ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
2502ناظرین کرام جیسا کہ ہم نے ’’دومسئلے‘‘ کے زیرعنوان لکھا تھا کہ مرزاناصر احمد صاحب کے بیان کے بعد اب ساری بحث ان دو مسئلوں پر ہوگی۔
۱… آیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں یا زندہ آسمان پر موجود ہیں اور آخری زمانہ میں دوبارہ نازل ہوں گے۔
۲… اگر بالفرض وہ فوت ہوچکے ہیں تو کیا مرزاغلام احمد قادیانی وہی آنے والا مسیح ابن مریم ہوسکتا ہے۔ جس کی خبر سینکڑوں حدیثوں میں موجود ہے؟
چنانچہ مسئلہ نمبر۲ پر کافی بحث کر دی گئی۔ جس سے یہ ثابت ہوگیا کہ مرزاغلام احمد قادیانی قطعاً آنے والا مسیح ہی نہیں بلکہ وہ مسلمان بھی ثابت نہیں ہوسکتا۔ اب ہم مسئلہ نمبر۱ یعنی حیات عیسیٰ علیہ السلام پر بحث کرتے ہیں۔
پہلے پہل جو سائنس کا چرچا ہوا اور انگریزوں کی غلامی کا طوق بھی گردنوں میں تھا اور ہرایرے غیرے کو سائنس کے نام سے اسلامی عقائد پر اعتراض کر کے اپنے کو روشن خیال ثابت کرنے کا شوق تھا۔ اس وقت قیامت کے دن ہاتھ پاؤں کی گواہی بھی قابل اعتراض سمجھی جاتی تھی۔ دور سے سننا بھی سمجھ نہ آتا تھا۔ وزن اعمال پر بھی بحث تھی۔ جسم کے ساتھ معراج اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی سے انکار تھا اور ان کے معجزات، مردوں کو زندہ اور بیماروں کو اچھا کرنے پر بھی اعتراض تھا۔ حتیٰ کہ آسمانوں اور فرشتوں کا وجود بھی محل نظر سمجھا جاتا تھا۔ مگر جوں جوں جدید فلسفے نے ترقی کی تمام شبہات خود بخود دور ہوتے چلے گئے۔
گراموفون کی سوئی اور پلیٹ نے جو انسانی دماغ کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ہاتھ پاؤں کی گواہی کو سمجھا دیا جس کا لوہے کی سوئی سے زیادہ انسانی دماغ سے تعلق ہے۔ ریڈیو کی ایجاد نے بھی بہت سے مسائل حل کر دئیے۔ فلموں نے تمام انسانی اعمال کے 2503محفوظ ہونے کا مسئلہ بھی سمجھادیا۔ ڈاکٹروں نے مردہ مینڈک کو زندہ کر کے بھی اپنا کمال دکھایا۔ چاند پر جانے اور مریخ کو راکٹ پہنچانے نے، اوپر جانے کی بات بھی سمجھا دی۔
ایسے ایسے اجرام (جسموں) کے ثبوت نے جو ہم سے اربوں کھربوں میل سے بھی زیادہ دور ہیں اور تمام کے تمام باقاعدہ حرکت کرتے اور مقررہ راستوں پر چلتے اور باہم ٹکراتے بھی نہیں، نے تمام ان باتوں کو معقول ثابت کر دیا جو غیر معقول معلوم ہو رہی تھیں اور ذرۂ بے مقدار کے تجربے سے روشنی، کڑک اور حرارت کی زبردست پیدائش نے تو طاقت کا معیار ہی بدل دیا۔ ہوائی جہاز کی اڑان نے تخت سلیمانی علیہ السلام کا مسئلہ بھی حل کر دیا۔ اس دریافت نے کہ درخت ہوا میں سے صرف اکسیجن جدا کر کے اپنی غذا بناتے ہیں۔ ہواؤں اور عناصر کے جدا کرنے اور ملانے کا فلسفہ بلکہ تجربہ بھی بتادیا۔ غرضیکہ ایک ناچیز انسان کی مادی توجہات سے وہ کام دیکھے گئے جن کو سو سال پہلے کوئی نہ مانتا۔ حالانکہ یہ تمام امور مادیات سے تعلق رکھتے ہیں اور مادیات سے تعلق رکھنے والی بجلی کا یہ عالم ہے کہ لوہے کی بیس ہزار میل موٹی چادر سے وہ آن کی آن میں گزرسکتی ہے اور روشنی جو اجسام سے تعلق رکھتی ہے وہ منٹوں میں کروڑوں میل کی رفتار سے چلتی ہے۔ اب آپ اس خدائے برتر کی طاقت کا کیا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ جس نے ان سب میں یہ یہ قوتیں رکھی ہیں۔ پھر ان قوتوں کو صرف دریافت کیاگیا ہے۔ ان کی حقیقت کسی کو معلوم نہیں ہوسکتی۔ پھر جو رسول اسی خدائے برتر سے سن کر اور معلوم کر کے فرماتے ہیں ان کی بات میں شبہ کرنا کسی صحیح الفطرۃ آدمی کا کام نہیں ہوسکتا۔
دراصل پہلے کسی کام کا امکان دیکھا جائے آیا ایسا ہونا ممکن ہے؟ گر ممکن ہے تو پھر پاک اور سچے پیغمبروں کی اطلاع پر یقین کیوں نہ کیا جائے جو لاکھ سے زیادہ ہوکر بھی سب متفق ہیں؟
لہٰذا اب بحث صرف اس بات پر کرنی ہے کہ خدا اور اس کے رسول ﷺ نے اس بارے میں کیا فرمایا۔ اس میں تو بحث نہیں رہی کہ ایسا ہوسکتا ہے یا نہیں اور ہم کو بحیثیت مسلمان ہونے کے اس بات کو دیکھنا ہے کہ آیا قرآن وحدیث نے یہ بتایا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودی سولی دے رہے تھے۔ مگر اﷲتعالیٰ نے انہیں اٹھا کر آسمان پر لے جاکر بچا لیا اور قرب قیامت کو پھر نازل کر کے یہود ونصاریٰ کو راہ راست پر لائیں گے اور اسلام کو ساری دنیا میں پھیلائیں گے۔ اگرقرآن وحدیث سے یہ بات ثابت ہو جائے تو پھر بحیثیت مسلمان کے ہم کو انکار کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اگر یہ بات ثابت ہو جائے تو وہ جھوٹے لوگ جو مسیح کے نام سے آتے ہیں یا آئے ہیں۔ سب کذاب اور جھوٹے ثابت ہو جائیں گے۔
اس مسئلہ کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ حضرت مسیح بن مریم آسمان کو اٹھائے گئے، دوسرا یہ کہ وہ نازل ہونے والے ہیں۔ نزول، رفع جسمانی کی فرع ہے اگر نزول ثابت ہو جائے تو یہ بات خود بخود ثابت ہو جائے گی کہ وہ جسم سمیت آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اوررفع ثابت ہو جائے تو نزول وصعود بالمقابل زیادہ واضح ہو جاتے ہیں۔
۱… ’’قرآن شریف کے وہ معانی ومطالب سب سے زیادہ قابل قبول ہوں گے جن کی تائید قرآن شریف ہی (گویا شواہد قرآنی) میں دوسری آیات سے ہوتی ہے۔‘‘
(برکات الدعا ص۱۷،۱۸، خزائن ج۶ ص۱۷،۱۸)
۲… 2505رسول اﷲ ﷺ کی کوئی تفسیر ثابت ہو جائے تو پھر اس کا نمبر ہے۔ اس لئے کہ قرآن پاک آپ ﷺ پر نازل ہوا اور آپ ﷺ ہی اس کے معانی بہتر جانتے ہیں۔ مرزاجی نے بھی (برکات الدعا ص۱۸، خزائن ج۶ ص۱۸) میں اس کو تسلیم کیا ہے۔
۳… تیسرے نمبر پر صحابہ کرامؓ کی تفسیر ہے کیونکہ یہ حضرات علم نبوت کے پہلے وارث تھے۔ اس کو بھی مرزاجی نے (برکات الدعا ص۱۸، خزائن ج۶ ص۱۸) میں تسلیم کیا ہے۔
۴… ’’پاک آدمی کا دل یعنی خود اپنا نفس مطہر وہ بھی سچائی کی پرکھ کے لئے اچھا معیار ہوتا ہے۔‘‘
(برکات الدعا ص۱۸، خزائن ج۶ ص۱۸)
۵… اس کی تائید مرزاغلام احمد قادیانی کے مندرجہ ذیل اقوال سے بھی ہوتی ہے:
(۱)… ’’ہر صدی کے سر پر خداتعالیٰ ایک ایسے بندے کو پیدا کرتا رہے گا کہ اس کے دین کی تجدید کرے گا۔‘‘
(فتح الاسلام ص۸، خزائن ج۳ ص۶)
(۲)… ’’مجدد لوگ دین میں کچھ کمی وبیشی نہیں کرتے۔ ہاں گم شدہ دین کو پھر دلوں میں قائم کرتے ہیں۔‘‘
(شہادۃ القرآن ص۴۸، خزائن ج۶ ص۳۴۴)
اس بات پر اجماع ہوچکا ہے کہ نصوص کو ظاہر پر حمل کیا جائے۔ اس کو مرزاجی نے ازالہ اوہام حصہ اوّل میں تسلیم کیا ہے۔
(ازالہ اوہام حصہ دوم ص۵۴۱، خزائن ج۳ ص۳۹۰)
۶… جس حدیث میں قسم ہو اس میں تاویل اور استثناء ناجائز ہے۔ مرزاجی بھی (حمامتہ البشریٰ ص۱۴، خزائن ج۷ ص۱۹۲) میں لکھتے ہیں۔
’’
والقسم یدل علیٰ ان الخبر محمول علی الظاہر لاتاویل فیہ ولااستثناء والّافای فائدۃ فی القسم
‘‘ 2506اور قسم کی حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ اس حدیث کے ظاہری معنی ہی قابل قبول ہیں۔ کوئی تاویل اور استثناء نہیں ہوتی ورنہ قسم کھانے میں کیا فائدہ تھا۔
۷… ’’مومن کا یہ کام نہیں کہ تفسیر بالرائے کرے۔‘‘
(ازالہ حصہ اوّل ص۳۲۸، خزائن ج۳ ص۲۶۷)
یہ حدیث شریف کا مضمون ہے کہ جس نے قرآن پاک میں اپنی رائے کو دخل دیا تو اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے اور بعض روایات میں ہے کہ اس نے صحیح بھی کیا تو بھی غلطی کی۔ (اوکما قال)
بہرحال قرآن پاک کی تفسیر وہی معتبر ہوگی جو خود قرآن کی کسی دوسری آیت سے ہو پھر وہ تفسیر قابل اعتماد ہوگی۔ جو خود سرور کائنات ﷺ نے بیان فرمائی ہو۔ تیسرا نمبر صحابہؓ کا ہے جنہوں نے اپنے علوم سرور عالم ﷺ سے حاصل کئے ہیں۔ اس کے بعد ان حضرات کی تفسیر کا نمبر ہے جن کو اﷲتعالیٰ نے دین کے تازہ کرنے کے لئے، ہر صدی میں پیدا کیا ہے۔ ان چار باتوں کے سوا جو تفسیر اپنی رائے سے کی جائے گی۔ یہ قطعاً جائز نہیں نہ مؤمن کا کام ہے۔
اور اگر کسی آیت یا حدیث میں قسم کے لفظ ہوں تو ان کو تاویل واستثناء کے بغیر ظاہری معنوں پر حمل کیا جائے گا۔
۸… ’’انجیل برنباس نہایت معتبر انجیل ہے۔‘‘
(سرمہ چشم آریہ ص۲۴۰، خزائن ج۲ ص۲۸۸)
ان اصولوں کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں۔ ان کو مرزاجی نے بھی تسلیم کیا ہے۔ جس کے حوالے ہم نے بتادئیے ہیں۔
ایک کتاب ہے ’’عسل مصفّٰی‘‘ جس کو خدا بخش صاحب (مرزائی) نے لکھا ہے۔ یہ کتاب مرزاجی کو سنائی گئی۔ اس پر مرزائیوں کے خلیفہ دوم اور مولوی محمد علی کی تصدیق وتقریظ 2507درج ہے۔ اس نے تیرہ صدیوں کے مجددین شمار کئے ہیں۔ جو تقریباً اسی(۸۰) ہیں۔ ہم ان میں سے مشہور تیس حضرات کے نام لکھتے ہیں:
۱… امام شافعیؒ مجدد صدی دوم۔
۲… امام احمد بن حنبلؒ مجدد صدی دوم۔
۳… ابوجعفرؒ مجدد صدی سوم۔
۴… ابوعبدالرحمن نسائیؒ مجدد صدی سوم۔
۵… حافظ ابونعیمؒ مجدد صدی سوم۔
۶… امام حاکم نیشاپوریؒ مجدد صدی چہارم۔
۷… امام لبیہقیؒ مجدد صدی چہارم۔
۸… امام غزالیؒ مجدد صدی پنجم۔
۹… امام فخرالدین رازیؒ مجدد صدی ششم۔
۱۰… امام مفسر ابن کثیرؒ مجدد صدی ششم۔
۱۱… حضرت شہاب الدین سہروردیؒ مجدد صدی ششم۔
۱۲… امام ابن جوزیؒ مجدد صدی ششم۔
۱۳… حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ مجدد صدی ششم۔
۱۴… امام ابن تیمیہ حنبلیؒ مجدد صدی ہفتم۔
۱۵… حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ مجدد صدی ہفتم۔
۱۶… حافظ ابن قیم جوزیؒ مجدد صدی ہفتم۔
۱۷… حافظ ابن حجر عسقلانیؒ مجدد صدی ہشتم۔
۱۸… امام جلال الدین سیوطیؒ مجدد صدی نہم۔
۱۹… 2508ملا علی قاریؒ مجدد صدی دہم۔
۲۰… محمد طاہر گجراتی مجدد صدی دہم۔
۲۱… عالمگیر اورنگزیبؒ مجدد صدی یازدہم۔
۲۲… شیخ احمد فاروقی مجدد الف ثانیؒ مجدد صدی یازدہم۔
۲۳… مرزامظہر جان جاناں دہلویؒ مجدد صدی دوازدہم۔
۲۴… حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلویؒ مجدد صدی دوازدہم۔
۲۵… امام شوکانیؒ مجدد صدی دوازدہم۔
۲۶… شاہ عبدالعزیز صاحب دہلویؒ مجدد صدی دوازدہم۔
۲۷… شاہ رفیع الدینؒ مجدد صدی دوازدہم۔
۲۸… مولانا محمد اسماعیل شہیدؒ مجدد صدی سیزدہم۔
۲۹… شاہ عبدالقادر صاحبؒ مجددی مجدد صدی سیزدہم۔
۳۰… سید احمد بریلویؒ مجدد صدی سیزدہم۔ (عسل مصفّٰی ج۱ ص۱۶۲تا۱۶۵)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ میں عقائد (یہودیوں کا عقیدہ)
یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ ہم نے حضرت مسیح علیہ السلام کو سولی دے کر قتل کر دیا ہے۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مخالفت کی۔ پھر بادشاہ سے کہہ کر ان کے خلاف حکم جاری کرایا اور پولیس کے ذریعے ان کو اپنے خیال کے مطابق سولی پر چڑھا کر قتل کر دیا۔ قرآن پاک نے اس کی سختی سے تردید کی۔ بلکہ ان کے اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کر دیا ہے۔ ان پر لعنت کی اور ظاہر ہے کہ یہود کا دعویٰ یہی تھا کہ ہم نے سولی کے ذریعے ان کو قتل کر دیا ہے۔
2509 حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ میں عقائد (عیسائیوں کا عقیدہ)
عیسائیوں نے خود تو دیکھا نہ تھا۔ حواریین موقعہ پر موجود نہ تھے۔ یہودیوں کے کہنے سے انہوں نے بھی یہ مان لیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں نے قتل کر ڈالا۔ پھر کفارے کا عقیدہ گھڑ لیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ساری امت اور مخلوق کی نجات کے لئے اپنی قربانی دے دی۔ سب کی طرف سے وہی کفارہ ہوگئے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ میں عقائد (مسلمانوں کا عقیدہ)
اس سلسلہ میں مسلمانوں کا عقیدہ وہی ہے جو قرآن پاک نے بیان کیا ہے۔ قرآن پاک اپنے پاک پیغمبروں کے بارہ میں تہمتوں اور غلط بیانیوں کی اصلاح فرمادیتا ہے۔ چنانچہ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خداتعالیٰ کا بیٹا ہونے کی تردید اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مریم علیہا السلام کے خدا ہونے کی تردید فرمادی۔ عیسائیوں کے عقیدہ تثلیث (تین خدا مل کر ایک خدا ہونے) کی تردید بھی کر دی اور حضرت مریم علیہا السلام کو صدیقہ کہہ کر اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا قصہ بیان کر کے کہ یہ فرشتے کی پھونک مارنے سے، بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں۔ حضرت مریم علیہا السلام کی صفائی بھی بیان کی ہے۔ قرآن جو صحیح فیصلے کرنے اور اختلافات میں حق کا اعلان کرنے آیا تھا۔ اس نے عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں یہود ونصاریٰ کے عقیدہ کی تردید کرتے ہوئے قتل اور سولی کی نفی کر دی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پر اٹھالینے کا اعلان فرمادیا اور یہ بھی اعلان کر دیا کہ تمام یہودیوں اور نصرانیوں کو 2510حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات سے پہلے ان پر ایمان لانا ہوگا اور یہ بھی اعلان کر دیا کہ یہود نے بھی ایک تدبیر کی تھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی دے کر قتل کرادیں اور ہم نے بھی تدبیر کی اور اﷲتعالیٰ سب مدبروں سے بڑھ کر بہترین تدبیر کرنے والے ہیں۔ یہی مسلمانوں کا عقیدہ ہے۔ ساڑھے تیرہ سو برس سے مسلمان یہی کہتے، لکھتے اور مانتے چلے آئے ہیں کہ یہود نے سولی دینی چاہی۔ مگر اﷲتعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو فرشتوں کے ذریعے آسمان پر اٹھالے گئے اور حضرت عیسیٰ کی شکل پر یعنی باتوں اور صورت میں ایک ایسے شخص کو کر ڈالا جس نے حواری ہوکر غداری کی اور اپنی طرف سے پولیس کو لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پکڑوانا چاہا۔ جب پولیس آئی تو اس شخص کو گرفتار کر کے سولی دے دی۔ جس کی شکل وصورت اور باتیں ہو بہو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہوچکی تھیں۔ اس طرح یہودیوں کی تدبیر دھری کی دھری رہ گئی۔ غدار کو بھی سزا مل گئی اور اﷲتعالیٰ کی تدبیر غالب آئی۔ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان کے درمیان سے اٹھا کر آسمان پر لے گئے۔ یہی فیصلہ قرآن پاک نے دیا اور اسی پر مسلمانوں کا ایمان ہے اور سینکڑوں حدیثوں میں حضور ﷺ نے فرمایا کہ عیسیٰ ابن مریم دوبارہ زمین پر آسمان سے نازل ہوں گے۔ دجال کو قتل کریں گے۔ ساری دنیا میں اسلام پھیل جائے گا اور اسی وجہ سے لڑائی ختم ہو جائے گی اور اسی وجہ سے کسی سے جزیہ (غیرمسلموں کا ٹیکس) نہ لیا جائے گا۔ ۴۰برس تک وہ رہیں گے۔ حج کریں گے۔ شادی کریں گے۔ پھر وفات ہوگی اور حضور ﷺ کے روضہ پاک میں دفن ہوں گے۔