ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
بسم اللہ الرحمن الرحیم
،نحمدہ ونصلی ونسلم علی رسولہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ اجمعین۔
اظہار تشکر
ختم نبوت ایک آفاقی موضوع ہے۔ دنیا میں جہاں جہاں میرے آخری نبی حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام لیوا ہیں وہ اس عقیدے پر نہایت سختی سے کاربند ہیں ۔ہم نہایت ہی پرفتن دور سے گزر رہے ہیں،ختم نبوت کے منکرین اپنے پورے لاؤ لشکر کے ساتھ عقیدہ ختم کے خلاف سرگرم ہیں۔اگرچہ ان کی سرکوبی کے لیے محافظین ختم نبوت بھی نہایت تگ و تاز سے مصروف ہیں۔ صحافتی دنیا میں مختلف جرائد ورسائل ختم نبوت کے تحفظ میں مصروف عمل ہیں۔ الحمدللہ علی احسانہ۔ ختم نبوت فورم کے زیراہتمام علامہ مفتی سید محمد مبشر رضا قادری صاحب زید مجدہ کی کاوشوں سے ماہ نامہ مجلہ"الخاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم"انٹر نیشنل کی اشاعت ثانیہ کا آغاز ہوگیا ہے۔موصوف نے فقیر پر اعتماد کیا اور اس مجلہ کا"سرپرست اعلیٰ"بنا ڈالا۔یہ میرے لئے ایک سعادت اور اعزاز سے کم نہیں ہے۔فقیر نے ان سے کہا کہ مجلسِ ادارت اور مجلس مشاورت کے لیے عالمی سطح پر ایسے اہل علم و قلم کی خدمات بھی لی جائیں جن کی علمی وتحقیقی خدمات جلیلہ اظہر من الشمس ہیں۔انہوں نے کہا کہ اب آپ اس مجلہ کے"سرپرست اعلیٰ" ہیں۔لہذا اس مجلہ کی بہتری کے لیے آپ جو کچھ بھی کر سکتے ہیں، ضرور کریں۔ فقیر نے اللہ اور اس کے پیارے حبیب حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لے کر کام کا آغاز کردیا۔ مجلسِ ادارت اور مجلس مشاورت کےلیےمملکت خدادادپاکستان،انڈیا،بنگلہ دیش،امریکا،ساؤتھ افریقہ، اور عمان کے نامور اہل علم و قلم سے رابطے کئے۔ہر ایک نے خوشی کا اظہار فرمایا اور ختم نبوت کے لئے نہ صرف ادارت اور مشاورت کے لیے اپنے آپ کو پیش فرما دیا بلکہ اپنی قلمی وعلمی خدمات بھی حاضر فرما دیں۔مجلسِ ادارت ومشاورت کی تشکیل میں فقیر کے کرم فرما سید منور علی شاہ بخاری قادری رضوی صاحب زید مجدہ (امریکا) کا تعاون ناقابلِ فراموش ہے۔ ماشاءاللہ، ماہ نامہ مجلہ "الخاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم"انٹر نیشنل کی مجلسِ ادارت ومشاورت میں عالم اسلام کے نامور ایسے ایسے اہل علم و قلم کے اسمائے گرامی شامل کئے ہیں جن میں بے مثال علماء،بے نظیر فقہاء، شہیر ادباء ، وسیع الکلام شعراء اور سنی صحافت کے درخشندہ ستاروں کے نام نہایت نمایاں طور پر سامنے آئے ہیں۔ ان میں ہر ایک اپنی ذات میں ایک تحریک ،ایک ادارہ اور ایک انجمن کی حیثیت سے کم نہیں ہے۔مجلس ادارت ومشاورت میں ان تمام کے اسمائے گرامی حروف تہجی کی ترتیب سے شامل کئے گئے ہیں۔ امید واثق ہے کہ ان اہل علم و قلم کے ستاروں کی روشنی میں یہ مجلہ خوب سے خوب تر کی جانب رواں دواں رہے گا اور ختم نبوت کے تحفظ اور قادیانیت کے رد میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھے گا۔فقیر اور اس کے مدیر اعلیٰ علامہ مفتی سید محمد مبشر رضا قادری صاحب مجلس ادارت ومشاورت کے تمام اراکین ومعاونیں کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتے ہیں اور دعا بھی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل ان سب کو ہمیشہ شاد و آباد رکھے اور ان کے علم و قلم میں مزید برکتیں عطا فرمائے اور انہیں دنیا وآخرت میں بہترین اجر عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وازواجہ وذریتہ و اولیاء امتہ وعلما ملتہ اجمعین۔
شکر گزار اور دعا گو: احقر سید صابر حسین شاہ بخاری قادری غفرلہ"خلیفۂ مجاز بریلی شریف"۔۔ مدیر اعلیٰ"الحقیقہ"و سر پرست اعلیٰ ماہ نامہ مجلہ"الخاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم"انٹر نیشنل۔ ادارہ فروغ افکار رضا و ختم نبوت اکیڈمی برھان شریف ضلع اٹک پنجاب پاکستان پوسٹ کوڈ نمبر 43710(١٦/جون ٢٠٢٠ء بروز منگل بوقت ٦:٤٤عصر)
مولانا ازھر القادری صاحب زید مجدہ۔ سدھارتھ نگر یوپی انڈیا کا خط السلا م علیکم وحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہ ہےعنایت،کرم،نوازش!
حقیردل کی کتاب میں ہے
حضور کی ذرہ نوازیوں کا بہت بہت مشکور۔ حق تو یہ کہ اس حقیر سراپا تقصیر کی کوئی حقیقت نہیں ، جوکچھ ہے وہ سرکاروں کا عطیہ اور آپ کی خردہ نوازی۔ بہ ہر کیف غلام حق غلامی ادا کرنے کی اپنی سی کوشش میں تادم آخرلگا رہے گا۔ بلاشبہ ایک ذرۂ ناچیز کو آسمان کا تارا بنادینا اہل بیت اطہار ہی کا حصہ ہے۔میں اپنی قسمت پر جتنا بھی نازکروں کم ہے ۔بہ طور تحدیث نعمت یہ کہنا بجا یقین کرتا ہوں۔ایک شہزادےکی توصیف ہی تھیجس کے صدقے عجب کمال ملاصابر،اُس کی وجاہتوںکا امین بعد اُس کےیہ خوش خصال ملا۔
ازہرالقادری
مولانا محمد نظام الدین صاحب دامت برکاتہم۔چاٹگام،بنگلہ دیش کا خط اظہار تشکر
محترمی ومکرمی وسیدی وسندی سید صابر حسین شاہ بخاری قادری مدظلہ العالی"خلیفۂ مجاز بریلی شریف ♦مدیر اعلیٰ"الحقیقہ"و سر پرست اعلیٰ ماہ نامہ مجلہ"الخاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم"انٹر نیشنل
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ15 جون 2020م کو آپ کا ای میل موصول ہوا۔میں واٹس ایپ میں نہ ہونے کی وجہ جواب دینے سے قاصر رہا اس لئے معذرت خواں ہوں۔اگرچہ حضرت سے مجھے فیزیکل تعارف نہیں مگر میں عرصہ دراز سے حضرت کی علمی کاوش سے معترف ہوں ۔ختم نبوت فورم کے زیراہتمام علامہ مفتی سید محمد مبشر رضا قادری صاحب کی کاوشوں سے ماہ نامہ مجلہ"الخاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم"انٹر نیشنل کی اشاعت ثانیہ کے اس سنہری موقعہ پرمجلس مشاورت میں میرے نام شامل کرنے پر فقیر آپ اور ختم نبوت فورم کے تمام اراکین ومعاونیں کا شکرگزار ہوں ۔ اللہ تعالیٰ اس علمی سفر میں ہمیں مزید برکتیں عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ اجمعین۔
شکر گزار :احقرمحمد نظام الدین مدیر: مدرسہ الامین الباریہ الدرس النظامیہ۔چاند گائوں،چاٹگام، بنگالہ دیش
قادیانی مبلغین آخر کار عالم اسلام کے ساتھ اپنے اصل اختلاف کو دنیا کے سامنے اور خصوصی طور پہ اپنی ہی جماعت کے لوگوں کے سامنے کیوں نہیں لاتے؟کیا یہ نہیں چاہتے کہ عالم اسلام کے ساتھ ان کے اختلافات ختم ہوں؟یا پھر اس کے پیچھے وجہ یہ ہے کہ ان کو معلوم ہے اصل اختلاف ایسا ہے جس کے حل کے لیے ان کے پاس کوئی بھی راستہ کوئی بھی دلیل نہیں ہے؟آج کی میری یہ تحریر خصوصی طور پر قادیانی احمدی حضرات کے لیے ہے اس کو پڑھنے کے بعد ایک بار ضرور سوچیے گا کہ اصل وجہ اختلاف کیا بنتی ہے اور اس پر بات کرنا کیوں آپ کی جماعت کے مبلغین اور مربیان کو گوارہ نہیں ہے۔
سب سے پہلے جماعت قادیانیہ احمدیہ کے مبلغین مسلمانوں کے ساتھ جس مسئلے کو چھیڑتے ہیں وہ ہے حیات عیسیٰ علیہ السلام کا مسئلہ۔ کیا کبھی کسی قادیانی احمدی نے یہ سوچا ہے کہ کوئی شخص اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا قائل ہوجائے تو اس کے بعد اس کو اس بات پر کیسے قائل کیا جائے گا کہ مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود ہے؟ یعنی وہ مسیح جس کے آنے کا وعدہ کیا گیا ہے؟ کیا آج تک اس نقطے پر جماعت کے مربیان نے اتنا زور دیا جتنا کے حیات عیسیٰ علیہ السلام کے مسئلے پر دیا جاتا ہے؟ کیونکہ حیات عیسیٰ علیہ السلام کا معاملہ جماعت قادیانیہ احمدیہ کے عقیدے کو ثابت کرنے کے لیے ایک ثانوی معاملہ ہے اس پر بحث کا نتیجہ اگر ان کے حق میں بھی نکل آئے تب بھی یہ جماعت کا اصل عقیدہ ثابت کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ کیونکہ اس کے بعد مرزا صاحب اس مقام پر کیسے فائز ہوئے یہ معاملہ پھر بھی حل طلب رہتا ہے۔ لیکن اگر جماعت کے مربیان یہ ثابت کردیتے ہیں کہ جس مسیح کے آنے کی پیش گوئی تھی وہ مرزا غلام احمد قادیانی ہی ہے تو پھر حیات عیسیٰ علیہ السلام کا معاملہ چاہے حل طلب ہی کیوں نہ ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یعنی جب یہ ثابت ہوگیا کہ مرزا غلام احمد قادیانی ہی وہ مسیح ہے جس کے آنے کی پیش گوئی تھی تو لامحالہ متلاشی حق یا تو یہ ماننے پہ مجبور ہوگا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں اور جس نے آنا تھا وہ ان کی بجائے کوئی اور شخصیت ہےیا پھر یہ تسلیم کرے گا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ اٹھایا تو گیا مگر ان کے دوبارہ دنیا میں تشریف لانے کا کوئی ذکر نہیں ملتا ۔ کیونکہ جس مسیح ابن مریم کے آنے کا ذکر احادیث میں ملتا ہے وہ تو پہلے ہی کسی اور شخصیت کے لیے ثابت ہوچکا ہوگا۔یا پھر تیسری طرز سے یہ سمجھا جائے گا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی تشریف لائیں گے کیونکہ خود مرزا غلام احمد قادیانی نے یہ بات لکھی ہے کہ ایک جلالی مسیح نے بھی آنا ہے مرزا صاحب یہ بیان کرنے کے بعد کہ جب دنیا میں فتنہ و فساد بہت زیادہ پھیل چکا ہوگا لکھتے ہیں:
"تب پھر مسیح کی روحانیت سخت جوش میں آکر جلالی طور پر اپنا نزول چاہے گی تب ایک قہری شبیہ میں ان کا نزول ہوکر اس زمانہ کا خاتمہ ہوجائے گا تب آخر ہوگا اور دنیا کی صف لپیٹ دی جائے گی اس سے معلوم ہوا کہ مسیح کی امت کی نالائق کرتوتوں کی وجہ سے مسیح کی روحانیت کے لیے یہی مقدر تھا کہ تین مرتبہ دنیا میں نازل ہو۔" (روحانی خزائن جلد 5 صفحہ346)
دوسری جگہ لکھا کہ:
"اور میرا یہ بھی دعوی نہیں کہ صرف مثیل ہونا میرے پر ہی ختم ہوگیا ہے بلکہ میرے نزدیک ممکن ہے کہ آئندہ زمانوں میں میرے جیسے اور دس ہزار بھی مثیل مسیح آجائیں ۔ہاں اس زمانے کے لیے میں مثیل مسیح ہوں اور دوسرے کی انتظار بے سود ہے اور یہ بھی ظاہر رہے کہ یہ کچھ میرا ہی خیال نہیں کہ مثیل مسیح بہت ہوسکتے ہیں بلکہ احادیث نبویہ کا بھی یہی منشا پایا جاتا ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ دنیا کے اخیر تک قریب تیس کے دجال پیدا ہوں گےاب ظاہر ہے جب تیس دجال کا آنا ضروری ہے تو بحکم لکل دجال عیسیٰ تیس مسیح بھی آنے چاہیں پس اس بیان کی رو سے ممکن اور بالکل ممکن ہے کہ کسی زمانہ میں کوئی ایسا مسیح بھی آجائے جس پر حدیثوں کے بعض ظاہری الفاظ صادق آسکیں۔"
(روحانی خزائن جلد 3 صفحہ197)
اس تمام بحث سے ایک بات ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات کے مسئلے پر بحث کے بعد چاہے بحث کا نتیجہ کچھ ہی کیوں نہ نکلے مرزا صاحب کے مسیح ہونے کا ثبوت پھر بھی نہیں ملتا اس کو مسیح ثابت کرنے کے لیے حیات عیسیٰ علیہ السلام سے اگلے مرحلے پر جاکر یہ ثابت کرنا لازم ہوگا کہ مرزا غلام احمد قادیانی ہی وہ مسیح ہے جس کے آنے کا وعدہ تھا۔ تو اس صورت حال میں جماعت قادیانیہ احمدیہ کے افراد اس بات پہ غور کیوں نہیں کرتے کہ جہاں آکر مرزا صاحب کے دعوے کی سچائی یا بطلان ثابت ہونا ہے اس نقطے پر جماعت کے مربیان بحث کریں۔اب اگر ایک شخص وفات عیسیٰ علیہ السلام کا قائل ہو جیسا کہ منکرین حدیث و غامدین وغیرہ تو ان کے سامنے مرزا صاحب کے مسیح موعود ہونے کے کون سے دلائل پیش کریں گے؟ ہمیں بھی ان دلائل کا انتظار رہے گا اور جماعت کے افراد بھی ان دلائل کا تقاضا اپنے مربیان سے کریں۔
دوسرا مسئلہ ختم نبوت کا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبوت ملے گی یا نبوت کا سلسلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوچکا؟ یہ مسئلہ بالکل واضح ہے کہ مسلمان ہر طرح کی نبوت نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم مانتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تاقیامت کسی بھی شخص کو کسی بھی طرح کی نبوت پر فائز نہیں کیا جائے گا۔ جبکہ قادیانی احمدی جماعت کا عقیدہ ہے کہ ہر طرح کی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی پر ختم ہوچکی اب تا قیامت کسی کو بھی کسی بھی طرح کی نبوت نہ ملے گی۔ جس طرح نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اور سابقہ انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسا کسی نے ایک خوبصورت محل تعمیر کیا اور اس میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی پس میں وہی اینٹ ہوں (مفہوم )۔ اب قادیانی کہتے ہیں کہ یہاں سے مراد شرعی نبوت ہے کہ شریعت والی نبوت کی عمارت مکمل ہوگئی ۔ اب یہی بات لیں تو شریعت والی نبوت انکے بقول نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوچکی اور مرزا صاحب یہ دعوی خود کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
"اس عمارت میں (یعنی انبیاء کی عمارت میں۔راقم) ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی یعنی منعم علیہم ،پس خدا نے ارادہ فرمایا کہ اس پیشگوئی کو پورا کرے اور آخری اینٹ کے ساتھ بنا کو کمال تک پہنچا دے پس میں وہی اینٹ ہوں۔
(روحانی خزائن جلد16 صفحہ177،178)
اس کے علاوہ بھی بہت مقامات پر مرزا غلام احمد قادیانی نے صریح الفاظ میں لکھا ہے کہ میں سب سے آخری نبی ہوں میرے بعد کسی نے نہیں آنا۔ اب مسئلہ واضح ہوگیا کہ شریعت والی نبوت قادیانی حضرات نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہونا تسلیم کیا اور بعد از جو ایک نئی قسم کی نبوت جماعت احمدیہ قادیانیہ نے گھڑی یعنی ظلی بروزی نبوت ، اس کو مرزا صاحب کے اس حوالے نے مرزا غلام احمد قادیانی پر بند کردیا ۔ اب مسئلہ واضح ہوگیا کہ جماعت قادیانیہ احمدیہ کے عقیدے کے مطابق شرعی نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوچکی اور باقی ہر طرح کی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی پر ختم ہوچکی اب اس کے بعد نہ کوئی شرعی نبی پیدا ہوگا نہ کوئی غیر شرعی نہ کوئی ظلی نہ بروزی نہ حقیقی نہ غیر حقیقی نہ مستقل نہ غیر مستقل۔(یہ سب اصطلاحات آپ کی جماعت احمدیہ کی وضح کردہ ہیں۔ ) اب مرزا صاحب کو جھٹلا کر کوئی قادیانی یا مربی یہ کہتا پھرے کہ نہیں نبوت بند نہیں ہوئی اب بھی نبی پیدا ہوسکتے ہیں یا آسکتے ہیں تو وہ مرزا صاحب کے مذہب سے ہٹ کر اپنا الگ دعوی پیش کررہا ہے اس کا جماعت قادیانیہ احمدیہ سے کوئی تعلق نہ ہوگا اور فی الوقت ہماری بحث مرزا غلام قادیانی کی بنائی ہوئی جماعت اور اس کے عقائد پر ہے۔اب مسلمانوں کے ذمے یہ رہا کہ ہر طرح کی نبوت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ثابت کریں اور جماعت قادیانیہ احمدیہ کے ذمے یہ رہا کہ پہلے مرزا صاحب کو نبی اور اس کے بعد آخری نبی ثابت کریں ۔ ثابت کریں قرآن و حدیث سے کہ مرزا غلام احمد قادیانی بھی نبی ہے مزید یہ کہ ہر طرح کی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی پر ختم ہوچکی۔ تو جماعت کے افراد اس پر ضرور غور کریں اور سوچیں کہ جب اصل اختلاف بنتا ہی یہی ہے تو پھر کیوں جماعت کے مربیان اور مبلغین اجرائے نبوت کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟ اور یہ کہتے ہیں کہ نبوت بند نہیں ہوئی؟ کیا اس جماعت کے افراد مرزا صاحب پر ایمان لائے ہیں یا اپنی جماعت کے مربیان اور مبلغین پر؟ مرزا صاحب تو کہیں کہ نبوت مجھ پر ختم ہوچکی اور مربیان کہیں کہ نہیں اور بھی نبی آسکتے ہیں تو جماعت کے افراد کس کی بات کو تسلیم کریں گے؟ یہ فیصلہ آپ کو ہی کرنا ہے۔
اس مسئلے کا ایک تیسرا پہلو بھی بنتا ہے کہ جماعت قادیانیہ اور احمدیہ اجرائے نبوت کے مسئلے کو جو کہ اصل اختلاف بنتا ہی نہیں چھوڑ کر اس نقطے پر مسلمانوں کے ساتھ متفق ہوجائیں کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ ایک نبی نے دنیا میں دوبارہ تشریف لانا ہے یعنی حضرت عیسی علیہ السلام اور قادیانی جماعت کا عقیدہ بھی یہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک نبی نے آنا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ مسلمانوں کے نزدیک جس نبی علیہ السلام نے تشریف لانا ہے وہ پہلے سے ہی مرتبہ نبوت پر فائز ہیں اس لیے ان کو بعد از نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نبوت ملنے کا سوال ہی ختم ہوجاتا ہے جبکہ قادیانی حضرات کے نزدیک ایک شخص کو بعد از پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نبوت ملنی ہے۔ تو اب جماعت احمدیہ کے مبلغین یہ ثابت کرنے میں اپنا وقت لگائیں کہ جس ایک نبی کے آنے کی امت مسلمہ قائل ہے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہیں بلکہ مرزا غلام احمد قادیانی ہے اور یہ کہ اس کو بعد میں کامل اطاعت کے نتیجہ میں نبوت دی جانی تھی جبکہ مسلمانوں کے ذمہ یہ ہوگا کہ وہ ثابت کریں کہ جس نبی علیہ السلام نے بعد از رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں آنا ہے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں اور ان کی آمد دوبارہ آمد ہے نیز یہ کہ ان کو نبوت دوبارہ نزول کے بعد نہیں دی جائے گی بلکہ پہلے ہی عطا کردی گئی تھی۔
حاصل کلام یہ کہ جماعت قادیانیہ احمدیہ کے افراد اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کریں تو بہت سے ایسے اختلافات جن کو جماعت کے مربیان نے ذبردستی اختلاف بنا کر مسلمانوں پہ تھوپ رکھا ہے وہ ختم ہوجائیں گے اور جن معاملات سے اختلافات ختم ہونا ممکن ہے اور مرزا صاحب کی سچائی یا بطلان کا ثبوت ممکن ہے ان معاملات کو حل کرنے یا سمجھنے کے لیے اپنی توانائیاںصرف کریں ۔ وگرنہ جو طرز آپ کی جماعت کے مربیان اور مبلغین نے اپنا رکھا ہے اس سے نہ تو کبھی اختلافات ختم ہوسکتے ہیں نہ آپ یہ جان پائیں گے کہ مرزا صاحب اپنے دعووں میں سچے تھے یا جھوٹے۔ اور حق کی اس تلاش کے لیے اور دائمی اخروی نجات کے لیے آپ کے پاس بہت تھوڑا وقت ہے یعنی آپ کی موت تک کا۔ سانس ختم تو چانس ختم
قادیانی مبلغین آخر کار عالم اسلام کے ساتھ اپنے اصل اختلاف کو دنیا کے سامنے اور خصوصی طور پہ اپنی ہی جماعت کے لوگوں کے سامنے کیوں نہیں لاتے؟کیا یہ نہیں چاہتے کہ عالم اسلام کے ساتھ ان کے اختلافات ختم ہوں؟یا پھر اس کے پیچھے وجہ یہ ہے کہ ان کو معلوم ہے اصل اختلاف ایسا ہے جس کے حل کے لیے ان کے پاس کوئی بھی راستہ کوئی بھی دلیل نہیں ہے؟آج کی میری یہ تحریر خصوصی طور پر قادیانی احمدی حضرات کے لیے ہے اس کو پڑھنے کے بعد ایک بار ضرور سوچیے گا کہ اصل وجہ اختلاف کیا بنتی ہے اور اس پر بات کرنا کیوں آپ کی جماعت کے مبلغین اور مربیان کو گوارہ نہیں ہے۔
سب سے پہلے جماعت قادیانیہ احمدیہ کے مبلغین مسلمانوں کے ساتھ جس مسئلے کو چھیڑتے ہیں وہ ہے حیات عیسیٰ علیہ السلام کا مسئلہ۔ کیا کبھی کسی قادیانی احمدی نے یہ سوچا ہے کہ کوئی شخص اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا قائل ہوجائے تو اس کے بعد اس کو اس بات پر کیسے قائل کیا جائے گا کہ مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود ہے؟ یعنی وہ مسیح جس کے آنے کا وعدہ کیا گیا ہے؟ کیا آج تک اس نقطے پر جماعت کے مربیان نے اتنا زور دیا جتنا کے حیات عیسیٰ علیہ السلام کے مسئلے پر دیا جاتا ہے؟ کیونکہ حیات عیسیٰ علیہ السلام کا معاملہ جماعت قادیانیہ احمدیہ کے عقیدے کو ثابت کرنے کے لیے ایک ثانوی معاملہ ہے اس پر بحث کا نتیجہ اگر ان کے حق میں بھی نکل آئے تب بھی یہ جماعت کا اصل عقیدہ ثابت کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ کیونکہ اس کے بعد مرزا صاحب اس مقام پر کیسے فائز ہوئے یہ معاملہ پھر بھی حل طلب رہتا ہے۔ لیکن اگر جماعت کے مربیان یہ ثابت کردیتے ہیں کہ جس مسیح کے آنے کی پیش گوئی تھی وہ مرزا غلام احمد قادیانی ہی ہے تو پھر حیات عیسیٰ علیہ السلام کا معاملہ چاہے حل طلب ہی کیوں نہ ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یعنی جب یہ ثابت ہوگیا کہ مرزا غلام احمد قادیانی ہی وہ مسیح ہے جس کے آنے کی پیش گوئی تھی تو لامحالہ متلاشی حق یا تو یہ ماننے پہ مجبور ہوگا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں اور جس نے آنا تھا وہ ان کی بجائے کوئی اور شخصیت ہےیا پھر یہ تسلیم کرے گا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ اٹھایا تو گیا مگر ان کے دوبارہ دنیا میں تشریف لانے کا کوئی ذکر نہیں ملتا ۔ کیونکہ جس مسیح ابن مریم کے آنے کا ذکر احادیث میں ملتا ہے وہ تو پہلے ہی کسی اور شخصیت کے لیے ثابت ہوچکا ہوگا۔یا پھر تیسری طرز سے یہ سمجھا جائے گا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی تشریف لائیں گے کیونکہ خود مرزا غلام احمد قادیانی نے یہ بات لکھی ہے کہ ایک جلالی مسیح نے بھی آنا ہے مرزا صاحب یہ بیان کرنے کے بعد کہ جب دنیا میں فتنہ و فساد بہت زیادہ پھیل چکا ہوگا لکھتے ہیں:
"تب پھر مسیح کی روحانیت سخت جوش میں آکر جلالی طور پر اپنا نزول چاہے گی تب ایک قہری شبیہ میں ان کا نزول ہوکر اس زمانہ کا خاتمہ ہوجائے گا تب آخر ہوگا اور دنیا کی صف لپیٹ دی جائے گی اس سے معلوم ہوا کہ مسیح کی امت کی نالائق کرتوتوں کی وجہ سے مسیح کی روحانیت کے لیے یہی مقدر تھا کہ تین مرتبہ دنیا میں نازل ہو۔" (روحانی خزائن جلد 5 صفحہ346)
دوسری جگہ لکھا کہ:
"اور میرا یہ بھی دعوی نہیں کہ صرف مثیل ہونا میرے پر ہی ختم ہوگیا ہے بلکہ میرے نزدیک ممکن ہے کہ آئندہ زمانوں میں میرے جیسے اور دس ہزار بھی مثیل مسیح آجائیں ۔ہاں اس زمانے کے لیے میں مثیل مسیح ہوں اور دوسرے کی انتظار بے سود ہے اور یہ بھی ظاہر رہے کہ یہ کچھ میرا ہی خیال نہیں کہ مثیل مسیح بہت ہوسکتے ہیں بلکہ احادیث نبویہ کا بھی یہی منشا پایا جاتا ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ دنیا کے اخیر تک قریب تیس کے دجال پیدا ہوں گےاب ظاہر ہے جب تیس دجال کا آنا ضروری ہے تو بحکم لکل دجال عیسیٰ تیس مسیح بھی آنے چاہیں پس اس بیان کی رو سے ممکن اور بالکل ممکن ہے کہ کسی زمانہ میں کوئی ایسا مسیح بھی آجائے جس پر حدیثوں کے بعض ظاہری الفاظ صادق آسکیں۔"
(روحانی خزائن جلد 3 صفحہ197)
اس تمام بحث سے ایک بات ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات کے مسئلے پر بحث کے بعد چاہے بحث کا نتیجہ کچھ ہی کیوں نہ نکلے مرزا صاحب کے مسیح ہونے کا ثبوت پھر بھی نہیں ملتا اس کو مسیح ثابت کرنے کے لیے حیات عیسیٰ علیہ السلام سے اگلے مرحلے پر جاکر یہ ثابت کرنا لازم ہوگا کہ مرزا غلام احمد قادیانی ہی وہ مسیح ہے جس کے آنے کا وعدہ تھا۔ تو اس صورت حال میں جماعت قادیانیہ احمدیہ کے افراد اس بات پہ غور کیوں نہیں کرتے کہ جہاں آکر مرزا صاحب کے دعوے کی سچائی یا بطلان ثابت ہونا ہے اس نقطے پر جماعت کے مربیان بحث کریں۔اب اگر ایک شخص وفات عیسیٰ علیہ السلام کا قائل ہو جیسا کہ منکرین حدیث و غامدین وغیرہ تو ان کے سامنے مرزا صاحب کے مسیح موعود ہونے کے کون سے دلائل پیش کریں گے؟ ہمیں بھی ان دلائل کا انتظار رہے گا اور جماعت کے افراد بھی ان دلائل کا تقاضا اپنے مربیان سے کریں۔
دوسرا مسئلہ ختم نبوت کا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبوت ملے گی یا نبوت کا سلسلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوچکا؟ یہ مسئلہ بالکل واضح ہے کہ مسلمان ہر طرح کی نبوت نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم مانتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تاقیامت کسی بھی شخص کو کسی بھی طرح کی نبوت پر فائز نہیں کیا جائے گا۔ جبکہ قادیانی احمدی جماعت کا عقیدہ ہے کہ ہر طرح کی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی پر ختم ہوچکی اب تا قیامت کسی کو بھی کسی بھی طرح کی نبوت نہ ملے گی۔ جس طرح نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اور سابقہ انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسا کسی نے ایک خوبصورت محل تعمیر کیا اور اس میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی پس میں وہی اینٹ ہوں (مفہوم )۔ اب قادیانی کہتے ہیں کہ یہاں سے مراد شرعی نبوت ہے کہ شریعت والی نبوت کی عمارت مکمل ہوگئی ۔ اب یہی بات لیں تو شریعت والی نبوت انکے بقول نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوچکی اور مرزا صاحب یہ دعوی خود کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
"اس عمارت میں (یعنی انبیاء کی عمارت میں۔راقم) ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی یعنی منعم علیہم ،پس خدا نے ارادہ فرمایا کہ اس پیشگوئی کو پورا کرے اور آخری اینٹ کے ساتھ بنا کو کمال تک پہنچا دے پس میں وہی اینٹ ہوں۔
(روحانی خزائن جلد16 صفحہ177،178)
اس کے علاوہ بھی بہت مقامات پر مرزا غلام احمد قادیانی نے صریح الفاظ میں لکھا ہے کہ میں سب سے آخری نبی ہوں میرے بعد کسی نے نہیں آنا۔ اب مسئلہ واضح ہوگیا کہ شریعت والی نبوت قادیانی حضرات نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہونا تسلیم کیا اور بعد از جو ایک نئی قسم کی نبوت جماعت احمدیہ قادیانیہ نے گھڑی یعنی ظلی بروزی نبوت ، اس کو مرزا صاحب کے اس حوالے نے مرزا غلام احمد قادیانی پر بند کردیا ۔ اب مسئلہ واضح ہوگیا کہ جماعت قادیانیہ احمدیہ کے عقیدے کے مطابق شرعی نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوچکی اور باقی ہر طرح کی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی پر ختم ہوچکی اب اس کے بعد نہ کوئی شرعی نبی پیدا ہوگا نہ کوئی غیر شرعی نہ کوئی ظلی نہ بروزی نہ حقیقی نہ غیر حقیقی نہ مستقل نہ غیر مستقل۔(یہ سب اصطلاحات آپ کی جماعت احمدیہ کی وضح کردہ ہیں۔ ) اب مرزا صاحب کو جھٹلا کر کوئی قادیانی یا مربی یہ کہتا پھرے کہ نہیں نبوت بند نہیں ہوئی اب بھی نبی پیدا ہوسکتے ہیں یا آسکتے ہیں تو وہ مرزا صاحب کے مذہب سے ہٹ کر اپنا الگ دعوی پیش کررہا ہے اس کا جماعت قادیانیہ احمدیہ سے کوئی تعلق نہ ہوگا اور فی الوقت ہماری بحث مرزا غلام قادیانی کی بنائی ہوئی جماعت اور اس کے عقائد پر ہے۔اب مسلمانوں کے ذمے یہ رہا کہ ہر طرح کی نبوت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ثابت کریں اور جماعت قادیانیہ احمدیہ کے ذمے یہ رہا کہ پہلے مرزا صاحب کو نبی اور اس کے بعد آخری نبی ثابت کریں ۔ ثابت کریں قرآن و حدیث سے کہ مرزا غلام احمد قادیانی بھی نبی ہے مزید یہ کہ ہر طرح کی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی پر ختم ہوچکی۔ تو جماعت کے افراد اس پر ضرور غور کریں اور سوچیں کہ جب اصل اختلاف بنتا ہی یہی ہے تو پھر کیوں جماعت کے مربیان اور مبلغین اجرائے نبوت کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟ اور یہ کہتے ہیں کہ نبوت بند نہیں ہوئی؟ کیا اس جماعت کے افراد مرزا صاحب پر ایمان لائے ہیں یا اپنی جماعت کے مربیان اور مبلغین پر؟ مرزا صاحب تو کہیں کہ نبوت مجھ پر ختم ہوچکی اور مربیان کہیں کہ نہیں اور بھی نبی آسکتے ہیں تو جماعت کے افراد کس کی بات کو تسلیم کریں گے؟ یہ فیصلہ آپ کو ہی کرنا ہے۔
اس مسئلے کا ایک تیسرا پہلو بھی بنتا ہے کہ جماعت قادیانیہ اور احمدیہ اجرائے نبوت کے مسئلے کو جو کہ اصل اختلاف بنتا ہی نہیں چھوڑ کر اس نقطے پر مسلمانوں کے ساتھ متفق ہوجائیں کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ ایک نبی نے دنیا میں دوبارہ تشریف لانا ہے یعنی حضرت عیسی علیہ السلام اور قادیانی جماعت کا عقیدہ بھی یہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک نبی نے آنا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ مسلمانوں کے نزدیک جس نبی علیہ السلام نے تشریف لانا ہے وہ پہلے سے ہی مرتبہ نبوت پر فائز ہیں اس لیے ان کو بعد از نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نبوت ملنے کا سوال ہی ختم ہوجاتا ہے جبکہ قادیانی حضرات کے نزدیک ایک شخص کو بعد از پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نبوت ملنی ہے۔ تو اب جماعت احمدیہ کے مبلغین یہ ثابت کرنے میں اپنا وقت لگائیں کہ جس ایک نبی کے آنے کی امت مسلمہ قائل ہے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہیں بلکہ مرزا غلام احمد قادیانی ہے اور یہ کہ اس کو بعد میں کامل اطاعت کے نتیجہ میں نبوت دی جانی تھی جبکہ مسلمانوں کے ذمہ یہ ہوگا کہ وہ ثابت کریں کہ جس نبی علیہ السلام نے بعد از رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں آنا ہے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں اور ان کی آمد دوبارہ آمد ہے نیز یہ کہ ان کو نبوت دوبارہ نزول کے بعد نہیں دی جائے گی بلکہ پہلے ہی عطا کردی گئی تھی۔
حاصل کلام یہ کہ جماعت قادیانیہ احمدیہ کے افراد اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کریں تو بہت سے ایسے اختلافات جن کو جماعت کے مربیان نے ذبردستی اختلاف بنا کر مسلمانوں پہ تھوپ رکھا ہے وہ ختم ہوجائیں گے اور جن معاملات سے اختلافات ختم ہونا ممکن ہے اور مرزا صاحب کی سچائی یا بطلان کا ثبوت ممکن ہے ان معاملات کو حل کرنے یا سمجھنے کے لیے اپنی توانائیاںصرف کریں ۔ وگرنہ جو طرز آپ کی جماعت کے مربیان اور مبلغین نے اپنا رکھا ہے اس سے نہ تو کبھی اختلافات ختم ہوسکتے ہیں نہ آپ یہ جان پائیں گے کہ مرزا صاحب اپنے دعووں میں سچے تھے یا جھوٹے۔ اور حق کی اس تلاش کے لیے اور دائمی اخروی نجات کے لیے آپ کے پاس بہت تھوڑا وقت ہے یعنی آپ کی موت تک کا۔ سانس ختم تو چانس ختم
انجینئر محمد علی مرزا اپنے ایک بیان میں امام ابن کثیر پر بہتان لگاتے ہوے کہتا ھے کہ "ابن کثیر نے بھی تعریف کی ہے قاتلین حسین کو قتل کرنے پر مختار ثقفی کی اور کہا کہ اس نے مسلمانوں کے دل ٹھنڈے کیے ہیں " (1)
تمام حمد و ثناء تعریف و توصیف اس خالق کائنات کیلئے ہے کہ کل جہان جسکے لفظ کن کی تخلیق ھے۔درود و سلام ہو اس نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم پر کہ جو باعث تخلیق عالم ہے اور آپ کی آل و اصحاب پر کہ جنکی اقتداء فلاح و کامیابی کا ذریعہ ھے۔
جسطرح زمانہ جدید ٹیکنالوجی کی طرف جارہا ھے اسی طرح اسلام کو جدید قسم کے فتنوں کا سامنا کرنا پڑرہا ھے۔فی زمانہ دین اسلام کو انجینئر محمد علی مرزا کی صورت میں جدید فتنے کا سامنا ہے جوکہ یوٹیوب پر بیٹھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ،صحابہؓ اکرام، اولیاء عظام اور اکابرین امت کی جانب غلط باتیں منسوب کرکے اپنے اسلام مخالف منگھڑت عقائد کی تشہیر کرتے ہوئے نظر آتا ھے۔اور افسوس کے ساتھ انجینئر محمد علی مرزا کے فتنے کی زد میں ہماری نواجوان نسل آرہی ہے جوکہ آنے والے وقت میں ہمارے دین و ملک کا سرمایہ ہے۔
انجینئر محمد علی مرزا کے مذموم عزائم کی زنجیر کی کڑیوں میں سے ایک کڑی امام ابن کثیر پر الزام ھے کہ انھوں نے جھوٹے مدعی نبوت مختار ثقفی کی تعریف کی ھے۔
سب سے پہلے ہم انجینئر محمد علی مرزا کے دعوے کا حافظ ابن کثیر کی کتاب سے بطلان ثابت کریں گے۔قارئین کی مزید تسلی و تشفی کیلئے سنی و شیعہ کتب ایسے دلائل سامنے رکھیں گے کہ جس سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی کہ مختار ثقفی بہت بڑا کذاب ملعون اور مدعی نبوت تھا۔
انجینئر محمد علی مرزا کے اس الزام کا جواب دینے سے قبل میں سوال کروں گا اور اسکا جواب قارئین پر چھوڑ دوں گا کہ یہ وہی مرزا جہلمی ھے جو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو بنیاد بنا کر ان پر ہرزہ سرائی کرتا ھے لیکن جب مختار ثقفی جوکہ ایک متنازع شخصیت ھے اور اکثر کے نزدیک کذاب ھے اسکے لئے اتنا نرم گوشہ کیوں ھے؟
انجینئر محمد علی مرزا کی ایک متنازع شخصیت سے محبت اسکی اصل کی جانب اشارہ کررہی ہے۔
انجینیئر محمد علی مرزا نے امام ابن کثیر پر الزام لگایا کہ انھوں نے مختار ثقفی کی تعریف کی ھے جبکہ البدایہ والنہایہ اٹھا کر دیکھیں تو معاملہ اسکے برعکس نظر آتا ھے۔
(1) مختار ثقفی ناصبی تھا
حافظ ابن کثیر مختار بن ابی عبید ثقفی کے حالات کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ
شروع شروع میں یہ ( مختار ثقفی) ناصبی تھا اور حضرت علی سے شدید بغض رکھتا تھا۔ (2)
سوال یہ ھے کہ حضرت علیؓ سے شدید بغض رکھنے والا ناصبی اچانک سے اہل بیت کا محب کیسے بن گیا. ان شاءالله اگلے حوالے سے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ مختار ثقفی کے یوٹرن کی اصلی وجہ کیا تھی.
(2) مختار ثقفی کی امام حسن کو قید کروانے کی سازش
قاتلین حسین کا بدلہ لینا ایک بہانہ تھا اصل میں مختار ثقفی دولت شہرت کا بھوکا انسان تھا اور حالات کے اتراؤ چرھاؤ کو خوب جانتا تھا یہاں تک کہ جسکا پلڑا بھاری ہو یا جسکی جانب اسکو اپنا نفع نظر آتا اپنا ووٹ بھی اسی جانب کردیتا تھا۔
صلح امام حسن کے بعد جب امام حسن کو اپنے لشکر سے بے وفائی کا خدشہ ہوا تو امام حسن ایک چھوٹی سی فوج کے ساتھ مدائن کے طرف چلے گئے ۔تو اسوقت مدائن کا نائب مختار ثقفی کا چچا تھا ۔مختار ثقفی بھی اس وقت مدائن میں ہی موجود تھا تو اس نے اپنے چچا سے کہا کہ اگر میں امام حسن کو گرفتار کرکے حضرت امیر معاویہ کے پاس بھیج دوں تو حضرت امیر معاویہ کے نزدیک یہ میرا بہت بڑا کارنامہ ہوگا۔
چنانچہ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ:
اور جب حضرت حسن نے انکی خیانت کو محسوس کیا تو آپ اپنے لشکر کو چھوڑ کر ایک چھوٹی سی فوج کے ساتھ مدائن کی طرف تشریف لے آئےتو مختار ثقفی نے اپنے چچا سے کہا اگر میں حضرت حسن کو پکڑ کر حضرت امیر معاویہ کے پاس بھیج دوں تو ہمیشہ کیلئے اسکے نزدیک میرا ایک کارنامہ ہوگا۔اسکے چچا نے اسے کہا اے میرے بھتیجے تو نے مجھے بہت برا مشورہ دیا ۔(3)
دوستوں اس حوالے سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ مختار ثقفی ایک لالچی انسان تھا اور اسکے دل میں ہرگز اہل بیت کیلئے محبت نہیں تھی ۔مختار ثقفی بعد میں جب کوفہ کی مسند پر متمکن ہوا تو چونکہ بہت زیادہ عوام یزیدیوں کے فعل قبیح سے نالاں تھی تو لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے قاتلین حسین کو قتل کیا ۔ورنہ یہ کیسے ممکن ھے کہ ایک شخص جو حضرت علی و امام حسن کا اتنا سخت دشمن ہو اور پھر اچانک سے انکی اہل بیت کیلئے محبت کے جذبات پروان چڑھ جائیں۔
(3)مختار ثقفی کا صحابی رسول کو گالیاں نکالنا
مختار ثقفی حضرت علی و امام حسن کا ہی دشمن نہیں بلکہ صحابہ رسول حضرت عبداللہ ابن زبیر کو بھی گالیاں نکالا کرتا تھا
چنانچہ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ:
مختار ثقفی ظاہری طور پر حضرت ابن زبیر کی تعریف کرتا تھا جبکہ باطن میں انکو گالیاں نکالتا تھا۔(4)
(4) نزول وحی کا دعویٰ
اہل سنت کا متفقہ عقیدہ ھے کہ وحی کا نزول انبیاء علیہم السلام کے ساتھ خاص ھے کوئی بھی غیر نبی اگر یہ دعویٰ کرے کہ اس پر وحی کا نزول ہوتا ھے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گا۔
جبکہ مختار ثقفی کا دعویٰ تھا کہ معاذاللہ اس پر وحی کا نزول ہوتا ھے۔
چنانچہ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ:
پھر مختار کی حکومت یوں ختم ہوئی کہ کبھی تھی ہی نہیں اور اسی طرح دیگر حکومتیں بھی ختم ہوگئییں اور مسلمان انکے زوال سے خوش ہوگئے اس لئے کہ وہ شخص فی نفسہ سچا نہیں تھا بلکہ جھوٹا تھا۔اور اسکا خیال تھا کہ جبرائیل علیہ السلام کے ہاتھ اس پر وحی آتی ھے۔ (5)
اگرچہ امام ابن کثیر نے مختار کذاب کے حالات میں اور بھی اسکے سیاہ کارنامے ذکر کیے ہیں ۔لیکن انجینئر محمد علی مرزا کے الزام کے رفع ہونے کیلئے مزکورہ بالا حوالہ جات ہی کافی ہیں۔
اب میرا قارئین سے سوال ھے کہ جو شخص ( ابن کثیر) مختار ثقفی کو ناصبی، امام حسن کا دشمن، صحابی رسول کو گالیاں دینے والا، نزول وحی کا دعویٰ کرنے والا لکھے وہ اس شخص کی کیسے تعریف کرسکتا ھے۔
لہذا ثابت ہوا کہ یہ انجینئر محمد علی مرزا کا حافظ ابن کثیر پر صریح بہتان تھا۔اسی طریقے کے ساتھ مرزا جہلمی اکابرین امت کی جانب غلط باتیں منسوب کرکے امت مسلمہ دجل دیتا ھے اللہ اسکے شر سے مسلمانوں کو محفوظ فرمائیں آمین۔
مختار ثقفی کےایمان و کفر کامسئلہ تاریخ سے تعلق رکھتا ہےتو محدّثین و مؤرخین اور جمہور علمائےکرام نےمختار ثقفی بن ابو عبید کےبارے کفر وارتداد کا ہی ذکر کیا ہے۔
(1) امام المحدثین امامِ ترمذی اپنی سننن میں حضرتِ ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےحدیثِ پاک ذکر تےہیں
عن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم في ثقيف كذاب ومبير : يقال : الكذاب المختار بن أبي عبيد ، والمبير : الحجاج بن يوسف
ترجمہ ۔رسول اللہ ﷺ نےارشاد فرمایا:ثقیف میں ایک بہت بڑا جھوٹا ہوگااور ایک ظالم ہوگا۔امامِ ترمذی نےکذاب و مبیر صفات کےناموں کی وضاحت فرما کر افراد کی تعیین بھی کردی :کذاب مختار بن ابو عبید ہےاور مبیر سےمراد حجاج بن یوسف ہے. (6)
(2).صحیح مسلم میں حدیثِ پاک کےکلمات میں "کذّاب ومُبِیر"پر حضرتِ اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی رائےکو شرح النووی میں اس طرح ذکر کیا گیا ہے
وقولها في الكذاب فرأيناه تعني به المحتار بن أبي عبيد الثقفي كان شديد الكذب ومن أقبحه ادعى أن جبريل صلى الله عليه وسلم يأتيه واتفق العلماء على أن المراد بالكذاب هنا المختار بن أبي عبيد وبالمبير الحجاج بن يوسف
ترجمہ ۔مختار بن ابو عبید ثقفی بہت جھوٹا تھااور اس کا سب سےبڑا جھوٹ یہ تھا کہ اس نےدعویٰ کیا کہ جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آتےہیں ۔اور علمائےکرام کا اس بات پر اتفاق ہےکہ کذّاب سےمراد مختاربن ابو عبید ہیں اور مبیر سےحجاج بن یوسف مراد ہے۔ (7)
(3) فنِّ اسمائے رجال کے امام ذہبی علیہ الرحمۃ نےاپنی کتاب "میزان الاعتدال "میں مختار ثقفی کےبارےتحریر کرتےہیں کہ
المختار بن أبى عبيد الثققى الكذاب.لا ينبغى أن يروى عنه شئ،لانه ضال مضل.كان يزعم أن جبرائيل عليه السلام ينزل عليه.وهو شر من الحجاج أو مثله
ترجمہ ۔مختار بن ابی عبید ثقفی بہت بڑا کذاب شخص تھا ،اس سےکوئی بھی شےروایت کرنا مناسب نہیں ہےکیوں کہ وہ گمراہ،گمراہ گرتھا،اس کا گمان یہ تھا کہ جنابِ جبرائیل علیہ السلام اس پر نازل ہوتےتھےاور یہ شخص حجاج بن یوسف سےشر میں بڑھ کر تھا یا پھر اس جیسا تھا۔ (8)
(4) حضرتِ امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ نے اپنی کتاب "تاریخ الخلفاء"میں تحریر فرمایا ہے کہ
وفي أيام ابن الزبير كان خروج المختار الكذاب الذي ادعى النبوة فجهز ابن الزبير لقتاله إلى أن ظفر به في سنة سبع وستين وقتله لعنه الله
یعنی حضرتِ ابنِ زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےزمانہ حیات میں ہی مختار ثقفی نےخروج کیا تھا ،جس نے نبی ہونےکا دعویٰ بھی کیا تھا تو حضرتِ ابنِ زبیر نےاسےقتل کرنےکےلیے لشکر تیار کیا جو کہ سڑسٹھ (67)ہجری اسے قتل کرنےکامیاب ہوا۔اللہ تعالیٰ کی اس پر لعنت ہو۔(9)
اہل سنت کی مندرجہ بالا کتب کے حوالہ جات سے بھی ثابت ہوا کہ مختار ثقفی بہت بڑا کذاب اور جھوٹا مدعی نبوت تھا۔
جسطرح اہل سنت کے ہاں مختار ثقفی کا کفر و ارتداد ثابت ہوتا ھے اسی طریقے سے اہل تشیع کے ہاں بھی ہمیں ایسے حوالہ جات مل جاتے ہیں جس نے مختار ثقفی کا کفر و ارتداد ثابت ہوتا ھے۔
اہل علم حضرات جانتے ہیں کہ اہل تشیع کے ہاں عقیدہ امامت کو ایک بنیادی حیثیت حاصل ھے اور اہل تشیع کے مطابق جو بارہ اماموں میں سے کسی امام کا منکر ہو یا حقیقی امام کے مقابلے کسی اور کی امام تسلیم کرلے تو وہ شخص ایسے ہی ھے جیسا کہ اس نے تمام انبیاء علیہم السلام کا انکار کیا ۔
مختار ثقفی ناصرف تین اماموں ( امام حسن، امام حسین، امام زین العابدین) کا منکر تھا بلکہ انکے مقابلے میں محمد بن حنفیہ کو امام تسلیم کرتا تھا ۔
سب سے پہلے ہم اہل تشیع کتب سے اس بات تو ثابت کریں گے کہ جو کسی امام کی امامت کا منکر ہو یا حقیقی امام کے مقابلے کسی دوسرے شخص کی امامت کا قائل ہو تو اہل تشیع مذھب میں اسے کیا سمجھا جاتا ھے۔اور اسکے بعد اس بات کو حوالے کے ساتھ ثابت کریں گے کہ مختار ثقفی تین اماموں کے امامت کا منکر تھا اور امام زین العابدین جوکہ اہل تشیع حضرات کے متفقہ چوتھے امام ہیں انکے مقابلے میں محمد بن حنفیہ کی امامت کا قائل تھا۔
عقیدہ امامت کی اہمیت
(1) ابویعفور نے حضرت امام جعفر صادق سے سنا فرمایا تین آدمی ہیں کہ الله تعالیٰ بروز قیامت نہ تو ان سے گفتگو کرے گا اور نہ ہی ان کو پاک فرمائے گا اور انکے لئے دردناک عذاب ھے پہلا وہ شخص جو اللہ کی طرف سے امامت کا دعویٰ کرے اور اس لائق نا ہو دوسرا وہ شخص و جو کسی امام کا انکار کرے اور تیسرا وہ جو یہ گمان کرے کہ ان دونوں ( یعنی مدعی امامت اور منکر امامت) میں کچھ اسلام ھے۔ (10)
(2) اسی طرح اعتقادات صدوق میں شیخ صدوق لکھتا ھے کہ
جو امام نہ تھا لیکن اس نے دعوی امامت کیا وہ ظالم ملعون ھے اور جس نے نا اہل کو امام بنایاوہ بھی ظالم ملعون ھے۔اور جس نے حضرت علی اور انکے بعد آنے والے آئمہ کی امامت کا انکار کیا اسکے بارے میں ہمارا عقیدہ یہ ھے کہ اس نے تمام پیغمبروں کی نبوت کا انکار کیا۔ اور اس شخص کے متعلق کہ جس نے حضرت علی کی امامت کو مانی لیکن بعد کے ائمہ میں سے کسی کی امامت کا انکار کیا ۔ہمارا عقیدہ یہ ھے کہ اس نے تمام پیغمبروں کو مانا لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کیا۔ (11)
مذکورہ حوالہ جات سے ثابت ہوگیا کہ جو کسی امام کی امامت کا انکار کرے یا اسکے مقابلے کسی دوسرے شخص کو امام مانے تو ایسا شخص تمام انبیاء علیہم السلام یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا منکر ھے اور اللہ اس سے قیامت والے دن بات نہیں کرے گا اسے پاک نہیں کرے گا وہ ظالم ملعون شخص ہمیشہ دوزخ میں رھے گا۔
اب ہم دلیل کے ساتھ اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ مختار ثقفی نا صرف تین اماموں کی امامت کا منکر تھا بلکہ حضرت علی کے بعد محمد بن حنفیہ کو امام مانتا تھا۔
مختار ثقفی امام حسن حسین و زین العابدین کی امامت کا منکر
اہل تشیع مسلک کی دو معتبر کتابوں ( فرق الشیعہ و الشیعہ فی التاریخ) میں یہ بات ذکر ھے کہ
اہل تشیع میں سے ایک فرقہ وہ ھے جو جناب محمد بن حنفیہ کی امامت کا قائل و معتقد ہیں کیونکہ محمد بن حنفیہ یوم البصرہ ( جنگ جمل) کے وقت اپنے والد گرامی حضرت علیؓ کے جنھڈے کو اٹھانے والے ہیں۔انکے دونوں بھائی ( امام حسن و حسین) محروم تھے۔ اس فرقہ کا نام کیسانیہ رکھا گیا۔اسکی وجہ تسمیہ یہ ھے کہ مختار بن ابی عبید ثقفی اس فرقے کا رئیس اور بانی تھا۔اسکا لقب کیسان تھا۔یہ وہی شخص ھے کہ جس نے حضرت امام حسینؓ کے خون کا بدلہ طلب کیا۔اور قصاص مانگا۔چنانچہ امام حسین اور آپ کے ساتھیوں کو شہید کرنے والوں کو چن چن کر قتل کیا ۔اور اسکا اعلان تھا کہ مجھے اس کام پر محمد بن حنفیہ نے مقرر کیا ھے۔
وانہ الامام بعد ابیہ
اور اپنے والد بزرگوار کے بعد امام وہی ہیں۔(12)
اس حوالے سے ثابت ہوا کہ مختار ثقفی نا صرف تین اماموں کی امامت کا منکر تھا بلکہ امام زین العابدین کے مقابلے میں محمد بن حنفیہ کی امامت کا قائل تھا اور فرقہ کیسانیہ کا بانی تھا۔
اور پچھلی روایات میں ہم ثابت کرچکے ہیں کہ ایسا شخص جو کسی اور کی امامت کا قائل ہو یا کسی امام کا منکر ہو وہ ظالم، ملعون تمام انبیاء علیہم السلام کا منکر اور دائمی عذاب میں جلنے والا ھے۔
مختار ثقفی کے کذاب اور ملعون ہونے پر آخری خوالہ مزید پیش کرتا جاؤں
ًمختار ثقفی کا امام زین العابدین کی جانب جھوٹی باتیں منسوب کرنا
محمد بن الحسن، وعثمان بن حامد، قالا: حدثنا محمد بن يزداد الرازي، عن محمد بن الحسين بن أبي الخطاب، عن عبدالله المزخرف، عن حبيب الخثعمي، عن أبي عبدالله عليه السلام قال: كان المختار يكذب على علي بن الحسين عليهما السلام.
امام ابو عبداللہ (جعفر صادق) علیہ الرحمہ نے فرمایا:
مختار (بن ابی عبید ثقفی) امام علی بن حسین (زین العابدین) علیہما الرحمہ پر جھوٹ بولتا تھا۔ (23)
الحمد لله مذکورہ تمام حوالہ جات سے ثابت ہوگیا کہ انجینیر محمد علی مرزا نےامام ابن کثیر پر بہتان باندھا تھا۔امام ابن کثیر نے کذاب مختار ثقفی کی ہرگز تعریف نہیں کی بلکہ امام ابن کثیر اور اہل سنت کی کتب کے مطابق مختار ثقفی بہت بڑا کذاب ملعون اور جھوٹا مدعی نبوت تھا۔
اور اہل تشیع کے مذھب کے مطابق ( امام حسن و حسین و زین العابدین) کی امامت کا انکار کرنے اور انکے مقابلے میں محمد بن حنفیہ کی امامت کا قائل ہونے کے سبب ظالم ملعون تمام انبیاء کی نبوت کا منکر اور دوئمی دوزخ میں رہنے کا مستحق ھے۔
قارئین سے گذارش ھے کہ ایسا شخص ( انجینیر محمد علی مرزا) جوکہ اکابرین امت پر ایسے بہتان لگائے کہ جسکا ثبوت اپنی کتب کے ساتھ ساتھ غیروں کی کتب میں بھی نا ملے تو کیا ایسا شخص اس قابل ھے کہ اسکی کسی بات پر یقین کیا جائے یا اسکو اپنا پیشوا تسلیم کیا جائے۔
اللہ امت مسلمہ کو شریروں کے شر سے محفوظ فرمائے آمین
حوالہ جات
(1)چینل انجینئر محمد علی مرزا، تاریخ23 اکتوبر 2016 مسئلہ نمبر 157 وقت 01:55 تا 02:16
(2) البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 361 مترجم ناشر نفیس اکیڈمی کراچی، طبع اول جنوری 1989
(3) البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 361 مترجم ناشر نفیس اکیڈمی کراچی طبع اول جنوری 1989
(4)البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 362 مترجم ناشر نفیس اکیڈمی کراچی طبع اول جنوری 1989
(5) البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 363 مترجم ناشر نفیس اکیڈمی کراچی جنوری 1998
(6) سن الترمذی :رقم الحدیث 2220
(7) شرح صحیح مسلم للنووی : باب ذکر کذاب ثقیف
(8) میزان الاعتدال : ترجمہ مختار بن ابی عبید الثقفی حرف المیم جلد 6 ص 385 دار الکتب العلمیۃ بیروت
(9) تاریخ الخلفاء ،عبداللہ بن زبیر ص 252،دار صادر بیروت
(10) بخار الانوار جلد 46 باب امامت مطبوعہ تہران طبع جدید
(11) اعتقادات صدوق ترجمہ فارسی صفحہ 167 باب سی ہشتم اعتقادات در ظالماں مطبوعہ تہران طبع جدید
(12) فرق الشیعہ تصنیف حسن بن موسیٰ نوبختی شیعی صفحہ 23 مطبوعہ نجف اشرف طبع جدید
الشیعہ فی التاریخ تصنیف محمد حسن صفحہ 48 مطبوعہ قاہرہ
(13) رجال الکشی رقم 198 مطبوعہ کربلا