ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
دعویٰ کی منظوری ایک نئے مذہبی فرقہ کے قیام کا باعث بنتی ہے جسے پہلا فرقہ اپنی جماعت سے خارج تصور کرتا ہے۔ نیا فرقہ یہ سمجھتا ہے کہ جو لوگ نئے نبی پر ایمان نہیں لائے وہ ان کے فرقہ سے خارج ہیں۔ مرزاغلام احمد نے عوام کی طرف اپنا ہاتھ اس ہدایت کے ساتھ بڑھایا کہ اسے قبول بھی کر لیا جائے۔ نبی ہونے کے متعلق مرزاغلام احمد کے دعویٰ کو مسلمان مسیلمہ کذاب کی دوسری مثال سمجھتے ہیں۔
مرزاغلام احمد نے اپنی ابتدائی تحریروں میں یہ بات بہت وضاحت کے ساتھ لکھی تھی کہ مسلمان ہونے کے لئے اسلام کے بنیادی ارکان پر ایمان ضروری ہے۔ احمدیہ فرقہ کے بانی نے اپنی کتاب (ایام صلح ص۸۷، خزائن ج۱۴ ص۳۲۳) میں خود لکھا ہے کہ: 2279’’وہ امور جو اہل سنت کی اجماعی رائے سے اسلام کہلاتے ہیں۔ ان سب کا ماننا فرض ہے۔‘‘
ایک اور کتاب (انجام آتھم ص۱۴۴، خزائن ج۱۱ ص ایضاً) میں انہوں نے یہی لکھا ہے کہ: ’’جو شخص شریعت سے ایک انچ بھی ہٹتا ہے اور ان اصولوں کو ماننے سے انکار کرتا ہے جن پر امت کا اجماع ہے خدا اور اس کے فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت کا سزاوار ہے اور یہ کہ ان کا پختہ عقیدہ ہے۔‘‘
اور اپنی کتاب (ازالہ اوہام ص۵۵۶، خزائن ج۳ ص۳۹۹) میں انہوں نے لکھا ہے: ’’تواتر ایک ایسی چیز ہے کہ اگر غیرقوموں کی تواریخ کے رو سے بھی پایا جائے تو تب بھی ہمیں قبول کرنا ہی پڑتا ہے۔‘‘
بعد میں مرزاغلام احمد نے خود اپنی نبوت کا دعویٰ کر دیا اور خود ان کی اپنی اور ان کے جانشینوں اور پیروکاروںکی تحریروں، اعلانات اور بیانات کے مطابق ان کی نبوت کی نوعیت کچھ حسب ذیل قسم کی ہے۱؎۔
۱… ’’مجھے بتلایا گیا کہ تیری خبر قرآن اور حدیث میں موجود ہے اور تو ہی اس آیت کا مصداق ہے۔ ھوالذی ارسل رسولہ بالہدیٰ ودین الحق لیظہرہ علیٰ الدین کلہ‘‘
(اعجاز احمدی ص۷، خزائن ج۱۹ ص۱۱۳)
۲… (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۳۸،۱۳۹، خزائن ج۲۱ ص۳۰۶) میں انہوں نے لکھا ہے کہ: ’’نبی کے حقیقی معنوں پر غور نہیں کی گئی۔ نبی کے معنی صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبر پانے والا ہو اور شرف مکالمہ اور مخاطبہ الٰہیہ سے مشرف ہو۔ شریعت کا لانا اس کے لئے ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ صاحب شریعت رسول کا متبع نہ ہو… اس امت کو آنحضرت ﷺ کے بعد قیامت تک مکالمات الٰہیہ سے بے نصیب قرار دیا جائے۔ وہ دین، دین نہیں ہے اور نہ وہ نبی نبی ہے۔ جس کی متابعت سے انسان خداتعالیٰ سے اس قدر نزدیک نہیں ہوسکتا… وہ دین لعنتی اور قابل نفرت ہے جو یہ سکھلاتا ہے کہ صرف چند منقولی باتوں پر انسانی ترقیات کا انحصار ہے اور وحی الٰہی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱؎ حقیقت النبوۃ کے ضمیمہ ص۲۶۱ میں انہوں نے اپنے ایک الہام کے متعلق دعویٰ کیا ہے کہ خدا نے مجھے محمد اور رسول کہہ کر خطاب کیا ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی… سو ایسا دین بنسبت اس کے کہ اس کو رحمانی کہیں شیطانی کہلانے کا زیادہ مستحق ہوتا ہے۔‘‘
۳… (دافع البلاء ص۱۱، خزائن ج۱۸ ص۲۳۱) پر انہوں نے لکھا ہے کہ: ’’سچا خدا وہی خدا ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔‘‘
۴… (حقیقت الوحی ص۱۴۹، ۱۵۰، خزائن ج۲۲ ص۱۵۳) پر انہوں نے لکھا ہے کہ: ’’اسی طرح اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اس کو جزئی فضیلت قرار دیتا تھا۔ مگر بعد میں جو خداتعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا۔‘‘
۵… ’’وہ اپنے آپ کو نبی احمد کہتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ اس کو یہ درجہ قرآن نے دیا ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام طبع اوّل ص۶۷۳، خزائن ج۳ ص۴۶۳)
نیز انہوں نے اسی کتاب کے (ص۶۶۵، خزائن ج۳ ص۴۵۹) پر اپنے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
۶… (اشتہار معیار الاخیار ص۱۱، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۷۸) پر انہوں نے مہدی موعود اور اکثر انبیاء سے برتر ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
۷… (خطبہ الہامیہ ص۳۵، خزائن ج۱۶ ص۷۰) پر انہوں نے اپنے لئے انسانیت کے بلند ترین منصب کا دعویٰ کیا ہے۔
۸… انہوں نے کہا کہ میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے لئے مسیح اور مہدی اور ہندو کے لئے کرشن ہوں۔ (لیکچر سیالکوٹ ص۳۳، خزائن ج۲۰ ص۲۲۸)
۹… (دافع البلاء ص۱۳، خزائن ج۱۸ ص۲۳۳) پر انہوں نے حضرت امام حسین سے بھی برتر ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
۱۰… انہوں نے (اعجاز احمدی ص۸۱، خزائن ج۱۹ ص۱۹۳) پر لکھا ہے کہ: ’’اور میں خدا کا کشتہ ہوں۔ لیکن تمہارا حسین دشمنوں کا کشتہ ہے۔‘‘
۱۱… (ضمیمہ انجام آتھم ص۶تا۸، خزائن ج۱۱ ص۲۹۰،۲۹۱) پر انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے گھر والوں کے متعلق سخت یاواگوئی کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ: ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تین نانیاں اور دادیاں زانی عورتیں تھیں۔ وہ خود جھوٹ بولتے تھے اور مسمریزم۱؎ اور فریب کے سوا ان کے پاس کچھ نہ تھا۔‘‘
۱۲… (حقیقت الوحی ص۳۹۱، خزائن ج۲۲ ص۴۰۶،۴۰۷) پر انہوں نے بہت واضح طور پر یہ کہہ کر اپنی نبوت کا دعویٰ کیا کہ وہ نبی ہیں اور اس امت میں نبی کا لفظ صرف ان کے لئے مخصوص کیاگیا ہے۔
۱۳… اور انہوں نے (اربعین نمبر۳ ص۳۶، خزائن ج۱۷ ص۴۲۶) پر لکھا ہے کہ: ’’وہ وحی کے بغیر نہیں بولتے۔‘‘اور انہوں نے (حقیقت الوحی ص۸۲، خزائن ج۲۲ ص۸۵) میں لکھا کہ: ’’خدا نے ان سے کہا ہے کہ انہیں رحمت للعالمین بنا کر دنیا میں بھیجا ہے۔‘‘نیز (حقیقت الوحی ص۱۰۷، خزائن ج۲۲ ص۱۱۰) میں لکھا ہے کہ: ’’خدا نے کسی دوسرے انسان کو وہ اعزاز نہیں دیا تھا جو ان کو دیاگیا ہے اور یہ کہ وہ خدا کے رسول ہیں۔‘‘اور نیز انہوں نے (انجام آتھم ص۵۸، خزائن ج۱۱ ص۵۸، حقیقت الوحی ص۱۰۲، خزائن ج۲۲ ص۱۰۵) پر دعویٰ کیا کہ خدا نے انہیں کوثر دیا ہے۔اور نیز (آئینہ کمالات اسلام ص۵۶۴،۵۶۵، خزائن ج۵ ص ایضاً) پر وہ اپنے بزرگ اور برتر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ خود خدا ہیں اور یہ کہ انہوں نے زمین اور آسمان پیدا کئے ہیں۔
اسی سبب سے اپنی کتاب (حقیقت الوحی ص۱۶۳، خزائن ج۲۲ ص۱۶۶) میں وہ اعلان کرتے ہیں کہ جو شخص اس پر ایمان نہیں لاتا وہ کافر ہے۔اور (فتاویٰ احمدیہ ج اوّل ص۱۸) پر انہوں نے اپنے پیروؤں کو ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنے سے روکا ہے جو ان پر ایمان نہیں رکھتا۔اور نیز انہوں نے (البشریٰ ص۴۹) پر ایک الہام بیان کیا ہے کہ خدا نے انہیں اپنا بیٹا کہہ کر پکارا ہے۔اور (حقیقت الوحی ص۹۹، خزائن ج۲۲ ص۱۰۲) میں انہوں نے لکھا ہے کہ خدا نے ان سے کہا ہے کہ اگر وہ مرزاغلام احمد کو پیدا نہ کرتا تو اس نے کائنات ہی نہ پیدا کی ہوتی۔ مرزاغلام احمد کے ان بیانات کی بناء پر ۱۹۲۵ء میں تمام فرقوں کے علماء سے فتویٰ حاصل کیاگیا۲؎۔
2282۱۴… احمدیہ فرقہ کے موجودہ سربراہ مرزابشیرالدین محمود احمد بھی مرزاغلام احمد کے اس دعویٰ کی کہ وہ نبی ہے مسلسل اشاعت کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ (حقیقت النبوۃ ص۲۲۸) پر انہوں نے لکھا ہے کہ: ’’یہ بات بالکل روز روشن کی طرح ثابت ہوگئی کہ پیغمبر اسلام کے بعد بھی نبوت کا دروازہ کھلا ہے۔‘‘
اور (انوار خلافت ص۶۲) میں انہوں نے لکھا ہے کہ: ’’مسلمانوں نے یہ غلط سمجھ رکھا ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱؎ مسمریزم کے متعلق (ازالہ اوہام ص۳۱۴، خزائن ج۳ ص۲۵۹ حاشیہ) ناشر!
۲؎ جسے فسخ نکاح مرزائیاں کے نام سے دفتر اہل حدیث امرتسر سے شائع کیاگیا۔ ناشر!
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کہ خدا کا خزانہ خالی ہوگیا ہے۔ مسلمانوں کو خدا کی قدرت کا احساس نہیں۔ ورنہ ایک نبی تو الگ رہا میں کہتا ہوں کہ ہزاروں نبی آسکتے ہیں۔‘‘
نیز (انوار خلافت ص۶۵) پر احمدیہ فرقہ کے موجودہ سربراہ نے لکھا ہے کہ: ’’اگر میری گردن پر دونوں طرف تلوار رکھ دی جائے اور مجھ سے یہ کہنے کو کہا جائے کہ پیغمبر اسلام کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا تو میں (مرزابشیرالدین محمود) کہوں گا کہ ایسا شخص جھوٹا ہے۔ یہ کہ پیغمبر اسلام کے بعد نبی آسکتے ہیں اور ضرور آسکتے ہیں۔‘‘
اس طرح مرزاغلام احمد نے نئے نبیوں کے ظہور کے لئے دروازہ کھول دیا اور قادیانیوں نے مرزاغلام احمد کو سچا نبی مان لیا۔ اس سلسلہ میں حسب ذیل مثال دی جاتی ہیں۔
ادّعائے نبوت کے حوالے (مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوی نبوت کے حوالہ جات)
۱… مرزاغلام احمد نے (اخبار بدر ۱۹۰۸ئ، مورخہ ۵؍مارچ، ملفوظات ج۱۰ ص۱۲۷) میں لکھا ہے کہ: ’’ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم نبی ورسول ہیں۔‘‘
۲… مرزابشیرالدین نے (حقیقت النبوۃ ص۱۷۴) پر لکھا ہے کہ: ’’مرزاغلام احمد اس لفظ کے صحیح معنوں میں نبی ہیں اور شریعت کے مطابق وہ مجازی نبی نہیں ہیں بلکہ حقیقی نبی ہیں۔‘‘
نبوت کے ایسے اعلان کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو بھی مدعی کی اس حیثیت کو ماننے سے انکار کرے کافر ہو جاتا ہے۔ چنانچہ قادیانی تمام ایسے مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں جو مرزاغلام احمد کی حقیقی نبوت پر ایمان نہیں رکھتے۔ اس ضمن میں حسب ذیل مثالیں درج ہیں۔
2283۱… ’’ہر وہ مسلمان جو مرزاغلام احمد کی بیعت میں شامل نہیں ہوا خواہ اس نے ان کا نام بھی نہ سنا ہو، کافر ہے اور اسلام کے دائرہ سے خارج ہیں۔‘‘
(آئینہ صداقت از مرزابشیرالدین محمود ص۳۵)
۲… ’’ہر ایک شخص جو موسیٰ کو تو مانتا ہے مگر عیسیٰ کو نہیں مانتا۔ یا عیسیٰ کو مانتا ہے مگر محمد ﷺ کو نہیں مانتا اور محمد ﷺ کو مانتا ہے پر مسیح موعود (مرزاقادیانی) کو نہیں مانتا وہ نہ صرف کافر بلکہ پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔‘‘
(کلمتہ الفصل مندرجہ ریویو آف ریلیجنز ج۱۴ نمبر۳،۴ ص۱۱۰)
۳… مرزابشیرالدین محمود نے سب جج گورداسپور کی عدالت میں حسب ذیل بیان دیا تھا جو (الفضل مورخہ ۲۶،۲۹؍جون ۱۹۲۲ء ج۹ نمبر۱۰۱،۱۰۲) میں شائع ہوا:
’’مرزاصاحب پر ہمارا ایمان ہے، غیراحمدیوں کا ان پر ایمان نہیں ہے۔ قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق کسی نبی کو ماننے سے انکارکرنا کفر ہے اور تمام غیراحمدی کافر ہیں۔‘‘
انہوں نے حسب ذیل اشعار کہے ہیں ؎ منم مسیح زمان منم کلیم خدا
منم محمد واحمد کہ مجتبیٰ باشد
(تریاق القلوب ص۳، خزائن ج۱۵ ص۱۳۴)
میں کبھی آدم، کبھی موسیٰ، کبھی یعقوب ہوں
نیز ابراہیم ہوں، نسلیں ہیں میری بے شمار
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۰۳، خزائن ۲۱ ص۱۳۳)
وہ اپنے لئے اس حیثیت کا دعویٰ کرتے ہیں اور ہر اس شخص کو کافر قرار دیتے ہیں جو ان کی اس حیثیت کو تسلیم نہیں کرتا۔ اپنی نبوت کے دعویٰ کو تقویت پہنچانے کے لئے انہوں نے مسلمانوں کے اس عقیدہ سے فائدہ اٹھایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے صلیب پر وفات نہیں پائی۔ بلکہ وہ چوتھے آسمان پر اب تک زندہ ہیں۔ جہاں سے قیامت سے پہلے زمین پر اتریں گے اور یہ بھی قرب قیامت 2284کی نشانیوں میں سے ایک ہوگی۔ چنانچہ انہوں نے خود عیسیٰ علیہ السلام ہونے کا دعویٰ کیا اور اپنے آپ کو مسیح موعود کہا۔ یہ ان کے الہام کے سلسلہ کا دوسرا مرحلہ تھا۔
مسلمانوں کا ایک اور عقیدہ یہ ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ الرضوان قیامت سے پہلے ظاہر ہوں گے۔ انہوں نے اپنے مہدی موعود ہونے کا بھی دعویٰ کیا۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ گزشتہ چودہ سو سال میں مسیلمہ کذاب کی طرح جس نے بھی اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ مسلمانوں نے اس کو کبھی برداشت نہیں کیا۔ اس لئے انہوں نے (مہربان حکومت برطانیہ کی) حفاظت حاصل کرنی چاہی۔ تحقیقاتی عدالت کے فاضل ججوں نے اس ضمن میں حسب ذیل رائے ظاہر کی ہے۔
’’ایسے اختلافات انگریز کو بہت راس آتے تھے وہ یہی چاہتے تھے کہ جس قوم پر وہ حکومت کر رہے ہیں اسے مذہبی اختلافات میں الجھائے رکھیں۔ جب تک کہ یہ جھگڑے امن عامہ میں خلل ڈالنے کا باعث نہیں اگر لوگ جنت میں جانے کے استحقاق یا جہنم میں جانے کے اسباب پر جھگڑا کریں تو جب تک وہ ایک دوسرے کے سر نہیں توڑتے اور اپنے لئے دنیاوی مال ومتاع کا مطالبہ نہیں کرتے اس وقت تک انگریز ان جھگڑوں کو انتہائی بے نیازی بلکہ اطمینان کی نظروں سے دیکھتے تھے۔ لیکن جونہی سرٹوٹنے کا وقت آیا، انگریز نہایت سخت ہو جاتا اور اس پر کسی مصلحت کے لئے تیار نہ تھا۔ مرزاصاحب برطانوی راج کی اس برکت سے پوری طرح واقف تھے جو صرف ان اختلافات کی اجازت ہی نہیں دیتا تھا۔ بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتا تھا۔ چنانچہ احمدی تحریک کے بانی اور رہنماؤں کے خلاف غیراحمدیوں کی ایک بہت بڑی شکایت یہ بھی تھی کہ وہ انگریزوں کے ذلیل خوشامدی ہیں۔‘‘
(تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ ص۲۰۸)
قادیانی فرقہ کے بانی کو علم تھا کہ اسلام کے ظہور کے بعد سے مسیلمہ کذاب اور جس نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا اس کے ساتھ کیا سلوک کیاگیا۔ یہی وجہ تھی کہ اپنی نبوت جمانے کے لئے 2285اس فرقہ کو انگریزی حکومت کی حفاظت کی سخت ضرورت تھی۔ اس سلسلہ میں مرزاغلام احمد کی حسب ذیل تحریروں کا حوالہ بھی دیاگیا ہے۔
۱… (ملفوظات احمدیہ ص۴۶ ج اوّل) میں مرزاغلام احمد نے لکھا ہے: ’’حکومت برطانیہ کے ہم پر اس قدر احسان ہیں کہ اگر ہم یہاں سے چلے جائیں تو مکہ یا قسطنطنیہ میں ہم نہیں گزارہ کر سکتے۔ ہم برطانوی حکومت کی مخالفت کا تصور کیونکر کر سکتے ہیں۔‘‘
۲… (تبلیغ رسالت ج۶ ص۹۶، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۳۷۰) پر مرزاغلام احمد نے لکھا ہے: ’’میں اپنا کام مکہ میں نہ مدینہ میں جاری رکھ سکتا ہوں نہ روما میں نہ ایران میں نہ کابل میں۔ مگر اس گورنمنٹ میں جس کے اقبال کے لئے میں دعا کرتا ہوں۔‘‘
۳… (تبلیغ رسالت ج۱۰ ص۱۲۳، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۸۴) پر مرزاغلام احمد نے کہا کہ: ’’اگر تم اس گورنمنٹ کے سایہ سے باہر نکل جاؤ تو تمہارا کہاں ٹھکانہ ہے۔‘‘
ان اسباب کی بناء پر (تحقیقاتی رپورٹ ص۲۰۸،۲۰۹) میں فاضل ججوں نے پاکستان کے متعلق قادیانیوں کے رویہ کا خلاصہ ان الفاظ میں پیش کیا ہے: ’’پہلی عالمگیر جنگ کے دوران میں جس میں ترکی کو شکست ہوئی تھی۔ ۱۹۱۸ء میں بغداد پر انگریزوں کی فتح پر قادیان میں خوشیاں منائی گئیں۔ جس سے مسلمانوں میں سخت بیزاری پھیلی اور احمدیت کو انگریزوں کی لونڈی سمجھا جانے لگا۔ ملک کو تقسیم کر کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن کے قیام کا امکان افق پر نظر آنے لگا تو آنے والے واقعات کے سایہ نے قادیانیوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا۔ ۱۹۴۵ء سے ۱۹۴۷ء کے آغاز تک ان کی بعض تحریروں سے یہ منکشف 2286ہوتا ہے کہ انہیں پہلے انگریزوں کا جانشین بننے کی توقع تھی۔ لیکن جب پاکستان کا دھندلا سا خواب مستقبل کی ایک حقیقت کا روپ اختیار کرنے لگا تو ایک نئی مملکت پر راضی ہوجانا انہیں دشوار نظر آنے لگا۔ وہ یقینا اپنے آپ کو دوگونا عذاب میں مبتلا پاتے ہوں گے۔ وہ ہندوستان میں اس لئے نہیں رہ سکتے تھے کہ اسے ایک لادینی ہندو مملکت بننا تھا اور نہ پاکستان کو پسند کر سکتے تھے جس میں فرقہ بازی کے روا رکھے جانے کی کوئی توقع نہ تھی۔ ان کی بعض تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ تقسیم کے مخالف تھے۔ نیز یہ کہ اگر ملک تقسیم ہوا تو اس کے دوبارہ اتحاد کی کوشش کریں گے اس کی وجہ ظاہر یہ تھی کہ احمدیت کے مرکز قادیان کا مستقبل بالکل غیریقینی نظر آرہا تھا۔ جس کے متعلق مرزاصاحب بہت سی پیش گوئیاں کر چکے تھے۔‘‘
’’ان ہی وجوہ کی بناء پر مرزاغلام احمد جہاد کا تیرا سو سال پرانا اصول منسوخ کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اعلان کر دیا کہ اب سے جہاد بالسیف ممنوع قرار پایا۔ اب جہاد صرف یہ ہے کہ اپنے مخالف کو دلائل سے مطمئن کیا جائے۔‘‘
جہاد کے بارے میں قرآن کریم میں یہ آیات موجود ہیں:
۱… ’’جن سے جنگ کی جارہی ہو انہیں اجازت دی جاتی ہے لڑنے کی۔ اس لئے کہ ان پر ظلم کیاگیا ہے اور پس اﷲ ان کی مدد کرنے کے لئے بڑا طاقتور ہے۔ جو لوگ اپنے گھروں سے بے وجہ نکالے گئے۔ محض اتنی بات پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اﷲ ہے۔ اگر اﷲتعالیٰ ایک دوسرے کے ہاتھوں لوگوں کا زور نہ گھٹاتا رہتا تو لاتعداد خانقاہ ہیں اور کلیسے، گرجے اور مسجدیں جن میں اﷲ کا نام لیا جاتا ہے۔ تباہ وبرباد ہو جاتے۔ بے شک اﷲ ان کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرتے ہیں۔ تحقیق اﷲ بڑی طاقت والا اور بہت قدرت والا ہے۔‘‘
(سورہ۲۲، آیت۳۹،۴۰)
2287۲… ’’اﷲ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں۔ لیکن حد سے نہ بڑھو کہ اﷲ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا اور ان کو قتل کرو جہاں ان کو پاؤ اور انکو نکال باہر کرو۔ جہاں سے انہوں نے تم کو نکال باہر کیا ہے اور شرارت قتل سے بھی بڑھ کر ہے۔ لیکن مسجد حرام میں ان سے جنگ نہ کرو۔ جب تک کہ وہ وہاں تم سے لڑنے میں پہل نہ کریں۔ اگر وہ تم سے لڑیں تو انہیں قتل کرو کہ حق کا انکارکرنے والوں کی یہی سزا ہے۔ پھر اگر وہ لوگ باز آجائیں تو اﷲ بخشنے والا مہربان ہے اور ان کے ساتھ اس حد تک لڑو کہ فتنہ وشرارت باقی نہ رہے اور دین اﷲ ہی کا ہو جائے اور اگر وہ لوگ باز آجاویں تو بے انصافی کرنے والوں کے سوا سختی کسی پر نہیں ہوتی۔ حرمت والا مہینہ حرمت والے مہینہ کے عوض میں ہے اور یہ حرمتیں تو عوض معاوضہ کی چیزیں ہیں۔ پس جو تم پر زیادتی کرے اس پر تم بھی زیادتی کرو۔ جیسی زیادتی اس نے تم پر کی ہے۔ اﷲ سے ڈرتے رہو۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ ڈرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
(سورہ۲، آیت۱۹۰تا۱۹۴)
۳… ’’اﷲتعالیٰ تم کو ان لوگوں کے ساتھ انصاف اور احسان کا برتاؤ کرنے سے نہیں روکتا۔ جو تم سے دین کے بارے میں نہیں لڑتے اور تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالا۔ بے شک اﷲتعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتے ہیں۔‘‘
(سورہ۶۰، آیت۸)
۴… ’’اس شخص کو چاہئے کہ اﷲ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑے جو آخرت کے بدلے دنیوی زندگی کو اختیار کئے ہوئے ہیں۔ جو شخص اﷲ کی راہ میں لڑے پھر جان سے مارا جائے یا غالب آجائے تو ہم اسے اجر عظیم دیں گے اور تم کو کیا ہوا ہے کہ تم اﷲ کی راہ میں اور ان کمزوروں کی خاطر جہاد نہیں کرتے۔ جن میں کچھ مرد ہیں۔ کچھ عورتیں اور کچھ بچے ہیں اور جو دعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اس 2288بستی سے نکال جس کے رہنے والے سخت ظالم ہیں اور اے خدا ہمارے لئے اپنے ہاں سے کوئی حمایتی کھڑا کر اور اپنی طرف سے کوئی مددگار روانہ فرما۔‘‘
(سورہ۴، آیت۷۴،۷۵)
۵… ’’پھر جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو ان مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کردو اور پکڑو اور انہیں گھیر لو اور ان کی تاک میں ہر جگہ بیٹھو۔ پھر اگر وہ توبہ کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ بے شک اﷲ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
(سورہ۹، آیت۵)
۶… ’’پس کافروں کا کہا نہ مان اور اس (قرآن) کے ساتھ بڑے زور سے ان کا مقابلہ کر۔‘‘
(سورہ ۲۵، آیت۵۲)
جہاد کے بارے میں احمدی نظریہ یہ ہے کہ جسے ’’جہاد بالسیف‘‘ کہا جاتا ہے اس کی اجازت صرف اپنی حفاظت کے لئے ہے۔ نیز یہ کہ اس مسئلہ پر اپنی رائے پیش کرتے ہوئے مرزاغلام احمد نے صرف قرآنی آیات پر مبنی اصولوں کی وضاحت کی ہے اور انہوں نے کسی قرآنی حکم یا ہدایت کو منسوخ نہیں کیا۔
دوسرے فریق کا کہنا ہے کہ مرزاصاحب نے اس مسئلہ پر اپنی رائے جن الفاظ میں ظاہر کی ہے۔ اس سے بالکل صاف واضح ہوتا ہے کہ وہ محض ایک قرآنی اصول کی وضاحت نہیں کر رہے تھے۔ بلکہ قرآن کے ایک مسلمہ قانون کو منسوخ کر رہے تھے۔
اس سلسلہ میں ان کے حسب ذیل اعلانات پیش کئے جاتے ہیں:
۱… ’’میں ایک حکم لے کر آپ لوگوں کے پاس آیا ہوں وہ یہ ہے کہ اب سے تلوار کے جہاد کا خاتمہ ہے۔‘‘
(گورنمنٹ انگریزی اور جہاد ص۱۴، خزائن ج۱۷ ص۱۵)
۲… ’’آج سے دین کے لئے لڑنا حرام کیاگیا۔‘‘
(ضمیمہ خطبہ الہامیہ ص ت، خزائن ج۱۶ ص۱۷)
۳… ’’مسیح کے آنے پر تمام تلوار کے جہاد ختم ہو جائیں گے۔‘‘
(خطبہ الہامیہ ص ز، خزائن ج۱۶ ص۲۸)
2289۴… ’’میں نے جہاد کی ممانعت کے بارے میں مؤثر تقریریں لکھیں۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۴۶۲)
۵… ’’ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور شائع کی ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔ میں نے ایسی کتابوں کو تمام ممالک عرب اور مصر اور شام اور کابل اور روم تک پہنچا دیا ہے۔‘‘
(ستارہ قیصرہ ص۱۵، خزائن ج۱۵ ص۱۵۵)
۶… ’’مسیح موعود کے وقت جہاد کا حکم منسوخ کر دیا گیا۔ اب زمین کے فساد بند کر دئیے گئے۔‘‘
(ضمیمہ خطبہ الہامیہ)
۷… ’’اب اس کے بعد جو شخص کافر پر تلوار اٹھاتا ہے اور اپنا غازی نام رکھتا ہے۔ وہ رسول کا نافرمان ہے۔‘‘
(ضمیمہ خطبہ الہامیہ ص ذ، خزائن ج۱۶ ص۲۸)
۸… ’’میرے فرقہ میں جس کا خدا نے مجھے امام اور رہبر مقرر فرمایا ہے۔ تلوار کا جہاد بالکل نہیں۔ یہ فرقہ اس بات کو قطعاً حرام جانتا ہے کہ دین کے لئے لڑائیاں کی جائیں۔‘‘
(ضمیمہ نمبر۵تریاق القلوب، اشتہار واجب الاظہار ص۱، خزائن ج۱۵ ص۵۱۷، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۳۵۷)
۹… ’’اسلام میں جو جہاد کا مسئلہ ہے میری نگاہ میں اس سے بدتر اسلام کو بدنام کرنے والا اور کوئی مسئلہ نہیں۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۱۰ ص۱۲۲، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۸۴)
۱۰… ’’مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۷ ص۱۷، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۹)
مرزاصاحب کی ان تحریروں اور ان کے دعویٰ سے کہ: ’’میری وحی میں امر بھی ہے اور نہی بھی۔‘‘
(اربعین نمبر۴ ص۶،خزائن ج۱۷ ص۴۳۶)
یہ بات شدت کے ساتھ پیش کی گئی ہے کہ یہ اعلان قرآن کریم کے ایک مسلمہ قانون کی تنسیخ یا ترمیم کے مترادف ہے۔
اپیل کنندگان کی طرف سے اس کا جواب یہ دیاگیا ہے کہ ان الفاظ اور فقروں میں کوئی تنسیخ نہیں ہے۔ بلکہ محض قرآن کے ایک ایسے اصول کی وضاحت ہے جس کے متعلق صدیوں سے غلط فہمی تھی اور بہرحال دوسروں نے ان عبارتوں کا جو بھی مطلب سمجھا ہو احمدیوں نے ہمیشہ اس کا 2290یہ مطلب سمجھا کہ مرزاغلام احمد نے محض یہ کیا کہ اصل اصول کو گرد وغبار سے پاک کر کے اس کو اصل حالت میں پیش کر دیا۔ احمدیوں کی طرف سے اس سلسلہ میں ’’یضع الحرب‘‘ کی حدیث کا بھی حوالہ بھی دیا گیا ہے کہ مرزاغلام احمد نے کسی قانون کو منسوخ کرنے کی بجائے صرف اس حدیث کے مطابق جنگ کو معطل کیا تھا۔ یہ نقطہ بہت اہم ہے۔ کیونکہ اگر یہ طے ہو جائے کہ مرزاغلام احمد کی ان آراء کا مقصد ایک مسلمہ قانون کی جگہ پر ایک نیا قانون نافذ کرنا یا جزوی طور پر ترمیم کرنا بھی تھا اور ان کے معتقدین بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں تو پھر وہ تشریعی نبی ہوئے۔
اس صورت میں خود احمدیوں کے یہاں آیت خاتم النّبیین کی اپنی تفسیر بھی غلط ہو جائے گی۔ یہ صورت واضح تر ہو جائے گی۔ اگر یہ اصول کسی وحی یا الہام کی بناء پر طے کیاگیا ہو۔
غیراحمدی فریق نے اس دلیل کو یہ کہہ کر مزید آگے بڑھایا کہ ان تحریروں میں جو رائے ظاہر کی ہے وہ اگر سابقہ اصول کا اعادہ یا اعلان کرنے والے کی حیثیت سے پیش کئے گئے ہیں۔ جب بھی مرزاصاحب اصول کے تحت تشریعی نبی بن جاتے ہیں کہ اگر قانون کا اعلان کرنے والا اپنے لئے وضاحت کرنے کی بجائے اعلان کرنے کا حق مختص سمجھے تو قانون کا اعلان بجائے خود اصل قانون بن جاتا ہے۔ احمدی ان تحریروں کی وضاحت کے لئے قرآن کی وہ آیات پیش کرتے ہیں جن کا حوالہ اوپر دے چکا ہوں اور آیۃ سیف کے عام طور پر جو معنی سمجھے جاتے ہیں اسے وہ تسلیم نہیں کرتے۔
احمدیوں کا ایک اہم عقیدہ یہ ہے کہ قرآن کی کوئی آیت دوسری آیت سے منسوخ نہیں ہوئی۔ نیز یہ کہ آیت سیف میں اور مکہ میں نازل شدہ آیات میں کوئی تصادم نہیں ہے۔ وہ ناسخ اور منسوخ کے سارے نظریہ ہی کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس سلسلہ میں حسب ذیل دو آیتیں پیش کی جاتی ہیں:
2291۱… ’’ہم کسی آیت کا حکم موقوف کر دیتے ہیں یا اس کو بھلا دیتے ہیں تو ہم اس سے بہتر یا ویسی ہی آیت بھیج دیتے ہیں۔ کیا تجھے معلوم نہیں کہ اﷲ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔‘‘
(سورۃ۲، آیت۱۰۶)
۲… ’’اور جب ہم کسی آیت کو دوسری آیت کے بجائے بدلتے ہیں تو گو اﷲتعالیٰ جو حکم بھیجتا ہے اسے خوب جانتا ہے۔ لیکن یہ لوگ کہتے ہیں کہ تم جھوٹے اور جعلساز ہو۔‘‘ (سورہ۱۶، آیت۱۰۱)
چنانچہ ’’مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق قادیانی کافر ہیں اور دائرۂ اسلام سے خارج ہیں۔‘‘ چونکہ:
۱… وہ یہ ماننے سے انکار کرتے ہیں کہ نبی کریم آخری نبی نہیں تھے۔ قرآن کو غلط معنی پہناتے ہیں اور اس مذہب کو لعنتی اور شیطانی کہتے ہیں جن کے ماننے والے نبی کریم کو آخری نبی تسلیم کرتے ہیں۔
۲… مطلق تشریعی نبوت کا مرزاغلام احمد کا دعویٰ ہے۔
۳… ان کا یہ دعویٰ کہ حضرت جبرائیل ان کے پاس وحی لے کر آتے ہیں اور ان کی وحی قرآن کریم کے برابر ہے۔
۴… مختلف طریقوں سے انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام، محمد رسول اﷲ ﷺ اور حضرت امام حسینؓ کی توہین کی ہے۔
۵… نبی کریم اور ان کے مذہب کے بارے میں توہین آمیز کلمات استعمال کئے ہیں۔
۶… قادیانیوں کے سوا تمام مسلمانوں کو کافر کہنا۔
2292۱۹۵۳ء کے فسادات کے دوران اور ۱۹۵۴ء میں تحقیقات سے پہلے قادیانی اپنے اکثر عقائد سے مکر گئے۔ اس لئے کہ تحقیقاتی عدالت کے سامنے انہوں نے جو مؤقف اختیار کیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوںنے اس فرقہ کے بانی اور اس کے جانشینوں کے پیش کردہ معانی ومطالب کو بدلنے کی کوشش کی۔ لیکن احمدی فرقہ کے بانی اور ان کے جانشینوں کی لکھی ہوئی جو کتابیں موجود ہیں ان سے ان کے عقائد کے فلسفہ کی جھلک نظر آجاتی ہے۔ اس صورت میں حسب ذیل نتائج پر پہنچا ہوں۔