ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
بتدریج یہ تحریک ترقی کرنے لگی اور اس کے مقلدین کی تعداد چند ہزار تک پہنچ گئی۔ مسلمان کی طرف سے مخالفت ہونا ضروری تھا۔ چنانچہ مسلمانوں کی اکثریت نے مرزا قادیانی کے دعاوی بلند بانگ خصوصاً اس کے دعاوی تفویق دینی پر بہت ناک منہ چڑھایا اور مرزا نے ان لوگوں پر کفر کا جو الزام لگایا۔ اس کے جواب میں ان لوگوں نے بھی سخت لہجہ اختیار کیا۔ مگر قادیانی حصار میں رہنے والے اس بیرونی تنقید سے کچھ بھی متاثر نہ ہوئے اور اپنے مستقر یعنی قادیان میں مزے سے ڈٹے رہے۔
قادیانی مقابلتاً محفوظ تھے۔ اس حالت نے ان میں متمردانہ غرو ر پیدا کردیا۔ انہوں نے اپنے دلائل دوسروں سے منوانے اور اپنی جماعت کو ترقی دینے کے لئے ایسے حربوں کا استعمال شروع کیا۔ جنہیں ناپسندیدہ کہا جائے گا۔ جن لوگوں نے قادیانیوں کی جماعت میں شامل ہونے سے انکار کیا۔ انہیں مقاطعۂ قادیان سے اخراج اور بعض اوقات اس سے بھی مکروہ ترمصائب کی دھمکیاں دے کر دہشت انگیزی کی فضا پیدا کی۔ بلکہ بسا اوقات انہوں نے ان دھمکیوںکو عملی جامہ پہناکر اپنی جماعت کے استحکام کی کوشش کی۔ قادیان میں رضا کاروں کا ایک دستہ (والنٹیر کور) مرتب ہوا، اور اس کی تربیت کا مقصد غالباً یہ تھا کہ قادیان میں ’’لمن الملک الیوم‘‘کا نعرہ بلند کرنے کے لئے طاقت پیدا کی جائے۔
انہوں نے عدالتی اختیارات بھی اپنے ہاتھ میں لے لئے۔ دیوانی اور فوجداری مقدمات کی سماعت کی۔ دیوانی مقدمات میں ڈگریاں صادر کیں اور ان کی تعمیل کرائی گئی۔ کئی اشخاص کو قادیان سے نکالاگیا۔ یہ قصہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔بلکہ قادیانیوں کے خلاف کھلے طور پر الزام لگایاگیا ہے کہ انہوں نے مکانوں کو تباہ کیا،جلایا اورقتل تک کے 2337مرتکب ہوئے۔ اس خیال سے کہ کہیں ان الزامات کو احرار کے تخیل ہی کا نتیجہ نہ سمجھ لیا جائے۔ میں چند ایسی مثالیں بیان کردینا چاہتاہوں جو مقدمہ کی مسل میں درج ہیں۔
کم از کم دو اشخاص کو قادیان سے اخراج کی سزا دی گئی۔ اس لئے کہ ان کے عقائد مرزا کے عقائد سے متفاوت تھے۔وہ اشخاص حبیب الرحمن گواہ صفائی نمبر۲۸۔ اور مسمی اسمٰعیل ہیں۔ مسل میں ایک چٹھی(ڈی۔زیڈ۳۳) موجود ہے۔ جو موجودہ مرزا کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے اور جس میں یہ حکم درج ہے کہ حبیب الرحمن(گواہ نمبر۲۸) کو قادیان میں آنے کی اجازت نہیں۔ مرزا بشیر الدین گواہ صفائی نمبر۳۷ نے اس چٹھی کو تسلیم کر لیا ہے۔ اسمٰعیل کے اخراج اور داخلہ کی ممانعت کو گواہ صفائی نمبر۲۰ نے تسلیم کر لیا ہے۔ کئی اورگواہوں نے (قادیانیوں کے) تشدد وظلم کی عجیب و غریب داستانیں بیان کی ہیں۔
بھگت سنگھ گواہ صفائی نے بیان کیا ہے کہ قادیانیوں نے اس پر حملہ کیا۔ایک شخص مسمی غریب شاہ کو قادیانیوں نے زدوکوب کیا۔ لیکن جب اس نے عدالت میں استغاثہ کرنا چاہا تو کوئی اس کی شہادت دینے کے لئے سامنے نہ آیا۔ قادیانی ججوں کے فیصلہ کردہ مقدمات کی مسلیں پیش کی گئیں۔ (جو شامل مسل ہذا ہیں) مرزا بشیر الدین محمود نے تسلیم کیا ہے کہ قادیان میں عدالتی اختیارات استعمال ہوتے ہیں اورمیری عدالت سب سے آخری عدالت اپیل ہے۔ عدالت کی ڈگریوں کا اجراء عمل میں آتا ہے اور ایک واقعہ سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ ایک ڈگری کے اجراء میں ایک مکان فروخت کر دیاگیا۔ اشٹام کے کاغذ قادیانیوں نے خود بنا رکھے ہیں۔ جو ان درخواستوں اور عرضیوں پرلگائے جاتے ہیں۔ جو قادیانی عدالتوں میںدائر ہوتی ہیں۔ قادیاں میں ایک والنٹیر کور کے موجود ہونے کی شہادت گواہ صفائی نمبر۴۰ مرزا شریف احمد نے دی ہے۔
سب سے سنگین معاملہ عبدالکریم(ایڈیٹر مباہلہ) کا ہے۔ جس کی داستان، داستان درد ہے۔ یہ شخص مرزا کے مقلدین میں شامل ہوا اورقادیان میں جاکر مقیم ہوگیا۔ وہاں اس کے دل میں (مرزائیت کی صداقت کے متعلق) شکوک پیدا ہوئے اور وہ مرزائیت سے تائب ہو گیا۔ اس کے بعد اس پر ظلم و ستم شروع ہوا۔ اس نے قادیانی معتقدات پر تبصرہ تنقید کرنے کے لئے ’’مباہلہ‘‘ نامی اخبار جاری کیا۔ مرزا بشیر الدین محمود نے ایک تقریر میں جو دستاویز ڈی۔ زیڈ(الفضل مورخہ یکم اپریل ۱۹۳۰ء میں درج ہے)مباہلہ شائع کرنے والوں کی موت کی پیش گوئی کی ہے۔ اس تقریر میں ان لوگوں کا بھی ذکر کیاگیا ہے جو مذہب کے لئے ارتکاب قتل پر بھی تیار ہو جاتے ہیں۔ اس تقریر کے بعد جلد ہی عبدالکریم پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ لیکن وہ بچ گیا۔ ایک شخص محمد حسین جو اس کا معاون تھا اور ایک فوجداری مقدمہ میں جو عبدالکریم کے خلاف چل رہاتھا، اس کا ضامن بھی تھا۔ اس پر حملہ ہوا اور قتل کر دیاگیا۔ قاتل پر مقدمہ چلا اوراسے پھانسی کی سزا کا حکم ملا۔
پھانسی کے حکم کی تعمیل ہوئی اور اس کے بعد قاتل کی لاش قادیان میں لائی گئی اور اسے نہایت عزت و احترام سے بہشتی مقبرہ میں دفن کیاگیا۔ مرزائی اخبار الفضل میں قاتل کی مدح سرائی کی گئی۔ فعل قتل کو سراہاگیا اوریہاں تک لکھا گیا کہ قاتل مجرم نہ تھا۔ پھانسی کی سزا سے پہلے ہی اس کی روح قفس عنصری سے آزاد ہوگئی اور اسی طرح وہ پھانسی کی ذلت انگیر سزا سے بچ گیا۔خدائے عادل نے یہ مناسب سمجھا کہ پھانسی سے پہلے ہی اس کی جان قبض کرلے۔
عدالت میں مرزا محمودنے اس کے متعلق بالکل مختلف داستان بیان کی اور کہا کہ محمد حسین کے قاتل کی عزت افزائی اس لئے کی گئی کہ اس نے اپنے جرم پر تاسف و ندامت کا اظہار کیا تھا 2339اور اس طرح وہ گناہ سے پاک ہو چکا تھا۔ لیکن دستاویز ڈی زیڈ۴۰ اس کی تردید کرتی ہے۔ جس سے مرزا کی دلی کیفیت کا پتہ چلتاہے۔
محمدامین ایک مرزائی تھا اور جماعت مرزائیہ کا مبلغ تھا۔ اس کو تبلیغ مذہب کے لئے بخارا بھیجا گیا۔ لیکن کسی وجہ سے بعد میں اسے اس خدمت سے علیحدہ کردیاگیا۔ اس کی موت کلہاڑی کی ایک ضرب سے ہوئی۔ جو چودھری فتح محمد گواہ صفائی نمبر۲۱ نے لگائی۔ عدالت ماتحت نے اس معاملہ پر سرسری نگاہ ڈالی ہے۔ لیکن یہ زیادہ غور و توجہ کا محتاج ہے۔محمد امین پر مرزا کا عتاب نازل ہو چکا تھا اور اس لئے مرزائیوں کی نظر میں وہ مؤقر و متقدر نہیںرہاتھا۔ اس کی موت کے واقعات خواہ کیا ہوں۔ اس میں کلام نہیں کہ محمدامین تشدد کا شکار ہوا اور کلہاڑی کی ضرب سے قتل کیاگیا۔
پولیس میں وقوعہ کی اطلاع پہنچی لیکن کوئی کارروائی عمل میں نہ آئی۔ اس بات پر زور دینا فضول ہے کہ قاتل نے حفاظت خود اختیاری میں محمد امین کو کلہاڑی کی ضرب لگائی اور یہ فیصلہ کرنا اس عدالت کا کام ہے جو مقدمہ کی سماعت کرے۔ چودھری فتح محمد کا عدالت میں یہ اقرار صالح یہ بیان کرنا تعجب انگیز ہے کہ اس نے محمدامین کو قتل کیا۔ مگر پولیس اس معاملہ میں کچھ نہ کر سکی۔جس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ مرزائیوں کی طاقت اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ کوئی گواہ سامنے آکر سچ بولنے کی جرأت نہیں کر سکتاتھا۔ ہمارے سامنے عبدالکریم کے مکان کا واقعہ بھی ہے۔ عبدالکریم کو قادیان سے خارج کرنے کے بعد اس کامکان نذر آتش کردیاگیا اورقادیان کی سمال ٹاؤن کمیٹی سے حکم حاصل کرکے نیم قانونی طریق پر اسے گرانے کی کوشش کی گئی۔
یہ افسوسناک واقعات اس بات کی منہ بولتی شہادت ہیں کہ قادیان میں قانون کا احترام بالکل اٹھ گیاتھا۔ آتش زنی اور قتل تک کے واقعات ہوتے تھے۔ مرزا نے کروڑوں مسلمانوں کو جو اس کے ہم عقیدہ نہ تھے، شدید دشنام طرازی کا نشانہ بنایا۔ اس کی تصانیف ایک اسقف اعظم کا اخلاق انوکھا مظاہرہ ہیں، جو صرف نبوت کا مدعی نہ تھا، بلکہ خدا کا برگزیدہ انسان اورمسیح ثانی ہونے کا مدعی بھی تھا۔
معلوم ہوتا ہے کہ (قادیانیت کے مقابلہ میں )حکام غیر معمولی حد تک مفلوج ہو چکے تھے۔ دینی و دنیوی معاملات میں مرزا کے حکم کے خلاف کبھی آواز بلند نہیں ہوئی۔ مقامی افسران کے پاس کئی مرتبہ شکایت پیش ہوئی۔ لیکن وہ اس کے انسداد سے قاصر رہے۔ مسل پر کچھ اور شکایات بھی ہیں۔ لیکن یہاں ان کے مضمون کا حوالہ دینا غیر ضروری ہے۔ اس مقدمہ کے سلسلہ میں صرف یہ بیان کر دینا کافی ہے کہ قادیان میں جو روستم رانی کا دور دورہ ہونے کے متعلق نہایت واضح الزامات عائد کئے گئے۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ قطعا ً کوئی توجہ نہ ہوئی۔