ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
(اسلام کی مقدس شخصیتوں کے بارہ میں قادیانی متوازی نظام)
جناب والا! علاوہ ازیں ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام میں مقدس ہستیوں کے مقابلے میں انہوں نے ایک متوازی نظام قائم کر رکھا ہے۔ صحابہ اور اہل بیت انتہائی واجب الاحترام ہستیاں ہیں۔ مثلاً امیرالمؤمنین، ام المؤمنین۔ اس متوازی نظام سے انتشار پیدا ہوا۔ پھر جب ہم (مسلمان) خوش ہوتے ہیں۔ وہ (قادیانی) خوش نہیں ہوتے۔ جب ہم ناخوش ہوتے ہیں وہ خوش ہوتے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم میں جب انگریزوں نے عراق کو فتح کر لیا تو مسلمان ناخوش ہوئے۔ لیکن انہوںنے قادیان میں چراغاں کیا۔ ہم نے اﷲ کے فضل سے ایک الگ ملک حاصل کیا۔ کیونکہ ہماری سوچ ایک فرد واحد کی سوچ کی مانند تھی۔ ہم خواہ سندھی ہوں، بلوچ ہوں، پٹھان ہوں، پنجابی ہوں، نفسیاتی طور پر ہم ایک دوسرے سے پیوست ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا فہم اور ادراک ان سے بہت مختلف ہے۔ یہ مختصر بھی کمیٹی کے ذہن نشین رہنا چاہئے۔ گو کہ جیسا میں کہہ چکا ہوں۔ ان کی طرف سے جو کچھ کہا گیا ہے۔ اس پر بھی غور کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ مسلمانوں کی حمایت کریں گے۔
جناب والا! اب میں اختتام کی طرف آتا ہوں۔ میں نے کافی وقت لیا ہے۔ اب میں دستور کے مطابق احمدیوں کی حیثیت کے بارے میں گذارشات کروں گا۔ فیصلہ خواہ کچھ بھی ہو۔ اراکین جو بھی راستہ اختیار کریں۔ یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ وہ پاکستانی ہیںا ور وہ شہریت کا پورا پورا حق رکھتے ہیں۔ ’’ذمی‘‘ یا دوسرے درجے کے شہری ہونے کا پاکستان میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یاد رکھئے کہ پاکستان لڑ کر حاصل نہیں کیا گیا۔ بلکہ یہ مصالحت اور رضامندی سے حاصل کیاگیا تھا۔ یہ ایک معاہدہ تھا جس کی بنیاد دو قومی نظریہ پر تھی۔ ہندوستان میں ایک مسلمان قوم تھی اور دوسرے ہندو قوم۔ اس کے علاوہ چھوٹے چھوٹے ذیلی قومی گروہ تھے۔ پاکستان کی تخلیق کے ساتھ مسلمان قوم بھی تقسیم ہوگئی اور اس کا ایک حصہ ہندوستان میں رہ گیا۔ ہم ان کو بے یارومددگار نہیں چھوڑ سکتے تھے۔ کیونکہ پاکستان کو معرض وجود میں لانے کے لئے قربانیاں دی تھیں۔ چنانچہ یہ قرار پایا ان کے شہری اور سیاسی حقوق ہندوؤں کے حقوق کے برابر ہوں گے۔ اسی طرح ہم پاکستان میں ہندوؤں اور دیگر اقلیتوں کو مساوی شہری اور سیاسی حقوق دیں گے۔ اس بات کا ذکر آپ کو چوہدری محمد علی کی لکھی ہوئی کتاب ’’Emergence of Pakistan‘‘ (ایمرجنس آف پاکستان) میں ملے گا۔ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کو ہوا تھا۔ جسے قائداعظم نے خطاب کیا تھا۔ وہ ایک نہایت مشکل دور تھا۔ بے شمار مسلمان شہید ہوگئے تھے۔ قربانیاں دی گئی تھیں۔ اس معاہدہ کے باوجود ہندو مسلمان کو ذبح کر رہے تھے۔ جس کا قدرتی طور پر پاکستان میں ردعمل ہوا۔ قائداعظم نے مسلمانوں سے پرامن رہنے کی پرسوز اپیل کی۔ وہ ہمیں اپنے وعدے کا احساس دلا رہے تھے۔ وہ حکومت پاکستان کو اقلیتوں کے مفادات کے تحفظ کی یاد دہانی کرا رہے تھے۔ انہوں نے فرمایا تھا: ’’آپ اپنے مندروں کو جانے میں آزاد ہیں۔ اپنی مسجدوں میں جانے کو آزاد ہیں۔‘‘
اور مزید فرمایا: ’’وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو، ہندو نہیں رہے گا اور مسلمان مسلمان نہیں رہے گا۔ مذہبی طور پر نہیں بلکہ سیاسی طور پر یعنی یہ کہ سب کے لئے سیاسی آزادی برابر ہوگی۔‘‘
گو اس تقریر کو غلط معنی پہنائے گئے اور کہاگیا کہ قائداعظم نے دو قومی نظریہ کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ لیکن ایسا نہیں تھا۔ وہ ایک وعدے اور معاہدے کی بات کہہ رہے تھے۔ اس کے بعد بھی قائداعظم نے دو قومی نظریہ کی وکالت کی۔ جس کی وضاحت چوہدری محمد علی نے اپنی کتاب میں کی ہے۔ نظریہ یہ تھا کہ ہم بحیثیت قوم اقلیتوں کے ساتھ مساوی سلوک کے قول کو یاد رکھیں اور دستور میں دئیے گئے حقوق کو یقینی بنائیں۔ جن میں نہ صرف بلا تخصیص ملازمت حاصل کرنے کے حقوق مساوی، قانونی حقوق، قانونی تحفظ کے حقوق شامل ہیں۔ بلکہ اپنے مذہب کے پرچار اور عمل کرنے کے حقوق اور مذہبی اداروں کے تحفظ کے حقوق بھی شامل ہیں۔ یہ بات کمیٹی ازراہ کرم اپنے ذہن میں رکھے گی۔ یہ ان کے حقوق ہیں۔ خواہ آپ انہیں الگ جماعت قرار دیں یا نہ دیں۔ یہ ان کے حقوق ہیں اور آئین ان حقوق کا تحفظ مہیا کرتا ہے اور آئین کے تحفظ اور سربلندی کا حلف معزز اراکین نے لے رکھا ہے۔
جناب والا! اگر اس قسم کا فیصلہ ہوا تو کئی الجھنیں پیدا ہوں گی۔ یہ بات میں قادیانیوں کے نقطۂ نظر سے کر رہا ہوں۔ وہ کیا کہتا ہے خطوط جو آپ کو ملے ہیں۔ خطوط جو مجھے ملے ہیں۔ ان کو ذہن میں رکھئے۔ وہ کہتا ہے خبردار! آپ مجھے غیرمسلم کہہ دیں گے۔ لیکن بیرونی دنیا میں مجھے مسلمان ہی سمجھا جائے گا۔
زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلماں ہوں میں
وہ کہتا ہے اس گنجلک پر غور کریں۔ میں نمازیں پڑھوں گا۔ روزے رکھوں گا۔ میں اسلام کے تمام شعائر پر عمل کروں گا۔ پھر بھی آپ مجھے کافر کہیں گے اور کافر یہ سمجھیں گے کہ میں مسلمان ہوں اور اس سے مشکلات اور الجھنیں پیدا ہوں گی۔ یہ سب کچھ وہ ہے جو وہ (قادیانی) کہتے ہیں اور ان کا نقطۂ نظر پیش کرنا میرا فرض ہے۔
آخر میں جناب والا! میں اپنی طرف سے تشکر کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ سب سے پہلے آپ (چیئرمین صاحب) کا اور پھر تمام اراکین کا، جنہوں نے میرا نقطۂ نظر سمجھنے میں میری امداد فرمائی۔ مجھے بالخصوص تو کسی کا ذکر نہیں کرنا چاہئے۔ تاہم پھر بھی میں مولانا ظفر احمد انصاری صاحب کا تہہ دل سے مشکور ہوں جنہوں نے میری بہت امداد فرمائی اور جناب عزیز احمد بھٹی صاحب کا بھی۔ دونوں احباب نے میری بہت اعانت فرمائی۔ درحقیقت میں ہر رکن کا ہی شکرگزار ہوں۔ سب ہی میری معروضات سمجھنے میں میری امداد فرمائی۔ مجھے امید ہے کہ جو گزارشات میں نے پیش کی ہیں وہ کسی قدر کارآمد ہوں گی۔ آپ کا بہت بہت شکریہ!)
(جناب چیئرمین: جناب اٹارنی جنرل ! میں اپنی طرف سے اور ایوان کمیٹی کے اراکین کی طرف سے آپ کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یہ بات ریکارڈ پر رہے کہ آپ نے کس قدر محنت اور کاوش ان مہینوں میں کی ہے جو کہ نہ صرف کمیٹی کے لئے بلکہ پورے ملک کی خاطر تھی۔ ہم سب اس کے لئے شکر گزار ہیں۔ آپ کا بہت بہت شکریہ! اب میں معززین اراکین سے گذارش کرتا ہوں۔ اگر ان میں سے کوئی صاحب پوچھنا چاہیں)
مولانا عبدالحق صاحب! آپ تو تقریر کر چکے ہیں۔
مولانا عبدالحق: اٹارنی جنرل صاحب نے جس فہم وفراست سے اس مسئلے کی توضیح فرمائی ہے، اس کا اجر عظیم اﷲ ان کو عطاء فرمائے۔ اس دینی خدمت کے لئے غیبی نصرت 3049تھی کہ اﷲ تبارک وتعالیٰ نے ہماری ترجمانی یعنی کمیٹی کی ترجمانی کے لئے انہی کو منتخب فرمایا اور انہوں نے اپنے فریضے کو بہت ہی احسن طریقے سے انجام دیا ہے۔
Mr. Chairman: He has been true to his duties.
میں نے سب ممبران کی طرف سے شکریہ ادا کر دیا ہے۔ مولانا ظفر احمد انصاری صاحب!
(مولانا ظفر احمد انصاری کا قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پرخطاب)
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: جناب والا! مجھے اس کا احساس ہے کہ میں پہلے خاصا وقت لے چکا ہوں اور اب دیر بھی ہوگئی ہے۔ ابھی میرے پاس بہت سی چیزیں تھیں جو جلد سے جلد میں کہنا چاہتا تھا۔ لیکن اٹارنی جنرل صاحب نے بہت سی چیزوں کی وضاحت کر دی ہے، اس لئے میں بہت مختصر اس پر آؤں گا۔
مرزائیوں کے دونوں گروپوں کے نمائندوں نے، جو آئے تھے، بہت سے مغالطے پیدا کئے۔ بعض کو میں نے اس روز رفع کرنے کی کوشش کی ہے۔ چند ایک اور ہیں جن کے متعلق میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ جہاد کے متعلق انہوں نے بہت سے اقتباسات مختلف علماء کے پیش کئے۔ لیکن اس میں بنیادی فرق، جو میں نے اس روز بتایا اور نام لے لے کر بتایا، وہ یہ ہے کہ کئی علماء نے جہاد کا فتویٰ دیا اور جہاد کیا۔ دوسرے فاضل مقررین نے بھی بتایا۔ یقینا ایسے علماء بھی تھے جن کا یہ مؤقف تھا کہ اس وقت جہاد کی شرائط نہیں ہیں، حالات سازگار نہیں ہیں، کامیابی کے امکانات نہیں ہیں۔ یہ تو وہ چیز ہے جو ہمیشہ زیرغور آتی ہے۔ لیکن کسی کو یہ جرأت نہیں ہوسکی اور کبھی کسی مسلمان کو بھی جرأت نہیں ہوسکتی کہ وہ یہ کہے کہ جہاد ہمیشہ کے لئے منسوخ ہوگیا ہے۔ ایک فتویٰ بھی ایسا نہیں دکھایا جاسکتا جس میں یہ کہا گیا ہو کہ جہاد حرام اور قطعاً حرام ہے اور جہاد کا حکم موقوف قرار دیا گیا ہے۔ آج سے انسانی جہاد جو تلوار سے کیا جاتا تھا، خدا کے حکم سے بند کیاگیا۔ دین کے لئے آج سے زمینی جہاد کا خاتمہ ہوگیا۔ یہ اس طرح کی چیزیں، جب کہ قرآن اور حدیث 3050میں واضح احکام موجود ہیں اور بہت معروف حدیث ہے کہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا۔ یہ مغالطہ کہ کسی خاص وقت میں جہاد کے لئے شرائط پائی جاتی ہیں، حالات سازگار ہیں یا نہیں ہیں، یہ بالکل ایک چیز ہے اور یہ کہنا کہ جہاد منسوخ ہوگیا ہے، قطعاً بند ہوگیا ہے، یہ وہ چیز ہے جو اسلام کے بنیادی احکام کی نفی پر دلالت کرتی ہے۔
علماء کے فتوے کے سلسلے میں مشترکہ بیان میں کچھ وضاحت آگئی ہے۔ لیکن ایک بنیادی فرق کی طرف میں آپ کے توسط سے ایوان کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ علمائے کرام جو فتوے دیتے ہیں، وہ اپنے علم کی بنیاد پر دیتے ہیں، دلائل شرعی کی بنیاد پر دیتے ہیں، اور اکثر فتوے جو ممتاز مفتی صاحبان دیتے ہیں، اس میں دلیل رکھ دیتے ہیں کہ قرآن کی فلاں آیت یا فلاں حدیث یا فلاں امام کا حکم ہے۔ اسی طرح سے وہ دیتے ہیں۔ یعنی وہ ان کے علم پر مبنی ہوتا ہے، جس قدر کسی کا علم ہو۔ اس میں کوئی الہامی کیفیت نہیں ہوتی۔ یعنی اس میں یہ دعویٰ نہیں ہوتا کہ یہ خدا کی طرف سے ہے جس میں غلطی کا امکان نہیں ہے۔ بہت سی مثالیں ایسی ہوتی ہیں کہ ایک عالم فتویٰ دیتا ہے۔ کچھ دن کے بعد اسے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس میں کوئی بات رہ گئی تھی یا کسی حدیث پر اس کی نظر نہیں پڑی تھی، تو وہ خود اس فتوے کو واپس لیتا ہے۔ اس دور کے ایک بہت معروف عالم مولانا اشرف علی تھانویؒ کی کوئی پونے دو سو صفحے کی کتاب ہے۔ پوری کتاب جس میں انہوں نے ان تمام فتوؤں کو جمع کیا ہے۔ جس میں انہوں نے ترمیم کی یا جن کو واپس لیا ہے۔ یہ کوئی اس طرح کا دعویٰ نہیں ہوتا۔ کہ یہ کوئی خطاؤں سے پاک ہے۔ پھر ایک مفتی نے فتویٰ دیا، اسی ملک کے دوسرے لوگ اس سے اختلاف بھی کر سکتے ہیں۔ اس لئے علماء کا فتویٰ اور مرزاصاحب یا ان کے صاحبزادے نے جو فتویٰ دیا ہے یا اب جو دے رہے ہیں، ان دونوں میں بہت اختلاف ہے۔
3051عالم اسلام کے سلسلے میں بہت سی چیزیں جناب اٹارنی جنرل صاحب نے فرمادی ہیں، اس لئے ان پر مجھے مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ بہرحال ایک دو چیزیںہیں جن کی طرف میں خاص طور پر آپ کی توجہ دلاؤں گا۔ پہلے وہ اقتباس آچکا ہے کہ ترکوں سے مذہباً ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ پورے مسلمانان ہند نے ترکوں کی حمایت میں جس وقت ان پر حملہ ہوا۔ جنگ ہورہی تھی، ان کو مٹایا جارہا تھا تو شاید کم سے کم میری عمر کے لوگوں کی یاد میں اتنا زیادہ جوش وخروش مسلمانوں میں کبھی پیدا نہیں ہوا جتنا خلافت کی تحریک میں پیدا ہوا۔ اس کے بعد فلسطین کا قصہ ہے، اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مسلم لیگ کا کوئی اجلاس ایسا نہیں ہوتا تھا، ہم بڑی دشواریوں سے گزر رہے تھے، لیکن کوئی اجلاس ایسا نہ ہوتا تھا کونسل کا، کہ جہاں فلسطین کے لئے ہم نے ریزولیوشن پاس نہ کئے ہوں اور اس وقت سے لے کر اب تک یعنی حکومت بن جانے کے بعد بھی، اس سے پہلے بھی، فلسطین کے مسئلے میں ہم سو فیصدی پوری طرح عربوں کے حامی رہے ہیں اور آج بھی ہیں۔ لیکن ان کا قول میں آپ کو سناتا ہوں جس میں انہوں نے یہ لکھا ہے، انہوں نے کہا ہے کہ ’’عرب فلسطین کے حکمران ہونے کے مستحق نہیں ہیں۔‘‘ یعنی ہمیشہ کے لئے ان کا استحقاق ہی ختم کر دیا ہے اور دلیل یہ دی ہے کہ چونکہ وہاں کے مسلمان ایک نئے نبی کے منکر ہیں تو جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نبی ہونے کے بعد یہودیوں سے وہ جگہ چھین لی گئی تو اب جو ایک نیا نبی آیا ہے اس کے چونکہ منکر ہیں اس لئے یہ اس کی تولیت کے، اس کے مالک ہونے کے، اس کے حکمران ہونے کے مستحق ہی نہیں ہیں۔ ہم جس دور سے گزر رہے ہیں ویسے بھی اور اب اس اسلامی کانفرنس کے انعقاد کے بعد بہرحال ہمیں اپنی قومی اور اجتماعی زندگی میں ان تمام چیزوں کا لحاظ رکھنا پڑے گا کہ دنیا کے کون سے ممالک نہ صرف مذہبی حیثیت سے بلکہ اور حیثیتوں سے ہمارے ساتھ ہیں تو اس سلسلے میں بھی ان کا مؤقف ہم سے کس قدر مختلف ہے وہ میں نے واضح کیا ہے۔
3052اب انہوں نے باربار یہ مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے اور بہت عرصے سے یہ کہہ رہے ہیں کہ صاحب! ہم کلمہ گو ہیں، ہمیں کافر کیسے کہاجاتا ہے اور پھر یہ جو ہے کہ عربی، کہ جو کوئی تمہیں سلام کرے اسے کافر نہ کہو، اسے مؤمن سمجھو۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ اس معیار کا سبق وہ ہمیں دے رہے ہیں یا خود بھی اس پر عمل پیرا ہیں؟ کیا ۷۵ کروڑ مسلمان دنیا کے لا الہ الا اﷲمحمد رسول اﷲ کے قائل نہیں ہیں؟ کیا ان کے ہاں اسلام رائج نہیں ہے؟ ظاہر ہے کہ وہ ان چیزوں کے معنے یہ نہیں لیتے۔ خود کو مسلمان کیوں توقع کرتے ہیں؟ جب وہ کسی کو احمدی بناتے ہیں تو کیا وہ صرف کلمہ پڑھا کر بناتے ہیں؟ وقت نہیں ہے ورنہ میں وہ سناتا۔ بہرحال وہ بیعت سب نے دیکھی ہوگی۔ جس میں ایک بیعت یہ ہے کہ ہم مرزاغلام احمد کے تمام دعوؤں کو صحیح جانتے ہیں اور خلیفہ وقت کی معروف میں پوری طرح اطاعت کریں گے۔ اس کے بغیر احمدی نہیں ہو سکتے اور جب احمدی نہ ہوا تو وہ مسلمان نہ ہوا۔ تو ان کے نزدیک تو مسلمان ہونے کا معیار یہ ہے، اور ہم سے وہ یہ کہتے ہیں کہ بس جو کوئی تم سے راہ چلتے سلام کر لے اس کو مسلمان سمجھو، تو معیار تو ایک ہی ہونا چاہئے اور مسلمانوں سے بیزاری کا عالم یہ ہے کہ یہ بھی فتویٰ ہے کہ غیراحمدیوں کا کفر بیّنات سے ثابت ہے اور کفار کے لئے دعائے مغفرت جائز نہیں۔ کوئی مسلمان مرجائے تو اس کے لئے دعائے مغفرت کی ممانعت ہے۔ اس لئے ہم سب کا کفر جو ہے یہ بیّنات سے ثابت ہے ان کے نزدیک۔
اب اس روز میں نے کچھ عرض کیا تھا کہ جیسا کہ انہوں نے کہا کہ ہماری ہر چیز علیحدہ، ہمارا خدا الگ،ہمارا رسول الگ اور سب چیزیں۔ کچھ چیزوںکی تفصیل اور دوستوں نے بیان کی تھی۔ بہرحال خدا کا جو تصور ان کا ہے ہمارا وہ تصور نہیں ہوسکتا۔ کبھی ہم خدا کے لئے یہ تصور نہیں کر سکتے کہ کوئی مسل لے جائے گا آدمی، اور اس کے اوپر وہ دستخط کرے گا، روشنائی چھڑکے گا اور اس کو چارپائی پر بٹھائے گا اور بیٹا کہے گا اور اس 3053کے بعد نہایت ہی بیہودہ قسم کے تصورات بھی ہیں کہ اﷲتعالیٰ مرد بن گیا اور کیا قصہ ہے ان کے صاحبزادے مرزابشیرالدین محمود احمد نے بتایا کہ وہ عورت بن گئے اور وہ بہت خوبصورت عورت تھی اور پھر یہ کہ اب جنت میں تم میرے ساتھ رہو۔ تو بہرحال اس طرح کے بیہودہ تصور ہمارے ہاں نہیں ہیں۔
رسول کا تصور بھی ہمارا مختلف ہے۔ قرآن کے متعلق میں بتا چکا ہوں کہ ان کے ہاں! ان کے نزدیک حضرت مسیح موعود اپنے الہامات کو کلام الٰہی قرار دیتے ہیں اور ان کا مرتبہ بلحاظ کلام الٰہی ہونے کے ایسا ہے کہ جیسا کہ قرآن مجید، تورات اور انجیل کا ہے، اور بہرحال حدیث پر مقدم ہے۔ رسول اکرم ﷺ کے اقوال پر مرزاغلام احمد کا الہام جو ہے وہ مقدم ہے۔ یہ اقتباس آچکا تھا، پہلے یہ۔
(منکرین خلافت کا انجام، ص۱۹)
(قادیانی ہرامر میں مسلمانوں سے علیحدہ تصور رکھتے ہیں)
اب آپ دیکھئے کہ ہماری دینی اصطلاح میں خدا، رسول، قرآن، حدیث، وحی اور الہام کی بھی یہ ہے کہ وحی ہمارے نزدیک منقطع ہوچکی ہے اور تمام دینی لغتوں میں اس کی تعریف جو انگریزی لغتوں میں بھی، انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجنز میں بھی، اور وہ بھی یہ ہے کہ وحی وہ چیز ہے جو رسولوں پر، انبیاء پر جو کلام نازل ہوتا ہے۔ وحی اور الہام کا تصور ہمارے نزدیک مختلف ہے، اور عظمت انبیاء کا تصور بھی ہمارے نزدیک مختلف ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر کسی نبی کا تعین کیا جائے تو انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ عظمت اہل بیت میں بھی یہی ہے اور ان کی جو رائے ہے وہ اقتباسات میں آچکا ہے۔ حج کے متعلق بھی دیکھا جائے کہ اب قادیان کو اﷲتعالیٰ نے اس کام کے لئے منتخب کیا ہے۔ جہاد کے بارے میں عرض کر چکا ہوں۔ درود کے متعلق میں نے بتایا تھا اور اس روز فوٹو اسٹیٹ بھی دیا تھا۔ اس کو انہوں نے قبول نہیں کیا۔ لیکن ایک دوسرا درود انہیں میں نے بتایا تھا ان کی کتابوں میں، جس کا فوٹو اسٹیٹ اب بھی موجود ہے اور چھپا ہوا کتاب میں بھی ہے۔ (عربی)
یہ درود ہے ان کا۔ صحابہ کے متعلق بھی ان کا تصور اور ہے 3054اور ہمارا تصور اور ہے، بلکہ بالکل مختلف ہے۔ آئمہ کے متعلق جو تصور ہے وہ بالکل مختلف ہے۔ امہات المؤمنین کے متعلق بھی جو تصور ہے وہ بالکل مختلف ہے۔ مسجد اقصیٰ کا تصور مختلف ہے۔ اصحاب صفہ کا تصور مختلف ہے۔ مکہ اور بیت اﷲ کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ وہ چوبارہ جہاں بیٹھ کر وہ (مرزاقادیانی) ذکر کیا کرتے تھے۔ اس کے لئے اﷲ نے کہا ’’من دخلہ کان آمنا‘‘ کہ جو اس میں داخل ہوا وہ امن پاگیا۔ حالانکہ یہ آیت جو ہے وہ حرم شریف کے متعلق ہے۔ قادیان کے لئے انہوں نے لکھا ہے کہ ہم تو قادیان کو مکہ اور مدینہ دونوں سمجھتے ہیں۔ مگر لاہوری قادیان کو مکہ سمجھتے ہیں اور لاہور کو مدینہ سمجھتے ہیں۔ یہ گویا فرق ہے دونوں میں۔ یہ ہمارے ہاں طریقہ رائج ہے کہ اگر کوئی غیرمسلم وفات پاجاتا ہے تو اسے مرحوم نہیں کہتے۔ ہم اس کو آنجہانی لکھتے ہیں۔ سرسید مرحوم کو جہاں ذکر کیا ہے انہوں نے ہر جگہ آنجہانی لکھا ہے، جیسے ہم ہندوؤں کے متعلق لکھتے ہیں یا عیسائیوں کے متعلق لکھتے ہیں۔ پرسوں میں نے یہ اقتباس بھی پیش کیا تھا کہ مسلک اور مکتبہ فکر کا اختلاف تو مسلمانوں میں ہوتا ہے۔ لیکن دین کے متعلق کسی نے نہیں کہا کہ ہمارا دین مختلف ہے۔ اس روز میں نے اقتباس سنایا تھا کہ انہوں نے کہا کہ جس دین کو مرزاصاحب لے کر آئے ہیں، انہوں نے کہا کہ اﷲ اس کا غلبہ کرے گا۔ امت کے متعلق اقتباس آچکا ہے، تو وہ ایک الگ امت ہیں۔
اب میں بہت مختصر آپ کو ایک ایسے الفاظ سناتا ہوں، مسلمانوں کے عقیدے کے اعتبار سے اور جذباتی اعتبار سے، رسول کریم ﷺ سے جو تعلق ہے، اتنے عرصے تک ان کی ہر طرح کی اہانت آمیز باتیں برداشت کی ہیں۔ پوری مسلمان قوم کے لئے، صلحاء کے لئے، انبیاء کے لئے، خود رسول ﷺ کے متعلق اور ہمارے ہاں نعمتیں رائج ہیں۔ جس سے انسان کے اندر ایک جذبہ ابھرتا ہے اور اس کی ایک تسکین ہوتی ہے۔ رسول اﷲ ﷺ کی عظمت میں نعت اور صلوٰۃ وسلام انہوں نے 3055اپنے لئے الگ بنایا ہے۔ میں اس کے چند شعر سناتا ہوں۔ صلوٰۃ وسلام جگہ جگہ ہوتے ہیں۔ اب ان کے ہاں جو ہوتا ہے صلوٰۃ وسلام وہ یہ ہے:
’’اے امام الوریٰ سلام علیک
مہ بدر الدجی سلام علیک
مہدی و عیسیٰ موعود احمد مجتبیٰ سلام علیک
مطلع قادیان پہ تو چکا ہو کے شمس الہدیٰ سلام علیک
تیرے آنے سے سب نبی آئے مظہر الانبیاء سلام علیک
سکت وحی محبت جبریل سدرۃ المنتہیٰ سلام علیک
مانتے ہیں تیری رسالت کو اے رسول خدا سلام علیک‘‘
یہ الفضل میں یکم؍جولائی ۱۹۲۰ء کی اشاعت میں شائع ہوا ہے۔ اس سے زیادہ ایک اور دل آزار نظم ہے اور ہر جگہ گویا توازن قائم ہے ایک رسول ﷺ کے مقابلے میں، ہم رسول مدنی ﷺ کہتے ہیں اور اس پر ہماری بے شمار فارسی میں، اردو میں نعتیں ہیں۔ اب رسول مدنی ﷺ کے وزن پر انہوں نے قدنی بنایا ہے، وہ بھی اشعار ہیں:
(رسول قدنی)
’’اے میرے پیارے ارے میری جان رسول قدنی
تیرے صدقے تیرے قربان رسول قدنی
انت منی و انا منک خدا فرمائے
میں بتاؤں تیری کیا شان رسول قدنی
عرش اعظم پہ حمد تیری خدا کرتا ہے
ہم ناچیز ہیں کیا شان رسول قدنی
دستخط قادر مطلق تیری مسلوں پہ کرے
اﷲ اﷲ تیری شان رسول قدنی
3056پہلی بعثت میں تو محمد ہے اب احمد ہے
اس پر یہ اترا ہے قرآن رسول قدنی‘‘
اب آگے ملاحظہ ہو:
’’سرمۂ چشم تیری خاک قدم بنوا لے
روز عاصم شہہ جیلانی رسول قدنی‘‘
اب یہ اشتعال انگیزی اور ایذا رسانی کی انتہاء ہوگئی۔ لیکن اتنا زمانہ مسلمانوں کو برداشت کرنا پڑا۔ یہ غلط تصور رواداری کا تھا، اور رواداری تو اسے نہیں کہہ سکتے۔ بے حمیتی کہہ سکتے ہیں یا جہالت کہہ سکتے ہیں۔ بہرحال ہم سب اس میں گرفتار رہے۔ اﷲتعالیٰ ہمیں اس سے نجات دے۔
اب اس کے لئے ہم جو حل پیش کرنا چاہتے ہیں جو پورے ایوان کا میلان معلوم ہوتا ہے، وہ حل کیا ہے؟ ہم اس مسئلہ کا وہ حل نہیں پیش کرنا چاہتے جو مذہبی اختلاف کی بناء پر جس طرح عیسائیوں نے یہودیوں کے مسئلے کو حل کیا۔ جس طرح فرانس میں، انگلستان میں، پرتگال میں،اسپین میں، اٹلی میں، جرمنی میں اور روس میں اس مذہبی اختلاف کی بناء پر جو کچھ کیاگیا ہم وہ حل نہیں پیش کرتے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ انکے سامنے یہ دو چیزیں ہیں، یا تو اپنے مذہب سے تائب ہو یا تم جلاوطن کئے جاؤ گے یا قتل کئے جاؤ گے۔ ہم یہ نہیں کہتے۔ حالانکہ ہماری دل آزاری انہوں نے اس سے زیادہ کی ہے۔ ہم وہ اس وقت نہیں کہتے۔ ہم اس قسم کا بھی کوئی حل پیش نہیں کرنا چاہتے جو دوسری نظریاتی مملکتیں کرتی ہیں۔ عذاب دینا، ایذا دینا، اس سے بھی نیچے اتر کر نسلی بنیادوں پر جہاں امتیازات ہیں، وہاں کے دستور میں جو چیزیں ہیں ہم وہ بھی نہیں کہتے۔ آسٹریلیا کے دستور میں مثلاً یہ چیز ہے کہ انتخابات کے موقع پر:
"Aborginial natives shall not be counted. No- election law shall disqualify any person other than a native."
3057یا جنوبی افریقہ کی حکومت تھی اور جناب! امریکہ کے دستور میں ہے کہ:
"Excluding Indians, not taxed."
یعنی سب کو حق ہے، ان کو حق نہیں ہے۔ ہمارے سامنے اس طرح کا کوئی حل نہیں ہے۔ ہم جو حل پیش کرنا چاہتے ہیں اس کی حیثیت یہ ہے کہ ہم ان کی اس درخواست کو جو انہوں نے ۲۸سال پہلے انگریزوں کے سامنے پیش کی تھی، جو ۱۳؍نومبر ۱۹۴۶ء کو شائع ہوئی ہے، ہم ان کی اس درخواست کو منظور کرتے ہیں۔ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں بھی عیسائیوں اور پارسیوں کی طرح حقوق دئیے جائیں۔ ہم ان کے لئے وہی کرنا چاہتے ہیں، عین ان کی منشاء کے مطابق کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ان کے دل میں فساد نہیں ہے تو انہیں خوش ہونا چاہئے کہ ان کی درخواست ۲۸سال پہلے ان کے آقا منظور نہیں کر سکے تھے۔ آج ہم اس درخواست کو منظور کرتے ہیں تو اگر فساد کی نیت نہ ہو تو انہیں یہ سمجھنا چاہئے اور ہمارے اور ان کے درمیان صورت اب یہ ہوگئی ہے کہ:
ہم بھی خوش نہیں وفا کر کے
تم نے اچھا کیا نبھا نہ کی
ایک زمانہ گزرا ہر طرح کی چیزوں کو ہم برداشت کرتے رہے۔ لیکن انہوں نے اپنی پالیسی کے مطابق ربوہ میں جو واقعہ کیا اس کے بعد ظاہر ہے کہ پوری قوم مشتعل ہوئی۔ انہوں نے یہ سمجھ کر نہیں کیا، اتنے نادان نہیں ہیں کہ وہ سمجھتے ہوں کہ اتنے بڑے واقعہ کے بعد قوم سوتی رہے گی۔ ان کا منشاء یہ تھا کہ اس طاقت کا مظاہرہ کر کے دیکھیں کہ کتنا ہمارا رعب پڑتا ہے۔ یہ ان کی تحریروں میں موجود ہے کہ فلاں وقت تک تم اتنی طاقت فراہم کر لو کہ دشمن تمہارے رعب سے مرعوب ہو جائے۔ بہرحال یہ اس انگریز نے بھی منظور نہیں کیا تھا جس کے یہ خود کاشتہ پودے تھے اور جس کے متعلق ایک جملہ ان کا سناتا ہوں، اس وقت نہیں آیا تھا کہ ’’غرض یہ ایک ایسی جماعت ہے جو سرکار انگریزی کی نمک پروردہ اور نیک نامی حاصل کر دہ ہے۔‘‘ تو انہوں نے بھی اس درخواست کو نہیں مانا تھا۔ ہم 3058ازراہ فیاضی اور ازراہ فراخ دلی اس درخواست کو مانتے ہیں، اور ان کی جان ومال کی حفاظت کا وعدہ کرتے ہیں، اس شرط کے ساتھ کہ اگر پاکستان کے ساتھ غداری اور اس کے ساتھ بے وفائی کا مظاہرہ نہ کیا گیا۔ یہ سب کچھ ہے اور اس سارے اعلان کے بعد بہرحال ان کی نگرانی کرنی پڑے گی، دیکھنا پڑے گا کہ ان کی نقل وحرکت کیا ہے، ان کے جو عزائم ہیں اس کے متعلق یہ کیاکرتے ہیں۔
عالم اسلام کے سلسلے میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے دوسری جگہوں پر کہ جہاں انہوں نے مراکز قائم کئے ہیں، بہت سے لوگوں کو مسلمان بنایا ہے، تو وہاں اس کے برے اثرات ہوں گے۔ ایک جگہ کا میں صرف آپ سے مثال کے طور پر ذکر کرتا ہوں کہ نائیجیریا میں ابھی وسط اپریل میں ایک کانفرنس ہوئی اور اس میں تمام مسلم مکاتب فکر اور مسلم تنظیموں کے لوگ بلائے گئے۔ ان کو دعوت نہیں دی گئی تھی۔ اسی بناء پر نہیں دی گئی تھی کہ یہ مسلمان نہیں سمجھے جاتے۔ بہرحال جو لوگ ان کے دام فریب میں آچکے تھے جب ان کو یہ پتہ چلا انہوں نے کہا کہ ہمیں کیوں نہیں بلاتے؟ انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو مسلمان نہیں سمجھتے۔ کیونکہ آپ ایک دوسرے نبی کی امت ہیں، تو انہوں نے کہا کہ ہم کو غلط فہمی رہی۔ بہت بڑی تعداد وہاںسے تائب ہوگئی اور تائب ہونے کے بعد اس قدر بے زاری لوگوں میں پیدا ہوئی کہ انہوں نے اپنا مشن بند کیا۔ لیکن اب ایک دوسرے نام سے ’’تحریک انوار اسلام‘‘ سے وہاں کام کر رہے ہیں۔
شام میں ۱۹۵۷ء میں وہاں کے مفتی اور ایک بہت عظیم شخصیت کے خاندان سے ابوالدین عابدین کے فتویٰ پر ۱۹۵۷ء میں وہاں کی انٹیریر گورنمنٹ نے ان کے خلاف تحقیقات کیں اور وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ جاسوسی کرتے ہیں،ا سلام کی بیخ کنی کرتے ہیں۔ چنانچہ وہاں ان کو بین (Ban) کیا گیا ۔ ان کے آفس اور پراپرٹی کو سیل کیا گیا۔ اسی طرح مصر میں جب معلوم ہوا کہ یہ اسرائیل کے لئے جاسوسی کرتے ہیں، ان کا داخلہ ممنوع ہوا۔ سعودی عرب کا آپ لوگ جانتے ہیں۔
3059تو ایک درخواست آپ لوگوں نے ان کی منظور کر لی اور شاید کل اس پر پوری منظوری آجائے۔ ایک دوسری چیز یہ ہے کہ انہوں نے، مرزاغلام احمد نے ۱۹۰۱ء میں حکومت سے درخواست کی تھی کہ ہمارے ماننے والوں کو مردم شماری میں الگ لکھا جائے۔ وہ درخواست بہرحال انگریزوں نے منظور کر لی۔ لیکن ۱۹۳۱ء تک اس پر عمل درآمد ہوا، ۱۹۴۱ء میں نہیں ہوا۔ ایک میری گزارش ہے کہ اس درخواست پر ہم دوبارہ عملدرآمد شروع کریں اور ان کی مردم شماری الگ سے ہو۔
ایک مغالطہ انہوں نے… یعنی اتنی صریح بہت سی غلط بیانیاں کی ہیں۔ لیکن بالکل واضح طور پر اٹارنی جنرل صاحب کے سوال کے جواب میں انہوں نے یہ کہا کہ ہم سیاسی جماعت نہیں ہیں۔ اب میں اس سلسلے میں صرف چند اقتباسات آپ کو سنادیتا ہوں۔ (مداخلت)
جناب چیئرمین: میں نے آپ سے وعدہ کیا ہے کہ میں کسی معزز ممبر کو بند نہیں کروں گا، بالکل، جتنی مرضی ہے تقریر کریں جی، اب کوئی خیال نہیں ختم نبوت کا۔ نوبجتے ہیں تو گھڑیاں دیکھنی شروع ہو جاتی ہیں۔ نہیں جی! بالکل آج ساری رات بیٹھیں گے۔ اب دین کے ساتھ محبت کہاں گئی ہے؟ مولانا صاحب! آپ تقریر کریں۔ ٹھیک ہے جی! بیٹھیں گے۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: میں مختصراً اس چیز کو ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ یہ سیاسی جماعت نہیں ہیں، یہ انہوں نے غلط بیانی سے کام لیا۔ یہ خالص سیاسی جماعت ہیں، اور ایسی سیاسی جماعت جو تشدد کے ذریعے، خون خرابے کے ذریعے حکومت پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ اس سلسلہ میں میں چاہتا ہوں کہ چند اقتباسات پیش کروں۔ کہتے ہیں: 3060’’پس جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم میں سیاست نہیں وہ نادان ہیں، وہ سیاست کو سمجھتے ہی نہیں۔ جو شخص یہ نہیں مانتا کہ خلیفہ کی بھی سیاست ہوتی ہے وہ خلیفہ کی بیعت ہی کیا کرتا ہے۔ اس کی کوئی بیعت نہیں اور اصل بات تو یہ ہے کہ ہماری سیاست گورنمنٹ کی سیاست سے بھی زیادہ ہے۔ پس اس سیاست کے مسئلے کو اگر میں نے باربار بیان نہیں کیا تو اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ میں نے اس سے جان بوجھ کر اجتناب کیا ہے۔ آپ لوگوں کو یہ بات خوب سمجھ لینی چاہئے کہ خلافت کے ساتھ سیاست بھی ہے اور جو شخص یہ نہیں مانتا وہ جھوٹی بیعت کرتا ہے۔‘‘
(الفضل، ۱۳؍اگست ۱۹۲۶ئ)
پھر لکھتے ہیں، دوسرا قول ہے: ’’غرض سیاست میں کوئی غیردینی فعل نہیں۔ بلکہ یہ دینی مقاصد میں شامل ہے۔ اب پھر سیاسی بات آتی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک احمدی یہ یقین رکھتا ہے کہ تھوڑے عرصے کے اندر ہی خواہ ہم اس وقت تک زندہ رہیں یا نہ رہیں۔ لیکن بہرحال وہ عرصہ غیرمعمولی طور پر لمبا نہیں ہوسکتا، ہمیں تمام دنیا پر نہ صرف عملی برتری حاصل ہوگی بلکہ سیاسی اور مذہبی برتری بھی حاصل ہو جائے گی۔ جب ہمارے سامنے بعض حکام آتے ہیں تو ہم اس یقین اور وثوق کے ساتھ ان سے ملاقات کرتے ہیں کہ کل یہ نہایت عجزوانکسار کے ساتھ ہم سے استمداد کر رہے ہوں گے۔‘‘
(الفضل مورخہ ۲؍اکتوبر ۱۹۳۹ئ)
اس کے بعد ہے کہ: ’’میرا خیال ہے کہ ہم حکومت سے صحیح تعاون کر کے جس قدر جلد حکومت پر قابض ہو سکتے ہیں عدم تعاون سے نہیں۔‘‘ یہ ۱۹۳۵ء کا ہے، جب انگریزوں سے تعاون کی بات چل رہی تھی۔
3061جناب چیئرمین: چوہدری ممتاز صاحب، میاں مسعود احمد صاحب اور محمد اسلم صاحب واپس تشریف لے آئیں۔ شہزادہ صاحب! آپ بھی تشریف لے آئیں۔ یہ کوئی بات نہیں ہے کہ کتابیں ہاتھ میں اٹھائیں اور دروازوں کی طرف چل دئیے۔ آپ فرمائیں جی! شہزادہ صاحب آپ بھی تشریف رکھیں۔ دروازے بند کر دیں، باہر سے لاک کر دیں۔ چلیں جی، انصاری صاحب! فرمائیں۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: یہ کہتا ہے کہ…
ملک محمد اختر: سر! میں جاسکتا ہوں؟
جناب چیئرمین: ہاں! آپ جائیں وجہ معقول ہے، بڑی معقول وجہ ہے۔ دروازے بند کر دیں۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: ’’پس نہیں معلوم ہمیں کب خدا کی طرف سے دنیا کا (چارج) سپرد کیا جانا ہے۔ ہمیں اپنی طرف سے تیار رہنا چاہئے۔‘‘
جناب چیئرمین: بیگم شیریں وہاب صاحبہ جاسکتی ہیں۔ صرف بیگم شیریں وہاب صاحبہ۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: ’’ہمیں اپنی طرف سے تیار رہنا چاہئے‘‘ کہ دنیا کو سنبھال سکیں۔
میاں محمد عطاء اﷲ: پوائنٹ آف آرڈر، سر! عورتوں کے ایک جیسے حقوق ہیں، پھر عورتیں بھی نہیں جاسکتیں۔
جناب چیئرمین: نہیں، نہیں، آپ تقریر کرنے دیں ان کو۔ There is reason for that.
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: یہ مارچ ۱۹۲۲ء کا ہے۔ تفصیل اس وقت نہیں رہی۔ اس کے بعد ۱۹۳۵ء کا ہے: 3062’’اس وقت اسلام کی ترقی خداتعالیٰ نے میرے ساتھ وابستہ کر دی ہے۔ یاد رکھو سیاسیات، اقتصادیات اور تمدنی امور حکومت کے ساتھ وابستہ ہیں اور جب تک ہم اپنے نظام کو مضبوط نہ کریں اور تبلیغ وتعلیم کے ذریعے حکومتوں پر قبضہ کرنے کی کوشش نہ کریں ہم اسلام کی ساری تعلیم جاری نہیں کر سکتے۔‘‘
یعنی حکومت پر قبضہ کرنے کی کوشش سیاست سے علیحدگی کے باوجود۔ اب آگے لکھتے ہیں کہ: ’’ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر ایک نئی تبدیلی پیداکرے۔ ایک ایسی تبدیلی جو ایک قلیل ترین عرصے میں اسے دوسری قوتوں پر غالب کر دے۔‘‘
یہ ۱۹۴۹ء کا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد اب یہاں کون سی قوتیں ہیں جن پر وہ غلبہ چاہتے ہیں، یہ ایوان کے معزز ممبران خود اندازہ کر سکتے ہیں۔ پھر آگے ہدایت ہے کہ: ’’پاکستان میں اگر ایک لاکھ احمدی سمجھ لیے جائیں تو نو ہزار (۹۰۰۰) احمدیوں کو فوج میں جانا چاہئے۔ فوجی تیاری نہایت اہم چیز ہے۔ جب تک آپ جنگی فنون نہیں سیکھیں گے کام کس طرح کریں گے۔‘‘
یہ آپ لوگوں کے علم میں ہوگا کہ فرقان بٹالین جس کو لیاقت علی خان مرحوم نے Disband کیا تھا، اس کے متعلق بڑا پروپیگنڈا کیا گیا کہ اس نے بڑا کام کیا ہے۔ تو اس کے لئے جو تمغے تقسیم ہوئے وہ ربوہ کے سیکرٹریٹ کے اندر ہوئے۔
آگے موجودہ خلیفہ جو ہیں ان کا ارشاد ہے: ’’میں تمام جماعت کو جو یہاں موجود ہے اور پوری دنیا کو کامل یقین کے ساتھ کہتاہوں کہ آئندہ پچیس (۲۵)‘‘ تیس (۳۰) سال کے اندر دنیا میں ایک عظیم الشان تغیر پیدا ہونے والا ہے۔ وہ دن قریب ہے جب دنیا کے بہت سے ممالک کی اکثریت اسلام (یعنی قادیانیت) قبول کر چکی ہوگی۔ دنیا کی سب طاقتیں مل کر اس انقلاب 3063کو نہیں روک سکیں گی۔‘‘
بہرحال یہ بے شمار ہیں۔ آگے ظفر اﷲ صاحب کی تقریر ہے…
جناب چیئرمین: آپ نے جو لکھ کر دینا تھا وہ نہیں دیا آپ نے۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: نہیں، جناب! اس کاکوئی وقت نہیں ہے۔ اب ظفر اﷲ صاحب کی تقریر کہ: ’’اگر احمدیہ جماعت برسراقتدار آجائے تو امیروں پر ٹیکس لگائے جائیں گے، دولت کو ازسرنو تقسیم کیا جائے گا، سود پر پابندی لگا دی جائے گی اور شراب نوشی ممنوع قرار دی جائے گی۔‘‘
یہ بہرحال حکومت کا قصہ ہے۔ پھر یہ لکھتے ہیں کہ: ’’حکومت ہمارے پاس نہیں کہ ہم جبر کے ساتھ ان لوگوں کی اصلاح کریں اور ہٹلر یا میسولینی کی طرح جو شخص ہمارے حکموں کی تعمیل نہ کرے اسے ملک سے نکال دیں اور جو ہماری باتیں سنے اوران پر عمل کرنے پر تیار نہ ہو اسے عبرتناک سزا دیں۔ اگر حکومت ہمارے پاس ہوتی تو ہم ایک دن کے اندر اندر یہ کام کر لیتے۔‘‘
یہ تو بہرحال ہے۔ میں مختصراً یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ جماعت احمدیہ کے ہاتھ جب حکومت آئے گی تو جو لوگ احمدیت سے باہر ہوں گے ان کی حیثیت چوہڑوں اور چماروں کی ہو گی۔ بہرحال یہ حکومت آنا اور حکومت کی کوشش کرنا اور اس کے لئے تیاری کرنا، جیسا کہ میں نے اس روز کہا تھا کہ ’’ایک لاکھ سائیکل سوار اور دس لاکھ گھوڑ سوار اور نیزہ باز اور اتنی عورتیں‘‘ یہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہونا چاہئے۔
اس سب کے باوجود جو دنیا میں زیادہ سے زیادہ فیاضانہ سلوک ہو سکتا ہے اس راستے کو سوچ رہے ہیں ہم۔ لیکن اس کے ساتھ یہ لازمی ہے کہ ان کی نقل وحرکت پر نظر رکھی جائے اور جب جو تجویزیں وہاں ہیں: 3064’’وہ لوگ جو واقعی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان نہیں لاتے وہ سمجھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ سب کچلے جائیں گے۔ صرف باقی ہم رہ جائیں گے۔ ہر ایک کو موت نظر آرہی ہے اور صرف ہم کو زندگی دکھائی دے رہی ہے۔ کیونکہ ہمارے متعلق کہا گیا ہے کہ آسمان سے کئی تخت اترے پر تیرا تخت سب سے اوپر بچھایا گیا۔ پس دوسری بادشاہتوں کو خطرہ ہے کہ وہ ٹوٹ جائیں گی۔ مگر ہمیں امید ہے کہ بادشاہت ہمیں دی جائے گی۔ حکمران ڈر رہے ہیں کہ ان کی حکومت جاتی رہے گی۔ مگر ہم خوش ہیں کہ ہمارے ہاتھ میں دی جائے گی۔‘‘ (مداخلت)
مولانامحمد ظفر احمد انصاری: توبہرحال! اس کو صرف ریکارڈ پر لانا پیش نظر تھا۔ مجھے افسوس ہے کہ معزز ممبران کا بہت سا وقت میں نے لیا ہے۔ میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے دوبارہ ان چیزوں کو پیش کرنے کا موقع دیا۔ شکریہ!
Mr. Chairman: Thank you very much. Any honourable member who would like to speak?
Member: No.
Mr. Chairman: Any honourable member who wants to speak?
اگر کسی نے اپنے کسی بیان میں کوئی تصحیح کرنی ہے یا دوبارہ کوئی Add کرنا ہے؟
جناب محمود اعظم فاروقی: میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔
جناب چیئرمین: آپ رہنے دیں۔ اگر آپ کریں گے تو پھر یہ ڈسکشن ہوگی اس پر، آپ رہنے دیں۔ میں ان سے پوچھ رہا ہوں۔
3065مولانا محمد ظفر احمد انصاری: جناب سپیکر صاحب! ایک گزارش مجھے کرنی ہے کہ یہ ساری چیز ریکارڈ میں آرہی ہے۔ میرے خیال میں یہ پوری کارروائی ہاؤس کمیٹی کے ریکارڈ میں آئے گی۔
جناب چیئرمین: ہم جب ریکارڈ Complete کریں گے تو یہ باتیں Omitt کر دیں گے۔
مولانا محمد ظفر احمد انصاری: یہی میں کہہ رہا تھا کہ جو چیزیں اس سے متعلق ہیں…
جناب چیئرمین: نہیں، صرف وہ کریں گے، باقی جو یہ ہمارے ریمارکس ہیں آپ کے، یا اپنی ڈسکشن جو کراس ایگزامینیشن سے پہلے ہوئی تھی یا بعدمیں ہوئی تھی، That we shall not make part of the record. یہ ریکارڈ ہم نے پبلیش کرنا ہے، اس کو اناؤنس کرنا ہے۔ That will take some time until and unless we correct it, Sir. کیونکہ یہ جو باتیں ہیں یہ پبلک میں نہیں جائیں گی۔
ایک رکن: نہیں جائیں گی؟ٌ
جناب چیئرمین: اسی واسطے انہوں نے اعتراض کیا ہے کہ شاید یہ ریکارڈ پر نہ آجائیں۔
جناب محمود اعظم فاروقی: جناب! مجھے ایک گھنٹہ بولنے کی اجازت دیں۔
Mr. Chairman: Is the House prepared to grant him leave to speak for one hour?
Members: No, no.
Dr. S. Mahmood Abbas Bokhari: Sir, he can speak in the lobby, if he likes it.
Mr. Chairman: Before we rise for tomorrow, I want to place it again on the...
3066مولانا عبدالحق: فرمائیں جی! فرمائیں۔
ایک رکن: جناب! بیٹھنے دیں ان کو، بیٹھ جائیں گے۔
جناب چیئرمین: تو کل کے لئے میں عرض کروں، میں سب سے پہلے تو آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ کیونکہ یہ ہماری Almost last meeting ہے اور آپ تمام دوستوں نے، حضرات نے، ممبران نے اس کو نہ صرف ایک ڈیوٹی سمجھ کے بلکہ اس کو اپنا ایک جزو ایمان سمجھ کے یہ فرض سرانجام دیا ہے۔ اس کے لئے میں آپ کا نہ صرف مشکور ہوں۔ بلکہ آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ آپ نے اپنے ملک کے نام اور جمہوریت کی بقاء کے لئے اڑھائی مہینے بیٹھ کر خدمت کی ہے اور میں اس سے زیادہ ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ کیونکہ Recommendations آپ کے سامنے آنی ہیں اور مجھے انشاء اﷲ تعالیٰ امید ہے بلکہ مجھے پہلے دن سے یہی امید تھی کہ اﷲتعالیٰ کے فضل وکرم سے ہم اس میں Unanimously متفقہ طور پر کوئی نہ کوئی چیز ہاؤس کے سامنے لائیں گے۔ تو کل صبح سیشن نہیں ہوگا۔ اس واسطے کہ کسی ڈیبیٹ کی ضرورت نہیں۔ ڈیبیٹ ختم ہوچکا ہے۔ تمام ضروری مراحل طے ہو چکے ہیں۔ نیشنل اسمبلی کو Recommendations پیش ہو جائیں گی۔ آپ نے ان کا Explanation سن لیا، اٹارنی جنرل کی تقریر بھی سن لی، کتابوں کے حوالہ جات اور تمام Formalities پوری ہو چکی ہیں۔ اب کل قومی اسمبلی میں بل پیش ہوگا۔ کل ڈھائی بجے سیشن ہوگا۔ ممکن ہے اسٹنڈنگ کمیٹی کا اجلاس بھی ہو۔ ابھی ڈسکشن جاری ہیں۔ بل لیجسلیشن کی صورت میں آئے گا۔ ہم نے ریکارڈ بھی Prepare کرنا ہے۔ کل ڈھائی بجے اسپیشل کمیٹی کا اجلاس ہوگا۔
For legislation or whatever positive or nagative has to be done. The Special Committee will last for about one hour or two hours for finalising recommendations; and then, at 4:30, recommendations shall be presented to the National Assembly which will hold an open session. The National Assembly meets always in open session. But because of the 3067gravity of the situation and the prevailing political condition in the country, we would be strict in the admission not only to the galleries but to the premises of the Assembly even. Passes will be issued only to the family members of the M.N.A's or their relatives. This restriction will be only for tomorrow. This restriction will apply even to the admission in the cafeteria or inside Gate No.3 and 4. Definitely there will be restrictions, and I am sorry for the inconvenience to the honourable members. They will be allowed to come in without any bag in hand. Such things will be avoided under all circumstances. It is for the information of the honourable members. Cards will be issued to them. I am again thankful and grateful to you. Thank you very much.
(قانون سازی کے لئے یا جو کچھ بھی اس میں تبدیل کرنا پڑے۔ خصوصی کمیٹی ایک گھنٹے یا دو گھنٹوں تک برقرار رہے گی تاکہ تجاویز کو حتمی شکل دی جاسکے اور پھر ساڑھے چار بجے ان تجاویز کو قومی اسمبلی کے اوپن سیشن میں پیش کیا جائے گا۔ اس میں تجاویز کو حتمی شکل دی جائے گی۔ قومی اسمبلی کا اجلاس ہمیشہ اوپن سیشن ہوتا ہے۔ لیکن صورتحال کی نزاکت اور ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال کے پیش نظر ہم نہ صرف گیلریوں میں بلکہ اسمبلی کے حدود اربعہ میں بھی داخلے پر سختی کریں گے۔ پاس صرف ایم۔این۔ایز کے اہل خانہ اور ان کے رشتہ داروں کو جاری کئے جائیں گے۔ یہ پابندی صرف کل کے لئے ہوگی۔ اس پابندی کا اطلاق کیفے ٹیریا میں اور گیٹ نمبر۳،۴ میں داخلے پر بھی ہوگا۔ یقینا ان پابندیوں سے معزز اراکین کو پریشانی ہوگی۔ جس کے لئے میں معذرت خواہ ہوں۔ انہیں ہاتھ میں کسی بیگ وغیرہ کے بغیر آنا ہوگا۔ ایسی چیزوں سے ہر صورت میں اجتناب کیا جائے گا۔ یہ معزز اراکین کی معلومات کے لئے میں نے بتایا۔ انہیں کارڈ جاری کئے جائیں گے۔ میں ایک بار پھر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ کا بے حد شکریہ!)
The Special Committee of the whole House adjourned to meet at half past two of the clock, in the afternoon, on Saturday, the 7th September, 1974.
(قومی اسمبلی کے مکمل ایوان کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس ۷؍ستمبر ۱۹۷۴ء ہفتہ اڑھائی بجے شام تک کے لئے ملتوی ہوا)
----------