ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
صرف یہ نہ سمجھئے کہ یہ فتنہ صرف داخلی ہے، بلکہ یہ فتنہ بیرونی ممالک میں بھی ہے۔ یہ بھارت کے وفادار ہیں۔ قادیان میں اس قسم کے آدمی بیٹھے ہیں، ۳۱۳آدمیوں کی یعنی کافروں کو وہاں بٹھایا ہوا ہے۔ وہ دو کشتیوں پر پاؤں لٹکائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں بھی نظریہ پاکستان کے خلاف کام شروع کر رکھا ہے اور بھارت میں بھی۔ اس کے علاوہ اسلامی ممالک اور خاص طور پر عرب ممالک کو انہوں نے بڑا پریشان کر رکھا ہے۔ اسرائیل سے ان کی سازباز ہے۔ اسرائیل اور ان کا پروپیگنڈا ایک ہے۔ ایک ہی پروگرام ہے اسرائیل کا اور ان کا۔ یہودیوں کے نظریات اور ان کے نظریات بالکل ملتے جلتے ہیں۔ ایک ہی ان کا پروگرام ہے۔ بہرحال پاکستان کے اندر اور پاکستان سے باہر اسلام کے پردے میں اسلام کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں، اور ان سب سازشوں سے بچنا چاہئے۔ ہم پہلے بڑا وقت انتظار کر چکے ہیں۔ پھر ہماری خارجہ پالیسی کمزور رہی ہے۔ صرف چوہدری ظفر اﷲ کی وجہ سے خارجہ پالیسی کو اتنا بڑا نقصان پہنچا جو ناقابل تلافی نقصان ہے۔ جہاں بھی یہ لوگ رہے۔ انہوں نے پاکستان کی جڑیںکھوکھلی کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان سے ہوشیار رہنا چاہئے۔
جیسا کہ فاروقی صاحب نے کہا ہے کہ ان کی تشخیص کے لئے ایک بورڈ قائم ہونا چاہئے تاکہ پتہ چل سکے کہ یہ قادیانی ہے اور یہ غیرقادیانی ہے۔ جب تک ہم اس قسم کی تشخیص نہیں کر سکیں گے یہ طبقہ نقصان پہنچاتا رہے گا۔ فوج میں جہاں کہیں یہ بڑے عہدوں پر ہیں یا چھوٹی ملازمتوں میں ہیں، ان کی تشخیص کے لئے کمیٹی ہونی چاہئے اور خاص طور پر مردم شماری میں ان کی وضاحت ہونی چاہئے۔ ہمیں اس میں کوئی اعتراض 2951نہیں۔ ان کے غیرمسلم اقلیت ہونے کی پاکستان پر ذمہ داری آجاتی ہے کہ ان کے مال وجان کی حفاظت کی جائے۔ یہ درست ہے۔ اسلام میں تنگ نظری نہیں ہے۔ اسلام میں بڑی فراخ دلی ہے۔ اسلام نے صرف رواداری کو فروغ دیا ہے۔ مگر یہ رواداری ایسی نہیں ہے جو برداشت کی جاسکتی ہو کہ وہ اپنی سازشیں بحال رکھیں اور اسلام کو نقصان پہنچائیں۔ اس لئے مردم شماری میں بھی ان کی خاص طور پر وضاحت ہونی چاہئے اور تمام ملازمتوں میں، تجارت میں، ہر معاملہ میں اپنے تناسب آبادی سے بڑی خوشی سے ان کو حقوق دئے جائیں۔ لیکن یہ دھوکہ نہیں دیا جاسکتا، یہ برداشت نہیں ہوسکتا کہ یہ اسلام کے پردے میں پاکستان کے اندر رہ کر یہ عرب ممالک میں، نائیجیریا میں، امریکہ میں،مختلف ممالک میں رہ کرپاکستان کو نقصان پہنچائیں۔ اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
میں دوبارہ یہ عرض کروں گا کہ اس کارروائی کو مزید طول دینے کی قطعاً حاجت نہیں۔ یہ واضح مسئلہ ہے بلکہ یہ ایک اظہر من الشمس چیز ہے۔ اس میں صرف جرأت ایمانی کی ضرورت ہے۔ اگر آپ نے اس نازک موقع پر صحیح طریقہ اختیار کیا تو یقینا نجات ہوگی۔ شکریہ!
محترمہ قائمقام چیئرمین: مولانا محمد علی رضوی! آپ نے دس منٹ تک تقریر کرنی ہے۔
(جناب مولانا سید محمد علی رضوی کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
مولانا سید محمد علی رضوی: نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم! آج ہمارے ہاں اس ایوان میں تین مہینے سے جس مسئلہ پر گفتگو ہورہی ہے، ویسے تو یہ مسئلہ ایسا نہیںہے کہ جس میں کسی کو کوئی اختلاف ہو، البتہ معلومات کی کمی ضرور تھی، علم کی کمی ضرور تھی۔ بہت سے لوگ تھے جنہیں یہ پتہ نہیں کہ مرزائیت کیا چیز ہے، قادیانیت کیا چیز ہے، ان کے عزائم کیا ہیں، ان کے ارادے کیا ہیں، یہ چاہتے کیا ہیں۔ یہ مذہبی فرقہ ہے یا کوئی سیاسی فرقہ ہے۔ اب ہر اعتبار سے ہمارے سامنے اس جماعت کو واضح کر دیا گیا کہ ان کے عزائم کیا ہیں۔ یہ کوئی مذہبی فرقہ نہیں ہے، یہ تو اسلام دشمنوں کا آلہ کار فرقہ ہے۔
2952دراصل اٹھارویںصدی جہاں سے مسلمانوں کا انحطاط شروع ہوتا ہے، اس وقت ہندوستان میں بھی انگریز آئے اور ایشیاء میں دوسرے مقامات پر بھی انگریز کا تسلط ہوا۔ اس وقت یہ تین شخص ہیں۔ ایک تو مہدی سوڈانی، دوسرے شیخ سیناسی اور تیسرے فضل حق خیر آبادی اور مولوی عنایت احمد کا کاروی، مفتی صدرالدین صاحب! ان حضرات نے جہاد کا فتویٰ دیا۔ انگریزوں کے خلاف، اور جگہ جگہ مقابلے میں ہوئے۔ چنانچہ فضل خیر آبادیؒ اور مولانا عنایت احمد کاکاروی کو، ان کے ساتھ بھی پانچ سو علماء کے قریب تھے، جنہیں تمام کو دریائے شور کی سزا دی گئی، کالے پانی بھیجا گیا اور ان حضرات کا انتقال بھی وہیں ہوا۔
اس جہاد کے فتوے کے اثر کو ختم کرنے کے لئے مرزا غلام احمد قادیانی کو آلہ کار بنایا گیا۔ اس نے شروع میں تو مسلمانوں کے دلوں میں جگہ کرنے کا ایک طریقہ اختیار کیا۔ وہ مناظر بن گیا اسلام کا۔ عیسائیوں سے مناظرہ کرتا ہے، کہیں آریوں سے مناظرہ کرتا ہے۔ جب اس نے مسلمانوں میں اپنی جگہ اور اپنا مقام حاصل کر لیا، اس کے بعد اس نے دعویٰ نبوت کیا۔ ہمیں اب یہ چیز تو پوری طرح واضح ہوگئی ہے۔ لیکن علمائے کرام شروع ہی سے اس کے خلاف تھے۔ علماء حق نے شروع ہی سے اس کو غیرمسلم قرار دیا تھا۔ لیکن چونکہ مسلمانوں کے پاس یا علماء کے پاس نہ تو اختیار تھا نہ اقتدار نہ کسی طاقت کی سرپرستی تھی۔ اس کے ساتھ تو جناب! پوری حکومت تھی قادیان میں۔ مرزاغلام احمد قادیانی کے بعد بھی اور اس کے زمانے میں بھی، جو بھی اس کے خلاف ہوتا تھا وہیں اس کو قتل بھی کیاگیا۔ چنانچہ ایک مشہور واقعہ ہے محمد حسین کو قتل کیاگیا۔ سلطان احمد ملتانی۱؎ کو قتل کیاگیا، عبدالرحمن مصری کے ساتھ انہوں نے جو کچھ کیا اس کا مکان جلایا گیا، اس کو قادیان سے باہر نکلوایا۔ لیکن چونکہ حکومت کی سرپرستی، انگریزوں کی سرپرستی تھی، برطانیہ کی حمایت حاصل تھی، اس لئے مقدمے بھی چلے تو کچھ نہیں ہوا۔ قادیان میں تو کسی کو ان کے خلاف 2953آواز اٹھانے کی ہمت ہی نہیں تھی۔ ذرا بھی اگر کوئی شخص بولتا تھا تو اس کے ساتھ وہ زیادتیاں کی جاتی تھیں کہ کتابیں بھری پڑی ہیں اس کی زیادتیوں کی۔
اس کے بعد پاکستان بن گیا۔ پاکستان میں آپ دیکھتے ہیں انہوں نے ربوہ (اب چناب نگر) میں زمین حاصل کر کے پاکستان کے قلب میں اپنی ایک متوازی حکومت قائم کی اور وہاں بھی وہ اپنے مقدمات، چاہے وہ دیوانی کے ہوں، فوجداری کے ہوں، خود ہی طے کرتے تھے اور یہاں ہم کہتے تھے کہ یہ مرزائی کسی وقت اس ملک کو ختم کرانے والے ہوں گے۔ ہم نے دیکھا کہ اس مرزائی نے جس کو آپ نے وزیرخارجہ بنایا، اس نے ہمارے ملک کی دوستی، ہماری دوستی ہر ایک سے کرائی، لیکن ایک ملک ایسا تھا جس سے نہ کروائی۔ لیکن کیا وہ کافر تھا؟ کیا وہ بے دین تھا؟ کیا اختلاف تھا؟ کیونکہ شروع سے بنیاد ہی ایسی رکھی گئی تھی اس لئے افغانستان سے جس سے ہمارے عقائد میں اتحاد، ہمارے معاشرے میں بھی اتحاد، ہمارے دین میں بھی اتحاد تھا۔ وہاں اس نے دوستی نہ ہونے دی۔ کیونکہ یہ وزیرخارجہ قادیانی تھا۔ افغانستان میں جو بھی قادیانی گیا ہے وہاں مارا گیا ہے۔ قتل کیاگیا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱؎ یہ سلطان احمد ملتانی نہ تھے بلکہ فخرالدین ملتانی تھے۔ قادیانی جماعت سے تعلق رکھتے تھے۔ اختلاف رائے کی بنیاد پر مرزامحمود نے ان کو قادیان میں قتل کرادیا۔ مرتب!
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ان کے عزائم اب آپ کے سامنے آچکے ہیں۔ ان کے پاس فوجی قوت بھی ہے۔ کہیں الفرقان فورس ہے، کہیں احمدی فورس ہے۔ آخر کوئی ایسی مذہبی جماعت ہمارے ہاں پاکستان میں نہیں جس کے پاس فورسز ہوں، جس کے پاس طاقت ہو جس کے پاس لڑنے والے رضاکار ہوں۔ یہ ایسی جماعت ہے جس کے پاس لڑنے والے، جنگ کرنے والے رضاکار بھی موجود ہیں۔ یہ جماعت مذہبی نہیں ہے۔ مگر یہ جماعت تو چاہتی ہے کہ جب بھی موقع ملے اس پورے ملک پر قبضہ کیا جائے اور پھر ان کے عزائم کتابوں سے واضح ہو گئے کہ وہ غیراحمدی کو دیکھنا نہیں چاہتے، غیراحمدی کو زندہ دیکھنا نہیں چاہتے۔ وہ انہیں قطعاً اس ملک میں ایک لمحہ کے لئے نہیں دیکھنا چاہتے۔ مگر بیوقوفی ان سے ہوگئی ربوہ اسٹیشن پر۔ اﷲتعالیٰ کو منظور یہ تھا ابھی ہی فرقے کو ختم کر دیا جائے جو 2954اس کے محبوب محمد رسول اﷲ ﷺ کی نبوت کے ڈاکو ہوں۔ یہ ایک مسلمہ بات ہے، تیرہ سو برسوں سے یہ چیز ہے، مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ حضور ﷺ کے بعد اور کوئی نبی پیدا نہیں ہوسکتا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری جو ہے وہ نبوت کی حیثیت سے نہیں ہے۔ وہ آکر ہم سے یہ نہیں کہیں گے کہ میں نبی ہوں، مجھ پر ایمان لاؤ۔ وہ وقت تھا جو ان کا گیا۔ وہ آئے، انہوں نے اعلان کیا میں نبی ہوں۔ ایمان لائے لوگ۔ اب وہ آئیں گے تو صرف مبشرات کی صورت میں آئیں گے، بشارت کو پورا کرنے کے لئے آئیں گے۔ اسی بشارت کو مٹانے کے لئے مرزاغلام احمد نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر کشمیر میں بنائی۔ چونکہ انگریزوں کی سرپرستی تھی اس لئے انہیں کوئی روکنے والا نہیں تھا۔
لہٰذا میں عرض کروں گا کہ ان کی ہر چیز پر پابندی لگنی چاہئے۔ ان کو تبلیغ کی بھی اجازت نہیں ہونی چاہئے اور اس جماعت کو مذہبی جماعت نہیں بلکہ سیاسی جماعت قرار دیا جائے تاکہ اس کے حساب وکتاب پر بھی پوری طرح سے نظر رکھ سکیں اور محدود طریقے سے وہ رہیں۔ ان کے حقوق جو ذمیوں کے اسلام میں ہیں ان سے انکار نہیں۔ ہم ان کے جان ومال کی حفاظت کریں گے اس وقت جب کہ وہ قانون کے دائرے میں آجائیں۔ قانون کے دائرے میں آنے سے پہلے ہم ذمہ دار نہیں ہیں۔ اگر اقلیت ان کو قرار دے دیا گیا جس طرح سے عوام کا مطالبہ ہے اور اگراس میں ذرا بھی کسی قسم کی ہچر مچر کی گئی، ذرا بھی کوئی کمزوری یا لچک رکھی گئی تو اس وقت جو عوام میں جوش پھیلا ہوا ہے اس جوش کو فرو کرنے کی، اس جوش وخروش کو دور کرنے کی کسی میں طاقت نہیں ہے۔
لہٰذا میں پھر عرض کرتا ہوں کہ اس جماعت کو غیرمسلم قرار دیتے ہوئے ان کے لئے ان کو تبلیغ کی آزادی، آمدورفت کی آزادی، ہر چیز پر پوری پوری نظر کی جائے اور اس کے بعد مسلمان قطعاً مطمئن ہوں گے۔
2955محترمہ قائمقام چیئرمین: راؤ ہاشم خان! صرف دس منٹ۔
(جناب راؤ ہاشم کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
جناب ایم ہاشم خان: جناب والا! جس مسئلہ سے یہ اسپیشل کمیٹی گذشتہ تین ماہ سے دوچار ہے، یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ اس ملک کے مسلمانوں کو یہ مسئلہ گذشتہ تقریباً ایک صدی سے درپیش ہے۔ مختلف موقعوں پر اسلامیان ہند نے یہ کوشش کی کہ ان کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ ۱۹۴۷ء تک تو وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکے، اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں ایک بہت بڑی عظیم طاقت کی سرپرستی حاصل رہی اور ۱۹۴۷ء کے بعد پہلی مرتبہ ۱۹۵۳ء میں جب یہ جدوجہد شروع ہوئی کہ احمدیوں کو غیرمسلم قرار دیا جائے، اس وقت تو میں یہ کہوں گا کہ ہر تحریک جو تشدد اختیار کر جائے اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ ۱۹۵۳ء میں چونکہ تشدد شروع ہوگیا اور تشدد کا ہمیشہ جواب تشدد سے دیا جاتا ہے اور جب تشدد ناکام ہو جائے تو پھروہ تحریک بھی ساتھ ہی ختم ہو جاتی ہے۔ یہی صورتحال ۱۹۵۳ء میں ہوئی۔ اس وقت کے جو زعماء لیڈران اس تحریک کے تھے انہوں نے تشدد کا طریقہ اختیار کیا۱؎۔ عدم تشدد کا رستہ چھوڑ دیااس لئے سارے ملک کے سامنے اور ساری قوم کے دیکھتے دیکھتے ایک ایسا مسئلہ جو تھا یہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا، اب یہ کبھی سر نہ اٹھا سکے گا۔ تو اب بھی وہی بات تھی۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ایک قسم کی تائید غیبی تھی کہ ۱۹۵۳ء کے بعد اس مسئلہ پر کبھی کسی نے سنجیدگی سے غور نہیں کیا کہ کس طریقے سے اس جماعت کے لوگ منظم ہوتے جارہے ہیں اور کس طریقے سے وہ اپنے آپ کو اس ملک میں اہم عہدوں پر فائز کر کے ہرچیز پر قابض ہو گئے ہیں جن کا سیاست میں اور دنیاوی کاموں میں کافی اثر ہوتا ہے۔
جناب والا! آپ یہ دیکھیں گے کہ اس فرقہ کے لوگوں نے سب سے پہلے یہ کوشش کی کہ Open Competition (آزاد مقابلہ) میں تو چونکہ بہت ساری چیزیں آجاتی ہیں،
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱؎ تحریک کے زعماء نے پرامن تحریک چلائی۔ حکومت نے ان کو گرفتار کر لیا۔ ایجنسیوں نے تشدد کے راستہ پر تحریک کو ڈال دیا۔ حکومت نے بدترین تشدد سے تحریک کو کچل دیا۔ اس میں زعماء تحریک کا کوئی قصور نہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہمارے ہاں سی۔ایس۔پی، پی۔سی۔ایس کے امتحانات ہوتے تھے۔ اس میں Open Competition (آزاد مقابلہ) ہوتے 2956تھے، وہاں پر زیادہ کارگر نہیں ہوسکے۔ وہاں تو یہ تھا کہ سو(۱۰۰) میں سے ایک آدمی آگیا تو Open Competition (آزاد مقابلہ) میں تو چلے گئے۔ ان لوگوں کے جو سینئر آفیسر تھے انہوں نے اس ملک میں کارپوریشنوں پر قبضہ کرنے کی سب سے زیادہ کوشش کی۔ آپ دیکھیں گے کہ اس ملک میں جتنی بھی کارپوریشنیں موجود ہیں ان میں اہم ترین عہدے ان کے پاس ہیں۔ اس کا طریقہ کار یہ رہا ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو پی۔آئی۔ڈی۔سی کا چیئرمین مقرر کرادیا۔ فرض کیجئے مجھے انہوں نے چیئرمین بنوادیا۔ اب میں چونکہ چیئرمین ہوگیا ہوں، میں ایک بڑے افسر کا ممنون احسان ہوگیا۔ وہ افسر احمدی تھا۔ انہوں نے دو چار دن کے بعد مجھے کہا کہ میں نے آپ کو چیئرمین مقرر کرایا ہے، آپ پرسانل آفیسر فلاں آدمی کو لگادیں۔ میں اس احسان تلے دبا ہوا تھا، لہٰذا میں نے ان کی مرضی کے مطابق ایک ایسے آدمی کو آفیسر بھرتی کرادیا۔ جس کا کام یہ تھا کہ وہ بھرتی کرے۔ لہٰذا اس آدمی نے اس ادارے میں ۹۹فیصد احمدیوں کو ملازمت دی۔ پی۔آئی۔ڈی۔سی بینک اور انشورنس کمپنیاں، جہاں بھی یہ لوگ گئے ان کی اکثریت رہی۔ اس طریقہ سے یہ ہماری اقتصادیات پر حاوی ہوتے چلے گئے۔ جس کے پاس پیسہ ہو آواز بھی اس کی ہوتی ہے۔ آج یہ لوگ منظم اس لئے ہیں کہ ان کے پاس پیسے اور وسائل ہیں۔ یہ ایک دو فیصد ہوتے ہوئے بھی اسی لئے ہمارا مقابلہ بڑی سختی کے ساتھ کرتے ہیں۔
----------
[At this stage Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi vacated the Chair which was occupied by Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali).]
(اس مرحلے پر ڈاکٹر بیگم اشرف خاتون عباسی نے کرسی صدارت کو چھوڑا جسے جناب چیئرمین (صاحبزادہ فاروق علی) نے سنبھالا)
----------
جناب ایم ہاشم خان: تو میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ ۱۹۵۳ء کے بعد پہلی مرتبہ انہوں نے اس مسئلے کو جگادیا۔ اگر ربوہ کا واقعہ نہ ہوتا تو پھر میں سمجھتا ہوں کہ یہ قوم اس طرف دھیان دینے کے لئے تیار نہیں تھی۔
2957جناب والا! میں ایک بات ضرور عرض کروں گا کہ اس موجودہ حکومت کو بہت سے مسائل درپیش ہیں۔ اس قسم کے مسائل ہیں کہ آج تک اس قوم کو اس قسم کے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ۲۵سال سے آج تک ہم ایسے وسائل سے دوچار نہیں ہوئے۔ سب سے بڑا مسئلہ جو آج تک حل نہیں ہوسکا وہ میں سمجھتا ہوں کہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم نے اس چیز کو جو کہ گزشتہ سو(۱۰۰) سو سال سے حل نہیں کی جاسکی اس کو ہم نے بڑی خوش اسلوبی سے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔
جناب والا! یہاں پر ناصر احمد نے یہ کہا کہ یہ ہمارا اختیار نہیں ہے۔ اس اسمبلی کو انہوں نے چیلنج کیا ہے کہ اسمبلی کو کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ اس پر فیصلہ (Adjudicate) دے سکے اور کسی کو غیرمسلم قرار دے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایوان اس ملک میں ایک بااختیار ایوان ہے۔ اس سے بڑی طاقت کوئی نہیں ہے۔ اگر یہ ایوان کسی کے بارے میں فیصلہ نہیں دے سکتا تو پھر وہ کون ساایوان ہے جو یہ فیصلہ کر سکتا ہے؟ ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس ایوان کو اس الجھن میں نہ ڈالا جائے۔ بہرحال یہ کہنا کہ اس ایوان کو اس مسئلے کو حل کرنے کا اختیار نہیں ہے یہ غلط ہے۔ اس ایوان کو کلی طور پر اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی جماعت اور کسی فرقے کے بارے میں یہ کہہ سکے کہ یہ صحیح ہے یا غلط۔ ہم یہاںہر قسم کی قانون سازی کر سکتے ہیں۔ ہمارے اوپر ایک حق ضرور عائد ہوتا ہے کہ ہم کوئی ایسا کام نہیں کر سکتے جو اسلام کی روح کے خلاف ہو، جو آئین کے خلاف ہو اور ہم اس قسم کی قانون سازی کے مجاز نہیں ہیں۔ دنیا کی بہت سی پارلیمنٹس ہیں جن میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ وہ ہرچیز کر سکتی ہیں لیکن اس ملک میں پارلیمنٹ کو یہ اختیار نہیں کہ وہ حلال اور جائز کو ناجائز قرار دے۔ اس کے علاوہ تمام قسم کی دنیاوی قانون سازی کر سکتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ مذہب ایک ذاتی مسئلہ ہے، اس پر ہم Finding (فیصلہ) نہیں دے سکتے ہیں۔ میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ مذہب صرف اس وقت تک ذاتی 2958مسئلہ رہتا ہے۔ جب تک وہ کسی شخص کی ذات تک محدود رہے۔ اگر میں دل میں کوئی خیال رکھتا ہوں اور اپنی عبادت میں مشغول رہتا ہوں تو یہ ذاتی مسئلہ ہوگا۔ لیکن جب باہر آکر علی الاعلان ہم ایسی باتیں کریں جن سے دوسرے لوگ بھی متاثر ہوں، ان کے جذبات مجروح ہوں، تو پھر یہ ذاتی مسئلہ نہیں رہتا۔ اس ملک کے اندر جو اسلام کے نام پر حاصل کیاگیا ہے۔ یہاں یہ کہنا کہ نعوذ باﷲ رسول کریم ﷺ کے بعد بھی نبی آسکتا ہے تو یہ ہمارے جذبات کے ساتھ بہت زیادتی ہوگی۔
ایک بات دیکھنے میں آئی ہے اور مجھے ذاتی تجربہ ہے کہ کالج سے لے کر اب تک جو احمدی بھی میرے ساتھ رہے ہیں، ہم ان کے ساتھ جرح کرتے تھے اور بڑے سخت الفاظ استعمال کر جاتے تھے، لیکن وہ ہنس کر ٹال دیتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد پہلی بار انہوں نے تشدد شروع کر دیا جو ملک خداداد اور رسول اﷲ ﷺ کے نام پر معرض وجود میں آیا۔ اس میں اقلیت کو تشدد کی جرأت کیسے ہوئی؟ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کو اس سے باخبر رہنا چاہئے۔ ان کو یہ جرأت کیسے ہوئی کہ انہوں نے ٹرین پر حملہ کیا اور مسلمانوں پر تشدد کیا، ان لوگوں پر زیادتی کی جو کل آبادی کا ۹۹فیصد ہیں۔
جناب والا! میں یہ عرض کروں گا کہ اس اسمبلی کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے کہ وہ یا ہمیں یعنی اکثریت کو (خدانخواستہ) غیرمسلم قرار دے یا انہیں غیرمسلم قرار دے۔ انہوں نے واضح الفاظ میں آپ کے سامنے کہا کہ وہ ان کو مسلمان نہیں سمجھتے۔ جو مرزاغلام احمد کو نبی نہیں مانتے۔ اس ملک کی ۹۹فیصد آبادی ہرگز مرزاغلام احمد کو نبی تسلیم نہیں کرتی۔
جناب والا! یہ ضروری ہے اور لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بڑا اہم مسئلہ ہے۔ اس پر بڑا پریشر ہے۔ یہ بین الاقوامی معاملہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا مفاد اور عوام کا مفاد اور بھلائی بھی اسی میں ہے کہ عوام کے نمائندے اس مسئلے کا حل تلاش کریں۔ عوام ان کو 2959غیرمسلم سمجھتے ہیں اور میرا اپنا ایمان بھی یہی ہے۔ انہیں غیرمسلم قرار دینے کے بعد میں یہ عرض کروں گا کہ اگر یہ تحریک تشدد کی طرف گئی، اگر آپ نے ان کے اوپر اور کچھ کرنے کی کوشش کی تو میں متنبہ کرتا ہوں کہ وہ تشدد ہمیشہ ناکام رہے گا۔ اس تحریک کو آج تک جس طریقہ سے پر امن رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگر اس کی بجائے تشدد آگیا تو اس سے ہمیں نقصان ہوگا اور ان کو فائدہ پہنچے گا۔ وہ کوشش کریں گے کہ کہیں نہ کہیں تشدد پیداکر کے اس تحریک کو تشدد کی طرف لے جایا جائے۔ یہ ہمارا سب کا فرض ہے کہ اسمبلی ان کے بارے میں فیصلہ کرے۔ ان کو غیرمسلم قرار دینا چاہئے، اور پھر اس کے بعد ان کی جان ومال کی حفاظت کرنا ہمارا اولین فرض ہوگا۔ ان کے ساتھ تشدد کرنا ایسا ہی ہے جیسے ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ تشدد ہوتا ہے اور ہم چیخ پڑتے ہیں۔ ہم اگر اپنی اقلیت کی حفاظت نہ کریں گے تو دوسروں سے کیا امید رکھیں گے۔ اس لئے کسی فیصلہ کے بعد ان کا تحفظ کرنا ہمارا فرض ہے۔ ہمارے نوجوانوں، بچوں اور بوڑھوں، سب کو اس مسئلے کا حل اور علاج تشدد سے نہیں کرنا چاہئے۔
Mr. Chairman: Thank you.
(جناب چیئرمین: شکریہ!)
جناب ایم ہاشم خان: ایک منٹ! میں یہ عرض کروں گا کہ مجھے بنگلہ دیش جانے کا اتفاق ہوا۔ بازار میں ایک احمدی نمائندہ مجھے ملا اور مجھے ایک پمفلٹ دیا اور کہنے لگا کہ یہاں مجیب نے اس ملک کو سیکولر اسٹیٹ قرار دیا ہے۔ آپ بھی ویسا ہی کر دیں۔ یہ لوگ سیکولر ازم کے حامی ہیں۔ اگر یہ مسلمان ہوتے تو ایسی باتیں نہ کرتے۔ میں آخر میں یہ عرض کروں گا کہ ہمیں انہیں غیرمسلم قرار دینا چاہئے اور اس تحریک کے کامیاب ہونے کے بعد یہ ہمارا فرض ہوگا کہ اس مسئلے کو کامیابی کے ساتھ حل کریں۔
2960جناب چیئرمین: صاحبزادہ صفی اﷲ! بعد میں دوسروں کی باری آئے گی۔ ایک منٹ کے لئے اٹھتے ہیں اور پھر پندرہ منٹ لگاتے ہیں۔ لیکن جب کہتے ہیں کہ پندرہ منٹ تو دس منٹ ہی میں ختم کر دیتے ہیں۔
(جناب صاحبزادہ صفی اﷲ کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر خطاب)
صاحبزادہ صفی اﷲ: جناب والا! جو قراردادیں اس وقت اسپیشل کمیٹی کے سامنے ہیں ان کے حق میں ہماری طرف سے ایک مفصل بیان ’’ملت اسلامیہ‘‘ کے نام سے آچکا ہے۔ جس کو مولانا مفتی محمود صاحب نے ہم سب کی طرف سے پڑھا ہے اور اس کے بعد اور بھی معزز اراکین نے اپنے زریں خیالات کا اظہار کیا ہے اور اس میں اب کوئی گوشہ ایسا نہیں رہا جو تشنۂ گفتگو ہو۔ جناب والا! ہم نے مرزاناصر احمد کو اور لاہوری جماعت کے سربراہ کو یہ موقع دیا تھا کہ وہ اسپیشل کمیٹی کے سامنے اپنے مؤقف کو پیش کریں۔ اس میں یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ ہم اپنا اطمینان کرنا چاہتے تھے یا یہ کوئی متنازعہ فیہ مسئلہ تھا۔ جس کا تصفیہ نہیں ہوا تھا اور ہم اب تصفیہ کرنے بیٹھے تھے۔ اس کا فیصلہ چودہ سو سال پہلے اﷲتعالیٰ نے کیا ہے اور احادیث صحیحہ اور اجماع امت کے علاوہ قرآن کریم کی بے شمار آیات اس سلسلہ میں وارد ہیں اور ان میں سے ایک جو اس بارے میں اجماع امت ہے اس پر کہ وہ ختم نبوت کے بارے میں قطعی ہے وہ سورۃ احزاب کے پانچویں رکوع کی آیت ہے اور اس کو میں پڑھتا ہوں:
’’
اعوذ باﷲ من الشیطان الرجیم۰ بسم اﷲ الرحمن الرحیم۰ ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النّبیین۰ وکان اﷲ بکل شیٔ علیما
‘‘
یعنی اے لوگو! محمد ﷺ آپ مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں۔ مگر وہ اﷲ کے رسول ہیں اور خاتم النّبیین ہیں اور اﷲتعالیٰ کو ان سب چیزوں کا علم ہے کہ اس کے بعد کسی نبی کو نہیں بھیجنا ہے اور یہ آخری نبی ہیں اور اس پر امت کا فیصلہ ہے، امت کا 2961اجماع ہے کہ یہ اس بارے میں قطعی ہے۔ یعنی ہم یہاں اس لئے نہیں بیٹھتے تھے کہ ہم یہ فیصلہ کریں یا اس کے لئے کوئی اور دلیل طلب کریں۔ اپنے اطمینان کے لئے، بلکہ انہوں نے درخواست کی تھی کہ ہم اپنا مؤقف پیش کرنا چاہتے ہیں تو ہم نے ان کو موقع دیا۔
جناب والا! آپ کی ہدایت تھی کہ ہم بڑے صبر اور تحمل کا مظاہرہ کریں اور ہم نے جس صبر اور تحمل کا مظاہرہ کیا ہے، یہ تو اﷲ شاہد ہے کہ ان کی ان دل آزار باتوں سے اور ان کی کفریات سے ہم کو کتنا صدمہ پہنچا تھا۔ لیکن ہم نے باوجود اس کے نظم وضبط کو بحال رکھا اور ان سب باتوں کو سنا اور اس جرح کے دوران میں اٹارنی جنرل صاحب نے ان خفیہ باتوں کو ان کے دلوں سے نکلوایا جو کہ وہ ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے۔ ان کے بیانات سے یہ بات روز روشن کی طرح اب عیاں ہے اور ہاؤس کا ہر ایک معزز رکن اپنے اطمینان کے ساتھ اب انشاء اﷲ فیصلہ دے گا اور ان سب پر عیاں ہوچکا ہے کہ مرزاغلام احمد نے کتنی ڈھٹائی کے ساتھ اپنی جعلی نبوت کا کیس دنیا کے سامنے پیش کیا۔
جناب والا! یہ بات بھی سامنے آگئی ہے کہ انگریزوں نے اپنے اس خود کاشتہ پودے کو کس طرح پھلنے پھولنے کا موقع دیا اور تناآور کیا۔ لیکن ہمیں انگریزوں سے شکایت نہیں ہے، وہ تو ملت اسلامیہ کو پارہ پارہ کرنے کے لئے ہمیشہ یہی حربے استعمال کرتے رہتے تھے۔ ہمیں جو شکایت ہے تو اپنے حکمرانوں سے ہے۔ جناب والا! پاکستان بن جانے کے بعد چاہئے تو یہ تھا کہ ان کو بلاتے، سمجھاتے کہ بھائی! اب یہ جعلی نبوت نہیں چلے گی، اب اس قصے کو چھوڑ دو، اور اگر نہیں چھوڑتے ہو تو پاکستان کی سرزمین میں ایک غیرمسلم اقلیت بن کر رہو۔ لیکن ہوا کیا کہ انگریزوں سے زیادہ ہمارے حکمرانوں نے ان کو موقع دیا اور مسلمانوں کے سروں پر سوار کیا اور اب پاکستان میں زندگی کے کسی شعبے میں اگر آپ تلاش کریں تو وہاں ایک قادیانی آفیسر بن کر بیٹھا ہو گا اور پاکستانی حکومت کا کوئی راز ان سے اب چھپا ہوا نہیں ہے۔
2962جناب والا! اس میں کوئی شک نہیں ہے اور یہ بات اب عیاں ہے کہ ان لوگوں کی وجہ سے سارے عالم اسلام کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب ہوگئے ہیں، سارے برادر ملکوں سے ہمارے تعلقات خراب ہوگئے ہیں۔ افغانستان سے تعلقات خراب کرنے میں ان ہی لوگوں کا ہاتھ ہے۔مجھے یاد ہے کہ ۱۹۵۶ء میں عرب اسرائیل جنگ کے دوران ہماری حکومت کے ایک قادیانی آفیسر نے ایک بیان دیا عربوں کے خلاف، اور اس کا ردعمل یہ ہوا کہ سارا عالم عرب ابھی تک پاکستان کو مشکوک نگاہوں سے دیکھتا ہے اور جس وقت کشمیر کا مسئلہ سلامتی کونسل میں پیش ہوا تو بہت سے عرب ممالک نے صرف اس ایک بیان کی وجہ سے ہمارے حق میں رائے نہیں دی۔ بلکہ ہندوستان کے مؤقف کی حمایت کی۔ یہ ان لوگوں کے کرتوتوں کا نتیجہ ہم بھگت رہے ہیں۔
جناب والا! اس قصے کو اب میں مختصر کرتا ہوں اور کیونکہ جو وقت مجھے دیاگیا ہے وہ بہت کم ہے۔ ایک بات کی طرف میں آپ کی وساطت سے اس معزز ایوان کے معزز اراکین کی توجہ دلانا چاہتا ہوں اور وہ بڑی حیران کن بات ہے کہ پاکستان بن جانے کے بعد پاکستان کے اندر جتنی بھی ریاستیں تھیں ان کو حکومت پاکستان نے ختم کر دیا۔ مثلاً ریاست بہاولپور جو ایک علم دوست ریاست تھی اور سب سے پہلے وہاں سے قادیانیوں کے خلاف فیصلہ سنایا گیا تھا۔ لیکن بہاولپور کو ختم کیا جاتا ہے۔ دیر، سوات اور چترال کو ختم کیا جاتا ہے، اور ربوہ جو ریاست کے اندر ایک ریاست ہے اور جس کا ہیڈ مرزاناصر ہے وہ ابھی تک قائم ہے اور اب ہمیں معلوم ہوا ہے اور ہمارے علم میں یہ بات لائی گئی ہے کہ مرزاناصر جو خود ساختہ خلیفہ ہے، اس کے خاندان کے لوگوں سے قادیانیوں کی خواتین کی عصمتیں محفوظ نہیں ہیں اور ان کی فریاد کی شنوائی نہیں ہوتی ہے اور وہ بے چارے مجبور ہیں۔ وہ جو وہاں کرنا چاہیں کر سکتے ہیں۔ تو اس سلسلہ میں میں عرض کروں گا کہ ربوہ کو بالکل ختم کرنا چاہئے، اس کی ریاست اندر ریاست کی حیثیت کو ختم 2963کرنا چاہئے اور اس کو ایک کھلا شہر قرار دینا چاہئے اور وہاں سرکاری عمارات کی تعمیر ہونی چاہئے۔ مثلاً تحصیل، تھانہ وغیرہ۔
دوسری بات جناب! یہ ہے کہ دستور کی دفعہ ۲۵۶ کے تحت ان کی جو فوجی تنظیمیں ہیں ان کو ختم کرنا چاہئے اور ان پر پابندی لگانی چاہئے، ورنہ یہ خطرہ ہمیشہ کے لئے رہے گا اور پاکستان کی سلامتی اور بقاء کی کوئی مؤثر ضمانت بغیر ان کو ختم کئے نہیں ہوگی۔
جناب والا! یہ بات بہت عجیب ہے کہ اس ملک کے اندر ایک آدمی پولیس کی وردی کا استعمال نہیں کر سکتا، ڈی۔ایس۔پی کی وردی کا استعمال نہیں کر سکتا۔ اس ملک میں ایک آدمی کے متعلق اگر یہ معلوم ہو جائے کہ وہ کرنسی نوٹ چھاپتا ہے اور اس کا کاروبار کرتا ہے تو اس کو حکومت پکڑتی ہے اور سزادیتی ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اس ملک کے اندر ۲۷سال سے اب تک جعلی نبوت کا کاروبار ہوتا رہتا ہے اور ان کو کھلی چھٹی ہے کہ جس طرح چاہیں وہ کریں اور اس پر ان کو کوئی سزا نہیں ہے۔ یہ بڑی حیران کن بات ہے اور یہ اسلامیان پاکستان کی غیرت کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے اور اگر اس موقع کو بھی ضائع کیا گیا تو پھر مسلمانان پاکستان کو اﷲتعالیٰ کے قہر وغضب سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔
جناب والا! آپ مجھے باربار دیکھتے ہیں۔ میں نے تو ابھی پا نچ منٹ لئے ہیں۔
جناب چیئرمین: دس منٹ ہوگئے ہیں۔
صاحبزادہ صفی اﷲ: میں تو صرف پوائنٹس تک اپنی تقریر محدود رکھنا چاہتا ہوں۔
جناب چیئرمین: پانچ منٹ اور لے لیں۔ آپ نے 11:20 پر تقریر شروع کی ہے۔
صاحبزادہ صفی اﷲ: دو،چار منٹ اور۔
جناب چیئرمین: یہ سارا ہاؤس گواہ ہے میں نے اپنی زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا۔
2964صاحبزادہ صفی اﷲ: دو،چار منٹ اور۔
جناب چیئرمین: آپ پانچ منٹ لے لیں۔
صاحبزادہ صفی اﷲ: اچھا جی، جناب والا!
جناب چیئرمین: ریکارڈ کے مطابق 11:17 ہے، میرے خیال کے مطابق 11:20 ہے۔ باقی رہ جائیں گے بیچارے۔
صاحبزادہ صفی اﷲ: میں عرض کر رہا تھا کہ اس ملک میں جب جعلی نبوت کا کاروبار ہوتا ہے تو ہم کس طرح دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہم آزاد ہیں اور ہمیں آزادی ملی ہے اور ہم اس آزادی پر کس طرح فخرکر سکتے ہیں۔ جب ہم اپنے رسول اﷲ ﷺ کے ناموس کی حفاظت کرنے میں اب تک ناکام رہے ہیں تو ہم کس طرح دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہم آزاد ہیں اور ہمیں ایک آزاد ملک ملا ہے۔
جناب والا! میں نے بہت سے پوائنٹ چھوڑ دئیے ہیں۔ میں یہ گزارش کرتا ہوں کہ اس وقت ملک کی جو حالت ہے وہ یہ ہے کہ عوام کی نگاہیں اس کمیٹی پر مرکوز ہیں۔ ڈھائی مہینہ ہم نے مسلسل کام کیا ہے اور اب لوگ دیکھتے ہیں کہ کیا ہونے والا ہے۔ لیکن ہماری ساری تگ ودو اور جدوجہد کا ثمرہ ہمیں اس وقت مل سکتا ہے جب کہ ہم دستور میں ایسی ترامیم لانے میں کامیاب ہو جائیں، جو اﷲتعالیٰ جل شانہ اور اس کے رسول ﷺ اور امت مسلمہ کے لئے قابل قبول ہوں۔ ہم ڈرتے کیوں ہیں، یعنی ہم کیوں اس طرح احساس کمتری کا شکار ہیں۔ میں نے بہت سے دانشور صاحبان سے سنا ہے کہ یہ مرزاغلام احمد کا ناپسندیدہ نام ہمارے دستور میں نہ آئے۔ جناب والا! ٹھیک ہے، لیکن میں ایک عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے دستور سے جو مقدس کتاب ہے وہ اﷲتعالیٰ کی کتاب ہے، لیکن ضرورت کے مطابق جہاں یہ باتیں ناگزیر تھیں تو اس میں بھی ہامان اور قارون اور ابی لہب کے نام لئے گئے ہیں اور ابلیس کا نام لیاگیا ہے۔ تو اگر ہمارے 2965دستور میں مرزاغلام احمد کا نام آیا تو اس میں کیا قباحت ہے؟ یعنی ہم جب اپنے مسائل کو دوسروں کے زاویہ نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس پر پرکھتے ہیں اور اس سے اندازہ لگاتے ہیں تو یہ اچھی بات نہیں۔ یہ تو ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ کیا کریں، ہم اس سے دوچار ہیں، ہم اس میں پھنس گئے ہیں۔ اب اگر دستور میں اس کا یعنی مرزاغلام احمد کا نام، ناپاک نام نہ لیں تو ہم مجبور ہیں۔
جناب چیئرمین: نہیں، نہیں، ہم نہیں پھنسے۔ ہم انشاء اﷲ! نکلیں گے اس سے۔
صاحبزادہ صفی اﷲ: جناب والا! میں نے بہت سی باتیں چھوڑ دی ہیں۔ میری عرض یہ ہے کہ ہمارے دستور میں جو کچھ…
جناب چیئرمین: آپ فرمائیں، میں ’’میں مودودی شاہ پارے‘‘ تلاش کر رہا ہوں۔
صاحبزادہ صفی اﷲ: انہوں نے اﷲتعالیٰ جل شانہ کے کلام سے اور رسول اﷲ ﷺ کی احادیث مقدسہ کے ساتھ اور اس کے بعد ابن عربی اور امام غزالی اور حضرت عبدالقادر جیلانیؒ اور سب کے کلام کے ساتھ جو کچھ کیا ہے تو اگر مولانا مودودی کے کلام کے ساتھ کریں تو پھر کیا حیرانی ہے۔ خداتعالیٰ جل شانہ کے کلام کے ساتھ انہوں نے کیا ہے۔ جناب والا! میں عرض کر رہا تھا کہ اگر دستور…
جناب چیئرمین: ’’چڑیا گھر، جو موجودہ مسلمانوں کی نام نہاد سوسائٹی جس میں چیل، گدھ، بٹیر، تیتر اور ہزاروں قسم کے جانور جمع ہیں۔‘‘ سیاسی کشمکش، حصہ سوم۔
صاحبزادہ صفی اﷲ: میں نے تو پہلے عرض کیا ہے کہ اﷲتعالیٰ جل شانہ کے کلام کے ساتھ انہوں نے کیا ہے۔ میں عرض کر رہا تھا کہ اگر دستور کی دفعہ۱۰۶ جہاں وہ دوسری اقلیتیں ہیں، ان میں مرزاغلام احمد اور اس کے متبعین اور پیروکار جو ہیں ان کا نام ہم شامل کریں اور ان کو ایک غیرمسلم اقلیت شمار کریں تو اس میں کیا قباحت ہے؟ اور اس 2966کے بعد جو قانون سازی ہوگی تو اور بھی اس پر علماء کرام کے مشوروں سے اضافہ ہو جائے گا۔
دوسری بات جو ہے وہ کلیدی اسامیوں کی بات ہے۔ میں اس میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جہاں تک ہمیں علم ہے یہ تو اس وقت کی بات ہوگی، یہ قانونی بات ہو گی کہ اسلام دارالسلطنت میں غیرمسلم اقلیتیں جو ہیں، ذمی وغیرہ، وہ کن کن عہدوں پر فائز رہ سکتے ہیں اور کن پر نہیں رہ سکتے۔ میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ اسلامی قانون کی رو سے یہ دفاع کا محکمہ جو ہے فوجوں وغیرہ کا، تو غیرمسلموں کو فوجی خدمات سے اسلام نے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ یعنی وہ کسی ایسے عہدے پر نہیں رہ سکتے جس سے ملکی دفاع مقصود ہو اور یہ ٹھیک بھی ہے۔ جناب والا! کہ ایک اصولی ریاست ہے۔ جس اصول پر وہ ریاست قائم ہے تو اس ریاست کی حفاظت، اس ملک کی حفاظت اور اسے دشمنوں سے بچانے کے طریقے اور اس کے لئے لڑنا اور مرنا ان لوگوں کے ذمہ ہے جو اس اصول پر یقین رکھتے ہیں۔ لیکن وہ افراد کس طرح لڑیں گے جن کے دماغ پر ہمیشہ اپنے نبی کی وحی سوار ہو کہ:
اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال
دین کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال
دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد
منکر ہے نبی کا جو یہ رکھتا ہے اعتقاد (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۲۷، خزائن ج۷ ص۷۷)
تو وہ ملک کی حفاظت کس طرح کر سکیں گے؟ اور ہم نے دیکھ نہیں لیا کہ ۱۹۷۱ء میں کیا ہوا ہمارے ساتھ۔
جناب چیئرمین: چھوڑیں جی!
صاحبزادہ صفی اﷲ: جناب والا! آخر میں معزز ممبران کی خدمت میں آپ کی وساطت سے گزارش کروں گا کہ اس وقت اﷲتعالیٰ کی طرف سے ہم پر ایک بہت بڑی 2967آزمائش ہے اور ہم اس وقت صرف اپنے حلقۂ انتخاب کی نمائندگی نہیں کرتے ہیں، نہ پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں، بلکہ اس وقت ہم پورے عالم اسلام اور امت مسلمہ کی نمائندگی کرنے یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں جو بھی ہم سے کوتاہی ہوئی اس سے عالم اسلام اور امت مسلمہ کو نقصان پہنچائیں گے اور اگر ہم نے صحیح فیصلہ کیا تو اﷲتعالیٰ جل شانہ اور اس کے رسول محمد ﷺ کے لئے قابل قبول ہوا تو ہم سرخرو ہوکر اﷲ تعالیٰ جل شانہ کے حضور بھی اپنے گناہوں کی معافی چاہیں گے اور رسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں بھی اپنی شفاعت کی امید رکھ سکیں گے۔ شکریہ!
جناب چیئرمین: اس کا جواب انہوں نے ابھی نہیں دیا۔ اس کا جواب محمود اعظم فاروقی صاحب دیں گے۔ یہ ’’انتخابی مہم میں شکاری کتوں کی دوڑ۔ جمہوری اسمبلیاں، ان کی رکنیت بھی حرام، ان کو ووٹ دینا بھی حرام۔‘‘
جناب محمود اعظم فاروقی: میں اور بھی بہت سے جواب دے سکتا ہوں، آپ سننے کے لئے تیار ہو جائیں۔
جناب چیئرمین: نہیں، نہیں، اس کا۔
جناب محمود اعظم فاروقی: آپ اس کا جواب سننے کے لئے تیار ہو جائیں۔
جناب چیئرمین: صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری۔