ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
امیرامان اﷲ خان نے نادانی سے انگریزوں کے خلاف جنگ شروع کی
میاں محمود احمد نے اپنے خطبہ جمعہ مطبوعہ الفضل ج۶، مورخہ ۲۷؍مئی ۱۹۱۹ء میں کہا:
’’اس وقت (بعہد شاہ امان اﷲ خان) جو کابل نے انگریزوں کے ساتھ جنگ شروع کی ہے نادانی ہے۔ احمدیوں کا فرض ہے کہ گورنمنٹ کی خدمت کریں۔ کیونکہ گورنمنٹ کی اطاعت ہمارا فرض ہے۔ لیکن افغانستان کی جنگ احمدیوں کے لئے ایک نئی حیثیت رکھتی ہے۔ کیونکہ کابل وہ زمین ہے جہاں ہمارے نہایت قیمتی وجود مارے گئے اور ظلم سے مارے گئے… اور بے سبب اور بلاوجہ مارے گئے۔ پس کابل وہ جگہ ہے جہاں احمدیت کی تبلیغ منع ہے اور اس پر صداقت کے دروازے بند ہیں۔ اس لئے صداقت کے قیام کے لئے گورنمنٹ برطانیہ کی فوج میں شامل ہوکر ان ظالمانہ روکوں کو دفع کرنے کے لئے گورنمنٹ برطانیہ کی مدد کرنا احمدیوں کا مذہبی فرض ہے۔ پس کوشش کرو کہ تمہارے ذریعہ سے وہ شاخیں پیدا ہوں۔ جن کی مسیح موعود نے اطلاع دی۔‘‘
جنگ کابل میں مرزائیوں کی انگریزوں کو معقول امداد
جب کابل کے ساتھ جنگ ہوئی تب بھی ہماری جماعت نے اپنی طاقت سے بڑھ کر مدد دی اور علاوہ کئی قسم کی خدمات سرانجام دیں۔ ایک ڈبل کمپنی پیش کی، 2060بھرتی بوجہ جنگ ہونے کے رک گئی۔ ورنہ ایک ہزار سے زائد آدمی اس کے لئے نام لکھوا چکے ہیں اور خود ہمارے سلسلے کے بانی کے چھوٹے صاحبزادے اور ہمارے موجودہ امام کے چھوٹے بھائی نے اپنی خدمات پیش کیں اور چھ ماہ تک ٹرانسپورٹ کور میں آنریری طور پر کام کرتے رہے۔
افریقہ دنیا کا واحد براعظم ہے۔ جہاں سے برٹش ایمپائر نے اپنا پنجہ استبداد سب سے آخر میں اٹھایا اور آج تک کچھ علاقے برطانوی سامراجی اثرات کے تابع ہیں۔ مغربی افریقہ میں قادیانیوں نے ابتداء ہی سے برطانوی سامراج کے لئے اڈے قائم کئے اور ان کے لئے جاسوسی کی۔ ’’دی کیمبرج ہسٹری آف اسلام‘‘ مطبوعہ ۱۹۷۰ء میں مذکور ہے۔
"The Ahmadiyya first appeared on the west African coast during the first world war, when several young men in lagus and free town joined by mail. In 1921 the first Indian Missionarry arrived. Too unorthodou to gain a footing in the Muslim interior, the Ahmadiyya remain confined principally to southern Nigeria, southern Gold coast sierraleone. It Strengthened the Ranks of those Muslims actively loyal to the British, and it contributed to the modernization of Islamic Organization in the area." (The Cambridge History of Islam vol-11 edited by Holt, Lambton, and lewis, Cambridge University press, 1970, p-400)
ترجمہ: ’’پہلی جنگ عظیم کے دوران احمدی فرقہ کے لوگ مغربی افریقہ کے ساحل تک پہنچے۔ جہاں لاگوس اور فری ٹاؤن کے چند نوجوان ان تک پہنچے۔ ۱۹۲۱ء میں پہلی ہندوستانی مشنری وہاں آئی۔ اگرچہ یہ لوگ کسی عقیدہ کا پرچار نہیں کر سکے لیکن ان کا ارادہ مسلم آبادی کے اندرونی علاقوں 2061میں قدم جمانا تھا۔ یہ لوگ زیادہ تر جنوبی نائیجیریا، جنوبی گولڈ کوسٹ اور سیرالیون میں سرگرم عمل رہے۔ ان لوگوں نے ان مسلمان دستوں کو مضبوط کیا جو کہ مملکت برطانیہ کے حد درجہ وفادار تھے اور ان علاقوں میں اسلام کو جدید تقاضوں سے ہمکنار کرتے رہے۔‘‘
اس اقتباس سے صاف ظاہر ہے کہ قادیانی ۱۹۲۱ء کے بعد زیادہ تر جنوبی گولڈ کوسٹ اور سیرالیون میں سمٹے رہے اور غلام ہندوستان کی طرح یہاں کے مسلمانوں کو برطانوی اطاعت اور عقیدہ جہاد کی ممانعت کی تبلیغ کر کے برطانیہ سے وفاداریوں کو مضبوط بنانے کی کوشش کی گئی۔ حال ہی میں قادیانیوں نے ’’افریقہ سپیکسں‘‘ کے نام سے مرزاناصر احمد کے دورۂ افریقہ کی جو روئیداد چھاپی ہے وہ افریقہ میں قادیانی ریشہ دوانیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس میں یہ عبارت خاص طور پر قابل غور ہے۔
"One of the Main points of Ghulam Ahmad's has been rejection of "Holy Wars" and forcible conversion." (Africa Speaks page-93, published by Majlis Nusrat Jahan Tahrik-i-Jadid Rabwah.)
یعنی غلام احمد کے اہم معتقدات میں سے ایک مقدس جنگ (جہاد) کا انکار ہے۔ آخر ماریشس ایک افریقی جزیرہ ہے۔ ۱۹۶۷ء میں یہاںسے ’’دی مسلم ان ماریشس‘‘ یعنی ماریشس میں مسلمان کے نام سے جناب ممتاز عمریت کی ایک کتاب شائع ہوئی۔ جس کا دیباچہ ماریشس کے وزیراعظم نے لکھا۔ کتاب میں فاضل مصنف نے بڑی محنت سے قادیانیوں کی ایسی تخریبی سرگرمیوں کا ذکر کیا جو مسلمانوں کے لئے تکالیف کا باعث بن رہی ہیں۔ انہوں نے اس سلسلہ میں مسلمانوں کی طرف سے دائر کردہ ایک مقدمہ کا ذکر کیا ہے۔ مسجد روزہل کا یہ مقدمہ بقول مصنف کے تاریخ ماریشس کا سب سے بڑا مقدمہ کہا جاتا ہے۔ جس میں دو سال تک سپریم کورٹ نے بیانات لئے، شہادتیں سنیں اور ۱۹؍نومبر ۱۹۲۰ء کو چیف جج سرائے ہرچیزوڈر نے فیصلہ دیا کہ 2062’’مسلمان الگ امت ہیں اور قادیانی الگ۔‘‘
کتاب کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ یہاں بھی ان کی آمد برطانوی فوج کی شکل میں ان کے استعماری مقاصد ہی کے لئے ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں کہ قادیانی مذہب سے تعلق رکھنے والے دو فوجی ماریشس پہنچے۔ ان میں سے ایک کا نام دین محمد اور دوسرے کا نام بابو اسماعیل خان تھا۔ وہ سترہویں رائل انفنٹری سے تعلق رکھتے تھے۔ ۱۹۱۵ء تک یہ فوجی اپنی تبلیغی کاروائیاں (فوجی ہوکر تبلیغی کارروائیاں؟ قابل غور) کرتے رہے۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے المنیر لائل پور ج۹ ش۲۲ ص۷،۸)
’’دوسال قبل افریقہ میں تبلیغ کے نام پر جو دو سکیمیں نصرت جہاں ریزرو فنڈ اور آگے بڑھو سکیم کی جاری کی گئیں۔ اس کی داغ بیل لندن ہی میں رکھی گئی اور مرزاناصر احمد نے اکاؤنٹ کھلوایا۔‘‘ (الفضل ربوہ ۲۹؍جولائی ۱۹۷۲ئ)
افریقہ میں اپنی کارکردگیوں کے بارہ میں قادیانی مبلغ برطانیہ میں مقیم ان ممالک کے ہائی کمشنروں سے رابطہ قائم کرتے رہتے ہیں اور انہیں معلومات بہم پہنچاتے ہیں۔ برطانوی وزارت خارجہ قادیانیوں کی ان تمام مشنوں کی حفاظت کرتی ہے۔
اور جب کچھ لوگ برطانوی وزارت خارجہ سے اس تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ براعظم افریقہ میں قادیانیوں کے اکثر مشن برطانوی مقبوضات ہی میں کیوں ہیں اور برطانیہ ان کی حفاظت کرتی ہے اور وہ دیگر مشنریوں سے زیادہ قادیانیوں پر مہربان ہے تو وزارت خارجہ نے جواب دیا کہ سلطنت کے مقاصد تبلیغ کے مقاصد سے مختلف ہیں۔ جواب واضح تھا کہ سامراجی طاقتیں اپنی نوآبادیات میں اپنے سیاسی مفادات اور مقاصد کو تبلیغی مقاصد پر ترجیح دیتی ہیں اور وہ کام عیسائی مبلغین سے نہیں، مرزائی مشنوں ہی سے ہوسکتا ہے۔
برطانوی مفادات کے تحفظ کے علاوہ یہ قادیانی مشن افریقہ میں اسرائیل اور صیہونیت کے بھی سب سے مضبوط اور وفادار ہر اول دستہ ہیں۔ مرزاناصر احمد صاحب نے ۱۳؍جولائی ۱۹۷۳ء سے ۲۶؍ستمبر ۱۹۷۳ء تک بیرونی ممالک کا جو دورہ کیا اس کی غرض وغایت بھی قطعاً سیاسی تھی۔ لندن مشن کے محمود ہال میں جو پوشیدہ سیاسی میٹنگیں ہوئیں ان کا مقصد افریقہ میں اسرائیل اور یورپی استعمار کے سیاسی مقاصد کی تکمیل تھی۔ (ماہنامہ الحق ج۹ ش۲ ص۲۵، ۱۹۷۳ئ) الفضل ربوہ یکم؍جولائی ۱۹۷۲ء نے لندن مشن کے پریس سیکرٹری خواجہ نذیر احمد کی اطلاع کے مطابق مغربی افریقہ کے ان ممالک کے سفیروں سے ملاقات کی گئی جن کا مرزاناصر احمد دورہ کر چکے ہیں۔
پریس سیکرٹری لکھتے ہیں: ’’مغربی افریقہ کے ان کچھ ممالک کے سفراء کو اپنی مساعی اور خدمات سے روشناس کرانے کے لئے مکرم ومحترم بشیر احمد خان رفیق امام مسجد فضل لندن نے سہ رکنی وفد کی قیادت فرماتے ہوئے جس میں مکرم چوہدری ہدایت اﷲ سینئر سیکرٹری سفارت خانہ پاکستان اور خاکسار خواجہ نذیر احمدپریس سیکرٹری مسجد فضل لندن، ہزایکسی لینسی ایچ وی ایچ سی کے ہائی کمشنر غانا متعینہ لندن سے ملاقات کی۔‘‘ (الفضل ربوہ مورخہ ۲۸؍جون ۱۹۷۲ئ)
افریقہ میں ان سرگرمیوں کی وسعت کارکردگی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب تو عالمی صیہونی تنظیم (WZO) اور اسی کی تمام ایجنسیاں اور اسرائیل کی ’’جیوش ایجنسی‘‘ کھل کر افریقہ میں قادیانیوں کو اپنے مذموم مقاصد کے آلہ کار بنانے کی خبریں عربوں کے لئے تشویش کا 2064باعث بن چکی ہیں۔ عرب اسرائیل جنگ کے بعد جن افریقی ممالک نے اسرائیل سے تعلقات توڑے قادیانیوں نے ایسے ممالک کی مخالف حکومت تحریکوں کے ساتھ مل کر ان پر سیاسی دباؤ ڈالا۔
افریقی ممالک میں ان مقاصد کے لئے لاکھوں اور کروڑوں روپے کا سرمایہ کہاں سے فراہم ہوتا ہے؟ یہ ایک معمہ ہے۔ جس نے عالم عرب کے مشہور مصنف علامہ محمد محمود الصواف کو بھی ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ وہ اپنی ایک تازہ تصنیف۔ ’’المخططات الاستعماریہ لمکا فحتہ الاسلام‘‘ کے ص۲۵۳ پر رقمطراز ہیں۔ ولا تزال ہذہ الطائفۃ الکافرۃ تعیث فی الارض فساداً وتسعیٰ جاہدۃ لحرب ومکافحۃ الاسلام فی کل میدان خاصۃً فی افریقیا ولقد وصلتنی رسالۃ من یوغندابا فریقیا الشرقیۃ ومعہا کتاب ’’حمامۃ البشریٰ‘‘ وھو من مؤلفات کذاب قادیان غلام احمد المسیح الموعود والمہدی المعہود بزعمہم وقدوزع منہ الکثیر ہناک وھو ملی بالکفر والضلال والرسالۃ التی وردتنی من 2065احد کبار الدعاۃ الاسلامین ہناک یقول فیہا:’’لقد دھانا ودھی الاسلام من القادیانیۃ شیٔ عظیم لقد استفحل امرہم جداً ونشطوا کثیراً فی دعایتہم وینفقون اموالا لا تدخل تحت الحصر ولا شک انہا اموال الاستعمار والمبشرین بل بلغنی نبایکاد یکون مؤد کداً ان ہناک جمعیۃ تبشیریۃ قویۃ مرکزہا عدیس أبابا عاصمۃ الحبشۃ وان میزانیۃ ہذہ الجمعیۃ ۳۵ ملیون دولار وأنہا مترکزۃ لمحاربۃ الاسلام‘‘
یہ کافر جماعت ہمیشہ زمین میں فساد پھیلا کر اسلام کی مخالفت ہر میدان میں کرتی چلی آرہی ہے۔ خاص کر افریقہ میں ان کی سرگرمیاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ مجھے اس سلسلہ میں مشرقی افریقہ کے یوگنڈا سے ایک خط ملا جس کے ساتھ مرزاغلام احمد کذاب کی جوان کے زعم میں مسیح اور مہدی موعود ہیں۔ کتاب حمامتہ البشریٰ تھی جو وہاں بڑی تعداد میں تقسیم کی گئی اور جو کفر اور گمراہی سے بھری پڑی ہے۔ یہ خط جو مجھے مسلمانوں کے ایک بہت بڑے داعی اور رہنما نے لکھا تھا اس میں یہ کہاگیا: ’’یہاں قادیانیوں کی روز افزوں سرگرمیاں ہمارے لئے اور اسلام کے لئے سخت تشویش کا باعث بن گئی ہیں۔ یہ لوگ یہاں اتنی دولت خرچ کر رہے ہیں جو حساب سے باہر ہے اور بلاشبہ یہ مال ودولت سامراج اور اس کے مشنری اداروں ہی کا ہوسکتا ہے۔ مجھے تو یہاں تک ثقہ اطلاع پہنچی ہے کہ وہاں حبشہ کے عدیس ابابا میں ان لوگوں کے ایک مضبوط مشن کا سالانہ بجٹ ۳۵ملین ڈالر ہے اور یہ مشن اسلام دشمنی ہی کے لئے قائم کیاگیا ہے۔‘‘
----------
[At this stage Mr. Chairman vacated the Chair which was occupied by (Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi)]
(اس مرحلہ پر مسٹر چیئرمین کی جگہ اجلاس کی صدارت ڈاکٹر مسز اشرف خاتون عباسی نے سنبھال لی)
مولوی مفتی محمود: علامہ صواف نے عدیس ابابا حبشہ کے جس مشن کے ۳۵ملین ڈالروں (پاکستانی حساب سے ۳۵کروڑ روپے) کا ذکر کیا ہے۔ معلوم نہیں پچھلے کئی سال سے حبشہ میں 2066مسلمانوں کی حسرتناک تباہی اور بربادی میں اس کا کتنا حصہ ہوگا؟ یہ راز کھل جائے تو جوبلی فنڈ سکیم کے لئے مرزاناصر احمد کے ڈیڑھ کروڑ روپیہ کی اپیل کے جواب میں نوکروڑ روپے تک جمع ہونے کے امکان کی گتھی بھی سلجھ جائے۔ جس کا مژدہ انہوں نے (الفضل ربوہ ۵؍مارچ۱۹۷۴ئ) میں اپنے پیروؤں کو سنایا ہے۔ مذکورہ تفصیل پڑھ کر سوائے اس کے اور کیا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر افریقہ ابھی تک فرنگی شاطروں کے پنجہ استبداد سے مکمل طور پر نجات حاصل نہیں کر سکا اور وہ عالمی صیہونیت کی بھی آماجگاہ بنا ہوا ہے تو اور وجوہات کے علاوہ اس کی ایک وجہ اسلام اور عالم اسلام سے دیرینہ غداری کرنے والی مرزائیوں کی جماعت بھی ہے۔
مسلمانان برصغیر کی فلاح وبہبود کی تنظیمیں اور مرزائیوں کا کردار
اب ہم برصغیر کے تحریک آزادی، مسلمانوں کی فلاح وبہبود کی تحریکوں اور قیام پاکستان کے سلسلہ میں ابتداء سے لے کر اب تک مرزائیوں کے کردار اور قیام پاکستان کے بعد ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ایک قادیانی سٹیٹ کے قیام یا بصورت دیگر اکھنڈ بھارت کے لئے ان کے خطرناک سیاسی عزائم اور سرگرمیوں کا مختصراً جائزہ لیتے ہیں۔ انگریز کے دور حکمرانی میں برصغیر میں مسلمانوں کے نشاۃ ثانیہ کے لئے جتنی بھی تحریکیں اٹھیں۔ مذکورہ تفصیلات سے بخوبی واضح ہو چکا کہ مرزائیوں نے نہ صرف انگریز کی خوشنودی کے لئے اسے نقصان پہنچایا۔ بلکہ ایسے تمام موقعوں پر جہاد آزادی ہو یا کوئی اور تحریک مرزائیوں کا کام انگریز کے لئے جاسوسی اور ان کو خفیہ معلومات فراہم کرنا اور درپردہ استعماری مقاصد کے لئے ایسی تحریکوں کو غیرمؤثر بنانا تھا۔ جہاد اور انگریزی استعمار کے سلسلہ میں ہندو بیرون ہند اس جماعت کی سرگرمیاں سابقہ تفصیلات سے سامنے آچکی ہیں۔ یہ جاسوسی سرگرمیاں اگر عرب اور مسلم ممالک میں جاری رہیں۔ تو دوسری طرف مرزاصاحب نے جب کہ علمائے حق نے ہندوستان کو دارالحرب قراردیا جمعہ وغیرہ کے نام پر شوشے چھوڑ کر ایک اشتہار برطانوی افسران کے پاس بھیجا اور انگریز حکومت کو مشورہ دیا کہ مسئلہ جمعہ کے 2067ذریعہ اس ملک کو دارالحرب قرار دینے والے نالائق نام کے بدباطن مسلمانوں کی شناخت ہوسکے گی۔ جمعہ جو عبادت کا مقدس دن تھا۔ مرزاصاحب نے اسے کمال عیاری سے بقول ان کے انگریز گورنمنٹ کے لئے ایک سچے مخبر اور کھرے اور کھوٹے کے امتیاز کا ذریعہ بنادیا۔ (مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۲۲۴ ملخص)
ایک دوسرے اشتہار ’’قابل توجہ گورنمنٹ‘‘ میں مرزاصاحب نے ایسے ایک جاسوسی کارنامے کا ذکر بڑے فخر سے کیا اور کہا: ’’چونکہ قرین مصلحت ہے کہ سرکار انگریزی کی خیرخواہی کے لئے ایسے نافہم مسلمانوں کے نام بھی نقشہ جات میں درج کئے جائیں جو درپردہ اپنے دلوں میں برٹش انڈیا کو دارالحرب قرار دیتے ہیں۔ لہٰذا یہ نقشہ اسی غرض سے تجویز کیاگیا ہے تاکہ اس میں ناحق شناس لوگوں کے نام محفوظ رہیں… ہم نے اپنی محسن گورنمنٹ کی پولیٹیکل خیر خواہی کی نیت سے… ان شریر لوگوں کے نام ضبط کئے جائیں… ایسے نقشے ایک پولیٹیکل راز کی طرح ہمارے پاس محفوظ ہیں… آگے ایسے نقشے تیار کر کے بھیجنے کا ذکر ہے۔ جس میں ایسے لوگوں کے نام معہ پتہ ونشان ہیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۲۲۷،۲۲۸)
مسلمانوں کے سیاسی حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والی تحریکات سے غداری کی ایک مثال انجمن اسلامیہ لاہور کے اس میمورنڈم سے لگائی جاسکتی ہے جو اس نے مسلمانوں کے معاشی اور تعلیمی ترقی، اردو زبان کی ترویج وغیرہ مطالبات مرتب کروانے کے سلسلہ میں مشاہیر کو روانہ کیا۔ مرزاصاحب نے مسلمانوں کے ان مطالبات کی شدومد سے مخالفت کرتے اور ایسی سرگرمیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ انگریز کے دل میں نقش وفاداری جمانا چاہئے اور کہا کہ انجمن اسلامیہ کو ایسے میمورنڈم پھیلانے کے بجائے برصغیر کے علماء سے ایسے فتویٰ حاصل کرنے چاہئیں جن میں مربی ومحسن سلطنت انگلشیہ سے جہاد کی صاف ممانعت ہو اور ان کو خطوط بھیج کر ان کی مہریں لگوا کر مکتوبات علماء ہند کے نام سے پھیلایا جائے۔ (اسلامی انجمن کی خدمت میں التماس براہین احمدیہ، خزائن ج۱ ص۱۳۹ ملخص)
2068 ۱۹۰۶ء میں جب مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔ اس وقت اس جماعت کا مقصد ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمانوں کے معاشی حقوق کے لئے جہدوجہد کرنا تھا۔ تو مرزا صاحب نے نہ صرف اس لئے شرکت سے انکار بلکہ ناپسندیدگی کا اظہار کیا کہ کل یہ جماعت انگریز کے خلاف بھی ہوسکتی ہے۔ (گورنمنٹ کی توجہ کے لائق از مرزاغلام احمد اور سیرت مسیح موعود از مرزابشیرالدین ص۴۳،۴۴)
یہی وطیرہ ان کے بعد ان کے جانشینوں کا رہا۔ ۱۹۳۱ء میں کشمیر کمیٹی کا قیام اور بالآخر مرزابشیرالدین محمود کی خفیہ سرگرمیوں سے اس کے شکست وریخت اور علامہ اقبال کا اس کمیٹی سے علیحدہ ہونا، کمیٹی کو توڑ دینا جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔ یہ سب باتیں تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ علامہ اقبال کو وثوق سے یہاں تک معلوم ہوا کہ: ’’کشمیر کمیٹی کے صدر (مرزابشیرالدین محمود) اور سیکرٹری (عبدالرحیم) دونوں وائسرائے اور اعلیٰ برطانوی حکام کو خفیہ اطلاعات بہم پہنچانے کا نیک کام بھی کرتے ہیں۔‘‘ (پنجاب کی سیاسی تحریکیں ص۲۱۰، عبداﷲملک)
یہ جاسوسی سرگرمیاں مرزائی جماعت کے ’’مقدس کام‘‘ کا اتنا اہم حصہ ہیں کہ نہ صرف برصغیر بلکہ پورے عالم اسلام میں اس کا جال تب سے لے کر اب تک بچھا ہوا ہے اور آج بھی مشرق سے لے کر مغرب تک ایشیا افریقہ اور یورپ میں مرزائی مشن مسلمانوں کے خلاف دشمنوں کے لئے انٹیلی جنس بیورو کا کام دے رہی ہیں۔ ان سرگرمیوں اور اس کے مالی ذرائع وغیرہ کا مختصراً کچھ ذکر آئے گا۔ الغرض علامہ اقبال مرحوم کے الفاظ میں مسلمانوں کی بیداری کی ایسی تمام کوششوں کی مخالفت اس لئے کی جاتی رہی کہ اصل بات یہ ہے کہ: ’’قادیانی بھی مسلمانان ہند کی سیاسی بیداری سے گھبرائے ہوئے ہیں۔ کیونکہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ مسلمانان ہند کے سیاسی نفوذ کی ترقی سے ان کا یہ مقصد یقینا فوت ہو جائے گا کہ پیغمبر عربیﷺ کی امت سے ہندوستانی پیغمبر کی ایک امت تیار کریں۔‘‘ (حرف اقبال ص۱۴۰،۱۴۱)
2069مسلمانوں سے دینی، سماجی، معاشرتی ہر قسم کے تعلقات وروابط کو قطعی حرام قرار دینے والے مذہب میں برصغیر کے اسلامی اداروں اور انجمنوں سے تعاون اور اشتراک کی گنجائش بھی تھی۔
کسی مرزائی نے کہا جب مسیح موعود کا مقصد صرف اشاعت اسلام تھا تو ہمیں دیگر مسلمان تحریکوں اور تنظیموں سے تعاون کرنا چاہئے تو سید سرور شاہ قادیانی نے الفضل قادیان ج۲ ص۷۲، مورخہ ۲۰؍جنوری ۱۹۱۵ء میں بڑی سختی سے اس کی ممانعت کی اور حلفاً کہا کہ مسیح موعود کا اپنی زندگی میں غیراحمدیوں سے کیا تعلق تھا۔ انہوں نے غیراحمدیوں سے کبھی چندہ مانگا؟ ہرگز نہیں۔ اگر یہی احمدیت تھی تو اور لوگ جو حضرت مسیح کے زمانہ میں اشاعت اسلام کے لئے اٹھے تھے۔ ان کے لئے حضرت مسیح موعود کو خوشی کا اظہار کرنا چاہئے تھا اور آپ ان کی انجمنوں میں شریک ہوتے۔ انہیں چندہ دیتے۔ مگر آپ نے کبھی اس طرح نہیں کیا۔ کسی مسلمان یتیم اور بیوہ کے لئے چندہ کی تحریک پر میاں بشیرالدین محمود سے اجازت مانگی گئی تو کہا مسلمانوں کے ساتھ مل کر چندہ دینے کی ضرورت نہیں۔ (الفضل قادیان ج۱۰ ص۴۵، ۷؍دسمبر ۱۹۲۲ئ)
اکھنڈ بھارت
ہندو اور قادیانی دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت کا احساس
سیاسیات کے تعلق سے قادیانیوں اور انگریزوں میں تو چولی دامن کا ساتھ تھا ہی، لیکن جب جدوجہد آزادی کے نتیجہ میں اور بین الاقوامی سیاسیات کی مدوجزر سے ہندوستان پر برطانوی استعمار کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی تو مرزامحمود نے جو اس وقت مرزاغلام احمد کے خلیفہ ثانی بن چکے تھے۔ کروٹ بدلی اور کانگرس کے ہمنوا بن گئے۔ ادھر ہندوسیاست اور ذہنیت بھی قادیانی تحریک کو سیاسی 2070اعتبار سے مفید مطلب پاکر اور مسلمانوں کے اندر اس کی ففتھ کالمسٹ حیثیت کو سمجھ کر اس کی حمایت اور وکالت پر اتر آئی۔ پنڈت جواہرلال نہرو نے جو اپنے آپ کو برملا سوشلسٹ اور دہریہ کہتے تھے۔ ایک ایسی جماعت کی تائید کا بیڑا اٹھایا جو اپنے کو خالص مسلمان مذہبی جماعت کہنے پر مصر تھی۔ نہرو جیسے زیرک انسان سے قادیانیوں کے درپردہ یہ سیاسی عزائم مخفی نہ رہ سکے اور انہوں نے اپنی دہریت آبی کے باوجود ماڈرن ریویو کلکتہ میں مسلمان اور احمد ازم کے عنوان سے لگاتار تین مضمون لکھے اور ڈاکٹر اقبال مرحوم سے بحث تک نوبت آئی۔ یہ بحثیں رسالوں اور اخباروں میں شائع ہوچکی ہیں۔ یہاں ان کے دہرانے کی ضرورت نہیں۔
الغرض اقبال نے انہیں سمجھایا کہ یہ لوگ اپنے برطانوی استعماری عزائم اور منصوبوں کی بناء پر نہ مسلمانوں کے مفید مطلب ہوسکتے ہیں نہ آپ کے۔ تو تب انہوں نے خاموشی اختیار کی اور جب نہرو پہلی مرتبہ انڈین نیشنل کانگریس کے لیڈر کی حیثیت سے لندن گئے تو واپسی پر انہوں نے یہ تأثر ظاہر کیا کہ جب تک اس ملک میں قادیانی فعال ہیں۔ انگریز کے خلاف جنگ آزادی کا کامیاب ہونا مشکل ہے۔ بہرحال جب تک قادیانیت کا یہ استعماری پہلو پنڈت جواہر لال کی سمجھ میں نہیں آیا۔ مسلمانوں میں مستقل پھوٹ ڈالنے کے لئے مطلوبہ صلاحیت پر پورے اترنے کے لئے ہندوؤں کی نگاہ انتخاب مسلمانوں میں سے مرزائیوں ہی پر رہی اور آج بھی قادیان کے رشتے اور اکھنڈ بھارت کے عقیدہ سے وہ انہیں جاسوس اور تخریبی سرگرمیوں کے لئے آلہ کار بنائے ہوئے ہیں۔ بہرحال جب قادیانی اور ہندوؤں دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت اور اہمیت کا احساس ہوا اور آقائے برطانیہ کا بسترہ گول ہوتا ہوا محسوس ہوا تو دیکھتے ہی دیکھتے قادیان ہندو سرگرمیوں کا مرکز بن گیا اور بقول قادیانی امت کے لاہوری ترجمان پیغام صلح ۳؍جون ۱۹۳۹ء جب ۲۹؍مئی ۱۹۳۶ء کو پنڈت جواہر لال نہرو لاہور آئے تو قادیانی امت نے اپنے خلیفہ مرزابشیرالدین محمود کے زیرہدایت اور چوہدری ظفر اﷲ کے بھائی چوہدری اسد اﷲ خان ممبر پنجاب 2071کونسل کے زیرقیادت ان کا پرجوش استقبال کیا اور اس کے بعد کانگریس قادیانی گٹھ جوڑ نے مستقل حیثیت اختیار کر لی۔
قادیان کو ارض حرم اور مکہ معظمہ کی چھاتیوں کے دودھ کو خشک بنا کر اور مسلمانوں کو تکفیر کے چھرے سے ذبح کرنے کی خوشی ہندوؤں سے بڑھ کر اور کسے ہوسکتی تھی اور جس طرح یہود نے بیت المقدس سے منہ موڑ کر سماویہ کو قبلہ بنایا۔ اسی طرح قادیانیوں نے مکہ اور مدینہ سے مسلمانوں کا رخ قادیان کی طرف موڑنا چاہا تو اس مسجد ضرار پر ہندو لیڈروں نے جی بھر کر انہیں داد دی۔ چنانچہ ڈاکٹر شنکر داس مشہور ہندو لیڈر کا بیان اس کے لئے کافی ہے۔ انہوں نے بندے ماترم میں لکھا: ’’ہندوستانی قوم پرستوں کو اگر کوئی امید کی شعاع دکھائی دیتی ہے تو وہ احمدیت کی تحریک ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمان جس قدر احمدیت کی طرف راغب ہوں گے۔ اسی طرح قادیان کو مکہ تصور کرنے لگیں گے۔ مسلمانوں میں اگر عربی تہذیب اور پان اسلامزم کا خاتمہ کر سکتی ہے تو وہ یہی احمدی تحریک ہے جس طرح ایک ہندو کے مسلمان بن جانے پر اس کی شردھا (عقیدت) رام کرشن گیتا اور رامائن سے اٹھ کر حضرت محمدﷺ قرآن مجید اور عرب کی بھومی (ارض حرم) پر منتقل ہو جاتی ہے۔ اسی طرح جب کوئی مسلمان احمدی بن جاتا ہے تو اس کا زاویہ نگاہ بھی بدل جاتا ہے۔ حضرت محمدﷺ میں اس کی عقیدت کم ہوتی چلی جاتی ہے اور جہاں پہلے اس کی خلافت عرب میں تھی اب وہ قادیان میں آجاتی ہے۔ ایک احمدی خواہ وہ دنیا کے کسی گوشہ میں بھی ہو روحانی شکتی حاصل کرنے کے لئے وہ اپنا منہ قادیان کی طرف کرتا ہے۔ پس کانگریس اور ہندو مسلمانوں سے کم ازکم جو کچھ چاہتی ہے کہ اس ملک کا مسلمان اگر ہر دوار نہیں تو قادیان کی جاترا کرے۔‘‘ (گاندھی جی کا اخبار بندے ماترم ۲۲؍اپریل ۱۹۳۲ء بحوالہ قادیانی مذہب)
2072اخبار پیغام صلح لاہور ج۲ ص۶۹، مورخہ ۲۱؍اپریل ۱۹۴۵ء کے ان الفاظ سے مزید وضاحت ہوسکتی ہے کہ: ’’ہندو اخبارات اور پولیٹیکل لیڈروں کے یہ خیالات ہندوستان کے مسلمانوں کو وضاحت سے بتارہے ہیں کہ گذشتہ دنوں قادیانی ہٹلر (مرزابشیرالدین محمود) اور کانگریس کے جواہر (جواہر لال نہرو) میں جو چھینا چھٹوں (سرگوشیاں) ہو رہی تھیں وہ اس سمجھوتہ کے بناء پر تھی کہ محمود (خلیفہ قادیان) ،مسلمانوں کی اس قوت کو توڑنے کے لئے کیا کرے گا اور کانگریس اس کے معاوضے میں کیا دے گی۔‘‘
قیام پاکستان سے قبل احمدیوں نے جس شدومد سے آخر وقت تک قیام پاکستان کی مخالفت کی اس کا اندازہ اگلی چند عبارات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اس سلسلہ میں اوّلاً تو ان کی انتہائی کوشش رہی کہ انگریز کا سایۂ عاطفت جسے وہ رحمت خداوندی سمجھتے تھے۔ کسی طرح بھی ہندوستان سے نہ ڈھلے اور جب برٹش سامراج کا سورج ہندوستان میں غروب ہونے لگا تو انہوں نے بجائے کسی مسلم ریاست کے قیام کے اپنا سارا وزن اکھنڈ بھارت کے حق میں ڈال دیا اور اس کی وجہ بنیادی طور پر یہ تھی کہ مرزائی تحریک کو مسلمانوں کے اندر کام کے لئے جس بیس کی ضرورت ہے وہ کوئی ایسی ریاست ہوسکتی ہے جو یا تو قطعی طور پر غیرمسلم ہو یا پھر بصورت دیگر کم ازکم اسلامی بھی نہ ہو۔تا کہ مسلمان قوم ایک کافر حکومت کے پنجے میں بے بس ہوکر ان کی شکار گاہ اور لقمہ تربنی رہے اور یہ اس کافر لا دینی حکومت کے پکے وفادار بن کر اس کا شکار کرتے رہیں ایک آزاد اور خود مختار مسلمان ریاست ان کے لئے بڑی سنگلاخ زمین ہے۔ جہاں ان کے مساعی ارتداد مشکل سے برگ وبار لاسکتی ہیں۔ اس کا کچھ اندازہ ان تحریرات سے بھی لگایا جاسکتا ہے جس میں مرزاصاحب نے کہا: 2073’’اگر ہم یہاں (سلطنت انگلشیہ) سے نکل جائیں تو نہ ہمارا مکہ میں گزارہ ہوسکتا ہے اور نہ قسطنطنیہ میں۔‘‘ (ملفوظات احمدیہ ج۱ ص۴۶، سلسلہ اشاعت لاہور) (تبلیغ رسالت ج۶) میں لکھتے ہیں: ’’میں اپنے اس کام کو نہ مکہ میں اچھی طرح چلا سکتا ہوں نہ مدینہ نہ روم نہ شام میں نہ ایران میں نہ کابل میں مگر اس گورنمنٹ میں جس کے اقبال کے لئے دعا کرتا ہوں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۳۷۰)
’’یہ تو سوچو کہ اگر تم اس گورنمنٹ کے سائے سے باہر نکل جاؤ تو پھر تمہارا ٹھکانا کہاں ہے؟… ہر ایک اسلامی سلطنت تمہیں قتل کرنے کے لئے دانت پیس رہی ہے۔ کیونکہ ان کی نگاہ میں تم کافر اور مرتد ٹھہر چکے ہو۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۸۴)
الفضل ۱۳؍ستمبر ۱۹۱۴ء میں مسلمانوں کی تین بڑی سلطنتوں ترکی، ایران اور افغانستان کی مثالیں دے کر سمجھایا گیا ہے کہ کسی بھی اسلامی سٹیٹ میں ہمیں اپنے مقاصد کی تکمیل کی کھلی چھٹی نہیں مل سکتی۔ ایسے ممالک میں ہمارا حشر وہی ہوسکتا ہے جو ایران میں مرزاعلی محمد باب اور سلطنت ترکی میں بہاء اﷲ اور افغانستان میں مرزائی مبلغین کا ہوا۔
ایک صاحب نے مرزابشیرالدین محمود سے انگریزوں کی سلطنت سے ہمدردی اور اس کے لئے ہر طرح ظاہری وخفیہ تعاون کے بارہ میں یہاں تک کہ جنگ میں اپنے لوگوں کو بھرتی کروا کر مدد دینے کے بارہ میں دریافت کیا تو انہوں نے اپنے مسیح موعود کے حوالے سے کہا کہ جب تک جماعت احمدیہ نظام حکومت سنبھالنے کے قابل نہیں ہوتی اس وقت تک ضروری ہے اس دیوار (انگریزوں کی حکومت) کو قائم رکھا جائے تاکہ یہ نظام ایسی طاقت (مسلمان ہی مراد ہوسکتے ہیں) کے قبضہ میں نہ چلا جائے جو احمدیت کے مفادات کے لئے زیادہ مضر اور نقصان رساں ہو۔ (الفضل قادیان مورخہ ۳؍جنوری ۱۹۴۵ئ)
یہ تھے قیام پاکستان کی مخالفت کے اصل اسباب۔
اس میں شک نہیں کہ احمدیوں کے علاوہ کچھ مسلمان بھی تحریک پاکستان سے متفق نہ تھے۔ مگر مذکورہ عبارات سے بخوبی واضح ہوگیا کہ مرزائیوں کی مخالفت اور بعض مسلمان عناصر کی مخالفت میں زمین وآسمان کا فرق تھا۔ مؤخر الذکر یعنی کچھ مسلمانوں کی انفرادی مخالفت ان کے صوابدید میں مسلمانوں کے مفاد ہی کی وجہ سے تھی۔ وہ اپنی مخالفت کے اسباب اور وجوہات بیان کرتے ہوئے تقسیم کو مسلم مفاد کے حق میں نقصان رساں اور دوسرا فریق یعنی قیام پاکستان کے داعی حضرات اسے مفید سمجھتے تھے۔ گویا دونوں کو مسلمانوں کے مفاد سے اتفاق تھا۔ طریق کار کا فرق تھا یہ ایک سیاسی اختلاف تھا جو سیاسی بصیرت پر مبنی تھا۔
جنہوں نے مخالفت کی نہ تو وہ الہام کے مدعی تھے نہ کسی وحی کے۔ نہ انہوں نے اسے مشیت الٰہی اور کسی نام نہاد نبی کی بعثت کا تقاضا سمجھ کر ایسا کیا۔ ان میں سے مذہباً اور عقیدتاً دونوں کو اسلامی نظام عدل وانصاف اور اسلامی خلافت راشدہ پرایمان تھا۔ دونوں مسلمانوں ہی کی خاطر اپنے اپنے میدانوں میں سرگرم کار رہے اور بالآخر جب پاکستان بن گیا تو مخالفت کرنے والے مسلمان زعماء نے اس وقت سے لے کر اب تک اپنی ساری جدوجہد اس نوزائیدہ ریاست کے استحکام وسالمیت میں لگادی۔ مگر جہاں تک احمدیوں کا تعلق ہے ان کا تصور اکھنڈ بھارت نہ صرف سیاسی بلکہ مذہبی عقیدہ بھی تھا۔ مرزامحمود کہا کرتے کہ اﷲتعالیٰ کی مشیت ہندوستان کو اکٹھا رکھنا چاہتی ہے اور یہ مرزاغلام احمد کی بعثت کا تقاضا ہے۔ اس طرح اکھنڈ بھارت کے تصور کو الہام اور مشیت ربانی کا درجہ دے کر ہر قادیانی کو مشیت الٰہی کو پورا کرنے کے لئے جدوجہد کا پابند کر دیا گیا اور جن لوگوں نے (اب تک) پاکستان کی سالمیت کی خاطر اکھنڈ بھارت نہ بننے دیا خواہ وہ قائداعظم تھے یا سیاسی زعماء عوام اور خواص مرزائیوں کے عقیدہ میں گویا سب نے مشیت الٰہی کے خلاف کام کیا۔
2075احمدیوں کے ہاں اکھنڈ بھارت اس لئے ضروری تھا کہ وہ اپنے آپ کو مسلمانوں سے الگ سمجھتے ہوئے کسی بھی مسلمان ریاست کے مقابلہ میں غیرمسلم اسٹیٹ کو مفید مقصد سمجھتے تھے۔ آج بھی وہ پاکستان کی شکل میں ایک مسلم ریاست جس کا جغرافیائی حدود اربعہ بھی محدود ہے کے مقابلہ میں سیکولر اکھنڈ بھارت کو اپنے لئے مضبوط اور مفید سمجھتے ہیں۔ جب کہ ان کے لئے مرزاغلام احمد کی بعض پیشین گوئیوں نے اس تصور کو تقدس کا جامہ بھی پہنا دیا ہے۔
چنانچہ ۳؍اپریل ۱۹۴۷ء کو چوہدری ظفر اﷲ خان کے بھتیجے کے نکاح کے موقعہ پر سابق خلیفہ ربوہ مرزابشیرالدین محمود نے اپنا ایک رؤیا بیان کیا اور اس رؤیا (خواب) کی تعبیر اور اس سلسلہ میں مرزاغلام احمد کی پیشین گوئیوں کا ذکر کرتے ہوئے چوہدری ظفر اﷲ خان کی موجودگی میں کہا: ’’حضور نے فرمایا جہاں تک میں نے ان پیشین گوئیوں پر نظر دوڑائی ہے جو مسیح موعود (مرزا غلام احمد) کے متعلق ہیں اور جہاں تک اﷲتعالیٰ کے اس فعل پر جو مسیح موعود (مرزاغلام احمد) کی بعثت سے وابستہ ہے، غور کیا ہے۔ میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہندوستان میں ہمیں دوسری اقوام کے ساتھ مل جل کر رہنا چاہئے اور ہندوؤں اور عیسائیوں کے ساتھ مشارکت رکھنی چاہئے۔‘‘
حقیقت یہی ہے کہ ہندوستان جیسی مضبوط بیس جس قوم کو مل جائے اس کی کامیابی میں کوئی شک نہیں رہتا۔ اﷲتعالیٰ کی اس مشیت سے کہ اس نے احمدیت کے لئے اتنی وسیع بیس مہیا کی ہے۔ پتہ لگتا ہے کہ وہ سارے ہندوستان کو ایک سٹیج پر جمع کرنا چاہتا ہے اور سب کے گلے میں احمدیت کا جوا ڈالنا چاہتا ہے۔ اس لئے ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ہندو مسلم سوال اٹھ جائے اور ساری قومیں شیروشکر ہوکر رہیں تاکہ ملک کے حصے بخرے نہ ہوں۔ بے شک یہ کام بہت مشکل ہے۔ مگر اس کے نتائج بہت شاندار ہیں اور اﷲتعالیٰ چاہتا ہے کہ ساری قومیں متحد ہوں تاکہ 2076احمدیت اس وسیع بیس پر ترقی کرے۔ چنانچہ اس رؤیا میں اس طرف اشارہ ہے ممکن ہے کہ عارضی طور پر کچھ افتراق ہو اور کچھ وقت کے لئے دونوں قومیں جدا جدا رہیں۔ مگر یہ حالت عارضی ہوگئی اور ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ جلد دور ہو جائے۔ بہرحال ہم چاہتے ہیں کہ اکھنڈ ہندوستان بنے اور ساری قومیں باہم شیروشکر ہو کر رہیں۔‘‘ (روزنامہ الفضل قادیان مورخہ ۵؍اپریل ۱۹۴۷ئ)
’’میں قبل ازیں بتاچکا ہوں کہ اﷲتعالیٰ کی مشیت ہندوستان کو اکٹھا رکھنا چاہتی ہے۔ لیکن قوموں کی منافرت کی وجہ سے عارضی طور پر الگ بھی کرنا پڑے۔ یہ اور بات ہے ہم ہندوستان کی تقسیم پر رضا مند ہوئے تو خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری سے اور پھر یہ کوشش کریں گے کہ کسی نہ کسی طرح جلد متحد ہو جائیں۔‘‘ (میاں مرزامحمود خلیفہ ربوہ الفضل ۱۷؍مئی ۱۹۴۷ئ)