیت سے اسے مناسب سمجھا، ضروری سمجھا کہ ہم اس کو اپنے دستور میں بہت ہی نمایاں طور پر جگہ دیں۔ تو ہم یہاں کوئی فتویٰ 2876دے رہے ہیں۔ بلکہ ایک مسلمہ اور ثابت شدہ حیثیت جو مسلمانان پاکستان اور مسلمانان عالم کے نزدیک بالکل معین ہے۔ قطعی ہے اور اس کا اس لئے قانونی اور دستوری طور پر اعتراف کرنا ہے اور وہ حالات نے اس لئے ناگزیر کر دیا ہے کہ رفتہ رفتہ پیچیدگیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ حالات اس قدر خراب ہوچکے ہیں کہ خود ملک کی سالمیت کو اور اس کے مفادات کو شدید خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔
اس مسئلے کا جو حل عام طور پر اس ہاؤس میں تمام لوگوں نے اور اس ریزولیوشن میں جس میں میرے بھی دستخط ہیں۔ ہم نے تجویز کیا ہے وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے… جیسے یہ مسئلہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے تاریخ میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں اس طرح کا مسئلہ اس ماحول میں کبھی عالم اسلام میں پیش نہیں آیا۔ یہ نہیں ہے کہ کذاب نہیں اٹھے۔ وہ تو شروع ہی سے آتے رہے ہیں۔ لیکن ہوا یہ کہ جیسے ہی اس طرح کا کوئی فتنہ نمودار ہوا اسے پنپنے نہیں دیا گیا۔ یہاں یہ صورت ہوئی کہ مسلمانوں کی عین بیچارگی اور محکومی کے زمانے میں انگریزوں نے یہ خود کاشتہ پودا لگایا۔ مسلمان اس پر قادر نہیں تھے کہ اس فتنے کو اسی وقت ختم کرسکتے۔ وہ اس کی آبیاری کرتے رہے اور یہ پودا بڑھتا رہا۔ پھلتا رہا، پھولتا رہا۔ پاکستان بننے کے بعد اس کی مسلسل کوشش رہیں، لیکن چونکہ انگریزوں کے زمانے میں وہ اس حد تک قابو یافتہ ہوچکے تھے اور پاکستان بننے کے بعد اس مملکت کو شاید ایک دن بھی چین سے رہنا نصیب نہیں ہوا۔ مسائل پہ مسائل آتے رہے۔ اس کے باوجود مسلمانوں نے متعدد بار اس کی کوشش کی۔ اب یہ فتنہ اس طرح نمایاں ہوکر ابھرا ہے کہ بہرحال حل کرنا ہے۔ اس کا منفرد ہونا اس اعتبار سے کہ ویسے تو مسیلمہ کذاب کے وقت سے لے کر اور بڑے بڑے کذابین جو تھے ان میں پچھلے دور میں بھی پچھلی صدی میں انہی کے تقریباً ہم عصروں میں علی محمد باب اور بہاء اﷲ بھی ابھرے۔ لیکن تھوڑے دنوں کے بعد انہوں نے اتنی دیانتداری کا ثبوت دیا کہ وہ اپنے سارے خدائی کے، پیغمبری کے، سارے دعوے کرنے کے بعد انہوںنے یہ کہہ دیا کہ ہم مسلمان نہیں ہیں۔ ان سے ایک طرح کا جھگڑا ختم ہوگیا۔ 2877ہمارے یہاں یہ مصیبت ہے کہ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کے قلعے میں نقب زنی کی کوشش کی جارہی ہے اور وہ مسلسل ہوتی جارہی ہے۔
تو اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہمیں اس مسئلے کو حل کرنا ہے اور اس مسئلہ کا حل بھی جو ہم نے تجویز کیا ہے اور ہاؤس کا سنس (Sense) بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ وہ بھی اپنے اندر ایک انفرادیت رکھتا ہے۔ اگر اس میں کوئی غلطی ہے تو وہ فیاضی کی جانب غلطی ہے، رواداری کی جانب غلطی ہوسکتی ہے۔ کوئی ملت، کوئی قوم، کوئی امت اس کو برداشت نہیں کر سکتی کہ اس کے نبی کا، اس کے پیشوا کا اس طرح استخفاف کیا جائے اور اس طرح کی تذلیل کی جائے، نعوذ باﷲ! توہین کی جائے اور ایک ایسی مملکت جو کروڑوں انسانوں کی قربانی کے بعد حاصل ہوئی ہے۔ اس میں وہ سرنگ لگاتے رہے، اس کو نیست ونابود کرنے کی فکر کرتے رہے اور ہم صرف یہ تجویز کریں کہ انہیں غیرمسلم اقلیت قرار دے دیا جائے۔ جس کا مطالبہ یہ خود کرتے رہے اور اپنے طرز عمل سے، جیسے ابھی میرے پہلے فاضل مقرر نے فرمایا ہے۔ وہ خود اپنے طرز عمل سے یہ ثابت کرتے رہے کہ ہمارے اور ان کے درمیان کوئی چیز مشترک نہیں ہے۔ لیکن پھر کیوں یہ سیاسی حیثیت سے ایک یونٹ ہمارے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ اس کی ایک توضیح علامہ اقبال نے اپنے معرکتہ الاراء مضمون میں یہ کی تھی کہ ابھی ان کی تعداد اتنی نہیں ہے کہ یہ اپنے عزائم کو پورا کر سکیں۔ یہ ۱۹۳۴ء کی بات ہے۔ ابھی ان کی اتنی تعداد نہیں کہ یہ اسمبلی میں ایک سیٹ حاصل کر سکیں۔ اس لئے یہ اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں اور اس دوران میں رفتہ رفتہ… انگریز کا مفاد تو تھا ہی کہ عالم اسلام کو پارہ پارہ کیا جائے۔ جیسے جیسے ہندوستان کی آزادی کی تحریک آگے بڑھتی گئی اور ہندوؤں اور مسلمانوں کی آویزش سامنے آتی گئی، ہندوؤں کا مفاد بھی اسی سے وابستہ ہو گیا کہ مسلمانوں کا ذہن اس مرکزیت کی طرف سے ہٹا دیا جائے اور یہاں جو ایک نیا کعبہ بن رہا ہے۔ نیا مکہ مدینہ بن رہا ہے۔ اس پر مرکوز کر دی جائے مسلمانوںکی نظر، تاکہ عرب سے، عالم اسلام سے، مکہ مدینہ سے، پوری 2878برادری سے ان کا سلسلہ منقطع ہو جائے۔ چنانچہ جیسا کہ اس متفقہ جواب میں ڈاکٹر شنکر داس کا مضمون شائع ہوا ہے اور اس کو میں دھرانا نہیں چاہتا۔ لیکن اس کا ماحصل یہ ہے کہ غیرمنقسم ہندوستان کے دور میں وہ لکھاگیا تھا کہ یہاں مسلمانوں کو ٹھیک کرنے کی ایک ہی شکل ہے، اور وہ یہ ہے کہ مرزائیت کو فروغ دیا جائے۔ جیسے جیسے اسے فروغ حاصل ہوگا۔ مسلمانوں کے اندر وہ بین الاسلامی اور بین الملّی ذہنیت ختم ہوتی جائے گی اور وہ یہ تصور کرنے لگیں گے کہ ہمارا مکہ مدینہ، ہمارا کعبہ سب کچھ یہیں ہے، اور اسی رخ پر کام ہوتا رہا۔
اب صورتحال یہ ہے اور اس کا انہوں نے خود اعتراف کیا ہے، مرزاغلام احمد صاحب نے، اور یہ اقتباسات چونکہ آگئے ہیں اس لئے میں ان کو دھرانا نہیں چاہتا کہ: ’’ہمارے اور غیراحمدیوں کے درمیان‘‘ اور غیراحمدیوں سے مراد غیرمسلم ہوتے ہیں ان کے ہاں، کوئی فروعی اختلاف نہیں ہے۔ بلکہ ہمارا خدا، ہمارا رسول، ہمارا قرآن، ہماری نماز، ہمارا حج، ہر چیز جدا ہے۔ شادی، غمی، کسی چیز میں ہمیں شرکت نہیں کرنی ہے۔ یہ اقتباسات چونکہ بہت سے دوستوں کی تقریروں اور بیانات میں بھی آگئے ہیں اور سوال وجواب کے دوران میں بھی آگئے ہیں۔ اس لئے میں ان اقتباسات کو نہیں پڑھتا۔ تو یہ صورت چل رہی ہے۔ یہاں تک کہ قرآن کریم کے بارے میں اﷲ کا تصور تو بہرحال ہمارے ہاں جو ہے اس کے ہوتے ہوئے نہ کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ میں عین خدا ہوگیا اور میں نے قضا وقدر کے احکام پر دستخط کردئیے۔ یا یہ کہ خدا مجھ سے ہے۔ میں خدا سے ہوں، میں خدا کا بیٹا ہوں وغیرہ وغیرہ۔ بہت سی چیزیں ہیں۔ رسول کا جہاں تک تعلق ہے یہ اسلام کا متفقہ عقیدہ ہے کہ رسول اﷲ ﷺ پر سلسلہ نبوت ختم ہوا۔ وحی منقطع ہوگئی۔ جبرائیل کا آنا ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا۔ لیکن انکے نزدیک جو رسول کا تصور ہے وہ ان تمام سوال وجواب کے دوران آچکا ہے اور اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ مسلمانوں کے تصور نبی اور تصور رسول سے۔ جہاں تک خدا کا تصور ہے سارے مذاہب اس میں مشترک ہیں۔ لیکن امت کی تشکیل ہوتی ہے نبی 2879کے گرد۔ جتنے نبی ہیں اتنی امتیں ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کی الگ امت ہے۔ مرزاغلام احمد کی ایک الگ امت ہے اور ایک عرصہ تک وہ اسے چھپاتے رہے۔ لیکن پھر انہوں نے اس کا اپنی تحریروں میں اظہار بھی شروع کر دیا کہ جو شخص اپنی امت کو کچھ قوانین دے، اوامر ونواہی دے، تو کئی اقتباسات ایسے ہیں جو اس میں شامل ہوچکے ہیں۔ جس میں انہوں نے اپنے آپ کو ایک الگ امت قرار دیا۔
اس طرح مسلک اور مکتب فکرکا اختلاف تو مسلمان امت میں ہے۔ لیکن جہاں تک دین کا تعلق ہے دین سب کے نزدیک ایک ہے اور وہ اسلام ہے اور قرآن کریم کی آیت کی رو سے ’’ان الدین عند اﷲ الاسلام‘‘ اﷲتعالیٰ کی طرف سے دین جو ہے وہ اسلام ہے۔ لیکن مرزاغلام احمد صاحب کا دعویٰ ہے کہ جو وہ دین لے کر آئے ہیں۔ ’’دین‘‘ کا لفظ استعمال کیا… جو دین وہ لے کر آئے ہیں، اﷲ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ اس کو فروغ دے گا۔ اس طرح قرآن کریم کے متعلق، دین کے متعلق، ان کا اقتباس یہ ہے کہ: ’’اﷲتعالیٰ نے اس آخری صداقت کو قادیان کے ویرانے میں نمودار کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو فارسی النسل ہیں اس اہم کام کے لئے منتخب فرمایا۔ میں تیرے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔ زور آور حملہ اوروں سے تیری تائید کراؤں گا اور جو دین تو لے کر آیا ہے اسے تمام دیگر ادیان پر بذریعہ دلائل غالب کروں گا اور اس کا غلبہ دنیا کے آخر تک قائم رکھوں گا۔‘‘ یہ تو دین ہے۔، پھر آگے فرماتے ہیں۔ ’’پہلا مسیح صرف مسیح تھا۔ اس لئے اس کی امت گمراہ ہوگئی اور موسوی سلسلے کا خاتمہ ہوا۔ اگر میں بھی صرف مسیح ہوتا تو ایسا ہی ہوتا۔ لیکن میں مہدی اور محمد ﷺ کا بروز بھی ہوں۔ اس لئے میری امت کے دو حصے ہوں گے۔ ایک وہ جو مسیحیت کا رنگ اختیار کریں گے وہ تباہ ہو جائیں گے اور دوسرے وہ جو مہدوی رنگ اختیار کریں گے۔‘‘ تو گویا اس طرح کئی جگہ اپنے آپ کو ایک الگ امت قرار دیا ہے۔ ایک الگ دین، 2880ایک الگ امت، خدا کا الگ تصور، رسول کا الگ تصور۔ قرآن کے بارے میں ان کے صاحبزادے جانشین میاں بشیر محمود صاحب فرماتے ہیں کہ ’’نبی شرعی ہو یا غیرشرعی ایک ہی مقام پر ہوتے ہیں۔ اگر کسی کو غیرشرعی کہتے ہیں تو اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ وہ کوئی نیا حکم نہیں لایا۔ ورنہ کوئی نبی ہو ہی نہیں سکتا جو شریعت نہ لائے۔ ہاں بعض نئی شریعت لاتے ہیں اور بعض پہلی شریعت کو ہی دوبارہ لاتے ہیں اور شرعی نبی کا مطلب یہ ہے کہ وہ پہلے کلام لائے اور رسول اﷲ ﷺ تشریعی نبی ہیں جس کے یہ معنی ہیں کہ آپ قرآن پہلے لائے اور حضرت مسیح موعود غیرتشریعی نبی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے… اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ آپ پہلے قرآن نہیں لائے۔ ورنہ قرآن تو آپ بھی لائے۔ اگر نہ لائے تھے تو خداتعالیٰ نے کیوں کہا کہ اسے قرآن دے کر کھڑا کیا۔‘‘
اس کے بعد ان پر جو وحی آتی تھی اسے ان کے پیروؤں نے ’’کتاب المبین‘‘ کے نام سے مدون کیا۔ جیسے کہ قرآنی آیات جو رسول اﷲ ﷺ پر نازل ہوتی تھی اس کے مجموعے کا نام قرآن ہوا، اسی طرح سے جو آیات مرزاغلام احمد صاحب کے اوپر نازل ہوتی تھی ان کے مجموعے کا نام کتاب المبین ہوا۱؎۔ اب قرآن کے بعد حدیث کا درجہ ہے۔ حدیث کا درجہ ہمارے تمام
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ قادیانیوں نے اپنے خانہ زاد نبی مرزاقادیانی کی وحی کے مجموعہ کو ’’تذکرہ‘‘ کے نام سے شائع کیا اور اب بھی اسی نام سے متواتر شائع کر رہے ہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مسلمانوں کے نزدیک یہ ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ سب سے زیادہ قوی حجت، سب سے زیادہ معتبر چیز حدیث ہے۔ مرزاغلام احمد کے نزدیک حدیث کا تصور یہ ہے۔ ’’جو حدیث ان کی وحی سے نہ ٹکراتی ہو اس کو چاہیں تو وہ لے لیں اور اس کو صحیح قرار دے دیں اور جو ان کو نہ پسند ہو تو اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں۔‘‘ یہ ان کے الفاظ ہیں۔ یہ اقتباس میرے خیال میں آچکا ہے۔ اس لئے میں اسے طوالت نہیں دینا چاہتا۔ وحی کے متعلق یہ صورت ہے دونوں جماعتیں قادیانیوں کی برابر مرزاصاحب پر جو کچھ بھی نازل ہوتا رہا اسے وحی کہتی رہیں۔ حالانکہ مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے 2881کہ وحی رسول اﷲ ﷺ پر ختم ہوگئی ہے۔ وحی ایک اصطلاحی لفظ ہے۔ جس کے انگریزی ڈکشنریوں میں بھی معنی مل جاتے ہیں، عربی میں بھی مل جاتے ہیں اور وہ یہی ہے کہ اﷲ کا وہ کلام جو وہ اپنے نبیوں پر نازل کرتا ہے تو وحی کا تصور بھی ہمارا اور ان کا مختلف ہے۔ صحابہؓ کی تعریف ہمارے نزدیک یہ ہے کہ جن لوگوں نے حالت ایمان میں رسول اﷲ ﷺ کو دیکھا ان کے نزدیک یہ ہے کہ وہ لوگ اور وہ لوگ جنہوں نے مرزاغلام احمد کو دیکھا۔ ہم ام المؤمنین صرف آنحضرت ﷺ کی ازواج مطہرات کو کہتے ہیں۔ وہ مرزاغلام احمد کی بیویوں کو بھی ام المؤمنین کہتے ہیں۔ جو ایک دل آزار قسم کی اہانت ہے مسلمانوں کے لئے جس کو برداشت کرنا مشکل ہے۔ اس کے بعد ہمارے عام مسلمانوں میں مسیح کا تصور اور ہے، مہدی کا تصور اور ہے۔ یہ دونوں الگ شخصیتیں ہیں۔ حضرت مسیح کے نزول کے وقت امام مہدی جو امت محمدی میں سے ہوں گے وہ پہلے نماز کی امامت کریں گے۔ لیکن یہاں انہوں نے دونوں حیثیتوں کو یکجا کر لیا ہے اور یہ ان کے ڈانڈے بابیوں سے مل جاتے ہیں۔ علی محمد باب نے بھی یہ دعویٰ کیا تھا کہ مجھ سے پہلے آنحضرت ﷺ اور حضرت علی کرم اﷲ وجہ الگ شخصیتیں تھیں۔ میں ان دونوں کا جامع ہوں، تو اسی طرح سے یہ ہے۔ خیر، یہ تو سارے پیغمبروں کی حیثیات کا جامع ہیں اور رفتہ رفتہ پھر خود رسول اﷲ ﷺ کے بروز بن کر کے اٹھے اس طرح اصحاب صفہ ہمارے ہاں مستقل اصطلاح ہے اور رسول اﷲ ﷺ کے وہ جان نثار ساتھی جو شب وروز دین کی تبلیغ کے لئے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر اور بھوکے پیاسے رہ کر دین کی خدمت کے لئے آپ کے پاس حاضر رہتے تھے۔ ان کے ہاں اصحاب صفہ وہ ہیں جو اس وقت قادیان میں مقیم ہیں۔ حج کے متعلق کافی کچھ آچکا ہے کہ اب اﷲتعالیٰ نے قادیان کو اس کام کے لئے مقرر کیا ہے۔ وہاں ظلی حج ہوتارہے گا۔ درود کے متعلق سوال جواب کے دوران میں نے رسالے کی فوٹوسٹیٹ کاپی شامل کی۔اس پر انہوں نے انکار کیا۔ بہرحال یہ وہی درود 2882نہیں ہے۔ بلکہ ابھی مرزاغلام احمد کی ’’البشریٰ‘‘ کے نام سے جو شائع ہوئی ہے اس میں بھی اور دوسرے بیانوں میں بھی وہ درود اس طرح ہے:
’’ اللہم محمد واحمد …‘‘ بہرحال یہ انکار درود ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(قادیانیت ایک متوازی کیمپ)
پنجتن کے متعلق جو مسلمانوں کا تصور ہے وہ اس روز آچکا ہے۔ یہ بھی نہایت دل آزار اور اہانت آمیز تصور ہے جو انہوں نے تصور قائم کیا ہے۔ پنجتن کا تصور جو مسلمانوں میں ہے وہ حضور اکرم ﷺ اور ان کے اہل بیت پر مشتمل ہیں۔انہوں نے یہاں مرزاغلام احمد اور ان کے خاندان والوں کو مشتمل کیا ہے۔ اس طرح ایک ایک چیز میں اپنے آپ کو چھوٹی چھوٹی چیزوں میں بھی… ہمارے نزدیک مسجد اقصیٰ وہ ہے جو دمشق میں ہے۔ ان کے نزدیک مسجد اقصیٰ یہاں آگئی ہے۔ ہمارے نزدیک وہ مقام کہ جہاں آدمی داخل ہو تو اﷲتعالیٰ کی طرف سے امن کا وعدہ ہے وہ مکہ مکرمہ میں ہے۔ ان کے نزدیک وہ چوبارہ ہے جہاں مرزاغلام احمد بیٹھ کر کے فکر کیا کرتے تھے اور تحریر کیا کرتے تھے۔ یعنی کہیں ان کے اور ہمارے ڈانڈے کسی تصور میں نہیں ملتے، نہ معاشرت میں، نہ معیشت میں، نہ عقائد میں، نہ دین کے تصور میں۔ یہ سب انہیں کی طرف سے ہوتا رہا۔ مختصر یہ کہ انہوں نے رسول اﷲ ﷺ کے مقابلے میں نبوت کا ایک متوازی کیمپ قائم کیا ہے۔ کیمپ کی حفاظت اور اس کے فروغ کی ذمہ داری انگریزوں نے لی اور وہ اس طرح کرتے رہے۔ ہمارے ہاں بہت سے لوگوں کے اندر بغیر مسئلے کو سوچے ہوئے، اس کا مطالعہ کئے بغیر، بغیر متعلقہ مواد کے پڑھے ہوئے ایک تصور ذہن پر یہ غالب رہا کہ یہ فرقہ وارانہ بات ہے۔ یہ بات فرقہ وارانہ نہیں ہے۔ یہ دو الگ الگ مذہب، دو الگ الگ دین، دو الگ الگ امتیں، دو الگ الگ تمدنوں کی جن میں کہیں کوئی مماثلت سوائے اس کے نہیں پائی جاتی کہ اسلام 2883کا لبادہ انہوں نے اوڑھ لیا ہے۔ اگر یہ نہ اوڑھتے تو لوگوں کو دھوکہ نہ دے سکتے تھے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(گلابی وعنابی)
اس ضمن میں میں یہ عرض بھی کردوں کہ وہ دوسری شاخ جو ان کی پھوٹی، وہ ظاہر ہے کہ گدی نشینی کے جھگڑے پر پھوٹی۔ جیسے علامہ اقبال نے کہا ہے کہ خواہ مصلحتاً یا جس بنا پر کیا ہو، انہوں نے ذرا اس کا رنگ ہلکا کر دیا اور گہرا عنابی کی بجائے ذرا گلابی رنگ کر دیا۔ تاکہ مسلمانوں کو دھوکہ دینے میں آسانی ہو۔ ایک شخص کو مسلمانوں ایک شخص کے نام، اس کے کارنامے کو کسی نہ کسی درجے میں مقبول کرایا جائے۔ اس کے بعد پھر فضا تیار ہوتی رہی۔ اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں میں مرزاغلام احمد کی ساری تحریریں، حکیم نورالدین کی ساری تحریریں اس بات کے لئے ایک کھلا ہوا ثبوت ہیں۔ یعنی دنیا میں کوئی فاتر العقل ہوگا جو اس سے انکار کرے گا کہ مرزاغلام احمد نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا۔ مگر اتنی تحریریں ہیں کہ کسی تاویل اور کسی تشویش سے بھی اس سے مفر نہیں ہے۔ بعض وقت مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے انہوں نے یہ لکھا… شاید یہ چیز Quote بھی کی ہے۔ محضرنامہ میں بھی اور اپنے جواب میں بھی… مرزاصاحب نے یہ لکھ کر دیا تھا۔ اگر لوگوں کو نبی کے لفظ سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو جہاں جہاں میں نے نبی لکھا ہے اس کو کاٹ کر محدث بنادیا جائے۔ یہ تحریر ہے ان کی۔ اسی کے تھوڑے دن کے بعد ایک اور تحریر ملتی ہے اور وہ یہ ہے کہ صلح حدیبیہ کے وقت کفار مکہ نے کہا کہ ہم تو رسول اﷲ ﷺ کو رسول نہیں مانتے۔ حضور ﷺ کے یہ جو نام کے ساتھ رسول اﷲ ہے یہ کاٹ دیا جائے۔ خیر! اس پر صحابہؓ کو غصہ آیا۔ لیکن حضور ﷺ نے فرمایا کوئی بات نہیں۔ آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے کاٹ دیا۔ تو یہاں سے مثال یہ لی جاتی ہے کہ آپ ﷺ نے اگر اپنے ہاتھ سے کاٹ دیا ہے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں تھا کہ آپ کی رسالت ختم ہو گی۔ وہ حقیقت اپنی جگہ ہے۔ یعنی اگر کوئی محدث ہو اور نبی کا لفظ کاٹ دے، ان کے کہنے کے مطابق، تو بھی ان کی نبوت باقی رہے گی۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(تبدیلی مذہب کا سوال نہیں)
2884تو یہ دجل وفریب کا ایک ایسا جال ہے کہ جس سے ایک ایسا غیرطبعی مادہ ملت کے جسم کے اندر اسی(۸۰)، نوے(۹۰) سال سے پرورش پارہا ہے۔ جس کی وجہ سے اس ملت کو چین نصیب نہیں ہوا اور اب اس کے پنجے باہر بھی بہت دور تک پھیلے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ کسی حکومت کو، کسی اسمبلی کو، یہ حق نہیں ہے کہ وہ زبردستی کسی کا مذہب تبدیل کرائے۔ یہ باہر کے لئے پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے نہایت مکروہ اور گھناؤنا پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔ یعنی کہیں یہ بات نہیں آئی کہ جبراً ان کا مذہب بدل دیا جائے۔ ان کے عقائد بدل دئیے جائیں۔ اس سے زیادہ فیاضی اور روادارانہ بات کیا ہوسکتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تمہارے جو معتقدات ہیں تم ان کی رو سے مسلمان نہیں ہو۔ اگر تم مسلمان ہو تو ہم مسلمان نہیں ہیں۔ اگر ہم اپنے آپ کو دستور میں یہ لکھ دیں کہ ہم سب کافر ہیں یا پھر ان کے لئے لکھنا ہوگا۔ اس میں تبدیلی مذہب کا سوال ہی نہیں ہے۔ بلکہ دو الگ الگ امتیں ہیں، ان کا تعین کرنا ہے۔ یہ صرف پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے دنیا میں پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔ قرآن کی آیت پیش کی جاتی ہے۔ ’’ لا اکرہ فی الدین ‘‘ کون جبر کر رہا ہے؟ اس سے زیادہ فضول قسم کا عقیدہ بھی کوئی رکھتا ہے؟
باقی مملکت پاکستان کا معاملہ ہے۔ ہر مملکت کو اپنی جغرافیائی حدود کے تحفظ کا پورا پورا حق حاصل ہوتا ہے۔ ہماری مملکت ایک نظریاتی مملکت ہے۔ ہمارا یہ حق ہی نہیں بلکہ فرض ہو جاتا ہے کہ اپنی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کریں۔ اگر اس فرض میں کوئی کوتاہی کرے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ملک کے ساتھ غداری کرتا ہے۔ لہٰذا اسلام کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت اس کا نہ صرف اختیار ہے بلکہ یہ بنیادی فرائض میں ہے۔ اگر کوتاہی کرے تو وہ اپنے فرائض سے غداری برت رہا ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(قادیانیوں کی اجتماعی مسائل میں زیادتی)
اب ان کا کہنا یہ ہے کہ پاکستان کے قیام کے سلسلے میں مسلمانوں کے اجتماعی مسائل کی 2885انہوں نے بڑی لمبی چوڑی فہرست دی۔ میں نے نوٹ کی تھی۔ ۱۸۹۳ء سے لے کر قیام پاکستان تک اور اس کے بعد تک مسلمانوں کے اجتماعی مسائل کے لئے نہ صرف مسلمانوں کے ساتھ شریک رہے۔ بلکہ دوسرے مسلمانوں کو اس پر ابھارتے رہے۔یہ بنیادی طور پر بڑی غلط بیانی ہے۔ شاید اسی طرح کی غلط بیانی انہوں نے اپنی آبادی کے متعلق کی ہے، جو سوال وجواب میں پوری طرح واضح ہو چکی ہے۔
ان کا دور، ۱۸۳۹ئ، ۱۸۴۰ء کی پیدائش ہے۔ غدر کے زمانے میں یہ تقریباً جوان ہوں گے یا جنگ آزادی کے ہنگاموں کے زمانوں میں جوان ہوں گے۔ اس کے بعد کے جو کارنامے ہیں وہ خود ان کی کتابوں سے روشن ہیں۔ اس کے بعد جب انہوں نے ہوش سنبھالا تو کچہری میں ملازمت کرلی۔ پھر کوئی اعلیٰ خدمت سپرد ہوئی۔ وہاں سے استعفیٰ دے کر آگئے اور عیسائیوں اور ہندوؤں کے خلاف مناظرے شروع ہوگئے۔ یہ انہوں نے کیوں کیا؟ اس سلسلے میں ان کی کتابوں سے اقتباس سوال وجواب میں آچکے۔ اور وہ میں نہیں دھراؤں گا۔ چونکہ جہاد کو حرام کرنا ہے۔ اس لئے ایسی کتابیں لکھی جائیں کہ مسلمانوں کا اشتعال ختم ہو اور ان کا بہی خواہ بن کر اپنے مقاصد حاصل کئے جائیں اور ان کے دل سے جہاد کا مسئلہ نکالا جائے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مسئلہ جہاد پر قادیانی غلط بیانی)
پھر انہوں نے اس جسارت سے کام لیا کہ سوال وجواب کے دوران انہوں نے کہا کہ یہ وہ زمانہ تھا کہ نہ مسلمان علماء نے جہاد کا فتویٰ دیا، نہ کسی مسلمان عالم نے جہاد کیا۔ یہ ایک ایسی غلط بیانی ہے جس پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک فتوے کا تعلق ہے، انگریزوں کے تسلط کے بعد سے اسی طرح کے فتوے باربار علماء کی طرف سے آتے رہے۔ یہ صحیح ہے کہ یہ مسائل بعض بعض دفعہ نزاعی رہے ہیں کہ اب حالات وشرائط جہاد ہیں یا نہیں ہیں۔ اس میں رائیوں کا اختلاف ہوا۔ بعض لوگوں نے کہا کہ نہیں شرائط پوری نہیں ہوئیں۔ بعض نے کہا کہ لڑائی کا وقت ہے۔ بعض نے کہا کہ وقت لڑائی کا نہیں ہے۔ 2886ایسے لوگوں کی تعداد بھی کم تھی۔ ان (مرزا) کی پیدائش کے زمانے میں جوانی کے زمانے میں بھی، ان کی وفات تک مسلسل جہاد ہوتا رہا۔ ان کی وفات کے بعد بھی جہاد جاری رہا۔ ان علماء کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے جہاد کیا اور جن کو کالا پانی بھیج دیا گیا۔ میں آپ کی اجازت سے چند نام پیش کرنا چاہتا ہوں۔
Mr. Chairman: Short break for ten minutes: we will meet at 12:15 pm.
(جناب چیئرمین: ۱۰منٹ کے لئے مختصر وقفہ۔ ہم بارہ بج کر پندرہ منٹ پر دوبارہ ملیں گے)
----------
[The Special Committee adjourned for ten minutes to re-assemble at 12:15 pm.]
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس ۱۰منٹ کے لئے ملتوی کر دیا گیا تاکہ دوپہر بارہ بج کر پندرہ منٹ پر دوبارہ شروع کیا جاسکے)
----------
[The Special Committee re-assembled after short break Mr. Speaker (Sahibzada Farooq Ali) in the Chair.]
(مختصر وقفے کے بعد خصوصی کمیٹی کا اجلاس دوبارہ شروع ہوا۔ جناب اسپیکر (صاحبزادہ فاروق علی صاحب) نے کرسی صدارت سنبھالی)
----------
جناب چیئرمین: مولانا محمد ظفر احمد انصاری!
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: جناب والا! قبل اس کے کہ میں اپنی گزارشات شروع کروں، آپ سے ایک درخواست یہ ہے کہ مجھے یہ ڈر معلوم ہورہا ہے کہ میری بات بالکل ہی نامکمل رہے گی۔ میں بہت مختصر کر رہا ہوں کہ آپ گھنٹی بجادیں گے اور قصہ ختم ہو جائے گا۔
جناب چیئرمین: میں نے ابھی تک گھنٹی تو نہیں بجائی۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: اگر آپ کوئی ایسی صورت کر سکیں کہ مجھے جس دن اٹارنی جنرل صاحب تقریر کریں گے اس روز کوئی آدھ گھنٹہ آپ دے دیں۔ ورنہ بات بالکل نامکمل رہ جائے گی۔ اس وقت بھی زیادہ ربط تو نہیںہوسکتا۔
جناب چیئرمین: ٹھیک ہے اٹارنی جنرل صاحب نے پرسوں اپنے Arguments Sum up (دلائل مکمل) کرنے ہیں۔ اس کے بعد اگر آپ مناسب سمجھیں کہ کوئی چیز رہ گئی ہے تو It is open for the members, they can again speak (اراکین اگر چاہیں تو دوبارہ بات کر سکتے ہیں) 2887تو ٹھیک ہے، اٹارنی جنرل صاحب کے۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: ان سے گفتگو کر لیں۔ اگر وہ تھوڑا سا وقت پہلے دے دیں تو ٹھیک ہے۔
جناب چیئرمین: ٹھیک ہے، آج اٹارنی جنرل صاحب آجائیں گے۔ آپ ان سے کل Consult کر لیں تو پانچ تاریخ کو سہی۔
مولانا محمد ظفر انصاری: میں یہ عرض کر رہا تھا کہ کتنا غلط دعویٰ کیاگیا ہے۔
جناب چیئرمین: آپ آج اندازاً کتنی دیر لیں گے۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: ایک گھنٹہ تو دے دیجئے۔
جناب چیئرمین: ایک گھنٹہ۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: مطلب یہ ہے کہ یا تو پھر یہ اجازت ہو کہ میں تحریری طور پر اسے…
جناب چیئرمین: تحریری طور پر بھی آپ دے دیں۔ وہ اگر آپ کل دے دیں گے تو وہ ہم سائیکلو سٹائل کرا کے ممبروں میں سرکولیٹ کرادیں گے۔
جناب محمد حنیف خان: اگر یہ تحریری طور پر دے دیں تو ان کی وہ تحریر ایک تو علم پر مبنی ہوگی۔ دوسرے ہم بھی جن کا علم کوتاہ ہے۔ کم ہے، دو، چار جملے کہنے کے قابل ہو جائیں گے۔
Mr. Chairman: He was almost neck deep in it; he knows this subject much more than any body else.
(وہ پوری گہرائی کے ساتھ اس مسئلے میں تھے۔ وہ اس موضوع کو کسی اور کی نسبت بہت زیادہ جانتے ہیں)
جناب محمد حنیف خان: میں نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ جس طرح آپ نے اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر آپ تحریری طور پر دے دیں تو وہ لوگ جن کا علم اس مسئلے میں کم ہے۔ وہ بھی وہ 2888پڑھ کر اپنے کچھ Views اس کی تائید میں کہہ دیں گے تو زیادہ بہتر ہوگا۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: تو اس میں تو کچھ وقت لگے گا۔
جناب چیئرمین: پانچ تاریخ تک دے دیں۔ اگر آپ ہمیں کل دے دیں تو ہم پرسوں سائیکلوسٹائل کرا کے ممبروںمیں چھ کی صبح کو تقسیم کرادیں گے۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: جتنا میں کہہ سکوں گا کہہ دوں گا اور اس کے بعد جو رہ جائے گا وہ تحریری طور پر دے دوں گا۔
Mr. Chairman: Prince (Mian Gul Aurangzeb), I would like to have your views also after Maulana has finished.
(جناب چیئرمین: پرنس (میاں گل اورنگزیب) میں چاہوں گا کہ مولانا کی بات ختم ہونے پر آپ بھی اپنے خیالات پیش کریں)
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: تو اس کی معذرت کرتے ہوئے کہ شاید اب میری تقریر میں بہت ربط نہیں رہے گا۔ کوشش کروں گا کہ جو زیادہ اہم چیزیں ہیں وہ آجائیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مسئلہ جہاد اور مرزاصاحب)
تو علماء کے متعلق انہوں نے لکھا ہے کہ یہ وہ دور تھا کہ علماء نہ جہاد کا فتویٰ دیتے تھے اور نہ علماء جہاد کرتے تھے اور یہی روش انہوں نے اختیار کی۔ میں اس میں صرف چند مثالیں دوں گا۔ آپ کو ۱۸۵۷ء میں مسلمانوں پر جو افتاد پڑی اور جس طرح مسلمانوں کی سیاسی قوت پارہ پارہ ہوئی اور اس کے جو یاس اور محرومی کی کیفیت پیدا ہوئی، اس کے باوجود ایسے جاندار لوگ موجود تھے جنہوں نے جہاد کاسلسلہ مسلسل جاری رکھا، فتوے دیتے رہے اور بنگال سے لیکر آسام سے لے کر صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں کی آخری حدوں تک کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں یہ کام نہ ہورہا ہو، اور انہوں نے نہایت ہوشیاری سے اس کام کو کیا۔ اس زمانے میں انگریزوں نے نیل کے کارخانے قائم کئے تھے۔ ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ جہاد کا قصہ ہی ختم ہوگیا تھا۔ اس زمانے میں مسلمانوں نے نہایت ہوشیاری سے انگریزوں کو یہ یقین دلایا کہ جہاد جو ہے وہ اسی طرح ہمارا ایک 2889فریضہ ہے جس طرح روزہ، نماز، جمعہ پڑھنا وغیرہ وغیرہ۔ لہٰذا جہاد کے لئے ہمیں سرکاری طور پر چھٹی دی جایا کرے۔ تو نیل کے کارخانوں سے انہیں چھٹی ملتی تھی اور وہ اس وقت سکھوں سے جہاد کر رہے تھے۔ پیش نظر یہ تھا کہ ایک علاقہ قبضے میں آجائے اور اب تمام تحریریں شائع ہو گئی ہیں۔ وہ خطوط اس زمانے کے شائع ہوگئے ہیں۔ جس سے پوری طرح یہ بات ثابت ہے کہ حضرت سید احمد شہید، اور دوسرے علمائ، ان کا پروگرام یہ تھا کہ پہلے اس علاقے کو جو مسلم اکثریت کا علاقہ تھا۔ اس میں مسلم حکومت قائم کر لیں۔ تو پھر انگریزوں سے نمٹیں گے۔ تو انگریز انہیں نیل کے کارخانوں سے چھٹی دیا کرتے تھے۔ گویا جہاد کے قصے کو عوام تک پہنچا دیا تھا نہ کہ یہ کہا جارہا ہے کہ اس زمانے میں جہاد کا نام نہیں لیا جارہا تھا۔ اس میں ہر مکتب خیال کے علماء تھے۔ جس زمانے میں مرزاغلام احمد، بقول اپنے مخبری کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ وہ زمانہ تھا کہ حضرت سید احمد صاحب شہید کے ماننے والے پیروکار منتشر ہوگئے تھے۔ انہوں نے پٹنہ میں پھر اپنا مرکز بنایا تھا۔ مسلسل مقدمات چلتے رہے۔ ایذائیں دی جاتی رہیں۔ یہاں تک کہ آخر میں صادق پور کا پورے کا پورا محلہ جو کہ ان کی حویلی میں تھا۔ اسے گروا کر وہاں ہل چلوائے گئے۔ تاکہ بہت سے زمانوں تک یہاں کسی بستی کا نام ونشان نہ رہے۔ جو لوگ تھے ان کو یا تو پھانسیاں دی گئیں یا کالے پانی بھیج دیا گیا۔ ان کے خاندان اور افراد کے نام برٹش گورنمنٹ کے ریکارڈ میں قیام پاکستان تک لکھے جاتے تھے۔ ان کی اولاد دراولاد کے نام۔ اس طرح وہی زمانہ تھا جب مولانا فضل حق خیر آبادی صاحب، مفتی صدرالدین صاحب، مولانا عنایت احمد صاحب رام پوری، ان تمام کے فتاویٰ شائع شدہ موجود ہیں۔ سرحد میں مولانا عبدالغفور اخوند، انہوں نے جہاد کا اعلان کیا۔ اس کے بعد مولانا عبداﷲ ان کی جگہ آئے۔ ان کا ۱۹۰۲ء میں انتقال ہوا۔ پھر مولانا عبدالکریم ۱۹۱۵ء تک وہ رہے ہیں۔ اس کے بعد مولانا عبدالرحیم، استھتحھانہ اور چمرکند 2890وغیرہ میں ان کے مراکز قائم ہیں اور باربار انگریزوں سے نمبرد آزما ہوتے رہے۔ بنگالی حاجی شریعت اﷲ تیتومیر، یہ نام اب تک وہاں کے بچوں کی زبان پر جاری ہیں۔ ریشمی رومال کا قصہ، ترکوں سے مل کر ہندوستان کو انگریزوں کی لعنت سے پاک کرنے کا قصہ، وہ مولانا عبیداﷲ سندھی صاحب، شیخ الہند محمود الحسن صاحب، سب لوگ اس فہرست میں آتے ہیں۔ یعنی پورا دور ایسا ہے کہ کسی میں جہاد نہ کرنے کی کمی نہیں ہے اور مرزاصاحب یہ کہتے تھے۔ انہوں نے مخبری میں ایک پہچان بنالی تھی کہ جو لوگ یہاں دارالحرب یعنی انگریزوں کے خلاف لڑائی کرنا چاہتے ہیں جہاد کرنا چاہتے ہیں وہ جمعہ اور عیدین کی نماز کو جائز نہیں سمجھتے۔ لیکن پتہ لگاتے تھے کہ کون کون سے علماء ہیں، کون کون سے لوگ ہیں جو جمعہ کو حرب ہونے کی وجہ سے نہیں پڑھتے۔ اس طرح وہ ان کی مخبری کا کام کرتے تھے۔ چونکہ وہاں پر پہلے نہیں آیا، میں اس کا اقتباس پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا۔ یعنی کسی معاشرے میں یہ تصور نہیں کیا جاتا کہ اس معاشرے میں کوئی شریعت انسان اس حالت میں جب کہ قوم غیروں کے پنجہ استعمار میں گرفتار ہو تو کوئی شخص مخبری کرے اور قوم میں اس کا کوئی وقار ہو۔ نہ کہ مجدد، مصلح، پیغمبر، خدا جانے کیا کیا کہا گیا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزاقادیانی انگریزوں کا بڑا جاسوس)
اب یہ (تبلیغ رسالت ج۵ ص۱۱، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۲۲۷) سے ایک اقتباس سناتا ہوں۔ یہ مرزاغلام احمد کا بیان ہے: ’’چونکہ قرین مصلحت ہے کہ سرکار انگریز کی خیرخواہی کے لئے ایسے نافہم مسلمانوں کے نام بھی نقشہ جات میں درج کئے جائیں جو درپردہ اپنے دلوں میں برٹش انڈیا کو دارالحرب قرار دیتے ہیں… لہٰذا یہ نقشہ اسی غرض کے لئے تجویز کیاگیا۔ تا اس میں ان ناحق شناس لوگوں کے نام محفوظ رہیں۔ جو ایسے باغیانہ سرشت کے آدمی ہیں۔ اگرچہ گورنمنٹ کی خوش قسمتی سے… مسلمانوں میں ایسے لوگ معلوم ہوسکتے ہیں جن کے نہایت مخفی ارادے 2891گورنمنٹ کے برخلاف ہیں۔ اس لئے ہم نے محسن گورنمنٹ کی پولیٹیکل خیرخواہی کی نیت سے اس مبارک تقریب پر چاہا کہ جہاں تک ممکن ہو ان شریر لوگوں کے نام ضبط کئے جائیں۔ (یعنی ان کے نام ریکارڈ کئے جائیں) جو اپنے عقائد سے مفسدانہ حالتوں کو ثابت کرتے ہیں… لیکن ہم گورنمنٹ کو باادب اطلاع کرتے ہیں کہ ایسے نقشے پولیٹیکل راز کی طرح اس وقت تک ہمارے پاس محفوظ رہیں گے۔ جب تک گورنمنٹ ہم سے طلب کر لے اور ہم امید رکھتے ہیں کہ ہماری گورنمنٹ، حکیم مزاج کی طرح ان نقشوں کو ملکی راز کی طرح اپنے کسی دفتر میں محفوظ رکھے گی۔‘‘
گویا چیف انفارمر کے فرائض جو صاحب دے رہے تھے یہ انکا کارنامہ تھا اور یہ اس وقت جب مسلمانوں کی بڑی تعداد کالے پانی جارہی تھی یا پھانسیوں کے تختوں پر ڈال رہے تھے۔
انہوں نے یہ بھی لمبی فہرست دی ہے کہ ۱۸۹۳ء سے لے کر قیام پاکستان تک وہ مسلمانوں کے ہر درد ودکھ میں نہ صرف شریک رہے بلکہ پیش پیش رہے۔ ۱۸۹۳ء میں مرزاصاحب کی عمر کافی ہوگئی تھی۔ لیکن اس کے متعلق جو کچھ کام رہا وہاں اس میں ان کی شرکت کی بات یہ ہے کہ جو مصیبتیں اس ملک میں مسلمانوں پر آئیں، یعنی جہاد کے سلسلے میں وہ اپنی جگہ ہیں یہ خود سوال ہی نہیں تھا۔ تاہم ان کا اس میں کام صرف مخبری کرنا تھا۔ یا انگریزوں کو سپاہی مہیا کرنا تھا۔ لیکن اس کے علاوہ جو تعمیری کام ہوا، مثلاً علی گڑھ قائم ہوا۔ دوسرے مدارس قائم ہوئے۔ انجمن حمایت اسلام لاہور قائم ہوئی۔ اس کے متعلق مجھے مجبوراً اقتباس سے گریز کرنا پڑے گا۔ اس میں انہوں نے کہا کہ سرسید نے بڑی جان توڑ کوشش کی اور کہا کہ ایک روپیہ دے دو چندہ۔ انہوں نے کہا کہ نہ، یہ نہیں ہوسکتا۔ مرزابشیرالدین نے لکھا ہے کہ آپ کیوں… یعنی اس میں انہوں نے لکھا، اپنی جماعت کے لوگوں کو کہاکہ آپ دوسروں میں کیوں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ مرزاصاحب کا ہمیشہ یہی 2892معمول رہا ہے کہ وہ لوگ کسی نام سے آئیں، نہ کسی دوسری انجمن کے ممبر بنیں۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top