(قادیانیوں کا الگ شمار)
3059تو ایک درخواست آپ لوگوں نے ان کی منظور کر لی اور شاید کل اس پر پوری منظوری آجائے۔ ایک دوسری چیز یہ ہے کہ انہوں نے، مرزاغلام احمد نے ۱۹۰۱ء میں حکومت سے درخواست کی تھی کہ ہمارے ماننے والوں کو مردم شماری میں الگ لکھا جائے۔ وہ درخواست بہرحال انگریزوں نے منظور کر لی۔ لیکن ۱۹۳۱ء تک اس پر عمل درآمد ہوا، ۱۹۴۱ء میں نہیں ہوا۔ ایک میری گزارش ہے کہ اس درخواست پر ہم دوبارہ عملدرآمد شروع کریں اور ان کی مردم شماری الگ سے ہو۔
ایک مغالطہ انہوں نے… یعنی اتنی صریح بہت سی غلط بیانیاں کی ہیں۔ لیکن بالکل واضح طور پر اٹارنی جنرل صاحب کے سوال کے جواب میں انہوں نے یہ کہا کہ ہم سیاسی جماعت نہیں ہیں۔ اب میں اس سلسلے میں صرف چند اقتباسات آپ کو سنادیتا ہوں۔ (مداخلت)
جناب چیئرمین: میں نے آپ سے وعدہ کیا ہے کہ میں کسی معزز ممبر کو بند نہیں کروں گا، بالکل، جتنی مرضی ہے تقریر کریں جی، اب کوئی خیال نہیں ختم نبوت کا۔ نوبجتے ہیں تو گھڑیاں دیکھنی شروع ہو جاتی ہیں۔ نہیں جی! بالکل آج ساری رات بیٹھیں گے۔ اب دین کے ساتھ محبت کہاں گئی ہے؟ مولانا صاحب! آپ تقریر کریں۔ ٹھیک ہے جی! بیٹھیں گے۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: میں مختصراً اس چیز کو ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ یہ سیاسی جماعت نہیں ہیں، یہ انہوں نے غلط بیانی سے کام لیا۔ یہ خالص سیاسی جماعت ہیں، اور ایسی سیاسی جماعت جو تشدد کے ذریعے، خون خرابے کے ذریعے حکومت پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ اس سلسلہ میں میں چاہتا ہوں کہ چند اقتباسات پیش کروں۔ کہتے ہیں: 3060’’پس جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم میں سیاست نہیں وہ نادان ہیں، وہ سیاست کو سمجھتے ہی نہیں۔ جو شخص یہ نہیں مانتا کہ خلیفہ کی بھی سیاست ہوتی ہے وہ خلیفہ کی بیعت ہی کیا کرتا ہے۔ اس کی کوئی بیعت نہیں اور اصل بات تو یہ ہے کہ ہماری سیاست گورنمنٹ کی سیاست سے بھی زیادہ ہے۔ پس اس سیاست کے مسئلے کو اگر میں نے باربار بیان نہیں کیا تو اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ میں نے اس سے جان بوجھ کر اجتناب کیا ہے۔ آپ لوگوں کو یہ بات خوب سمجھ لینی چاہئے کہ خلافت کے ساتھ سیاست بھی ہے اور جو شخص یہ نہیں مانتا وہ جھوٹی بیعت کرتا ہے۔‘‘
(الفضل، ۱۳؍اگست ۱۹۲۶ئ)
پھر لکھتے ہیں، دوسرا قول ہے: ’’غرض سیاست میں کوئی غیردینی فعل نہیں۔ بلکہ یہ دینی مقاصد میں شامل ہے۔ اب پھر سیاسی بات آتی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک احمدی یہ یقین رکھتا ہے کہ تھوڑے عرصے کے اندر ہی خواہ ہم اس وقت تک زندہ رہیں یا نہ رہیں۔ لیکن بہرحال وہ عرصہ غیرمعمولی طور پر لمبا نہیں ہوسکتا، ہمیں تمام دنیا پر نہ صرف عملی برتری حاصل ہوگی بلکہ سیاسی اور مذہبی برتری بھی حاصل ہو جائے گی۔ جب ہمارے سامنے بعض حکام آتے ہیں تو ہم اس یقین اور وثوق کے ساتھ ان سے ملاقات کرتے ہیں کہ کل یہ نہایت عجزوانکسار کے ساتھ ہم سے استمداد کر رہے ہوں گے۔‘‘
(الفضل مورخہ ۲؍اکتوبر ۱۹۳۹ئ)
اس کے بعد ہے کہ: ’’میرا خیال ہے کہ ہم حکومت سے صحیح تعاون کر کے جس قدر جلد حکومت پر قابض ہو سکتے ہیں عدم تعاون سے نہیں۔‘‘ یہ ۱۹۳۵ء کا ہے، جب انگریزوں سے تعاون کی بات چل رہی تھی۔
3061جناب چیئرمین: چوہدری ممتاز صاحب، میاں مسعود احمد صاحب اور محمد اسلم صاحب واپس تشریف لے آئیں۔ شہزادہ صاحب! آپ بھی تشریف لے آئیں۔ یہ کوئی بات نہیں ہے کہ کتابیں ہاتھ میں اٹھائیں اور دروازوں کی طرف چل دئیے۔ آپ فرمائیں جی! شہزادہ صاحب آپ بھی تشریف رکھیں۔ دروازے بند کر دیں، باہر سے لاک کر دیں۔ چلیں جی، انصاری صاحب! فرمائیں۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: یہ کہتا ہے کہ…
ملک محمد اختر: سر! میں جاسکتا ہوں؟
جناب چیئرمین: ہاں! آپ جائیں وجہ معقول ہے، بڑی معقول وجہ ہے۔ دروازے بند کر دیں۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: ’’پس نہیں معلوم ہمیں کب خدا کی طرف سے دنیا کا (چارج) سپرد کیا جانا ہے۔ ہمیں اپنی طرف سے تیار رہنا چاہئے۔‘‘
جناب چیئرمین: بیگم شیریں وہاب صاحبہ جاسکتی ہیں۔ صرف بیگم شیریں وہاب صاحبہ۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: ’’ہمیں اپنی طرف سے تیار رہنا چاہئے‘‘ کہ دنیا کو سنبھال سکیں۔
میاں محمد عطاء اﷲ: پوائنٹ آف آرڈر، سر! عورتوں کے ایک جیسے حقوق ہیں، پھر عورتیں بھی نہیں جاسکتیں۔
جناب چیئرمین: نہیں، نہیں، آپ تقریر کرنے دیں ان کو۔ There is reason for that.
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: یہ مارچ ۱۹۲۲ء کا ہے۔ تفصیل اس وقت نہیں رہی۔ اس کے بعد ۱۹۳۵ء کا ہے: 3062’’اس وقت اسلام کی ترقی خداتعالیٰ نے میرے ساتھ وابستہ کر دی ہے۔ یاد رکھو سیاسیات، اقتصادیات اور تمدنی امور حکومت کے ساتھ وابستہ ہیں اور جب تک ہم اپنے نظام کو مضبوط نہ کریں اور تبلیغ وتعلیم کے ذریعے حکومتوں پر قبضہ کرنے کی کوشش نہ کریں ہم اسلام کی ساری تعلیم جاری نہیں کر سکتے۔‘‘
یعنی حکومت پر قبضہ کرنے کی کوشش سیاست سے علیحدگی کے باوجود۔ اب آگے لکھتے ہیں کہ: ’’ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر ایک نئی تبدیلی پیداکرے۔ ایک ایسی تبدیلی جو ایک قلیل ترین عرصے میں اسے دوسری قوتوں پر غالب کر دے۔‘‘
یہ ۱۹۴۹ء کا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد اب یہاں کون سی قوتیں ہیں جن پر وہ غلبہ چاہتے ہیں، یہ ایوان کے معزز ممبران خود اندازہ کر سکتے ہیں۔ پھر آگے ہدایت ہے کہ: ’’پاکستان میں اگر ایک لاکھ احمدی سمجھ لیے جائیں تو نو ہزار (۹۰۰۰) احمدیوں کو فوج میں جانا چاہئے۔ فوجی تیاری نہایت اہم چیز ہے۔ جب تک آپ جنگی فنون نہیں سیکھیں گے کام کس طرح کریں گے۔‘‘
یہ آپ لوگوں کے علم میں ہوگا کہ فرقان بٹالین جس کو لیاقت علی خان مرحوم نے Disband کیا تھا، اس کے متعلق بڑا پروپیگنڈا کیا گیا کہ اس نے بڑا کام کیا ہے۔ تو اس کے لئے جو تمغے تقسیم ہوئے وہ ربوہ کے سیکرٹریٹ کے اندر ہوئے۔
آگے موجودہ خلیفہ جو ہیں ان کا ارشاد ہے: ’’میں تمام جماعت کو جو یہاں موجود ہے اور پوری دنیا کو کامل یقین کے ساتھ کہتاہوں کہ آئندہ پچیس (۲۵)‘‘ تیس (۳۰) سال کے اندر دنیا میں ایک عظیم الشان تغیر پیدا ہونے والا ہے۔ وہ دن قریب ہے جب دنیا کے بہت سے ممالک کی اکثریت اسلام (یعنی قادیانیت) قبول کر چکی ہوگی۔ دنیا کی سب طاقتیں مل کر اس انقلاب 3063کو نہیں روک سکیں گی۔‘‘
بہرحال یہ بے شمار ہیں۔ آگے ظفر اﷲ صاحب کی تقریر ہے…
جناب چیئرمین: آپ نے جو لکھ کر دینا تھا وہ نہیں دیا آپ نے۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: نہیں، جناب! اس کاکوئی وقت نہیں ہے۔ اب ظفر اﷲ صاحب کی تقریر کہ: ’’اگر احمدیہ جماعت برسراقتدار آجائے تو امیروں پر ٹیکس لگائے جائیں گے، دولت کو ازسرنو تقسیم کیا جائے گا، سود پر پابندی لگا دی جائے گی اور شراب نوشی ممنوع قرار دی جائے گی۔‘‘
یہ بہرحال حکومت کا قصہ ہے۔ پھر یہ لکھتے ہیں کہ: ’’حکومت ہمارے پاس نہیں کہ ہم جبر کے ساتھ ان لوگوں کی اصلاح کریں اور ہٹلر یا میسولینی کی طرح جو شخص ہمارے حکموں کی تعمیل نہ کرے اسے ملک سے نکال دیں اور جو ہماری باتیں سنے اوران پر عمل کرنے پر تیار نہ ہو اسے عبرتناک سزا دیں۔ اگر حکومت ہمارے پاس ہوتی تو ہم ایک دن کے اندر اندر یہ کام کر لیتے۔‘‘
یہ تو بہرحال ہے۔ میں مختصراً یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ جماعت احمدیہ کے ہاتھ جب حکومت آئے گی تو جو لوگ احمدیت سے باہر ہوں گے ان کی حیثیت چوہڑوں اور چماروں کی ہو گی۔ بہرحال یہ حکومت آنا اور حکومت کی کوشش کرنا اور اس کے لئے تیاری کرنا، جیسا کہ میں نے اس روز کہا تھا کہ ’’ایک لاکھ سائیکل سوار اور دس لاکھ گھوڑ سوار اور نیزہ باز اور اتنی عورتیں‘‘ یہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہونا چاہئے۔
اس سب کے باوجود جو دنیا میں زیادہ سے زیادہ فیاضانہ سلوک ہو سکتا ہے اس راستے کو سوچ رہے ہیں ہم۔ لیکن اس کے ساتھ یہ لازمی ہے کہ ان کی نقل وحرکت پر نظر رکھی جائے اور جب جو تجویزیں وہاں ہیں: 3064’’وہ لوگ جو واقعی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان نہیں لاتے وہ سمجھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ سب کچلے جائیں گے۔ صرف باقی ہم رہ جائیں گے۔ ہر ایک کو موت نظر آرہی ہے اور صرف ہم کو زندگی دکھائی دے رہی ہے۔ کیونکہ ہمارے متعلق کہا گیا ہے کہ آسمان سے کئی تخت اترے پر تیرا تخت سب سے اوپر بچھایا گیا۔ پس دوسری بادشاہتوں کو خطرہ ہے کہ وہ ٹوٹ جائیں گی۔ مگر ہمیں امید ہے کہ بادشاہت ہمیں دی جائے گی۔ حکمران ڈر رہے ہیں کہ ان کی حکومت جاتی رہے گی۔ مگر ہم خوش ہیں کہ ہمارے ہاتھ میں دی جائے گی۔‘‘ (مداخلت)
مولانامحمد ظفر احمد انصاری: توبہرحال! اس کو صرف ریکارڈ پر لانا پیش نظر تھا۔ مجھے افسوس ہے کہ معزز ممبران کا بہت سا وقت میں نے لیا ہے۔ میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے دوبارہ ان چیزوں کو پیش کرنے کا موقع دیا۔ شکریہ!
Mr. Chairman: Thank you very much. Any honourable member who would like to speak?
Member: No.
Mr. Chairman: Any honourable member who wants to speak?
اگر کسی نے اپنے کسی بیان میں کوئی تصحیح کرنی ہے یا دوبارہ کوئی Add کرنا ہے؟
جناب محمود اعظم فاروقی: میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔
جناب چیئرمین: آپ رہنے دیں۔ اگر آپ کریں گے تو پھر یہ ڈسکشن ہوگی اس پر، آپ رہنے دیں۔ میں ان سے پوچھ رہا ہوں۔
3065مولانا محمد ظفر احمد انصاری: جناب سپیکر صاحب! ایک گزارش مجھے کرنی ہے کہ یہ ساری چیز ریکارڈ میں آرہی ہے۔ میرے خیال میں یہ پوری کارروائی ہاؤس کمیٹی کے ریکارڈ میں آئے گی۔
جناب چیئرمین: ہم جب ریکارڈ Complete کریں گے تو یہ باتیں Omitt کر دیں گے۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: یہی میں کہہ رہا تھا کہ جو چیزیں اس سے متعلق ہیں…
جناب چیئرمین: نہیں، صرف وہ کریں گے، باقی جو یہ ہمارے ریمارکس ہیں آپ کے، یا اپنی ڈسکشن جو کراس ایگزامینیشن سے پہلے ہوئی تھی یا بعدمیں ہوئی تھی، That we shall not make part of the record. یہ ریکارڈ ہم نے پبلیش کرنا ہے، اس کو اناؤنس کرنا ہے۔ That will take some time until and unless we correct it, Sir. کیونکہ یہ جو باتیں ہیں یہ پبلک میں نہیں جائیں گی۔
ایک رکن: نہیں جائیں گی؟ٌ
جناب چیئرمین: اسی واسطے انہوں نے اعتراض کیا ہے کہ شاید یہ ریکارڈ پر نہ آجائیں۔
جناب محمود اعظم فاروقی: جناب! مجھے ایک گھنٹہ بولنے کی اجازت دیں۔
Mr. Chairman: Is the House prepared to grant him leave to speak for one hour?
Members: No, no.
Dr. S. Mahmood Abbas Bokhari: Sir, he can speak in the lobby, if he likes it.
Mr. Chairman: Before we rise for tomorrow, I want to place it again on the...
3066مولانا عبدالحق: فرمائیں جی! فرمائیں۔
ایک رکن: جناب! بیٹھنے دیں ان کو، بیٹھ جائیں گے۔
جناب چیئرمین: تو کل کے لئے میں عرض کروں، میں سب سے پہلے تو آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ کیونکہ یہ ہماری Almost last meeting ہے اور آپ تمام دوستوں نے، حضرات نے، ممبران نے اس کو نہ صرف ایک ڈیوٹی سمجھ کے بلکہ اس کو اپنا ایک جزو ایمان سمجھ کے یہ فرض سرانجام دیا ہے۔ اس کے لئے میں آپ کا نہ صرف مشکور ہوں۔ بلکہ آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ آپ نے اپنے ملک کے نام اور جمہوریت کی بقاء کے لئے اڑھائی مہینے بیٹھ کر خدمت کی ہے اور میں اس سے زیادہ ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ کیونکہ Recommendations آپ کے سامنے آنی ہیں اور مجھے انشاء اﷲ تعالیٰ امید ہے بلکہ مجھے پہلے دن سے یہی امید تھی کہ اﷲتعالیٰ کے فضل وکرم سے ہم اس میں Unanimously متفقہ طور پر کوئی نہ کوئی چیز ہاؤس کے سامنے لائیں گے۔ تو کل صبح سیشن نہیں ہوگا۔ اس واسطے کہ کسی ڈیبیٹ کی ضرورت نہیں۔ ڈیبیٹ ختم ہوچکا ہے۔ تمام ضروری مراحل طے ہو چکے ہیں۔ نیشنل اسمبلی کو Recommendations پیش ہو جائیں گی۔ آپ نے ان کا Explanation سن لیا، اٹارنی جنرل کی تقریر بھی سن لی، کتابوں کے حوالہ جات اور تمام Formalities پوری ہو چکی ہیں۔ اب کل قومی اسمبلی میں بل پیش ہوگا۔ کل ڈھائی بجے سیشن ہوگا۔ ممکن ہے اسٹنڈنگ کمیٹی کا اجلاس بھی ہو۔ ابھی ڈسکشن جاری ہیں۔ بل لیجسلیشن کی صورت میں آئے گا۔ ہم نے ریکارڈ بھی Prepare کرنا ہے۔ کل ڈھائی بجے اسپیشل کمیٹی کا اجلاس ہوگا۔
For legislation or whatever positive or nagative has to be done. The Special Committee will last for about one hour or two hours for finalising recommendations; and then, at 4:30, recommendations shall be presented to the National Assembly which will hold an open session. The National Assembly meets always in open session. But because of the 3067gravity of the situation and the prevailing political condition in the country, we would be strict in the admission not only to the galleries but to the premises of the Assembly even. Passes will be issued only to the family members of the M.N.A's or their relatives. This restriction will be only for tomorrow. This restriction will apply even to the admission in the cafeteria or inside Gate No.3 and 4. Definitely there will be restrictions, and I am sorry for the inconvenience to the honourable members. They will be allowed to come in without any bag in hand. Such things will be avoided under all circumstances. It is for the information of the honourable members. Cards will be issued to them. I am again thankful and grateful to you. Thank you very much.
(قانون سازی کے لئے یا جو کچھ بھی اس میں تبدیل کرنا پڑے۔ خصوصی کمیٹی ایک گھنٹے یا دو گھنٹوں تک برقرار رہے گی تاکہ تجاویز کو حتمی شکل دی جاسکے اور پھر ساڑھے چار بجے ان تجاویز کو قومی اسمبلی کے اوپن سیشن میں پیش کیا جائے گا۔ اس میں تجاویز کو حتمی شکل دی جائے گی۔ قومی اسمبلی کا اجلاس ہمیشہ اوپن سیشن ہوتا ہے۔ لیکن صورتحال کی نزاکت اور ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال کے پیش نظر ہم نہ صرف گیلریوں میں بلکہ اسمبلی کے حدود اربعہ میں بھی داخلے پر سختی کریں گے۔ پاس صرف ایم۔این۔ایز کے اہل خانہ اور ان کے رشتہ داروں کو جاری کئے جائیں گے۔ یہ پابندی صرف کل کے لئے ہوگی۔ اس پابندی کا اطلاق کیفے ٹیریا میں اور گیٹ نمبر۳،۴ میں داخلے پر بھی ہوگا۔ یقینا ان پابندیوں سے معزز اراکین کو پریشانی ہوگی۔ جس کے لئے میں معذرت خواہ ہوں۔ انہیں ہاتھ میں کسی بیگ وغیرہ کے بغیر آنا ہوگا۔ ایسی چیزوں سے ہر صورت میں اجتناب کیا جائے گا۔ یہ معزز اراکین کی معلومات کے لئے میں نے بتایا۔ انہیں کارڈ جاری کئے جائیں گے۔ میں ایک بار پھر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ کا بے حد شکریہ!)
The Special Committee of the whole House adjourned to meet at half past two of the clock, in the afternoon, on Saturday, the 7th September, 1974.
(قومی اسمبلی کے مکمل ایوان کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس ۷؍ستمبر ۱۹۷۴ء ہفتہ اڑھائی بجے شام تک کے لئے ملتوی ہوا)
----------