• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

قومی اسمبلی کی کاروائی (چودھواں دن)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مسلمانوں سے عملی قطع تعلق
مذکورہ بالا عقائد کی بناء پر مرزائی صاحبان نے خود اپنے آپ کو ایک الگ ملت قرار دے دیا اور جیسا کہ پیچھے عرض کیا جاچکا ہے، ان کا یہ طرز عمل مرزاغلام احمد صاحب کے دعوؤں اور تحریروں کا بالکل منطقی نتیجہ ہے۔ چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کے پیچھے نماز پڑھنے ان کے ساتھ شادی بیاہ کے تعلق قائم کرنے اور ان کی نماز جنازہ ادا کرنے کی بالکلیہ ممانعت کر دی۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
غیراحمدی کے پیچھے نماز
چنانچہ مرزاغلام احمد صاحب نے لکھا کہ:
’’تکفیر کرنے والے اور تکذیب کی راہ اختیار کرنے والے ہلاک شدہ قوم ہے اس لئے وہ اس لائق نہیں ہیں کہ میری جماعت میں سے کوئی شخص ان کے پیچھے نماز پڑھے۔ کیا زندہ مردہ کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہے؟ پس یاد رکھو کہ جیسا خدا نے مجھے اطلاع دی ہے تمہارے پر حرام ہے اور قطعی حرام ہے کہ کسی مکفر اور مکذب یا متردد کے پیچھے نماز پڑھو۔ بلکہ چاہئے کہ تمہارا وہی امام ہو جو تم میں سے ہو۔ اسی کی طرف حدیث بخاری کے ایک پہلو میں اشارہ ہے کہ امامکم یعنی جب مسیح نازل ہوگا تو تمہیں دوسرے فرقوں کو جو دعوئے اسلام کرتے ہیں بکلی ترک کرنا پڑے گا اور تمہارا امام تم میں سے ہوگا۔ پس تم ایسا ہی کرو۔ کیا تم چاہتے ہو کہ خدا کا الزام تمہارے سر پر ہو اور تمہارے عمل حبط ہو جائیں؟‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۲۸ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۴۱۷)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
غیراحمدیوں کے ساتھ شادی بیاہ
مرزابشیرالدین محمود (خلیفہ دوم قادیانی صاحبان) لکھتے ہیں: ’’حضرت مسیح موعود نے اس احمدی پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے جو اپنی لڑکی غیراحمدی کو دے۔ آپ سے ایک شخص نے باربار پوچھا اور کئی قسم کی مجبوریوں کو پیش کیا۔ لیکن آپ 1918نے اس کو یہی فرمایا کہ لڑکی کو بٹھائے رکھو، لیکن غیراحمدیوں میں نہ دو۔ آپ کی وفات کے بعد اس نے غیراحمدیوں کو لڑکی دے دی تو حضرت خلیفہ اوّل نے اس کو احمدیوں کی امامت سے ہٹادیا اور جماعت سے خارج کر دیا اور اپنی خلافت کے چھ سالوں میں اس کی توبہ قبول نہ کی۔ باوجودیکہ وہ باربار توبہ کرتا رہا۔ (اب میں نے اس کی سچی توبہ دیکھ کر قبول کر لی ہے)‘‘
(انوار خلافت ص۹۳،۹۴)
آگے لکھتے ہیں: ’’میں کسی کو جماعت سے نکالنے کا عادی نہیں۔ لیکن اگر کوئی اس حکم کے خلاف کرے گا تو میں اس کو جماعت سے نکال دوں گا۔‘‘
(انوار خلافت ص۹۴)
البتہ مسلمانوںکی لڑکیاں لینے کو قادیانی مذہب میں جائز قرار دیا گیا۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے مرزاغلام احمد صاحب کے دوسرے صاحبزادے مرزابشیر احمد لکھتے ہیں کہ: ’’اگر کہو کہ ہم کو ان کی لڑکیاں لینے کی اجازت ہے تو میں کہتا ہوں نصاریٰ کی لڑکیاں لینے کی بھی اجازت ہے۔‘‘
(کلمتہ الفصل ص۱۶۹، مندرجہ ریویو ج۱۴ ص۱۴۰)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
غیراحمدیوں کی نماز جنازہ
مرزابشیرالدین محمود لکھتے ہیں:
’’اب ایک اور سوال رہ جاتا ہے کہ غیراحمدی حضرت مسیح موعود کے منکر ہوئے، اس لئے ان کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہئے۔ لیکن اگر کسی غیراحمدی کا چھوٹا بچہ مر جائے تو اس کا جنازہ کیوں نہ پڑھا جائے۔ وہ تو مسیح موعود کا مکفر نہیں۔ میں یہ سوال کرنے والے سے پوچھتا ہوں کہ اگر یہ بات درست ہے تو پھر ہندوؤں اور عیسائیوں کے بچوں کا جنازہ کیوں نہیں پڑھا جاتا؟ اور کتنے لوگ ہیں جو ان کا جنازہ پڑھتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جو ماں باپ 1919کا مذہب ہوتا ہے۔ شریعت وہی مذہب ان کے بچے کا قرار دیتی ہے۔ پس غیراحمدی کا بچہ بھی غیراحمدی ہی ہوا۔ اس لئے اس کا جنازہ بھی نہیں پڑھنا چاہئے۔‘‘
(انوار خلافت ص۹۳، مطبوعہ امرتسر ۱۹۱۶ئ)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قائداعظم کی نماز جنازہ
چنانچہ اپنے مذہب اور خلیفہ کے حکم کی تعمیل میں چوہدی ظفر اﷲ خان صاحب سابق وزیر خارجہ پاکستان نے قائداعظم کی نماز جنازہ میں بھی شرکت نہیں کی۔ منیر انکوائری کمیشن کے سامنے تو اس کی وجہ انہوں نے یہ بیان کی کہ:
’’نماز جنازہ کے امام مولانا شبیر احمد عثمانی احمدیوں کو کافر، مرتد اور واجب القتل قرار دے چکے تھے۔ اس لئے میں اس نماز میں شریک ہونے کا فیصلہ نہ کر سکا۔ جس کی امامت مولانا کر رہے تھے۔‘‘
(رپورٹ تحقیقاتی عدالت پنجاب ص۲۱۲)
لیکن عدالت سے باہر جب ان سے یہ بات پوچھی گئی کہ آپ نے قائداعظم کی نماز جنازہ کیوں اد انہیں کی؟ تو اس کا جواب انہوں نے یہ دیا۔
’’آپ مجھے کافر حکومت کا مسلمان وزیر سمجھ لیں یا مسلمان حکومت کا کافر نوکر۔‘‘
(زمیندار لاہور ۸؍فروری ۱۹۵۰ئ)
جب اخبارات میں یہ واقعہ منظر عام پر آیا تو جماعت ربوہ کی طرف سے اس کا یہ جواب دیا گیا کہ:
’’جناب چوہدری محمد ظفر اﷲ خاں صاحب پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ آپ نے قائداعظم کا جنازہ نہیں پڑھا۔ تمام دنیا جانتی ہے کہ قائداعظم احمدی نہ تھے۔ لہٰذا جماعت احمدیہ کے کسی فرد کا ان کا جنازہ نہ پڑھنا کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔‘‘
(ٹریکٹ نمبر۲۲، بعنوان ’’احراری علماء کی راست گوئی کا نمونہ‘‘ ناشر: مہتمم نشرواشاعت نظارت دعوت وتبلیغ صدر انجمن احمدیہ ربوہ ضلع جھنگ)
1920اور قادیانی اخبار ’’الفضل‘‘ کا جواب یہ تھا کہ:
’’کیا یہ حقیقت نہیں کہ ابوطالب بھی قائداعظم کی طرح مسلمانوں کے بہت بڑے محسن تھے، مگر نہ مسلمانوں نے آپ کا جنازہ پڑھا اور نہ رسول خدا نے۔‘‘
(الفضل مورخہ ۲۸؍اکتوبر ۱۹۵۲ء ص۴ کالم۲ ج۴۰ ش۲۵۲)
بعض لوگ چوہدری ظفر اﷲ خان صاحب کے اس طرز عمل پر اظہار تعجب کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس میں تعجب کا کوئی موقع نہیں۔ انہوں نے جو دین اختیار کیا تھا یہ اس کا لازمی تقاضا تھا۔ ان کا دین، ان کا مذہب، ان کی امت ان کے عقائد ان کے افکار ہر چیز مسلمانوں سے نہ صرف مختلف بلکہ ان سے بالکل متضاد ہے، ایسی صورت میں وہ قائداعظم کی نماز جنازہ کیوں پڑھتے؟
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
خود اپنے آپ کو الگ اقلیت قرار دینے کا مطالبہ
مذکورہ بالا توضیحات سے یہ بات دو اور دو چار کی طرح کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ مرزائی مذہب مسلمانوں سے بالکل الگ مذہب ہے۔ جس کا امت اسلامیہ سے کوئی تعلق نہیں اور اپنی یہ پوزیشن خود مرزائیوں کو مسلم ہے کہ ان کا اور مسلمانوں کا مذہب ایک نہیں ہے اور وہ مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر سے الگ ایک مستقل امت ہیں۔ چنانچہ انہوں نے غیرمنقسم ہندوستان میں اپنے آپ کو سیاسی طور پر بھی مسلمانوں سے الگ ایک مستقل اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا۔
مرزابشیرالدین محمود کہتے ہیں:
’’میں نے اپنے نمائندے کی معرفت ایک بڑے ذمہ دار انگریز افسر کو کہلوا بھیجا کہ پارسیوں اور عیسائیوں کی طرح ہمارے حقوق بھی تسلیم کئے جائیں۔ جس پر اس افسر نے کہا کہ وہ تو اقلیت ہیں اور تم ایک مذہبی فرقہ ہو۔ اس پر میں نے کہا کہ پارسی اور عیسائی بھی تو مذہبی فرقہ ہیں جس 1921طرح ان کے حقوق علیحدہ تسلیم کئے گئے ہیں اسی طرح ہمارے بھی کئے جائیں۔ تم ایک پارسی پیش کردو۔ اس کے مقابلہ میں دو۔ دو احمدی پیش کرتا جاؤں گا۔‘‘
(مرزابشیرالدین محمود کا بیان مندرجہ الفضل مورخہ ۱۳؍نومبر ۱۹۴۶ئ)
کیا اس کے بعد بھی اس مطالبے کی معقولیت میں کسی انصاف پسند انسان کو کوئی ادنیٰ شبہ باقی رہ سکتا ہے کہ مرزائی امت کو سرکاری سطح پر غیرمسلم اقلیت قرار دیا جائے؟
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مرزائی بیانات کے بارے میں ایک ضروری تنبیہ
یہاں ایک اور اہم حقیقت کی طرف توجہ دلانا ازبس ضروری ہے اور وہ یہ کہ مرزائی صاحبان کانوے ۹۰؍سالہ طرز عمل یہ بتاتا ہے کہ وہ اپنے جماعتی مفادات کی خاطر بسااوقات صریح غلط بیانی سے بھی نہیں چوکتے۔ پیچھے ان کی وہ واضح اور غیرمبہم تحریریں پیش کی جاچکی ہیں جن میں انہوں نے مسلمانوں کو کھلم کھلا کافر قرار دیا ہے اور جتنی تحریریںپیچھے پیش کی گئی ہیں اس سے زیادہ مزید پیش کی جاسکتی ہیں۔ لیکن اپنی تقریر وتحریر میں ان گنت مرتبہ ان صریح اعلانات کے باوجود منیر انکوائری کمیشن کے سوال کے جواب میں ان دونوں جماعتوں نے یہ بیان دیا کہ ہم غیراحمدیوں کو کافر نہیں سمجھتے۔
ان کا یہ بیان ان کے حقیقی عقائد اور سابقہ تحریرات سے اس قدر متضاد تھا کہ منیر انکوائری کمیشن کے جج صاحبان بھی اسے صحیح باور نہ کر سکے۔ چنانچہ وہ اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں:
’’اس مسئلے پر کہ آیا احمدی دوسرے مسلمانوں کو ایسا کافر سمجھتے ہیں جو دائرہ اسلام سے خارج ہے؟ احمدیوں نے ہمارے سامنے یہ مؤقف ظاہر کیا ہے کہ ایسے لوگ کافر نہیں ہیں، اور لفظ کفر جو احمدی لٹریچر میں ایسے اشخاص کے لئے استعمال کیاگیا ہے۔ اس سے کفر خفی یا انکار مقصود ہے یہ ہرگز کبھی مقصود نہیں ہوا کہ ایسے اشخاص دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ لیکن ہم نے اس موضوع پر احمدیوں کے بے شمار سابقہ اعلانات دیکھے ہیں اور ہمارے نزدیک ان 1922کی کوئی تعبیر اس کے سوا ممکن نہیں کہ مرزاغلام احمد کے نہ ماننے والے دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔‘‘
(پنجاب کی تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ اردو ص۲۱۲)
چنانچہ جب تحقیقات کی بلا ٹل گئی تو وہی سابقہ تحریریں جن میں مسلمانوں کو برملا کافر کہاگیا تھا۔ پھر شائع ہونی شروع ہوگئیں۔ کیونکہ وہ تو ایک وقتی چال تھی جس کا اصل عقیدے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
یہی حال سرکار دوعالمﷺ کو آخری پیغمبر ماننے کا ہے کہ مرزائی پیشواؤں کی ایسی صریح تحریروں کا ایک انبار موجود ہے جن میں انہوں نے اپنے اس عقیدے کا برملا اعلان کیا ہے کہ آنحضرتﷺ کے بعد نبیوں کی آمد بند نہیں ہوئی۔ بلکہ آپﷺ کے بعد بھی نبی پیدا ہوسکتے ہیں۔ مثلاً ان کے خلیفہ دوم مرزابشیرالدین محمود نے لکھا تھا کہ:
’’اگر میری گردن کے دونوں طرف تلوار بھی رکھ دی جائے اور مجھے کہا جائے کہ تم یہ کہو کہ آنحضرتﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تو میں اسے کہوں گا تو جھوٹا ہے، تو کذاب ہے۔ آپ کے بعد نبی آسکتے ہیں اور ضرور آسکتے ہیں۔‘‘
(انوار خلافت ص۶۵)
لیکن حال ہی میں جب پاکستان کے دستور میں صدر اور وزیراعظم کے حلف نامے میں یہ الفاظ بھی تجویز کئے گئے کہ: ’’میں آنحضرتﷺ کے آخری پیغمبر ہونے پر اور اس بات پر ایمان رکھتا ہوں کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا۔‘‘ تو قادیانیوں کے موجودہ خلیفہ مرزاناصر احمد صاحب نے اعلان فرمایا کہ:
’’میں نے اس حلف نامے کے الفاظ پر بڑا غور کیا ہے اور میں بالآخر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ایک احمدی کے راستے میں اس حلف کو اٹھانے میں کوئی روک نہیں۔‘‘
(الفضل ربوہ مورخہ ۱۳؍مئی ۱۹۷۳ء نمبر۱۰۶ ص۴،۵)
1923ملاحظہ فرمائیے کہ جو بات خلیفہ دوم کے نزدیک انسان کو جھوٹا اور کذاب بنادیتی تھی اور جس کا اقرار تلواروں کے درمیان بھی جائز نہیں تھا، جب عہدۂ صدارت ووزارت عظمیٰ اس پر موقوف ہوگیا تو اس کے حلفیہ اقرار میں بھی کچھ حرج نہیں رہا۔ لہٰذا مرزائی صاحبان کے بارے میں حقیقت تک پہنچنے کے لئے وہ بیانات ہمیشہ گمراہ کن ہوں گے جو وہ کوئی بپتا پڑنے کے موقع پر دیا کرتے ہیں۔ ان کی اصل حقیقت کو سمجھنے کے لئے ان کی اصلی مذہبی تحریروں اور ان کے نوے سالہ طرز عمل کا مطالعہ ضروری ہے، یا تو وہ اپنے تمام سابقہ عقائد، تحریروں اور بیانات سے کھلم کھلا توبہ کر کے ان سب سے برأت کابرملا اعلان کریں اور اس بات کا عملی ثبوت فراہم کریں کہ مرزاغلام احمد قادیانی کی پیروی سے ان کا کوئی تعلق نہیں رہا۔ یا پھر جرأت مندی سے اپنے ان عقائد اور بیانات کو قبول کر کے اپنی اس پوزیشن پر راضی ہوں جو ان کی روشنی میں ثابت ہوتی ہے اس کے سوا جو بھی تیسرا راستہ اختیار کیا جائے گا وہ محض دفع الوقتی کی ترکیب ہوگی۔ جس سے کسی ذمہ دار ادارے یا حق کے طلب گار کو دھوکے میں نہیں آنا چاہئے۔
----------
پروفیسر غفور احمد: میری گزارش یہ ہے کہ اب آپ اسے ایڈجرن کر دیں کل لے لیں۔
جناب چیئرمین: پانچ منٹ کے لئے وقفہ کریں۔ دس بجے تک چلیں گے۔ ہم صفحہ۴۱ تک پہنچ گئے ہیں۔ ۶۰تک پہنچ جائیں تو ٹھیک ہے۔
پروفیسر غفور احمد: ہم صبح سے وہاں گئے ہوئے تھے۔ چودہ پندرہ گھنٹے ہو چکے ہیں۔ اب صرف کل ایک سٹنگ میں ختم ہو جائے گی یا آٹھ بجے چلا لیں؟
متعدد اراکین: جی! چلا لیں۔
جناب چیئرمین: میری طرف سے تو صبح پانچ بجے کر لیں، نماز یہاں پڑھ لیں گے۔
1924The House Committee is adjourned to meet tomorrow at 9: 00 a.m. sharp.
(پارلیمنٹری کمیٹی کا اجلاس کل۹؍بجے صبح تک کے لئے ملتوی کیا جاتا ہے)
----------
The Special Committee of the Whole House adjourned to meet at nine of the Clock, in the morning, on Friday, the 30th, August. 1974.
(پورے ہاؤس پر مشتمل خصوصی کمیٹی کا اجلاس ۳۰؍اگست ۱۹۷۴ء بروز جمعہ صبح ۹؍بجے تک کے لئے ملتوی کیا جاتا ہے)
----------
 
Top