• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قومی اسمبلی کی کاروائی (بارھواں دن)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(الہام اور وحی میں کیا فرق ہے؟)
جناب یحییٰ بختیار: اب آپ مولانا! ایک اور Definition بھی دے دیجئے۔ ’’کفر‘‘ کی ہوگئی۔ یہ خدا سے ہم کلام ہونے کے۔ ایک اِلہام ہوتا ہے، ایک وحی ہوتی ہے۔ اِلہام اور وحی میں کیا فرق ہے؟
جناب عبدالمنان عمر: جنابِ والا! نبی اکرمﷺ کی حدیث ہے کہ نبوّت ختم ہوچکی ہے لیکن مبشرات کا دروازہ کھلا ہے اور اِن ’’مبشرات‘‘ سے مراد اولیائے کرام نے جو مراد لی ہے، وہ ہے رُؤیائے صالحہ، وحی، اِلہام، کشف، ان چیزوں کے لئے یہ لفظ اِستعمال ہوا ہے اور ہمارے نزدیک جہاں آنحضرتﷺ کے بعد نبوّت کا دروازہ بند ہے، وہاں ہمارے نزدیک خداتعالیٰ کی یہ صفت کہ وہ ہم کلام ہوتا ہے اپنے بندوں سے، یہ معطل نہیں ہوئی اور ہم رُؤیائے صالحہ، اِلہام، وحی اور کشف کے ذریعے اس خداتعالیٰ کے مکالمہ، مخاطبہ اِلٰہیہ کے قائل ہیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(رؤیا، کشف، الہام اور وحی میں کیا فرق ہے؟)
جناب یحییٰ بختیار: اب میں آپ عرض کروں گا کہ آپ رُؤیا، کشف، اِلہام اور وحی میں کیا فرق ہے؟ یہ تشریح ذرا کردیں تاکہ بعد میں جو ہم سوال پوچھیں۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: میں گزارش کردُوں کہ ہمارے نزدیک ’’وحی‘‘ اور ’’اِلہام‘‘ کے لفظ گو الگ الگ ہیں، لیکن ہم نے ہمیشہ اس کو، اور مرزا صاحب نے اور پہلے اولیاء اور ربانی علماء نے ہم معنی بھی استعمال کیا ہے۔ لیکن بعض لوگ ’’وحی‘‘ اور ’’اِلہام‘‘ میں فرق کرتے ہیں۔ یہ ان کا ہے اِصطلاح، ہماری یہ اِصطلاح نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک ’’وحی‘‘ 1544اور ’’اِلہام‘‘ مترادف الفاظ ہیں۔ وحی اور اِلہام کی کیفیت یوں ہے کہ رُؤیا میں اِنسان سویا ہوا ہوتا ہے، جس کو ہم عام زبان میں خواب دیکھنا کہتے ہیں۔ لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان بیدار ہوتا ہے اور دیواروں کے اور فاصلوں کے جو بُعد ہیں، ان کو دُور کرکے وہ شخص دیوار کے پیچھے بھی اور ایک لمبے فاصلے سے بھی اس چیز کو دیکھ لیتا ہے۔ اس میں ایک مثال عرض کروں تو شاید بات واضح ہوجائے گی۔ حضرت عمرؓ، مسجدِ نبوی میں خطبہ جمعہ دے رہے تھے کہ یکدم آپ کی زبان سے یہ نکلا: (عربی)
لوگ حیران ہوگئے کہ یہ کیا لفظ! خطبہ دے رہے ہیں اور ایک غیرمتعلق لفظ استعمال ہوگیا۔ تو خطبے کے بعد عبدالرحمن بن عوفؓ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اُنہوں نے عرض کی کہ: ’’جناب! یہ ساریہ والا قصہ کیا ہے؟‘‘ اُنہوں نے کہا کہ: ’’کچھ نہیں، میں خطبہ دے رہا تھا، دیتے دیتے یک دم مجھ پر کشف کی حالت طاری ہوگئی اور میں نے دیکھا کہ شام کی سرحد پر جو مسلمانوں کی فوجیں لڑ رہی ہیں، میدانِ جنگ میں، ایک موقع ایسا آگیا ہے کہ ساریہ کمانڈر جو ہے جو مسلمانوں کی فوج کو لڑارہا ہے رُومیوں کے خلاف، تو رُومیوں کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا فوج کا پیچھے کی طرف پہاڑی کی پشت سے ہوکر ان کے Rear پر، ان کے پچھلے حصے پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔ تو میں برداشت نہ کرسکا اور فوراً ہی میری زبان سے نکلا کہ ساریہ پہاڑ کی طرف متوجہ ہوجاؤ۔ چنانچہ یہ کیفیت مجھ سے دُور ہوگئی اور میں نے خطبہ اپنا دینا شروع کردیا۔‘‘ اس کے بعد واقعہ یہ ہوا کہ جب وہ قافلہ وہاں جی جنگ کی خبریں لے کر مدینہ میں پہنچا تو ساریہ نے جو خط وہاں سے بھیجا وہ یہ تھا کہ یہ حالات ہوئے، یہ ہوا اور یہ ہوا اور ساتھ ہی بتایا کہ: ’’جمعہ کے دن، جمعہ کے وقت میں نے ایک آواز سنی جبکہ میں اپنی فوجوں کو لڑا رہا تھا، جس میں مجھے کہا گیا تھا کہ پہاڑ کی طرف متوجہ ہوجاؤ اور وہ جناب کی آواز تھی، یعنی حضرت عمرؓ کی آواز تھی۔ 1545چنانچہ میں نے جو اُس طرف دیکھا تو ایک چھوٹی سی ٹکڑی ہمارے Back پر حملہ کر رہی تھی۔ چنانچہ میں اپنی فوج کو لے کر اس پہاڑی پر چڑھ گیا اور اس طرح ہم اس شکست سے بچ گئے، اور ہمارے انہوں نے، اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا۔‘‘ تو یہ دیکھئے، یہ وہ کشف کی کیفیت ہے کہ حضرت عمرؓ نے مدینہ میں رہ کر شام کی سرحدوں کا نظارہ دیکھ لیا ہے، اور یہی وہ کیفیت ہے کہ آواز حضرت عمرؓ نے مسجدِ نبوی میں یہ دی ہے اور وہ آواز سینکڑوں، ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرکے حضرت ساریہ کے کان میں پہنچتی ہے اور وہ اس پر عمل پیرا ہوجاتے ہیں۔ یہ کشف کی کیفیت ہے۔
جس کو ’’وحی‘‘ اور ’’اِلہام‘‘ کہتے ہیں۔ اس بارے میں ہمارا تصوّر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ، جس طرح میں آپ سے بات کر رہا ہوں اور میری آواز آپ کے کانوں میں پہنچ رہی ہے اور خارج میں پہنچ رہی ہے، اندر کے خیالات نہیں ہیں یہ، بلکہ خارج سے ایک آواز آپ کے کانوں میں پہنچتی ہے، اس طرح جو موردِ وحی واِلہام ہوتا ہے وہ باہر سے آواز سنتا ہے خداتعالیٰ کی، اور وہ الفاظ ہوتے ہیں، ان الفاظ میں معانی ہوتے ہیں اور اس میں بہت سی خبریں بھی موجود ہوتی ہیں۔ اس کیفیت کے لئے جو واضح اور اچھا اور صاف لفظ ہے وہ ہے ’’مکالمہ مخاطبہ اِلٰہیہ‘‘ یعنی خداتعالیٰ اس بندے کے ساتھ مکالمہ کرتا ہے، اس کے ساتھ خطاب کرتا ہے، گفتگو کرتا ہے۔ یہی معانی ہمارے نزدیک ’’وحی‘‘ اور ’’اِلہام‘‘ کے ہیں۔ وحی واِلہام کی بہت سی قسمیں ہیں۔ خود قرآن مجید میں اس کی بہت سی کیفیتیں بیان کی گئی ہیں۔ کبھی اس کو ’’ورائے حجاب‘‘ کہا گیا ہے، کبھی اس کے لئے یہ کہا گیا ہے کہ فرشتہ آکر بولتا ہے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں مولانا! پوچھتا ہوں ’’وحی‘‘ اور۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: ہمارے نزدیک۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں۔۔۔۔۔۔
1546جناب عبدالمنان عمر: ۔۔۔۔۔۔ مترادف الفاظ ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: آپ کے نزدیک نہیں ہوگا، ویسے۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی، بعض لوگوں نے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، ہاں۔
جناب عبدالمنان عمر: بعض لوگوں نے ’’وحی‘‘ اور ’’اِلہام‘‘ میں فرق کیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ’’وحی‘‘ جو ہے یہ صرف انبیاء کے ساتھ ہوتی ہے، اور ’’اِلہام‘‘ جو ہے یہ عام لفظ ہے۔ لیکن یہ بعض لوگوں کا خیال ہے۔ ہم لوگ نہیں۔ اس کو سمجھتے، اور نہ مرزا صاحب نے اپنی اَسّی(۸۰) سے اُوپر کتابوں میں اس فرق کو ملحوظ فرق میں رکھا ہے۔ (Pause)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(الہام میں غلطی کا احتمال ہوتا ہے یا نہیں)
جناب یحییٰ بختیار: یہ آپ فرمائیے کہ ’’اِلہام‘‘ میں کوئی غلطی کا اِحتمال ہوتا ہے کوئی کہ نہیں ہوسکتا؟
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں، غلط۔ اِلہام میں خداتعالیٰ کا کلام ہے۔ اِلہام میں قطعاً غلطی نہیں ہوتی۔ لیکن چونکہ ان الفاظ کو سننے والا انسان ہوتا ہے، انسان میں غلطی ہوتی ہے…
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، یہ میں پوچھتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: ۔۔۔۔۔۔۔ اس لئے ’’اِجتہادی غلطی‘‘ جس کو اِصطلاح میں کہتے ہیں، یہ ہوسکتی ہے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: اور یہی وحی۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: ۔۔۔۔۔۔۔ اِلہام میں غلطی نہیں ہوتی۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(وحی میں غلطی ہوسکتی ہے؟)
جناب یحییٰ بختیار: وحی میں بھی یہ ہوسکتی ہے؟
1547جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: دونوں میں؟
جناب عبدالمنان عمر: دونوں میں۔
Mr. Yahya Bakhtiar: Madam, shall we have a break for tea? And then we can continue; about 12 o'clock, twelve past 12: 00.
(جناب یحییٰ بختیار: محترمہ کیا ہمیں چائے کا وقفہ کرنا ہے؟ اس کے بعد بارہ بجے تک کارروائی چلتی رہے گی)
Madam Acting Chairman: The delegation is allowed to leave and then come back at 12: 00.
ہم آپ کو بلائیں گے بارہ بجے پھر، چائے کا وقفہ ہوگیا ہے۔
(محترمہ قائمقام چیئرمین: وفد کو بارہ بجے تک جانے کی اجازت ہے)
جناب یحییٰ بختیار: بارہ سوا بارہ بجے کے قریب پھر۔
مولانا صدرالدین: ٹھیک ہے جی۔ شکریہ۔
Madam Acting Chairman: The members may kindly keep sitting.
(محترمہ قائمقام چیئرمین: معزز ممبران تشریف رکھیں)
----------
(The Delegation left the Chamber)
(وفد اسمبلی ہال سے باہر چلا جاتا ہے)
----------
(Pause)
Madam Acitng Chairman: The members can have a break for tea for fifteen minutes.
(محترمہ قائمقام چیئرمین: معزز ممبران چائے کے وقفے کے لئے پندرہ منٹ ہیں)
Have you got to say any thing?
(کیا کوئی بات کرنا چاہتے ہیں آپ؟)
Mr. Yahya Bakhtiar: No, nothing.
(جناب یحییٰ بختیار: نہیں کسی چیز کے بارے میں نہیں)
Madam Acting Chairman: Wecan break for fifteen minutes and come back at about 12 o'clock ......
(محترمہ قائمقام چیئرمین: ہم پندرہ منٹ کا وقفہ کریں گے اور بارہ بجے واپس آجائیں گے…)
Mr. Yahya Bakhtiar: About ......
(جناب یحییٰ بختیار: تقریباً۔۔۔۔۔)
Madam Acting Chairman: ...... for tea break, for tea. (محترمہ قائمقام چیئرمین: ۔۔۔۔۔۔ چائے کا وقفہ چائے کے لئے)
----------
1548[The Special Committee adjourned for tea break to meet at 12: 00 noon.]
(خصوصی کمیٹی کا اِجلاس چائے کے وقفے کے لئے ملتوی ہوا، بارہ بجے دوپہر ہوگا)
----------
[The Special Committee reassembled after tea braek, Madam Acting Chairman (Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi) in the Chair.]
(خصوصی کمیٹی کا اِجلاس چائے کے وقفے کے بعد میڈم چیئرمین (اشرف خاتون عباسی) کی صدارت میں ہوا)
----------
محترمہ قائم مقام چیئرمین: یہ میں آنریبل ممبرز کی خدمت میں گزارش کرنا چاہتی ہوں کہ آپ لوگوں کو پتا ہے کہ ہم اس کو جتنا جلدی ہوسکے ختم کرنا چاہتے ہیں اور پندرہ منٹ کے لئے بریک کرتے ہیں، پونے گھنٹے تک پھر کورم نہیں بنتا۔ تو مہربانی کرکے آج شام کو بھی، اگر آپ یہ دو تین دن تکلیف لے کے اور پورے ٹائم سے آجائیں تو ہم اس قصے کو جتنا جلدی ہوسکے، یہ ہم ختم کرنا چاہتے ہیں۔
ہاں، بلالیجئے ان کو۔
اب گزارش ہے، جب یہ جگہ ہو رہی ہے، آپ مہربانی کرکے ذرا بولنا بھی چاہیں تو ذرا نیچی آواز میں بولیں، بڑی Disturbance ہوتی ہے۔
----------
(The Delegation entered the Chamber)
(وفد ہال میں داخل ہوا)
----------
Madam Acting Chairman: Yes, Attorney- General. (محترمہ قائمقام چیئرمین: جی اٹارنی جنرل صاحب!)
جناب یحییٰ بختیار: مولانا! میں آپ سے یہ سوال پوچھ رہا تھا اس وقت، ’’وحی‘‘ اور ’’اِلہام‘‘ کے بارے میں، آپ نے فرمایا کہ آپ کے نزدیک دونوں میں فرق نہیں ہے، مگر بعض لوگ فرق کرتے ہیں۔ پھر میں نے آپ سے پوچھا کہ کیا اس میں غلطی ہوسکتی ہے؟ آپ نے کہا سننے والے کی۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: ۔۔۔۔۔۔ اِجتہادی غلطی ہوسکتی ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، ہوسکتی ہے۔ اگر نبی کو وحی آئے تو اس میں تو غلطی نہیں ہوسکتی؟
1549جناب عبدالمنان عمر: ٹھیک ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(مرزا صاحب کی وحی میں غلطی ہوسکتی ہے؟)

جناب یحییٰ بختیار: یہ، یہ آپ ۔۔۔۔۔۔۔ تو مرزا صاحب کی وحی میں غلطی ہوسکتی ہے؟
جناب عبدالمنان عمر: میں نے گزارش کی کہ وحی میں غلطی نہیں ہوسکتی۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، اگر سُننے والے مرزا صاحب غلطی کرسکتے تھے، کہ۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں، ہاںہاں، مرزا صاحب کوئی اِجتہادی غلطی۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: چونکہ انسان تھے، نبی نہیں تھے۔
جناب عبدالمنان عمر: بالکل۔
جناب یحییٰ بختیار: بالکل۔ (وقفہ)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(غیرنبی کو نبی کہنے والا کافر ہوگا؟)
آپ نے فرمایا کہ دائرۂ اسلام سے، جو شخص آنحضرتﷺ کی اُمت میں ہے، جو شخص آنحضرتa کی اُمت میں ہو اُس سے غلطیاں بھی ہوں، کچھ بھی ہو، وہ دائرۂ اسلام سے خارج نہیں ہوتا، جب تک آنحضرتﷺ پر اِیمان رکھتا ہے وہ، وحدت پہ اِیمان رکھتا ہے وہ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کے کسی نبی سے جو کوئی شخص اِنکار کرے، وہ تو آپ نے کہا کہ وہ کافر ہے اور جو شخص کسی ایسے شخص کی نبوّت پر اِیمان رکھے جو نبی نہ ہو، وہ بھی کافر ہوگا؟
جناب عبدالمنان عمر: اس کے بارے میں میری گزارش یہ ہے کہ میں نے آپ کا تھوڑا سا وقت اس لئے لے لیا تھا کہ مسئلہ تکفیر کے متعلق ہمارا جو نقطئہ نگاہ ہے وہ واضح ہوجائے۔ ہم نے گزارش یہ کی تھی کہ ایک شخص اگر مسلمان ہو، کلمہ طیبہ پڑھتا ہو اور اُس میں ننانوے(۹۹) وجوہ کفر بھی ہوں تو ہمارا نقطئہ نگاہ یہ ہوگا کہ ہم اُس کو کافر قرار نہ دیں اور یہ کہنا کہ ایک شخص مسلمان بھی ہو اور وہ نبوّت کا دعویٰ بھی کرے، ہمارے نزدیک اِجتماع نقیض ہے۔ اگر ایک شخص مدعیٔ نبوّت ہے تو وہ مسلمان نہیں۔ اگر وہ مسلمان ہے تو 1550مدعیٔ نبوّت نہیں۔ اس کے لئے میں خود مرزا صاحب کی ہی تحریر آپ کے سامنے رکھتا ہوں…
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہ نہیں۔ میرا خیال ہے… وہ تحریر تو آپ ضرور رکھیں… میں صرف پوزیشن Clear کرنا چاہتا ہوں تاکہ اس میں پھر آگے سوالات پوچھنے میں آسانی ہو۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی، جی۔ تو میری گزارش یہ ہے۔۔۔۔۔۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبی نہ ماننے والا مسلمان یا کافر؟
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبی نہ ماننے والا دائرہ اسلام کے اندر ہے)

جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔۔ تو میں نے یہ عرض کیا کہ ایک شخص فرض کیجئے، یہ کہتا ہے کہ: ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر میں اِیمان نہیں رکھتا، باقی انبیاء کو میں مانتا ہوں۔ مسلمان ہوں مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو میں نبی نہیں سمجھتا۔‘‘ تو مسلمانوں کے نقطئہ نظر سے وہ کافر ہوگا یا نہیں؟
جناب عبدالمنان عمر: اس کے بارے میں میں نے ایک اصلاحی لفظ استعمال کیا تھا: ’’کفر دُون کفر‘‘ کی زد میں آجاتا ہے۔ مگر کفرِ حقیقی جس کو کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: دائرۂ اسلام سے خارج نہیں ہوگا وہ؟
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں، کیونکہ وہ نبی کریمaکو مانتا ہے۔ وہ کوئی اُس کی تاویل کر…
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، باوجود اس کے۔۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: ۔۔۔۔۔۔ کوئی اس کی تشریح کرتا ہو۔۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ ایک نبی جو سچا نبی ہے۔۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(سچے نبی کا منکر بھی دائرہ اسلام میں ہے)
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔۔ اُس کی نبوّت سے اِنکار کرے، اس کے باوجود وہ دائرۂ اسلام میں رہتا ہے، آپ کے نقطئہ نظر سے؟
1551جناب عبدالمنان عمر: جی، اگر وہ محمد رسول اللہﷺ کو۔۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، وہ۔۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ دائرہ ۔۔۔۔۔۔ تو اس لئے اگر کوئی شخص کسی Imposter (جھوٹا مدعی) کو، جو کہتے ہیں، یا ایسے شخص کو جو نبی نہ ہو اور نبوّت کا دعویٰ کرے اُس کو سچا نبی سمجھے، تو وہ آپ کے نقطئہ نظر سے دائرۂ اسلام سے خارج نہیں ہوگا اگر وہ محمدﷺ کو۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی، مجھے وضاحت کی اِجازت دیجئے۔ میری گزارش یہ تھی کہ ہمارے نزدیک کوئی مسلمان دائرۂ اسلام میں رہتے ہوئے، مسلمان کا اقرار کرتے ہوئے، لا اِلٰہ اِلَّا اﷲ کا اِقرار کرتے ہوئے مدعیٔ نبوّت نہیں ہوسکتا۔ یہ دو(۲) متضاد چیزیں ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں، میں یہ نہیں کہہ رہا۔۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی، نہیں۔۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اس وقت مرزا غلام احمد صاحب کے دعوے پر نہیں جارہا، میں یہ جنرل سوال پوچھ رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جھوٹے مدعی نبوت کو سچا ماننے والا مسلمان ہے یا کافر)
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ اگر آج ایک شخص نبوّت کا دعویٰ کرتا ہے، اور ہم مسلمان سمجھتے ہیں کہ کوئی نبی آنحضرتﷺ کے بعد نہیں آسکتا، آج وہ دعویٰ کردیتا ہے، منڈی بہاء الدین میں یا کسی جگہ، اور اس کے ساتھ دو آدمی ہیں یا چار ہیں، وہ یہ کہتے ہیں کہ: ’’ہاں، یہ سچا نبی ہے، ہم اس کو مانتے ہیں۔ یہ ہے اُمتی نبی۔ آنحضرت کی اُمت میں ہے۔ مگر ہے سچا نبی۔‘‘ تو کیا جس کو ہم سمجھتے ہیں کہ وہ نبی نہیں ہے، اور Imposter (جھوٹا مدعی) ہے، جھوٹا دعویٰ کرنے والا ہے، اور یہ لوگ اس کو نبی سچا کہیں، تو کیا وہ مسلمان رہ سکتے ہیں؟ کافر ہوں گے یا نہیں ہوں گے؟ (وقفہ)
1552جناب عبدالمنان عمر: جناب! سوال، جو میں سمجھا ہوں، وہ یہ ہے کہ ایک شخص مدعی نبوّت ہو اور کوئی شخص اس کی نبوّت کو مانتا ہو، وہ شخص کافر ہوگا یا نہیں؟ شاید میں صحیح سمجھا ہوں۔ اس سلسلے میں میں گزارش یہ کر رہا تھا کہ ہم اُصولاً تکفیرالمسلمین کے بڑی سختی سے مخالف ہیں۔ اس سلسلے میں ہمارا مذہب، جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا، کہ حضرت اِمام ابوحنیفہؒ کا مذہب ہے کہ اگر کسی شخص میں تم ننانوے(۹۹) وجوہ کفر پاؤ اور ایک وجہ ایمان کی اس میں نظر آتی ہو تو اس کو کافر مت کہو۔
اسی سلسلے میں ہمارا موقف وہ ہے جو حضرت اِمام غزالیؒ نے اپنی کتاب ’’الاقتصاد‘‘ میں بیان کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں، وہ اِمام غزالیؒ ’’الاقتصاد‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’آنحضرتﷺ کے بعد کسی رسول کا مبعوث ہونا اگر کوئی شخص یہ سمجھے کہ جائز ہے کیونکہ عدمِ جواز میں آنحضرتﷺ کی حدیث: ’ لا نبی بعدی ‘ اور خداتعالیٰ کا خاتم النّبیین کہنا پیش کیا جاتا ہے۔ ممکن ہے (وہ شخص کہتا ہے ممکن) کہ حدیث میں نبی کے معنی رسول کے مقابل پر ہوں اور النّبیین سے اُولوالعزم پیغمبر مراد ہوں، یعنی آنحضرتﷺ کے بعد کوئی اُولوالعزم پیغمبر نہیں آئے گا، عام پیغمبروں کی نفی نہیں۔ (یہ وہ ایک تأویل کرتا ہے، وہ ایک تشریح کرتا ہے) اگر کہا جائے کہ ’’النّبیین‘‘ کا لفظ عام ہے تو اس کا جواب وہ یہ دیتا ہے کہ عام کی تخصیص بھی ممکن ہے۔ اس قسم کی تأویل کو الفاظ کے لحاظ سے باطل کہنا (اِمام غزالی کہتے ہیں) ناجائز ہے، کیونکہ الفاظ ان پر صاف صاف دلالت کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں قرآن مجید کی آیتوں میں ایسی دُور اَز قیاس تأویلوں سے کام لیتے ہیں جو ان تأویلوں سے زیادہ بعید ہیں۔ ہاں، اس شخص کی تردید یوں ہوسکتی ہے کہ ہمیں اِجماع اور مختلف قرائن سے معلوم ہوا ہے لا نبی بعدی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺ کے بعد نبوّت اور رِسالت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند 1553کردیا گیا ہے اور خاتم النّبیین سے مراد بھی مطلق انبیاء ہیں۔ غرض ہمیں یقینی طور پر معلوم ہے کہ ان لفظوں میں کسی قسم کی تأویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ یہ شخص بھی صرف اِجماع کا منکر ہے اور اِجماع کے منکر کے متعلق ان کا نقطئہ نگاہ یہ ہے کہ اِجماع کے انکار سے بھی کفر لازم نہیں آتا۔‘‘
باقی کوئی شخص مدعیٔ نبوّت، یہ ایک ایسا مشکل مسئلہ ہوجائے گا کہ آپ نے یہ فرمایا ہے کہ وہ مدعیٔ نبوّت جھوٹا ہے، اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ مرزا صاحب کا مذہب اس بارے میں بالکل صاف صاف ہے کہ: ’’ہم مدعیٔ نبوّت کو کافر اور کاذب جانتے ہیں۔‘‘
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(جو شخص نبوت کا دعویٰ کرے وہ کافر ہوگیا)
جناب یحییٰ بختیار: یہی میں نے آپ سے سوال پوچھا کہ جو شخص نبوّت کا دعویٰ کرے، وہ کافر ہوگیا، پھر مسلمان نہیں رہتا؟
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں، میں نے عرض ۔۔۔۔۔۔۔۔مرزا صاحب کے الفاظ ہی آپ کے سامنے رکھ دئیے ہیں: ’’کیا ایسا بدبخت مفتری جو خود رِسالت اور نبوّت کا دعویٰ کرتا ہے، قرآن شریف پر اِیمان رکھ سکتا ہے۔‘‘
جناب یحییٰ بختیار: یہ کس صاحب کا حوالہ ہے؟
جناب عبدالمنان عمر: یہ مرزا صاحب کی کتاب ہے جی: ’’انجامِ آتھم‘‘ اس کا صفحہ:۲۷ (خزائن ج۱۱ ص۲۷) ہے، اس کے حاشیے میں آپ فرماتے ہیں:
’’کیا ایسا بدبخت مفتری جو خود رِسالت اور نبوّت کا دعویٰ کرتا ہے، قرآن شریف پر اِیمان رکھ سکتا ہے؟ اور کیا ایسا وہ شخص جو قرآن شریف پر اِیمان رکھتا ہے اور آیت: ’’ ولٰکن رسول اﷲ وخاتم النّبیّٖن ‘‘ کو خدا کا کلام یقین رکھتا ہے، وہ کہہ سکتا ہے کہ میں بھی آنحضرتﷺ کے بعد رسول اور نبی ہوں۔‘‘ یہ ہے۔
 
Top