• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قومی اسمبلی کی کاروائی (پندرواں دن)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
آتھم کی موت کی پیشین گوئی
مرزاصاحب نے عبداﷲ آتھم پادری سے امرتسر میں پندرہ دن تحریری مناظرہ کیا۔ جب مباحثہ بے نتیجہ رہا تو مرزاصاحب نے ۵؍جون ۱۸۹۳ء کو ایک عدد پیش گوئی صادر فرمادی۔ جس کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
’’مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی پندرہ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جاوے گا اور اس کو سخت ذلت پہنچے گی۔ (فریق مخالف) ہاویہ میں نہ پڑے تو میں ہر ایک سزا کے اٹھانے کے لئے تیار ہوں، مجھ کو ذلیل کیا جاوے، روسیاہ کیا جاوے، میرے گلے میں رسہ ڈال دیا جاوے۔ مجھ کو پھانسی دیا جاوے، ہر ایک بات کے لئے تیار ہوں۔‘‘
(جنگ مقدس ص۱۸۹، خزائن ج۶ ص۲۹۲،۲۹۳)
غرض مرزاصاحب کی پیش گوئی کے مطابق عبداﷲ آتھم کی موت کا آخری دن ۵؍ستمبر ۱۸۹۴ء بنتا تھا۔ اس دن کی کیفیت مرزاصاحب کے فرزند ارجمند جناب مرزامحمود احمد خلیفہ قادیانی کی زبانی ملاحظہ ہو، فرماتے ہیں:
(اگلی پوسٹ میں ملاحظہ فرمائی)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قادیان میں ماتم
’’آتھم کے متعلق پیش گوئی کے وقت جماعت کی جو حالت تھی وہ ہم سے مخفی نہیں۔ میں اس وقت چھوٹا بچہ تھا اور میری عمر کوئی پانچ ساڑھے پانچ سال کی تھی۔ مگر مجھے وہ نظارہ خوب یاد ہے کہ جب آتھم کی پیش گوئی کا آخری دن آیا تو کتنے کرب واضطراب سے دعائیں کی گئیں۔ میں نے تو محرم کا ماتم بھی کبھی اتنا سخت نہیں دیکھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک طرف دعا میں مشغول تھے اور دوسری 1964طرف بعض نوجوان (جن کی اس حرکت پر بعد میں برا بھی منایا گیا) جہاں حضرت خلیفہ اوّل مطب کیا کرتے تھے اور آج کل مولوی قطب الدین صاحب بیٹھتے ہیں، وہاں اکٹھے ہوگئے اور جس طرح عورتیں بین ڈالتی ہیں۔ اس طرح انہوں نے بین ڈالنے شروع کر دئیے۔ ان کی چیخیں سوسوگز تک سنی جاتی تھیں اور ان میں سے ہر ایک کی زبان پر یہ دعا جاری تھی کہ یا اﷲ! آتھم مر جائے، یا اﷲ! آتھم مر جائے۔ مگر اس کہرام اور آہ وزاری کے نتیجے میں آتھم تو نہ مرا۔‘‘
(خطبہ مرزا محمود احمد، مندرجہ الفضل قادیان مورخہ ۲۰؍جولائی ۱۹۴۰ئ)
اور اس قادیانی اضطراب پر مزید روشنی مرزاصاحب کے منجھلے صاحبزادے بشیراحمد ایم۔اے کی روایت سے پڑتی ہے کہ ابا جان نے آتھم کی موت کے لئے کیا کیا تدبیریں اختیار کیں اور کون کون سے ٹوٹکے استعمال کئے۔ چنانچہ تحریر کرتے ہیں:
’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم! بیان کیا مجھ سے میاں عبداﷲ صاحب سنوری نے کہ جب آتھم کی میعاد میں صرف ایک دن باقی رہ گیا تو حضرت مسیح موعود نے مجھ سے اور میاں حامد علی سے فرمایا کہ اتنے چنے (مجھے تعداد یاد نہیں رہی کہ کتنے چنے آپ نے بتائے تھے) لے لو اور ان پر فلاں سورۃ کا وظیفہ اتنی تعداد میں پڑھو (مجھے وظیفہ کی تعداد بھی یاد نہیں رہی) میاں عبداﷲ صاحب بیان کرتے ہیں کہ مجھے وہ سورۃ یاد نہیں رہی مگر اتنا یاد ہے کہ وہ کوئی چھوٹی سی سورۃ تھی جیسے الم تر کیف فعل ربک باصحاب الفیل۰ الخ! اور ہم نے یہ وظیفہ قریب ساری رات صرف کر کے ختم کیا تھا۔ وظیفہ ختم کرنے پر ہم وہ دانے حضرت صاحب (مرزاقادیانی) کے پاس لے گئے۔ کیونکہ آپ نے ارشاد فرمایا تھا کہ وظیفہ ختم ہونے پر یہ دانے میرے پاس لے آنا۔ اس کے بعد حضرت صاحب ہم دونوں کو قادیان سے باہر غالباً شمال کی طرف لے گئے اور فرمایا دانے کسی غیرآباد کنوئیں میں ڈالے جائیں گے اور فرمایا کہ جب میں دانے کنوئیں میں پھینک دوں تو ہم سب کو سرعت کے ساتھ منہ پھیر کر واپس 1965لوٹ آنا چاہئے اور مڑ کر نہیں دیکھنا چاہئے۔ چنانچہ حضرت صاحب نے ایک غیرآباد کنوئیں میں ان دانوں کو پھینک دیا اور پھر جلدی سے منہ پھیر کر پیچھے کی طرف نہیں دیکھا۔‘‘
(سیرت المہدی جلد ۱وّل طبع دوم ص۱۷۸، روایت نمبر۱۶۰)
مگر دشمن ایسا سخت جان نکلا کہ بجائے ۵ کے ۶؍ستمبر کا سورج بھی غروب ہوگیا مگر وہ نہ مرا اور یہ پیش گوئی بھی جھوٹی نکلی۔
----------
[At this stage Dr. Mrs. Ashraf Khatoon Abbasi vacated the Chair which was occupied by Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali)]
(اس موقع پر ڈاکٹر مسز اشرف خاتون عباسی نے کرسی صدارت چھوڑ دی۔ جسے جناب چیئرمین صاحبزادہ فاروق علی نے سنبھال لیا)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے؟
مولوی مفتی محمود:
انبیاء علیہم السلام کے بارے میں یہ بات طے شدہ ہے کہ وہ دشنام طرازی کبھی نہیں کرتے، انہوں نے کبھی گالیوں کے جواب میں بھی گالیاں نہیں دیں۔ اس معیار کے مطابق مرزاصاحب، کی مندرجہ ذیل عبارتیں ملاحظہ فرمائیں:
(اگلی پوسٹ میں)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
علماء کو گالیاں
۱… ’’اے بدذات فرقہ مولویاں! تم کب تک حق کو چھپاؤ گے۔ کب وہ وقت آئے گا کہ تم یہودیانہ خصلت کو چھوڑو گے، اے ظالم مولویو! تم پر افسوس کہ تم نے جس بے ایمانی کا پیالہ پیا، وہی عوام کالانعام کو بھی پلوا دیا۔‘‘
(انجام آتھم ص۲۱ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۲۱)
۲… ’’بعض جاہل سجادہ نشین اور فقیری اور مولویت کے شتر مرغ۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۱۸، خزائن ج۱۱ ص۳۰۲ حاشیہ)
1966۳… ’’مگر کیا یہ لوگ قسم کھا لیں گے؟ ہر گز نہیں۔ کیونکہ یہ جھوٹے ہیں اور کتوں کی طرح جھوٹ کامردار کھا رہے ہیں۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۲۵ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۳۰۹)
۴… ’’ہمارے دعویٰ پر آسمان نے گواہی دی۔ مگر اس زمانہ کے ظالم مولوی اس سے بھی منکر ہیں، خاص کر رئیس الدجالین عبدالحق غزنوی اور اس کے تمام گروہ، علیہم نعال لعن اﷲ الف الف۱؎ مرۃ‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۴۶، خزائن ج۱۱ ص۳۳۰)
۵… ’’اے بدذات، خبیث… نابکار۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۵۰، خزائن ج۱۱ ص۳۳۴)
۶… ’’اس جگہ فرعون سے مراد شیخ محمد حسین بطالوی اور ہامان سے مراد نو مسلم سعد اﷲ ہے۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۵۶، خزائن ج۱۱ ص۳۴۰)
۷… ’’نامعلوم کہ یہ جاہل اور وحشی فرقہ اب تک کیوں شرم اور حیا سے کام نہیں لیتا۔ مخالف مولویوں کا منہ کالا کیا۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۵۸، خزائن ج۱۱ ص۳۴۲)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مسلمانوں کو گالیاں
۸… ’’ تلک کتب ینظر الیہا کل مسلم بعین المحبۃ والمودۃ وینتفع من معارفہا ویقبلنی ویصدق دعوتی الاذریۃ البغایا الذین ختم اﷲ علیٰ قلوبہم فہم لا یقبلون ‘‘
(آئینہ کمالات ص۵۴۷،۵۴۸، خزائن ج۵ ص ایضاً)
ترجمہ: ’’ان میری کتابوں کو ہر مسلمان محبت کی آنکھ سے دیکھتا ہے اور ان کے معارف سے فائدہ اٹھاتا ہے اور مجھے قبول کرتا ہے مگر رنڈیوں (زناکاروں) کی اولاد جن کے دلوں پر خدا نے مہر کر دی ہے وہ مجھے قبول نہیں کرتے۔‘‘
۹… ’’ ان العدٰی صارو اخنازیر الفلا ونسائہم من دونہن الا کلب ‘‘
(نجم الہدیٰ ص۱۰، خزائن ج۱۴ ص۵۳)
1967ترجمہ: ’’میرے دشمن جنگلوں کے سؤر ہوگئے ہیں اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئی ہیں۔‘‘
۱۰… ’’جو شخص… اپنی شرارت سے باربار کہے گا (کہ پادری آتھم کے زندہ رہنے سے مرزاصاحب کی پیش گوئی غلط اور عیسائیوں کی فتح ہوئی) اور کچھ شرم وحیا کو کام نہیں لائے گا اور بغیر اس کے جو ہمارے اس فیصلہ کا انصاف کی رو سے جواب دے سکے، انکار اور زبان درازی سے باز نہیں آئے گا اور ہماری فتح کا قائل نہیں ہوگا تو صاف سمجھا جائے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے اور حلال زادہ نہیں۔‘‘
(انوارالاسلام ص۳۰، خزائن ج۹ ص۳۱)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ یعنی ان پر ہزار ہزار بار لعنت کے جوتے پڑیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ شیریں زبانی ملاحظہ فرمائیے اور مرزائیوں سے پوچھئے:

محمدؐ بھی تیرا، جبریل بھی، قرآن بھی تیرا
مگر یہ حرف شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا
----------
لن تجتمع امتی علی الضلالۃ
ترجمہ: ’’میری امت گمراہی پر ہرگز جمع نہیں ہوگی۔‘‘
(ابن ماجہ ص۲۴۱، ابواب الفتن)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
1969عالم اسلام کا فیصلہ
گزشتہ صفحات میں جو ناقابل انکار دلائل پیش کئے گئے ہیں۔ ان کی وجہ سے اس بات پر پوری امت اسلامیہ کا اجماع ہوچکا ہے کہ مرزائی مذہب کے متبعین کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ ہم اپنی اس یادداشت کے ساتھ علماء کرام کے ان فتاویٰ اور عدالتی مقدمات کے فیصلوں کی مطبوعہ نقول بطور ضمیمہ منسلک کر رہے ہیں۔ جو عالم اسلام کے مختلف مکاتب فکر، مختلف حلقوں اور اداروں نے شائع کئے ہیں۔ لیکن ان کا خلاصہ ذیل میں پیش خدمت ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
فتاویٰ
مرزائیوں کے کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہونے پر عالم اسلام میں جو فتوے دئیے گئے۔ ان کا شمار بھی مشکل ہے۔ تاہم چند اہم مطبوعہ فتاویٰ کا حوالہ درج ذیل ہے:
۱… رجب ۱۳۳۶ھ میں ایک استفتاء برصغیر کے تمام مکاتب فکر کے علماء سے کیاگیا تھا، جو ’’فتویٰ تکفیر قادیان‘‘ کے نام سے شائع ہوا تھا۔ اس میں دیوبند، سہارنپور، تھانہ بھون، راے پور، دہلی، کلکتہ، بنارس، لکھنؤ، آگرہ، مراد آباد، لاہور، امرتسر، لدھیانہ، پشاور، راولپنڈی، ملتان، ہوشیارپور، گورداسپور، جہلم، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، گجرات، حیدرآباد دکن، بھوپال اور رام پور کے تمام مکاتب فکر اور تمام دینی مراکز کے علماء نے باتفاق مرزائیوں کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا ہے۔
(ملاحظہ ہو فتویٰ تکفیر قادیان شائع کردہ کتب خانہ اعزازیہ دیوبند ضلع سہارنپور)
۲… اسی قسم کا ایک فتویٰ ۱۹۶۵ء میں دفتر اہل حدیث امرتسر کی طرف سے ’’فسخ نکاح مرزائیاں‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے اور اس میں برصغیر کے مکاتب فکر کے علماء کے دستخط موجود ہیں۔
۳… مقدمہ بہاولپور میں جو فتاویٰ پیش ہوئے، ان میں برصغیر کے علاوہ بلاد عربیہ کے فتاویٰ بھی شامل تھے۔
(دیکھئے فتاویٰ مندرجہ ’’حجت شرعیہ‘‘ شائع کردہ مجلس تحفظ ختم نبوت لاہور، ملتان)
1970۴… ایک فتویٰ ’’ مؤسسۃ مکۃ للطباعۃ والاعلام ‘‘ کی طرف سے سعودی عرب میں شائع ہوا جس میں حرمین شریفین، بلاد حجاز وشام کے مختلف مکاتب فکر کے علماء کا فیصلہ درج ہے۔ اس کے چند جملے یہ ہیں: ’’ لا شک ان اذنابہ من القادیانیۃ والاھوریۃ کلہا کافرون ‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ مرزاغلام احمد کے تمام متبعین خواہ قادیانی ہوں یا لاہوری سب کافر ہیں۔
(القادیانیہ فی نظر علماء الامتہ الاسلامیہ ص۱۱، طبع مکہ مکرمہ)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
پاکستان کے ۳۳علماء کا مطالبہ ترمیم
۱۹۵۳ء میں پاکستان کے دستور پر غور کرنے کے لئے تمام مکاتب فکر کے مسلمہ نمائندہ علماء کا جو مشہور اجتماع ہوا اس میں ایک ترمیم یہ بھی تھی کہ قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک اقلیت قرار دے کر پنجاب اسمبلی میں ان کے لئے ایک نشست مخصوص کر دی جائے اور دوسرے علاقوں کے قادیانیوں کو بھی اس نشست کے لئے کھڑے ہونے اور ووٹ دینے کا حق دے دیا جائے۔ اس ترمیم کو علماء نے ان الفاظ کے ساتھ پیش کیا ہے: ’’یہ ایک نہایت ضروری ترمیم ہے۔ جسے ہم پورے اصرار کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ملک کے دستور سازوں کے لئے یہ بات کسی طرح موزوں نہیں ہے کہ وہ اپنے ملک کے حالات اور مخصوص اجتماعی مسائل سے بے پرواہ ہوکر محض اپنے ذاتی نظریات کی بناء پر دستور بنانے لگیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ملک کے جن علاقوںمیں قادیانیوں کی بڑی تعداد مسلمانوں کے ساتھ ملی جلی ہے وہاں اس قادیانی مسئلے نے کس قدر نازک صورتحال پیدا کر دی ہے۔ ان کو پچھلے دور کے بیرونی حکمرانوں کی طرح نہ ہونا چاہئے جنہوں نے ہندو مسلم مسئلہ کی نزاکت کو 1971اس وقت تک محسوس کر کے ہی نہ دیا جب تک متحدہ ہندوستان کا گوشہ گوشہ دونوں قوموں کے فسادات سے خون آلودہ نہ ہوگیا۔ جو دستور ساز حضرات خود اس ملک کے رہنے والے ہیں ان کی یہ غلطی بڑی افسوسناک ہوگی کہ وہ جب تک پاکستان میں قادیانی مسلم تصادم کو آگ کی طرح بھڑکتے ہوئے نہ دیکھ لیں اس وقت تک انہیں اس بات کا یقین نہ آئے کہ یہاں ایک قادیانی مسلم مسئلہ موجود ہے، جسے حل کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ اس مسئلہ کو جس چیز نے نزاکت کی آخری حد تک پہنچا دیا ہے وہ یہ ہے کہ قادیانی ایک طرف مسلمان بن کر مسلمانوں میں گھستے بھی ہیں اور دوسری طرف عقائد، عبادات اور اجتماعی شیرازہ بندی میں مسلمانوں سے نہ صرف الگ بلکہ ان کے خلاف صف آراء بھی ہیں اور مذہبی طور پر تمام مسلمانوں کو علانیہ کافر قرار دیتے ہیں۔ اس خرابی کا علاج آج بھی یہی ہے اور پہلے بھی یہی تھا۔ (جیسا کہ علامہ اقبال مرحوم نے اب سے بیس برس پہلے فرمایا تھا) کہ قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک اقلیت قرار دے دیا جائے۔‘‘
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
رابطہ عالم اسلامی کی قرارداد
مکہ مکرمہ کے مقدس شہر میں جو مرکز اسلام کی حیثیت رکھتا ہے۔ ربیع الاوّل ۱۳۹۴ھ مطابق اپریل ۱۹۷۴ء میں پورے عالم اسلام کی دینی تنظیموں کا ایک عظیم الشان اجتماع منعقد ہوا جس میں اسلامی ممالک بلکہ مسلم آبادیوں کی ۱۴۴ تنظیموں کے نمائندے شامل تھے۔ یہ مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک کے مسلمانوں کا ایک نمائندہ اجتماع تھا۔ اس میں مرزائیت کے بارے میں جو قرارداد منظور ہوئی، وہ مرزائیت کے کفر ہونے پر تازہ ترین اجماع امت کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس قرارداد کا متن حسب ذیل ہے:
1972القادیانیۃ نحلۃ ہدامۃ تتخذ من اسم الاسلام شعاراً لسترا غراضہا الخبیثۃ وابرز مخالفتہا للاسلام ادعاء زعمیہا النبوۃ وتحریف النصوص القرآنیۃ وابطالہم للجہاد القادیانیۃ ربیبۃ استعمار البریطانی ولا تظہر الافی ظل حمایۃ تخون القادیانیۃ قضایا الامۃ الاسلامیۃ وتقف موالیۃ للاستعمار والصہیونیۃ تتعاون مع القوی الناہضۃ للاسلام وتتخذ ہذہ القوی واجہت لتحطیم لاعقیدۃ الاسلامیۃ وتحریفہا وذلک بمایأتی
الف… انشاء معابدتمولہا القوی المعادیۃ ویتم فیہا التضلیل بالکفر القادیانی المنحرف۔
ب… فتح مدارس ومعاہدو ملاجی، للایتام وفیہا جمیعا تمارس القادیانیۃ نشاطہا التخریبی لحساب القوی المعاریۃ للاسلام وتقوم القادیانیۃ بنشرترجمات محرفۃ لمعانی القرآن الکریم بمختلف اللغات العالمیۃ ولمقاومۃ خطرہا قرر المؤتمر:
۱… تقوم کل ہیئۃ اسلامیۃ بحصر النشاط القادیانی فی معابدہم ومدارسہم وملاجئہم وکل الامکنۃ التی یمارسون فیہا نشاطہم الہدام۰ فی منطقتہا وکشف القادیانیین والتعریف بہم للعالم الاسلامی تفادیا للوقوع فی حبائلہم۔
۲… اعلان کفر ہذہ الطائفۃ وخروجہا علی الاسلام۔
۳… عدم التعامل مع القادیانیین اوالاحمدیین ومقاطعتہم اقتصادیًا واجتماعیًا وثقافیًا وعدم التزوج منہم وعدم دفنہم فی مقابر المسلمین ومعاملتہم باعتبارہم کفارًا۔
1973۴… مطالبۃ الحکومات الاسلامیۃ بمنع کل نشاط لاتباع میرزا غلام احمد مدعی النبوۃ واعتبارہم اقلیت مسلمۃ ویمنعون من تولی الوظائف الحساسۃ للدولۃ۔
۵… نشر مصورات لکل التحریفات القادیانیۃ فی القرآن الکریم مع حصر الترجمات القادیانیۃ لمعانی القرآن والتغبیۃ علیہا ومنع تداول ہذہ الترجمات۔


ترجمہ قرارداد
قادیانیت ایک باطل فرقہ ہے جو اپنی اغراض خبیثہ کی تکمیل کے لئے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کی بنیادوں کو ڈھانا چاہتا ہے۔ اسلام کے قطعی اصولوں سے اس کی مخالفت ان باتوں سے واضح ہے۔
الف… اس کے بانی کا دعویٰ نبوت کرنا۔
ب… قرآنی آیات میں تحریف۔
ج… جہاد کے باطل ہونے کا فتویٰ دینا۔
قادیانیت کی داغ بیل برطانوی سامراج نے رکھی اور اسی نے اسے پروان چڑھایا۔ وہ سامراج کی سرپرستی میں سرگرم عمل ہے۔ قادیانی اسلام دشمن قوتوں کا ساتھ دے کر مسلمانوں کے مفادات سے غداری کرتے ہیں اور ان طاقتوں کی مدد سے اسلام کے بنیادی عقائد میں تحریف وتبدیل اور بیخ کنی کے لئے کئی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً:
الف… دنیا میں مساجد کے نام پر اسلام دشمن طاقتوں کی کفالت سے ارتداد کے اڈے قائم کرنا۔
ب… 1974مدارس، سکولوں، یتیم خانوں اور امدادی کیمپوں کے نام پر غیرمسلم قوتوں کی مدد سے ان ہی کے مقاصد کی تکمیل۔
ج… دنیا کی مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تحریف شدہ نسخوں کی اشاعت وغیرہ ان خطرات کے پیش نظر کانفرنس میں طے کیاگیا کہ:
دنیا بھر کی ہر اسلامی تنظیم اور جماعتوں کا فریضہ ہے کہ وہ قادیانیت اور اس کی ہر قسم اسلام دشمن سرگرمیوں کی ان کے معابد، مراکز، یتیم خانوں وغیرہ میں کڑی نگرانی کریں اور ان کے تمام درپردہ سیاسی سرگرمیوں کا محاسبہ کریں اور اس کے بعد ان کے پھیلائے ہوئے جال، منصوبوں، سازشوں سے بچنے کے لئے عالم اسلام کے سامنے انہیں پوری طرح بے نقاب کیا جائے۔ نیز:
الف… اس گروہ کے کافر اور خارج از اسلام ہونے کا اعلان کیا جائے اور یہ کہ اس وجہ سے انہیں مقامات مقدسہ حرمین وغیرہ میں داخلہ کی اجازت نہیں دی جاسکے گی۔ مسلمان احمدیوں سے کسی قسم کا معاملہ نہیں کریں گے اور اقتصادی، معاشرتی، اجتماعی، عائلی وغیرہ ہر میدان میں ان کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔
د… کانفرنس تمام اسلامی ملکوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ قادیانیوں کی ہر قسم کی سرگرمیوں پر پابندی لگائیں۔ ان کے تمام وسائل اور ذرائع کو ضبط کیا جائے اور کسی قادیانی کو کسی اسلامی ملک میں کسی قسم کا بھی ذمہ دارانہ عہدہ نہ دیا جائے۔
ہ… قرآن مجید میں قادیانیوں کی تحریفات سے لوگوں کو خبردار کیا جائے، اور ان کے تمام تراجم قرآن کا شمار کر کے لوگوں کو ان سے متنبہ کیا جائے اور ان تراجم کی ترویج کا انسداد کیا جائے۔

----------
جناب چیئرمین: مولانا صاحب! دس پندرہ منٹ کے لئے رسٹ کر لیں۔
1975The House is adjourned for 15 minutes. We will start at 11: 15 am.
(ہاؤس کو پندرہ منٹ کے لئے ملتوی کر دیا گیا۔ ہم سواگیارہ بجے دوبارہ اجلاس شروع کریں گے)
----------
The Special Committee adjourned for tea break to re-assemble at 11: 15 am.
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس چائے کے وقفہ کے لئے ملتوی کر دیا گیا۔ دوبارہ اجلاس سواگیارہ بجے شروع ہوگا)
----------
[The Special Committee re-assembled after tea break, Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali) in the Chair.]
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس چائے کے وقفہ کے بعد دوبارہ شروع ہوا۔ جناب چیئرمین صاحبزادہ فاروق علی اجلاس کی صدارت کر رہے ہیں)
----------
جناب چیئرمین: مفتی صاحب کو بلائیں جی۔ (مفتی صاحب اندر داخل ہوئے)
جناب چیئرمین: دومنٹ انتظار کر لیں۔ (وقفہ) مولانا مفتی محمود!
مولوی مفتی محمود:

عدالتوں کے فیصلے
اب ان عدالتی فیصلوں کا خلاصہ پیش خدمت ہے جن میں مرزائیوں کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا گیا ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
فیصلہ مقدمہ بہاول پور
باجلاس جناب منشی محمد اکبر خاں صاحب، بی۔اے، ایل۔ایل۔بی ڈسٹرکٹ جج ضلع بہاول پور بمقدمہ مسماۃ غلام عائشہ بنت مولوی الٰہی بخش سکنہ احمد پور شرقیہ، ریاست بہاول پور، بنام عبدالرزاق ولد مولوی جان محمد سکنہ موضع مہند تحصیل احمد پور شرقیہ ریاست بہاول پور۔ دعویٰ دلاپانے ڈگری استقراریہ مشعر تنسیخ نکاح فریقین بوجہ ارتداد شوہر مدعا علیہ تاریخ فیصلہ ۷؍فروری ۱۹۳۵ئ۔
1976Sheikh Muhammad Rashid: (Minister for Health and Social Welfare) I may only point out that all important parts of the judgments of different courts should be read out.
(شیخ محمد رشید: (صحت وسماجی بہبود کے وفاقی وزیر) میں اس بات کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوںکہ مختلف عدالتوں کے فیصلہ جات کے اہم حصے پڑھے جانے چاہئیں)
Mr. Chairman: The judgments of the courts run into hundred of pages and their operative parts are many. The details are given in the judgments.
He is giving operative portions to support thier claim.
(جناب چیئرمین: عدالتوں کے فیصلے سو صفحات پر محیط ہیں اور ان میں بہت سارے اہم حصے ہیں۔ فیصلوں میں تفصیلات دی گئی ہیں۔ یہ صاحب اپنے دعویٰ کے ثبوت میں صرف عملی حصے پیش کر رہے ہیں)
مولوی مفتی محمود: عدالت مذکورہ نے مقدمہ کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد آخر میں اپنا فیصلہ مندرجہ ذیل الفاظ میں تحریر کیا اور سنایا۔
اوپر کی تمام بحث سے یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ مسئلہ ختم نبوت اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے اور کہ رسول اﷲﷺ کو خاتم النّبیین بایں معنی نہ ماننے سے کہ آپ آخری نبی ہیں ارتداد واقع ہو جاتا ہے اور کہ عقائد اسلامی کی رو سے ایک شخص کلمہ کفر کہہ کر بھی دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔
مدعا علیہ، مرزاغلام احمد صاحب کو عقائد قادیانی کی رو سے نبی مانتا ہے اور ان کی تعلیم کے مطابق یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ امت محمدیہ میں قیامت تک سلسلہ نبوت جاری ہے۔ یعنی کہ وہ رسول اﷲﷺ کو خاتم النّبیین یعنی آخری نبی تسلیم نہیں کرتا۔ آنحضرتa کے بعد کسی دوسرے شخص کو نیا نبی تسلیم کرنے سے جو قباحتیں لازم آتی ہیں۔ ان کی تفصیل اوپر بیان کی جاچکی ہے۔ اس لئے مدعا علیہ اس اجماعی عقیدۂ امت سے منحرف ہونے کی وجہ سے مرتد سمجھا جاوے گا اور اگر ارتداد کے معنی کسی مذہب کے اصولوں سے بکلی انحراف کے لئے جاویں تو بھی مدعا علیہ مرزاصاحب کو نبی ماننے سے ایک نئے مذہب کا پیرو سمجھاجائے گا۔ کیونکہ اس صورت میں اس کے لئے قرآن کی تفسیر اور معمول بہ مرزاصاحب کی وحی ہوگی۔ نہ کہ احادیث واقوال فقہا جن پر کہ اس وقت تک مذہب اسلام قائم چلا آیا ہے اور جن میں سے بعض کے مستند ہونے کو خود مرزاصاحب نے بھی تسلیم کیا ہے۔
1977علاوہ ازیں احمدی مذہب میں بعض احکام ایسے ہیں کہ شرع محمدی پر مستزاد ہیں اور بعض اس کے خلاف ہیں۔ مثلاً چندہ ماہواری کا دینا جیسا کہ اوپر دکھایا گیا ہے۔ زکوٰۃ پر ایک زائد حکم ہے۔ اسی طرح غیراحمدی کا جنازہ نہ پڑھنا۔ کسی احمدی کی لڑکی غیراحمدی کو نکاح میں نہ دینا۔ کسی غیراحمدی کے پیچھے نماز نہ پڑھنا شرع محمدی کے خلاف اعمال ہیں۔
مدعا علیہ کی طرف سے ان امور کی توجیہیں بیان کی گئی ہیں کہ وہ کیوں غیراحمدی کا جنازہ نہیں پڑھتے، کیوں ان کو نکاح میں لڑکی نہیں دیتے۔ لیکن یہ توجیہیں اس لئے کارآمد نہیں کہ یہ امور ان کے پیشواؤں کے احکام میں مذکور ہیں۔ اس لئے وہ ان کے نقطۂ نگاہ سے شریعت کا جزو سمجھے جائیں گے جو کسی صورت میں بھی شرع محمدی کے موافق تصور نہیں ہو سکتے۔ اس کے ساتھ جب یہ دیکھا جاوے کہ وہ تمام غیراحمدی کو کافر سمجھتے ہیں تو ان کے مذہب کو مذہب اسلام سے ایک جدا مذہب قرار دینے میں کوئی شک نہیں رہتا۔ علاوہ ازیں مدعا علیہ کے گواہ مولوی جلال الدین شمس نے اپنے بیان میں مسیلمہ وغیرہ کاذب مدعیان نبوت کے سلسلہ میں جو کچھ کہا ہے اس سے یہ پایا جاتا ہے کہ گواہ مذکور کے نزدیک دعویٰ نبوت کاذبہ ارتداد ہے اور کاذب مدعی نبوت کو جو مان لے وہ مرتد سمجھا جاتا ہے۔
مدعیہ کی طرف سے یہ ثابت کیاگیا ہے کہ مرزاصاحب کاذب مدعی نبوت ہیں۔ اس لئے مدعا علیہ بھی مرزاصاحب کو نبی تسلیم کرنے سے مرتد قرار دیا جائے گا۔ لہٰذا ابتدائی تنقیحات جو ۴؍نومبر ۱۹۲۶ء کو عدالت منصفی احمد پور شرقیہ سے وضع کی گئی تھیں۔ بحق مدعیہ ثابت قرار دے جا کر یہ قرار دیا جاتا ہے کہ مدعا علیہ قادیانی عقائد اختیار کرنے کی وجہ سے مرتد ہوچکا ہے۔ لہٰذا اس کے ساتھ مدعیہ کا نکاح تاریخ ارتداد مدعا علیہ سے فسخ ہوچکا ہے اور اگر مدعا علیہ کے عقائد کو بحث مذکورہ بالا کی روشنی میں دیکھا جاوے تو بھی مدعا علیہ کے ادّعا کے مطابق مدعیہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہی ہے کہ رسول اﷲﷺ کے بعد کوئی امتی نبی نہیں ہوسکتا اور یہ کہ اس کے علاوہ جو دیگر عقائد مدعا علیہ نے اپنی 1978طرف منسوب کئے ہیں۔ وہ گو عام اسلامی عقائد کے مطابق ہیں۔ لیکن ان عقائد پر وہ انہی معنوں میں عمل پیرا سمجھا جاوے گا۔ جو معنی کہ مرزاصاحب نے بیان کئے ہیں اور یہ معنی چونکہ ان معنوں کے مغائر ہیں جو جمہور امت آج تک لیتی آئی اس لئے بھی وہ مسلمان نہیں سمجھا جاسکتا ہے اور ہر دو صورتوں میں وہ مرتد ہی ہے اور مرتد کا نکاح جو ارتداد سے فسخ ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ڈگری بدیں مضمون بحق مدعیہ صادر کی جاتی ہے کہ وہ تاریخ ارتداد مدعا علیہ سے اس کی زوجہ نہیں رہی۔ مدعیہ خرچہ مقدمہ بھی ازاں مدعا علیہ لینے کی حقدار ہوگی۔
اس ضمن میں مدعا علیہ کی طرف سے ایک سوال یہ پیدا کیاگیا ہے کہ ہر دو فریق چونکہ قرآن مجید کو کتاب اﷲ سمجھتے ہیں اور اہل کتاب کا نکاح جائز ہے۔ اس لئے بھی مدعیہ کا نکاح فسخ قرار نہیں دینا چاہئے۔ اس کے متعلق مدعیہ کی طرف سے یہ کہاگیا ہے کہ جب دونوں فریق ایک دوسرے کو مرتد کہتے ہیں تو ان کے اپنے اپنے عقائد کی رو سے بھی ان کا باہمی نکاح قائم نہیں رہتا۔ علاوہ ازیں اہل کتاب عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے نہ کہ مردوں سے بھی۔ مدعیہ کے دعویٰ کی رو سے چونکہ مدعا علیہ مرتد ہوچکا ہے۔ اس لئے اہل کتاب ہونے کی حیثیت سے بھی اس کے ساتھ مدعیہ کا نکاح قائم نہیں رہ سکتا۔ مدعیہ کی یہ حجت وزن دار پائی جاتی ہے۔ لہٰذا اس بناء پر بھی وہ ڈگری پانے کی مستحق ہے۔
 
Top