2103علماء اور اکابرین ملت کی طرف سے اس فیصلے کا خیرمقدم
2104’’چودھویں صدی کے آغاز میں جب مرزائے قادیان نے نبوت کا دعویٰ کیا تو مشرق اور مغرب کے علماء نے اس کے کفر اور ارتداد کا فتویٰ دیا۔ اس سلسلہ میں تیس پینتیس سال قبل یہ مسئلہ بہاول پور کی عدالت میں پیش ہوا جس پر حضرت مولانا انور شاہ صاحب کشمیری سابق صدر المدرس دارالعلوم دیوبند اور دیگر اکابر علماء ہند نے اس سلسلہ میں اپنے بیانات عدالت میں پیش کر کے جس میں مرزائے قادیان کے وجوہ کفر کو بیان کیا جن کا حاصل یہ تھا کہ مرزائے قادیان اگر بالفرض والتقدیر نبوت کا دعویٰ نہ بھی کرتا تب بھی قطعاً وہ دائرہ اسلام سے خارج تھا۔
فاضل محترم جسٹس محمد اکبر صاحب (بہاول پور) نور اﷲ مرقدہ نے نہایت عاقلانہ، عادلانہ اور دانشمندانہ فیصلہ صادر فرمایا کہ مدعی نبوت اور اس کے پیروکار قطعاً دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور یہ مسلمانوں میں شرعی طور پر کوئی ازدواجی تعلق قائم نہیں کر سکتے۔ بحمدہ تعالیٰ فاضل جج کا یہ فیصلہ قانون شریعت کے بھی مطابق تھا اور قانون حکومت کے بھی مطابق تھا جو شرعی اور قانونی حیثیت سے اس درجہ مستحکم اور مضبوط تھا کہ آئندہ کسی کو بھی یہ جرأت نہ ہوئی کہ اس محکم فیصلہ پر کوئی نقد اور تبصرہ کر سکے یا کسی بالائی عدالت میں اس کی اپیل کر سکے۔ اس لئے کہ وہ فیصلہ اس درجہ محکم اور قول فیصل اور اٹل تھا کہ اس میں انگلی رکھنے کی گنجائش نہ تھی۔‘‘
محمد ادریس کاندھلوی!
2105’’مجھے یہ معلوم کر کے بڑی مسرت ہوئی ہے کہ جناب محمد اکبر خاں صاحب بی۔اے، ایل۔ایل۔بی ڈسٹرکٹ جج بہاول پور کا مشہور ومعروف فیصلہ جس میں قادیانیوں کو کافر اور خارج ازدائرہ اسلام قرار دیا گیا تھا۔ دوبارہ اشاعت پذیر ہورہا ہے۔
یہ ایک واشگاف حقیقت ہے جس پر امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ جو شخص سیدنا محمدﷺ کے بعد منصب نبوت پر فائز ہونے کا مدعی ہو اور جو اس دعوے کو تسلیم کرے وہ دونوں بلاشک وشبہ ادّعائے اسلام کے باوجود کافر ومرتد ہیں۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ اس مسئلے کے دینی وعلمی پہلوؤں کو برابر واضح کیا جاتا رہے۔ عدالت بہاول پور کا یہ فیصلہ اس لحاظ سے بڑی اہمیت وافادیت کا حامل ہے۔ یہ ارتداد زوج کی بناء پر فسخ نکاح کے ایک استغاثے کا تصفیہ تھا جو تقریباً تین سال زیر سماعت رہا۔ اس میں مسلمانوں اور قادیانیوں کی جانب سے اپنے اپنے مؤقف کو پورے دلائل وشواہد کے ساتھ پیش کیاگیا۔ ان کے مشاہیر علماء وفضلاء بطور گواہ پیش ہوئے اور فاضل جج نے پوری تحقیق وتدقیق کے بعد یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ قادیانی اپنے عقائد واعمال کی بناء پر مسلمان نہیں بلکہ کافر ہیں۔ یہ قیمتی دستاویز طبع ہونے کے بعد ایک عرصہ دراز سے نایاب تھی۔میری دعا ہے کہ یہ سعی مسلمان اور قادیانی سب کے لئے باعث رشد وہدایت ثابت ہو۔ آمین!‘‘
ابوالاعلیٰ مودودی
۵۔اے ذیلدار پارک، اچھرہ
2106’’اس فیصلہ نے مسلمانوں کو قادیانیت کے عزائم وعقائد سے نہ صرف آگاہ کیا ہے بلکہ مرزائیت اپنے حقیقی خط وخال سمیت آشکار ہوئی ہے۔ یہ فیصلہ برعظیم کے مسلمانوں کی ذہنی سرگذشت میں ہمیشہ یاد گاررہے گا اور جب کبھی پاکستان کے قوانین کی شکل اسلامی ہوگی۔ اس فیصلہ کا بہت زیادہ احترام کیا جائے گا۔ بلکہ یہ فیصلہ مشعل راہ ہوگا۔ ملت اسلامیہ جسٹس محمد اکبر خان مرحوم (بہاول پور) کے اس فیصلہ کی شکر گزار ہے۔ اﷲتعالیٰ ان کی بال بال مغفرت کریں اور کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائیں۔‘‘
آغا شورش کاشمیری
’’یہ معرکہ آراء فیصلہ محمد اکبر خاں کا تحریر کردہ ہے۔ اس فیصلہ میں جج صاحب مرحوم نے بڑی شرح وبسط کے ساتھ مرزائیت کے خارج از اسلام ہونے کے دلائل درج کئے ہیں اور مرزائی لٹریچر سے ان کے کفر وارتداد کا ثبوت بہم پہنچایا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ فیصلہ مرزائیت کے موضوع پر لکھی گئی کئی ایک کتب پر بھاری ہے۔‘‘
احسان الٰہی ظہیر
2107’’تکمیل دین اور ختم نبوت مترادف حقائق ہیں اور اسلام کی ابدیت اور تکمیل کا مدار انہی دواصولوں پرہے۔ مبارک ہیں وہ لوگ جنہوںنے اسلام کے اس بنیادی مسئلہ کے تحفظ کے لئے مختلف ذرائع سے حسب مقدور خدمات انجام دیں۔ اس سلسلہ میں جناب محمد اکبر صاحبؒ ڈسٹرکٹ جج بہاول پور کا تاریخی فیصلہ اپنی نوعیت کا منفرد اقدام ہے مرحوم ومغفور اپنی جرأت ایمانی سے اپنی نجات کا سامان کر گئے اور تاابدامت مسلمہ کے لئے ایسی شمع فروزاں چھوڑ گئے جو انشاء اﷲ العزیز رہتی دنیا تک حق وصداقت کی روشنی پھیلاتی رہے گی۔ ضرورت ہے کہ اس تاریخی فیصلہ کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کی جائے۔‘‘
سید فیض الحسن
’’ختم نبوت کا مسئلہ ضروریات دین سے ہے۔ افسوس ہے کہ ایسے مسئلہ کو لوگوں نے اخلاقی مسئلہ قرار دے کر اس میں بحث وتمحیص شروع کر دی۔ جس سے گمراہی کا دروازہ کھل گیا اور فتنہ ارتداد زور پکڑ گیا۔ اس ماحول میں اہل علم کی خدمات یقینا قابل قدر ہیں۔ لیکن محترم جج اکبر صاحبؒ کا کارنامہ اس سلسلہ میں بے حد قابل ستائش ہے اور اسلامی تاریخ میں آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔‘‘
سید احمدسعید کاظمی
2108’’فیصلہ مقدمہ بہاول پور مسلمانوں کے لئے روشنی کا مینار ہے۔ عقیدۂ ختم نبوت اسلام کا بنیادی تصور ہے اور بے شک جو حضور سرور عالمﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ ملت اسلامیہ کو اس فتنہ عظیمہ سے بچانا اسلام کی عظیم خدمت ہے۔‘‘
سید محمود احمد رضوی!
’’فیصلہ مقدمہ بہاول پور عہد صادق کا اہم ترین واقعہ ہے۔ اس مقدمہ کی پیروی سید انور شاہ صاحبؒ، حضرت مولانا غلام محمد گھوٹویؒ اور سید عطاء اﷲ شاہ صاحب بخاریؒ جیسے نامور علماء نے کی۔ ان کی فقید المثال توجہ اور تاریخ ساز کوششوں نے قادیانیت کے سومنات کو ریزہ ریزہ کر دیا۔ یہ فیصلہ جسٹس محمد اکبر کے مثالی انہماک غیرمعمولی استعداد اور قابل تحسین استقامت کا نتیجہ ہے۔ اس فیصلہ سے قادیانیت کی گمراہ کن حیثیت ہمیشہ کے لئے آشکار ہوگئی ہے۔
برگیڈیئر نذیر علی شاہ
2109’
’الحمد ﷲ وحدہ والصلوٰۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ
…جج محمد اکبر نور اﷲ مرقدہ کی عدالت میں فسخ نکاح کامقدمہ دائر ہوا۔ جس میں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ قادیانی کا نکاح مسلمان عورت سے بوجہ ارتداد قادیانیوں کے واجب الفسخ ہے یا نہیں۔ اس ضمن میں قادیانیوں کے مرتد ہونے کا مسئلہ زیربحث آیا۔ فریقین کے ماہرین مذہب جمع ہوئے۔ مفصل دلائل نقلیہ وعقلیہ قلمبند ہونے کے بعد قادیانیوں کے ارتداد کا حکم جناب جج صاحب موصوف نے صادر فرمایا اور فسخ کا فیصلہ دیا۔ اس فیصلہ کا کچھ تعلق انکار ختم نبوت سے تھا۔ جس پر قرآن پاک کی متعدد آیات اور بیشمار احادیث صحیحہ اور اجماع امت کے اس قدر دلائل موجود ہیں کہ توحید باری تعالیٰ کے علاوہ کسی مسئلے پر اس قدر دلائل نہیں۔ اسلام میں سینکڑوں گمراہ اسلامی فرقے پیدا ہوئے۔ لیکن مسئلہ ختم نبوت پر سب کا اتفاق رہا اور اس لئے دشمنان اسلام، اسلام کی اس بنیادی عمارت میں شگاف ڈالنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ حضور علیہ السلام کے وقت سے لے کر اب تک جو ۱۳۹۳ھ ربیع الاوّل اور ۱۹۷۳ء اپریل ہے۔ پوری امت مسلمہ تقریباً چودہ سو سال سے اس عقیدہ پر متفق اور قائم ہے جس کی وجہ سے اسلام کے اصلی عقائد زندہ ہیں کہ حضور علیہ السلام کے بعد نبوت کا عہدہ دیا جانا بند ہے اور مدعی نبوت اور اس کے ماننے والے مرتد اور خارج از اسلام ہیں۔ چاہے وہ اسلام کا دعویٰ بھی کریں جیسے صرف دعویٰ سے کوئی شخص کمشنر، ڈپٹی کمشنر، تحصیلدار، تھانیدار حتیٰ کہ سرکاری چپڑاسی اگر ان عہدوں کا دعویٰ کرے اور حکومت کی لسٹ میں نام نہ ہو اور حکومت ان دعویٰ داروں کو جھوٹا قرار دیتی ہو (تو جعلی مدعیان منصب دنیوی کا دعویٰ ثابت نہیں ہوسکتا) تو پھر اسلام کے 2110دعویٰ سے ایک آدمی بغیر حقیقت اسلام کے محقق ہونے کے کیسے مسلم ہو سکتا ہے۔ جب کہ حقیقت اسلام کا بنیادی عقیدہ اس میں موجود نہ ہو اور ظاہری اسلام کی کچھ نشانیاں بھی اس میں موجود ہوں۔ جیسے گھوڑے کی تصویر یا فوٹوa حقیقی گھوڑا نہیں ہوسکتا اور نہ بگھی کھینچ سکتا ہے۔ کیونکہ یہ حقیقی گھوڑے کا کام ہے۔ ملت کے عملی اتحاد کے لئے فکری اتحاد ضروری ہے اور مستحکم فکر کی بنیاد عقیدہ ہے۔ جب یہ بنیاد ہل جائے تو مسلم قوم وملت کی عمارت دھڑام سے گر جائے گی۔ اس لئے وحدت ملت ختم نبوت سے وابستہ ہے۔ اقبال مرحوم نے صحیح فرمایا ہے ؎
لا نبی بعدی زاحسان خداست
پردۂ ناموس دین مصطفیٰ است
تانہ ایں وحدت زدست ماردو
ہستی مابا ابد ہمدم شود
اس سے واضح ہوا کہ استحکام پاکستان کی نظریاتی وحدت اسلام اور ختم نبوت ہے۔ جو ۹۵کروڑ مسلمانوں کے عقیدہ سے الگ دین قائم کریں جس میں قرآن وحدیث خدا اور رسول کی تکذیب اور توہین ہو وہ اسلامی قلعے میں نقب لگانے والے ہیں اور خارج از اسلام ہیں۔ اس سلسلہ میں مقدمہ بہاولپور تاریخی کارنامہ ہے۔‘‘
شمس الحق افغانی عفی عنہ
2111’’فیصلہ مقدمہ بہاول پور امت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی متفقہ کوششوں اور کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ مولانا سید انور شاہ صاحبؒ، مولانا غلام محمد صاحبؒ گھوٹوی، مولانا محمد صادق صاحبؒ بہاولپور اور جناب جسٹس محمد اکبر صاحبؒ کی ارواح مقدسہ کو اﷲتعالیٰ نے بلاشبہ اعلیٰ علیین میں مقام علیا سے نوازا ہوگا۔ انہوں نے امت مرحومہ پر جو احسان کیا وہ رہتی دنیا کے مسلمانوں پر یکساں ہے۔ اﷲتعالیٰ ہر مسلمان کو خاتم الانبیاء کے خصوصی مقام اور عظمت کو سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین!‘‘
محمد عبدالقادر آزاد
خطیب بادشاہی مسجد ومفتی پنجاب
نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
اگر کوئی مسلمان ہے تو وہ فیصلہ مقدمہ بہاول پور کے متعلق دوسری رائے نہیں رکھ سکتا۔ حضرت مولانا سید انور شاہ صاحب کاشمیریؒ اوردوسرے بزرگوں اور علماء نے اس مقدمہ کی پیروی کر کے دین اسلام کی ایک گرانقدر خدمت انجام دی تھی۔ اﷲتعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
محمد احمد عفی عنہ، میرواعظ کشمیر
2112’’انشاء اﷲ جب یہ فیصلہ کتابی صورت میں شائع ہوا تو عقیدہ ختم نبوت کے بارے میں انشراح قلب اور باعث رشد وہدایت ثابت ہو گا۔‘‘
فقیر محبوب الرحمن عفی اﷲ عنہ
عید گاہ، راولپنڈی
’’تمام علمائے اسلام کا متفقہ فتویٰ ہے کہ حضور اکرم خاتم النّبیینﷺ کے بعد کسی قسم کی نبوت کو جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ایسا دعویٰ کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ پاک وہند میں مرزاغلام احمد قادیانی کے ماننے والے مسلمانوں سے علیحدہ جماعت ہیں۔ اس کی پوری روئیداد جسٹس محمد اکبر خاں صاحب سابق ریاست بہاول پور کے مفصل ومدلل فیصلہ میں موجود ہے۔ یہ فیصلہ عوام وخواص مسلمین کے لئے مشعل ہدایت ہے۔‘‘
مفتی محمد حسین نعیمی ناظم دارالعلوم
جامع نعیمیہ لاہور
2113بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
ختم نبوت کے متعلق میرا عقیدہ یہ ہے۔ رسول اﷲﷺ کا دین دو پہلوؤں پر مشتمل ہے۔ ایک ظاہری یعنی عقلی فکری ونظری پہلو ہے اور دوسرا روحانی یعنی عقلی عالم سے بالاتر۔ میرے خیال میں ظاہری پہلو کی بنیاد ہمارے دین میں روحانی پہلو پر ہے۔ ورنہ کسی نبی یا پیغمبر کی شاید ضرورت نہ ہوتی۔ ظاہری پہلو کی حیثیت اسباب سفر کی سی ہے اور روحانی کی حیثیت ایک منزل کی۔ یعنی اسباب سفر کا تعین منزل یا مقصد کے اعتبار سے کیاگیا ہے۔ حضور اکرمﷺ کے آخری نبی ہونے کے بارے میں عقلی استدلال میں شکوک واوہام کا اثر تو ملتا ہے۔ لیکن دوسرے پہلو میں کوئی ایک بھی استثناء موجود نہیں ہے۔ میں نے اس میں جتنا غور کیا ہے میں بلا استثناء ہمیشہ اسی ایک نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جو شخص جناب محمد رسول اﷲﷺ کو خدا کا آخری نبی یعنی آپ کے اس ارشاد کو کہ ’’لا نبی بعدی‘‘ کو دل وجان سے نہیں مانتا وہ مسلمان نہیں ہوسکتا۔ عقلی فتویٰ کچھ ہو لیکن حقیقی بات یہی ہے۔
کتاب زیر نظر میں بھی ایک صاحب عقیدہ مسلمان نے ایمانی جرأت کا مظاہرہ کیا اور ساتھ ہی عقل وفکر کی رائے کو بھی دریافت کر کے صحیح فیصلہ دیا۔ مرحوم کا یہ فیصلہ ایک صدقہ جاریہ ہے۔ اﷲتعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو عقیدے کی پختگی عطاء فرمائے۔ آمین!‘‘
محمد عبدالقیوم
صدر آزاد کشمیر، ایوان صدر، مظفر آباد
2114بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
’’
الحمد ﷲ وحدہ والصلوٰۃ علیٰ من لا نبی بعدہ
…آج سے تقریباً ۴۰سال پہلے مرزاغلام احمد قادیانی کا دجل وفریب انگریز کے منحوس سایہ میں پروان چڑھ رہا تھا۔ فتنہ قادیانیت سے انگریزی پڑھا لکھا طبقہ نہ صرف یہ کہ ناواقف تھا بلکہ مدعی نبوت مرزغلام احمد قادیانی کی تعریف وتائید کرتا تھا۔ اس کے علاوہ تاج برطانیہ اور وائسرائے ہند کے زیراثر تمام طاقتوں کی سرپرستی اس فتنہ ارتداد کو حاصل تھی۔ ایسے وقت میں محترم محمد اکبر صاحب مرحوم ومغفور (بہاول پور) نے برصغیر کے چوٹی کے علماء خصوصاً محدث اعظم حضرت مولانا سید انور شاہ صاحب کشمیریؒ کے دلائل سننے کے بعد جرأت ایمانی اور عقیدہ ختم نبوت پر کامل ایمان کا مظاہرہ کرتے ہوئے مرزاغلام احمد قادیانی کو کاذب اور اس کے ماننے والوں کو مرتد اور خارج از اسلام قرار دے کر فیصلہ بہاول پور کے نام سے وہ تاریخی فیصلہ کیا ہے جو مسلمانوں کے لئے ہمیشہ مشعل راہ رہے گا اور جس کی پیروی کرتے ہوئے انہیں کے ہم نام دوسرے محمد اکبر صاحب اور اب سندھ کے کسی جج نے بھی یہی فیصلے کئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مرحوم محمد اکبر صاحب بہاول پور والے اس تاریخ کے سنہرے باب کے حروف اوّل اور آخر سمجھے جائیں گے۔ اس فیصلے کی دوبارہ اشاعت نہایت مستحسن اقدام ہے۔ قانون دان اور نئی نسل اس سے روشنی حاصل کریں گے۔ خدا مرحوم کو تاجدار مدینہ کے قدموں میں مجھ سمیت جگہ نصیب فرمائے۔ آمین!‘‘
خادم عبدالحکیم عفی اﷲ عنہ، (ممبر قومی اسمبلی پاکستان)
مدرسہ فرقانیہ مدنیہ راولپنڈی
2115بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
حضور سرکار دوعالمﷺ بلاشک وشبہ خاتم النّبیین ہیں اور تمام امت کا اس بات پر اجماع رہا ہے کہ حضور محمد رسول اﷲﷺ کے بعد کوئی ظلی، بروزی اور کسی بھی قسم کا نبی نہیں آسکتا اور تاقیامت دروازۂ نبوت آپﷺ پر بند کر دیا گیا ہے۔ اس نازک دور میں جب طرح طرح کے فتنے اسلام کے خلاف سراٹھا رہے ہیں، فتنہ مرزائیت کے لئے اور اس کے سد باب کے لئے اپنا وقت پیسہ اور ہمت کا صرف کرنا باعث اجر ہے۔
حقیر مفتی محمد مختار احمد خطیب سیالکوٹ
2116باسمہ تعالیٰ!
الحمد ﷲ وحدہ لا شریک لہ والصلوٰۃ والسلام علیٰ سیدنا محمد خاتم النّبیین الذی لا نبی بعدہ وعلیٰ اصحابہ وازواجہ وذریتہ الذین نشروا ہداہ واتبعوا ہدیہ۰ اما بعد!
ختم نبوت کا عقیدہ اہل اسلام کا متفقہ عقیدہ ہے۔ جس سے انکارکی جرأت فرق باطلہ کو بھی نہ ہوسکی اور چودہ سو برس سے اب تک جتنے اسلامی فرقے وجود میں آئے سب نے اس عقیدہ کا اقرار کیا ہے اور تسلیم کیا ہے۔ اس کا شمار ضروریات دین میں ہے۔ یعنی اس کا اسلامی عقیدہ ہونا اس قدر روشن ہے کہ کسی مسلمان کو اس میں شک وشبہ نہیں ہو سکتا اور یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ ضروریات دین میں سے کسی بات کا انکار یا اس میں شک اسلام سے بغاوت اور کفر خالص ہے۔ نیز یہ کہ اس میں تاویل بھی قائل کو کفر سے نہیں بچا سکتی۔ جس طرح اس کا منکر کافر ہے۔ اسی طرح اس کا مؤول بھی کافر ہے۔ سچ یہ ہے کہ ختم نبوت کا مفہوم سمجھ لینے کے بعد کوئی شخص بھی جو مسلمان ہونے کا مدعی ہے اس کے انکار یا اس کی تاویل کی جرأت نہیں کر سکتا۔ بہت سیدھی سادی بات ہے کہ نبوت کی ابتداء حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی اور محمد مصطفیٰﷺ پر نبوت ختم ہوئی اور اب اس دور میں اس فتنے کا سدباب بھی مسلمانوں کے فرائض میں ایک اہم فریضہ بلکہ راہ نجات یہی ہے اور یہ کتاب جو مسلمانوں کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے اور ایک 2117صدقہ جاریہ ہے۔ اﷲتعالیٰ جملہ مسلمانوںکو اس فتنہ کو روکنے کے لئے ہمت دے۔ آمین ثم آمین!‘‘
سید محمد شمس الدین
(ڈپٹی سپیکر صوبائی اسمبلی بلوچستان)