ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
جناب والا! ان کی طرف سے یہ خوشی اور ناخوشی کا دعویٰ بھی غلط ہے۔ کیونکہ ان کی اپنی چھوٹی سی کتاب کلمتہ الفصل جسے نامعلوم میں کئی مرتبہ پڑھ چکا ہوں کہ ص۱۶۹ پر کتاب کے مصنف مرزابشیراحمد نے ان الفاظ میں وضاحت کی ہے: ’’غیراحمدیوں سے ہماری نمازیں الگ کی گئیں۔ ان کو لڑکیاں دینا حرام قرار دیا گیا۔ ان کے جنازے پڑھنے سے روکا گیا۔ اب باقی کیا رہ گیا ہے جو ہم ان کے ساتھ مل کر کر سکتے ہیں۔ دو قسم کے تعلقات ہوتے ہیں ایک دینی دوسرے دنیوی۔ دینی تعلق کا سب سے بڑا ذریعہ عبادت کا اکٹھا ہونا ہے اور دنیوی تعلقات کا بھاری ذریعہ رشتہ وناطہ ہے۔ سو یہ دونوں ہمارے لئے حرام قرار دئیے گئے۔ اگر کہو کہ ہم کو ان کی لڑکیاں لینے کی اجازت ہے تو میں کہتا ہوں نصاریٰ کی لڑکیاں لینے کی بھی اجازت ہے۔‘‘
جناب والا! یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیں (مسلمانوں) کو اسی طرح سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ عیسائی یہودیوں کو سمجھتے ہیں۔ وہ ہمیں وہی حیثیت دیتے ہیں جو نبی کریم ﷺ مسلمانوں کے بارے میں یہودیوں اور نصاریٰ کو دیتے تھے۔ احمدی، مسلمانوں کو اسی طرح سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ پیغمبر اسلام ﷺ یہودیوں اور عیسائیوں کو الگ امت اور الگ قوم سمجھتے تھے۔ لیکن ان کی لڑکیوں کو مسلمان مردوں سے شادی کرنے کی اجازت ہے۔ مسلمان لڑکیوں کو ان (یہودیوں اور عیسائی مردوں) سے شادی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ بالکل یہی پالیسی احمدیوں نے مسلمانوں کے لئے اختیار کی ہوئی ہے۔
(قادیانیوں میں علیحدگی پسندی کا رجحان/ مسلمانوں سے قادیانیوں کا معاشرتی بائیکاٹ )
مزید یہ کہ میں نے مرزاناصر احمد سے علیحدگی پسندگی کا رجحان رکھنے کے متعلق باربار سوال کیا۔ وجہ یہ تھی کہ میں اسے پورا پورا موقع دینا چاہتا تھا کہ وہ واضح کرے کہ احمدیوں یا قادیانیوں میں اس قسم کا کوئی رجحان نہیں ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ احمدیوں کے ہاں ایک متوازی نظام موجود ہے۔ بعینہ اسی طرح جیسا کہ عیسائیت اور اسلام میں ہے۔ احمدیت کا اسلام کے مقابلے میں متوازی نظام موجود ہے اور یہ ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ مرزاصاحب اپنی ایک الگ امت بنارہے تھے۔ اس کی ایک اور مثال ہے۔ ۱۹۰۱ء میں مرزاصاحب نے اپنے پیروکاروں کو مردم شماری میں ایک الگ فرقہ کے طور پر رجسٹر کروانے کا حکم دیا جو کہ اپنے آپ کو ’’احمدی مسلم‘‘ کہتے تھے۔ جناب والا! مرزابشیرالدین محمود احمد نے کہا تھا اور یہ بات میں نے مرزاناصر احمد کو بطور حوالہ پیش کی تھی کہ: ’’ہمارا اﷲ! ہمارا نبی، ہمارا قرآن، ہماری نماز، ہمارا حج، ہمارا روزہ، ہماری زکوٰۃ، غرض ہماری ہر چیز دوسرے مسلمانوں سے مختلف ہے۔‘‘
میں نہیں سمجھتا اس کا مطلب کیا ہے۔ مرزاناصر احمد نے کہا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسا کہ ہم ان (اﷲ، نبی، قرآن، نماز، حج، روزہ، زکوٰۃ) کی خود تعبیر کرتے ہیں۔ اس نے (جماعت احمدیہ کی) علیحدگی پسندگی کے رجحانات کے متعلق بہت سی وضاحتیں کیں۔ یہ امر واقعہ ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً سیاسی میدان میں مسلمانوں کے نقطۂ نظر کی حمایت کرتے رہے ہیں اور یہ بات کمیٹی کے زیرغور آنا چاہئے۔ اس (مرزاناصر احمد) نے ایک طویل تاریخ بیان کی۔ سر ظفر اﷲ کی خدمات کا تذکرہ کیا۔ اپنے والد مرزابشیرالدین محمود احمد کی کشمیر کمیٹی میں خدمات کا ذکر کیا۔ یہ بات یاد رہے کہ ڈاکٹر اقبالؒ نے اس کمیٹی سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ کیونکہ قادیانی اس کمیٹی کو اپنے مفاد کی خاطر استعمال کرنا چاہتے تھے۔ تاہم اس کو نظر انداز کرتے ہوئے مرزاناصر احمد کا زور اس بات پر تھا کہ انہوں نے ہمیشہ مسلمانوں کے مفاد کی خاطر کام کیا ہے اور مسلمانوں کا ساتھ دیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مرزابشیرالدین محمود احمد نے ایک خطبہ میں جو کہ ۱۳؍نومبر ۱۹۴۶ء کے اخبار میں شائع ہوا تھا۔ کہا تھا کہ اگر برٹش گورنمنٹ نے مسلم لیگ کے خلاف کوئی کارروائی کی تو اسے مسلم قوم کے خلاف حملہ تصور کیا جائے گا اور وہ (قادیانی) مسلم قوم کی حمایت کریں گے۔ یہ یقینا مسلمانوں کی حمایت کے مترادف ہے۔ مگر اخبار کے اسی شمارے میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب وہ یہ کہتا ہے تو اسی وقت اپنا ایک ایلچی وائسرائے کے پاس بھجوا دیتا ہے اور کہتا ہے کہ جس طرح عیسائیوں اور پارسیوں کو نمائندگی دی گئی ہے اور ان کے حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے۔ اسی طرح ’’ہمارے حقوق کا بھی تحفظ کیا جائے۔‘‘ اور برطانوی وائسرائے یا کوئی دوسرا اعلیٰ عہدیدار اس کو یا اس کے نمائندہ کو جواب دیتا ہے۔ ’’آپ ایک مسلم فرقہ ہیں جو کہ اقلیت میں ہے۔ مذہبی اقلیت۔‘‘ مرزابشیرالدین محمود احمد نے جواب دیا کہ احمدیوں کے مفادات کا بھی اسی طرح تحفظ کیا جائے۔ ’’اگر وہ ایک پارسی پیش کریں گے تو میں ہر ایک پارسی کے مقابلہ میں دو احمدی پیش کر سکتا ہوں۔‘‘ یہ استدلال انہوں نے خود اختیار کیا ہے۔ جناب والا! اس نقطہ پر میں پھر ڈاکٹر محمد اقبال کا حوالہ دوں گا۔ وہ فرماتے ہیں: ’’قادیانیوں کی علیحدگی پسندی کے اس رجحان کے مدنظر جو کہ انہوں نے مذہبی اور سماجی معاملات میں تو اتر کے ساتھ اس وقت سے اختیار کر رکھا ہے۔ جب سے (مرزاغلام احمد) کی نبوت کو ایک نئی جماعت کے جنم کی بنیاد بنایا ہے اور اس رجحان کے خلاف مسلمانوں کے شدید ردعمل کے پیش نظر یہ حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ ازخود قادیانیوں اور مسلمانوں کے مابین اس بنیادی اختلاف کا نوٹس لے اور مسلمان قوم کی جانب سے کسی رسمی احتجاج کا انتظار نہ کرے۔ مجھے اس بارے میں حکومت کے سکھ قوم کے بارے میں کی گئی کاروائی سے حوصلہ ملا ہے۔ ۱۹۱۹ء تک سکھ قوم کو ایک الگ سیاسی اکائی نہیں مانا جاتا تھا۔ لیکن بعد میں سکھ قوم کی طرف سے کسی رسمی احتجاج کے بغیر ہی انہیں یہ درجہ دے دیا گیا تھا۔ باوجود اس امر کے کہ لاہور ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ سکھ، ہندو ہیں۔‘‘
جناب والا! علامہ محمد اقبال کی رائے میں قادیانی خود ہی اپنے کو ایک علیحدہ مذہبی جماعت قرار دئیے جانے پر اصرار کرتے رہے ہیں اور اس میں اس اعتراض کا بھی جواب ہے کہ ایوان کو انہیں علیحدہ مذہبی جماعت قرار دینے کا اختیار حاصل ہے۔ یہ اس لئے کہ لاہور ہائی کورٹ اور پریوی کونسل نے فیصلہ دیا تھا کہ سکھ قوم ہندو قوم کا حصہ ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ پارلیمنٹ نے سکھوں کو الگ قوم قرار دے دیا تھا۔ پارلیمنٹ ایسا کرنے کی مجاز ہے۔ یہ بات بھی کمیٹی کے ذہن نشین رہنی چاہئے۔ جناب والا! قادیانیوں کے بارے میں علامہ محمد اقبال مزید فرماتے ہیں: ’’ہمارے عقیدے کے مطابق اسلام اﷲ کا بھیجا ہوا دین ہے۔ لیکن اسلام کا وجود بطور ایک قوم اور معاشرہ تمام تر نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس کا مرہون منت ہے۔ میرے خیال میں قادیانیوں کے لئے دو ہی راستے ہیں یا تو وہ صاف صاف بہائیوں کا طریقہ اختیار کریں یا اسلام کے نبوت کے ختمیت کے نظریے کو ترک کر دیں اور اس سے پیدا ہونے والی الجھنوں کا مقابلہ کریں۔ ان (قادیانیوں) کی طرف سے شاطرانہ تعبیریں محض اس خواہش کے باعث کی جارہی ہیں کہ وہ اسلام کی گود میں بیٹھ کر سیاسی فوائد حاصل کریں۔‘‘
جناب والا! علامہ محمد اقبالؒ آگے فرماتے ہیں: ’’دوسری بات جسے ہمیں فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ قادیانیوں کی اپنی پالیسی اور عالم اسلام کے بارے میں ان کا رویہ ہے۔ تحریک احمدیہ کے بانی نے مسلمان قوم کو ’’سڑا ہوا دودھ‘‘ اور اپنے پیروکاروں کو ’’تازہ دودھ‘‘ کے نام سے پکارا اور موخرالذکر کو اوّل الذکر کے ساتھ میل جول رکھنے سے منع کیا۔ اس کے علاوہ ان کا بنیادی عقائد سے انکار۔ ان کا اپنے آپ کو نیا نام (احمدی) بطور جماعت دینا۔ ان کا عام مسلمانوں کے ساتھ نماز میں شرکت نہ کرنا۔ مسلمانوں سے شادی بیاہ کے معاملات میں بائیکاٹ وغیرہ، وغیرہ! اور سب سے بڑھ کر ان کا اعلان کہ تمام عالم اسلام کافر ہے۔ یہ تمام باتیں بلاشبہ قادیانیوں کی (بطور قوم) اپنی علیحدگی کا اعلان ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مندرجہ بالا حقائق سے صاف ظاہر ہے کہ وہ (قادیانی) اسلام سے کہیں زیادہ دور ہیں۔ بہ نسبت سکھوں کے ہندوؤں سے دوری کے۔ سکھ کم ازکم ہندوؤں سے شادی بیاہ تو کرتے ہیں۔ گو وہ ہندوؤں کے مندروں میں عبادت نہیں کرتے۔‘‘
جناب والا! تو علامہ اقبال کے یہ نظریات ہیں۔ میں یہ معروضات کر رہا ہوں کہ وہ ہمیں مسلمان نہیں سمجھتے۔ میں نے پورے احترام کے ساتھ مرزاناصر احمد کو اس ریزولیوشن کی طرف نشاندہی کی تھی جو انگلینڈ میں ربوہ کے واقعہ کے بعد احمدیوں نے پاس کیا تھا۔ جس میں انہوں نے اپنے آپ کو ’’احمدی مسلمان‘‘ کہا اور ’’پاکستان کے غیراحمدی مسلمانوں‘‘ کی مذمت کی۔ انہوں نے ان کا ذکر بطور پاکستانی کے کیا تو یہ ہیں وہ حالات جس میں انہوں نے خود کو مقید کر رکھا ہے۔
(اسلام کی مقدس شخصیتوں کے بارہ میں قادیانی متوازی نظام)
جناب والا! علاوہ ازیں ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام میں مقدس ہستیوں کے مقابلے میں انہوں نے ایک متوازی نظام قائم کر رکھا ہے۔ صحابہ اور اہل بیت انتہائی واجب الاحترام ہستیاں ہیں۔ مثلاً امیرالمؤمنین، ام المؤمنین۔ اس متوازی نظام سے انتشار پیدا ہوا۔ پھر جب ہم (مسلمان) خوش ہوتے ہیں۔ وہ (قادیانی) خوش نہیں ہوتے۔ جب ہم ناخوش ہوتے ہیں وہ خوش ہوتے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم میں جب انگریزوں نے عراق کو فتح کر لیا تو مسلمان ناخوش ہوئے۔ لیکن انہوںنے قادیان میں چراغاں کیا۔ ہم نے اﷲ کے فضل سے ایک الگ ملک حاصل کیا۔ کیونکہ ہماری سوچ ایک فرد واحد کی سوچ کی مانند تھی۔ ہم خواہ سندھی ہوں، بلوچ ہوں، پٹھان ہوں، پنجابی ہوں، نفسیاتی طور پر ہم ایک دوسرے سے پیوست ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا فہم اور ادراک ان سے بہت مختلف ہے۔ یہ مختصر بھی کمیٹی کے ذہن نشین رہنا چاہئے۔ گو کہ جیسا میں کہہ چکا ہوں۔ ان کی طرف سے جو کچھ کہا گیا ہے۔ اس پر بھی غور کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ مسلمانوں کی حمایت کریں گے۔
جناب والا! اب میں اختتام کی طرف آتا ہوں۔ میں نے کافی وقت لیا ہے۔ اب میں دستور کے مطابق احمدیوں کی حیثیت کے بارے میں گذارشات کروں گا۔ فیصلہ خواہ کچھ بھی ہو۔ اراکین جو بھی راستہ اختیار کریں۔ یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ وہ پاکستانی ہیںا ور وہ شہریت کا پورا پورا حق رکھتے ہیں۔ ’’ذمی‘‘ یا دوسرے درجے کے شہری ہونے کا پاکستان میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یاد رکھئے کہ پاکستان لڑ کر حاصل نہیں کیا گیا۔ بلکہ یہ مصالحت اور رضامندی سے حاصل کیاگیا تھا۔ یہ ایک معاہدہ تھا جس کی بنیاد دو قومی نظریہ پر تھی۔ ہندوستان میں ایک مسلمان قوم تھی اور دوسرے ہندو قوم۔ اس کے علاوہ چھوٹے چھوٹے ذیلی قومی گروہ تھے۔ پاکستان کی تخلیق کے ساتھ مسلمان قوم بھی تقسیم ہوگئی اور اس کا ایک حصہ ہندوستان میں رہ گیا۔ ہم ان کو بے یارومددگار نہیں چھوڑ سکتے تھے۔ کیونکہ پاکستان کو معرض وجود میں لانے کے لئے قربانیاں دی تھیں۔ چنانچہ یہ قرار پایا ان کے شہری اور سیاسی حقوق ہندوؤں کے حقوق کے برابر ہوں گے۔ اسی طرح ہم پاکستان میں ہندوؤں اور دیگر اقلیتوں کو مساوی شہری اور سیاسی حقوق دیں گے۔ اس بات کا ذکر آپ کو چوہدری محمد علی کی لکھی ہوئی کتاب ’’Emergence of Pakistan‘‘ (ایمرجنس آف پاکستان) میں ملے گا۔ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کو ہوا تھا۔ جسے قائداعظم نے خطاب کیا تھا۔ وہ ایک نہایت مشکل دور تھا۔ بے شمار مسلمان شہید ہوگئے تھے۔ قربانیاں دی گئی تھیں۔ اس معاہدہ کے باوجود ہندو مسلمان کو ذبح کر رہے تھے۔ جس کا قدرتی طور پر پاکستان میں ردعمل ہوا۔ قائداعظم نے مسلمانوں سے پرامن رہنے کی پرسوز اپیل کی۔ وہ ہمیں اپنے وعدے کا احساس دلا رہے تھے۔ وہ حکومت پاکستان کو اقلیتوں کے مفادات کے تحفظ کی یاد دہانی کرا رہے تھے۔ انہوں نے فرمایا تھا: ’’آپ اپنے مندروں کو جانے میں آزاد ہیں۔ اپنی مسجدوں میں جانے کو آزاد ہیں۔‘‘
اور مزید فرمایا: ’’وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو، ہندو نہیں رہے گا اور مسلمان مسلمان نہیں رہے گا۔ مذہبی طور پر نہیں بلکہ سیاسی طور پر یعنی یہ کہ سب کے لئے سیاسی آزادی برابر ہوگی۔‘‘
گو اس تقریر کو غلط معنی پہنائے گئے اور کہاگیا کہ قائداعظم نے دو قومی نظریہ کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ لیکن ایسا نہیں تھا۔ وہ ایک وعدے اور معاہدے کی بات کہہ رہے تھے۔ اس کے بعد بھی قائداعظم نے دو قومی نظریہ کی وکالت کی۔ جس کی وضاحت چوہدری محمد علی نے اپنی کتاب میں کی ہے۔ نظریہ یہ تھا کہ ہم بحیثیت قوم اقلیتوں کے ساتھ مساوی سلوک کے قول کو یاد رکھیں اور دستور میں دئیے گئے حقوق کو یقینی بنائیں۔ جن میں نہ صرف بلا تخصیص ملازمت حاصل کرنے کے حقوق مساوی، قانونی حقوق، قانونی تحفظ کے حقوق شامل ہیں۔ بلکہ اپنے مذہب کے پرچار اور عمل کرنے کے حقوق اور مذہبی اداروں کے تحفظ کے حقوق بھی شامل ہیں۔ یہ بات کمیٹی ازراہ کرم اپنے ذہن میں رکھے گی۔ یہ ان کے حقوق ہیں۔ خواہ آپ انہیں الگ جماعت قرار دیں یا نہ دیں۔ یہ ان کے حقوق ہیں اور آئین ان حقوق کا تحفظ مہیا کرتا ہے اور آئین کے تحفظ اور سربلندی کا حلف معزز اراکین نے لے رکھا ہے۔
جناب والا! اگر اس قسم کا فیصلہ ہوا تو کئی الجھنیں پیدا ہوں گی۔ یہ بات میں قادیانیوں کے نقطۂ نظر سے کر رہا ہوں۔ وہ کیا کہتا ہے خطوط جو آپ کو ملے ہیں۔ خطوط جو مجھے ملے ہیں۔ ان کو ذہن میں رکھئے۔ وہ کہتا ہے خبردار! آپ مجھے غیرمسلم کہہ دیں گے۔ لیکن بیرونی دنیا میں مجھے مسلمان ہی سمجھا جائے گا۔
زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلماں ہوں میں
وہ کہتا ہے اس گنجلک پر غور کریں۔ میں نمازیں پڑھوں گا۔ روزے رکھوں گا۔ میں اسلام کے تمام شعائر پر عمل کروں گا۔ پھر بھی آپ مجھے کافر کہیں گے اور کافر یہ سمجھیں گے کہ میں مسلمان ہوں اور اس سے مشکلات اور الجھنیں پیدا ہوں گی۔ یہ سب کچھ وہ ہے جو وہ (قادیانی) کہتے ہیں اور ان کا نقطۂ نظر پیش کرنا میرا فرض ہے۔
آخر میں جناب والا! میں اپنی طرف سے تشکر کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ سب سے پہلے آپ (چیئرمین صاحب) کا اور پھر تمام اراکین کا، جنہوں نے میرا نقطۂ نظر سمجھنے میں میری امداد فرمائی۔ مجھے بالخصوص تو کسی کا ذکر نہیں کرنا چاہئے۔ تاہم پھر بھی میں مولانا ظفر احمد انصاری صاحب کا تہہ دل سے مشکور ہوں جنہوں نے میری بہت امداد فرمائی اور جناب عزیز احمد بھٹی صاحب کا بھی۔ دونوں احباب نے میری بہت اعانت فرمائی۔ درحقیقت میں ہر رکن کا ہی شکرگزار ہوں۔ سب ہی میری معروضات سمجھنے میں میری امداد فرمائی۔ مجھے امید ہے کہ جو گزارشات میں نے پیش کی ہیں وہ کسی قدر کارآمد ہوں گی۔ آپ کا بہت بہت شکریہ!)
(جناب چیئرمین: جناب اٹارنی جنرل ! میں اپنی طرف سے اور ایوان کمیٹی کے اراکین کی طرف سے آپ کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یہ بات ریکارڈ پر رہے کہ آپ نے کس قدر محنت اور کاوش ان مہینوں میں کی ہے جو کہ نہ صرف کمیٹی کے لئے بلکہ پورے ملک کی خاطر تھی۔ ہم سب اس کے لئے شکر گزار ہیں۔ آپ کا بہت بہت شکریہ! اب میں معززین اراکین سے گذارش کرتا ہوں۔ اگر ان میں سے کوئی صاحب پوچھنا چاہیں)
مولانا عبدالحق صاحب! آپ تو تقریر کر چکے ہیں۔
مولانا عبدالحق: اٹارنی جنرل صاحب نے جس فہم وفراست سے اس مسئلے کی توضیح فرمائی ہے، اس کا اجر عظیم اﷲ ان کو عطاء فرمائے۔ اس دینی خدمت کے لئے غیبی نصرت 3049تھی کہ اﷲ تبارک وتعالیٰ نے ہماری ترجمانی یعنی کمیٹی کی ترجمانی کے لئے انہی کو منتخب فرمایا اور انہوں نے اپنے فریضے کو بہت ہی احسن طریقے سے انجام دیا ہے۔
Mr. Chairman: He has been true to his duties.
میں نے سب ممبران کی طرف سے شکریہ ادا کر دیا ہے۔ مولانا ظفر احمد انصاری صاحب!
(مولانا ظفر احمد انصاری کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پرخطاب)
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: جناب والا! مجھے اس کا احساس ہے کہ میں پہلے خاصا وقت لے چکا ہوں اور اب دیر بھی ہوگئی ہے۔ ابھی میرے پاس بہت سی چیزیں تھیں جو جلد سے جلد میں کہنا چاہتا تھا۔ لیکن اٹارنی جنرل صاحب نے بہت سی چیزوں کی وضاحت کر دی ہے، اس لئے میں بہت مختصر اس پر آؤں گا۔
مرزائیوں کے دونوں گروپوں کے نمائندوں نے، جو آئے تھے، بہت سے مغالطے پیدا کئے۔ بعض کو میں نے اس روز رفع کرنے کی کوشش کی ہے۔ چند ایک اور ہیں جن کے متعلق میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ جہاد کے متعلق انہوں نے بہت سے اقتباسات مختلف علماء کے پیش کئے۔ لیکن اس میں بنیادی فرق، جو میں نے اس روز بتایا اور نام لے لے کر بتایا، وہ یہ ہے کہ کئی علماء نے جہاد کا فتویٰ دیا اور جہاد کیا۔ دوسرے فاضل مقررین نے بھی بتایا۔ یقینا ایسے علماء بھی تھے جن کا یہ مؤقف تھا کہ اس وقت جہاد کی شرائط نہیں ہیں، حالات سازگار نہیں ہیں، کامیابی کے امکانات نہیں ہیں۔ یہ تو وہ چیز ہے جو ہمیشہ زیرغور آتی ہے۔ لیکن کسی کو یہ جرأت نہیں ہوسکی اور کبھی کسی مسلمان کو بھی جرأت نہیں ہوسکتی کہ وہ یہ کہے کہ جہاد ہمیشہ کے لئے منسوخ ہوگیا ہے۔ ایک فتویٰ بھی ایسا نہیں دکھایا جاسکتا جس میں یہ کہا گیا ہو کہ جہاد حرام اور قطعاً حرام ہے اور جہاد کا حکم موقوف قرار دیا گیا ہے۔ آج سے انسانی جہاد جو تلوار سے کیا جاتا تھا، خدا کے حکم سے بند کیاگیا۔ دین کے لئے آج سے زمینی جہاد کا خاتمہ ہوگیا۔ یہ اس طرح کی چیزیں، جب کہ قرآن اور حدیث 3050میں واضح احکام موجود ہیں اور بہت معروف حدیث ہے کہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا۔ یہ مغالطہ کہ کسی خاص وقت میں جہاد کے لئے شرائط پائی جاتی ہیں، حالات سازگار ہیں یا نہیں ہیں، یہ بالکل ایک چیز ہے اور یہ کہنا کہ جہاد منسوخ ہوگیا ہے، قطعاً بند ہوگیا ہے، یہ وہ چیز ہے جو اسلام کے بنیادی احکام کی نفی پر دلالت کرتی ہے۔
علماء کے فتوے کے سلسلے میں مشترکہ بیان میں کچھ وضاحت آگئی ہے۔ لیکن ایک بنیادی فرق کی طرف میں آپ کے توسط سے ایوان کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ علمائے کرام جو فتوے دیتے ہیں، وہ اپنے علم کی بنیاد پر دیتے ہیں، دلائل شرعی کی بنیاد پر دیتے ہیں، اور اکثر فتوے جو ممتاز مفتی صاحبان دیتے ہیں، اس میں دلیل رکھ دیتے ہیں کہ قرآن کی فلاں آیت یا فلاں حدیث یا فلاں امام کا حکم ہے۔ اسی طرح سے وہ دیتے ہیں۔ یعنی وہ ان کے علم پر مبنی ہوتا ہے، جس قدر کسی کا علم ہو۔ اس میں کوئی الہامی کیفیت نہیں ہوتی۔ یعنی اس میں یہ دعویٰ نہیں ہوتا کہ یہ خدا کی طرف سے ہے جس میں غلطی کا امکان نہیں ہے۔ بہت سی مثالیں ایسی ہوتی ہیں کہ ایک عالم فتویٰ دیتا ہے۔ کچھ دن کے بعد اسے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس میں کوئی بات رہ گئی تھی یا کسی حدیث پر اس کی نظر نہیں پڑی تھی، تو وہ خود اس فتوے کو واپس لیتا ہے۔ اس دور کے ایک بہت معروف عالم مولانا اشرف علی تھانویؒ کی کوئی پونے دو سو صفحے کی کتاب ہے۔ پوری کتاب جس میں انہوں نے ان تمام فتوؤں کو جمع کیا ہے۔ جس میں انہوں نے ترمیم کی یا جن کو واپس لیا ہے۔ یہ کوئی اس طرح کا دعویٰ نہیں ہوتا۔ کہ یہ کوئی خطاؤں سے پاک ہے۔ پھر ایک مفتی نے فتویٰ دیا، اسی ملک کے دوسرے لوگ اس سے اختلاف بھی کر سکتے ہیں۔ اس لئے علماء کا فتویٰ اور مرزاصاحب یا ان کے صاحبزادے نے جو فتویٰ دیا ہے یا اب جو دے رہے ہیں، ان دونوں میں بہت اختلاف ہے۔
3051عالم اسلام کے سلسلے میں بہت سی چیزیں جناب اٹارنی جنرل صاحب نے فرمادی ہیں، اس لئے ان پر مجھے مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ بہرحال ایک دو چیزیںہیں جن کی طرف میں خاص طور پر آپ کی توجہ دلاؤں گا۔ پہلے وہ اقتباس آچکا ہے کہ ترکوں سے مذہباً ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ پورے مسلمانان ہند نے ترکوں کی حمایت میں جس وقت ان پر حملہ ہوا۔ جنگ ہورہی تھی، ان کو مٹایا جارہا تھا تو شاید کم سے کم میری عمر کے لوگوں کی یاد میں اتنا زیادہ جوش وخروش مسلمانوں میں کبھی پیدا نہیں ہوا جتنا خلافت کی تحریک میں پیدا ہوا۔ اس کے بعد فلسطین کا قصہ ہے، اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مسلم لیگ کا کوئی اجلاس ایسا نہیں ہوتا تھا، ہم بڑی دشواریوں سے گزر رہے تھے، لیکن کوئی اجلاس ایسا نہ ہوتا تھا کونسل کا، کہ جہاں فلسطین کے لئے ہم نے ریزولیوشن پاس نہ کئے ہوں اور اس وقت سے لے کر اب تک یعنی حکومت بن جانے کے بعد بھی، اس سے پہلے بھی، فلسطین کے مسئلے میں ہم سو فیصدی پوری طرح عربوں کے حامی رہے ہیں اور آج بھی ہیں۔ لیکن ان کا قول میں آپ کو سناتا ہوں جس میں انہوں نے یہ لکھا ہے، انہوں نے کہا ہے کہ ’’عرب فلسطین کے حکمران ہونے کے مستحق نہیں ہیں۔‘‘ یعنی ہمیشہ کے لئے ان کا استحقاق ہی ختم کر دیا ہے اور دلیل یہ دی ہے کہ چونکہ وہاں کے مسلمان ایک نئے نبی کے منکر ہیں تو جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نبی ہونے کے بعد یہودیوں سے وہ جگہ چھین لی گئی تو اب جو ایک نیا نبی آیا ہے اس کے چونکہ منکر ہیں اس لئے یہ اس کی تولیت کے، اس کے مالک ہونے کے، اس کے حکمران ہونے کے مستحق ہی نہیں ہیں۔ ہم جس دور سے گزر رہے ہیں ویسے بھی اور اب اس اسلامی کانفرنس کے انعقاد کے بعد بہرحال ہمیں اپنی قومی اور اجتماعی زندگی میں ان تمام چیزوں کا لحاظ رکھنا پڑے گا کہ دنیا کے کون سے ممالک نہ صرف مذہبی حیثیت سے بلکہ اور حیثیتوں سے ہمارے ساتھ ہیں تو اس سلسلے میں بھی ان کا مؤقف ہم سے کس قدر مختلف ہے وہ میں نے واضح کیا ہے۔
3052اب انہوں نے باربار یہ مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے اور بہت عرصے سے یہ کہہ رہے ہیں کہ صاحب! ہم کلمہ گو ہیں، ہمیں کافر کیسے کہاجاتا ہے اور پھر یہ جو ہے کہ عربی، کہ جو کوئی تمہیں سلام کرے اسے کافر نہ کہو، اسے مؤمن سمجھو۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ اس معیار کا سبق وہ ہمیں دے رہے ہیں یا خود بھی اس پر عمل پیرا ہیں؟ کیا ۷۵ کروڑ مسلمان دنیا کے لا الہ الا اﷲمحمد رسول اﷲ کے قائل نہیں ہیں؟ کیا ان کے ہاں اسلام رائج نہیں ہے؟ ظاہر ہے کہ وہ ان چیزوں کے معنے یہ نہیں لیتے۔ خود کو مسلمان کیوں توقع کرتے ہیں؟ جب وہ کسی کو احمدی بناتے ہیں تو کیا وہ صرف کلمہ پڑھا کر بناتے ہیں؟ وقت نہیں ہے ورنہ میں وہ سناتا۔ بہرحال وہ بیعت سب نے دیکھی ہوگی۔ جس میں ایک بیعت یہ ہے کہ ہم مرزاغلام احمد کے تمام دعوؤں کو صحیح جانتے ہیں اور خلیفہ وقت کی معروف میں پوری طرح اطاعت کریں گے۔ اس کے بغیر احمدی نہیں ہو سکتے اور جب احمدی نہ ہوا تو وہ مسلمان نہ ہوا۔ تو ان کے نزدیک تو مسلمان ہونے کا معیار یہ ہے، اور ہم سے وہ یہ کہتے ہیں کہ بس جو کوئی تم سے راہ چلتے سلام کر لے اس کو مسلمان سمجھو، تو معیار تو ایک ہی ہونا چاہئے اور مسلمانوں سے بیزاری کا عالم یہ ہے کہ یہ بھی فتویٰ ہے کہ غیراحمدیوں کا کفر بیّنات سے ثابت ہے اور کفار کے لئے دعائے مغفرت جائز نہیں۔ کوئی مسلمان مرجائے تو اس کے لئے دعائے مغفرت کی ممانعت ہے۔ اس لئے ہم سب کا کفر جو ہے یہ بیّنات سے ثابت ہے ان کے نزدیک۔
اب اس روز میں نے کچھ عرض کیا تھا کہ جیسا کہ انہوں نے کہا کہ ہماری ہر چیز علیحدہ، ہمارا خدا الگ،ہمارا رسول الگ اور سب چیزیں۔ کچھ چیزوںکی تفصیل اور دوستوں نے بیان کی تھی۔ بہرحال خدا کا جو تصور ان کا ہے ہمارا وہ تصور نہیں ہوسکتا۔ کبھی ہم خدا کے لئے یہ تصور نہیں کر سکتے کہ کوئی مسل لے جائے گا آدمی، اور اس کے اوپر وہ دستخط کرے گا، روشنائی چھڑکے گا اور اس کو چارپائی پر بٹھائے گا اور بیٹا کہے گا اور اس 3053کے بعد نہایت ہی بیہودہ قسم کے تصورات بھی ہیں کہ اﷲتعالیٰ مرد بن گیا اور کیا قصہ ہے ان کے صاحبزادے مرزابشیرالدین محمود احمد نے بتایا کہ وہ عورت بن گئے اور وہ بہت خوبصورت عورت تھی اور پھر یہ کہ اب جنت میں تم میرے ساتھ رہو۔ تو بہرحال اس طرح کے بیہودہ تصور ہمارے ہاں نہیں ہیں۔
رسول کا تصور بھی ہمارا مختلف ہے۔ قرآن کے متعلق میں بتا چکا ہوں کہ ان کے ہاں! ان کے نزدیک حضرت مسیح موعود اپنے الہامات کو کلام الٰہی قرار دیتے ہیں اور ان کا مرتبہ بلحاظ کلام الٰہی ہونے کے ایسا ہے کہ جیسا کہ قرآن مجید، تورات اور انجیل کا ہے، اور بہرحال حدیث پر مقدم ہے۔ رسول اکرم ﷺ کے اقوال پر مرزاغلام احمد کا الہام جو ہے وہ مقدم ہے۔ یہ اقتباس آچکا تھا، پہلے یہ۔
(منکرین خلافت کا انجام، ص۱۹)
(قادیانی ہرامر میں مسلمانوں سے علیحدہ تصور رکھتے ہیں)
اب آپ دیکھئے کہ ہماری دینی اصطلاح میں خدا، رسول، قرآن، حدیث، وحی اور الہام کی بھی یہ ہے کہ وحی ہمارے نزدیک منقطع ہوچکی ہے اور تمام دینی لغتوں میں اس کی تعریف جو انگریزی لغتوں میں بھی، انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجنز میں بھی، اور وہ بھی یہ ہے کہ وحی وہ چیز ہے جو رسولوں پر، انبیاء پر جو کلام نازل ہوتا ہے۔ وحی اور الہام کا تصور ہمارے نزدیک مختلف ہے، اور عظمت انبیاء کا تصور بھی ہمارے نزدیک مختلف ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر کسی نبی کا تعین کیا جائے تو انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ عظمت اہل بیت میں بھی یہی ہے اور ان کی جو رائے ہے وہ اقتباسات میں آچکا ہے۔ حج کے متعلق بھی دیکھا جائے کہ اب قادیان کو اﷲتعالیٰ نے اس کام کے لئے منتخب کیا ہے۔ جہاد کے بارے میں عرض کر چکا ہوں۔ درود کے متعلق میں نے بتایا تھا اور اس روز فوٹو اسٹیٹ بھی دیا تھا۔ اس کو انہوں نے قبول نہیں کیا۔ لیکن ایک دوسرا درود انہیں میں نے بتایا تھا ان کی کتابوں میں، جس کا فوٹو اسٹیٹ اب بھی موجود ہے اور چھپا ہوا کتاب میں بھی ہے۔ (عربی)
یہ درود ہے ان کا۔ صحابہ کے متعلق بھی ان کا تصور اور ہے 3054اور ہمارا تصور اور ہے، بلکہ بالکل مختلف ہے۔ آئمہ کے متعلق جو تصور ہے وہ بالکل مختلف ہے۔ امہات المؤمنین کے متعلق بھی جو تصور ہے وہ بالکل مختلف ہے۔ مسجد اقصیٰ کا تصور مختلف ہے۔ اصحاب صفہ کا تصور مختلف ہے۔ مکہ اور بیت اﷲ کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ وہ چوبارہ جہاں بیٹھ کر وہ (مرزاقادیانی) ذکر کیا کرتے تھے۔ اس کے لئے اﷲ نے کہا ’’من دخلہ کان آمنا‘‘ کہ جو اس میں داخل ہوا وہ امن پاگیا۔ حالانکہ یہ آیت جو ہے وہ حرم شریف کے متعلق ہے۔ قادیان کے لئے انہوں نے لکھا ہے کہ ہم تو قادیان کو مکہ اور مدینہ دونوں سمجھتے ہیں۔ مگر لاہوری قادیان کو مکہ سمجھتے ہیں اور لاہور کو مدینہ سمجھتے ہیں۔ یہ گویا فرق ہے دونوں میں۔ یہ ہمارے ہاں طریقہ رائج ہے کہ اگر کوئی غیرمسلم وفات پاجاتا ہے تو اسے مرحوم نہیں کہتے۔ ہم اس کو آنجہانی لکھتے ہیں۔ سرسید مرحوم کو جہاں ذکر کیا ہے انہوں نے ہر جگہ آنجہانی لکھا ہے، جیسے ہم ہندوؤں کے متعلق لکھتے ہیں یا عیسائیوں کے متعلق لکھتے ہیں۔ پرسوں میں نے یہ اقتباس بھی پیش کیا تھا کہ مسلک اور مکتبہ فکر کا اختلاف تو مسلمانوں میں ہوتا ہے۔ لیکن دین کے متعلق کسی نے نہیں کہا کہ ہمارا دین مختلف ہے۔ اس روز میں نے اقتباس سنایا تھا کہ انہوں نے کہا کہ جس دین کو مرزاصاحب لے کر آئے ہیں، انہوں نے کہا کہ اﷲ اس کا غلبہ کرے گا۔ امت کے متعلق اقتباس آچکا ہے، تو وہ ایک الگ امت ہیں۔
اب میں بہت مختصر آپ کو ایک ایسے الفاظ سناتا ہوں، مسلمانوں کے عقیدے کے اعتبار سے اور جذباتی اعتبار سے، رسول کریم ﷺ سے جو تعلق ہے، اتنے عرصے تک ان کی ہر طرح کی اہانت آمیز باتیں برداشت کی ہیں۔ پوری مسلمان قوم کے لئے، صلحاء کے لئے، انبیاء کے لئے، خود رسول ﷺ کے متعلق اور ہمارے ہاں نعمتیں رائج ہیں۔ جس سے انسان کے اندر ایک جذبہ ابھرتا ہے اور اس کی ایک تسکین ہوتی ہے۔ رسول اﷲ ﷺ کی عظمت میں نعت اور صلوٰۃ وسلام انہوں نے 3055اپنے لئے الگ بنایا ہے۔ میں اس کے چند شعر سناتا ہوں۔ صلوٰۃ وسلام جگہ جگہ ہوتے ہیں۔ اب ان کے ہاں جو ہوتا ہے صلوٰۃ وسلام وہ یہ ہے:
’’اے امام الوریٰ سلام علیک
مہ بدر الدجی سلام علیک
مہدی و عیسیٰ موعود احمد مجتبیٰ سلام علیک
مطلع قادیان پہ تو چکا ہو کے شمس الہدیٰ سلام علیک
تیرے آنے سے سب نبی آئے مظہر الانبیاء سلام علیک
سکت وحی محبت جبریل سدرۃ المنتہیٰ سلام علیک
مانتے ہیں تیری رسالت کو اے رسول خدا سلام علیک‘‘
یہ الفضل میں یکم؍جولائی ۱۹۲۰ء کی اشاعت میں شائع ہوا ہے۔ اس سے زیادہ ایک اور دل آزار نظم ہے اور ہر جگہ گویا توازن قائم ہے ایک رسول ﷺ کے مقابلے میں، ہم رسول مدنی ﷺ کہتے ہیں اور اس پر ہماری بے شمار فارسی میں، اردو میں نعتیں ہیں۔ اب رسول مدنی ﷺ کے وزن پر انہوں نے قدنی بنایا ہے، وہ بھی اشعار ہیں:
(رسول قدنی)
’’اے میرے پیارے ارے میری جان رسول قدنی
تیرے صدقے تیرے قربان رسول قدنی
انت منی و انا منک خدا فرمائے
میں بتاؤں تیری کیا شان رسول قدنی
عرش اعظم پہ حمد تیری خدا کرتا ہے
ہم ناچیز ہیں کیا شان رسول قدنی
دستخط قادر مطلق تیری مسلوں پہ کرے
اﷲ اﷲ تیری شان رسول قدنی
3056پہلی بعثت میں تو محمد ہے اب احمد ہے
اس پر یہ اترا ہے قرآن رسول قدنی‘‘
اب آگے ملاحظہ ہو:
’’سرمۂ چشم تیری خاک قدم بنوا لے
روز عاصم شہہ جیلانی رسول قدنی‘‘
اب یہ اشتعال انگیزی اور ایذا رسانی کی انتہاء ہوگئی۔ لیکن اتنا زمانہ مسلمانوں کو برداشت کرنا پڑا۔ یہ غلط تصور رواداری کا تھا، اور رواداری تو اسے نہیں کہہ سکتے۔ بے حمیتی کہہ سکتے ہیں یا جہالت کہہ سکتے ہیں۔ بہرحال ہم سب اس میں گرفتار رہے۔ اﷲتعالیٰ ہمیں اس سے نجات دے۔
اب اس کے لئے ہم جو حل پیش کرنا چاہتے ہیں جو پورے ایوان کا میلان معلوم ہوتا ہے، وہ حل کیا ہے؟ ہم اس مسئلہ کا وہ حل نہیں پیش کرنا چاہتے جو مذہبی اختلاف کی بناء پر جس طرح عیسائیوں نے یہودیوں کے مسئلے کو حل کیا۔ جس طرح فرانس میں، انگلستان میں، پرتگال میں،اسپین میں، اٹلی میں، جرمنی میں اور روس میں اس مذہبی اختلاف کی بناء پر جو کچھ کیاگیا ہم وہ حل نہیں پیش کرتے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ انکے سامنے یہ دو چیزیں ہیں، یا تو اپنے مذہب سے تائب ہو یا تم جلاوطن کئے جاؤ گے یا قتل کئے جاؤ گے۔ ہم یہ نہیں کہتے۔ حالانکہ ہماری دل آزاری انہوں نے اس سے زیادہ کی ہے۔ ہم وہ اس وقت نہیں کہتے۔ ہم اس قسم کا بھی کوئی حل پیش نہیں کرنا چاہتے جو دوسری نظریاتی مملکتیں کرتی ہیں۔ عذاب دینا، ایذا دینا، اس سے بھی نیچے اتر کر نسلی بنیادوں پر جہاں امتیازات ہیں، وہاں کے دستور میں جو چیزیں ہیں ہم وہ بھی نہیں کہتے۔ آسٹریلیا کے دستور میں مثلاً یہ چیز ہے کہ انتخابات کے موقع پر:
"Aborginial natives shall not be counted. No- election law shall disqualify any person other than a native."
3057یا جنوبی افریقہ کی حکومت تھی اور جناب! امریکہ کے دستور میں ہے کہ:
"Excluding Indians, not taxed."
یعنی سب کو حق ہے، ان کو حق نہیں ہے۔ ہمارے سامنے اس طرح کا کوئی حل نہیں ہے۔ ہم جو حل پیش کرنا چاہتے ہیں اس کی حیثیت یہ ہے کہ ہم ان کی اس درخواست کو جو انہوں نے ۲۸سال پہلے انگریزوں کے سامنے پیش کی تھی، جو ۱۳؍نومبر ۱۹۴۶ء کو شائع ہوئی ہے، ہم ان کی اس درخواست کو منظور کرتے ہیں۔ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں بھی عیسائیوں اور پارسیوں کی طرح حقوق دئیے جائیں۔ ہم ان کے لئے وہی کرنا چاہتے ہیں، عین ان کی منشاء کے مطابق کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ان کے دل میں فساد نہیں ہے تو انہیں خوش ہونا چاہئے کہ ان کی درخواست ۲۸سال پہلے ان کے آقا منظور نہیں کر سکے تھے۔ آج ہم اس درخواست کو منظور کرتے ہیں تو اگر فساد کی نیت نہ ہو تو انہیں یہ سمجھنا چاہئے اور ہمارے اور ان کے درمیان صورت اب یہ ہوگئی ہے کہ:
ہم بھی خوش نہیں وفا کر کے
تم نے اچھا کیا نبھا نہ کی
ایک زمانہ گزرا ہر طرح کی چیزوں کو ہم برداشت کرتے رہے۔ لیکن انہوں نے اپنی پالیسی کے مطابق ربوہ میں جو واقعہ کیا اس کے بعد ظاہر ہے کہ پوری قوم مشتعل ہوئی۔ انہوں نے یہ سمجھ کر نہیں کیا، اتنے نادان نہیں ہیں کہ وہ سمجھتے ہوں کہ اتنے بڑے واقعہ کے بعد قوم سوتی رہے گی۔ ان کا منشاء یہ تھا کہ اس طاقت کا مظاہرہ کر کے دیکھیں کہ کتنا ہمارا رعب پڑتا ہے۔ یہ ان کی تحریروں میں موجود ہے کہ فلاں وقت تک تم اتنی طاقت فراہم کر لو کہ دشمن تمہارے رعب سے مرعوب ہو جائے۔ بہرحال یہ اس انگریز نے بھی منظور نہیں کیا تھا جس کے یہ خود کاشتہ پودے تھے اور جس کے متعلق ایک جملہ ان کا سناتا ہوں، اس وقت نہیں آیا تھا کہ ’’غرض یہ ایک ایسی جماعت ہے جو سرکار انگریزی کی نمک پروردہ اور نیک نامی حاصل کر دہ ہے۔‘‘ تو انہوں نے بھی اس درخواست کو نہیں مانا تھا۔ ہم 3058ازراہ فیاضی اور ازراہ فراخ دلی اس درخواست کو مانتے ہیں، اور ان کی جان ومال کی حفاظت کا وعدہ کرتے ہیں، اس شرط کے ساتھ کہ اگر پاکستان کے ساتھ غداری اور اس کے ساتھ بے وفائی کا مظاہرہ نہ کیا گیا۔ یہ سب کچھ ہے اور اس سارے اعلان کے بعد بہرحال ان کی نگرانی کرنی پڑے گی، دیکھنا پڑے گا کہ ان کی نقل وحرکت کیا ہے، ان کے جو عزائم ہیں اس کے متعلق یہ کیاکرتے ہیں۔
عالم اسلام کے سلسلے میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے دوسری جگہوں پر کہ جہاں انہوں نے مراکز قائم کئے ہیں، بہت سے لوگوں کو مسلمان بنایا ہے، تو وہاں اس کے برے اثرات ہوں گے۔ ایک جگہ کا میں صرف آپ سے مثال کے طور پر ذکر کرتا ہوں کہ نائیجیریا میں ابھی وسط اپریل میں ایک کانفرنس ہوئی اور اس میں تمام مسلم مکاتب فکر اور مسلم تنظیموں کے لوگ بلائے گئے۔ ان کو دعوت نہیں دی گئی تھی۔ اسی بناء پر نہیں دی گئی تھی کہ یہ مسلمان نہیں سمجھے جاتے۔ بہرحال جو لوگ ان کے دام فریب میں آچکے تھے جب ان کو یہ پتہ چلا انہوں نے کہا کہ ہمیں کیوں نہیں بلاتے؟ انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو مسلمان نہیں سمجھتے۔ کیونکہ آپ ایک دوسرے نبی کی امت ہیں، تو انہوں نے کہا کہ ہم کو غلط فہمی رہی۔ بہت بڑی تعداد وہاںسے تائب ہوگئی اور تائب ہونے کے بعد اس قدر بے زاری لوگوں میں پیدا ہوئی کہ انہوں نے اپنا مشن بند کیا۔ لیکن اب ایک دوسرے نام سے ’’تحریک انوار اسلام‘‘ سے وہاں کام کر رہے ہیں۔
شام میں ۱۹۵۷ء میں وہاں کے مفتی اور ایک بہت عظیم شخصیت کے خاندان سے ابوالدین عابدین کے فتویٰ پر ۱۹۵۷ء میں وہاں کی انٹیریر گورنمنٹ نے ان کے خلاف تحقیقات کیں اور وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ جاسوسی کرتے ہیں،ا سلام کی بیخ کنی کرتے ہیں۔ چنانچہ وہاں ان کو بین (Ban) کیا گیا ۔ ان کے آفس اور پراپرٹی کو سیل کیا گیا۔ اسی طرح مصر میں جب معلوم ہوا کہ یہ اسرائیل کے لئے جاسوسی کرتے ہیں، ان کا داخلہ ممنوع ہوا۔ سعودی عرب کا آپ لوگ جانتے ہیں۔