ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
مرزائیوں کی طرف سے مدراس ہائیکورٹ کے فیصلے کا حوالہ بڑے زور وشور سے دیا جاتا ہے۔ فاضل جج نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے:
’’مدعا علیہ کی طرف سے اپنے حق میں چند نظائر قانونی کا بھی حوالہ دیاگیا تھا۔ ان میں سے پٹنہ اور پنجاب ہائیکورٹ کے فیصلہ جات کو عدالت عالیہ چیف کورٹ نے پہلے واقعات مقدمہ ہذا پر حاوی نہیں سمجھا اور مدراس ہائیکورٹ کے فیصلے کو عدالت معلّٰے اجلاس خاص نے قابل پیروی 1979قرار نہیں دیا۔ باقی رہا عدالت عالیہ چیف کورٹ بہاول پور کا فیصلہ بمقدمہ مسمات جندوڈی بنام کریم بخش اس کی کیفیت یہ ہے کہ یہ فیصلہ جناب مہتہ اودھو داس صاحب جج چیف کورٹ کے اجلاس سے صادر ہوا تھا اور اس مقدمے کا صاحب موصوف نے مدراس ہائیکورٹ کے فیصلہ پر ہی انحصار رکھتے ہوئے فیصلہ فرمایا تھا اور خود ان اختلافی مسائل پر جو فیصلہ مذکور میں درج تھے کوئی محاکمہ نہیں فرمایا تھا۔ مقدمہ چونکہ بہت عرصہ سے دائر تھا اس لئے صاحب موصوف نے اسے زیادہ عرصہ معرض تعویق میں رکھنا پسند نہ فرما کر باتباع فیصلہ مذکور اسے طے فرمادیا۔ دربار معلّٰے نے چونکہ اس فیصلہ کو قابل پابندی قرار نہیں دیا۔ جس فیصلہ کی بناء پر کہ وہ فیصلہ صادر ہوا، اس لئے فیصلہ زیربحث بھی قابل پابندی نہیں رہتا۔‘‘
فریقین میں سے مختار مدعیہ حاضر ہے اسے حکم سنایا گیا۔ مدعا علیہ کارروائی مقدمہ ہذا ختم ہونے کے بعد جب کہ مقدمہ زیرغور تھا فوت ہوگیا ہے۔ اس کے خلاف یہ حکم زیر آرڈر ۲۲رول ۶ ضابطہ دیوانی تصور ہوگا۔ پرچہ ڈگری مرتب کیا جاوے اور مثل داخل دفتر ہو۔ مورخہ ۷؍فروری ۱۹۳۵ء بمطابق ۳؍ذیقعدہ ۱۳۵۳ھ
بمقام بہاول پور دستخط: محمد اکبر ڈسٹرکٹ جج ضلع بہاول نگر
ریاست بہاول پور (بحروف انگریزی)
----------
باجلاس جناب شیخ محمد اکبر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج راولپنڈی سول اپیل ۱۹۵۵ء
امتہ الکریم بنت کرم الٰہی راجپوت جنجوعہ، مکان نمبر۵۰۰/B، محلہ ٹرنک بازار راولپنڈی (مرزائی)
بنام
لیفٹیننٹ نذیر الدین ملک خلف ماسٹر محمد دین اعوان، محلہ کرشن پورہ راولپنڈی (مسلمان)
تاریخ فیصلہ ۳؍جون ۱۹۵۵ء
عدالت مذکورہ نے مقدمہ کی تفصیلات پر بحث کرنے کے بعد آخر میں اپنا فیصلہ مندرجہ ذیل الفاظ میں تحریر کیا اور فیصلہ سنایا۔
مندرجہ بالا صورت میں، میں حسب ذیل نتائج پر پہنچا ہوں۔
۱… مسلمانوں میں اس پر اجماع ہے کہ پیغمبر اسلام خدا کے آخری نبی تھے اور ان کے بعد کسی اور نبی کو نہیں آنا ہے۔
۲… مسلمانوں میں اس پر اجماع ہے کہ جسے ہمارے نبی کے آخری ہونے پر ایمان نہ ہو وہ مسلمان نہیں ہے۔
۳… مسلمانوں میں اس پر اجماع ہے کہ قادیانی غیرمسلم ہیں۔
۴… مرزاغلام احمد نے خود اپنے اعلانات کے مطابق یہ دعویٰ کیا کہ ان پر ایسی وحی آتی ہے جو وحی نبوت کے برابر ہے۔
۵… خود مرزاغلام احمد نے اپنی پہلی کتابوں میں معیار رکھے ہیں وہ خود ان کے دعویٰ نبوت کی تکذیب کرتے ہیں۔
1981۶… انہوں نے اپنے مکمل پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا۔ ظل اور بروز کا سارا قصہ محض ڈھونگ ہے۔
۷… نبی کریمﷺ کے بعد کسی پر وحی نبوت نہیں آسکتی اور جو ایسا دعویٰ کرتا ہے اسلام کے دائرہ سے خارج ہے۔
مندرجہ بالا استدلال اور نتائج کی بناء پر میں سمجھتا ہوں کہ ابتدائی سماعت کرنے والی عدالت کا فیصلہ صحیح ہے اور میں سارے فیصلے کی توثیق کرتا ہوں۔ مسمات امت الکریم کی اپیل میں کوئی وزن نہیں اور میں اپیل خارج کرتا ہوں۔
جہاں تک لیفٹیننٹ نذیر الدین کی اپیل کا تعلق ہے، اس کے متعلق مسٹر ظفر محمود ایڈووکیٹ نے مجھے بہت کم باتیں بتائیں۔ امت الکریم کے جہیز کا سامان ان کے قبضے میں پایا گیا۔ اس کی قیمت لگائی جاچکی ہے۔ ان کی اپیل میں بھی کوئی وزن نہیں ہے۔ اس لئے اسے بھی خارج کرتا ہوں۔ چونکہ دونوں فریقوں کی اپیل خارج ہوگئی۔ اس لئے میں خرچہ کے متعلق کوئی حکم نہیں دیتا۔
دستخط: شیخ محمد اکبر (سیشن جج بمقام راولپنڈی)
۳؍جون ۱۹۵۵ء
----------
[At this stage Mr. Chairman vacated the Chair which was occupied by (Dr. Mrs Ashraf Khatoon Abbasi)]
(اس موقع پر مسٹر چیئرمین نے کرسی صدارت چھوڑ دی جسے ڈاکٹر مسز اشرف خاتون عباسی نے سنبھال لیا)
----------
1982مولوی مفتی محمود:
مقدمہ جیمس آباد کا فیصلہ
فیملی سوٹ نمبر۹/۱۹۶۹ء مسماۃ امتہ الہادی دختر سردار خان مدعیہ
بنام
حکیم نذیر احمد برق مدعا علیہ
مندرجہ بالا بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ مدعیہ جو ایک مسلمان عورت ہے کی شادی مدعا علیہ کے ساتھ جس نے شادی کے وقت خود اپنا قادیانی ہونا تسلیم کیا ہے اور اس طرح خود غیرمسلم قرار پایا، غیرمؤثر ہے اور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ مدعیہ اسلامی تعلیمات کے مطابق مدعا علیہ کی بیوی نہیں۔
تنسیخ نکاح کے بارے میں مدعیہ کی درخواست کا فیصلہ اس کے حق میں کیاجاتا ہے اور مدعا علیہ کو ممانعت کی جاتی ہے کہ وہ مدعیہ کو اپنی بیوی قرار نہ دے، مدعیہ اس مقدمے کے اخراجات بھی وصول کرنے کی حقدار ہے۔
یہ فیصلہ ۱۳؍جولائی کو شیخ محمد رفیق گوریجہ کے جانشین جناب قیصر احمد حمیدی نے جوان کی جگہ جیمس آباد کے سول اور فیملی کورٹ جج مقرر ہوئے ہیں کھلی عدالت میں پڑھ کر سنایا۔
’’مسجد روزہل کے مقدمہ‘‘ کو تاریخ ماریشس کا سب سے بڑا مقدمہ کہا جاتا ہے کیونکہ پورے دو سال تک سپریم کورٹ نے بیانات لئے، شہادتیں سنیں اور پہلی مرتبہ یہ فیصلہ دیا کہ: ’’مسلمان الگ امت ہیں اور قادیانی الگ۔‘‘
1983یہ مقدمہ لڑنے کے لئے مسلمانوں اور قادیانیوں دونوں نے دوسرے ممالک سے مشہور وکلاء منگوائے۔ قادیانیوں سے مسجد واپس لینے کے سلسلے میں روزہل کے جن مسلمانوں نے کام کیا۔ ان میں محمود اسحاق جی، اسماعیل حسن جی، ابراہیم حسن جی قابل ذکر ہیں۔ یہ لوگ وہاں کے تجارتی حلقوں میں بڑا مقام رکھتے تھے۔ انہوں نے جو مقدمہ دائر کیا اس کی بنیاد یہ تھی۔
دعویٰ
روزہل کی مسجد جہاں مسلمانوں کے حنفی (سنی) فرقہ کے لوگ نماز پڑھتے تھے۔ یہ مسجد انہوں نے تعمیر کروائی تھی اور مسلسل قابض چلے آرہے تھے۔ اس پر قادیانیوں نے قبضہ کر لیا ہے جن کا تعلق امت اسلامیہ سے نہیں ہے، قادیانی ہم مسلمانوں کو مسلمان نہیں سمجھتے، ہمارے پیچھے ان کی نماز نہیں ہوتی۔ ایسی صورت میں ان کو مسجد سے باہر نکالا جائے۔
چنانچہ ۲۶؍فروری ۱۹۱۹ء کو یہ مقدمہ دائر ہوا۔ قادیانیوں کے خلاف ۲۱شہادتیں پیش کی گئیں۔ ان شہادتوں میں مولانا عبداﷲ رشید نواب کی شہادت خاص طور سے قابل ذکر ہے۔ آپ نے عدالت عالیہ میں نہایت جرأت وبے باکی سے قادیانیوں کو بے نقاب کیا اور سینکڑوں کتب، اخبارات، رسائل وجرائد پیش کر کے عدالت کو یہ باور کرانے کی یہ کامیاب کوشش کی کہ قادیانی اور مسلمان الگ الگ امتیں ہیں۔ مرزاغلام احمد کی کتب اور حوالے مولانا رشید نے پیش کئے۔
قادیانیوں کی طرف سے مولوی غلام محمد بی۔اے نے وکلاء کی مدد کی اور جواب دعویٰ تیار کیا۔ مولوی غلام محمد اس مقصد کے لئے خاص طور سے قادیان گیا تھا۔ مسلمانوں کے وکلاء میں مسٹر رولرڈ کے سی۔ای سویزا کے سی۔ای اسنوف اور ای نیاریک تھے۔ جب کہ قادیانیوں کا وکیل مسٹر آرپزانی تھا۔
عدالت عالیہ کی کارروائی کے دوران ہزاروں مسلمان موجود ہوتے اور ملک میں پہلی مرتبہ یہ علم ہوا کہ قادیانی مسلمان نہیں ہیں۔ بلکہ مسلمانوں کے بھیس میں اپنا مقصد حاصل کرتے ہیں۔ 1984چنانچہ ۱۹؍نومبر ۱۹۲۰ء کو چیف جج سرائے ہرچیزوڈر نے یوں فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
فیصلہ
’’عدالت عالیہ اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ مدعا علیہ (قادیانی) کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ روزہل مسجد میں اپنی پسند کے امام کے پیچھے نماز ادا کریں، اس مسجد میں صرف مدعی (مسلمان) ہی نماز ادا کر سکیں گے، اپنے اعتقادات کی روشنی میں۔‘‘
اسی عدالت کے ایک دوسرے جج جناب ٹی،ای روزلی نے بھی اس فیصلہ سے اتفاق کیا۔
----------
آخر میں شاعر مشرق، مصور پاکستان علامہ اقبال صاحب کے کچھ ارشادات پیش کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے مرزائیت کی اسلام دشمنی محسوس کر کے ساری امت کو اس خطرے سے خبردار کرنے کے لئے بے شمار مضامین لکھے ہیں، ان تمام مضامین کو یہاں پیش کرنا مشکل ہے۔ البتہ چند ضروری اقتباسات پیش خدمت ہیں۔
وہ اسٹیٹ مین کی ۱۰؍جون کی اشاعت میں فرماتے ہیں:
’’اسلام لازماً ایک دینی جماعت ہے جس کی حدود مقرر ہیں۔ یعنی وحدت الوہیت پر ایمان، انبیاء پر ایمان اور رسول کریمﷺ کی ختم رسالت پر ایمان۔ دراصل یہ آخری یقین ہی وہ ایک حقیقت ہے جو مسلم اور غیرمسلم کے درمیان وجہ امتیاز ہے اور اس 1985امر کے لئے فیصلہ کن ہے کہ فرد یا گروہ ملت اسلامیہ میں شامل ہے یا نہیں؟ مثلاً برہمو خدا پر یقین رکھتے ہیں اور رسول کریمﷺ کو خدا کا پیغمبر مانتے ہیں۔ لیکن انہیں ملت اسلامیہ میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ قادیانیوں کی طرح وہ انبیاء کے ذریعے وحی کے تسلسل پر ایمان رکھتے ہیں اور رسول کریمﷺ کی ختم نبوت پر ایمان نہیں رکھتے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے کوئی اسلامی فرقہ اس حد فاصل کو عبور کرنے کی جسارت نہیں کر سکا۔ ایران میں بہائیوں نے ختم نبوت کے اصول کو صریحاً جھٹلایا۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ وہ ایک الگ جماعت ہیں اور مسلمانوں میں شامل نہیں ہیں… میری رائے میں تو قادیانیوں کے سامنے صرف دو راہیں ہیں، یا وہ بہائیوں کی تقلید کریں یا پھر ختم نبوت کی تاویلوں کو چھوڑ کر اس اصول کو اس کے پورے مفہوم کے ساتھ قبول کریں ان کی جدید تاویلیں محض اس غرض سے ہیں کہ ان کا شمار حلقہ اسلام میں ہو،تا کہ انہیں سیاسی فوائد پہنچ سکیں۔‘‘ (حرف اقبال ص۱۳۶،۱۳۷)
ایک اور مقام پر تحریر فرماتے ہیں: ’’نام نہاد تعلیم یافتہ مسلمانوں نے ختم نبوت کے تمدنی پہلو پر کبھی غور نہیں کیا اور مغربیت کی ہوا نے اسے حفظ نفس کے جذبے سے بھی عاری کر دیا ہے۔ بعض ایسے ہی نام نہاد تعلیم یافتہ مسلمانوں نے اپنے مسلمان بھائیوں کو رواداری کا مشورہ دیا ہے۔‘‘ (حرف اقبال ص۱۲۴)
آگے ہندوستان کی غیرمسلم حکومت سے خطاب کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’حکومت کو موجودہ صورت حالات پر غور کرنا چاہئے اور اس معاملہ میں جو قومی وحدت کے لئے اشد اہم ہے عالم مسلمانوں کی ذہنیت کا اندازہ لگانا چاہئے۔ اگر 1986کسی قوم کی وحدت خطرے میں ہو تو اس کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہتا کہ وہ معاندانہ قوتوں کے خلاف اپنی مدافعت کرے… سوال پیدا ہوتا ہے کہ مدافعت کا کیا طریقہ ہے؟ وہ طریقہ یہی ہے کہ اصل جماعت میں جس شخص کو تلعّب بالدین، دین کے ساتھ کھیل، کرتے پائے اس کے دعاوی کو تقریر وتحریر کے ذریعے سے جھٹلایا جائے۔ پھر کیا یہ مناسب ہے کہ اصل جماعت کو رواداری کی تلقین کی جائے۔ حالانکہ اس کی وحدت خطرے میں ہو اور باغی گروہ کو تبلیغ کی پوری اجازت ہو۔ اگرچہ وہ تبلیغ جھوٹ اور دشنام سے لبریز ہو۔
اگر کوئی گروہ جو اصل جماعت کے نقطۂ نظر سے باغی ہے حکومت کے لئے مفید ہے تو حکومت اس کی خدمات کا صلہ دینے کی پوری طرح مجاز ہے۔ دوسری جماعتوں کو اس سے کوئی شکایت پیدا نہیں ہوسکتی۔ لیکن یہ توقع رکھنی بیکار ہے کہ خود جماعت ایسی قوتوں کو نظر انداز کر دے جو اس کے اجتماعی وجود کے لئے خطرہ ہیں۔‘‘ (حرف اقبال ص۱۲۶)
کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے بعض لوگ ایک دوسرے کو کافر قرار دیتے ہیں۔ لہٰذا ان کے فتوؤں کا کوئی اعتبار نہیں رہا۔ اس کا جواب دیتے ہوئے شاعر مشرق تحریر فرماتے ہیں:
’’اس مقام پر یہ دہرانے کی غالباً ضرورت نہیں کہ مسلمانوں کے بے شمار فرقوں کے مذہبی تنازعوں کا ان بنیادی مسائل پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔ جن کے مسائل پر سب فرقے متفق ہیں۔ اگرچہ وہ ایک دوسرے پر الحاد کے فتوے ہی دیتے ہوں۔‘‘ (حرف اقبال ص۱۲۷)
پھر شاعر مشرق قادیانی مسئلہ کا حل تجویز کرتے ہوئے فرماتے ہیں: 1987’’میری رائے میں حکومت کے لئے بہترین طریق کار یہ ہوگا کہ وہ قادیانیوں کو ایک الگ جماعت تسلیم کر لے۔ یہ قادیانیوں کی پالیسی کے عین مطابق ہوگا اور مسلمان ان سے ویسی رواداری سے کام لے گا جیسے وہ باقی مذاہب کے معاملے میں اختیار کرتا ہے۔‘‘ (حرف اقبال ص۱۲۸،۱۲۹)
یہ وہ مطالبہ ہے کہ جو ڈاکٹر اقبال مرحوم نے انگریز کی حکومت سے کیا تھا۔ اب جو مملکت شاعر مشرق کے خوابوں کی تعبیرکی حیثیت سے انہی کا نام لے کر وجود میں آئی ہے یہ اس کا پہلا فریضہ ہے کہ وہ شاعر مشرق کی اس آرزو کو پایۂ تکمیل تک پہنچائے۔
----------
1988ضمیمہ … بعض مرزائی مغالطے
1989خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
1990چند شبہات کا ازالہ
جب مسلمانوں کی طرف سے مرزائیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو مرزائی صاحبان طرح طرح سے مغالطے دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں مختصراً ان مغالطوں کا ایک جائزہ پیش خدمت ہے۔ کلمہ گو کی تکفیر کا مسئلہ
مرزائیوں کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ جو شخص کلمہ گو ہو، اور اپنے مسلمان ہونے کا اقرارکرتا ہو، کسی بھی شخص کو اسے کافر قرار دینے کا حق نہیں پہنچتا۔ یہاں سب سے پہلے تو یہ بوالعجبی ملاحظہ فرمائیے کہ یہ بات ان لوگوں کی طرف سے کہی جارہی ہے جو دنیا کے ستر کروڑ مسلمانوں کو کھلم کھلا کافر کہتے ہیں اور جو کلمہ ’’لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ پر اور اس کے تمام ضروری تقاضوں پر صحیح معنی میں ایمان رکھنے والوں کو دائرہ اسلام سے خارج، شقی، بدطینت، یہاں تک کہ ’’کنجریوں کی اولاد۱؎‘‘ قرار دینے میں بھی کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔ گویا ہر ’’کلمہ گو‘‘ کو مسلمان کہنا صرف یک طرفہ حکم ہے جو صرف غیراحمدیوں پر عائد ہوتا ہے اور خود مرزائی صاحبان کو کھلی چھٹی ہے کہ خواہ وہ مسلمانوں کو کتنی شدومد سے کافر کہیں، خواہ انہیں بازاری گالیاں دیں۔ خواہ ان کے اکابر
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ۱؎ مرزاقادیانی کہتے ہیں کہ: ’’میری کتابوں کو ہر شخص محبت کی نگاہ سے دیکھ کر ان کے معارف سے فائدہ اٹھاتا اور میری دعوت کی تصدیق کرتا ہے۔ سوائے ’’بغایا‘‘ (فاحشہ عورتوں، کنجریوں) کی اولاد کے جن کے دلوں پر اﷲ نے مہر لگادی، وہ انہیں نہیں مانتے۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۵۴۸، خزائن ج۵ ص ایضاً)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور مقدس ترین شخصیات کی ناموس پر حملہ آور ہوں۔ ان کے ’’اسلام‘‘ میں کبھی کوئی فرق نہیں آسکتا اور نہ ان پر کلمہ گو کو کافر کہنے کا الزام لگ سکتا ہے۔ یہ ہے اس مرزائی مذہب کا انصاف جو شرم وحیا اور دیانت واخلاق کا منہ نوچ کر اپنے آپ کو روحانیت ’’محمدﷺ‘‘ کا ظہور ثانی قرار دیتا ہے۔
1991پھر خدا جانے یہ اصول کہاں سے گھڑا گیا ہے کہ ہر وہ شخص جو کلمہ پڑھتا ہو اور اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو وہ مسلمان ہے اور اسے کوئی شخص کافر قرار نہیں دے سکتا؟ سوال یہ ہے کہ کیا مسیلمہ کذاب کلمہ شہادت نہیں پڑھتا تھا؟ پھر خود آنحضرتﷺ اور صحابہ کرامؓ نے اسے کافرقرار دے کر اس کے خلاف جہاد کیوں کیا؟ اور خود مرزاغلام احمد نے جابجا نہ صرف مسیلمہ کذاب بلکہ آپﷺ کے بعد اپنے سوامدعی نبوت کو کافر اور کذاب کیوں کہا؟ اگر آج کوئی نیا مدعی نبوت کلمہ پڑھتا ہوا اٹھے اور آنحضرتﷺ کے سوا تمام انبیاء کو جھٹلائے۔ آخرت کے عقیدے کا مذاق اڑائے، قرآن کریم کو اﷲ کی کتاب ماننے سے انکار کرے، اپنے آپ کو افضل الانبیاء قرار دے، نماز روزے کو منسوخ کر دے۔ جھوٹ، شراب، زنا، سود اور قمار کو جائز کہے اور کلمہ ’’
لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ
‘‘ کے سوا اسلام کے ہر حکم کی تکذیب کر دے تو کیا اسے پھر بھی ’’کلمہ گو‘‘ ہونے کی بنا پر مسلمان ہی سمجھا جائے گا؟ اگر اسلام ایسا ہی ڈھیلا ڈھالا جامہ ہے۔ جس میں کلمہ پڑھنے کے بعد دنیاکا ہر برے سے براعقیدہ اور برے سے برا عمل سماسکتا ہے تو پھر فضول ہی اسلام کے بارے میں یہ دعوے کئے جاتے ہیں کہ وہ دنیا کے تمام مذاہب میں سب سے زیادہ بہتر، مستحکم، منظم اور باقاعدہ مذہب ہے۔
جو لوگ ہر ’’کلمہ گو‘‘ کو مسلمان کہنے پر اصرار کرتے ہیں۔ کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کلمہ (معاذ اﷲ) کوئی منتر یا ٹونا ٹوٹکا ہے جسے ایک مرتبہ پڑھ لینے کے بعد انسان ہمیشہ کے لئے ’’کفر پروف‘‘ ہو جاتا ہے اور اس کے بعد برے سے برا عقیدہ بھی اسے اسلام سے خارج نہیں کر سکتا؟
اگر عقل وخرد اور انصاف ودیانت دنیا سے بالکل اٹھ ہی نہیں گئی تو اسلام جیسے علمی اور عقلی دین کے بارے میں یہ تصور کیسے کیا جاسکتا ہے کہ محض چند الفاظ کو زبان سے ادا کرنے کے بعد انسان جہنمی سے جنتی اور کافر سے مسلمان بن جاتا ہے۔ خواہ اس کے عقائد اﷲ اور رسول کی مرضی کے بالکل خلاف ہوں؟
واقعہ یہ ہے کہ کلمہ ’’
لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ
‘‘ (معاذ اﷲ) کوئی جادو یا طلسم نہیں ہے یہ ایک معاہدہ اور اقرارنامہ ہے اور اس میں اﷲتعالیٰ کو معبود واحد قرار دینے اور حضرت محمدﷺ 1992کو اﷲ کا رسول ماننے کا مطلب یہ معاہدہ کرنا ہے کہ میں اﷲ اور اس کے رسولﷺ کی ہر بات کی تصدیق کروں گا۔ لہٰذا اﷲ یا اس کے رسولﷺ کی بتائی ہوئی جتنی باتیں ہم تک تواتر اور قطعیت کے ساتھ پہنچی ہیں ان سب کو درست تسلیم کرنا ’’
لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ
‘‘ پر ایمان کا لازمی جز اور اس کا ناگزیر تقاضا ہے۔ اگر کوئی شخص ان متواتر قطعیات میں سے کسی ایک چیز کو بھی درست ماننے سے انکار کر دے تو درحقیقت وہ کلمہ توحید پر ایمان نہیں رکھتا، خواہ زبان سے ’’
لا الہ الا اﷲ
‘‘ پڑھتا ہو۔ اس لئے اس کو مسلمان نہیں کہا جاسکتا۔ عقیدہ ختم نبوت چونکہ قرآن کریم کی بیسیوں آیات اور سرکار دوعالمﷺ کے سینکڑوں ارشادات سے بطریق تواتر ثابت ہے۔ اس لئے باجماع امت وہ انہی قطعیات میں سے ہے جن پر ایمان لانا کلمہ طیبہ کا لازمی جز ہے اور جس کے بغیر انسان مسلمان نہیں ہوسکتا۔
اس سلسلے میں بعض ان احادیث سے استدلال کی کوشش کی جاتی ہے جن میں سے آنحضرتﷺ نے مسلمان کی علامتیں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’جو ہماری طرح نماز پڑھے، ہمارے قبلے کی طرف رخ کرے اور ہمارا ذبح کیا ہوا جانور کھائے وہ مسلمان ہے۔‘‘ لیکن جس شخص کو بھی بات سمجھنے کا سلیقہ ہو وہ حدیث کے اسلوب وانداز سے یہ سمجھ سکتاہے کہ یہاں مسلمان کی کوئی قانونی اور جامع ومانع تعریف نہیں کی جارہی۔ بلکہ مسلمانوں کی وہ معاشرتی علامتیں بیان کی جارہی ہیں جن کے ذریعہ مسلم معاشرہ دوسرے مذاہب اور معاشروں سے ممتاز ہوتا ہے اور اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ جس شخص کی ظاہری علامتیں اس کے مسلمان ہونے کی گواہی دیتی ہوں اس پر خواہ مخواہ بدگمانی کرنا یا بلاوجہ اس کی عیب جوئی کرنا درست نہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب کہاں سے نکل آیا کہ اگر وہ خود مسلمانوں کے سامنے اعلانیہ کفریات کا اقرار کرتا پھرے، بلکہ ساری دنیا کو ان کفریات کی دعوت دے کر اپنے متبعین کے سوا تمام مسلمانوں کو کافر قرار دے تب بھی وہ صرف مسلمانوں کا ذبیحہ کھانے کی وجہ سے مسلمان کہلانے کا مستحق ہوگا۔ خواہ ’’
لا الہ الا اﷲ
‘‘ اور اس کے تقاضوں کا بھی قائل نہ ہو۔
1993درحقیقت اس حدیث میں مسلمان کی تعریف نہیں بلکہ اس کی ظاہری علامتیں بیان کی گئی ہیں۔ مسلمان کی پوری تعریف درحقیقت آنحضرتﷺ کے اس ارشاد میں بیان کی گئی ہے۔
’’
امرت ان اقاتل الناس حتی یشہدوا ان لا الہ الا اﷲ ویؤمنوا بی وبما جئت بہ
‘‘ (رواہ مسلم عن ابی ہریرہؓ ج۱ ص۳۷، باب الامربقتال الناس حتی یقولون لا الہ الا اﷲ)
مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جہاد کروں۔ یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اﷲ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور مجھ پر ایمان لائیں اور ہر اس بات پر جو میں لے کر آیا ہوں۔
اس میں مسلمان کی پوری حقیقت بیان کر دی گئی ہے کہ نبی کریمﷺ کی لائی ہوئی ہر تعلیم کو ماننا ’’
اشہد ان محمداً رسول اﷲ
‘‘ کا لازمی جز ہے اور آپﷺ کا یہ ارشاد قرآن کریم کی اس آیت سے ماخوذ ہے۔ جس میں اﷲتعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ: ’’
فلا وربک لا یؤمنون حتی یحکّموک فیما شجر بینہم ثم لا یجدوا فی انفسہم حرجاً مما قضیت ویسلّموا تسلیماً (النسائ:۶۵)
‘‘ {پس نہیں، تمہارے رب کی قسم یہ لوگ مؤمن نہ ہوں گے جب تک یہ تمہیں اپنے ہر متنازعہ معاملے میں حکم نہ مان لیں۔ پھر تمہارے فیصلے سے اپنے دل میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں اور اسے خوشی سے تسلیم نہ کریں۔}
یہ ہے کلمہ گو کی حقیقت اور اس کے برخلاف محض کلمہ پڑھ لینے کے بعد ہمیشہ کے لئے کفر سے محفوظ ہو جانے کا تصور، ان دشمنان اسلام کا پیداکردہ ہے جو یہ چاہتے تھے کہ اسلام اور کفر کی درمیانی حد فاصل کو مٹا کر اسے ایک ایسا معجون مرکب بنا دیا جائے جس میں اپنے سیاسی اور مذہبی مفادات کے مطابق ہر برے سے برے عقیدے کی ملاوٹ کی جاسکے۔
انتہاء یہ ہے کہ بعض لوگ مسلمان کی تعریف کے سلسلے میں اس آیت قرآنی کو بھی پیش کرنے 1994سے نہیں چوکتے۔ جس میں ارشاد ہے: ’’
لاتقولوا لمن القیٰ الیکم السلام لست مؤمناً (النسائ:۹۴)
‘‘ {یعنی جو شخص تمہیں سلام کرے اسے یہ نہ کہو کہ تو مؤمن نہیں۔}
چلئے پہلے تو مسلمان ہونے کے لئے کم ازکم کلمہ پڑھنا ضروری تھا۔ اس آیت کو مسلمان کی تعریف میں پیش کرنے کے بعد اس سے بھی چھٹی ہوگئی۔ اب مسلمان ہونے کے لئے صرف ’’السلام علیکم‘‘ بلکہ صرف ’’سلام‘‘ کہہ دینا بھی کافی ہوگیا اور ہر وہ ہندو، پارسی، بدھسٹ اور عیسائی، یہودی بھی مسلمان بننے کے قابل ہوگیا جو مسلمان کو ’’سلام‘‘ کہہ کر خطاب کر لے۔ والعیاذ باﷲ العظیم!
اصل مسئلہ سے توجہ ہٹانے کے لئے دوسرا مغالطہ مرزائیوں کی طرف سے یہ دیا جاتا ہے کہ جو علماء ہم پر کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں وہ خود آپس میں ایک دوسرے کو کافر قرار دیتے آئے ہیں۔ لہٰذا ان کے فتوؤں کا اعتبار اٹھ گیا ہے۔ لیکن اس ’’دلیل‘‘ کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کوئی شخص یہ کہنے لگے کہ چونکہ بعض عطائیوں اور ڈاکٹروں نے کچھ لوگوں کا غلط علاج کیا ہے۔ اس لئے اب کوئی ڈاکٹر مستند نہیں رہا اور اب پوری میڈیکل سائنس ہی ناکارہ ہوگئی ہے اور وہ طبی مسئلے بھی قابل بقدر نہیں رہے جن پر تمام دنیا کے ڈاکٹر متفق ہیں۔
حال ہی میں مرزائی جماعت کی طرف سے ایک کتابچہ شائع ہوا ہے جس کا عنوان ہے ’’ہم غیراحمدیوں کے پیچھے کیوں نماز نہیں پڑھتے۔‘‘ اور اس میں مسلمان مکاتب فکر کے باہمی اختلافات اور ان فتاویٰ کو انتہائی مبالغہ آمیز انداز میں پیش کیاگیا ہے جن میں ایک دوسرے کی تکفیر کی گئی ہے۔ لیکن اوّل تو اس کتابچے میں بعض ایسے فتوؤں کا حوالہ ہے جن کے بارے میں پوری ذمہ داری سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے کہنے والوں کی طرف بالکل غلط منسوب کئے گئے ہیں۔ 1995دوسرے اس کتابچے میں اگرچہ کافی محنت سے وہ تمام تشدد آمیز مواد اکٹھا کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو باہمی اختلافات کے دوران منظر عام پر آیا ہے۔ لیکن ان بیسیوں اقتباسات میں مسلمان مکاتب فکر کے ایک دوسرے پر کفر کے فتوے کل پانچ ہیں۔ باقی فتوے نہیں بلکہ وہ عبارتیں ہیں جو ان کے افسوسناک باہمی جھگڑوں کے درمیان ان کے قلم یا زبان سے نکلیں۔ ان میں ایک دوسرے کے خلاف سخت زبان تو بے شک استعمال کی گئی ہے۔ لیکن انہیں کفر کے فتوے قرار دینا کسی طرح درست نہیں۔
تیسرے یہ پانچ فتوے بھی اپنے اپنے مکاتب فکر کی مکمل نمائندگی نہیں کرتے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ جن مکاتب فکر سے وہ تعلق رکھتے ہیں وہ پورا مکتب فکر ان فتوؤں سے متفق ہو۔ اس کے بجائے ہر مسلمان مکتب فکر میں محقق اور اعتدال پسند علماء نے ہمیشہ اس بے احتیاطی اور عجلت پسندی سے شدید اختلاف کیا ہے جو اس قسم کے فتوؤں میں روا رکھی گئی ہے۔ لہٰذا ان چند فتاویٰ کو پیش کر کے یہ تاثر دینا بالکل غلط، بے بنیاد اور گمراہ کن ہے کہ یہ سارے مکاتب فکر ایک دوسرے کو کافر قرار دیتے ہیں۔ اس کے بجائے حقیقت یہ ہے کہ ہر مکتب فکر میں ایک عنصر ایسا رہا ہے جس نے دوسرے کی مخالفت میں اتنا تشدد کیا کہ وہ تکفیر کی حد تک پہنچ جائے۔ لیکن اسی مکتب فکر میں ایک بڑی تعداد ایسے علماء کی ہے جنہوں نے فروعی اختلافات کو ہمیشہ اپنی حدود میں رکھا اور ان حدود سے نہ صرف یہ کہ تجاوز نہیں کیا۔ بلکہ اس کی مذمت کی ہے اور عملاً یہی محتاط اور اعتدال پسند عنصر غالب رہا ہے۔ جس کی واضح مثال یہ ہے کہ جب بھی مسلمانوں کا کوئی مشترک مسئلہ پیدا ہوتا ہے ان تمام مکاتب فکر کے مل بیٹھنے میں بعض حضرات کے فتوے کبھی رکاوٹ نہیں بنتے۔
یہ مسلمان فرقے جن کی فرقہ بندیوں کا پروپیگنڈہ دنیا بھر میں گلا پھاڑ پھاڑ کر کیا گیا ہے اور جن کے اختلافات کا شور مچا مچا کر لوگوں نے اپنے باطل نظریات کی دکانیں چمکائی ہیں۔ وہی تو ہیں جو ۱۹۵۱ء میں پاکستان کی دستوری بنیادیں طے کرنے کے لئے جمع ہوئے اور کسی ادنیٰ اختلاف کے بغیر اسلامی دستور کے اساسی اصول طے کر کے اٹھے جب کہ پروپیگنڈہ یہ تھا اس قسم کا 1996اتفاق ایک امر محال ہے۔ ۱۹۵۳ء کے موقعہ پر جب مجوزہ دستور میں متعین اسلامی ترمیمات طے کرنے کا مرحلہ آیا تو انہوں نے اکٹھے ہوکر متفقہ سفارشات پیش کیں۔ جب کہ یہ کام پہلے کام سے زیادہ غیرمتوقع سمجھا جاتا تھا۔ ۱۹۵۳ء ہی میں انہوں نے قادیانیت کے مسئلہ پر اجتماعی طریقے سے ایک مشترکہ مؤقف اختیار کیا۔ ۱۹۷۲ء میں دستور سازی کے دوران شیروشکررہ کر اس بنیادی کام میں شریک رہے۔ دنیا بھر میں شور تھا کہ یہ لوگ مل کر مسلمان کی متفقہ تعریف بھی نہیں کر سکتے۔ لیکن ۱۹۷۲ء میں انہوں نے ہی کامل اتفاق واتحاد سے اس پروپیگنڈے کی قلعی کھولی اور اب پھر یہ مرزائیت کے کھلے کفر کے مقابلے میں شانہ بشانہ موجود ہیں۔ غرضیکہ جب بھی اسلام اور مسلمانوں کا کوئی مشترکہ مذہبی مسئلہ سامنے آیا تو ان کے باہمی مذہبی اختلافات اجتماعی مؤقف اختیار کرنے میں کبھی سدراہ ثابت نہیں ہوئے۔ لیکن کیا کبھی کسی نے دیکھا ہے کہ اس قسم کے اجتماعات میں کسی مرزائی کو بھی دعوت دی گئی ہو؟
اس طرف عمل پر غور کرنے سے چند باتیں کھل کر سامنے آجاتی ہیں۔
اوّل! یہ کہ باہم ایک دوسرے کی تکفیر کے فتوے انفرادی حیثیت رکھتے ہیں۔ کسی مکتب فکر کی نمائندہ حیثیت نہیں۔ ورنہ یہ مکاتب فکر کبھی بحیثیت مسلمان جمع نہ ہوتے۔
دوسرے! یہ کہ ہر مکتب فکر میں غالب عنصر وہی ہے جو فروعات کو فروعات ہی کے دائرے میں رکھتا ہے اور آپس کے اختلاف کو تکفیر کا ذریعہ نہیں بناتا۔ ورنہ اس قسم کے اجتماعات کو قبول عام حاصل نہ ہوتا۔
تیسرے! یہ کہ اسلام کے وہ بنیادی عقائد جو واقعتا ایمان اور کفر میں حد فاصل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں یہ سب لوگ متفق ہیں۔
لہٰذا اگر کچھ حضرات نے تکفیر کے سلسلہ میں غلو اور تشدد کی روش اختیار کی ہے تو اس سے یہ نتیجہ کیسے نکالا جاسکتا ہے کہ اب دنیا میں کوئی شخص کافر ہو ہی نہیں سکتا اور اگر یہ سب لوگ مل کر بھی کسی کو کافر کہیں تو وہ کافر نہیں ہوگا۔
1997کیا دنیا میں عطائی قسم کے لوگ علاج کر کے انسانوں پر مشق ستم نہیں کرتے؟ بلکہ کیا ماہر سے ماہر ڈاکٹر سے بھی غلطی نہیں ہوتی؟ لیکن کیا کبھی کوئی انسان جو عقل سے بالکل ہی معذورنہ ہو یہ کہہ سکتاہے کہ ان انفرادی غلطیوں کی سزا کے طور پر ڈاکٹروں کے طبقے کی کوئی بات قابل تسلیم نہیں ہونی چاہئے۔ کیا عدالتوں کے فیصلوں میں ججوں سے غلطیاں نہیں ہوتیں؟ لیکن کیا کسی نے سوچا ہے کہ ان انفرادی غلطیوں کی وجہ سے عدالتوں میں تالے ڈال دیئے جائیں۔ یا ججوں کا کوئی فیصلہ مانا ہی نہ جائے؟ کیا مکانات، سڑکوں اور عمارتوں کی تعمیر میں انجینئر غلطی نہیں کرتے؟ لیکن کبھی کسی ذی ہوش نے یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ ان غلطیوں کی بناء پر تعمیر کا ٹھیکہ انجینئروں کی بجائے گورکنوں کودے دیا جائے؟ پھر یہ اگر چند جزوی نوعیت کے فتوؤں میں بے احتیاطیاں یا غلطیاں ہوئی ہیں تو اس کا مطلب یہ کیسے نکل آیا کہ اب اسلام اور کفر کے فیصلے قران وسنت کی بجائے مرزائی تحریفات کی بنیاد پر کرنے چاہئیں؟
شاعر مشرق مصور پاکستان علامہ اقبال مرحوم نے مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے بالکل صحیح بات کہی تھی: ’’مسلمانوں کے بیشمار فرقوں کے مذہبی تنازعوں کا ان بنیادی مسائل پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔ جن مسائل پر سب فرقے متفق ہیں۔ اگرچہ وہ ایک دوسرے پر الحاد کے فتوے دیتے ہوں۔‘‘ (حرف اقبال ص۱۲۷، مطبوعہ المنار اکادمی لاہور ۱۹۴۷ئ)
مرزائی صاحبان نے لاکھوں احادیث کے ذخیرے میں سے دو ضعیف وسقیم روایتیں نکال کر اور انہیں من مانا مفہوم پہنا کر ان سے اپنی خود ساختہ نبوت کے لئے سہارا لینے کی کوشش کی ہے۔ اس لئے یہاں ان پر بھی ایک نظر ڈال لینا مناسب 1998ہوگا۔
قولوا خاتم النّبیین ولا تقولوا لا نبی بعدہ
!
پہلی مجہول الاسناد روایت ’’درمنثور‘‘ سے لی گئی ہے اور وہ یہ کہ حضرت عائشہؓ نے فرمایا۔ (آنحضرتﷺ کو) خاتم النّبیین کہو اور یہ نہ کہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
پہلے تو اس بات پر غور فرمائیے کہ یہ روایت کہاں سے لائی گئی ہے۔ اگر آپ حدیث کی کسی معروف کتاب میں اسے تلاش کرنا چاہیں گے تو آپ کو مایوسی ہوگی۔ کیونکہ یہ روایت بخاری، مسلم تو کجا نسائی، ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ، دارمی، مسند احمد، غرض حدیث کی کسی دستیاب کتاب میں موجود نہیں۔ اسے لایا کہاں سے گیا ہے؟ علامہ سیوطیؒ کی درمنثور سے، جس کے بارے میں ادنیٰ طالب علم بھی یہ جانتا ہے کہ اس میں ہر قسم کی رطب ویابس ضعیف اور موضوع روایات بھی بغیر کسی چھان پھٹک کے صرف جمع کر دی گئی ہیں۔ پھر حدیث میں سارا مدار اس کی سند پر ہوتا ہے اور اس روایت کی کوئی سند معلوم نہیں۔ اب یہ سرکار دوعالمﷺ کے الفاظ میں مدعیان نبوت کا دجل نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک طرف تو مرزائی صاحبان کی نگاہ میں قرآن کریم کی صاف اور صریح آیات اور آنحضرتﷺ کی سینکڑوں متواتر اور صحیح احادیث ناقابل التفات ہیں اور دوسری طرف یہ مجہول الاسناد روایت جس کا علم حدیث کی رو سے کچھ بھی اعتبار نہیں۔ ایسی قطعی اور یقینی ہے کہ اسے ختم نبوت جیسے متواتر قطعی اور اجماعی عقیدے کو توڑنے کے لئے پیش کیا جارہا ہے۔ کیا کسی نبی کی نبوت ایسی ہی روایت سے ثابت ہوا کرتی ہے؟ لیکن یہ بات اس شخص سے کہی جائے جو کسی علمی یا عقلی قاعدے اور ضابطے کا پابند ہو اور جہاں عقل، علم اور اخلاق پر مبنی ہر بات کا جواب سوائے خود ساختہ الہام کے اور کچھ نہ ہو، وہاں دلائل وبراہین کا کتنا انبار لگا دیجئے۔ مرزاصاحب کے الفاظ میں اس کا جواب یہی ملے گا کہ ’’خدا نے مجھے اطلاع دے دی ہے کہ یہ تمام حدیثیں جو پیش کرتے ہیں تحریف معنوی یا لفظی میں آلودہ ہیں اور یا سرے سے موضوع ہیں اور جو شخص حکم ہوکر آیا ہے اس کا اختیار ہے کہ حدیثوں کے ذخیرے میں سے جس انبار کو چاہے 1999خدا سے علم پاکر قبول کرے اور جس ڈھیر کو چاہے خدا سے علم پاکر رد کر دے۔‘‘ (اربعین نمبر۳ ص۱۵، خزائن ج۱۷ ص۴۰۱ حاشیہ)
مولوی مفتی محمود: جناب والا! مجھے یہ شکایت ہے کہ وہ حضرات جو یہاں آئے تھے اور دو دو، تین تین ہفتے یہاں گزارے، ان کے لئے تو پانی کے گلاس بھر بھر کے آتے تھے اور میں تین گھنٹے سے کھڑا ہوں، یہ اتنی تفریق کیوں ہے؟
محترم قائم مقام چیئرمین (ڈاکٹر مسز اشرف خاتون عباسی): آپ نے مانگا نہیں۔
مولوی مفتی محمود: ان کے بغیر مانگے بھر بھر کے لاتے تھے۔ میرے لئے کربلا ہے پتہ نہیں۔
محترم قائمقام چیئرمین: معاف کیجئے، مولانا! ابھی لاتے ہیں، ابھی خیال آیا۔
مولوی مفتی محمود: ویسے میں نے بطور مذاح یہ بات کہی ہے۔
ایک رکن: مولانا! آپ تو گھر کے آدمی ہیں، آپ مانگ سکتے ہیں۔
مولوی مفتی محمود: اسی لئے تو مانگ لیا۔(وقفہ)
مولوی مفتی محمود: پھر اس روایت میں جو بات بیان کی گئی ہے اس کا مرزائی اعتقادات سے دور دور کوئی واسطہ نہیں۔ بلکہ یہ روایت تو نزول عیسیٰ علیہ السلام کے عقیدے میں مرزائی نظریہ کی صریح تردید کر رہی ہے۔ اس کا مقصد محض اتنا ہے کہ اگر صرف یہ جملہ بولا جائے کہ آنحضرتﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تو ایک ناواقف آدمی اسے مسیح علیہ السلام کے نزول ثانی کے عقیدے کے خلاف سمجھ سکتا ہے اور اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ آپﷺ کے بعد حضرت مسیح علیہ السلام بھی تشریف نہیں لائیں گے۔ لہٰذا جو مقصد ’’خاتم النّبیین‘‘ کہنے سے مکمل طور پر حاصل ہوسکتا ہے۔ اس کے لئے ایسے الفاظ استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے جو ناواقفوں کے 2000لئے کسی غلط فہمی کا سبب بن سکتے ہیں۔ آنحضرتﷺ نے ’’لا نبی بعدی‘‘ فرمایا تو ساتھ ساتھ ایک دو مرتبہ نہیں سینکڑوں مرتبہ اس کی تشریح بھی فرمادی کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔ ہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام جنہیں پہلے ہی سے نبوت حاصل ہے اور جو بہت پہلے پیدا ہوچکے ہیں۔ وہ دوبارہ نزول فرمائیں گے اس کے برخلاف اگر کوئی دوسرا شخص صرف اتنا جملہ کہے کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تو صرف اتنی بات سننے والا کوئی ناواقف انسان کسی غلط فہمی کا شکار ہوسکتا ہے۔
حضرت عائشہؓ کی طرف منسوب اس قول کی یہ تشریح خود ’’
درّ منثور
‘‘ ہی میںموجود ہے: ’’عن الشّعبی قال قال رجل عند المغیرۃ بن شعبۃ صلی اﷲ علی محمد خاتم الانبیاء لا نبی بعدہ فقال المغیرۃ بن شعبۃ حسبک اذا قلت خاتم الانبیاء فانا کنا نحدث ان عیسیٰ علیہ السلام خارج فان ہو خرج فقد کان قبلہ وبعدہ‘‘
حضرت شعبیؒ جو ایک جلیل القدر تابعی ہیں فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کے سامنے یہ کہا کہ اﷲتعالیٰ جناب محمدa پر رحمت نازل فرمائے جو خاتم الانبیاء ہیں اور جن کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ حضرت مغیرہؓ نے فرمایا کہ ’’خاتم الانبیائ‘‘ کہہ دینا کافی تھا۔ کیونکہ ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہونے والے ہیں۔ جب وہ نازل ہوں گے تو وہ آپﷺ سے پہلے بھی آئے اور آپﷺ کے بعد بھی آئیں گے۔ (درمنثور ج۵ ص۲۰۴)
لہٰذا حضرت عائشہؓ اور حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کی یہ ہدایت، اگر بالفرض سنداً ثابت ہو حضرت علیؓ کے اس ارشاد کے مطابق ہے جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ: ’’
حدثو الناس بما یعرفون
‘‘ لوگوں سے وہ باتیں کرو جن کو وہ سمجھ سکیں۔ (صحیح بخاری ج۱ ص۲۴، باب من خص بالعلم)
اور اس روایت سے مرزائی اعتقادات کو نہ صرف یہ کہ کوئی سہارا نہیں ملتا ہے۔ بلکہ یہ صراحۃً 2001ان کی تردید کرتی ہے۔ ورنہ جہاں تک حضرت عائشہؓ کا تعلق ہے امام احمد بن حنبلؓ کی مسند میں خود ان کی یہ روایت موجود ہے۔ ’’عن عائشۃؓ عن النبیﷺ انہ قال لا یبقی بعدی من النبوۃ شیٔ الا المبشرات قالوا یا رسول اﷲ وما المبشرات قال الرؤیا الصالحۃ یراہا المسلم او تری لہ‘‘ (مسند احمد ج۶ ص۱۲۹، کنزالعمال)
حضرت عائشہؓ روایت فرماتی ہیں کہ آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میرے بعد نبوت کا کوئی جز باقی نہیں رہے گا۔ سوائے مبشرات کے…، صحابہؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ مبشرات کیا چیز ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ اچھے خواب جو کوئی مسلمان خود دیکھے یا اس کے لئے کوئی اور دیکھے۔
کیا اس کے بعد بھی اس بات میں کوئی شک وشبہ رہ سکتا ہے کہ حضرت عائشہؓ کے نزدیک نبوت کی ہر قسم اور سوائے اچھے خوابوں کے اس کا ہر جزء آنحضرتﷺ پر ختم ہوگیا اور اب کسی بھی شخص کو کسی بھی صورت میں یہ منصب عطاء نہیں کیا جاسکتا۔
۲… دوسری ضعیف روایت سنن ابن ماجہؒ سے نقل کی جاتی ہے کہ جب آنحضرتﷺ کے صاحبزادے ابراہیمؓ کا انتقال ہوا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’
لو عاش لکان صدیقاً نبیاً
‘‘ اگر یہ زندہ رہتے تو صدیق نبی ہوتے۔
اس حدیث کا حال بھی یہ ہے کہ حدیث کے ناقد ائمہ نے اسے ضعیف بلکہ باطل قرار دیا ہے۔ امام نوویؒ جیسے بلند پایہ محدث فرماتے ہیں: ’’
ہذا الحدیث باطل
‘‘ یہ حدیث باطل ہے۔ (موضوعات کبیر ص۵۸)
اس حدیث کے ایک راوی ابوشیبہ ابرہیم بن عثمان کے بارے میں امام احمد بن حنبلؒ 2002فرماتے ہیں کہ ’’ثقہ نہیں ہے۔‘‘ امام ترمذیؒ فرماتے ہیں کہ ’’منکر الحدیث ہے۔‘‘ امام نسائی لکھتے ہیں ’’کہ متروک الحدیث ہے۔‘‘ امام جوز جانیؒ کہتے ہیں کہ ’’اس کا اعتبار نہیں۔‘‘ امام ابوحاتمؒ کا ارشاد ہے کہ یہ ’’ضعیف الحدیث ہے۔‘‘ (ملاحظہ ہو التہذیب التہذیب ص۹۵ نمبر۲۵۷ ج۱)
البتہ اس روایت کے الفاظ صحیح بخاری میں حضرت عبداﷲ بن ابی اوفیؓ کے اثر کے طور پر اس طرح مروی ہیں۔ ’’لو قضی ان یکون بعد محمد نبی لعاش ابنہ ولکن لا نبی بعدہ‘‘
اگر محمدﷺ کے بعد کسی نبی کی بعثت مقدر ہوتی تو آپﷺ کے صاحبزادے زندہ رہتے۔ لیکن آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں۔
ان الفاظ نے ابن ماجہ کی ضعیف روایت کی حقیقت بھی واضح کر دی ہے کہ اس کا اصل مقصد کیا ہے؟ اور وہ ختم نبوت کے خلاف تو کیا ہوتی درحقیقت اس سے یہ عقیدہ اور زیادہ پختہ مؤکد اور ناقابل تردید ہوجاتا ہے۔
یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ صحیح بخاری قرآن کریم کے بعد تمام کتابوں میں سب سے زیادہ صحیح کتاب ہے۔ لہٰذا اگر کوئی ضعیف روایت کہیں اور آئی ہو یا اس کی تشریح صحیح بخاری کے الفاظ سے بھی جانی جائے اور اگر تطبیق ممکن نہ ہو تو ضعیف روایت کو چھوڑ کر صحیح بخاری کی روایت کو اختیار کیا جائے گا۔ مرزاصاحب کا حال تو یہ ہے کہ وہ صحیح مسلمؒ کی ایک حدیث کومحض اس بناء پر ترک کر دیتے ہیں کہ امام بخاریؒ نے اسے ذکر نہیں کیا۔ چنانچہ ازالہ اوہام میں لکھتے ہیں:
’’یہ وہ حدیث ہے جو صحیح مسلم میں امام مسلم صاحب نے لکھی ہے جس کو ضعیف سمجھ کر رئیس المحدثین امام محمد اسماعیل بخاریؒ نے چھوڑ دیا ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۲۲۰، خزائن ج۳ ص۲۰۹،۲۱۰)
حالانکہ صحیح مسلمؒ خود نہایت معتبر ہے اور امام بخاریؒ کا محض کسی روایت کو چھوڑ دینا اس کے ضعف کی دلیل نہیں۔ اس کے برخلاف ابن ماجہؒ کی یہ روایت ضعیف ہے اور صحیح بخاری میں اس کی واضح تشریح موجود ہے۔ مگر مرزائی صاحبان ہیں کہ اسے باربار اپنی دلیل کے طور پر پیش کئے جارہے ہیں۔ وجہ ظاہر ہے کہ کوئی صحیح دلیل ہو تو پیش کی جائے۔ اگر ایسی روایت میں صراحۃً عقیدہ ختم 2003نبوت کی تردید کی گئی ہوتی۔ تب بھی وہ ایک متواتر عقیدہ کے معاملے میں قطعاً قابل اعتبار نہ ہوتی اور یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ اگر اسے صحیح مان لیا جائے۔ تب بھی اس میں محض ایک ایسے مفروضے کا بیان ہے جس کے وجود میں آنے کا کوئی امکان نہیں۔ اگر حضرت ابراہیمؓ کی زندگی میں یہ بات کہی جاتی تب تو اس سے کسی درجے میں یہ بات نکل سکتی تھی کہ آپﷺ کے بعد نبوت کا سلسلہ جاری ہے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ کے بارے میں ان کی زندگی ہی میں آپﷺ نے اسی جیسی بات ارشاد فرمائی تھی۔ وہاں چونکہ نبوت کے جاری رہنے کا شبہ ہوسکتا تھا۔ اس لئے آنحضرتﷺ نے وہاں بالکل دوسری تعبیر اختیار فرمائی اور اس شبہ کو ہمیشہ کے لئے ختم فرمادیا۔ ارشاد فرمایا کہ:
’’
لوکان بعدی نبی لکان عمر بن الخطابؓ
‘‘ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن الخطابؓ ہوتے۔ (رواہ الترمذی ج۲ ص۲۰۹، مناقب عمرؓ)
مطلب یہ ہے کہ میرے بعد چونکہ نبوت کا دروازہ بند ہوچکا ہے۔ اس لئے حضرت عمرؓ نبی نہیں بن سکتے۔ اسی طرح آپﷺ نے غزوہ تبوک کے موقعہ پر مدینہ طیبہ میں حضرت علیؓ کو اپنا نائب مقرر فرمایا تو ان سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’
اماترضی ان تکون منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ الّا انہ لا نبوۃ بعدی
‘‘ (رواہ البخاریؒ ومسلم واللفظ لمسلمؒ ج۲ ص۲۷۸، باب فضائل علیؓ بن طالب)
’’کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تم میرے ساتھ ایسے ہو جاؤ جیسے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہارون علیہ السلام (کہ کوہ طور پر جاتے وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام انہیں نائب بنا کر گئے تھے) لیکن میرے بعد نبوت نہیں۔‘‘ یہاں آپ نے حضرت علیؓ کو حضرت ہارون علیہ السلام سے تشبیہ محض نائب بناکر جانے میں دی تھی۔ لیکن چونکہ اس سے ختم نبوت کے خلاف غلط فہمی کا اندیشہ تھا۔ اس لئے آپ نے فوراً ’’
الّا انہ لا نبوۃ بعدی
‘‘ (مگر میرے بعد کوئی نبوت باقی نہیں) فرما کر اس اندیشے کا خاتمہ فرمادیا۔
البتہ حضرت ابراہیم کے بارے میں یہ بات چونکہ ان کی وفات کے بعد کہی جارہی تھی اور ان کے زندہ رہنے کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہا تھا۔ اس لئے الفاظ یہ استعمال کئے گئے کہ: 2004’’اگر وہ زندہ رہتے تو صدیق نبی ہوتے۔‘‘ لیکن چونکہ زندہ نہیں رہے۔ اس لئے نبی ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لہٰذا یہ ایسا ہی ہے جیسے قرآن کریم میں ہے کہ ’’
لوکان فیہما آلھۃ الا اﷲ لفسدتا
‘‘ (اگر زمین وآسمان میں اﷲ کے سوا کچھ معبود ہوتے تو زمین وآسمان میں فساد مچ جاتا) ظاہر ہے کہ یہ محض ایک مفروضہ ہے اور اگر کوئی شخص اس سے یہ استدلال کرنے بیٹھ جائے کہ معاذ اﷲ کائنات میں اﷲ تعالیٰ کے سوا معبودوں کا وجود ممکن ہے تو یہ زبردستی نہیں تو اور کیا ہے؟
یہ تھی لاکھوں احادیث نبویؐ کے ذخیرے میں سے مرزائی ’’استدلال‘‘ کی کل کائنات جس کی بنیاد پر اصرار کیا جاتا ہے کہ قرآن کریم کی بیسیوں آیات کو، آنحضرتﷺکی سینکڑوں صریح اور متواتر احادیث کو، اور امت مسلمہ کے قطعی اجماع کو چھوڑ کر مرزا غلام احمد صاحب کونبی تسلیم کرو، ورنہ تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے۔
مسلمانوں کو متاثر کرنے کے لئے یہ بھی ضروری تھا کہ مرزاصاحب کی ’’نبوت‘‘ کے لئے قرآن کریم سے بھی کوئی تائید تلاش کی جاتی، تاکہ کم ازکم کہنے کو یہ کہا جاسکے کہ قرآن سے بھی ’’استدلال‘‘ کیاگیا ہے اس مقصد کے لئے قران کریم کی جو آیت مرزائی صاحبان کی طرف سے تلاش کر کے لائی گئی ہے وہ یہ ہے۔
’’
ومن یطع اﷲ والرسول فاولئک مع الذین انعم اﷲ علیہم من النّبیین والصدیقین والشہداء والصالحین وحسن اولئک رفیقاً (النسائ:۶۹)
‘‘
’’اور جو شخص اﷲ اور رسول کی اطاعت کرے تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اﷲ نے انعام کیا ہے۔ یعنی نبیوں کے ساتھ اور صدیقوں کے ساتھ اور شہداء کے ساتھ اور صالحین کے ساتھ، اور یہ لوگ بہترین ساتھی ہیں۔‘‘
اس آیت کو باربار پڑھ کر دیکھئے، کیا اس میں خوردبین لگاکر بھی کہیں یہ بات نظر آتی ہے کہ نبوت کا 2005سلسلہ جاری ہے اور کوئی شخص اب بھی نبی بن سکتا ہے؟ لیکن جومذہب ’’دمشق سے قادیان‘‘ مراد لے سکتا ہو۔ جسے قرآن میں بھی ’’قادیان‘‘ کا ذکر دکھائی دیتا ہو اور جو ’’خاتم النّبیین‘‘ کا ایسا مطلب نکال سکتا ہو، جس سے تمام ’’نبوتوں کا سرتاج‘‘ نبوت کا دروازہ کھلا رہے وہ اس آیت سے بھی نبوت کے جاری رہنے پر استدلال کرلے تو کون سی تعجب کی بات ہے؟
اس آیت میں صاف طور سے یہ بتایا گیا ہے کہ اﷲ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والا آخرت میں انبیائ، صدیقین، شہداء اور صالحین کا ساتھی ہوگا۔ لیکن مرزائی صاحبان اس کا یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ وہ خود نبی بن جائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں لفظ ’’مع‘‘ (ساتھ) استعمال ہوا ہے۔ جو اس معنی میں بھی لیا جاسکتا ہے کہ اس دن انبیاء وغیرہ کے گروہ کے محض ساتھ ہی نہیں ہوگا، بلکہ ان میں شامل ہو جائے گا۔
لیکن جو شخص مذکورہ بالا آیت کے الفاظ سے بالکل ہی آنکھیں بند کر کے نہیں بیٹھ گیا وہ دیکھ سکتا ہے کہ اسی آیت کے آخیریہ ارشاد فرمایا گیا ہے: ’’
حسن اولئک رفیقاً
‘‘ اور یہ لوگ بہترین ساتھی ہیں۔
اس آخری جملے میں لفظ رفیق نے یہ بات واضح کر دی کہ اگر بالفرض کہیں ’’مع‘‘ کے معنی کچھ اور ہو بھی سکتے ہیں تو یہاں سوائے ساتھی بننے کے کوئی اور مطلب نہیں کیونکہ آگے اس کی تشریح کے لئے صراحتاً لفظ ’’رفیق‘‘ آرہا ہے۔
پھر اگر (معاذ اﷲ) مطلب یہی تھا کہ ہر شخص اﷲ اور رسول کی اطاعت کر کے نبی بن سکتا ہے تو کیا پوری امت میں اﷲ اور رسول کی اطاعت کرنے والا ایک مرزاغلام احمد ہی پیدا ہوا ہے اور کسی نے اﷲ اور رسول کی اطاعت نہیں کی؟ حالانکہ قرآن (معاذ اﷲ) یہ کہہ رہا ہے کہ جو شخص بھی اﷲ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے گا، وہ نبیوں کے زمرے میں شامل ہو جائے گا۔ اگر اسی کا نام ’’استدلال‘‘ ہے تو نہ جانے قرآن کی معنوی تحریف کیا چیز ہوگی؟
----------
مرزائی صاحبان بعض صوفیاء کے ناتمام اور مبہم حوالے ڈھونڈ کر انہیں اپنی خود ساختہ نبوت کی تائید میں پیش کرتے ہیں۔ ان کے پیش کئے ہوئے ایسے غلط حوالوں کا مسلمانوں کی طرف سے انتہائی مدلل اور اطمینان بخش جواب دیا جاچکا ہے اور باربار دیا جاچکا ہے۔ یہاں اس کو بالتفصیل دہرانے کی ضرورت نہیں۔ البتہ چند اصولی حقائق کی طرف اشارہ ضروری ہے۔