• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قومی اسمبلی میں ہونے والی اکیس دن کی مکمل کاروائی

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزاکہاں مرا؟)
جناب والا! چونکہ وقت تھوڑا ہے۔ لہٰذا میں مختصراً عرض کروں گا۔ جہاں تک مرزاغلام احمد کی نبوت کا تعلق ہے انہوں نے اپنی نبوت کا دعویٰ کیا تو انہوں نے بہت سی باتیں کہی ہیں وہ نبی بھی ہیں، مجدد بھی، مسیح الموعود بھی، اپنے آپ کو انہوں نے محدث بھی کہا، خدا کہا، مریم کہا، ابن مریم کہا، عیسیٰ اور موسیٰ کہا، خدا اور محمدکہا، خدا جانے کیا کچھ نہیں کہا۔ اپنی سچائی میں انہوں نے کہا کہ میرانکاح محمدی بیگم، ایک معصوم بچی سے عرش معلی پر ہوا 2634تھا۔ لیکن ٹٹی میں مرتے دم تک ان کی یہ آرزو پوری نہ ہوسکی۔ اسی طرح یہ نبی جو انگریز کے نبی تھے، جو انگریزی نبی تھے، اس (کے پیروکاروں) نے، جب قسطنطنیہ اور بغداد پر قبضہ ہوا تو، یہاں قادیان میں چراغاں کرایا۔ یہ وہ طریقہ تھا جس سے انگریز ہندوستان پر قابض رہنا چاہتے تھے۔
اس کے علاوہ بھی ہندوستان میں انگریزوں نے اور بھی کارنامے کئے۔ چنانچہ جب تقسیم ملک کا وقت آیا تو اس وقت بھی انگریز نے بہت سے حربے استعمال کئے۔ ہمارے بعض مولویوں کو جو اپنے آپ کو اسلام کا دعویدار کہتے ہیں، ان کو خریدا گیا اور جب پاکستان کی تقسیم کا سوال پیدا ہوا، جو کہ ایک عظیم جہاد تھا۔ جس میں برصغیر کے مسلمانوں نے قربانیاں دیں۔ انہوں نے جہاد کیا تھا کہ ہم ایک علیحدہ معاشرہ رکھتے ہیں اور اسلام اور قرآن کے مطابق اپنی زندگیاں بسر کرنے کے لئے وطن چاہتے ہیں۔ اس وقت جو لوگ اس جہاد سے منکر ہوئے انہوں نے بھی انگریز کا ساتھ دیا۔ آج بھی ان میں سے بعض ہمارے سامنے بیٹھے ہیں۔ انگریز کے نبی کی یہ اس وقت تائید کرتے رہے۔ لیکن افسوس کہ وہ وقت جب پاکستان بنا تو ان لوگوں کو بھی پاکستان آنا پڑا اور گورداسپور کے دوسرے خطوں مثلاً تحصیل پٹھانکوٹ میں بھی انگریز نے بہت کچھ کیا۔ وہاں بھی نرم زبان کا جہاد اور جہاد بالقلم تھا، جہاد بالسیف نہیں تھا۔ عدم تشدد اور گاندھی کی پیروکاری کا سلسلہ چلتا رہا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(احمدی نہیں قادیانی)

یہ سب باتیں تفصیل کے ساتھ بیان کی جاچکی ہیں۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ اس مسئلہ میں ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ جناب والا! ہمارے دوستوں نے مرزائیوں یعنی قادیانیوں کے لئے ’’احمدی‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ مفتی محمود صاحب نے بھی باربار ان کو احمدی کہا ہے۔ ہمیں اس پر سخت اعتراض ہے۔ وہ احمدی نہیں ہیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ہمیں 2635احمد مصطفی ﷺ سے نفرت سکھائی جاتی ہے۔ میں نے باربار یہ اعتراض کیا ہے کہ یہ احمدی ایشو نہیں ہے، یہ قادیانی ایشو ہے۔ کیونکہ مرزاصاحب نے کہا ہے کہ ہم غلبہ کے بعد پھر قادیان جائیں گے تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ یہ صحیح پاکستانی بھی نہیں ہوئے۔ ان کا مقصد ایسا ہی ہے جیسا اسرائیل کا مقصد ہے۔ اسرائیلی بھی ایسا ہی کرتے تھے اور یہ دوبارہ کوئی نیاملک بنانا چاہتے ہیں۔
جہاں تک ان کی آبادی کا تعلق ہے وہ اپنے قیاس کے مطابق کہتے ہیں کہ پاکستان میں ہماری آبادی چالیس لاکھ ہے اور پاکستان کے باہر ایک کروڑ کے قریب آبادی ہے۔ اگر ان کی فگرز کو درست تسلیم کر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک ایسا وقت آنے والا ہے۔ جب ان کو کوئی ایسا خطہ زمین مل جائے گا جہاں وہ اپنی حکومت قائم کر سکیں اور جس طرح اسرائیل نے صیہونی نظام کو چلانے کے لئے تحریک شروع کی ہے۔ اس طرح یہ جو اپنے آپ کو نیا فرقہ، نئی جماعت اور نئے مذہب کے نام سے پکارتے ہیں، تو یہ شروع کریں۔ تو اس کے لئے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ کیا قرآن حکیم اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم اسلام کے بعد کسی نئے مذہب کو تسلیم کریں۔ ہم اسے سرے سے کوئی مذہب تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ نہ ہمیں اس کی اجازت ہے کہ ہم اس کو نیا مذہب تسلیم کریں، یہ کوئی مذہب نہیں ہے۔، اگر ان کی ساری تنظیم کو دیکھا جائے تو تنظیم ہی جو خطرناک ہے، مذہب تو ان کا تعبیری ہے۔ کوئی مذہب نہیں ہے۔ تو تنظیم اس طرح کی ہے جس طرح صیہونیوں کی تنظیم ہے تو یہ تنظیم جو ہے یہ خطرناک ہے۔ چنانچہ انگریزوں نے پاکستان بننے سے پہلے ان کو مختلف محکموں میں بے پناہ اعلیٰ قسم کے عہدے دئیے اور آج بھی اس پاکستان گورنمنٹ میں تمام فنانس ڈیپارٹمنٹ، ایگریکلچرل ڈویلپمنٹ بینک اور فنانس کے دوسرے جتنے بھی ڈیپارٹمنٹس ہیں اور ہمارا فارن آفس اور فوج یہ تمام ان کی 2636اکثریت سے بھرے پڑے ہیں اور وہ اس قدر متعصب ہیں کہ وہ کسی کو پھٹکنے نہیں دیتے، جو بھی جگہ نکلتی ہے اپنے ہی لوگوں کو رکھ لیتے ہیں تو اس لئے جہاں یہ کہا جارہا ہے کہ اس مذہب کو تسلیم کرو تو کیا یہ وہی بات نہیں ہے جس طرح عربوں کو کہا جائے کہ اسرائیل کو تسلیم کرو۔ تو ہمیں احتیاط کرنی چاہئے اور ہمیں کسی طرح سے بھی ان کا مذہب تسلیم نہیں کرنا چاہئے۔ یہ ایک سیاسی جماعت ہے جو اسلام کے نام پر لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ یہ ’’تحریک جدید‘‘ ان کی ایک کتاب ہے۔ اس میں وہ کہتے ہیں کہ ہم ایک Separate (علیحدہ) جماعت ہیں۔ یہ ان کا عقیدہ ہے وہ لکھتے ہیں:
"You may ask why then we have organised ourselves into a separate Jamaat."
(آپ پوچھ سکتے ہیں کہ ہم نے ایک علیحدہ جماعت کے طور پر اپنے آپ کو کیوں منظم کیا ہے؟)
یہ ’’تحریک جدید‘‘ A Tabshir publication under the guidance of Mirza Mubarak Ahmad. It has nothing to do with Islam. (مرزامبارک کی راہنمائی میں تبشیر پبلی کیشنز نے چھاپی ہے۔ اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں)
جو انہوں نے بیعت نامہ اس میں صفحہ۷۹ پر شائع کیا ہے۔ آپ اس کو پڑھیں۔ اس میں بھی ہیراپھیری ہے۔ اس میں کہیں مرزاصاحب کا نام درج نہیں ہے، نہ کسی اور کا درج ہے۔ اس میں دس شرائط ہیں، دسویں یہ ہے:
"Tenthly, that he will establish a brother- hood with me, i.e. the promised massiah, on the condition of obeying me in everything good and keep it up to the day of his death and this relationship will be of such a high order that its example will not be found in any worldly relationship either of blood relations or of servant and master."
(اور نمبر دس یہ کہ وہ میرے ساتھ یعنی مسیح موعود کے ساتھ ایک برادرانہ تعلق قائم کرے گا اور اس تعلق کی شرط یہ ہوگی کہ وہ ہر اچھی چیز میں میری اطاعت کرے گا اور مرتے دم تک اس رشتے کو نبھائے گا اور یہ تعلق اتنا اعلیٰ وارفع ہوگا کہ اس کی مثال دنیوی رشتوں میں بھی نہیں ملے گی۔ خواہ وہ خونی رشتے ہوں یا مالک اور خادم کے تعلقات ہوں)
تو یہ وہ دھوکہ ہے جو بیرونی دنیا کو بھی یہ دیتے ہیں۔ کسی کو کوئی نام نہیں بتاتے، صرف اسلام کے نام پر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں تو جناب والا! یہ وہ بات ہے کہ جس سے یہ اسلام کے نام پر دنیا کو دھوکہ دے رہے ہیں اور جیسا کہ یہ کہا جاتا ہے کہ آئین 2637میں ان کو ایک اقلیتی فرقے کی حیثیت سے شامل کیا جائے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ انتہائی ظلم ہوگا۔ اسلام کے ساتھ اور اس پاکستان کے ساتھ،کیونکہ اقلیت کا مطلب اگر آپ آئین کو پڑھیں تو اس میں آرٹیکل۱۰۶ سب کلاز(۳) ہے:
"In addition to the seats in the Provincial Assemblies for the Provinces of Balochistan, the Punjab, the North- West Frontier and Sindh specified in clause (1), there shall be in those Assemblies the number of additional seats here in after specified reserved for persons belonging to the Christian, Hindu, Sikh, Budhist and Parsi communities or the scheduled castes:
Balochistan ..... 1
The North West
Frontier Province ..... 1
The Punjab ..... 3
Sindh ..... 2"
(بلوچستان، پنجاب، شمالی مغربی سرحدی صوبہ اور سندھ کی صوبائی اسمبلیوں میں، شق نمبر۱ میں بیان کردہ نشستوں کے علاوہ، ان اسمبلیوں میں اضافی نشستیں ہوں گی۔ جن کی تعداد حسب ذیل میں بیان کی گئی ہے اور یہ نشستیں ان لوگوں کے لئے مختص ہوں گی جن کا تعلق عیسائی، ہندو، سکھ، بدھ اور پارسی یا شیڈیولڈ کاسٹ سے ہے:
بلوچستان … ۱
شمالی مغربی سرحدی صوبہ … ۱
پنجاب ۳
سندھ … ۲)
تو یہ اسمبلیز میں مینارٹیز کو نمائندگی دی گئی ہے۔ تعداد اس طرح مینارٹی رائٹس محفوظ کئے گئے ہیں۔ آرٹیکل۳۶ میں ہے:
"The State shall safeguard the legitimate rights and interests of minorities, including their due representation in the Federal and Provincial services."
(ریاست اقلیتوںکے جائز حقوق اور مفادات، بشمول وفاقی اور صوبائی سروسز میں ان کی مناسب نمائندگی کا تحفظ کرے گی)
----------
[At this stage Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi vacated the Chair which was occupied by Mr. Chairman.]
(اس موقع پر ڈاکٹر بیگم اشرف خاتون عباسی نے کرسی صدارت کو چھوڑا جس پر جناب چیئرمین متمکن ہوئے)
----------
2638ملک محمد سلیمان: اس کے بعد آرٹیکل۲۰ میں یہ درج ہے کہ:
"Subject to law, public order and morality:
(a) every citizen shall have the right to profess, practise and propagate his religion; and
(بشرط قانون، امن عامہ اور اخلاقیات:
الف… ہر شہری کو اپنے مذہب کا اعلان کرنے، عمل کرنے اور اشاعت کرنے کا حق حاصل ہوگا: اور)
(b) every religious denomination and every sect thereof shall have the right to establish, maintain and manage its religious institutions."
(ب… ہر مذہب مسلک اور فرقے کو اپنے مذہبی ادارے بنانے، چلانے اور ان کے معاملات سنبھالنے کا حق حاصل ہوگا)
اب اس آرٹیکل کے تحت جہاں ہر شہری کو یہ رائٹ ہے کہ وہ اپنا مذہب اپنائے، Profess کرے اور پریکٹس کرے اور اس کو Propagate کرے، اگر آپ ان کا ایک مذہب تسلیم کرتے ہیں تو پھر ان کے پاس سرمایہ ہے، دولت ہے، وہ ہر آپ کی بڑی مسجد کے سامنے بڑی مسجد بنائیں گے اور وہاں یہ پروپیگنڈہ کریں گے کہ یہ ہمارا نبی ہے اور یہ جو سامنے والے نہیں مانتے یہ سب کافر ہیں۔ کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ سب مسلمان کافر ہیں۔صرف پاکستان کے مسلمان ہی کافر نہیں۔ بلکہ سارے عالم اسلام کے ۷۵کروڑ مسلمان کافر ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر آپ ان کا مذہب تسلیم کرتے ہیں اور ان کو Separate entity (الگ وجود) یا کوئی اور نام دیتے ہیں تو اس سے آپ ان کو کانسٹیٹیوشنل تحفظ دیں گے۔ جس سے وہ اپنے مذہب کی تبلیغ کر سکیں گے۔ لیکن یہ آرٹیکل ۲ہے، اس میں لکھا ہوا ہے:
"Islam shall be the state religion of Pakistan."
(اسلام پاکستان کا ریاستی مذہب ہوگا)
تو ہمارے پاکستان کا سٹیٹ ریلجن اسلام ہے۔ تو آپ اس میں انٹی اسلامک پروپیگنڈے یاتبلیغ کی کیسے اجازت دے سکتے ہیں؟ اب اس کے بعد آئین کے آرٹیکل۵ ہے، اس میں لکھا ہوا ہے:
"(1) 2639Loyalty to the State is the basic duty of every citizen.
(2) Obedience to the Constitution and law is the basic obligation of every citizen wherever he may be and of every other person for the time being within Pakistan."
(’’۱… ریاست سے وفاداری ہر شہری کا بنیادی فرض ہے۔
۲… آئین اور قانون کی اطاعت ہر شہری کی خواہ وہ کہیں بھی ہو، اور ہر اس شخص کی جوفی الوقت پاکستان میں ہو بنیادی ذمہ داری ہے۔‘‘)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(قادیانیوں کو خلاف قانون جماعت قرار دیا جائے)
تو ہر پاکستانی شہری کا یہ فرض ہے کہ وہ سٹیٹ کا Loyal ہوا۔ تو سٹیٹ کی تعریف آئین کے آرٹیکل۷ میں کی گئی ہے۔ جس میں فیڈرل گورنمنٹ، پراونشل گورنمنٹ، اسمبلیز وغیرہ موجود ہیں۔ تو کیا میں یہ پوچھ سکتا ہوں کہ کسی قادیانی کو اگر کوئی گورنمنٹ یعنی اسٹیٹ کا فرد جو بڑے سے بڑے عہدے پر فائز ہو حکم دے اور دوسری طرف سے ان کا اپنا ہیڈ اس کو کوئی حکم دے تو کس کے حکم کی تابعداری وہ کرتا ہے؟ یقینا وہ اپنے ہیڈ کی بموجب شق۱۰ بیعت نامہ، تابعداری کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آئین کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ اس لئے ان کو ایک خلاف آئین جماعت قرار دیا جائے اور آئین کی خلاف ورزی کے لئے آپ نے ایک شق نمبر۶ رکھی ہے کہ وہ High Treason (ریاست سے غداری) کا مرتکب ہوتا ہے اور جب آرٹیکل۶ کے تحت وہ High Treason (ریاست سے غداری) کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کے لئے آپ نے فیصلہ کیا تھا کہ اس کی سزا Death (موت) ہوگی۔ تو اس لئے جناب! یہ مسئلہ جو ہے…
Mr. Chairman: Just to interrupt the honourable speaker, another information I would like to give to the honourable members.
(جناب چیئرمین: معزز مقرر کی بات میں مداخلت کرتے ہوئے، میں معزز اراکین کو ایک بات بتانا چاہوں گا)
ایک منٹ، ملک صاحب! جن ممبر صاحبان نے پاس بنوانے کے لئے کہا تھا آج شام تک کے جائنٹ سیشن کے لئے، وہ ڈیڑھ بجے اسسٹنٹ سیکرٹری سے Collect (اکٹھا) کر سکتے ہیں۔
It is a privilege which should go to the M.N.A's close relatives and family members. My gallery will be occupied by the entourage. We are having 45 diplomatic cards; then there is the 2640Press. This part of DVG is reserved for M.N.A's family members and their close relatives; and if we issue one card for one, that means about 200 cards; but we have got only 78 seats.
(یہ ایک مراعت ہے جو ایم۔این۔اے‘ز کے قریبی رشتہ داروں اور گھر کے افراد کو ملنی چاہئے۔ میری گیلری میں عملے کے افراد ہوں گے۔ ہمارے پاس ۴۵ڈپلومیٹک کارڈ ہیں اور پھر پریس بھی ہے۔ DVG کا یہ حصہ ایم۔این۔اے‘ز کے گھر کے افراد اور ان کے قریبی رشتہ دار کے لئے مختص ہوگا اور اگر ہم ایک شخص کے لئے ایک کارڈ جاری کریں تو اس کا مطلب ہوگا تقریباً ۲۰۰کارڈ۔ لیکن ہمارے پاس صرف ۷۸نشستیں ہیں)
تو اس کے لئے یہ ہے کہ باقی پھر ذرا پیچھے بیٹھیں گے۔ مثلاً اگر ہمارے پاس چالیس Requisitions (ریکویزیشنز) آتی ہیں تو جو ہمارے پاس سیٹیں بچ جائیں گی وہ دو بھی ہوسکیں گی، تین بھی ہوسکیں گی۔ لیکن سب سے پہلے Preference (ترجیح) ہوگی ایک کارڈ Per Honourable member (ہر معزز رکن کے لئے) میں جا کر کارڈوں پر Tick Mark (ٹک مارک) کردوں گا۔ Between 12: 00 and 1: 00, the cards can be collected (۱۲اور ۱؍بجے کے درمیان کارڈ لئے جا سکتے ہیں) چاہے مجھ سے لے لیں، میرے آفس سے لے لیں، اسسٹنٹ سیکرٹری کو میں وہاں بٹھا دوں گا۔ چاہے وہاں سے آپ کارڈ لے لیں۔
جناب عبدالحمید جتوئی: جناب والا! ایک تجویز ہے کہ یہ جو اس مسئلے پر ہمارے ممبر صاحبان کی تقاریر ہوئی ہیں، اگر آپ کی عنایت ہو تو ان کی نقلیں ہمیں مل جائیں تاکہ…
جناب چیئرمین: یہ سب ملیں گی۔
جناب عبدالحمید جتوئی: …بوقت ضرورت جیب میں لے کر پھریں تو بہتر ہوگا۔
جناب چیئرمین: نہ جی نہ! اور یہ اخباروں میں آئیں گی۔ یہ تو ریکارڈ ہم نے پبلش کرنا ہے۔
مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری: جناب والا! گزارش ہے کہ کمیٹی میں کوئی قید نہیں ہے؟
جناب چیئرمین: جتناکمیٹی میں جہاں مرضی ہے۔
مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری: تو ٹھیک ہے۔ کل میں نے کارڈ بنواکے منگوالئے تھے۔ تو ان کو دوبارہ واپس کرنا پڑے گا؟
جناب چیئرمین: آپ نے غلط کیا ہے۔
2641جناب عبدالمصطفیٰ الازہری: کیوں؟
جناب چیئرمین: کیونکہ سب کے لئے ایک ہی اصول ہونا چاہئے۔ میں نے پوچھا، انہوں نے کہا دو تین حضرات مجھ سے کارڈ لے گئے ہیں۔ ٹھیک ہے، وہ Valid (صحیح) ہے۔ اگر یہ سارے Collectively (اجتماعی طور پر) کریں گے۔ جی، ملک محمد سلیمان! آپ کتنا وقت لیں گے؟
ملک محمد سلیمان: جتنا ٹائم کہیں۔
جناب چیئرمین: جتنا ٹائم آپ مناسب سمجھیں۔
ملک محمد سلیمان: بس تھوڑا ہی، تو جہاں ہر شہری کو آرٹیکل۲۰ کے تحت یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہب کو Profess (کا اعلان کرے) کرے، Propagate (اشاعت) کرے، وہاں آرٹیکل۱۹ ہے۔ جس میں یہ درج ہے کہ:
"Every citizen shall have the right of freedom of speech and expression and there shall be freedom of the press subject to any reasonable restrictions imposed by law in the interest of the glory of Islam."
(’’ہر شہری کو آزادیٔ تقریر واظہار کا حق حاصل ہوگا اور پریس اس شرط کے ساتھ آزاد ہوگا کہ قانون، اسلام کی عظمت کے مفاد میں اس پر مناسب پابندیاں عائد کر سکے۔‘‘)
تو جہاں یہ Freedom of speech اور Expression (آزادیٔ تقریر واظہار) دی گئی ہے وہاں جب Glory of Islam (اسلام کی عظمت) کے خلاف کوئی بات کی جائے گی تو اس پر پابندی لگانے کا اختیار حاصل ہے۔ تو جناب والا! جب خاتم النّبیین ﷺ کے بعد کوئی آدمی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نبی ہے اور اس لٹریچر کا وہ پراپیگنڈہ کرتا ہے، اس Religion (مذہب) کو Profess (اعلان) کرتا ہے ، تو اس پر پابندی لگانا یہ ہمارے دائرہ اختیار میں ہے،ہم لگا سکتے ہیں۔ یہ آئینی حق اس ملک کے لوگوں کو حاصل ہے، اور ان لوگوں پر یہ دعویٰ کرتے ہیں پابندی لگادی جائے۔ تو آئندہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ جتنا لٹریچر جو اس وقت تک موجود ہے وہ چونکہ Glory of Islam (عظمت اسلام) کے خلاف ہے، وہ اسلام کی روح کے خلاف ہے، اس کو ضبط کیا جاسکتا ہے اور 2642ضبط کرنا چاہئے اور آئندہ اس قسم کا کوئی لٹریچر شائع نہیں ہوسکتا۔ پاکستان میں چونکہ ہمارا مذہب (اسٹیٹ کا) اسلام ہے تو اس طریقے سے ہم ان کا تمام ایسا لٹریچر ضبط کر سکتے ہیں اور انہوں نے جو جائیداد پیدا کی ہے اور اسی پاکستان میں ہے اور وہ پاکستان میں اسلام کے نام کو Exploit (کا استحصال) کر کے پیدا کی ہے، اسلام کے نام پر حاصل کی ہے۔ جب ہر مسجد کی جائیداد وقف کو چلی گئی ہے تو یہ کیوں نہیں جاسکتی۔ یہ محکمہ اوقاف کو کیوں نہیں جا سکتی۔ تو تمام جائیداد جو ہے یہ محکمہ اوقاف کو منتقل کر دی جائے۔ جہاں تک بیعت کا تعلق ہے، بیعت جو ہے یہ نہیں ہوسکتی۔ یہ خلاف شرع اور آئین ہے تو یہ بیعت منسوخ فرما دی جائے اور اس قسم کی بیعت کا اس ملک میں کسی شخص کو بھی یہ حق حاصل نہ ہو کہ کسی موہوم مسیح الموعود کے نام پر لوگوں کو گمراہ کر کے بیعت حاصل کرے۔ کیونکہ اس میں جو بیعت کا فارم ہمارے سامنے پیش ہوا ہے وہ موہوم ہے۔ اس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ ایک جھوٹ ہے، ایک فراڈ ہے۔
تو جناب عالی! اب ایسی باتیں جن کے متعلق میں اظہار کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ واقعہ ربوہ جو ہے یہ ۲۹؍مئی ۱۹۷۴ء کو ہوا۔ میری اطلاع کے مطابق بیشتر متمول قادیانیوں نے اپنی بڑی بڑی جائیدادوں کے ۲۹ سے پہلے بیمے کرائے۔ میں آپ کی وساطت سے یہ اپنی گورنمنٹ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ بات کس حد تک درست ہے؟ اس کی چھان بین کی جائے اور اس کی رپورٹ اس معزز ایوان کے سامنے لائی جائے۔
جناب چیئرمین: اس کمیٹی میں گورنمنٹ کوئی نہیں ہے۔ یہ نیشنل اسمبلی میں پوچھیں۔
ملک محمد سلیمان: تو اس کے بعد دوسری بات یہ ہے میری اطلاع یہ بھی ہے اور میرے علم میں لایا گیا ہے کہ یہ ۱۹۷۱ء کی جنگ میں جتنے ہمارے فوجی P.O.W (جنگی قیدی) ہوئے، 2643یہ بتایا جائے کہ کتنے قادیانی P.O.W (جنگی قیدی) ہوئے۔ کیونکہ یہ ہمارے علم میں لایا گیا ہے… ہو سکتا ہے سچ ہو یا غلط ہو، اس کی تصحیح چاہتا ہوں… کہ کوئی قادیانی P.O.W (جنگی قیدی) نہیں ہوا تو یہ راز بھی فاش کیا جائے تاکہ جو ہمارے ساتھ ہوا ہے یا آئندہ یہ منصوبے بنائیں تو اس کے متعلق ہمیں علم ہو جائے کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ تو جناب عالی!…
جناب چیئرمین: بس جی۔
ملک محمد سلیمان: نہیں جناب!
جناب چیئرمین: آج ٹائم تھوڑا ہے۔
ملک محمد سلیمان: یہ ہمارا شیڈول نمبر۳ آئین کا ہے۔ جس میں ہم نے یہ وضاحت کر دی ہے کہ بڑے بڑے عہدے مثلاً پریذیڈنٹ اور پرائم منسٹر کے، وہ مسلمان کے حصہ میں آئیں گے۔ تو اس میں کچھ اضافہ کرنا چاہئے۔ اس میں تمام فیڈرل منسٹرز جو ہیں، اسٹیٹ منسٹرز جو ہیں ان کا اوتھ بھی وہی ہو جو پرائم منسٹر اور پریذیڈنٹ کا ہے۔ اس میں صوبے کے وزراء کے حلف کی ضرورت نہیں۔ صوبے میں مینارٹی کو Representation (نمائندگی) ملے گی تو اس میں ضرورت نہیں۔ Speaker of the National Assembly and the Deputy Speaker of the National Assembly.... (قومی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر…)
Mr. Chairman: .... and all the members of the National Assembly.
(جناب چیئرمین: … اور قومی اسمبلی کے تمام اراکین)
ملک محمد سلیمان: جناب عالی! ممبران کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا وہی حلف ہونا چاہئے جو ایک مسلمان کے لئے وضع کیاگیا ہے۔ اس میں گورنر، یہ چاروں سارے صوبوںکے گورنر جو ہیں، چیف منسٹر… میں پراونشل منسٹروں کی بات نہیں کر رہا، صرف چیف منسٹروں کی بات کروں گا… گورنر، چیف منسٹر، Chief Justices of 2644Supreme Court and the High Courts. I am not talking of the other Justices. (ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، میں دوسرے جسٹسز کی بات نہیں کر رہا) چیف الیکشن کمشنر کا وہی حلف ہو جو ایک مسلمان کا ہوتا ہے۔ Chief of the Armed Froces (چیف آف آرمڈ فورسسز)، (اپوزیشن کی طرف سے نعرہ ہائے تحسین) اس میں آرمی، ائیرفورس اور نیوی کے چیف آف سٹاف شامل ہوں گے۔ ان کا حلف وہی ہوگا جو ایک مسلمان کا ہوتا ہے تو میں ان گزارشات کے ساتھ آپ کی وساطت سے تمام ہاؤس سے اپیل کرتا ہوں کہ ان گزارشات پر ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں اور صحیح فیصلہ صادر فرمائیں۔ (اپوزیشن کی طرف سے نعرہ ہائے تحسین) (مداخلت)
Mr. Chairman: (To Malik Mohammad Jafar), How long will you take?
(جناب چیئرمین: (ملک محمد جعفر سے) آپ کتنا وقت لیں گے؟)
ملک محمد جعفر: تھوڑا سا۔
جناب چیئرمین: اندازاً کتنا؟
ملک محمد جعفر: نہیں، میں کوئی غیرضروری بات نہیں کروں گا۔
جناب چیئرمین: میں نے کب کہا ہے۔
ملک محمد جعفر: میں عرض کرتا ہوں یہ نہیں کہہ سکتا، لیکن ہوسکتا ہے بیس تیس منٹ لگ جائیں۔میرا خیال ہے کہ آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت نہیں لگے گا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب ملک محمد جعفر کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
جناب عالی! اس وقت جب کہ آج پانچ تاریخ ہوگئی ہے اور اس مہینے کی سات تاریخ کو ہماری طرف سے عوام کے سامنے عہد ہے Commitment (کمٹمنٹ) ہے کہ اس مسئلے کا فیصلہ اس تاریخ تک ہو جائے گا، میں نہایت ادب سے گزارش اپنے معزز اراکین سے کرتا ہوں کہ مجھے تو بہت احساس ہے۔ لیکن جس طریقے پر جو ممبر صاحب تقریر کر رہے تھے، ہم 2645اس کو سن رہے تھے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت کو وہ احساس نہیں ہے کہ عوام اس ہاؤس کے باہر کس بے چینی اور اضطراب سے آپ کے اس فیصلہ کا انتظار کر رہے ہیں اور آپ اس مرحلے پر پہنچے ہوئے ہیں کہ آپ نے ایک دو دن میں فیصلہ کرنا ہے۔ اس حالت میں یہ طریقہ کم ازکم نہیں ہونا چاہئے کہ اتنا سنجیدہ مسئلہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ کئی پہلوؤں سے شاید یہ آئین سے بھی زیادہ سنگین مسئلہ ہے۔ ہمارے سامنے ایک بڑا اہم مسئلہ ہے۔ کیونکہ آئین میں تو ردوبدل ہوسکتا تھا لیکن اس وقت پاکستان میں میرے نزدیک سب سے اہم مسئلہ جس کا آپ نے فیصلہ کرنا ہے اور جو آپ نے دو دن کے اندر فیصلہ کرنا ہے۔ اس ذمہ داری کو سامنے رکھتے ہوئے گزارش کروں گا کہ آپ کے سامنے جو قراردادیں ہیں ان پر نہایت سنجیدگی سے غور کیجئے۔ ہمیں جو انفارمیشن، شہادت جرح میں پیش ہوئی ہے، حاصل ہوئی ہے، اس پر غور کریں اور جو مسائل اس مسئلے سے متعلق ہیں اوراس سے پیدا ہوسکتے ہیں ان پر غور کیجئے۔ میں چند معروضات کروں گا اس خیال سے شاید اس سے فیصلہ کرنے میں امداد ہو جائے۔ مجھ سے بہت بڑے بڑے عالم اس دینی مسئلے کے متعلق زیادہ جانتے ہیں۔ لیکن اس میں سیاسی اور قانونی پہلو بھی ہیں۔ اس لئے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔
سب سے پہلے تمہید کے طور پر میں یہ گزارش کروں گا کہ جب یہاں بحث چل رہی تھی، بیان ہورہے تھے، جرح ہورہی تھی، تو ہم ممبر صاحبان میں بھی اور باہر بھی بڑا پروپیگنڈہ ہورہا تھا اور مختلف پروپیگنڈے کے طریقے ہیں۔ میں اپنے دوستوں سے اور وکلاء سے لاہور میں ملتا رہا ہوں۔ اس کے متعلق میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ اس نوعیت کے پروپیگنڈے سے آئین کو اور پاکستان کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس کے متعلق بہت سے خطوط باہر سے آئے ہیں جن میں یہ باتیں لکھی ہوئی ہیں۔
2646سب سے پہلے ایک سوال اٹھایا گیا اور بیان میں بھی یہ بات آئی ہے، دوسرا پروپیگنڈہ بھی ہورہا ہے۔ کسی ملک کی پارلیمنٹ دینی مسئلہ کے متعلق پہلے تو یہ کہاگیا کہ قانونی طور پر ہم مجاز نہیں کہ فیصلہ کریں۔ اٹارنی جنرل صاحب کے سوال سے صاف واضح تھا کہ قانون ہم بناسکتے ہیں۔ جس آرٹیکل پر ہم انحصار کرتے ہیں اس میں لکھا ہے آزادی مذہب اور مذہب کے پھیلانے کے لئے مذہبی ادارے بنانے کی، وہ قانون کے تابع ہیں۔ قانون پارلیمنٹ بناسکتی ہے۔ یہ محدود قانونی پہلو ہے۔ لیکن جس بات پر زور دیا جارہا ہے وہ یہ ہے اور اخلاقی لحاظ سے اور جو مسلمہ اخلاقی اقدار مہذب دنیا میں ہیں، ان کی موجودگی میں کیا ایک قومی اسمبلی کو جو منتخب ہوئی ہے ملک کا کاروبار چلانے کے لئے، تمام قانون بنانے کے لئے یہ حق اخلاقاً پہنچتا ہے کہ مذہبی معاملات کا فیصلہ کرے؟ اس کے ساتھ اس بات پر بھی بڑا زور دیا جارہا ہے کہ ایسا نہ کیجئے۔ آپ ایسا فیصلہ نہ کریں جس سے آپ مہذب دنیا میں بدنام ہو جائیں اور باقی اقوام کیا کہیں گی، لوگ کیا کہیں گے۔ یہ کتنے Reactionary (رجعت پسند) ہیں اور کتنی صدیاں پہلے کے سوچ والے یہ پاکستانی عوام ہیں، یہ کیا کر رہے ہیں، یہ لوگوں کے مذہب کا فیصلہ کر رہے ہیں۔ میرے نزدیک اس قسم کے پروپیگنڈے کا مقصد یہ ہے کہ ممبران کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ اس معاملے کا فیصلہ کرنے سے باز رہیں۔ یا فیصلہ اگر کریں تو وہ اس طرح کا ہو جس پر ہمارے عوام تو مطمئن نہیں ہوتے۔ لیکن شاید باہر کی دنیا کے لوگ مطمئن ہو جائیں۔ اس لئے ہمیں خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے۔ اس پروپیگنڈے کی میرے نزدیک اس لئے قطعاً کوئی وقعت نہیں ہے۔ کیونکہ ہر ملک کے اپنے حالات ہوتے ہیں۔ ہماری اپنی ایک تاریخ ہے۔ اس میں بہت سے عوامل ہیں۔ اس لئے ہمیں بہت سے ایسے کام کرنا پڑتے ہیں۔ ہمارا آئین اور قانون درست ہے۔ لیکن مغربی ممالک کے لوگوں کی سمجھ میں شاید نہ آئیں۔ اگر یہ بات 2647اب تک مغربی ممالک کے لوگوں اور مفکروں کی سمجھ میں نہیں آئی کہ کس طرح ملک کی اساس مذہب ہوسکتی ہے۔ لیکن کیا ہم ان کے اس مؤقف کے باعث یا ان کو خوش کرنے کے لئے اپنا مہذب ہونا ان کے سامنے ثابت کرنے کے لئے یہ بات چھوڑ دیں کہ ہمارے ملک کی بنیاد، ہماری ریاست کی بنیاد مذہب ہے۔ وہ تو ہم نے اپنے آئین میں لکھا ہوا ہے اور پھر یہ کہ ہم یہ فیصلہ کر سکتے ہیں یا نہیں۔ یہ تو ہم پہلے کر چکے ہیں۔ ہم نے آئین میں پہلے تو یہ فیصلہ کم ازکم دو عہدوں کے متعلق ایک اصول قائم کیا ہے۔ ان میں سے ایک کم ازکم ایک پہلو سے، دوسرا دوسرے پہلو سے بہت اہم ہیں۔ صدر کا تو اس لئے ہم نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک مملکت کا سمبل ہے۔ کیونکہ اسلامی مملکت ہے۔ اس لئے صدر کو مسلمان ہونا چاہئے اور وزیراعظم کا میرے خیال میں اتنا بااختیار عہدہ ہے، پاکستان میں تو کوئی نہیں، اور ممالک کی جمہوریت سے بہت زیادہ بااختیار عہدہ وزیراعظم کا ہوتا ہے اور ان کو اتنے اختیارات دئیے ہوئے ہیں۔ اس لئے وہ بھی مسلمان ہونا چاہئے۔
----------
[At this stage Mr. Chairman vacated the Chair which was occupied by (Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi).]
(اس مرحلے پر جناب چیئرمین نے کرسی صدارت کو چھوڑا جسے ڈاکٹر بیگم اشرف خاتون عباسی نے سنبھالا)
----------

 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مدعی نبوت… بدقسمت)
ملک محمد جعفر: تو میں جناب والا! عرض کر رہا تھا کہ دو عہدوں کے متعلق ہم نے آئین میں فیصلہ کر لیا ہے کہ اس کے لئے مسلمان ہونا ضروری ہے۔ ان کی اہمیت کے پیش نظر۔ لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وجہ تھی ہم نے یہ کافی آئین میں نہیں سمجھا کہ صدر اور وزیراعظم لازماً مسلمان ہوں گے۔ مسلمان تو ایک معروف لفظ ہے۔ یہ ہر کوئی جانتا ہے۔ لیکن آئین سازی کے وقت ہمیں یہ ضرورت پیش آئی ہے کہ ان کے لئے خاص حلف مقرر کریں، پاکستان کے اپنے حالات کے پیش نظر، اور اس میں واضح طور پر ختم نبوت کا تصور لائے اور ختم نبوت پر ایمان ہو، تو پھر یہ بھی کافی نہیں سمجھا گیا۔ اس 2648کی مزید وضاحت کے لئے ساتھ یہ الفاظ بھی شامل کئے گئے ہیں کہ وہ شخص حلف اٹھائے کہ میں ختم نبوت پر یقین رکھتا ہوں۔ Finality of Prophethood پر، اور یہ کہ حضور ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور اب ہم فرانس اور انگلینڈ کے لوگوں کو یہ سمجھانے جائیں کہ وہ مسلمان کیوں رکھا ہے، ختم نبوت کو کیوں لائے ہیں کہ ان کے بعد نبی نہیں آئے گا۔ اس لئے کہ بدقسمتی سے وہ مدعی نبوت ہمارے پاکستان کے ایک حصہ میں پیدا ہوا۔ اس کی جماعت یہاںموجود ہے۔ نہ یہ فرانس میں ہے اور نہ انگلینڈ میں، نہ ان لوگوں کے مسائل ہیں۔ تو میرا کہنے کا مقصد یہ تھا کہ فیصلہ کرتے ہوئے ہمیں قطعاً اس بات سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے ہمارے فیصلے۔ بیرونی رائے عامہ کا احترام کرتا ہوں، وہ ضروری ہے، لیکن وہ اس مسئلے کو نہیں سمجھ سکتے۔ ان کے مسائل یہ نہیں۔ ہمارا اپنا مسئلہ ہے۔ ہمیں اس بات سے قطعاً خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے۔ پہلی بات تو یہ ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(قادیانی انتہاء پسند)
دوسری گزارش یہ ہے کہ ایک اور پروپیگنڈہ یہ ہے کہ اگر احمدیوں کے خلاف… میں یہاں وضاحت کردوں میں ان کو ’’احمدی‘‘ کہوںگا۔ یہاں اعتراض کیا گیا کہ مفتی صاحب نے ’’احمدی‘‘ کا لفظ استعمال کیا تھا۔ جو کسی جماعت یا کسی کا نام ہو، وہ ضروری نہیں کہ ہم ان کا وہ مقام سمجھیں۔مثلاً یہود جو ہیں صحیح یہود نہیں۔ عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیم پر نہیں۔ وہ چونکہ اپنے آپ کو ’’احمدی‘‘ کہتے ہیں، میں ان کو ’’احمدی‘‘ کہوں گا… ایک یہ خطرہ پیش کیا جارہا ہے کہ اگر ہم نے کوئی ایسی کارروائی احمدیہ جماعت کے خلاف کی، ایک فرقے کے خلاف یا دونوں کے خلاف، تو یہ بہت طاقتور ہیں۔ ایک تو ملک میں تخریبی کارروائی ہوگی۔ کیونکہ وہ Organised (منظم) ہیں۔ ان کے پاس پیسہ ہے، ان کی بڑی تنظیم ہے اور Fanaticism (شدت پسندی) میں کسی سے ملک کے اندر کم نہیں۔ ملک کے اندر خطرات ہیں، تخریب کاری ہے۔ اب یہ سمجھیں گے کہ ہمارا اس ملک میں کوئی مقام نہیں، ہمیں تو انہوں نے غیرمسلم قرار دے دیا ہے اور پھر باہر کے ممالک میں 2649جہاں ان کی جماعتیں ہیں وہاں ہمارے خلاف خطرناک قسم کا ردعمل ہوگا۔ میں نے عرض کیا تھا کہ جو پہلے تحریک ہے۔ اس سے ہمیں خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ لیکن یہ جو دوسری بات بیان کی جارہی ہے کہ یہ میرے نزدیک ایسی ہے کہ جس کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔ لیکن اسی ضمن میں،میں اب جب ذکر کروں گا اپنی قرارداد کا تو پھر میں گزارش یہ کروں گا کہ میں نے اپنی قرارداد میں جو بنیادی بات بیان کی ہے اور جس کا اب یہاں ایک ممبر صاحب نے بھی ذکر کیا ہے، وہ یہ ہے کہ آپ ان کی تنظیم کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ تمام خطرات جو ہیں، وہ اس بات پر مبنی ہیں کہ منظم جماعت ہے اور اس کی خلاف ہے اور اس کے حکم کے وہ پابند ہیں، اس کے اشارے پر وہ چلتے ہیں۔ اس کے متعلق غور کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کیسے چل رہے ہیں۔ وہ قیادت اس کی جائیداد پر ہے تو اس کے متعلق میں عرض کروں گا کہ اگر آپ میری وہ تجویز منظور کریں، یا کچھ تبدیلی کے ساتھ، تو پھر یہ جو دوسرا خدشہ بیان کیا جارہا ہے، میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ یہ ختم ہو جاتا ہے، لیکن کم سے کم رہ جائے گا۔ یہ جناب! میں نے تمہیداً عرض کیا تھا۔ میں نے گزارش یہ کی ہے کہ نہایت سنجیدگی سے ان امور پر غور کریں اور دوسرا یہ ہے کہ اس پروپیگنڈہ سے قطعاً متاثر نہ ہوں۔ کیونکہ ہم اگر فیصلہ کرنے والے ہیں تو اس کا باہر کی دنیا میں کیا اثر ہوگا۔ وہ ہمیں مہذب سمجھیں گے یا نہیں۔ میں نے جیسا کہ عرض کیا وہ تو ہمیں اس لئے بھی مہذب نہیں سمجھتے کہ ہم نے مذہب کی بنیاد پر ملک بنایا ہے۔ ان باتوں کو ذہن سے نکال کر آئیے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(اجماع)

اب میں قراردادوں پر کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس بات پر تو اب اجماع (Consensus) ہے کہ محمد رسول اﷲ ﷺ کے بعد جو آدمی کسی نبوت پر ایمان رکھتا ہو، کسی آدمی کو نبی مانتا ہو، وہ مسلمان نہیں اور جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے یہ اب 2650اجماع نہیں ہوا، بلکہ یہ آئین میں ہی ہوچکا تھا۔ کیونکہ آئین میں صرف دو عہدوں کے لئے ہم نے کہا ہے کہ ان کے لئے مسلمان ہونا لازمی ہے، اور ان دونوں عہدوں کے لئے حلف وہ تجویز کیا ہے جس میں یہ وضاحت ہوگئی ہے۔ وہ حلف اٹھا کر کہے کہ میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ محمد رسول اﷲ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ گویا براہ راست نہیں تو بالواسطہ (Indirectly) ہم نے مسلمان کی تعریف پہلے ہی آئین میں دی ہوئی ہے۔ اب صرف یہ ہے کہ جو فیصلہ ہم آئین میں کر چکے ہیں اس کی مزید وضاحت کر دی جائے، جب کہ ابھی وہ دو عہدوں کے متعلق ہے، اس کو عمومی شکل دے دی جائے کہ جہاں کہیں ’’مسلمان‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور آئین میں تو خیر کسی عہدے کے لئے ضروری نہیں ہے۔ لیکن اور عام قوانین میں، مثلاً مسلم فیملی لاز آرڈیننس ہے، وراثت کا عام قانون ہے، بلکہ اگر فقہ کو توسیع دینی ہے، تو اس میں شفعہ کا قانون بھی آئے گا، یہ سارے آئیں گے۔ کیونکہ اسلامی قانون میں مسلمانوں اور غیرمسلموں کے حقوق میں ایک امتیاز رکھا گیا ہے۔ ان کے باہمی تنازعات میں خاص قواعد مقرر ہیں۔ اگر ان کو جب نافذ کرنا ہوگا تو پہلے یہ فیصلہ کیا جائے کہ کوئی شخص مسلمان ہے یا نہیں۔ اب یہ کہ ایک شخص مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو کیوں اس کو مسلمان نہ سمجھا جائے۔ بظاہر یہ بات بھی ہمارے تعلیم یافتہ بعض آدمیوں کو بڑی اپیل کرتی ہے کہ ٹھیک ہے صاحب! گزارش اس میں یہ ہے کہ ہماری کوئی تعریف ایسی نہیں کہ کوئی آدمی کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں تو ہم اس کو اس بات سے روکیں کہ وہ یہ نہ کہہ سکے کہ میں مسلمان ہوں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ایک شخص مثلاً زید کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں۔ اس کا بکر کے ساتھ ایک تنازعہ ہے، مثلاً وراثت کا تنازعہ ہے۔ بکر انکار کرتا ہے۔ زید کا یہ دعویٰ غلط ہے۔ یہ محمد رسول اﷲ ﷺ کے بعد نبی کو مانتا ہے۔ اس لئے مسلمان نہیں ہے۔ اب یہ زید کا تنہا ذاتی معاملہ نہیں، یہ 2651دوسرے کے ساتھ تنازعہ کا معاملہ ہے۔ وراثت کا معاملہ ہے۔ شفعہ کا معاملہ ہے اور قوانین کے متعلق معاملہ ہے۔ اس میں پھر اس آدمی کا فیصلہ قطعی نہیں ہوتا۔ معاملہ عام طور پر عدالتوں میں جاتا تھا۔ لیکن ہم عدالتوں میں لے جانے کی بجائے قانون میں یہ وضاحت کرنا چاہتے ہیں۔ عدالتیں تو قانون کی تعبیر کرتی ہیں۔ اس لئے قرارداد میں ایک تجویز، جو میں پڑھ کر سناتا ہوں، یہ ہے کہ آئین میں جس اصول کا فیصلہ کیا جاچکا ہے۔ اس کی وضاحت کر دی جائے اور اس کو وسعت دے دی جائے، اپنے اطلاق کے لحاظ سے، اور وہ تمام قوانین پر حاوی ہو کہ جہاں کہیں ’’مسلمان‘‘ کا لفظ، اب استعمال ہوا ہے یا آئندہ جو قوانین ہم بنائیں گے، کیونکہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ فقہ کے اثر کی توسیع کرنی ہے، زیادہ سے زیادہ معاملات پر حاوی کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ زیادہ قوانین میں مسلمان کی وہ شرط آئے گی۔ تو ہر جگہ یہ سمجھا جائے کہ جو آدمی ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتا، وہ مسلمان نہیں ہے۔ لیکن یہاں جناب! اب ایک اور معاملہ پیش آگیا ہے۔ پھر یہ پیچیدگی حاصل کر گیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہم نے کہا حلف، اور تجویز اب یہ ہے کہ حلف کے مطابق ہی عام Definition (تعریف) کر دی جائے۔ لیکن حلف میں یہ لکھا ہے کہ وہ شخص جو ختم نبوت پر یقین رکھتا ہو اور یہ کہ محمد رسول اﷲ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔ تو یہاں ایک تو آپ کے سامنے شہادت آئی ہے، بیان آئے ہیں۔ اس سے یہ بات نکلی کہ کم ازکم لاہوری جماعت والے دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم مرزاغلام احمد کو نبی نہیں مانتے۔ بلکہ مرزاغلام احمد نے نبوت کا دعویٰ ہی نہیں کیا۔ بلکہ اس حد تک کہا ہے کہ جو نبوت کا دعویٰ کرتا ہے وہ لعنتی ہے۔ تو اس حلف کے مطابق بھی لاہوری جماعت والے تو پھر دائرہ اسلام سے خارج متصور نہیں ہوتے، وہ مسلمان ہی سمجھے جائیں گے، کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نبی نہیں مانتے اور خود ربوہ والوں کا معاملہ بھی اب پیچیدہ صورت میں ہے۔ کیونکہ اگر الفاظ یہ ہیں کہ ختم نبوت 2652میں ایمان رکھتا ہوں اور یہ کہ محمد رسول اﷲ ﷺ کے بعد نبی نہیں آئے گا۔ اب ذہنی تحفظ کے ساتھ، Mental reservation (ذہنی تحفظ) جو ہوتی ہے، وہ ہوسکتا ہے کہ ربوہ والا احمدی بھی حلف اٹھالے، یا عدالت میں معاملہ جائے تو وہ کہے کہ جناب! یہاں لکھا ہے کہ نبی نہیں آسکتا، تو اس سے تو مراد، جو حوالے سارے پیش ہوئے ہیں، نبی سے مراد تو ہمیشہ نیا نبی ہوتا ہے۔ جدید شریعت والا نبی ہوتا ہے۔ جو مستقل نبی ہو وہ ہوتا ہے۔ تو پھر بھی معاملہ تشریح طلب رہ جاتا ہے تو میں نے دیکھا ہے کہ گو میری اپنی قرارداد میں یہ بات نہیں تھی۔ لیکن یہاں جو بیان ہوا ہے اور جرح ہوئی ہے، اس سے میں نے یہ تاثر لیا ہے کہ غالباً جو اپوزیشن کے بعض ممبروں کی طرف سے قرارداد میں یہ بات آئی ہے کہ مرزاغلام احمد صاحب کے متعلق واضح طور پر یہ کہہ دیا جائے کہ ان کے ماننے والے مسلمان نہیں ہیں۔ ویسے یہ عجیب بات معلوم ہوتی ہے کہ ہم ایک شخص کا نام لکھیں۔ لیکن پھر کیا کریں۔ ہمارا مسئلہ ہی ایسا ہے کہ یہاں ایک شخص نے دعویٰ کیا، کچھ دعویٰ کیا اور صورت یہ پیدا ہوئی کہ اس دعویٰ کے بعد پچاس ساٹھ سال گزرنے کے باوجود اس کے ماننے والے اب تک یہ طے نہیں کر سکے کہ ان کا دعویٰ کیا تھا۔ بلکہ اس ضمن میں علامہ اقبال کا ردعمل بڑا مناسب ہوگا۔ انہوں نے پہلی دفعہ کہا تھا، یہاں بیان بھی کیا گیا ہے کہ انہوں نے مرزاغلام احمد کی تعریف کی تھی۔ وہ ٹھیک ہے۔ ۱۹۱۱ء میں انہوں نے کہا تھا۔ بعد میں شدید مخالف ہوگئے اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ پنڈت نہرو سے ان کا ایک مناظرہ چل نکلا۔ انہوں نے دو تین مضامین لکھے۔ پھر کسی نے سوال کیا کہ آپ نے پہلے تو ان کی اتنی تعریف کی تھی اور اب آپ ان کے مخالف ہوگئے ہیں۔ ویسے انہوں نے بہت مفصل جواب دیا ہے۔ لیکن اس ضمن میں اپنی پوزیشن کی وضاحت کے لئے انہوں نے یہ جواب دیا تھا کہ بھائی دیکھو! میں انسان ہوں۔ میں اپنی 2653رائے تبدیل کر سکتا ہوں، اور اس تحریک کے جو نتائج ہونے تھے اور اس کے بانی کے جو دعاوی تھے، اس وقت اس کے متعلق میرا پورا علم نہ تھا۔ پھر انہوں نے کہا کہ دیکھو! میں ایک Outsider (جماعت احمدیہ سے باہر ایک فرد) ہوں۔ تو مجھے کیسے پتا چل سکتا تھا۔ جب کہ خود ان کے ماننے والے آج تک جھگڑ رہے ہیں کہ انہوں نے (کیا) دعویٰ کیا تھا۔ لیکن اب ہمارے سامنے بہت میٹریل آچکا ہے اور اس میٹریل کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں، یعنی اس کا فیصلہ کرنے کے قابل ہیں کہ خواہ یہ کچھ دعویٰ کرتے رہیں، لاہوری جماعت والے اور ربوہ والے، لیکن اتنی بات واضح ہے کہ مرزاغلام احمد نے نبوت کا دعویٰ ضرور کیا ہے اور اب اس کی کوئی تاویل کر دی جائے، خواہ نبوت کسی تاویل کے ساتھ ہو، خواہ کسی رنگ میں ہو، خواہ وہ ظلی ہو، بروزی ہو، غیرمستقل ہو، غیرتشریعی ہو، جس طرح بھی ہو، امتی ہو، اس کو عقیدۂ ختم نبوت کے منافی سمجھتے ہیں اور ہم ہیں عوام کے نمائندے۔ پاکستان کے عوام اس بات میں کوئی تمیز نہیں کرتے۔ وہ اس بات کو سوچنے کے لئے تیار نہیں کہ مرزاغلام احمد صاحب محدث تھے اور محدث ہیں تو جائز ہیں یا مجدد تھے۔ کیونکہ آپ کے سامنے تو سارا میٹریل آچکا ہے۔ اصل بات یہ ہے، میں نے تو کچھ مطالعہ بھی کیا ہوا ہے، وہ ٹھیک ہے، انکار بھی کرتے رہے ہیں نبوت سے اور پھر دعویٰ بھی کرتے رہے ہیں۔ مقاصد ان کے سامنے دو تھے اور وہ ایک دوسرے کی ضد تھے۔ ایک طرف وہ چاہتے تھے کہ مستقل بنیاد پر اپنی ایک جماعت قائم کر لیں، اور جس مشن کو مرزامحمود احمد نے بہت آگے بڑھایا، علیحدہ جماعت قائم کر دیں۔ جس کا تعلق ان کے مریدوں کا ان کے ساتھ ایسا ہو کہ جو نبی کے ساتھ ان کے پیروؤں کا ہوتا ہے۔ ایک طرف وہ یہ چاہتے تھے۔ اس لئے انہوں نے اپنے لئے نبی کا لفظ استعمال کیا، باربار کیا۔ لیکن پھر ساتھ ہی عوام میں مخالفت بڑھ گئی۔ علماء سارے ان کے خلاف ہوگئے۔ کہیں جا نہیں سکتے تھے۔ سفر نہیںکر سکتے تھے تو پھر لوگوں سے ڈر 2654کر انہوں نے کہا کہ جہاں کہیں یہ لفظ آیا ہے اسے محدث سمجھ لیں۔ یہ نہیں کہ اس کو کاٹ کر وہ کر دیں۔ اس کو کٹا ہوا سمجھیں۔ یعنی رہے وہی کتاب میں، نبی رہے، لیکن سمجھا جائے کہ محدث ہے۔ لیکن اس کے بعد پھر نبی کا دعویٰ کیا، پھر نبی اپنے متعلق لکھا۔ تو دو مقاصد تھے اور ویسے عجیب بات ہے مسلمانوں کی اس کم علمی کی کہ وہ ان دونوں مقاصد میں ایک حد تک کامیاب ہوگئے اور اس ضمن میں بڑی دلچسپ بات میرے خیال میں وہ میاں عبدالمنان صاحب نے کہی کہ وہ بعض لوگوں کو غلط فہمی لگتی تھی، بعض کو نہیں لگتی تھی۔ تو انہوں نے دونوں کو تسلی دینے کے لئے جن کو غلط فہمی ہوتی تھی ان کو کہا کہ ان کو سمجھا جائے کہ وہ نبی نہیں ہیں، جن کو نہیں ہوتی وہ نبی سمجھتے رہیں۔ لیکن میں یہ کہتا ہوں یہ تو ایک مناظرہ ہے ان کے درمیان۔ ہمارے پاس میں سمجھتا ہوں جتنا مواد آچکا ہے اور بات اتنی واضح ہوگئی ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر پاکستان کے عام مسلمان ان میں کوئی تفریق نہیں کرتے، لاہوری جماعت اور ربوہ والی جماعت میں، تو اس مواد کی بنیاد پر جو ہمارے سامنے پیش ہوا ہے میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے عام مسلمان درست کہتے ہیں۔ لیکن اب اس کو ہم کیسے کہیں کہ لاہوری جماعت سے تعلق ہے تو اس کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جہاں یہ چیز آرہی ہے ان قراردادوں میں کہ میں کسی نبی کو نہیں مانتا تو ایک مرزاغلام احمد صاحب کا نام بھی لکھا جاسکتا ہے۔ اب بات اس میں بڑی اصل میں سنگین ہوجاتی ہے۔ کیونکہ یہ ایک کوئی ولی اﷲ یا پیر ہونے کا مدعی ہو تو ٹھیک ہے، کوئی اس کو مان لیتا ہے، کوئی اس کو نہیں مانتا۔ لیکن جو نبوت کا دعویٰ کرتا ہے وہ ایک بہت سنگین، شدید معاملہ ہے۔
اس ضمن میں جناب! میں ایک اور بات عرض کروں گا۔ وہ میرے ذہن میں تھی ابتداء میں کہنے کی، لیکن پھر بھول گیا ہوں کہ ایک پروپیگنڈہ یہ بھی ہورہا ہے کہ اگر اس 2655طریقے پر آپ مذہبی امور کے فیصلے کرنے شروع کر دیں گے تو ایک فتنے کے بہت سے دروازے کھول دیں گے۔ مثلاً کہا جارہا ہے کہ اگر احمدیوں کے خلاف یہ کارروائی کی گئی تو پھر مثلاً شیعہ جو ہیں، یہاں اقلیت میں ہیں۔ پھر ان کے خلاف ہو گا۔ اہل حدیث کے خلاف ہوگا۔ یہاں کچھ اہل قرآن بھی ہیں اور احمدیہ جماعت کی طرح سے خاص طور پر اسماعیلی فرقے والے ہیں۔ ان کی طرف سے اس بات پر زور دیاگیا ہے۔ انہوں نے بہت ہی دل آزار قسم کا… میرا دل تو بہت ہی دکھا ہے کہ انہوں نے وہ حوالے پیش کئے ہیں کہ جناب فلاں شیعہ عالم نے سنیوں کے متعلق یہ لکھا ہے، سنیوں نے شیعوں کے متعلق یہ لکھا ہے۔ اہل حدیث نے دوسروں کے متعلق یہ لکھا ہے۔ وہ یہاں پیش کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ کیونکہ یہاںمختلف مکتب فکر کے لوگ موجود ہیں۔ لیکن ان کا پوائنٹ یہ تھا کہ ایک تو یہ کہ یہ اختلافات تو موجود ہیں۔ پہلے تو، ہمارا بھی ایک اختلاف ہے اور دوسرا ایک اور خوف پیدا کرنا چاہتے تھے ملک میں، کہ اگر ایک دفعہ احمدیوں کے خلاف یہ کارروائی ہوئی تو پھر کسی کو اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھنا چاہئے۔ پھر دوسرے ہر فرقے کے خلاف ہوگا تو اس ضمن میں جناب! یہ گزارش کروں گا کہ یہ بات بھی غلط ہے۔ آخر دیکھئے کہ کیا وجہ ہے کہ کہتے ہیں ۷۲فرقے ہیں۔ میں نہیں جانتا ۷۲ہیں۔ شاید کم ہوں یا زیادہ ہوں۔ لیکن یہ اختلاف کی صورت جو احمدی جماعت کے متعلق پاکستان میں مسلمانوں کی باہمی ایک ایسی صورت ہے کہ جس میں Co- Exist (وہ اکٹھے نہیں رہ سکتے) نہیں کر سکتے۔ پولیٹکلی اور مذہبی یا اور لوگوں کے درمیان کیوں پیدا نہیںہوئی، شیعوں کی اور سنیوں کی کیوں پیدا نہیں ہوئی باوجود بہت بڑے اختلاف کے اور یہاں جناب! میں یہ عرض کروں گا کہ اگر ظاہری چیز کو دیکھا جائے تو اس میں اب جناب! احمدی ہیں۔ یہ حنفی فقہ کو اپناتے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ ہم حنفی فقہ کو مانتے ہیں۔ نماز حنفی طریقے سے پڑھتے ہیں، 2656روزہ بھی اسی طریقے پر، زکوٰۃ کے اسی طریقے پر قائل ہیں، حج بھی کرتے ہیں بعض، چلئے ٹھیک ہے۔ تو شیعوں کے بہت اختلافات ہیں۔ نماز کے طریقے میں۔ بلکہ مجھے تجربہ ہوا کہ روزہ بھی وہ کچھ درمیان میں وقت کا فرق ہے، بعد میں افطار کرتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ بہت اختلاف ہیں خلافت کے متعلق۔ تو یہ کیا وجہ ہے۔ جناب! اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ختم نبوت کے اختلاف کو سارے عرصے میں ۱۴سوسال میں ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے، اور اس کا کوئی مقابلہ نہیں دوسرے اختلافات سے، اس لئے کہ نبی اور نبوت یہ مذہبی اصطلاح کا لفظ ہے، یہاں لغت کا معنی نہیں ہے جیسے کہ یہاں کہاگیا۔ جناب! کہ مولانا روم نے یہ کہا کہ اس کے لغوی معنی یہ ہیں۔ وہ نہیں ہے۔ یہ ٹیکنیکل، اصطلاحی چیز ہے۔ مذہبی اصطلاح میں، اور اہل کتاب جو ہیں ان کا جہاں نبوت کا ذکر ہے نبوت سے ہمیشہ یہ مراد لی گئی کہ کوئی آدمی جب ایک دعویٰ کرتاہے وحی کا، لیکن وہ تنہا وحی کا دعویٰ نہیں، اس وحی کے دعوے کی بنیاد پر اس کی علیحدہ جماعت قائم ہو جاتی ہے۔ اس کو ہمیشہ نبی کی امت کہاگیا ہے اور اس کے علاوہ دوسرے جتنے اختلافات ہیں وہ اور نوعیت کے ہیں۔ اس لئے میں کہتا ہوں جناب! کہ اس میں بالکل ڈرنا نہیں چاہئے۔ یہ خوف بھی نہیں ہونا چاہئے کہ یہ ایک فتنے کا دروازہ کھل جائے گا۔ نبوت کا مسئلہ ہی اور ہے، اور وہ اختلافات جو ہیں وہ بالکل علیحدہ ہیں۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی سوسائٹی بڑی لبرل سوسائٹی ہے۔ مسلمان بہت لبرل ہیں۔ انہوں نے یہ تمام اختلافات دیکھے۔ ۱۴سوسال میں کون کون سا فرقہ پیدا نہیں ہوا۔ اب ان کے جو اختلافات ہیں ان میں میں نہیں جاتا۔ لیکن اتنے شدید اختلافات ہوئے اور فرقے پیدا ہوئے۔ لیکن کہیں یہ تحریک نہیں چلی کسی سوسائٹی میں کہ فلاں جو ہیں ان کو غیرمسلم قرار دیا جائے۔ ان کو کیوں غیرمسلم قرار دے دیں؟ وہی نبوت کا معاملہ ہے۔ اگر 2657نبوت کا دعویٰ نہ ہوتا مرزاغلام احمد صاحب کا اور وہ مذہبی راہنما ہوتے اور بہت اختلافات ان کے پیدا ہو جاتے، نماز، روزے میں بھی ہوتے۔ سب چیزوں میں بھی ہوتے، پھر یہ صورت پیدا نہ ہوتی۔ مثلاً جناب! میں یہ عرض کروں گا کہ یہ نہیں ہے کہ یہ کوئی Reactionary (رجعت پسند) بات ہے۔ عیسائیوں کی مثال آپ دیکھیں، عیسائیوں کا بھی عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ نے دوبارہ آنا ہے۔ یہ مشترکہ ہے مسلمانوں کا اور عیسائیوں کا کہ انہوں نے دوبارہ آنا ہے۔ فرض کیجئے اور اختلافات عیسائیوں میں بھی ہیں۔ بہت فرقے ہیں۔ بڑے جو مشہور ہیں رومن کیتھولک اور پروٹیسٹنٹ کو تو آپ لوگ جانتے ہیں اور بھی بہت سے ہیں۔ لیکن کوئی یہ نہیں کہتا دوسرے فرقے کے متعلق کہ یہ عیسائی نہیں ہیں۔ لیکن فرض کیجئے کہ ایک شخص اٹھتا ہے، پیدا ہوتا ہے عیسائیوں میں اور عیسائیوں کا جو عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ نے دوبارہ آنا ہے، وہ کہتا ہے کہ میں آگیا ہوں، میں وہی عیسیٰ ہوں اور عیسائیوں میںایک آدمی اس کو مان لیتا ہے اور مجھے یقین ہے جناب! کہ وہ بڑے لبرل ہونے کے باوجود تمام دنیا کے عیسائی اس بات پر متحد ہو جائیں گے کہ جو لوگ اس کو مانتے ہیں حضرت عیسیٰ۔ وہ عیسائی نہیں ہیں اور ظاہر ہے کہ جو اس کو ماننے والے ہوں گے اس حضرت عیسیٰ کی دوبارہ آمد پر ایمان رکھتے ہوں گے اور سمجھتے ہیں کہ وہ وہی عیسیٰ ہے وہ دوسرے عیسائیوں کو عیسائی نہیں سمجھیں گے۔ یعنی جو یہاں کہاگیا ہے جناب! کہ احمدی ہمیں کافر سمجھتے ہیں تو اس میں تو میں سمجھتا ہوں بالکل انصاف کی بات ہے، معقولیت کی بات ہے، کہ اگر واقعی نبی آگیا ہے، مسیح موعود آگئے ہیں، مہدی جو ہیں ان کا ظہور ہوگیا ہے، اور وہ مرزاغلام احمد کی ذات میں ہے تو جو لوگ ان کو مانتے ہیں تو پھر وہی مسلمان ہوسکتے ہیں۔ باقی کیسے مسلمان ہوں گے؟ ایک نبی آگیا ہے، پہلے سے اس کی بشارت موجود ہے، قرآن وحدیث اس کی تائید کرتے ہیں، مسلمانوں کا 2658اجماع ہے اور پھر جو نبی کو نہیں مانتے وہ تو ظاہر ہے مسلمان نہیں ہوں گے تو یہ اختلاف جو ہے میں نے عرض یہ کیا ہے کہ اختلاف جو ہے یہ اپنی نوعیت کا ہے اور اس کا مقابلہ دوسرے اختلاف سے نہیں ہوسکتا۔ اس لئے ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ جناب! اگر ہم اس کا فیصلہ کریں گے، احمدیوں کا فیصلہ کریں گے، تو باقی فرقوں کے متعلق بھی ہوگا۔ مجھے یقین ہے کوئی مطالبہ پاکستان میں کسی فرقے کے خلاف پیدا نہیں ہوگا۔
تو اب جناب! میں چند الفاظ عرض کرتاہوں۔ ایک یہ پہلا ریزولیوشن، قرارداد ہے جناب! جس پر ۳۷اراکین کے دستخط ہیں۔ تو تمہید میں تو خیر مرزاغلام احمد کے متعلق وہ ساری بات ٹھیک ہے۔ "Where as this is established...." (’’اب جب کہ یہ بات طے ہوچکی ہے…‘‘) لیکن آخر میں جو تجویز ہے معین وہ یہ ہے کہ: "Now this Assembly do proceed to that the followers of Mirza Ghulam Ahmad by whatever name they are called are not Muslims and that an official Bill be moved in the National Assembly to make necessary amendment." (’’اب اسی اسمبلی کے مطابق مرزاغلام احمد کے پیروکار خواہ وہ کسی بھی نام سے پکارے جاتے ہوں مسلمان نہیں ہیں اور یہ کہ قومی اسمبلی میں باضابطہ طور پر ایک بل پیش کیا جائے تاکہ ضروری ترمیم کی جاسکے۔‘‘)
تو مطلب یہ جناب! کہ یہ کہتے ہیں کہ اس میں یہ وضاحت چاہتے ہیں۔ یعنی ایک وضاحت تو ہوتی ہے اصولی لحاظ سے، بلکہ آج ہی میں ایک دوست سے بات کر رہا تھا تو وہ کہتا تھا کہ اس میں نام کیوں لیتے ہیں اور نبی بھی پیدا ہوں گے۔ میں نے کہا کہ اس کا خطرہ نہ کرو۔ ایک ممبر صاحب ہی کہہ رہے تھے۔ میں نے کہا کہ چودہ سو سال میں کتنے نبی پیدا ہوئے ہیں۔ نبوت کے مدعی؟ ہم نے تو ایک ان کا نام سنا ہے اور ایک ذکر کیا تھا مسیلمہ کذاب کا، انہوں نے کہا تھا تو میں نے کہا کہ یہ کوئی خطرہ نہیں ہے۔ میرے خیال میں اب بہرحال مرزاغلام احمد صاحب کی تاریخ سے جو نتائج پیدا ہوئے ہیں ان کو سامنے رکھتے ہوئے نبوت کا دعویٰ کوئی نہیں کرے گا۔ بہرحال یہ تو ڈرافٹنگ کا 2659معاملہ علیحدہ ہے۔ کس چیز میں کیا جائے۔ آئین میں آئے، کسی قانون میں آئے، وہ اور معاملے ہیں۔ وہ ٹیکنیکل باتیں ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوںکہ اصولاً اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے کسی نہ کسی شکل میں ہمیں یہ بات واضح طور پر کرنی چاہئے اور معاملہ ادھورا نہیں چھوڑنا چاہئے اور وہ واضح طور پر اس طرح ہوسکتا ہے کہ یہ وضاحت قانون کے ذریعہ کر دی جائے کہ بہرحال جو نبی کو مانتا ہے وہ مسلمان نہیں ہے، کسی دوسرے نبی کو۔ لیکن مرزاغلام احمد نے بہرحال نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو اس کے دعوے کو غلط سمجھ کر یا غلط اس کی تاویل کر کے دانستہ یا نادانستہ کوئی ان کو مانتا ہے کسی منصب پر تو وہ بھی مسلمان نہیں ہے۔
اس کے بعد جناب! یہ سردار شوکت حیات صاحب کا ایک تھا۔ اس میں یہ ہے کہ یہ Intrepreation (تعبیر) شامل کی جائے کانسٹیٹیوشن میں:
"Any person or sect that does not subscribe to and believe in the Unity and Oneness of Almighty, the Books of Allah, the Holy Quran being the last of them, Prophethood of Mohammad (peace be upon him) as the last of the Prophets and that there can be no Prophet after him, the Day of Judgement, and the requirements and teachings of the Holy Quran and Sunnah, shall be considered to fall outside the pale of Islam and shall be considered to be a member of a minority community."
(’’ہر وہ شخص یا گروہ جو اﷲتعالیٰ کی وحدانیت، اﷲتعالیٰ کی کتاب قرآن مجید بطور آخری الہامی کتاب، حضرت محمد ﷺ کی نبوت اور آپ ﷺ آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا، قیامت کے دن قرآن مجید اور سنت رسول ﷺ کی تعلیمات اور ضروریات پر ایمان نہیں رکھتے۔ دائرہ اسلام سے خارج اور اقلیتی کمیونٹی کا فرد سمجھا جائے گا۔‘‘)
تو دائرہ اسلام سے خارج ہے تو اس کے متعلق میں وہی عرض کروں گا کہ اصولی طور پر بات وہی ہے جو حلف میں آئی ہے۔ لیکن پھر جھگڑا رہ جاتا ہے اس میں۔ ایک تو میں نے لاہوری جماعت والا ذکر کیا ہے۔ وہ تو بہرحال اس میں نہیں آتے، اور ربوہ والے بھی ۔ پھر اس میں مقدمہ بازی ہوگی اور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ تک جائیں گے کہ جناب! یہ جو Definition (تعریف) کی ہے۔ ہم بھی اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ کیسے ایمان رکھتے ہو اور وہ جو نو (۹) دن اٹارنی جنرل صاحب کے سوالوں کے جواب آئے ہیں، پتہ نہیں دو مہینے 2660ہائیکورٹ میں رٹ پٹیشن میں وہ جرح ہوتی رہے گی۔ تمام کتابیں ’’براہین احمدیہ‘‘ سے لے کر ’’انجام آتھم‘‘ تک پھر وہ وہاں پڑھی جائیں گی عدالتوں میں۔ جب ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے سامنے سب چیز ہے تو اس میں ڈرنے کی کیا بات ہے۔ دیکھئے! اب جب بات سامنے آگئی اور یہ واضح ہوگیا کہ انہوں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے، اب جو ان کو مانتے ہیں۔ ٹھیک ہے، وہ مسلمان نہیں ہیں خواہ وہ ان کو مجدد مانیں۔ یہ تو سردار شوکت حیات صاحب کے متعلق صرف یہ عرض ہے کہ اس میں صرف وہ چیز نہیں آئی جس کا یہ خدشہ ہے کہ بعد میں جھگڑا پیدا ہوگا۔ وہ میں عرض کر چکا ہوں۔
اس کے بعد جناب! میں تھوڑا سا وقت لوں گا۔کیونکہ چند باتوں کا ذکر کرنا ہے جو میرے ریزولیوشن میں ہے۔ اس میں پہلے تو یہی ہے کہ جناب! امنڈمنٹ آف کانسٹیٹیوشن اس میں میں نے لکھا ہے کہ امنڈمنٹ آف دی کانسٹیٹیوشن۔ یہ آرٹیکل نمبر۲ ہے جناب! سٹیٹ ریلجن:
After Article:2, the following explanation should be added:
"Explanation: 'Islam' in this Article and wherever this word is used in the Constitution means the religion which comprises the following essential ingredients and article of belief, namely, Unity and Oneness of Almighty Allah, the Books of Allah, Holy Quran being the last of them, the Prophethood of Mohammad (peace be upon him) as the last of the Prophets, and that there can be no Prophet after him, the Day of Judgement, and the requirements and teachings of the Holy Quran and Sunnah."
(آرٹیکل نمبر۲ کے بعد حسب ذیل وضاحت کا اضافہ کر دیا جائے: ’’وضاحت: اس آرٹیکل میں اور آئین میں جہاں کہیں بھی لفظ ’اسلام‘ استعمال کیاگیا ہے۔ اس سے مراد وہ مذہب ہے جو مندرجہ ذیل لازمی اجزاء اور عقائد پر مشتمل ہو۔ یعنی اﷲتعالیٰ کی وحدانیت اور توحید، اﷲ کی کتابوں پر ایمان، قرآن پاک پر بطور آخری الہامی کتاب کے ایمان، حضرت محمد ﷺ کی نبوت اور ان کے آخری نبی ہونے پر ایمان اور اس پر ایمان کہ ان کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا۔ قیامت کے دن پر ایمان اور قرآن پاک اور سنت کی تعلیمات وضروریات پر ایمان۔‘‘)
یہ دوسرا اس کا حصہ ہے:
"Definition of the word 'Muslim' should be included in Article 260. This definition should be in terms contained in the relevant part of the oath of office in respect of the President and the Prime Minister."
(’’آرٹیکل۲۶۰ میں لفظ ’مسلمان‘ کی تعریف شامل کی جانی چاہئے۔ یہ تعریف صدر اور وزیراعظم کے عہدوں کے حلف کے متعلقہ حصوں کے مطابق ہونی چاہئے۔‘‘)
2661آرٹیکل نمبر۲۶۰ ہے، اس میں عام Definitions (تعریفات) ہیں۔ یہ میں نے اس میں لکھا ہے۔ لیکن میں یہ گزارش کرتا ہوں کہ میں سوچتا رہا ہوں۔ اس میں وہ ذکر نہیں ہے جو میں کہہ چکا ہوں۔ لیکن یہ آخر ساری کارروائی ہوتی رہی۔ اس سے بھی ہم نے استفادہ کرنا تھا تو اب میں سمجھتا ہوں کہ یہ ناکافی ہے اور وہ چیز لازماً اس میں نہیں آتی تو کسی اور قانون میں کسی اور شکل میں، لیکن وہ آجانی چاہئے لازماً۔ تاکہ معاملہ کی وضاحت ہو جائے جو میں نے تجویز کیا ہے۔ اس سے وضاحت نہیں ہوتی۔ اس طرح دوسری چیز ہے امنڈمنٹ آف جنرل کلاز ایکٹ تو اس میں بھی یہ ہے کہ لفظ ’’اسلام‘‘ اور ’’مسلم‘‘ کے متعلق جنرل کلاز ایکٹ میں لکھ دیا جائے کہ:
In the General Clauses Act, wherever these words are used, they should have the meaning as written in this Article of the Constitution.
(جنرل کلاز ایکٹ میں، جب یہ الفاظ استعمال کئے جائیں تو ان کا مفہوم وہ ہوگا جو آئین کے اس آرٹیکل میں تحریر ہے)
’’مسلمان‘‘ کا لفظ بھی آیا ہے۔ اس وقت میرے ذہن میں یہ بات نہیں۔ میرے خیال میں Muslim Waqf Validating Act (مسلم وقف ویلیڈیٹنگ ایکٹ) میں۔ اس طرح کے بہرحال الفاظ ہیں۔ اب میں آتا ہوں میرے نزدیک جس کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہ تجویز آپ منظور کر لیں تو شاید بہت سی اور تجویزیں غیرضروری ہو جائیں۔ بہرحال ان کی اہمیت بہت کم رہ جائے اور وہ ہے، میں پڑھ کر سنادیتا ہوں، وہ تیسری تجویز ہے:
"The Property and assets of these organizations, that is, the Rabwa and the Lahori group- the two sects- should be taken over by the Auqaf Department. If it is necessary for this purpose, the enactment dealing with the subject can be amended or new legislative measure can be taken. It is further proposed that this trust should be managed by a serving or a retired judge of the Supreme Court, who should be assisted by the Advisory Committee in which both the groups of the 2662Ahmedia community should be given representation."
(’’اوقاف کو ان تنظیموں یعنی ربوہ اور لاہوری گروپ، دونوں گروہوں کی جائیداد اور اثاثہ جات کو اپنی تحویل میں لے لینا چاہئے۔ اس مقصد کے لئے ضروری ہے کہ متعلقہ قانون میں ترمیم کی جائے یا نئے قانونی اقدامات کئے جائیں۔ مزید برآں یہ بھی تجویز کیا جاتا ہے کہ اس ٹرسٹ کا انتظام سپریم کورٹ کے ایک حاضر سروس یا ریٹائرڈ جج چلائیں اور ایک مشاورتی کمیٹی جس میں احمدیہ کمیونٹی کے دونوں گروہوں کی نمائندگی ہو، اس جج کی معاونت کرے۔‘‘)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(قادیانی قیادت کے ہاتھوں قادیانی عوام کا استحصال)
تو اس میں جناب! ایسی بات ہے، میں عرض کرتا ہوں کہ اگر ان کا مؤقف مانا جائے، احمدیوں کا مؤقف، کیا کہتے ہیں کہ مقصد کیا ہے۔ مقصد کہتے ہیں اسلام کی تبلیغ، اب ہماری یہ اسلامی مملکت ہے۔ یعنی ان کا مؤقف اگر مان بھی لیا جائے، اسلامی مملکت ہے، تبلیغ کا جو فریضہ ہے یہ بھی مملکت اپنے ہاتھ میں لے سکتی ہے۔ بہت سے مذہبی امور مملکت نے اپنے اختیار میں لے لئے ہیں۔ بہت بڑا ادارہ ہے۔ کئی بڑے بڑے وقف جو پراپرٹی کے ہیں۔ وہ گورنمنٹ نے اپنی تحویل میں لے لئے ہیں۔ تو یہ کیوں کیا ہے اور ان سے یہ بہت تھوڑے مقاصد حاصل ہوئے ہیں مقابلتاً۔ یہ ایک بہت بڑا مقصد جو اس وقت پیش نظر ہے وہ تو یہ ہے کہ چلئے، اس کا انتظام پہلے سے بہت ہوگیا وقف کا۔ لیکن یہاں جو ٹرسٹ ہیں ان ٹرسٹوں کی بنیاد پر تو ایک ایسی تنظیم قائم ہے جس کے متعلق پاکستان کے عوام کا خیال یہ ہے کہ لوگوں کا ہے اور اس میں اس کے شواہد بھی ہیں اس کی تائید میں کہ وہ خطرناک تنظیم ہے۔ یہاں کسی کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا جارہا ہے۔ یہ نہیں کہا جارہا ہے کہ کوئی شخص احمدی نہ ہو سکے یا احمدی نہ کہلوائے یا مرزاغلام احمد کو جو چاہتا ہے مان لے لیکن ہم ذکر کر رہے ہیں ایک تنظیم کا، اور اس تنظیم کے اثاثے ہیں، اس کی پراپرٹی ہے۔ اس کی قیادت قائم ہے اور جناب میں یہ عرض کروں کہ آپ کو ہمیشہ ملحوظ رکھنی چاہئے یہ بات، عام احمدی کا معاملہ، اور جس کو کہتے ہیں وہ خاندان نبوت، اور اس کی قیادت، وہ معاملہ اور ہے۔ وہ استحصال کر رہے ہیں۔ جس کو کہتے ہیں عام احمدی، عوام کا، ان کو گمراہ کر کے اپنی تنظیم کے شکنجے میں پھنسا کر اور سارا پیسہ جو ہے وہ بیشتر جو ہے وہ اپنے پر خرچ کر رہے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ انہیں باہر مشنوں پر خرچ کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ رپورٹ وغیرہ پیش کر سکیں۔ لوگوں کے سامنے اور چندہ لیں۔ تو تجویز اس میں ہے۔ اس میں کسی کے ساتھ ظلم نہیں، کیونکہ یہ اور وقف کے متعلق بھی ہوچکی 2663ہے۔ ہم اس پر عمل کر چکے ہیں۔ مسلمانوں کے وقف بھی اور غیرمسلم بھی اور بالفرض اگر کوئی قانون موجود نہیں ہے تو قانون تو بن سکتا ہے۔ خاص اس کے لئے بن سکتا ہے۔ ایک ایک نہر کے لئے اور اس کے لئے قانون بنے۔ ایک ایک ادارے کے لئے انگلینڈ میں بھی ایسے قانون بنے ہیں جو ایک خاص ادارے کے لئے ہیں اور یہاں بہت بڑا ملک کا مفاد جو ہے اس سے وابستہ ہے۔ لیکن یہ عرض کرتا ہوں، اگر آپ یہ کر دیں تو پھر بہت سے اور آپ کو خدشات ہیں کہ وفاداری اعلیٰ ملازمین کی جو ہیں وہ مخدوش ہے۔ وہ کیوں مخدوش ہے۔ اس لئے وہ مخدوش ہے کہ وہ اعلیٰ افسر ایک طرف تو اسٹیٹ کے ساتھ اس کی وفاداری ہے اور جو عہدہ اس کے سپرد ہے اس کے ساتھ وفاداری ہے۔ اس کے فرائض ہیں اور دوسری طرف خلیفہ سے اس کو ایسی عقیدت اور وہ تعلق ہے کہ مملکت کا کوئی راز بھی جو ہے وہ اس سے خفیہ نہیں رہ سکتا۔ اس بنیاد پر وہ دوسرے کی ناجائز رعایت کرتا ہے، اپنے فرقے کے لوگوں کی، یا اپنے مذہب کے ماننے والے لوگوں کی۔ جو مخالف ہیں ان سے ناجائز سلوک کرتا ہے۔ ساری چیز کی بنیاد جو ہے وہ وہاں کی قیادت ہے۔ قیادت کیونکر چل رہی ہے۔ لوگوں کے چندے پر جس سے جائیداد بنی ہے۔ جائیداد کو ختم کیجئے تو قیادت ختم ہو جائے گی۔ اس میں کوئی خطرہ نہ کریں کہ لوگ باہر کے کیا کہیں گے، کیونکہ یہ تو ہم پہلے ہی کر چکے ہیں۔ باہر ملکوں میں ٹرسٹ گورنمٹ Manage (سنبھالتی ہے) کرتی ہے۔ کئی ملک کر رہے ہیں، ہم خود کر رہے ہیں۔ میں اس کے متعلق عرض کروں گا کہ اس پر نہایت سنجیدگی سے غور کیا جائے اور اگر اس پر عمل کیا جائے تو بہت سے مسائل حل ہو جاتے ہیں۔
دوسری تجویز Foreign Influence (غیرملکی دباؤ) کے متعلق ہے۔
Foreign Influence: "Appropriate legislative and executive measures should be taken so that the danger of foreign 2664influence adversely affecting the interest of the State of Pakistan, arising out of the organization and membership of Ahmadia Missions in foreign countries, would be effectively safeguarded against."
(غیرملکی دباؤ: ’’بیرونی ممالک میں احمدیہ مشنز کی تنظیم اور ممبرشپ سے پیدا ہونے والی غیرملکی مداخلت سے جو پاکستان کی ریاست کے مفادات پر منفی انداز میں نظر انداز ہورہی ہے، مؤثر طریق پر نمٹنے کے لئے مناسب قانونی اور انتظامی اقدامات کئے جائیں۔‘‘)
اس میں آسان ہو جائے گا۔ آپ نے ایک Recommendation (تجویز دینی ہے) کرنی ہے۔ اقدام کیا کئے جائیں، وہ پھر سوچا جاتا ہے۔ مثلاً ایک واضح بات ہے کہ ذکر آیا ہے اسرائیل کے متعلق۔ تو وہ ممنوع ہونا چاہئے جو وہاں پر پیسہ ہے وہ بالواسطہ طور پر ان ممالک میں نہیں پہنچنا چاہئے جو ہمارے خلاف ہے۔ ہندوستان میں جیسے قادیان میں جماعت ہے اور یہ ربوہ والی جماعت ہے۔ ان کا آپس میں کیا تعلق ہے۔ اس میں پابندی ہونی چاہئے اور چھان بین کرنی چاہئے کہ کس کس جگہ روپیہ اکٹھا ہوتا ہے۔ پھر کہاں پہنچتا ہے۔ پھر کن کن ذرائع سے دوسرے ملکوں میں پہنچتا ہے، اور کن چیزوں پر خرچ ہوتا ہے۔ یہ میں نے ایک تجویز پیش کی ہے۔ اس پر غور کیا جاسکتا ہے۔
دوسری ہے:
Provacative Literature: "Literature of the Ahmadia Movement which is of a provocative nature, or which is calculated to injure the basic religious beliefs and sentiments of Muslims or Christians should be proscribed the possession of such literature, its bringing into Pakistan and its circulation, whether it is an original writing or is quoted in any other published matter, should be made an offence.
To avoid chances of any unjust or unreasonable action, it is proposed that an appeal to the Supreme Court should be provided against any order of the Government made in this behalf."
(اشتعال انگیز لٹریچر: ’’احمدیہ تحریک کا ایسا لٹریچر ممنوع قرار دیا جائے جو اشتعال انگیز یا جو مسلمانوں یا عیسائیوں کے بنیادی مذہبی عقائد اور جذبات کو ٹھیس پہنچاتا ہو۔ ایسے لٹریچر کو رکھنا، اسے پاکستان لانا اور اسے پھیلانا خواہ یہ اصل تحریر میں ہو یا کسی اور شائع کردہ مواد میں اسے شامل کرنا، ان سب کو ایک جرم قرار دیا جائے۔
ناانصافی یا کسی غیرمناسب اقدام کے امکانات سے بچنے کے لئے یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ حکومت کے اس سلسلے میں کسی بھی حکم کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کا حق فراہم کیا جائے۔‘‘)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(قادیانی تعلیمات اشتعال انگیز ہیں)

اب اس کی ضرورت نہیں ہے۔ جناب! کے سامنے ممبران نے سن لیا ہے۔ کس قسم کی چیزیں ہیں وہاں۔ یعنی مخالفین کے متعلق ولد الحرام اور کنجریوں کی اولاد وغیرہ۔ پھر یہاں یہ بات بھی دلچسپی کی ہے کہ اٹارنی جنرل صاحب نے سوال کیا۔ انہوں نے جواب میں 2665وضاحت کی کہ یہ عیسائیوں کے متعلق ہے۔ یہ بڑا اچھا وصف ہے مدعی نبوت کے لئے کہ وہ گالیاں دیں عیسائیوں کو۔ لیکن ہمارے ہاں مصیبت یہ ہے کہ بہت سے مسلمان خوش ہو جاتے تھے کہ عیسائیوں کو مرزاصاحب گالیاں دے رہے ہیں۔ وہ گالیاں بہت دیتے تھے عیسائیوں کو بھی۔ یہ مسلمانوں کی بات ہے۔ اس طرح کا لٹریچر جو ہے تو خیرتجویز یہ ہے۔
اور دوسری چیز جناب ہے کہ بعض الفاظ ایسے ہیں جن کو مسلمان پسند نہیں کرتے کہ وہ دوسرے لوگوں کے متعلق استعمال کئے جائیں۔ مثلاً صحابہ، وہ ہم جانتے ہیں کہ ہماری صحابہ سے کیا مراد ہے۔ ام المؤمنین، امہاۃ المؤمنین، امیر المؤمنین۔ یہ الفاظ ہیں۔ یہ بہت دل آزاری کے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو ایسے کہتے ہیں اور بڑے بڑے نام ہوسکتے ہیں۔ لیکن کیوں ضروری ہے کہ اصطلاحی نام استعمال کئے جائیں جو تمام مسلمان اپنے بزرگوں کے لئے مخصوص سمجھتے ہیں۔ ہاں! اسی طرح امام حسین کے متعلق جو ہے میں نے اس میں سارا کچھ تجویز کیا ہے۔ یہی بات نہیں کہ یک طرفہ بات کی جائے۔ اس لئے میں نے تجویز کیا ہے۔ اگر کوئی اس اقدام کے خلاف ہو تو وہ اپیل کر سکتا ہے۔ اس میں دل آزاری کی بات نہیں ہے۔ کیوں کیا ہے زبردستی۔
میری چھٹی تجویز ہے جی سپیشل اوتھ۔ اس کا مفہوم یہ تھا کہ یہ جو ایک Loyality (وفاداری) میں آسکتا ہے۔ Conflict (تضاد) جس کا میں نے ذکر کیا ہے، خاص خاص عہدوں کے متعلق ایسا حلف مقرر کیا جائے جو کہ آدمی لے کہ جس حد تک میرے عہدے کی ذمہ داری ہے۔ اس کے متعلق میرا کسی فرقے سے تعلق ہے، کسی Cast (ذات) سے، تو میں وہ نظرانداز کروں گا۔
Special Oath: "I do solemnly swear that I will bear true faith and allegiance to Pakistan and that, in the discharge of my duties as a public servant, I will keep the interest...."
(خصوصی حلف: ’’میں سچے دل سے قسم اٹھاتا ہوں کہ میں پاکستان سے مخلص اور وفادار ہوں گا اور ایک پبلک سرونٹ کے طور پر اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے میں…‘‘)
2666جناب عبدالعزیز بھٹی: پوائنٹ آف آرڈر، جناب! میری گزارش یہ تھی کہ سپیشل کمیٹی کی پروسیڈنگز سیکرٹ ہیں۔ سپیچز (Speaches) جو ہیں ان کے لئے یہ تھا کہ یہ باہر اناؤنس نہیں ہوں گی۔ لیکن باہر ہاؤس میں ساری سپیچز(Speaches) سنی جارہی ہیں۔
محترمہ قائمقام چیئرمین: وہ سینٹ کی سنی جارہی ہیں، یہاں کی نہیں ہورہی ہیں، وہ سینٹ کی ہیں۔
ملک محمد جعفر: میں نے یہ کہا تھا کہ یہ اوتھ جو ہے ہر کسی کے لئے ضروری نہیں ہے۔
Special Oath for public Servants: "The Federal Government and the Provincial Governments should be given authority, within their respective jurisdictions, to prescribe a special oath for persons in the service of Pakistan holding specified posts, which are considered by the Government concerned to be of a very high national importance."
(پبلک سرونٹس کے لئے خصوصی حلف: ’’وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کو اپنے اپنے دائرہ کار میں یہ اختیار دیا جائے کہ وہ ان لوگوں کے لئے ایک خصوصی حلف وضع کر سکیں جو پاکستان کی سروس میں ایسے خاص عہدوں پر فائز ہیں جو حکومت کے نزدیک بہت زیادہ قومی اہمیت کے حامل ہیں۔‘‘)
تو یہ اوتھ میں نے اس میں لکھی تھی:
"I do solemnly swear that I will bear true faith and allegiance to Pakistan and that, in the discharge of my duties as a public servant, I will keep the interest of the State of Pakistan above all considerations arising out of, or connected with, my being a member of any communal, sectarian or spiritual group, organization or cult whatsoever."
(’’میں سچے دل سے قسم اٹھاتا ہوں کہ میں پاکستان سے مخلص اور وفادار رہوں گا اور ایک پبلک سرونٹ کے طور پر اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے میں پاکستان کی ریاست کے مفاد کو ان تمام مفادات پر مقدم رکھوں گا جو میرے کسی مذہبی، فرقہ وارانہ یا روحانی گروہ، تنظیم یا مسلک وغیرہ میں شمولیت کا نتیجہ ہوں یا اس سے منسلک ہوں۔‘‘)
میرا خیال ہے اس میں تو کسی پبلک سرونٹ کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے، اس طرح کا حلف کرنے کے لئے۔
میری آخری تجویز تبلیغ کے متعلق ہے۔ میں سمجھتا ہوں جناب! کہ یہ بہت بڑی کوتاہی ہے ہمارے علماء کی۔ ان کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہئے اور اس کمزوری کو ماننا چاہئے۔ یعنی جس کو ہم کہتے ہیں ختم نبوت، یہ ایک بنیادی حیثیت رکھتی ہے عقیدۂ اسلام میں۔ تو یہ کیونکر ہوا۔ ایک اسلامی معاشرہ میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ 2667کیا اور دعویٰ میں اتنا تضاد، اور اپنے باقی کاروبار بھی، عورتوں کے متعلق بھی، سب چیزوں میں اتنی خرابیاں اور الہام جو ہیں بالکل بے معنی اور بے ربط ہیں۔ ان ساری چیزوں کے باوجود اسلامی معاشرے میں پڑھے لکھے لوگ، عالم، سیدوں کے خاندان کے، مولوی نورالدین جیسے لوگ، اور مولوی محمد علی، یہ لوگ کیوں اس جماعت میں شامل ہو گئے۔ اگر ہمارے علماء جن کے متعلق قرآن کریم میں یہ حکم ہے مسلمانوں کو، کہ تم میں سے اگر گروہ ایسا ہونا چاہئے ’’ولتکن منکم امۃ یدعون الیٰ الخیر‘‘ یہ علماء کے متعلق ہے… جو لوگوں کو ہدایت کی راہ دکھائے پھر علماء کے متعلق حدیث یہاں بیان ہوئی ہے۔ ’’علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل‘‘
میری امت کے علماء جو ہیں بنی اسرائیل کے انبیاء کے برابر ان کا مقام ہے۔ اتنا بڑا مقام۔ ایک غلط مدعی نبوت اسلامی معاشرہ میں پیدا ہوا اور اس کی جماعت ترقی کرتی جائے اور اس حد تک ترقی کر جائے۔ یہ تبلیغ کا فریضہ ہمارے علماء اور باقی لوگوں کو بھی ادا کرنا چاہئے۔ لیکن ہم نے ادا نہیں کیا۔ ہم نے جب دیکھا کہ وہ بہت بڑے منظم ہوگئے ہیں، طاقتور ہوگئے ہیں، خاصی جمعیت ہوگئی ہے تو یہ شروع ہوگئی تحریک۔ لیکن ساتھ تبلیغ ہونی چاہئے۔ کیونکہ یہ ہمارے معاشرے میں سے گمراہ ہوگئے۔ یہ خود بھی نہیں ہوئے بیچارے۔ بیشتر ایسے ہیں، میرے خیال میں ایک فیصد بھی نہ رہے ہیں۔ جو اس قت شامل ہوئے تھے۔ اب ان کے بیٹے پوتے وغیرہ ہیں۔ ان کو تو پتہ بھی نہیں ہے۔ ہم اگر تبلیغ کاکام کریں صحیح طریقے پر تو کوئی وجہ نہیں، کیونکہ ہمارے پاس حق ہے اور اس طرف باطل ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ حق باطل پر غالب نہ آجائے۔
Tabligh: "Government should set up an organization whose duty it should be to propagate the basic articles of the faith of Islam, particularly the concept of Finality of Prophethood."
(تبلیغ: ’’حکومت کو چاہئے کہ ایک ایسا ادارہ قائم کرے جس کے ذمہ اسلام کے بنیادی عقائد اور خصوصاً عقیدۂ ختم نبوت کی تبلیغ واشاعت ہو۔‘‘)
2668آخر میں پڑھ دیتا ہوں۔ اس کا جناب! میں نے یہ لکھا ہے۔ اب میں صرف پیراگراف پڑھ دیتا ہوں۔ کیونکہ میں نے اس ضمن میں وضاحت کی ہے:
"Recommendation No.7 is based on a hope that if the propagation of the basic principles of Islamic creed particularly the concept of Finality of Prophethood is taken seriously in hand by those competent to do so, the heresy involved in the Ahmadia Movenemt, whether it be of the Rabwah or Lahori pattern, whould be abandoned by a fairly large number of Ahmadis, provided the mission is carried on in a rational and scientific manner and with sympathy and compassion rather that ill- will."
(’’تجویز نمبر۷ اس امید کی بنا پر دی جارہی ہے کہ اگر اسلام کے بنیادی عقائد اور خصوصاً عقیدۂ ختم نبوت کی تبلیغ کے کام کو وہ لوگ سنجیدگی سے لیں۔ جن میں اس کام کو کرنے کی اہلیت ہے تو احمدی حضرات کی کثیر تعداد تحریک احمدیہ خواہ وہ ربوہ گروپ سے ہوں یا لاہوری گروپ سے، کفریہ عقائد کو چھوڑ دیں گے۔ بشرط کہ تبلیغ کا یہ کام معقول اور سائنسی انداز سے کیا جائے اور بغض کی جگہ ہمدردی اور رحمدلی ہو۔‘‘)
تو میں جناب! سمجھتا ہوں کہ بہت بڑا موقعہ ہے آپ کے لئے۔ یہ پراپرٹی کی میں نے تجویز کی ہے۔ تبلیغ کی بھی۔ یہ سب کچھ میں نے کیا ہے۔ وہ لوگ اس وقت ایک غلامی میں ہیں، ذہنی اور روحانی غلامی میں، جو مرید ہیں ان دونوں جماعتوں کے سب، تو آپ ایک بہت بڑا کام کریں گے تاریخ میں۔ یہ ایک تحریک چلی ہے تو یہ علیحدہ بات ہے۔ اگر آپ ان لوگوں کو نجات دلائیں گے اس استحصالی نظام سے، جو روحانیت اور مذہب کی بنیاد پر استحصالی نظام قائم کیا ہوا ہے ربوہ والوں نے، اور ان سے پھر بھی کچھ کم، لیکن ہے پھر بھی استحصالی، لاہور والوں نے۔ جناب! شکریہ، یہ میری معروضات ہیں۔
محترمہ قائمقام چیئرمین: ڈاکٹر غلام حسین!
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جناب ڈاکٹر غلام حسین کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
ڈاکٹر غلام حسین: جناب چیئرمین صاحبہ! قادیانی مسئلے کے متعلق بہت کچھ کہا جاچکا ہے اور ہمارے سامنے بیشمار حقائق اور مواد ہے جس کی روشنی میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ حقیقت حال کیا ہے۔ جناب والا! ہم مسلمانوں کو جو کچھ اﷲتعالیٰ کی طرف سے اسلام کاورثہ اور اسلام کی دولت ملی ہے وہ رسول پاک حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ذریعہ ملی ہے 2669اور قرآن پاک نے خود فرمایا ہے کہ وہ نبی آخر الزمان ﷺ ہیں۔ ان پر دین مکمل ہوچکا ہے۔ اس کے بعد نبی کا لفظ تاویلوں میں بات کو الجھا کر ایک سیاسی جماعت نے، ایک تخریبی جماعت نے، انگریزوں کی ایک ایجنٹ جماعت نے اس کو کئی کئی معنی پہنائے ہیں۔ نبی کا مطلب جو پاکستان میں ہم سمجھتے ہیں اور ہماری نسلیں سمجھتی آئی ہیں وہ پیغمبر اور رسول خدا کے معنی ہیں۔ جس طرح ہم نماز کو عربی کے لفظ صلوٰۃ کے معنوں میں لیتے ہیں۔ ہم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ہم مسجد میں صلوٰۃ کے لئے جارہے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم نماز پڑھنے کے لئے جارہے ہیں۔ نماز کا لفظی مطلب پرستش ہے۔ پرستش آگ کی بھی ہوتی ہے۔ ہم آگ کی پرستش کرنے نہیں جاتے۔ جو رائج الوقت اصطلاح ہے اس کے معنی عام لوگ تسلیم کرتے ہیں۔ مرزاغلام احمد ایک جگہ نہیں ہزاروں جگہ لکھتے ہیں۔ ان کے معتقدین جو یہاں تشریف لائے تھے انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ وہ اپنے آپ کو نبی کہتے تھے۔ یہ لوگ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ نبی تھے۔ ایک Parallel (متوازی) نبوت یا Parallel Prophethood (متوازی نبوت) جو نبی اس کا تسلیم کر لینا ہے ہمارے لئے کافی ہے کہ وہ ہم میں سے نہیں ہیں۔
اس کے علاوہ دوسری بات یہ ہے کہ وہ ذات جس نے پاکستان بنایا وہ قائداعظم کی ذات گرامی تھی۔ قائداعظم کو بھی مسلمان نہ سمجھنا اور باقی اکثریت کو بھی مسلمان نہ سمجھنا اور انہیں دائرہ اسلام سے خارج قرار دینا، ڈھٹائی سے اپنے غلام احمد کو نبی بنانا اور قائداعظم کے جنازہ میں نہ شرکت کرنا، یہاں تک کہ غائبانہ نماز جنازہ تک بھی نہ پڑھنا اور جہاد کو حرام قرار دینا، اس سے بڑی اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ وہ نہ پاکستان کے حامی ہیں اور نہ اسلام کے حامی ہیں۔
2670اس کے علاوہ، آپ جانتی ہیں کہ ڈاکٹر اقبالؒ نے ہمیں پاکستان کا تصور دیا تھا۔ انہوں نے شروع شروع میں تو ان کی باتوں میں آکر ان کی کچھ تعریف کی۔ لیکن جب حقیقت حال ان کو پتہ چلی تو انہوں نے واضح طور پر ان کی مخالفت کی اور Declare (اعلان) کیا کہ وہ مسلمان نہیں ہیں بلکہ یہی مطالبہ کیا جو آج یہاں دہرایا جارہا ہے۔ اس اسمبلی کے باہر ساری قوم یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ ان کو اقلیت قرار دیا جائے۔ ایک تو ان کی جھوٹی نبوت اور دوسرے ہماری اس قوم کے باپ کے خلاف ان کی باتیں اور اس شخص کے بارے میں یہ باتیں جس نے پاکستان کا تصور دیا، ایک گائیڈ لائن دی، یہ قابل افسوس اور سخت مذمت کے قابل ہیں۔ رسول پاک ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو میرے بعد نبوت کا دعویٰ کرتا ہے وہ کافر ومرتد ہے اور اسلام کے دائرہ سے خارج ہے۔
اس کے علاوہ مکہ مکرمہ کو لیجئے! وہ چودہ سو سال سے ہمارا مرکز اور سنٹر ہے۔ وہاں کے بادشاہ شاہ فیصل نے سعودی عرب شریف میں ان کی Entry (داخلہ) بالکل Ban (بند) کر دی ہے۔ عالم اسلام نے اپنے Forum (فورم) سے ان کو غیرمسلم قرار دیا ہے۔ جب انہوں نے Declare (اعلان) کر دیا ہے تو پھر ہم کیوں نہیں سمجھتے کہ مرزاغلام احمد کا رول وہی ہے ’’جو لارنس آف عریبیہ‘‘ کا رول تھا۔ اس نے وہاں اسلام کا لبادہ اوڑھ کر انگریزوں کی ایجنٹی کی تھی اور اب وہی رول یہ ادا کر رہے ہیں۔
باقی جہاں تک ان کے منظم ہونے کا سوال ہے تو یہ سیاسی اور کاروباری لوگ بڑے منظم ہوا کرتے ہیں۔ اسرائیل کو بھی ایک منظم قوم سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اور جتنی غیرمسلم اقوام ہیں ان میں سے بیشتر منظم ہیں۔ حالانکہ ان کی اپروچ مذہب کے متعلق غلط ہے۔ جیسا کہ ملک جعفر صاحب نے فرمایا ہے کہ تنظیم کی کمی اور علماء کرام میں اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے سائنٹفک اپروچ اور Objective Conditions (معروضی حالات) کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اور آپس کے جھگڑوں اور لڑائیوں کی وجہ سے عالم اسلام کا اتحاد کمزور پڑ گیا ہے۔ اس سے ہمیں بہت نقصان ہوا ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top