ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
(انگریز کی مدد کے سہارے مرزا کے عقائد پروان چڑھے)
کسی دوسری بات کا ذکر کرنے سے پیشتر مجھے ایک اور پہلو کو اجاگر کرنا ہے۔ ایوان کے سامنے میری معروضات سے یہ بتانا مقصود تھا کہ اپنے عقائد کا پرچار کرنے کے لئے مرزاغلام احمد کو انگریزوں کی امداد کی ضرورت تھی اور یہ امداد انگریزوں نے بھرپور طریقہ سے مہیا کی۔ یہ تھے وہ حالات جن کے تحت بقول مرزا غلام احمد ملاؤں نے اور ہمارے (مسلمانوں) کے مطابق علماء حق نے اس کی زندگی حرام کر دی تھی۔ چنانچہ مرزاغلام احمد لیفٹیننٹ گورنر پنجاب کو لکھتاہے۔ (میں اس کے خط سے مختصر طور پر پڑھتا ہوں) وہ (مرزاغلام احمد) لکھتا ہے: ’’میں اس بات کا اقراری ہوں کہ جب کہ بعض پادریوں اور عیسائی مشنریوں کی تحریر نہایت سخت ہو گئی اور حد اعتدال سے بڑھ گئیں اور بالخصوص پرچہ نورافشاں میں جو ایک عیسائی اخبار لدھیانہ سے نکلتا ہے نہایت گندی تحریریں شائع ہوئیں… تو مجھے ایسی اخباروں اور کتابوں کے پڑھنے سے یہ اندیشہ دل میں پیدا ہوا کہ مبادا مسلمانوں کے دلوں پر جو کہ جوش رکھنے والی قوم ہے ان کلمات سے کوئی سخت اشتعال دینے والا اثر پیداہو۔ تب میں نے ان جوشوں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اپنی صحیح اور پاک نیت سے یہی مناسب سمجھا کہ اس عام جوش کے دبانے کے لئے حکمت عملی یہی ہے کہ ان تحریروں کا کسی قدر سختی سے جواب دیا جائے تاکہ صریح الغضب انسانوں کے جوش فرو ہو جائیں اور ملک میں کوئی بدامنی پیدا نہ ہو۔ تب میں نے بالمقابل ایسی کتابوں کے جن میں کمال سختی سے بدزبانی کی گئی تھی چند ایسی کتابیں لکھیں جن میں کسی قدر باالمقابل سختی تھی۔ کیونکہ میرے Conscience نے قطعی طور پر مجھے فتویٰ دیا کہ اسلام میں جو وحشیانہ جوش رکھنے والے آدمی موجود ہیں ان کے غیض وغضب کی آگ بجھانے کے لئے یہ طریقہ کافی ہوگا… سو مجھ سے پادریوں کے بالمقابل جو کچھ وقوع میں آیا یہی ہے کہ حکمت عملی سے بعض وحشی مسلمانوں کو خوش کیاگیا اور میں دعوے سے کہتا ہوں کہ میں تمام مسلمانوں میں اوّل درجے کا خیرخواہ گورنمنٹ انگریز کا ہوں۔‘‘
(تریاق القلوب ضمیمہ نمبر۳ ص ب،ج، خزائن ج۱۵ ص۴۹۰،۴۹۱)
میں نے مرزاناصر احمد سے سوال کیا کہ وہ (مرزاغلام احمد) عیسائیوں پر کیوں حملے کرتا تھا اور کیوں اسلام کے خلاف ان کے حملوں کا جواب دیا کرتا تھا۔ کیا اسلام سے محبت اور اسلام کے لئے جوش وخروش کی وجہ سے تھا یا اس کی کوئی وجوہات تھیں۔ میرا یہ سوال مرزاناصر احمد کو ناگوار گزرا اور جواب دیا کہ نہیں۔ یہ (مرزاغلام احمد) کا جہاد تھا۔ یہ اسلام اور نبی کریم ﷺ سے محبت کے باعث تھا کہ مرزاغلام احمد نے عیسائیوں پر حملے کئے۔ لیکن مرزاغلام احمد خود اپنا مافی الضمیر بیان کرتا ہے کہ وہ ایسا اسلام کے لئے نہیں بلکہ انگریزوں کے مفاد میں کر رہا تھا اور اسی مقصد کے تحت عیسائی پادریوں پر تنقید کر رہا تھا۔ اب ہم مرزاغلام احمد کے خط کے ایک دوسرے حصہ کو لیتے ہیں۔ وہ لکھتا ہے: ’’ان تمام تقریروں سے جن کے ساتھ میں نے اپنی سترہ سالہ مسلسل تقریروں سے ثبوت پیش کئے ہیں صاف ظاہر ہے کہ میں سرکار انگریزی کا بہ دل وجان خیرخواہ ہوں اور میں ایک شخص امن دوست ہوں اور اطاعت گورنمنٹ کی اور ہمدردی بندگان خدا کی میرا اصول ہے اور یہی وہ اصول ہے جو میرے مریدوں کی شرط بیعت میں داخل ہے۔ چنانچہ شرائط بیعت میں ہمیشہ تعلیم کیا جاتا ہے۔ صفحہ چہارم میں ان باتوں کی تشریح ہے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۴۶۵)
جیسا کہ میں اس کا مطلب سمجھتا ہوں۔ وہ (مرزاغلام احمد) کہتا ہے میری یہ تقریر پچھلے سترہ سالوں کی تقریروں کی تائید کرتی ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میں دل وجان سے برٹش گورنمنٹ کا وفادار ہوں۔ گورنمنٹ سے وفاداری اور لوگوں سے ہمدردی میری زندگی کا اصول ہے اور یہی اصول میرے مذہب کے مجوزہ فارم (بیعت نامہ) سے بھی پوری طرح مترشح ہوتا ہے۔
پھر جناب والا! ایک دوسری جگہ وہ (مرزاغلام احمد) کہتا ہے: ’’میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقدکم ہوتے جائیں گے۔ کیونکہ مجھے مسیح موعود مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے۔‘‘
(اشتہار ملحقہ کتاب البریہ مندرجہ روحانی خزائن ج۱۳ ص۳۴۷)
میں سمجھتا ہوں اس نے یہ کہا ہے۔ میرے پیروکاروں کی تعداد کے بڑھنے سے جہاد پر ایمان رکھنے والوں کی تعداد کم ہوتی چلی جائے گی اور مجھ پر ایمان لانا گویا جہاد سے انکار کرنا ہے۔ جناب والا! وہ مزید کہتا ہے: ’’میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید وحمایت میں گزرا ہے اور میں نے ممانعت جہاد اور انگریز کی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں، اشتہارات طبع کئے ہیں اور اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔ میں نے ایسی کتابوں کو تمام عرب ممالک مصر وشام، کابل وروم تک پہنچایا ہے۔ میری ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ مسلمانوں میں سلطنت کے سچے خیرخواہ ہوجائیں۔ مہدی خونی، مسیح خونی کی بے اصل روایتیں اور جوش دلانے والے مسائل جو احمقوں کے دلوں کو خراب کرتے ہیں ان کے دلوں سے معدوم ہو جائیں۔‘‘
(تریاق القلوب ص۱۵، خزائن ج۱۵ ص۱۵۵،۱۵۶)
انگریزی میں ترجمہ کیا جائے تو اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ میری زندگی کا اکثر وبیشتر حصہ برٹش گورنمنٹ کی وفاداری کا پرچار کرتے ہوئے گزرا ہے۔ جہاد کی مذمت میں اور گورنمنٹ کی وفاداری کے لئے میں نے اتنی کتابیں لکھی ہیں اور اس قدر اشتہارات چھپوائے ہیں کہ اگر ان سب کو یکجا کیا جائے تو ان سے پچاس الماریاں بھر جائیں گی۔
----------
(اس مرحلہ پر جناب چیئرمین نے کرسی صدارت سنبھالی)
----------
جناب والا! پیشتر ازیں کہ میں دوسرا پیراگراف پڑھوں۔ آپ اس شخص کو ذہن میں رکھیں جس نے یہ خوبصورت شعر کہا ہے۔
’’اینک منم کہ حسب بشارات آمدم
عیسیٰ کجاست تابہ بنہد پابمنبرم‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۵۸، خزائن ج۳ ص۱۸۰)
اتنی بلندی سے وہ (مرزاغلام احمد) اس قدر ذلت کی گہرائی میں چلا جاتا ہے۔ کیا آپ کو کہیں بھی اس قسم کی (گھٹیا) خوشامد مل سکتی ہے؟ ایک نام نہاد نبی کا یہ کمینہ پن! کیا کوئی نبی ایسی فطرت کا مالک ہو سکتا ہے؟ میں کہوں گا کہ اس قسم کے خط لکھنے والے نبی کی نبوت کا انکار اگر کفر ہے تو پھر میں خود سب سے بڑا کافر ہوں۔
گر کفر این بود بخدا سخت کافرم
اب اس خط کو دیکھیں اور اس خط کے لکھنے والے کو دیکھیں۔ کوئی انسان ایک عام آدمی جسے اپنی عزت نفس کا ذرہ بھر بھی احساس ہے۔ جس کا اﷲ پر تھوڑا سا بھی یقین ہے، جس کو اپنے آپ پر تھوڑا سا بھی اعتماد ہے۔ کبھی اس قسم کی بات نہیں کرے گا۔ وہ نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ یہاں قائداعظم کی تصویر لگی ہوئی ہے۔ (اسمبلی ہال کے اندر لگی ہوئی قائداعظم کی تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) ۲؍جون ۱۹۴۷ء کو کیا ہوا؟ آپ سب کو معلوم ہے۔ اس کا ذکر کیمبل جانسن کی کتاب میں موجود ہے۔ مسلم لیگ کی طرف سے قائداعظم نے اس بات کی رپوٹ کرنا تھی کہ انہیں ۳؍جون والا پلان قابل قبول ہے یا نہیں۔ کیا مسلم لیگ کو وہ پاکستان منظور تھا جسے وہ (برٹش گورنمنٹ) مسلمانوں کو دے رہے تھے۔ کیمبل جانسن لکھتا ہے کہ وائسرائے مسٹر جناح کے لئے سارا دن انتظار کرتا رہا۔ مسٹر جناح آدھی رات سے صرف ایک منٹ پہلے وہاں پہنچے، وائسرائے نے پوچھا۔ مسٹر جناح آپ کا کیا جواب ہے۔ مسٹر جناح کا جواب تھا ’’میں اس کو مانتا تو نہیں۔ مگر قبول کرتا ہوں۔‘‘ (ان دونوں میں) فرق کیا ہے۔ وائسرائے نے کہا۔ مسٹر جناح کا جواب بالکل سیدھا سادہ تھا۔ ’’میں اس پلان کو پسند نہیں کرتا۔ اس لئے میں اس کو نہیں مانتا۔ مگر اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ آپ نے میرا پنجاب تقسیم کر دیا ہے۔ آپ نے میرا بنگال تقسیم کر دیا ہے۔ تو پھر میں خوش کیسے ہو سکتا ہوں۔ میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اسے قبول کر رہا ہوں۔ میں پارٹی کا صرف سربراہ ہوں۔ اس بات کا فیصلہ مسلم لیگ کونسل نے کرنا ہے۔ جس میں دو ہفتے لگیں گے۔ اس لئے میں مسلم لیگ کونسل کی طرف سے کوئی ضمانت نہیں دے سکتا۔ معلوم نہیں کونسل منظور کرے گی یا نہیں۔ تاہم میں انہیں منظور کرنے کا مشورہ دوں گا۔ کیونکہ اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں۔ لارڈ مونٹ بیٹن بڑے غصہ میں تھا۔ اس نے کہا میں یہ بات نہیں مان سکتا۔ کل اس کا اعلان ہونا ہے۔ کانگریس اپنی کونسل یا کمیٹی کی طرف سے پلان منظور کر چکی ہے۔ تو پھر آپ کیسے منظور نہیں کر سکتے۔‘‘ مسٹر جناح نے جواب دیا۔ ’’میری جماعت ایک سیاسی جماعت ہے۔ جس کی بنیاد سیاسی اصولوں پر قائم ہے۔ اپنے عوام کی منظوری حاصل کرنے کے لئے مجھے ان کے پاس جانا ہوگا۔‘‘ اس پر لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کہا۔ ’’تو پھر مسٹر جناح اگر آپ مسلم لیگ کی طرف سے مجھے یقین دہانی نہیں کرا سکتے تو آپ کو پاکستان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہاتھ دھونا ہوں گے۔‘‘ مسٹر جناح کا کیا جواب تھا؟ یہ ستر سال کی عمر کا وہ بوڑھا شخص تھا جس نے اپنی زندگی دشت سیاست میں گزاری تھی۔ وہ مجوزہ ملک (پاکستان) کا سربراہ بننے والا تھا۔ وہ اس ملک کا مالک یا حاکم بننے والا تھا۔ اس کا اﷲ پر بھروسہ اور ایمان تھا۔ اس نے کوئی کمزوری نہ دکھائی اور (باوقار طریقہ سے) جواباً کہا۔ ’’جو ہو، سو ہو، کچھ بھی ہو۔‘‘ اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ یہ ایک ایسے شخص کا جواب تھا۔ جس میں ایمان موجود تھا۔ جو اﷲ پر یقین رکھتا تھا وائسراے کو اس کے پیچھے بھاگنا پڑا تاکہ اس سے واپس آجانے کی درخواست کرے۔ وائسرائے نے کہا۔ ’’مسٹر جناح مسلم لیگ کی طرف سے میں کل صبح یقین دہانی کرادوں گا کہ وہ (پلان کو) منظور کر لے گی۔ میں جانتا ہوں کہ وہ آپ کا مشورہ ضرور مان لے گی۔ آپ صرف اتنا کہہ دیں کہ آپ نے اس کو منظور کر لیا ہے۔‘‘ مسٹر جناح نے کہا۔ ’’ہاں! ٹھیک ہے۔ میں یہ کہہ دوں گا۔‘‘ اور اس طرح پاکستان معرض وجود میں آیا۔ قائداعظم پاکستان گنوا سکتے تھے۔ انہیں یہ سوچ آسکتی تھی کہ ملک جارہا ہے۔ میں قوم کی طرف سے منظوری کا اظہار کروں۔ لیکن ایسا نہیں تھا وہ شخص یقین کامل کا مالک تھا۔ ہمیں اس شخص (قائداعظم) کا موازنہ اس شخص (مرزاغلام احمد) سے نہیں کرنا چاہئے۔ جونبی ہونے کا دعویٰ تو کرتا ہے مگر اس قسم کے خط لکھ کر دنیاوی قوت کے آگے گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ مرزاغلام احمد کے رویہ کی وجہ سے مجھے مایوسی ہوئی۔ مجھے جذبات کی رو میں نہیں بہہ جانا چاہئے تھا۔ علامہ اقبال نے کہا ؎
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
اس کا بالکل یہی مطلب ہے۔
جناب والا! اب میں دوسرے پیراگراف کی طرف آتا ہوں۔ وہ (مرزاغلام احمد) کہتا ہے: ’’سرکار دولت مدار کو ایسے خاندان کی نسبت جس کے پچاس برس کے متواتر تجربے سے وفادار اور جانثار ثابت کر چکی ہے… اس خود کاشتہ پودے سے نہایت ضروری احتیاط اور تحقیق اور توجہ سے کام لے اور اپنے ماتحت افسران کو ارشاد فرمائیں کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری اور خدمات کا لحاظ رکھ کر مجھے اور میری جماعت کو خاص عنایت کی نظر سے دیکھیں۔‘‘
(درخواست بحضور برٹش گورنمنٹ ملحقہ کتاب البریہ ، مندرجہ خزائن ج۱۳ ص۳۵۰)
وہ (مرزاغلام احمد) بڑے ادب کے ساتھ لیفٹیننٹ گورنر بہادر کو التجا کرتا ہے کہ اس کا خاندان پچاس سالوں سے آزمایا جاتا رہا ہے اور بلا کم وکاست گورنمنٹ کا پورا پورا وفادار ثابت ہوچکا ہے۔ اس لئے گورنمنٹ اپنے ہاتھ سے لگائے ہوئے پودے کی آبیاری کرے۔ لیفٹیننٹ گورنر بہادر اس پر اور اس کے پیروکاروں (جماعت) پر مزید کرم نوازی کرے۔ انہیں پورا تحفظ دے اور اس کے خاندان کی وفاداری کے پیش نظر جو کہ گورنمنٹ کے مفاد کی خاطر کی جاتی رہی ہے۔ اس کے ساتھ اور اس کی جماعت کے ساتھ ترجیحانہ سلوک کرے۔
جناب والا! میں مزید کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ صرف یہ عرض کروں گا کہ یہ ایک نبی کی درخواست ہے۔ لیفٹیننٹ گورنر بہادر کے نام نبی کیا درخواست کرتا ہے۔ حضور والا! اپنے ماتحت افسروں کو میرے ساتھ ترجیحانہ سلوک کرنے کا حکم دیں۔ یہ نبی تو لیفٹیننٹ گورنر کی سطح کے برابر بھی نہیں جو اس کی منتیں سماجتیں کر رہا ہے کہ وہ اپنے ماتحت افسروں کو ایسا ایسا سلوک کرنے کی ہدایات دے۔ شاید مجھے کہنا نہیں چاہئے۔ یہ وہ شخص ہے جو کہتا ہے کہ وہ تمام نبیوں سے (نعوذ باﷲ) بہتر ہے۔
آنچہ داد است ہر نبی راجام
داد آں جام را مرا بہ تمام
(نزول المسیح ص۹۹، خزائن ج۱۸ ص۴۷۷)
عیسیٰ کجا است تا بہ بنہد پابمنبرم
(ازالہ اوہام ص۱۵۸، خزائن ج۳ ص۱۸۰)
ایسے شعروں کو تخلیق کرنے والا لیفٹیننٹ گورنر سے التماس کر رہا ہے وہ مجھ سے اچھا برتاؤ کریں۔ اس خود کاشتہ پودے کی حفاظت کے لئے اپنے ماتحت افسران کو ہدایات دیں۔ یہ کہا تھا: ’’آپ کا خود کاشتہ پودا‘‘
اس کی وضاحت کے لئے میں نے مرزاناصر احمد سے بہت سوالات کئے۔ میں اس کے ساتھ نامناسب نہیں ہونا چاہتا۔ مرزاناصر احمد نے جواب دیا۔ اس سے صرف مرزاغلام احمد کا خاندان مقصود تھا۔ ملاحظہ فرمائیں۔ ایک نبی گورنمنٹ سے اپنے خاندان کے لئے منتیں کر رہا ہے۔ جب کہ ایک عام انسان زمین وآسمان ہلا کر رکھ سکتا ہے اور یہ ایک نبی ہے کہ اپنے تحفظ اور امداد کے لئے دنیاوی قوت کے آگے گھٹنے ٹیک رہا ہے۔ منتیں کر رہا ہے۔ ’’میرے خاندان کو تحفظ دیں۔ میری جماعت کو تحفظ دیں۔‘‘ دوسری طرف اس میں کہا جاتا ہے۔ ’’اگر آپ اس (مرزاغلام احمد) کی نبوت پر ایمان نہیں لاتے تو آپ کافر ہیں۔ پکے کافر۔‘‘ اگر مسلمانوں نے اس کے اس دعوے کے خلاف بغاوت کی تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں اور کوئی وجہ نہ بھی ہو تو صرف یہی ایک بات کہ وہ (مرزاغلام احمد) خود کو (نعوذ باﷲ) عین محمدؐ کہنے کا مدعی تھا۔ ہر ذی وقار آدمی کے لئے اس کے خلاف بغاوت کے لئے کافی تھی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ حضرت محمد ﷺ ہمارے لئے کیا فضیلت رکھتے ہیں۔ وہ انسان کامل رحیم وکریم معظم ومکرم جو کہ ہر لحاظ سے اعلیٰ ترین ہستی ہیں کہ جس نے اس دنیا فانی پر کبھی بھی قدم رکھا۔ آپ ان کی مبارک زندگی پر ایک نظر ڈالیں۔ جب وہ ( ﷺ ) فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوتے ہیں تو سراپا رحیم ہیں۔ اپنے بدترین دشمنوں پر بھی حد درجہ مہربان ہیں اور بڑے سے بڑے ظالم کے سامنے لا الہ الا اﷲ کہنے سے نہیں رکتے۔ انہوںنے کبھی یہ درخواست نہیں دی کہ ’’آئندہ میں کبھی وحی کا اظہار نہیں کروں گا۔‘‘ مجھے افسوس ہے مجھے یہ نہیں کہنا چاہئے۔ کیونکہ میں نے وعدہ کر رکھا ہے کہ میں ان کا نقطۂ نظر بھی بیان کروں گا۔ میں اس کی پوری کوشش کروں گا۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کے لئے یہ کہنا پڑتا ہے۔ اس وقت سے اس ملک میں ناچاقی چلی آرہی ہے۔ چونکہ میرے پاس وقت زیادہ نہیں اور ابھی میں نے بہت سی باتوں کا ذکر کرنا ہے۔ اس لئے میں اور اس بارے میں تبصرہ نہیں کروں گا۔
جناب والا! اب میں دوسرے موضوع کی طرف آتا ہوں جو زیادہ اہم ہے۔ میں نکات نمبر۴،۵ کو اکٹھا لوں گا۔ یہ نکات یہ ہیں: ’’مرزاصاحب کے نبوت کے دعوے کو نہ ماننے کے اثرات اور اس دعویٰ کے مسلمانوں پر اثرات اور ان کا ردعمل۔‘‘
اس موضوع پر معروضات پیش کرنے سے قبل میں یہ کہنا چاہوں گا کہ مرزاناصر احمد کے ساتھ مجھے خاصی دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں پر ایک دو واقعات کا میں سرسری طور پر ذکر کرنا بھی مناسب سمجھتا ہوں۔ جناب والا! مرزاغلام احمد کی وفات کے بعد حکیم نورالدین پہلا خلیفہ مقرر ہوا۔ سوائے اس بات کے وہ خلیفۂ اوّل تھا اور کوئی چیز اس کے بارے میں ریکارڈ پر نہیں آئی۔ وہ ایک خاموش طبع آدمی معلوم ہوتا ہے۔ اس کے متعلق کچھ بھی نہیں کہا گیا۔ مگر حکیم نورالدین کی موت کے بعد جماعت کے اندر اختلاف پیدا ہوگیا اور دو گروپ لاہوری اور قادیانی یا ربوہ گروپ وجود میں آگئے۔ جب بشیرالدین محمود احمد کا انتقال ہوا تو اس کے بعد مرزاناصر احمد نے بطور خلیفہ عہدہ سنبھال لیا۔ وہ کمیٹی کے روبرو پیش ہوئے۔ میں نے ان کی اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں ایک سوال کیا۔ جواب میں انہوں نے جو کچھ کہا وہ ریکارڈ پر موجود ہے۔ اس کے علاوہ مجھے جو کچھ قادیانی لٹریچر سے مل سکا ہے۔ وہ بھی میں پورے احترام کے ساتھ بیان کرتا ہوں۔ مرزاناصر احمد نے اپنے والد بشیرالدین محمود احمد کی جگہ بطور خلیفہ سوئم جماعت احمدیہ ۱۹۶۵ء میں عہدہ سنبھالا اور وہ قادیانی (ربوہ) گروپ کے سربراہ ہیں۔ وہ ۱۹۰۹ء میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سلجھے ہوئے انسان ہیں۔ مؤثر شخصیت کے مالک ہیں۔ قرآن مجید کے حافظ ہیں۔ ایم۔اے (آکسفورڈ) عربی، فارسی اور اردو کے بہت بڑے عالم ہیں۔ دینی معاملات پر گہری دسترس رکھتے ہیں۔
جماعت احمدیہ کے رسالہ ’’افریقہ بولتا ہے‘‘ وہ احمدیوں کے نوجوانوں کی تنظیم ’’خدام احمدیہ‘‘ کے سربراہ رہے ہیں۔ وہ مسیح موعود کے موعود پوتا ہیں۔ ان کے خلیفہ سوئم کے تقرر سے اس پیش گوئی کی تکمیل ہوئی۔ جس میں کہاگیا ہے کہ مسیح موعود کے تخت کا وارث اس کا پوتا ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ بائبل میں یہ لکھا ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ ظہور ہوگا تو اس کا پوتا اس کے تخت (حکومت) کا وارث بنے گا۔ مرزاناصر احمد تاحیات خلیفہ منتخب ہوئے ہیں۔ ان کی دعوت احمدیہ تمام دنیا کے لئے ہے۔ وہ براہ راست خداتعالیٰ سے رابطہ رکھتے ہیں۔ خلیفہ منتخب ہونے سے پہلے مرزاناصر احمد ۱۹۴۴ء تا ۱۹۶۵ء تعلیم الاسلام کالج کے پرنسپل رہے ہیں۔ یہ کالج جماعت احمدیہ چلاتی ہے۔ ان کے پیروکار انہیں امیرالمؤمنین کہہ کر پکارتے ہیں۔ مرزاناصر احمد کے بیان کے مطابق مرزاغلام احمد کے خلیفہ کا انتخاب ایک انتخابی ادارہ کرتا ہے جو کہ مختلف گروپوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ مرزاناصر احمد کے بطور خلیفہ انتخاب کے وقت یہ انتخابی ادارہ پانچ سو نفوس پر مشتمل تھا۔ انہوں نے کوئی الیکشن نہیں لڑا اور نہ ہی اس مقصد کے لئے کوئی کاغذات نامزدگی داخل کئے گئے تھے۔ (خلیفہ سوئم کے انتخاب کے وقت) دو نام ایک مرزاناصر احمد کا اور ایک اور مرزا غلام احمد کے خاندان میں سے تجویز ہوئے تھے۔ تاہم مرزاناصر احمد کا انتخاب متفقہ طور پر ہوا تھا۔ ان کا عقیدہ ہے کہ خلیفہ کا انتخاب خدا کی قدرت اور مہربانی سے ہوتا ہے۔ اس لئے اس (خلیفہ) کو کسی ذہنی یا جسمانی معذوری کے سبب ہٹائے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسے (خلیفہ) کو اﷲ کی طرف سے رہنمائی ملتی ہے۔ وہ جسمانی طور پر مفلوج یا بیمار ہو سکتا ہے۔ مگر کبھی بھی ذہنی طور پر مفلوج نہیں ہوسکتا۔ تمام دنیا میں جہاں جہاں احمدی آباد ہیں وہاں جماعت احمدیہ کی شاخیں موجود ہیں۔ مرزاناصر احمد نے کہا ہے کہ ان کی جماعت خالصتاً مذہبی تنظیم ہے۔ وہ (عیسائیوں کے) پوپ کی طرح اپنی مذہبی سلطنت کے سربراہ ہیں۔ ان کی ایک مشاورتی کونسل ہے۔ جس سے وہ مشورہ کرتا ہے۔ تمام فیصلے مشاورتی کونسل سے مشورہ کے بعد کئے جاتے ہیں اور عام طور پر متفقہ ہوتے ہیں۔ تاہم وہ (خلیفہ) حرف آخر ہوتا ہے اور اسے اپنا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ وہ مشاورتی کونسل کے فیصلہ کو رد کر کے اپنا فیصلہ دے سکتا ہے۔ مختصراً اس کے پیروکاروں کا یہ عقیدہ ہے کہ خلیفہ سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ اسے اﷲتعالیٰ کی رہنمائی اور مہربانی حاصل ہوتی ہے۔
جناب والا! جب یہ مقدس ہستی کمیٹی کے روبرو پیش ہوئی تو سوال پیدا ہوا۔ بہرحال میں اس تفصیل میں نہیں جاؤں گا کہ جو مرزاصاحب کی نبوت کو نہیں مانتے۔ ان کے بارے میں انہوں نے کیا کہا ہے۔ مرزاصاحب نے کہا کہ ایسے لوگ کافر ہیں۔ اس کا مطلب کیاہے؟ اس (مرزاناصر احمد) نے جواب دیا ’’کافر‘‘ سے مراد ایسا شخص نہیں جسے منحرف یا مرتد قرار دیا جائے۔ یا ایسا تارک الدین شخص جسے اسلام کے دائرے سے خارج کرنا پڑے۔ بلکہ ایسے کافر سے مراد ایک قسم کا گنہگار ہے یا ثانوی درجے کا کافر۔ کیونکہ وہ پیغمبر اسلام ﷺ پر تو ایمان رکھتا ہے۔ اس لئے مرزاناصر احمد کے بقول ایسا شخص (جو مرزاغلام احمد کی نبوت کا انکار کرتا ہے) ملت محمدیہ کے اندر تو رہے گا مگر وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا۔ یہ ایک ایسی بات ہے جسے میں بالکل نہیں سمجھ سکا۔ میں نے یہ بات سمجھنے کی انتہائی کوشش کی۔ جب ایک شخص کافر ہو جاتا ہے تو وہ کیسے: ’’دائرہ اسلام سے خارج ہے مگر ملت محمدیہ سے باہر نہیں۔‘‘
آخر اس کا مطلب کیا ہے؟ کئی روز تک ہم اس مشکل میں مبتلا رہے۔ جناب والا! آخرکار جب میں نے مرزاناصر احمد کو کلمتہ الفصل سے ص۱۲۶ کا حوالہ پڑھ کر سنایا اور مندرجہ ذیل اقتباس کا مطلب دریافت کیا۔
’’معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کو بھی بعض وقت اس بات کا خیال آیا ہے کہ کہیں میری تحریروں میں غیراحمدیوں کے متعلق مسلمان کا لفظ دیکھ کر لوگ دھوکا نہ کھاجائیں۔ اس لئے کہیں کہیں بطور ازالہ غیراحمدیوں کے متعلق ایسے الفاظ بھی لکھ دئیے ہیں کہ ’’وہ لوگ جو اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں۔‘‘ جہاں کہیں بھی مسلمان کا لفظ ہو، اس سے مدعی اسلام سمجھا جاوے نہ کہ حقیقی مسلمان۔‘‘
اس موقع پر میں نے مرزاناصر احمد سے پوچھا کہ حقیقی مسلمان سے کیا مراد ہے۔ اس نے اپنے محضر نامے میں بھی سچے مسلمان کی تعریف میں کافی زیادہ تفصیلات بیان کی ہیں۔ مرزاناصر احمد نے کہا کہ حقیقی مسلمان کئی ایک ہیں۔ میں نے پوچھا کیا آج بھی ایسے (حقیقی مسلمان) موجود ہیں۔ کیونکہ یہ ایک بہت ہی مشکل تعریف ہے۔ مسلمان کی تعریف میں مرزاغلام احمد کو نبی ماننے یا نہ ماننے کا کوئی ذکر نہیں۔ اس لئے یہ خاص مشکل تعریف ہے۔ تو اس تعریف کے پیش نظر سچے مسلمانوں کا وجود اس زمانے میں ہے؟ مرزاناصر احمد نے جواب دیا۔ ہاں! سینکڑوں، ہزاروں، لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ میں خود حیران تھا کہ ایسے سچے مسلمان کہاں پر ہیں۔ جب میں نے سوال کیا تو وہ (مرزاناصر احمد) سیدھا اور براہ راست جواب دینے سے ٹال مٹول کرنے لگا تو پھر میں نے پوچھا کہ: ’’کیا غیراحمدیوں میں کوئی ایک بھی حقیقی مسلمان یا سچا مسلمان ہے۔‘‘ تو اس نے جواب دیا کہ نہیں۔ تو اس جواب پر بات ختم ہوگئی اور بحث اپنے انجام کو پہنچ گئی۔ کیونکہ ان (احمدیوں) کے مطابق صرف وہی سچے مسلمان ہیں۔ باقی سب سیاسی مسلمان ہیں۔ بلکہ نام کے مسلمان، جعلی مسلمان، جھوٹے مسلمان۔ جب کہ سچا مسلمان۔ ایک اچھا مسلمان صرف ایک احمدی ہی ہوسکتا ہے یا احمدیوں میں سے ہی ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی نہیں تو جناب والا! یہ ہے معاملہ جس پر غور ہونا ہے۔ پھر اسی کتاب میں مرزاغلام احمد کا بیٹا مرزا بشیراحمد لکھتا ہے:
’’ہر ایک شخص جو موسیٰ کو مانتا ہے مگر عیسیٰ کو نہیں مانتا، عیسیٰ کو مانتا ہے مگر محمد ﷺ کو نہیں مانتا، محمد ﷺ کو مانتا ہے مگر مسیح موعود کو نہیں مانتا وہ نہ صرف کافر بلکہ پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔‘‘
(کلمتہ الفصل ص۱۱۰)
ان غیرمبہم الفاظ کے باوجود جن میں کہاگیا ہے کہ جو مرزاغلام احمد کو نبی نہیں مانتا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ مرزاناصر احمد کہتے ہیں۔ ’’نہیں، نہیں۔‘‘ جب وہ (مرزابشیر احمد) کہتا ہے کہ ’’دائرہ اسلام‘‘ سے خارج ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ (مرزاغلام احمد کو نبی نہ ماننے والا) پیغمبر اسلام ﷺ کی امت میں رہتا ہے۔ یہ ایسا نقطہ ہے جو ہم کافی وقت تک مرزاناصر احمد سے سمجھنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ تاکہ کوئی ایسی صورت نکل سکے کہ وہ تمام مسلمانوں کو مسلمان کے زمرہ میں شمار کریں۔ بالآخر کیا ہونا چاہئے۔ اس بات کا فیصلہ تو کمیٹی کو کرنا ہے۔ میں سمجھتا تھا کہ اگر وہ یہ کہہ دیں کہ ہم (غیراحمدی) مسلمان ہیں اور ہم کہیں کہ وہ (احمدی) مسلمان ہیں تو ایک دوسرے کوکافر کہنے کی فتویٰ بازی سے صرف نظر ہوسکے گا۔ لیکن مرزاناصر احمد نے بڑے اکھڑ پن سے کہاکہ غیراحمدیوں میں کوئی حقیقی مسلمان موجود نہیں۔ کوئی غیراحمدی شخص حقیقی مسلمان ہو ہی نہیں سکتا۔
جناب والا! مرزاناصر احمد نے نماز اور شادی بیاہ کے متعلق بھی بہت سی باتیں کیں۔ مگر اس وقت میں ایک دوسرے موضوع پر معروضات پیش کروں گا اور اس نقطۂ (نماز، شادی بیاہ وغیرہ) پر اس وقت گزارشات پیش کروں گا۔ جب میں اس موضوع پر آؤں گا کہ کیا مرزاغلام احمد نے اپنی الگ امت بنائی تھی یا اسلام کے اندر ہی ایک نئے فرقہ کا اضافہ کیا تھا۔ میرا مطلب ان کی علیحدگی پسندگی کی ذہنیت سے ہے۔ جس کے متعلق بہت کچھ کہاگیا ہے۔ جناب والا! مجھے وقت کی کمی کا احساس ہے۔ میں یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں۔ کیونکہ آخر کار اسی مسئلہ پر اراکین نے غور کرنے کے بعد فیصلہ دینا ہے اور سفارشات پیش کرنا ہیں۔ جناب والا! میں اراکین کو اسی بات کی طرف لے جانا چاہتا ہوں جس کا میں پہلے ذکر کر رہا تھا۔ یعنی مرزاغلام احمد کا دعویٰ نبوت)
جناب محمود اعظم فاروقی: اگر اتنی دیر تک بیٹھنا ہے تو میں برف ہو جائوں گا۔ مجھے ٹمپریچر بھی ہے۔ (مداخلت)
جناب چیئرمین: آپ کی رضائی کا بندوبست کرنا ہے۔
میاں محمد عطاء اﷲ: فاروقی صاحب ٹھنڈے ہورہے ہیں۔ (مداخلت)
(جناب یحییٰ بختیار: جناب والا! جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوںَ یہ ایک بہت ہی اہم پہلو ہے جو خصوصی توجہ کا متقاضی ہے۔ اگر فیصلہ خلاف ہوتا ہے تو یہ اس جماعت پر اثر انداز ہوگا۔ مرزاغلام احمد نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا اور پھر کہا کہ نبی دو قسم کے ہوتے ہیں۔ میں مرزابشیرالدین محمود کی کتاب ’’احمدیت اور سچا اسلام‘‘ ص۲۸ کا حوالہ پیش کرتا ہوں۔
’’مختصراً، نبی دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو صاحب شریعت ہوتے ہیں جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور دوسرے وہ جو بنی نوع انسان کے گمراہ ہو جانے کے بعد اﷲ کا قانون دوبارہ نافذ کرتے ہیں۔ جیسا کہ علیجا، عیسیّا، عیزاکیل، دانیال اور یسوع علیہم السلام۔ مسیح موعود نے بھی آخرالذکر نبیوں جیسا نبوت کا دعویٰ کیا اور وثوق کے ساتھ کہا کہ جس طرح یسوع علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے آخری خلیفہ تھے۔ اسی طرح مسیح موعود اسلامی شریعت کے آخری خلیفہ ہیں۔ تحریک احمدیہ کی اسلام کے دیگر فرقوں کے مقابلہ میں وہی حیثیت ہے جو عیسائیت کی یہودیت کے مقابلہ میں ہے۔‘‘
جناب والا! یہاں پر ایک موازنہ کیاگیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بغیر شریعت کے نبی تھا۔ اس کا تعلق یہودی نسل سے تھا۔ جو کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت پر کاربند تھا۔ آگے کہتا ہے کہ مرزاغلام احمد کی پیغمبر اسلام ﷺ کے مقابلہ میں وہی حیثیت ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ میں تھی۔ جناب والا! ہر مذہبی معاشرہ اور مذہبی نظام کے مطابق کسی بھی نبی کے پیروکار اپنے نبی کی ذات کے گرد ہی گھومتے ہیں۔ معاشرہ اسی طرح چلتا ہے۔ یہودی مذہب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ذات ہے۔ عیسائی مذہب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں اور اسلام میں حضرت محمد ﷺ کی ذات اقدس ہے۔ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہودی معاشرہ میں تشریف لائے تو فرمایا: ’’یہ خیال مت کرو کہ میں (سابقہ) قانون شریعت یا نبیوں کو رد کرنے کے لئے آیا ہوں۔ میں ان کی تردید نہیں بلکہ تکمیل کرنے آیا ہوں۔‘‘
اس فرمان کی اہمیت پر غور کریں۔ ’’میں (سابقہ) قانون شریعت یا نبیوں کو رد کرنے نہیں آیا۔ میں ان کی تردید نہیں بلکہ تکمیل کرنے آیا ہوں۔‘‘ مرزاغلام احمد کہتا ہے: ’’میں کسی تبدیلی کے لئے نہیں آیا۔ قرآن کا ایک نقطۂ تک بھی تبدیل کرنے نہیں آیا۔ میں تو اس کا احیاء کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
یہ بالکل اسی طرح ہے جیسا حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے موسوی شریعت کی تعبیر کی اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت کو، اپنا دوسرا رخسار پیش کرنے کا بدل بنا دیا گیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں نے کہا کہ یہ سب کچھ تو تورات میں پہلے سے موجود ہے۔ یہی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تعلیم ہے۔ بالکل یہی کچھ مرزاغلام احمد نے شروع کیا۔ قرآن کریم کی تعبیر کرتے ہوئے الفاظ کو نئے معانی پہنائے۔ جیسا کہ خاتم النّبیین اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی اور وفات سے متعلقہ آیات کے معانی اور مطالب۔
جناب والا! یہ ہے موازنہ (حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور مرزاغلام احمد کی تعلیمات کا) آپ غور فرمائیں کہ جس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ظہور ہوا تو یہودی معاشرے کا کیا بنا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے سابقہ شریعت کو بدل دیا۔ ان کے معاشرہ میں سے کچھ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے گرد جمع ہوگئے۔ کسی بھی مذہبی معاشرے یا مذہبی نظام میں ایک محور ہوتا ہے۔ اس میں جب ایک اور محور کا اضافہ ہوگا کوئی اور ہستی آئے گی تو لازماً جھگڑے اور ناچاقیاں پیدا ہوں گی یا تو سارا نظام ہی تہ وبالا اور برباد ہو جائے گا۔ یا اس کا کچھ حصہ الگ ہوکر نیا الگ مذہب بنا لیں گے۔ جیسا کہ عیسائیت اور یہودیت کے مابین ہوا۔
میرا ذاتی تأثر یہ ہے کہ مرزاغلام احمد، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روش اختیار کرنا چاہتا تھا۔ تاکہ جب وہ کافی طاقت اور حمایت حاصل کرے تو اعلان کرے: ’’میری اپنی الگ امت ہے۔‘‘ یہ روش اس نے اختیار کی اور میں سمجھتا ہوں یہی اس کا مقصد تھا۔ کمیٹی کے اراکین کو اچھی طرح علم ہے۔ اس بارے میں کافی شہادت ریکارڈ پر موجود ہے اور میں نے کتا ب میں سے حوالہ دیا ہے۔ (جس میں لکھا ہے) کہ مرزاغلام احمد نے اپنے پیروکاروں کے لئے مکمل ضابطۂ حیات چھوڑا ہے۔ اس کے علاوہ اس نے اپنے پیروکاروں کو شادی بیاہ کے متعلق احکام جاری کئے۔ میں نے احمد نامی کتاب سے حوالہ دیا ہے۔ جس کے ص۵۴ پر مندرجہ شادی بیاہ سے متعلقہ احکامات کا میں اعادہ کرتا ہوں۔
’’اسی سال جماعت کے سماجی رشتوں کی استواری اور جماعت کے مخصوص خدوخال کی نگہداشت کی خاطر اس نے شادی بیاہ اور سماجی تعلقات کے لئے احکامات جاری کئے اور احمدیوں کو اپنی بیٹیوں کی شادیاں غیراحمدیوں کے ساتھ کرنے کی ممانعت کر دی۔‘‘
اگر آپ ایک ہی امت سے ہیں۔ بھائی بھائی ہیں تو پھر ایسے احکام دئیے جاسکتے تھے؟ اور یہ بھی کہتے ہیں: ’’میں امتی ہوں۔‘‘ اور وہی عقیدہ رکھتا ہوں۔ جناب والا! اس (مرزاغلام احمد) نے نماز اور نماز جنازہ کے متعلق بھی احکام جاری کئے۔ میرے پاس کئی ایک حوالہ جات ہیں۔ مگر میں آپ کا وقت ضائع نہیں کروں گا۔ کمیٹی یہ حوالہ جات سماعت کر چکی ہے۔ مرزاناصر احمد نے بڑی شدت سے یہ اصرار کیا کہ: ’’ہم غیراحمدیوں کی نماز جنازہ اس لئے نہیں پڑھتے کہ مسلمانوں کے تمام فرقوں نے ہمارے خلاف فتوے دئیے تھے۔ وہ ہمیں کافر کہتے ہیں۔ کفر کے ان فتوؤں کی گھن گرج میں ہم ان (مسلمانوں) کے جنازے میں شریک نہیں ہوسکتے۔‘‘
وہ کئی روز تک اسی بات پر مصر رہے اور اس طرح کئی دن ضائع ہو گئے۔ درحقیقت میں چاہتا تھا کہ مرزاناصر احمد صاف گوئی سے کام لیں۔ اگر آپ کا کوئی عقیدہ ہے تو صاف گوئی سے کہیں۔ ٹال مٹول کیوں ہو۔ لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ انہوں نے ٹال مٹول سے کام لیا اور باربار یہی اصرار کیا کہ وہ ان فتوؤں کی وجہ سے ہمارے (مسلمانوں کے) ساتھ نماز نہیں پڑھتے۔
قائداعظم کی نماز جنازہ کے متعلق مرزاناصر احمد نے کہا کہ چونکہ مولانا علامہ شبیر احمد عثمانی نے ہمارے خلاف فتویٰ دے رکھا تھا۔ اس لئے سرظفر اﷲ نماز جنازہ میں شریک نہ ہوا۔ میں نے سوال کیا کہ چلیں ایسا ہی سہی۔ یہ بتائیں کہ آپ نے اپنے امام کے پیچھے کسی اور جگہ پر غائبانہ نماز جنازہ کیوں ادا نہ کی تو مرزاناصر احمد نے جواب دیا اسے معلوم نہیں کہ (احمدیوں میں سے) کسی نے (نماز جنازہ) پڑھی تھی یا نہیں۔ اس نے جواب کو ٹال دیا۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ سلسلہ کئی روز تک جاری رہا اور کمیٹی کو معلوم ہے کہ آخر کار کیا نتیجہ نکلا۔ ان کا خیال تھا کہ وہ فتوؤں کے بہانے میدان مار لیں گے۔ کیوں ایسے بے شمار فتوؤں سے مضمر ہیں۔ لیکن آخرکار میرے ایک سوال پر حقائق سامنے آہی گئے۔ میں نے سوال کیا کہ کیا مرزاغلام احمد کا ایک بیٹا فضل احمد نام کا تھا، جو احمدی نہیں ہوا تھا۔ مرزاناصر احمد نے کہا کہ یہ بات درست ہے۔ پھر میں نے پوچھا کہ فضل احمد مرزاصاحب کی زندگی میں ہی فوت ہوگیا تھا۔ جواب دیا کہ یہ بھی درست ہے۔ میں نے سوال کیا کہ کیا مرزا صاحب نے اپنے بیٹے فضل احمد کی نماز جنازہ پڑھی۔ مرزاناصر احمد نے جواب دیا نہیں۔ میں نے سوال کیا۔ فضل احمدنے مرزاصاحب کے خلاف کوئی فتویٰ دیا تھا۔ مرزاناصر احمد نے جواب دیا۔ نہیں۔ پھر میں نے پوچھا کیا فضل احمد سے مرزاصاحب ناراض تو نہیں تھے۔ کیونکہ مرزاصاحب نے خود کہا تھا: ’’کہ بڑا فرمان بردار بیٹا تھا اس نے کبھی شرارت نہیںکی۔‘‘ اور کہ: ’’ایک دفعہ میں بیمار پڑ گیا۔ جب میں نے آنکھیں کھولیں تو یہ بچہ (فضل احمد) کھڑا تھا اور رورہا تھا۔‘‘
ان سب باتوں کے باوجود مرزاغلام احمد نے فضل احمد کی نماز جنازہ پڑھنے سے انکار کر دیا کہ وہ اس کو مسلمان نہیں سمجھتا تھا۔ مرزا غلام احمد اس کو کافر سمجھتا تھا۔ چنانچہ فتوؤں کی تمام کہانیاں بے معنی ہوکر رہ گئیں۔
جناب والا! شادی بیاہ کا بھی یہی حال ہے۔ اس (مرزاناصر احمد) نے کہا وہ ایسا اس لئے نہیں کرتے کہ مسلمان (مسلمان سے مراد غیراحمدی ہیں) قادیانی لڑکیوں سے اچھا سلوک روا نہیں رکھتے اور وہ یعنی احمدی لڑکیاں دینی فرائض اسلام کے احکامات کے مطابق ادا نہیں کر سکتیں۔ یہ کس قدر گستاخانہ اور توہین آمیز جواب ہے۔ اپنے اعتقادات کو سب سے بہتر طور پر سمجھنے والے انسان صرف احمدی ہی ہیں۔ دوسری جانب مرزاناصر احمد کہتے ہیں۔ ہاں! مسلمان لڑکی کی شادی ایک احمدی سے ہو سکتی ہے۔ مگر احمدی لڑکی کی شادی کسی غیراحمدی سے نہیں ہوسکتی۔ احمدی لڑکی مسلمان خاوند کے ساتھ خوش نہیں رہ سکتی۔ جب کہ مسلمان لڑکی احمدی خاوند کے ساتھ خوش رہ سکتی ہے۔
جناب والا! ان کی طرف سے یہ خوشی اور ناخوشی کا دعویٰ بھی غلط ہے۔ کیونکہ ان کی اپنی چھوٹی سی کتاب کلمتہ الفصل جسے نامعلوم میں کئی مرتبہ پڑھ چکا ہوں کہ ص۱۶۹ پر کتاب کے مصنف مرزابشیراحمد نے ان الفاظ میں وضاحت کی ہے: ’’غیراحمدیوں سے ہماری نمازیں الگ کی گئیں۔ ان کو لڑکیاں دینا حرام قرار دیا گیا۔ ان کے جنازے پڑھنے سے روکا گیا۔ اب باقی کیا رہ گیا ہے جو ہم ان کے ساتھ مل کر کر سکتے ہیں۔ دو قسم کے تعلقات ہوتے ہیں ایک دینی دوسرے دنیوی۔ دینی تعلق کا سب سے بڑا ذریعہ عبادت کا اکٹھا ہونا ہے اور دنیوی تعلقات کا بھاری ذریعہ رشتہ وناطہ ہے۔ سو یہ دونوں ہمارے لئے حرام قرار دئیے گئے۔ اگر کہو کہ ہم کو ان کی لڑکیاں لینے کی اجازت ہے تو میں کہتا ہوں نصاریٰ کی لڑکیاں لینے کی بھی اجازت ہے۔‘‘
جناب والا! یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیں (مسلمانوں) کو اسی طرح سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ عیسائی یہودیوں کو سمجھتے ہیں۔ وہ ہمیں وہی حیثیت دیتے ہیں جو نبی کریم ﷺ مسلمانوں کے بارے میں یہودیوں اور نصاریٰ کو دیتے تھے۔ احمدی، مسلمانوں کو اسی طرح سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ پیغمبر اسلام ﷺ یہودیوں اور عیسائیوں کو الگ امت اور الگ قوم سمجھتے تھے۔ لیکن ان کی لڑکیوں کو مسلمان مردوں سے شادی کرنے کی اجازت ہے۔ مسلمان لڑکیوں کو ان (یہودیوں اور عیسائی مردوں) سے شادی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ بالکل یہی پالیسی احمدیوں نے مسلمانوں کے لئے اختیار کی ہوئی ہے۔
(قادیانیوں میں علیحدگی پسندی کا رجحان/ مسلمانوں سے قادیانیوں کا معاشرتی بائیکاٹ )
مزید یہ کہ میں نے مرزاناصر احمد سے علیحدگی پسندگی کا رجحان رکھنے کے متعلق باربار سوال کیا۔ وجہ یہ تھی کہ میں اسے پورا پورا موقع دینا چاہتا تھا کہ وہ واضح کرے کہ احمدیوں یا قادیانیوں میں اس قسم کا کوئی رجحان نہیں ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ احمدیوں کے ہاں ایک متوازی نظام موجود ہے۔ بعینہ اسی طرح جیسا کہ عیسائیت اور اسلام میں ہے۔ احمدیت کا اسلام کے مقابلے میں متوازی نظام موجود ہے اور یہ ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ مرزاصاحب اپنی ایک الگ امت بنارہے تھے۔ اس کی ایک اور مثال ہے۔ ۱۹۰۱ء میں مرزاصاحب نے اپنے پیروکاروں کو مردم شماری میں ایک الگ فرقہ کے طور پر رجسٹر کروانے کا حکم دیا جو کہ اپنے آپ کو ’’احمدی مسلم‘‘ کہتے تھے۔ جناب والا! مرزابشیرالدین محمود احمد نے کہا تھا اور یہ بات میں نے مرزاناصر احمد کو بطور حوالہ پیش کی تھی کہ: ’’ہمارا اﷲ! ہمارا نبی، ہمارا قرآن، ہماری نماز، ہمارا حج، ہمارا روزہ، ہماری زکوٰۃ، غرض ہماری ہر چیز دوسرے مسلمانوں سے مختلف ہے۔‘‘
میں نہیں سمجھتا اس کا مطلب کیا ہے۔ مرزاناصر احمد نے کہا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسا کہ ہم ان (اﷲ، نبی، قرآن، نماز، حج، روزہ، زکوٰۃ) کی خود تعبیر کرتے ہیں۔ اس نے (جماعت احمدیہ کی) علیحدگی پسندگی کے رجحانات کے متعلق بہت سی وضاحتیں کیں۔ یہ امر واقعہ ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً سیاسی میدان میں مسلمانوں کے نقطۂ نظر کی حمایت کرتے رہے ہیں اور یہ بات کمیٹی کے زیرغور آنا چاہئے۔ اس (مرزاناصر احمد) نے ایک طویل تاریخ بیان کی۔ سر ظفر اﷲ کی خدمات کا تذکرہ کیا۔ اپنے والد مرزابشیرالدین محمود احمد کی کشمیر کمیٹی میں خدمات کا ذکر کیا۔ یہ بات یاد رہے کہ ڈاکٹر اقبالؒ نے اس کمیٹی سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ کیونکہ قادیانی اس کمیٹی کو اپنے مفاد کی خاطر استعمال کرنا چاہتے تھے۔ تاہم اس کو نظر انداز کرتے ہوئے مرزاناصر احمد کا زور اس بات پر تھا کہ انہوں نے ہمیشہ مسلمانوں کے مفاد کی خاطر کام کیا ہے اور مسلمانوں کا ساتھ دیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مرزابشیرالدین محمود احمد نے ایک خطبہ میں جو کہ ۱۳؍نومبر ۱۹۴۶ء کے اخبار میں شائع ہوا تھا۔ کہا تھا کہ اگر برٹش گورنمنٹ نے مسلم لیگ کے خلاف کوئی کارروائی کی تو اسے مسلم قوم کے خلاف حملہ تصور کیا جائے گا اور وہ (قادیانی) مسلم قوم کی حمایت کریں گے۔ یہ یقینا مسلمانوں کی حمایت کے مترادف ہے۔ مگر اخبار کے اسی شمارے میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب وہ یہ کہتا ہے تو اسی وقت اپنا ایک ایلچی وائسرائے کے پاس بھجوا دیتا ہے اور کہتا ہے کہ جس طرح عیسائیوں اور پارسیوں کو نمائندگی دی گئی ہے اور ان کے حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے۔ اسی طرح ’’ہمارے حقوق کا بھی تحفظ کیا جائے۔‘‘ اور برطانوی وائسرائے یا کوئی دوسرا اعلیٰ عہدیدار اس کو یا اس کے نمائندہ کو جواب دیتا ہے۔ ’’آپ ایک مسلم فرقہ ہیں جو کہ اقلیت میں ہے۔ مذہبی اقلیت۔‘‘ مرزابشیرالدین محمود احمد نے جواب دیا کہ احمدیوں کے مفادات کا بھی اسی طرح تحفظ کیا جائے۔ ’’اگر وہ ایک پارسی پیش کریں گے تو میں ہر ایک پارسی کے مقابلہ میں دو احمدی پیش کر سکتا ہوں۔‘‘ یہ استدلال انہوں نے خود اختیار کیا ہے۔ جناب والا! اس نقطہ پر میں پھر ڈاکٹر محمد اقبال کا حوالہ دوں گا۔ وہ فرماتے ہیں: ’’قادیانیوں کی علیحدگی پسندی کے اس رجحان کے مدنظر جو کہ انہوں نے مذہبی اور سماجی معاملات میں تو اتر کے ساتھ اس وقت سے اختیار کر رکھا ہے۔ جب سے (مرزاغلام احمد) کی نبوت کو ایک نئی جماعت کے جنم کی بنیاد بنایا ہے اور اس رجحان کے خلاف مسلمانوں کے شدید ردعمل کے پیش نظر یہ حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ ازخود قادیانیوں اور مسلمانوں کے مابین اس بنیادی اختلاف کا نوٹس لے اور مسلمان قوم کی جانب سے کسی رسمی احتجاج کا انتظار نہ کرے۔ مجھے اس بارے میں حکومت کے سکھ قوم کے بارے میں کی گئی کاروائی سے حوصلہ ملا ہے۔ ۱۹۱۹ء تک سکھ قوم کو ایک الگ سیاسی اکائی نہیں مانا جاتا تھا۔ لیکن بعد میں سکھ قوم کی طرف سے کسی رسمی احتجاج کے بغیر ہی انہیں یہ درجہ دے دیا گیا تھا۔ باوجود اس امر کے کہ لاہور ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ سکھ، ہندو ہیں۔‘‘
جناب والا! علامہ محمد اقبال کی رائے میں قادیانی خود ہی اپنے کو ایک علیحدہ مذہبی جماعت قرار دئیے جانے پر اصرار کرتے رہے ہیں اور اس میں اس اعتراض کا بھی جواب ہے کہ ایوان کو انہیں علیحدہ مذہبی جماعت قرار دینے کا اختیار حاصل ہے۔ یہ اس لئے کہ لاہور ہائی کورٹ اور پریوی کونسل نے فیصلہ دیا تھا کہ سکھ قوم ہندو قوم کا حصہ ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ پارلیمنٹ نے سکھوں کو الگ قوم قرار دے دیا تھا۔ پارلیمنٹ ایسا کرنے کی مجاز ہے۔ یہ بات بھی کمیٹی کے ذہن نشین رہنی چاہئے۔ جناب والا! قادیانیوں کے بارے میں علامہ محمد اقبال مزید فرماتے ہیں: ’’ہمارے عقیدے کے مطابق اسلام اﷲ کا بھیجا ہوا دین ہے۔ لیکن اسلام کا وجود بطور ایک قوم اور معاشرہ تمام تر نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس کا مرہون منت ہے۔ میرے خیال میں قادیانیوں کے لئے دو ہی راستے ہیں یا تو وہ صاف صاف بہائیوں کا طریقہ اختیار کریں یا اسلام کے نبوت کے ختمیت کے نظریے کو ترک کر دیں اور اس سے پیدا ہونے والی الجھنوں کا مقابلہ کریں۔ ان (قادیانیوں) کی طرف سے شاطرانہ تعبیریں محض اس خواہش کے باعث کی جارہی ہیں کہ وہ اسلام کی گود میں بیٹھ کر سیاسی فوائد حاصل کریں۔‘‘
جناب والا! علامہ محمد اقبالؒ آگے فرماتے ہیں: ’’دوسری بات جسے ہمیں فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ قادیانیوں کی اپنی پالیسی اور عالم اسلام کے بارے میں ان کا رویہ ہے۔ تحریک احمدیہ کے بانی نے مسلمان قوم کو ’’سڑا ہوا دودھ‘‘ اور اپنے پیروکاروں کو ’’تازہ دودھ‘‘ کے نام سے پکارا اور موخرالذکر کو اوّل الذکر کے ساتھ میل جول رکھنے سے منع کیا۔ اس کے علاوہ ان کا بنیادی عقائد سے انکار۔ ان کا اپنے آپ کو نیا نام (احمدی) بطور جماعت دینا۔ ان کا عام مسلمانوں کے ساتھ نماز میں شرکت نہ کرنا۔ مسلمانوں سے شادی بیاہ کے معاملات میں بائیکاٹ وغیرہ، وغیرہ! اور سب سے بڑھ کر ان کا اعلان کہ تمام عالم اسلام کافر ہے۔ یہ تمام باتیں بلاشبہ قادیانیوں کی (بطور قوم) اپنی علیحدگی کا اعلان ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مندرجہ بالا حقائق سے صاف ظاہر ہے کہ وہ (قادیانی) اسلام سے کہیں زیادہ دور ہیں۔ بہ نسبت سکھوں کے ہندوؤں سے دوری کے۔ سکھ کم ازکم ہندوؤں سے شادی بیاہ تو کرتے ہیں۔ گو وہ ہندوؤں کے مندروں میں عبادت نہیں کرتے۔‘‘
جناب والا! تو علامہ اقبال کے یہ نظریات ہیں۔ میں یہ معروضات کر رہا ہوں کہ وہ ہمیں مسلمان نہیں سمجھتے۔ میں نے پورے احترام کے ساتھ مرزاناصر احمد کو اس ریزولیوشن کی طرف نشاندہی کی تھی جو انگلینڈ میں ربوہ کے واقعہ کے بعد احمدیوں نے پاس کیا تھا۔ جس میں انہوں نے اپنے آپ کو ’’احمدی مسلمان‘‘ کہا اور ’’پاکستان کے غیراحمدی مسلمانوں‘‘ کی مذمت کی۔ انہوں نے ان کا ذکر بطور پاکستانی کے کیا تو یہ ہیں وہ حالات جس میں انہوں نے خود کو مقید کر رکھا ہے۔