ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
ان قانونی امور کو طے کرنے کے بعد اس اصل معاملہ مابہ النزاع کی طرف رجوع کیا جاتا ہے اور قبل اس کے کہ اس سوال پر فریقین کی پیش کردہ شہادت اور دلائل پر بحث کی جاوے یہ سمجھنے کے لئے کہ قادیانی یا مرزائی یا احمدی مذہب کیا ہے؟ اور مذہب اسلام کے ساتھ اس کا کیا لگاؤ ہے؟ اور اس مذہب کو قبول کرنے والے کو کیوں مرتد سمجھا گیا ہے؟ کچھ مختصر تمہیدکی ضرورت ہے۔
یہ بات کچھ خلاف واقع نہ ہوگی۔ اگر یہ کہا جاوے کہ ہر مذہب وملت کے نزدیک ابتدائے آفرنیش اور وجود باری تعالیٰ کا علم کتب سماوی سے ہوا ہے۔ ممکن ہے کہ تمام مذاہب کے متعلق یہ 2134رائے صحیح نہ ہو تو کم ازکم یہود، نصاری اور مسلمانوں کے متعلق بلاخوف تردید یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے مذاہب کی رو سے نہ صرف امور مذکورہ بالا کا علم کتب سماوی سے ہوا ہے۔ بلکہ ابتدائے آفرنیش کے بارہ میں ان کی کتب سماوی کا قریباً قریباً باہمی اتفاق بھی ہے۔ اس بحث سے کچھ یہ دکھلانا بھی مقصود ہے کہ صرف مسلمان ہی ایک ایسی قوم نہیں جو کہ اپنی مذہبی کتاب قرآن مجید کو منزل من اﷲ کہنے والی ہے۔ بلکہ اس قسم کا عقیدہ دیگر اقوام میں بھی پایا جاتا ہے اور وہ بھی اپنے مذاہب کی بنیادی کتابوں کے منزل من اﷲ ہونے کے قائل ہیں۔ مسئلہ زیربحث کا چونکہ صرف مسلمانوں سے تعلق ہے۔ اس لئے یہاں صرف ان کی آسمانی کتاب وقرآن مجید کا ہی ذکر کیاجاتا ہے۔ قرآن مجید کے مطالعہ سے پایا جاتا ہے کہ خداوند تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو انہیں ایک خاص درخت کے پھل کھانے سے منع فرمایا گیا۔ اس کے بعد جب آدم علیہ السلام نے غلطی سے اس پھل کو کھا لیا تو ان کو باغ جنت سے بے دخل کر دیا گیا اور شیطان کو بھی جس کی ترغیب پر انہوں نے وہ پھل کھایا تھا وہاں سے نکالا گیا اور یہ ارشاد ہوا کہ: ’’
قلنا اہبطوا منہا جمیعاً ج فامأ یاتینکم منی ہدی فمن تبع ہدای فلا خوف علیہم ولاہم یحزنون
‘‘ {نیچے جاؤ یہاں سے تم سب۔ پھر اگر پہنچے میری طرف سے کوئی ہدایت، تو جو چلا میری ہدایت پر نہ خوف ہوگا ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔}
(سورہ بقرہ، رکوع نمبر۳)
باری تعالیٰ کی طرف سے یہ ہدایت پھر اس کے رسولوں کے ذریعہ سے جو کہ انسانوں میں سے منتخب کئے جاتے ہیں پہنچتی رہی۔ حتیٰ کہ رسولوں کا یہ سلسلہ حضرت محمد مصطفیٰﷺ تک جاری رہا۔ موسیٰ علیہ السلام کے بعد آئندہ سلسلہ رسالت جاری رہنے میں لوگوں میں اختلاف ہونے لگا اور عیسیٰ علیہ السلام کے مبعوث ہونے پر جن لوگوں نے انہیں نہ مانا اور جو موسیٰ علیہ السلام کی ہدایت پر قائم رہے وہ یہود کہلائے اور جنہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو نبی تسلیم کر لیا وہ نصاریٰ کہلائے اور ان کے بعد جب حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو نبوت ملی تو انہیں جن لوگوں نے نبی تسلیم کر کے ان کی تعلیم پر چلنا شروع 2135کیا وہ مسلمان کہلاتے ہیں۔ اب مدعیہ کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ اور ایمان ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰﷺ آخری نبی ہیں اور ان کے بعد اور کوئی نیا نبی نہیں ہوسکتا۔ ہاں البتہ آخری زمانہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو آسمان پر زندہ ہیں۔ آسمان سے نزول فرماویں گے اور حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی شریعت پر چل کر لوگوں کو راہ ہدایت دکھلائیں گے اور رسول اﷲﷺ کی شریعت پر چلنے کی وجہ سے امتی نبی کہلائیں گے۔
اب انیسویں صدی کے آخیر میں مرزاغلام احمد صاحب قادیانی نے جو مدعا علیہ کے پیشوا ہیں ان روایات کی جو نزول عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق مسلمانوں میں مشہور چلی آتی تھیں یہ تعبیر کی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام جو مسیح ناصری تھے فوت ہوچکے ہیں۔ انہوں نے واپس نہیں آنا اور نہ ان کا واپس آنا بروئے آیات قرآنی ممکن ہے اور نہ وہ نبی ہوکر امتی ہوسکتے ہیں۔ بلکہ امتی نبی سے یہ مراد ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے کمال اتباع اور فیض سے ان کے کسی امتی کو نبوت کا درجہ عطاء کیا جائے گا اور اس تعبیر کے ساتھ انہوں نے اس درجہ کا اپنے لئے مختص ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس دعویٰ کی تائید میں فریق ثانی کی طرف سے جو دلائل اور سندات وغیرہ پیش کی گئی ہیں ان پر آگے بحث کی جائے گی۔ اب صرف یہ دکھلانا مقصود ہے کہ جن لوگوں نے مرزاصاحب کے اس دعویٰ کو صحیح تسلیم کر کے ان کی تعلیم پر چلنا شروع کر دیا ہے۔ انہیں لوگ مرزاصاحب کے ساتھ اور ان کے مسکن قادیان کے ساتھ تعلق رکھنے کی وجہ سے بعض اوقات مرزائی کہتے ہیں اور بعض اوقات قادیانی اور قادیانی مرزائی کہنے سے ایک اور تعبیر بھی لی جاتی ہے وہ یہ کہ مرزاصاحب کے متبعین کے دو فرقے ہیں۔ ایک لاہوری اور دوسرے قادیانی۔ لاہوری انہیں نبی نہیں مانتے۔ قادیانی انہیں نبی مانتے ہیں۔ اس لئے قادیانی مرزائی کہنے سے یہ مراد لی جاتی ہے کہ وہ شخص جس کے متعلق یہ الفاظ استعمال کئے گئے ہیں وہ مرزاصاحب کے ان متبعین میں سے ہے جو انہیں نبی مانتے ہیں۔ مقدمہ ہذا میں مدعا علیہ پر اسی مفہوم کے تحت یہ الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔
2136اس فرقہ کا تیسرا نام احمدی ہے۔ جس کے متعلق فریق ثانی کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ اس جماعت کے امیر نے اپنی جماعت کے لئے تجویز کر کے گورنمنٹ سے اس نام سے اپنی جماعت کو موسوم کئے جانے کی منظوری حاصل کی ہوئی ہے۔
مسلمانوں کے نزدیک قرآن مجید کے بعد سند اور اعتبار کے لحاظ سے احادیث کا درجہ ہے جو حضرت رسول کریمﷺ کے اقوال کا مجموعہ ہیں۔ اب مدعیہ کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ مرزاصاحب کا دعویٰ غلط ہے۔ قرآن مجید اور احادیث کی رو سے حضرت محمد مصطفیٰﷺ خاتم النّبیین ہیں۔ ان کے بعد اور کوئی نیا نبی نہیں ہوسکتا۔ مرزاصاحب کے اعتقادات شرعاً درست نہیں ہیں۔ بلکہ کفر کی حد تک پہنچتے ہیں۔ اس لئے ان کو نبی تسلیم کرنے والا اور ان کی تعلیم پر چلنے والا بھی کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہوجاتا ہے اور کسی سنی عورت کا نکاح جو قبل از ارتداد اس کے ساتھ ہوا ہو شرعاً قائم نہیں رہتا اور اس اصول کے تحت مدعیہ کا نکاح مدعا علیہ کے قادیانی، مرزائی ہو جانے کی صورت میں اس کے ساتھ قائم نہیں رہا۔ لہٰذا ڈگری انفراق زوجیت دی جاوے۔
مدعا علیہ کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ قادیانی مذہب، مذہب اسلام سے کوئی مغائیر مذہب نہیں ہے۔ بلکہ اس مذہب کے صحیح اصولوں کی صحیح تعبیر ہے۔ اس تعبیر کے مطا بق عمل پیرا ہونے سے وہ خارج از اسلام نہیں ہوا۔ اس کا نکاح قائم ہے اور دعویٰ مدعیہ قابل اخراج ہے۔
چنانچہ فریقین نے اپنے اپنے اس ادعا کے مطابق شہادت پیش کی ہے۔ جس پر آگے بحث کی جائے گی۔ مقدمہ ہذا میں ابتدائی تنقیحات جن کا اوپر ذکر کیا جاچکا ہے۔ چاہے جس شکل یا جن الفاظ میں وضع شدہ ہیں ان کا نفس معاملہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ان کا مفہوم بھی ہے کہ کیا مدعا علیہ نے قادیانی یامرزائی مذہب اختیار کر لیا ہے اور کیا اس مذہب میں داخل ہونے سے ارتداد واقع ہو جاتا ہے اور کیا اس صورت میں مدعیہ کا نکاح فسخ سمجھا جائے گا۔ اس لئے ان تنقیحات کی ترمیم کے متعلق مدعا علیہ کے عذرات کو وزن دار خیال نہیں کیاگیا۔ اس لئے ان تنقیحات کے الفاظ میں کسی ردوبدل کی ضرورت نہیں سمجھی گئی اور خصوصاً ان میں ترمیم کی 2137ضرورت اس لئے بھی نہیں رہی کہ اگر مدعا علیہ کے ادعا کے مطابق یہی صورت تنقیحات قائم کی جاوے تو مسل پر اس قدر مواد آچکا ہے کہ اس کی رو سے اس صورت میں بھی بحث کی جاسکتی ہے۔ اس سوال پر اب چنداں بحث کی ضرورت نہیں رہی کہ آیا مدعا علیہ قادیانی مرزائی ہے یا نہ۔ کیونکہ اس نے اپنے اعتقادات کی جو فہرست پیش کی ہے۔ اس میں اس نے صاف طور پر درج کیا ہے کہ ’’وہ حضرت مرزاصاحب کو امتی نبی تسلیم کرتا ہے اور ان پر وحی اور الہام بابرکت حضرت نبی کریمa وارد ہوتے تھے۔‘‘ اس لئے اس سے یہ قراردیا جاسکتا ہے کہ وہ مرزاصاحب کے قادیانی متبعین میں سے ہے۔ اب بحث طلب صرف یہ امر ہے کہ آیا یہ عقیدہ کفریہ ہے اور اس عقیدہ کے رکھنے والا دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلہ میں مدعیہ کی طرف سے چھ گواہان ذیل مولوی غلام محمد صاحبؒ شیخ الجامعہ عباسیہ بہاول پور، مولوی محمد حسین صاحبؒ سکنہ گوجرانوالہ، مولوی محمد شفیع صاحبؒ مفتی دارالعلوم دیوبند، مولوی مرتضیٰ حسن صاحب چاند پوریؒ، سید محمد انور شاہ صاحب کشمیریؒ، مولوی نجم الدین صاحب پروفیسر اورینٹل کالج لاہور پیش ہوئے ہیں اور مدعا علیہ کی طرف سے دو گواہان مولوی جلال الدین صاحب شمس اور مولوی غلام احمد صاحب مجاہد پیش ہوئے ہیں۔ یہ ہر دو گواہان قادیانی مبلغین میں سے ہیں۔ ان جملہ گواہان کی شہادتیں کئی معاملات شرعی پر مشتمل ہیں اور بہت طویل ہیں۔ ان کا اگر معمولی اختصار بھی یہاں درج کیا جاوے تو اس سے نہ صرف فیصلہ کا حجم بڑھ جائے گا بلکہ اصل معاملہ کے سمجھنے میں بھی الجھن پیدا ہو جائے گی۔ اس لئے ان شہادتوں سے جو اصول اور دلائل اخذ ہوتے ہیں۔ وہ یہاں درج کئے جاتے ہیں اورزیادہ تر دربار معلی کی ہدایت کے مطابق ان شہادتوں کی رو سے یہ دیکھنا ہے کہ اسلام کے وہ کون سے بنیادی اصول ہیں کہ جن سے اختلاف کرنے سے ارتداد واقع ہو جاتا ہے۔ یا یہ کہ کن اسلامی عقائد کی پیروی نہ کرنے یا نہ ماننے سے ایک شخص مرتد سمجھا جاسکتا ہے اور کیا عقائد قادیانی سے ارتداد واقع ہو جاتا ہے، یا نہ؟
مدعیہ کی طرف سے مذہب اسلام کے جو اہم اور بنیادی اصول بیان کئے گئے ہیں۔ وہ سید انور شاہ صاحبؒ گواہ مدعیہ کے بیان میں مفصل درج ہیں۔ یہاں ان کا مختصراً اعادہ کیا جاتا ہے وہ 2138بیان کرتے ہیں کہ ایمان کے معنی یہ ہیں کہ کسی کے قول کو اس کے اعتماد پر باور کر لیا جاوے اور کہ غیب کی خبروں کو انبیاء کے اعتماد پر باور کر لینے کو ایمان کہتے ہیں، اور حق ناشناسی، یا منکر ہو جانے یا مکر جانے کو کفر کہتے ہیں۔ ہمارے دین کا ثبوت دو طرح سے ہے یا تواتر سے یا خبر واحد سے، تواتر اسے کہتے ہیں کہ کوئی چیز نبی کریمﷺ سے ایسی ثابت ہوئی ہو اور ہم تک علی الاتصال پہنچی ہو کہ اس میں خطا کا احتمال نہ ہو۔
یہ تواتر چار قسم کا ہے۔ تواتر اسنادی، تواتر طبقہ، تواتر قدر مشترک اور تواتر توارث۔
تواتر اسنادی: اسے کہا جاتا ہے کہ جو صحابہؓ سے بسند صحیح مذکور ہو۔
تواتر طبقہ: اسے کہتے ہیں کہ جب یہ معلوم نہ ہو کہ کس نے کس سے لیا۔ بلکہ یہی معلوم ہو کہ پچھلی نسل نے اگلی سے سیکھا۔ جیسا کہ قرآن مجید کا تواتر۔
تواتر قدر مشترک: یہ ہے کہ حدیثیں کئی ایک خبر واحد آئی ہوئی ہوں۔ اس میں قدر مشترک متفق علیہ حصہ وہ حاصل ہوا جو تواتر کو پہنچ گیا۔ مثلاً نبی کریمa کے معجزات، جو کچھ متواتر ہیں اور کچھ خبر احاد ہیں۔ ان اخبار احاد میں اگر کوئی مضمون مشترک ملتا ہے تو وہ قطعی ہو جاتا ہے۔ اس کی مزید تشریح مولوی مرتضیٰ حسن صاحب گواہ مدعیہ نے یہ کی ہے کہ بعض ایسی احادیث جو باعتبار لفظ اور سند کے متواتر نہیں ہیں وہ باعتبار معنی کے متواتر ہو جاتی ہیں۔ اگر ان معنوں کو اتنی سندوں سے اور اتنے راویوں نے بیان کیا ہو کہ جن کا جھوٹ پر جمع ہونا محال ہو۔
تواتر توارث: اسے کہتے ہیں کہ نسل نے نسل سے لیا ہو اور یہ تواتر اس طرح سے ہے کہ بیٹے نے باپ سے لیا اور باپ نے اپنے باپ سے، ان جملہ اقسام کے تواتر کا انکار کفر ہے۔ اگر متواترات کے انکار کو کفر نہ کہا جاوے تو اسلام کی کوئی حقیقت نہیں رہتی۔ ان متواترات میں تاویل کرنا، مطلب بگاڑنا کفر صریح ہے اور متواترات کو تاویل سے پلٹنا بھی کفر ہے۔ کفر کبھی قولی ہوتا ہے اور کبھی فعلی۔ مثلاً کوئی شخص ساری عمر نماز پڑھتا رہے اور ۳۰سال کے بعد ایک بت کے آگے سجدہ کر دے تو کفر فعلی ہے۔ کفر قولی یہ ہے کہ کوئی شخص یہ کہہ دے کہ خدا 2139کے ساتھ صفتوں میں یا فعل میں کوئی شریک ہے۔ اسی طرح یہ کہنا بھی کفر قولی ہے کہ رسول اﷲﷺ (حضرت محمد مصطفیٰﷺ) کے بعد کوئی اور نیا پیغمبر آئے گا۔ کیونکہ تواتر توارث کی ذیل میں ساری امت اس علم میں شریک رہی ہے کہ رسول اﷲﷺ کے بعد اور کوئی نبی نہیں آئے گا۔
اسی طرح کوئی شخص اگراپنے مساوی سے کہہ دے کہ کلمہ بکا تو وہ کوئی چیز نہیں۔ استاد اور باپ سے کہے تو اسے عاق کہتے ہیں۔ پیغمبر کے ساتھ یہ معاملہ کرے تو کفر صریح ہے۔
نبوت کے ختم ہونے کے بارہ میں ہمارے پاس کوئی دو سو حدیثیں ہیں۔ قرآن مجید اور اجماع بالفعل ہے اور ہر نسل اگلی نے پچھلی سے اس کو لیا ہے اور کوئی مسلمان جو اسلام سے تعلق رکھتا ہے وہ اس عقیدہ سے غافل نہیں رہا۔ اس عقیدہ کی تحریف کرنا اور اس سے انحراف کرنا صریح کفر ہے۔ اسلام سے شناخت مسلمانوں کی اور مسلمانوں کے اشخاص شناخت ہیں اسلام کی۔ اگر اجماع کو درمیان میں سے اٹھادیا جاوے تو دین سے وہ گیا۔
جو دین محمدی کا اقرار نہ کرے۔اسے کافر کہتے ہیں۔ جسے اندر سے اعتقاد نہ ہو۔ زبان سے کہتا ہو۔ اسے منافق کہتے ہیں۔ جو زبان سے اقرار کرتا ہو۔ لیکن دین کی حقیقت بدلتا ہو، اسے زندیق کہتے ہیں اور وہ پہلی دو قسموں سے زیادہ شدید کافر ہے۔
ارتداد کے معنی یہ ہیں کہ دین اسلام سے ایک مسلمان کلمۂ کفر کہہ کر اور ضروریات ومتواترات دین میں سے کسی چیز کا انکار کر کے خارج ہو جائے گا، اور ایمان یہ ہے کہ سرور عالم حضرت محمد مصطفیٰﷺ جس چیز کو اﷲتعالیٰ کی جانب سے لائے ہیں اور اس کا ثبوت بدیہات اسلام سے ہے اور ہر مسلمان خاص وعام اسے جانتے ہیں۔ اس کی تصدیق کرنا۔
ضروریات دین وہ چیز ہیں کہ جن کو خواص وعوام پہچانیں کہ یہ دین سے ہیں جن سے اعتقاد توحید کا، رسالت کا، اور پانچ نمازوں کا اور مثل ان کے اور چیزیں۔
شریعت کے اگر کسی لفظ کو بحال رکھا جاکر اس کی حقیقت کو بدل دیا جاوے اور وہ معاملہ متواترات سے ہو تو وہ کفر صریح ہے۔ کفر وایمان کی اس شرعی حقیقت کے بیان کرنے سے یہ بات 2140واضح ہو جاتی ہے کہ ایک مسلمان بعض قسم کے افعال یا اقوال کی وجہ سے کافر اور خارج از اسلام ہو جاتا ہے۔ختم نبوت کا عقیدہ بایں معنی کہ آنحضرتa کی نبوت کے بعد کسی کو عہدہ نبوۃ نہ دیا جائے گا۔ بغیر کسی تاویل اور تخصیص کے ان اجماعی عقائد میں سے ہے جو اسلام کے اصولی عقائد میں سے سمجھایا گیا ہے اور آنحضرتa کے عہد سے لے کر آج تک نسلاً بعد نسلٍ ہر مسلمان اس پر ایمان رکھتا ہے۔
اور یہ مسئلہ قرآن مجید کی بہت سی آیات سے اور احادیث متواترۃ المعنی سے اور قطعی اجماع امت سے روزروشن کی طرح ثابت ہے اور اس کا منکر قطعاً کافر مانا گیا ہے اور کوئی تاویل وتخصیص اس میں قبول نہیں کی گئی۔ اس میں اگر کوئی تاویل یا تخصیص نکالی جاوے تو وہ شخص ضروریات دین میں تاویل کرنے کی وجہ سے منکر ضروریات دین سمجھا جائے گا۔
یہ اصول ہیں جن کے تحت میں اور بھی ایسے بہت سے فروع موجود ہیں جو مستقل موجبات کفر ہوسکتے ہیں۔
فریق ثانی کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ ایمان یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ پر۔ اس کے فرشتوں پر۔ اس کی کتابوں پر۔ اس کے رسولوں پر اور بعث بعد الموت پر اور تقدیر پر یقین رکھاجاوے اور اسلام گواہی دیتا ہے اس بات کی کہ سوائے اﷲ کے کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اس کے رسول ہیں، اور نماز کا ادا کرنا اور زکوٰۃ کا دینا اور رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اﷲ شریف کا حج ادا کرنا اگر استطاعت ہو، اور جو شخص زبان سے ’’لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ کہے اور دل سے اس کے مطالب کی تصدیق کرے تو ایسا شخص یقینی طور پر مؤمن ہے۔ اگرچہ وہ فرائض اور محرمات سے بے خبر ہو اور اسلام کے معنی یہ ہیں کہ اﷲتعالیٰ نے جو فرائض اور محرمات بیان کئے ہیں کہ بعض اشیاء حلال اور بعض حرام ہیں ان پر بلاکسی اعتراض کے اپنی رضامندی کا اظہار کیا جاوے اور جو شخص ان اعمال صالحہ کا پابند ہو کہ جو قرآن مجید میں ایک 2141مؤمن کا طغرائے امتیاز قرار دئیے گئے ہیں تو وہ شخص مؤمن اور مسلمان ہے۔
یہ باتیں ایسی ہیں کہ جو ارکان اسلام سے تعلق رکھتی ہیں اور جن کے جزو ایمان ہونے میں فریق مدعیہ کو بھی کوئی کلام نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ آیا ان باتوں پر فریق ثانی کا عقیدہ ان اصولوں کے تحت جو فریق مدعیہ کی طرف سے بیان کئے گئے ہیں۔ ویسا ہی ہے جیسا کہ دیگر عام مسلمانوں کا یا کہ اس سے مختلف۔ کیونکہ مدعیہ کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ جو شخص عقائد اسلام ظاہر کرے اور قرآن وحدیث کے اتباع کا دعویٰ بھی کرے۔ لیکن ان کی ایسی تاویل اور تحریف کردے کہ جس سے ان کے حقائق بدل جائیں تو وہ مسلمان نہیں سمجھا جاسکتا۔
مدعیہ کی طرف سے دین اسلام کے ثبوت کے متعلق جو بنیادی اصول اور قواعد بیان کئے گئے ہیں ان کا مدعا علیہ کی طرف سے کوئی اطمینان بخش جواب نہیں دیا گیا۔ حالانکہ تواتر اور اجماع کے اصولوں کو خود ان کے پیشوا مرزاغلام احمد صاحب نے بھی تسلیم کیا ہے۔
چنانچہ وہ اپنی کتاب (ایام الصلح ص۸۷، خزائن ج۱۴ ص۳۲۳) میں لکھتے ہیں کہ: ’’وہ امور جو اہل سنت کی اجماعی رائے سے اسلام کہلاتے ہیں۔ان سب کا ماننا فرض ہے۔‘‘
ایک دوسری کتاب (انجام آتھم ص۱۴۴، خزائن ج۱۱ ص ایضاً) میں لکھتے ہیں کہ: ’’جو شخص اس شریعت پر مقدار ایک ذرہ کے زیادتی کرے یا اس میں سے کمی کرے یا کسی عقیدہ اجماعیہ کا انکار کرے۔ اس پر اﷲ کی لعنت اور ملائکہ کی لعنت اور تمام آدمیوں کی لعنت۔ یہ میرا اعتقاد ہے۔‘‘
اور کتاب (ازالۂ الاوہام ص۵۵۶، خزائن ج۳ ص۳۹۹) پر لکھتے ہیں کہ: ’’تواتر کی جو بات ہے وہ غلط نہیں ٹھہرائی جاسکتی اور تواتر اگر غیرقوموں کا بھی ہو تو وہ بھی قبول کیا جائے گا۔‘‘
مدعیہ کے گواہان کے بیان کردہ اصول اور قواعد کے مقابلہ میں مدعا علیہ کے گواہان نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ علماء اور ائمہ کی اندھی تقلید نہایت مذموم ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ پہلے علماء جو کچھ تفسیروں میں لکھ گئے ہیں۔ ہم آنکھ بند کر کے ان پر ایمان لے آویں۔ بلکہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے فتاویٰ اور اقوال کو کتاب اﷲ اور سنت رسول اﷲa اور عقل سلیم کی کسوٹی پر پرکھیں اور جو قرآن اور سنت سے صحیح ثابت ہو اسے اختیار کریں اور مخالف کو چھوڑ دیں کہ جو شخص کسی حدیث کو یا قول کو قرآن مجید 2142کے واقعی طور پر خلاف ثابت کردے تو اس کا قول معتبر ہوگا اور کہ اگر کوئی شخص کسی فن کا امام ہو یا نہ ہو۔ اگر کوئی بات کسی دلیل کے ساتھ ثابت کر دے تو وہ مان لی جائے گی۔ صحابہ بھی تفسیر میں غلطی کرتے تھے۔ یہ بیان مولوی جلال الدین صاحب شمس گواہ مدعا علیہ کا ہے۔ اس کا دوسرا گواہ بیان کرتا ہے کہ کوئی شخص جو کلام کرتا ہے اس کلام کے معنی وہی بہتر سمجھتا ہے اور اس کلام کے معنی جو وہ بیان کرے گا یا تاویل کرے گا وہی مقدم ہوگی اور کہ گواہ مذکور کے نزدیک قرآن مجید کے سوا اور کوئی چیز مسلم نہیں۔ سوائے اس کے جو قرآن مجید سے تطابق رکھتی ہو اور جو قرآن شریف کو پڑھتا ہے وہ خود تطابق کر سکتا ہے اور میرے لئے قرآن شریف کی مطابقت دیکھنے کے لئے میرے واجب الاطاعت اماموںکی بیان فرمودہ مطابقت یا میری اپنی مطابقت مسلم ہے اور کہ ہر وہ بات جس کی تائید قرآن شریف سے نہیں ہوتی اور قرآن شریف کی تصدیق یافتہ احادیث نبویہ سے بھی جس کلام کی تصدیق نہیں ہوتی یا اماموں کے ایسے اقوال کہ جن اقوال کی تصدیق قرآن اور حدیث سے نہیں ہوتی اس کے علاوہ اور مصنّفین کی کتابیں جن کی تصدیق قرآن اور حدیث سے نہیں ہوتی۔ وہ مجھ پر حجت نہیں ہیں اور کہ قرآن کی تفسیر کے لئے کسی خاص شخص کی تعین نہیں کہ وہ جو معنی کرے گا خواہ وہ کیسے ہی ہوں اس کو مانا جاوے اور اس کے خلاف معنی کو رد کیا جاوے۔ اگر صحابہ سے کوئی صحیح تفسیر ثابت ہو جائے جس کے خلاف قرآن کی کوئی تصریح نہ ہو اور صحیح مرفوع متصل حدیثوں کی بھی تصریح نہ ہو۔ زبان عربی کی بھی کوئی تصریح ان معنوں کے خلاف نہ ہو۔ وہ بہرحال مقدم ہوگی اور اس کے خلاف معنی کرنے والے کو محض اس لئے کہ وہ ان معنوں کے خلاف کر رہا ہے۔ خاطی نہیں کہا جاسکتا۔ جب تک کہ قرآنی تصریح کے خلاف معنی نہ کئے جاویں۔
صحابہ کرامؓ کی طرف سے منسوب شدہ بات کہ انہوں نے کی ہے یا کہی ہے یا تحقیق کی ہے۔ اگر قرآن شریف کے مطابق ہے تو قابل قبول ہے۔ اگر صحابہ کرامؓ کی طرف منسوب شدہ بات کو ثابت شدہ اس لحاظ سے کہا جاتا ہے کہ ان تک روایت پہنچتی ہے تو اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ اگر کسی غیرصحابی کی تحقیق بشرطیکہ قرآن شریف کی صحیح نصوص 2143کے مطابق ہو۔ عربی زبان کی سند ساتھ رکھتی ہو۔ دیگر احادیث میں بھی تائید رکھتی ہو تو صحابی کی تحقیق سے مقدم ہے۔ ان شرائط کے بغیر اگر کوئی غیرصحابی کوئی تحقیق پیش کرتا ہے اگر وہ پیش کرنے والا خدا کی طرف سے ملہم اور مامور نہیں ہے کہ جس کی وحی والہام کی تصدیق قرآن پاک کی تصریحات سے ہو چکی ہو۔ بلکہ عام شخص ہے تو اس کی ذاتی رائے اوپر کی شرائط سے علیحدہ کر کے صحابی کی بیان کردہ تصریح سے سننے والے اور ماننے والے کے اختیار پر ہوگی کہ اسے راجح سمجھے یا نہ سمجھے۔کسی حدیث کو قرآن کی مطا بقت میں صحیح قرار دینے والا خود مختار ہے کہ وہ اپنے استدلال کی رو سے اسے مطابق قرار دے یا تصریح کے لحاظ سے مطابق قرار دے۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہر دو فریق کے بیان کردہ اصولوں میں سے معقولیت کس میں ہے۔ ایک تو اپنے دین کی بنیاد چند منظم اصولوں پر کہ جن کو قدامت کی قوت حاصل ہے۔ قائم کر کے اسے بطور ایک ضابطہ اور قانون کے پیش کرتا ہے۔ دوسرا اسے ایک کھلونا بنا کر ہر کس وناکس کے ہاتھ میں دے دیتا ہے اور بجائے اس کے کہ دین کو ایک مستقل لائحہ عمل سمجھا جاوے۔ اسے ہر لمحہ وہر آن تغیر وتبدل کا متحمل قرار دیتے ہوئے ایک بازیچۂ اطفال بنادیتا ہے۔ کیونکہ اس کے نزدیک ہر شخص اس بات کا اہل اور مجاز ہوسکتا ہے کہ وہ جب چاہے بلاروک وٹوک اپنے اجتہاد کی بناء پر ایک نیا رستہ نکال کر اس پر چلنا شروع کر دے اور نہ کسی صحابی، نہ کسی امام، نہ کسی بزرگ، نہ کسی دوسرے ماہر فن کی کوئی پرواہ کرے۔ بلکہ شارع کے جس قول کو وہ درست سمجھے اور اس کا معنی جو وہ قرار دے۔ اس کے مطابق عمل کرے اور اگر اسے کوئی گرفت کرے تو فوراً اپنے قول کی کوئی تاویل گھڑ کر پیش کر دے اور چونکہ وہ تاویل مقدم سمجھی جائے گی۔ اس لئے کوئی بھی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا اور بیچارہ گرفت کرنے والا منہ کی کھا کر چپ ہو جائے گا۔ اس اصول کے تحت نہ صرف کسی دین کی بلکہ کسی قانون کی کوئی حقیقت نہیں رہتی۔ کیونکہ اس قسم کی وسعت ہر اس ضابطہ میں کہ جس کا اجراء بطور قانون مقصود ہو متصور ہوسکتی ہے اور اس صورت میں اس پر کبھی بھی عملدرآمد نہیں ہوسکتا اور وہ محض لفظ ہی لفظ رہ جاتا ہے۔
2144اگر ان اصولوں کو جو فریق ثانی کی طرف سے بیان کئے گئے ہیں۔ بروئے کار لایا جاوے تو دین نہ صرف دین کہلائے جانے کا ہی مستحق نہیں رہتا۔ بلکہ ایک مضحکہ انگیز چیز بن جاتا ہے اور بجائے اس کے کہ اس میں کوئی یکسانیت پیدا کی جاسکے ہر شخص انفرادی حیثیت سے اپنی منشاء کے مطابق اپنے لئے ایک علیحدہ دین بتاسکے گا۔
مذکورہ بالاتصریحات سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ مرزاصاحب کے دعویٰ سے قبل دین اسلام جن باتوں پر قائم تھا۔ اب کوئی ان کی اصلیت اور بنا نہیں رہی اور اب بناء صرف مرزاصاحب اور ان کے خلفاء کے اقوال وعقائد پر ہی ہے۔ کیونکہ فریق ثانی کے نزدیک اب ان اصحاب کے سوا نہ کسی پہلے صحابی کی نہ امام کی۔ نہ بزرگ کی کوئی بات مقدم اور صحیح ہے۔ بلکہ جو کچھ مرزاصاحب اور ان کے خلفاء نے کہا ہے اور لکھا ہے۔ وہی درست ہے اور ان کی کتابوں کے سوا اور کوئی کتاب حجت نہیں ہے۔ اس سے صاف طور پر یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ مرزاصاحب کا دین اس دین اسلام سے مختلف ہے۔ جو مرزاصاحب کے دعویٰ سے قبل مسلمان سمجھتے آئے ہیں۔ اس لئے مدعیہ کی طرف سے بجا طور پر کہاگیا ہے کہ مذہب کے لحاظ سے ہر دو فریق میں قانون کا اختلاف ہے اور مدعیہ کی طرف سے بھی یہ تسلیم کیاگیا ہے کہ ان کے درمیان اصولی اختلاف بھی ہے اور فروعی بھی اور سید انور شاہ صاحبؒ گواہ مدعیہ بیان کرتے ہیں کہ احمدی مذہب والے نے مہمات دین کے بہت سے اصولوں کو تبدیل کر دیا ہے اور بہت سے اسماء کا مسمٰی بدل دیا ہے۔ آگے ظاہر ہو جائے گا کہ اس میں کہاں تک صداقت ہے۔
اب وہ عقائد بیان کئے جاتے ہیں کہ جن کی بناء پر فریق ثانی کی نسبت یہ کہا جاتا ہے کہ وہ مرتد اور کافر ہے۔ اس ضمن میں اہم وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ وہ مرزاغلام احمد صاحب کو نبی مانتا ہے۔ اس لئے یہ دکھانا پڑے گا کہ مرزاصاحب کے اعتقادات کیسے ہیں؟ اور کیا وہ نبی ہوسکتے ہیں یا ؟نہ اور ان کو نبی ماننے سے کیا قباحت لازم آتی ہے؟ اور کیا ان کے اقوال ایسے ہیں کہ ان کی بناء پر انہیں مسلمان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس لئے ان کے اتباع سے مدعا علیہ کو بھی مسلمان 2145نہیں سمجھا جاسکتا۔
سید انور شاہ صاحبؒ گواہ مدعیہ نے ان اصولوں کے تحت جو ان کے بیان کے حوالہ سے اوپر بیان کئے جاچکے ہیں۔ چھ وجوہات ایسی بیان کی ہیں کہ جن کی بناء پر ان کے نزدیک مرزاصاحب باجماع امت کافر اور مرتد قرار دئیے جاسکتے ہیں اور جن کی وجہ سے ان کی رائے میں ہندوستان کے تمام اسلامی فرقے باوجود سخت اختلاف خیال اور اختلاف مشرب کے ان کے کفر وارتداد اور ان کے متبعین کے کفر اور ارتداد پر متفق ہیں۔ یہ وجوہات حسب ذیل ہیں:
۱… ختم نبوت کا انکار اور اس کے اجماعی معنی کی تحریف اور جس مذہب میں سلسلہ نبوت منقطع ہو۔ اس کو لعنتی اور شیطانی مذہب قرار دینا۔
۲… دعویٰ نبوت مطلقہ وتشریعہ۔
۳… دعویٰ وحی اور اپنی وحی کوقرآن کے برابر قرار دینا۔
۴… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین۔
۵… آنحضرتﷺ کی توہین۔
۶… ساری امت کو بجز اپنے متبعین کے کافر کہنا۔
تقریباً یہی وجوہات دیگر گواہان مدعیہ نے بھی بیان کی ہیں۔ اب ذیل میں حسب بیانات گواہان مذکوران وجوہات کی تشریح درج کی جاتی ہے۔
امور نمبر ۱تا۳، ایک ہی نوعیت کے ہیں۔ لہٰذا ان پرجو بحث کی گئی ہے وہ یکجا درج کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں مرزاصاحب کے حسب ذیل اقوال پر جوان کی مطبوعہ کتب میں موجود ہیں اعتراض کیاگیا ہے۔
۱… ’’اوائل میں میرا بھی یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیانسبت۔ وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو اس کو جزوی فضیلت قراردیتا تھا۔ مگر بعد میں جو خدتعالیٰ کی وحی 2146بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی۔ اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۴۹، ۱۵۰، خزائن ج۲۲ ص۱۵۳،۱۵۴)
۲… ’’الہامات میں میری نسبت باربار بیان کیاگیا کہ یہ خدا کا فرستادہ، خدا کا مامور، خدا کا امین اور خدا کی طرف سے آیا ہے جو کچھ کہتا ہے اس پر ایمان لاؤ اور اس کا دشمن جہنمی ہے۔‘‘
(انجام آتھم ص۶۲، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)
۳… ’’مجھے اپنے وحی پرویسا ہی ایمان ہے جیسا کہ توراۃ، انجیل اور قرآن پاک پر اور کیا انہیں مجھ سے یہ توقع ہوسکتی ہے کہ میں ان کی ظنیات بلکہ موضوعات کے ذخیرہ کو سن کر اپنے یقین کو چھوڑ دوں گا۔‘‘
۴… ’’میں اس پاک وحی پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا کہ ان تمام خدا کی وحیوںپر ایمان لاتا ہوں۔ جو مجھ سے پہلے ہوچکی ہیں۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۵۱، خزائن ج۲۲ ص۱۵۴)
۵… ’’ہاں یہ نبوۃ تشریعی نہیں جو کتاب اﷲ کومنسوخ کرے اور نئی کتاب لائے ایسے دعویٰ کو تو ہم کفر سمجھتے ہیں۔‘‘
(ضمیمہ حقیقت النبوۃ ص۲،۳)
۶… ’’اگر کہو کہ صاحب شریعت افتراء کر کے ہلاک ہوتا ہے، نہ کہ ہر مفتری، تو اوّل تو یہ دعویٰ بلادلیل ہے۔ خدا نے افتراء کے ساتھ شریعت کی قید نہیں لگائی۔ ماسواء اس کے یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے۔ جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند امرونہی بیان کئے اور اپنی امت کے لئے ایک قانون مقرر کیا وہی صاحب شریعت ہو گیا۔ پس اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں۔ کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہے اور نہی بھی۔
’’اور ایسا ہی اب تک میری وحی میں امر بھی ہوتے ہیں اور نہی بھی اور اگر کہو کہ شریعت سے وہ شریعت مراد ہے۔ جس میں نئے احکام ہوں تو یہ باطل ہے۔ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’ان ہذا لفی الصحف الا ولیٰ صحف 2147ابراہیم وموسیٰ‘‘ یعنی قرآنی تعلیم توراۃ میں بھی موجود ہے اور اگر یہ کہو کہ شریعت وہ ہے جس میں باستیفاء امر ونہی کا ذکر ہو تو یہ بھی باطل ہے۔ کیونکہ اگر تورات اور قرآن شریف میں باستیفاء احکام شریعت کا ذکر ہوتا تو پھر اجتہاد کی گنجائش نہ رہتی۔ غرض یہ سب خیالات فضول اور کوتاہ اندیشیاں ہیں۔‘‘
(اربعین نمبر۴ ص۶، خزائن ج۱۷ ص۴۳۵،۴۳۶)
اس کتاب کے (حاشیہ ص۶، خزائن ج۱۷ ص۴۳۵) پر لکھتے ہیں: ’’کیونکہ میری تعلیم میں امر بھی ہے اور نہی بھی اور شریعت کے ضروری احکام کی تجدید ہے۔ اس لئے خداتعالیٰ نے میری تعلیم کو اور اس وحی کو جو میرے پر ہوتی ہے فلک یعنی کشتی کے نام سے موسوم کیا ہے۔ جیسا کہ ایک الہام الٰہی کی یہ عبارت ہے۔‘‘
(اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اس کشتی کو ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی سے بنا جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ خدا سے بیعت کرتے ہیں۔ یہ خدا کا ہاتھ ہے جو ان کے ہاتھوں پر ہے)
اب دیکھو خدا نے میری وحی، میری تعلیم اور میری بیعت کو نوح کی کشتی قرار دیا ہے اور تمام انسانوں کے لئے اس کو مدار نجات ٹھہرایا ہے۔ جس کی آنکھیں ہوں دیکھے۔ جس کے کان ہوں سنے۔
۸… ’’نبی کے حقیقی معنوں پر غور نہیں کی گئی۔ نبی کے معنی صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبر پانے والا ہو اور شرف مکالمہ ومخاطبہ الٰہیہ سے مشرف ہو۔ شریعت کا لانا اس کے لئے ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ صاحب شریعت رسول کا متبع ہو۔ بلکہ فساد اس حالت میں لازم آتا ہے کہ اس امت کو آنحضرتa کے بعد قیامت تک مکالمات الٰہیہ سے بے نصیب قرار دیا جاوے۔ وہ دین، دین نہیں۔ نہ وہ نبی، نبی ہے۔ جس کی متابعت سے انسان خداتعالیٰ سے اس قدر نزدیک نہیں ہو 2148سکتا کہ مکالمات الٰہیہ سے مشرف ہو سکے۔ وہ دین لعنتی اور قابل نفرت ہے جو یہ سکھلاتا ہے کہ صرف چند منقولی باتوں پر انسانی ترقیات کا انحصار ہے اور وحی الٰہی آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی۔ اگر کوئی آواز بھی غیب سے کسی کے کان تک پہنچتی ہے تو وہ ایسی مشتبہ آواز ہے کہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ خدائی آواز ہے یا شیطان کی۔ سو ایسا دین بہ نسبت اس کے کہ اس کو رحمانی کہیں شیطانی کہلانے کا زیادہ مستحق ہے۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ ص۱۳۸،۱۳۹، خزائن ج۲۱ ص۳۰۶)
۹… ’’سچا خداوہی خدا ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔‘‘
(دافع البلاء ص۱۱، خزائن ج۱۸ ص۲۳۱)
۱۰… ’’اور مجھے بتلایا گیا تھا کہ تیری خبر قرآن وحدیث میں موجود ہے اور تو ہی اس آیت کا مصداق ہے۔ ہو الذی ارسل رسولہ بالہدیٰ… الخ! ‘‘ (اعجاز احمدی ص۷، خزائن ج۱۹ ص۱۱۳)
۱۱… ’’میں صرف پنجاب کے لئے ہی مبعوث نہیں ہوا ہوں بلکہ جہاں تک دنیا کی آبادی ہے ان سب کی اصلاح کے واسطے مامور ہوں۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۹۳ حاشیہ، خزائن ج۲۲ ص۲۰۰)
۱۲… ’’یہ نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اپنے دعویٰ کے انکار کرنے والے کو کافر کہنا یہ صرف ان نبیوں کی شان ہے جو خداتعالیٰ کی طرف سے شریعت اور احکام جدیدہ لاتے ہیں۔ لیکن صاحب شریعت کے سوا جس قدر ملہم، محدث ہیں۔ گو وہ کیسے ہی جناب الٰہی میں شان اعلیٰ رکھتے ہوں اور خلعت مکالمہ الٰہیہ سے سرفراز ہوں ان کے انکار سے کوئی کافر نہیں بن جاتا۔‘‘
(تریاق القلوب ص۱۳۱، خزائن ج۱۵ ص۴۳۲)
۱۳… (حقیقت الوحی ص۱۰۳ حاشیہ، خزائن ج۲۲ ص۱۰۶) پر عبارت ذیل جاء نی آئیل… واشار کے تحت ایک نوٹ ہے جس میں لکھا ہے کہ ’’اس جگہ آئیل خداتعالیٰ نے جبرائیل کا نام رکھا ہے۔ اس لئے باربار رجوع کرتا ہے۔‘‘
۱۴… ’’غرض اس حصہ کثیر وحی الٰہی اور امور غیبیہ میں اس امت میں سے میں ہی ایک فرد 2149مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء ابدال اور اقطاب اس امت میں سے گذر چکے ہیں۔ ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا۔ پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیاگیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں ہیں۔ کیونکہ کثرت وحی اور کثرت امور غیبیہ اس میں شرط ہے اور وہ شرط ان میں پائی نہیں جاتی۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۳۹۱، خزائن ج۲۲ ص۴۰۶،۴۰۷)
۱۵… ’’حسب تصریح قرآن کریم، رسول اس کو کہتے ہیں کہ جس نے احکام وعقائد دین جبرائیل کے ذریعہ سے حاصل کئے ہوں۔‘‘ (ازالتہ الاوہام ص۵۳۴، خزائن ج۳ ص۳۸۷)
۱۶… ایک وحی باالفاظ ذیل درج ہے۔ محمد رسول اﷲ اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ ’’اس وحی میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسول بھی۔‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ ص۱، خزائن ج۱۸ ص۲۰۷)
۱۷… (حقیقت الوحی ص۲۸، خزائن ج۲۲ ص۳۰) پر لکھتے ہیں۔ ’’مگر ظلی نبوۃ جس کے معنی ہیں کہ محض فیض محمدی سے وحی پانا وہ قیامت تک باقی رہے گی۔‘‘
۱۸… (کتاب حق الیقین ص۱۰۲) پر مرزاصاحب کا یہ قول نقل کیاگیا ہے کہ ’’علماء کو نبوۃ کا مفہوم سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے۔ قرآن کریم میں جو خاتم النّبیین کا لفظ آیا ہے جس پر الف، لام پڑے ہیں۔ اس سے بھی صاف معلوم ہوتا ہے کہ شریعت لانے والی نبوۃ اب بند ہو چکی ہے۔ پس اگر کوئی نئی شریعت کا مدعی ہوگا وہ کافر ہے۔‘‘