لفظ توفی کے معنیٰ (پورا پورا لینے )کے ہیں
اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں ارشاد فرماتا ہے :
اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَا ۚ فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْاُخْرٰٓى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ
اللہ جانوں کو وفات دیتا ہے ان کی موت کے وقت اور جو نہ مریں انہیں ان کے سوتے میں پھر جس پر موت کا حکم فرمادیا اسے روک رکھتا ہے اور دوسری ایک میعاد مقرر تک چھوڑ دیتا ہے بیشک اس میں ضرور نشانیاں ہیں سوچنے والوں کے لیے
یتوفی الانفس: یتوفی مضارع واحد مذکر غائب توفی (تفعل) مصدر سے۔ لے لیتا ہے قبض کر لیتا ہے۔ وفی مادہ۔ اسی سے ایفاء (افعال) وعدہ۔ عہد یا نزرانہ نہ پورا کرنا۔ جیسے اوفوا بعھدی اوف بعھدکم اور اس عہد کو پورا کرو۔ جو تم نے مجھ سے کیا تھا۔ میں بھی اس عہد کو پورا کروں گا جو میں نے تم سے کیا تھا۔
الانفس۔ مفعول ہے یتوفی کا۔ جانیں۔ یعنی (اللہ قبض کر لیتا ہے جانوں کو)
لم تمت۔ مضارع نفی جحد بلم۔ مجزوم بوجہ عمل لم ۔ تمت اصل میں تموت تھا۔ ت بوجہ عمل لم ساکن ہوگیا۔ پھر واؤ بوجہ اجتماع ساکنین کے گر گئی۔ لم تمت ہوگیا۔ اور معنی ماضی منفی کے دینے لگا۔ یعنی جو ابھی نہیں مری۔ جس کی موت کا ابھی وقت نہیں آیا۔ موت کے وقت قبض روح من کل الوجوہ ہوتا ہے۔ جس کے بعد نہ حیات جسمانی باقی رہتی ہے نہ شعور ادراک: لیکن نیند کی حالت میں یہ سلب روح صرف جزئی حیثیت سے ہوتا ہے۔ جس سے حیات جسمانی جوں کی توں رہتی ہے لیکن شعور و ادراک باقی نہیں رہتا۔ نیند کے وقت سلب صرف حیات شعوری کا ہوتا ہے۔
لطیف نکتہ:
اگر یہاں اللہ تعالیٰ نے ((يَتَوَفَّى)) سے مراد موت لینا ہوتا تو فقط يَتَوَفَّى کہنے سے ہی بات ختم ہو جاتی چونکہ يَتَوَفَّى کا مطلب پورا پورا لینے کے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ((حِيْنَ مَوْتِهَا)) کی قید لگا کر بندوں کو سمجھا دیا کہ یہاں یتوفی سے مراد موت نہیں ہے بلکہ پورا پورا لینے کے ہیں یعنی " اللہ جانوں کو پورا پورا لے لیتا ہے ان کی موت کے وقت " ۔ اور اگر یہاں یتوفی کا معنی موت ہی کر دئیے جائیں تو ترجمہ کچھ یوں بن جائے گا کہ " اللہ جانوں کوموت دیتا ہے ان کی موت کے وقت " اس طرح تحصیل لا حاصل ہو گی اور ترجمہ کا حسن بگڑ کے رہ جاتا ہے جب کہ یہ کلام الہی سے بعیدی ہے