• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

محمدیہ پاکٹ بک

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
معیار سوم:
انذاری پیشگوئیاں سب کی سب شرط توبہ کے ساتھ مشروط ہوتی ہیں۔ (۲۱۱)
جواب:
ہر ایک انذاری پیشگوئی مشروط نہیں ہوتی۔ مرزا صاحب لکھتے ہیں:
'' گو بظاہر کوئی وعید شرط سے خالی ہو مگر پوشیدہ طور پر ارادہ الٰہی میں مشروط ہوتی ہیں۔ بجز ایسے الہام کے جس میںظاہر کیا جائے کہ اس کے ساتھ شروط نہیں۔ ایسی صورت میں وہ قطعی فیصلہ ہو جاتا ہے اور تقدیر مبرم قرار پاتا ہے۔'' (۲۱۲)
اس سے ظاہر ہے کہ تقدیر مبرم میں شرط نہیں ہوتی۔ یہ مرزا صاحب کا مذہب ہے جو مرزائیوں پر حجت ہے۔ باقی رہیں دیگر پیشگوئیاں جن میں تقدیر مبرم کا ذکر نہ بھی ہو ان کے متعلق بھی جب تک خود ملہم کی تصریح نہ ہو کہ یہ توبہ سے ٹل سکتی ہیں۔ ان کا بالفاظ ظاہر پورا نہ ہو نا یا ٹل جانا ملہم کی صداقت پر حرف لاتا ہے۔ گو وہ در پردہ مشروط ہی کیوں نہ ہو۔ اور ایسی پیشگوئی مخالف کے سامنے بطور دلیل نہیں پیش کی جاسکتی۔ دیکھیے بخاری شریف کتاب المغازی میں جو حدیث امیہ بن خلف کے موت کے بارے میں ہے۔ اس میں تقدیر مبرم کا کوئی ذکر نہیں مگر وہ باوجود امیہ کے پیشگوئی کی عظمت سے ڈرنے کے بھی ہو بہو پوری ہوئی۔ (۲۱۳)
------------------------------------
(۲۱۱) ایضاً ص۵۶۵
(۲۱۲) حاشیہ انجام آتھم ص۱۰ و روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ایضاً
(۲۱۳) صحیح بخاری ص۵۶۳،ج۲ کتاب المغازی باب ذکر النبیﷺ من یقتل ببدر،
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
معیار چہارم :
'' پیشگوئی یا امر غیب کا ظہور سے قبل پورے طور پر سمجھ میں آنا ضروری نہیں۔
مثال اوّل:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت گاہ وہ زمین ہوگی جس میں کھجوروں کے باغ ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال زمین کے متعلق یمامہ کی طرف گیا۔ بعد میں مدینہ ثابت ہوا۔ (۲۱۴)
جواب:
پیش روئی کو پیش گوئی کہنا آپ جیسے داناؤں کا ہی کام ہے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں غلطی نہیں کھائی جتنا کچھ اس ''پیشگوئی'' میں دکھایا گیا وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خوب سمجھا تھا۔ کون کہتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وحی الٰہی کو نہیں سمجھا۔ باقی رہا یہ اعتراض کہ باغوں والی زمین سے مراد یمامہ نہ تھی مدینہ تھی۔ میں کہتا ہوں وحی الٰہی میں مدینہ کا ذکر کہاں ہے؟
آپ کا دعویٰ یہ ہے کہ ''پیشگوئی قبل از ظہور سمجھ میں نہیں آتی'' اور دلیل یہ ہے کہ مدینہ کا ذکر پیشگوئی میں نہیں تھا جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں سمجھا۔ العجب یا للعجب!
حضرات! یمامہ اور حجر میں بھی باغ تھے اور مدینہ میں بھی۔ چونکہ الہام الٰہی میں کوئی تعیین نہ کی گئی تھی اس لیے حضور نے اس کا اظہار کسی پر نہیں کیا چنانچہ مرزا صاحب راقم ہیں:
'' جب تک خدا تعالیٰ نے خاص طور پر تمام مراتب کسی پیشگوئی کے آپ پر نہ کھولے تب تک آپ نے اس کی کسی خاص شق کا کبھی دعویٰ نہ کیا۔'' (۲۱۵)
اس کے بعد جب حضور علیہ السلام مدینہ تشریف لے گئے اور اللہ تعالیٰ نے آپ پر کھول دیا کہ باغوں والی زمین یہ ہے۔ تب حضور علیہ السلام نے اس کو لوگوں پر ظاہر کیا۔ (۲۱۶)
بخلاف اس کے تم مرزا صاحب کی جن جھوٹی پیشگوئیوں کی مدافعت میں یہ اعتراض کرتے ہو وہ ایسی ہیں کہ بقول مرزا صاحب خدا فرماتا ہے کہ اے مرزا:
'' تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ بات سچ ہے؟ (کہ محمدی بیگم تمہاری آسمانی منکوحہ ہے) کہہ ہاں مجھے اپنے رب کی قسم یہ سچ ہے اور تم اس بات کو وقوع میں آنے سے نہیں روک سکتے۔ ہم نے خود اس سے تیرا نکاح باندھ دیا ہے۔ میری باتوں کو کوئی بدلا نہیں سکتا۔'' (۲۱۷)
دوسری مثال جو اس مدعا پر پیش کی جاتی ہے وہ مرزا صاحب کے الفاظ میں یہ ہے:
'' بخاری و مسلم میں درج ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے پہلے وہ فوت ہوگی جس کے لمبے ہاتھ ہونگے۔ انہوں (یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ) نے (بعد وفات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے) زینب رضی اللہ عنہا کی وفات کے وقت یقین کرلیا کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی حالانکہ یہ بات اجماعی طور پر تسلیم ہوچکی تھی کہ سودہ کے لمبے ہاتھ ہیں۔ وہی پہلے فوت ہوگی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھوں کو ناپتے دیکھ کر بھی منع نہیں فرمایا۔ ثابت ہوا کہ اصل حقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی معلوم نہ تھی۔ ملخص'' (۲۱۸)
الجواب:
پہلا اور ڈبل جھوٹ تو مرزا صاحب نے یہ بولا ہے کہ لمبے ہاتھوں کی پیشگوئی سن کر بیویوں نے آپ کے رو برو ہاتھ ناپنا شروع کئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھ کر خاموش رہے۔
خدا کی قسم یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر افترا ہے۔ بہتان ہے۔ اتہام ہے۔ کذب ہے دروغ بے ثبوت ''لَعَنۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ'' ہرگز ہرگز اس حدیث میں یہ نہیں لکھا۔
دوسرا جھوٹ یہ بولا ہے کہ ام المؤمنین سودہ رضی اللہ عنہا کا پہلے وفات پانا اجماعی طور پر تسلیم کیا گیا تھا حالانکہ سوائے چند ایک امہات المومنین کے اور کسی کا یہ خیال نہ تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کا ایسا خیال بھی استنباطاً سمجھا جاتا ہے۔ ورنہ اس بارے میں ان سے بھی کوئی شہادت لفظی موجود نہیں۔
تیسرا جھوٹ مرزا صاحب نے یہ بولا ہے کہ الفاظ ''اَطولکن یدا'' کے معنی لمبے ہاتھ کئے ہیں حالانکہ ''لمبے ہاتھ'' تثنیہ یا جمع کے صیغوں میں بولا جاتا ہے ورنہ حدیث میں '' یَدًا'' کا لفظ ہے جو واحد کا صیغہ ہے، کل اہل عرب بلکہ ساری دنیا کا محاورہ ہے کہ جب کسی انسان کے متعلق ایک ''لمبا ہاتھ'' بولتے ہیں (بشرطیکہ شخص مذکور واقعی لنجانہ ہو) تو اس سے سخاوت، کرم بخشی، حکومت قبضۂ تام۔ غلبۂ قدرت وغیرہ مراد ہوتی ہے۔ (۲۱۹)
قرآن پاک سے مثال سنو! ''بیدہ ملکوت کل شی'' اس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے تمام اشیاء کی۔ اب آئیے الفاظ ''اَطْوَلُکُن یَدًا'' کے اصلی معنی مرزا صاحب کی زبان سے سنیے:
'' دراصل لمبے ہاتھوں سے مراد سخاوت تھی۔'' (۲۲۰)
پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی یہی تھی کہ تم میں سے پہلے وہ فوت ہوگی جو زیادہ سخی ہے۔ چنانچہ وہی ہوا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ صدق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باقی رہا کہ بیویوں نے از خود لمبے ہاتھ سے مراد ظاہری ہاتھ لیے تھے سو ان کا خیال ہے جو وحی الٰہی نہیں تھا۔ بحث طلب بات یہ ہے کہ نبی پیشگوئی کے وقوع سے پہلے کوئی غلط مفہوم قائم کرسکتا ہے جس کی بعد میں جا کر تردید ہو جائے اور وہ الفاظ ملہم کے خلاف ہو یا نہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ انبیاء پیشگوئی کا جو مفہوم متعین کرتے ہیں۔ وہ الفاظِ ملہم کے عین مطابق ہوتا ہے لیکن مرزا صاحب کی پیشگوئیاں اس قبیل کی نہیں ہوتیں۔
مزید برآں مرزا صاحب کی متحدیانہ پیشگوئیاں بھی پوری نہیں ہوئیں جو انہوں نے اپنی صداقت میں پیش کیں۔ اور جن کے الفاظ جہاں تک واضح ہونے کا تعلق ہے قطعاً کسی تاویل کے متحمل نہیں۔
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
تیسری مثال
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ''سَارِیْکُمْ اٰیَاتِیْ فتعر فونھا'' میں تم کو اپنے نشان دکھاؤں گا۔ تب تم (بعد دیکھنے کے) ان کو پہچان سکو گے اس آیت سے بھی ظاہر ہے کہ قبل ظہور پیشگوئی کی پوری معرفت نہیں ہوا کرتی۔ (۲۲۱)
الجواب:
آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی نشانیاں دکھائے گا۔ جو تم دیکھ لو گے اور واقع ہو جانے کے بعد ان نشانوں کے تم اسلام کی صداقت کے قائل ہو جاؤ گے (۲۲۲)۔ جیسے قیامت کے متعلق فرمایا۔
''کَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ ثُمَ کَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ'' (۲۲۳) اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ تمہیں جو اس وقت بتایا جا رہا ہے اُس کا تمہیں علم نہیں اگر معنی یہ ہوں تو پھر ان کو بتایا کیا گیا؟ مقصد یہ ہے کہ وقوع میں تمہیں شک ہے۔ جب ان نشانوں کو واقع ہوتے ہوئے دیکھ لو گے تو تمہیں خود بخود یقین ہو جائے گا۔
چوتھی مثال
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی۔ حرم کعبہ میں ایک مینڈھا ذبح کیا جائے گا (بعد وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ) جب حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو سمجھ لیا (گیا) کہ یہی مینڈھا ہے۔ (۲۲۴)
الجواب:
اس پیشگوئی کا پتہ نہیں دیا کہ کس کتاب میں ہے۔ صحیح ہے یا غلط، خواب ہے یا بیداری۔ اگر روایت صحیح اور واقعہ خواب کا ہے تو جواب خود ہی ہوگیا۔ دنیا کا ہر فرد و بشر جانتا ہے:
'' خوابیں تعبیر طلب ہوتی ہیں، کبھی موت سے مراد صحت اور کبھی صحت سے مراد موت، کئی مرتبہ خواب میں ایک شخص کی موت دیکھی جاتی ہے اس کی تعبیر زیادت عمر ہوتی ہے۔'' (۲۲۵)
ہاں اگر خواب میں خدا کا نبی ہو یا عام ملہم من اللہ اور وہ خود اس خواب کی تعبیر متعین الفاظ میں کردے جو پیشگوئی پر مبنی ہو مگر بعد کو پوری نہ ہو تو یقینا قابل اعتراض ہے۔ مثلاً مرزا صاحب نے مولوی عبدالکریم کی صحت کے بعض خواب سنائے اور انہیں لوگوں کے رو برو ظاہری معنوں میں پیش کئے جو صریح جھوٹے ثابت ہوئے۔
اگر یہ روایت صحیح ہے اور خواب نہیں۔ بیداری کی وحی ہے تو بھی مینڈھوں سے مراد ''انسان'' ہوسکتے ہیں۔ دیکھئے خود مرزا صاحب کی وحی '' دو بکریاں ذبح ہوں گی'' جس کے معنی خود مرزا اور مرزائی ''احمد بیگ ہوشیارپوری اور اس کا داماد سلطان محمد'' لیتے رہے (۲۲۶) ضمیمہ انجام آتھم مگر جب پیشگوئی صریح جھوٹی نکلی اور سلطان محمد نہ مرا تو اس کو ''مولوی عبداللطیف اور اس کے شاگرد عبدالرحمن'' کی موت پر لگا دیا۔ (۲۲۷)
اگر یہ روایت صحیح ہے اور بیداری کا الہام ہے جس سے مراد حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت ہے تو کون کہہ سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ضرور ظاہری مینڈھا سمجھا تھا۔
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
پانچویں مثال
مرزائی یہ دیتے ہیں کہ آنحضرت کو خواب میں جناب عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی تصویر دکھائی گئی کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اِنْ یَّکُنْ ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ یُمْضہ'' اگر یہ خواب خدا کی طرف سے ہے تو وہ اسے پورا کردے گا، معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس پیشگوئی کی حقیقت پہلے پہل معلوم نہ تھی۔ (۲۲۸)
الجواب:
یہ کہاں لکھا ہے کہ مجھے معلوم نہیں اس کے کیا معنی ہیں؟ معنی معلوم ہوتے ہوئے کہا یہ ہے کہ اگر یہ خواب خدا کی طرف سے ہے تو پورا ہو کر رہے گا۔ معلوم ہوا کہ پیشگوئی کے معنے معلوم تھے۔ باقی رہا یہ امر کہ پھر ''اگر'' کا لفظ کیوں استعمال کیا جو شک پر دلالت کرتا ہے۔ تو جواب ہے کہ بفرضِ محال ''اگر'' کے معنی شک بھی ہوں۔ تو بھی اس سے یہ نہیں ثابت ہوتا کہ پیشگوئی کے معنوں میں کوئی شک تھا۔ شک اگر ہے تو اس پیشگوئی کے خدا کی طرف سے ہونے میں ہے نہ کہ پیشگوئی کے معنوں میں مگر یاد رکھو '' ان'' کا لفظ ہمیشہ شک کے معنوں میں ہی استعمال نہیں ہوتا کبھی '' ان'' اس لیے آتا ہے کہ یقین دلایا جائے چونکہ دوسرا پہلو محال ہے، اس لیے جو پیش کیا گیا ہے، وہ درست ہے یعنی ''ان'' ''تشکیک'' کے لیے نہیں بلکہ تحقیق کے لیے بھی کبھی استعمال ہوتا ہے جیسے ہم کہتے ہیں اگر میں حق پر ہوں تو ضرور کامیابی ہوگی۔ یعنی چونکہ میں یقینی طور پر حق پر ہوں اس لیے کامیابی بھی قطعی ہے۔ یا جیسے مسیح علیہ السلام قیامت کے دن فرمائیں گے ''اِنْ کنت قُلْتُہ فَقَدْ عَلِمْتَہٗ'' (۲۲۹) میں نے چونکہ ہرگز نہیں کہا اس لیے یہ آپ کے (اللہ کے) علم میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ مسیح علیہ السلام کو شک ہے۔
اب حدیث کا مطلب صاف ہے کہ چونکہ ''رؤیاء الانبیاء حق'' کے ماتحت یہ خواب قطعی اور حتمی طور پر خدا کی طرف سے ہے اس لیے اس کا پورا ہونا بھی ضروری ہے۔ ''فاندفع ما قیل''
نوٹ: مرزا صاحب نے بھی اس واقعہ میں یہی جھوٹ بولا ہے جو مولوی اللہ دتا نے بولا ہے۔(۲۳۰)
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
چھٹی مثال
مرزائی یہ دیتے ہیں کہ نوح علیہ السلام سے وعدہ تھا، میں تیرے اہل کو بچاؤں گا اور خدا کے نزدیک ان کا بیٹا اہل کے لفظ میں داخل نہ تھا مگر جناب نوح علیہ السلام اسے معلوم نہ کرسکے۔ (۲۳۱)
الجواب:
حضرت نوح علیہ السلام کے اہل کو بچانے کا وعدہ تھا۔ قرآن پاک شاہد ہے کہ عام وعدہ نہ تھا ایمان داروں سے مخصوص تھا۔ سنیے حکم ہوتا ہے اے نوح علیہ السلام ہمارے حکم سے کشتی بنا اور ظالم کفار (حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا بھی کافر تھا) کے حق میں مجھ سے کلام نہ کر اور ہر ایک چیز کا جوڑا جوڑا کشتی میں سوار کرلے واھلک اور اپنے اہل کو بھی اِلاَّ مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوَلُ مگر اپنے اہل میں سے کافروں کو ساتھ مت بٹھانا (کیونکہ میرا وعدہ ظالموں کو شامل نہیں) ''وَمَنْ اٰمَنَ'' اور جو ایماندار ہیں ان کو بھی ساتھ چڑھا لے۔ (۲۳۲)
صاف ظاہر ہے کہ بیٹے کو بچانے کا وعدہ نہ تھا جسے حضرت نوح علیہ السلام خوب جانتے تھے۔
سوال:... باوجود معلوم ہونے کے بیٹے کو کشتی پر چڑھنے کو کہا؟ (۲۳۳)
جواب:... مومنوں کو بچانے کا وعدہ تھا اور حضرت نوح علیہ السلام بیٹے کو ایمان لانے کی ترغیب دیتے تھے ''یَا بُنیَّ اَرْکَبْ مَعَنَا وَلَا تَکُنْ مَّعَ الْکٰفِرِیْنَ'' (۲۳۴) اے بیٹے کافروں سے مت ہو (ایمان لا) اور ہمارے ساتھ سوار ہو جا، مگر اس نے نہ ماننا تھا نہ مانا۔
سوال:... جب وہ اہل میں داخل نہ تھا تو پھر کیوں کہا کہ خدایا تیرا وعدہ میرے اہل کو بچانے کا ہے اور میرا بیٹا میرے اہل میں ہے اس سے معلوم ہوا کہ نوح علیہ السلام بیٹے کو وعدہ میں داخل سمجھتے تھے۔
جواب:... حضرت نوح علیہ السلام کی دونوں باتیں سچ ہیں جو نتیجہ نکالا جاتا ہے وہ غلط ہے حضرت نوح علیہ السلام کہتے ہیں خدا یا تیرا وعدہ میرے اہل کو بچانے کا ہے (سچ) مگر جانتے ہیں کہ یہ اس وعدہ سے بوجہ کافر ہونے کے خارج ہے اس لیے یہ تو نہیں کہتے کہ تیرا وعدہ اس کو بھی بچانے کا ہے۔ بطرز دیگر اپنے پدری جذبات کو ظاہر کرتے ہوئے سچ بولتے ہیں کہ مالک الملک یہ بیٹا ہونے کی وجہ سے میرے اہل میں تو ضرور داخل ہے (یہ بھی سچ) اے جناب بحث اس میں نہیں کہ وہ حضرت نوح علیہ السلام کا اہل تھا یا نہیں بحث یہ ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام اسے وعدہ میں شامل جانتے تھے یا نہیں؟ سو قرآن شاہد ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام وعدہ الٰہی میں بیٹے کو داخل نہیں جانتے تھے کیونکہ اس بارے میں صریح وحی الٰہی ہوچکی تھی ''وَلَا تُخاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا انَّھُمْ مغرقون'' (۲۳۵) ظالم ضرور ہلاک کئے جائیں گے۔
سوال:... جب حکم یہ تھا تو پھر حضرت نوح علیہ السلام نے کافر بیٹے کے بارے میں خدا سے خطاب کیوں کیا؟
جواب:... خدا ارحم الراحمین۔ انسان ضعیف البنیان۔ خدا کی رحیمی، انسان کی کمزوری بیٹے کی فطری محبت مجبور کر رہی تھی۔ لیکن وعدہ الٰہی ٹل نہیں سکتا۔ تمنا پوری نہ کی گئی۔ یہاں تو بیٹے کا سوال ہے۔ مرزا صاحب تو غیروں کے لیے اس سے بھی بڑھ کر اپنی '' شانِ رحیمی'' کا مظاہرہ کرنے کو ڈینگ مار گئے ہوئے ہیں۔ ایڈیٹر ''بدر'' لکھتا ہے:
'' ہمارے مکرم نواب محمد علی کا لڑکا عبدالرحیم بیمار ہوگیا۔ حضرت کی خدمت میں عرض کی گئی۔ حضرت رؤف الرحیم تہجد میں اس کے لیے دعا کر رہے تھے خدا کی وحی سے آپ پر کھلا ''تقدیر مبرم ہے ہلاکت مقدر'' میرے آقا نے فرمایا کہ '' خدا تعالیٰ کی یہ قہری وحی نازل ہوئی تو مجھ پر حد سے زیادہ حزن طاری ہوا بے اختیار منہ سے نکل گیا یا الٰہی اگر دعا کا موقع نہیں تو میں شفاعت کرتا ہوں۔ اس پر معاً وحی ''مَنْ ذَالَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ اِلاَّ بِاِذْنِہٖ'' ( نازل ہوئی) اس جلالی وحی سے میرا بدن کانپ گیا دو منٹ کے بعد پھر وحی ہوئی ''اِنَّکَ اَنْتَ المجاز'' اس کے بعد حالاً بعد حالٍ عبدالرحیم کی صحت ترقی کرنے لگی (۲۳۶)۔ اسی واقعہ کو مرزا صاحب نے بالاختصار حقیقۃ الوحی میں لکھا ہے۔ (۲۳۷)
برادران! دیکھیے باوجودیکہ مرزا صاحب کا ملہم کہہ چکا ہے کہ تقدیر مبرم ہے۔ مرزا صاحب باز نہیں آئے۔ دوسرا حیلہ سفارش کا پیدا کیا جس پر جھڑکی ملی۔ مرزا صاحب مایوس و مغموم ہوئے تو ملہم صاحب تقدیر مبرم بھی الٹ دینے پر اُتر آئے اور الٹ ہی دی۔ واہ کیا ہی کہنے ہیں اس تلون مزاجی کے حالانکہ انہی مرزا صاحب کا مذہب محض رسمی نہیں بلکہ بہ تمسک قرآن مجید یہ ہے:
'' اس آیت کا مدعا تو یہ ہے کہ جب تقدیر مبرم آجاتی ہے تو ٹل نہیں سکتی۔'' (۲۳۸)
اور حقیقۃ الوحی ص ۱۶،۱۷ پر لکھا ہے کہ:
'' تقدیر مبرم ان لوگوں کی دعا سے بھی نہیں ٹلتی جن کی زبان ہر وقت خدا کی زبان ہے۔''(۲۳۹)
خلاصہ کلام یہ کہ حضرت نوح علیہ السلام نے وحی سمجھنے میں قطعاً ایک ذرہ بھر غلطی نہیں کی۔
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
ساتویں مثال
احمدیوں کی طرف سے یہ پیش کی جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر دجال کی حقیقت ہو بہو منکشف نہ تھی۔ چنانچہ ابن صیاد کے معاملہ میں حضور کو تردد تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رو برو قسم کھا کر کہا کہ ابن صیاد دجال ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر انکار نہ کیا۔ (۲۴۰)
الجواب (۱):
گو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بوجہ عدم انکشاف تام حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قسم پر سکوت فرمایا ہو مگر خود آپ نے ہرگز دعویٰ نہیں کیا کہ ابن صیاد دجال ہے کیونکہ نبی قبل از انکشاف تام پیشگوئی کی تعیین کا دعویٰ نہیں کرتا۔ (۲۴۱)
جواب (۲):
بحث اس وقت اس امر پر نہیں ہے کہ ملہم کو ایک ہی وقت میں ہر ایک پیشگوئی کا تمام و کمال حال معلوم ہو جاتا ہے یا نہیں ۔ گفتگو اس بات پر ہے کہ قبل از ظہور پیشگوئی مکمل حال معلوم ہوتا ہے یا تھوڑا لہٰذا آپ کی پیش کردہ مثال آپ کے دعویٰ کی مثبت نہیں کیونکہ گو ابتدا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر دجال کی کیفیت مجملاً منکشف کی گئی تھی مگر جب ابن صیاد کا معاملہ درپیش ہوا اور بعض صحابہ کو شک پڑا تو اللہ تعالیٰ نے اس پیشگوئی کی جملہ تفصیلات آپ پر کھول دیں۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کی جائے خروج مشرق خراسان (۲۴۲) جائے قتل باب لد (جو بیت المقدس کے دیہات میں سے ایک گاؤں ہے) (۲۴۳) اس کا قاتل '' حضرت ابن مریم'' (۲۴۴) وقت خروج مسلمانوں کے جنگ عظیم میں مشغول ہونے کے ساتویں سال میں (۲۴۵) اس کا حلیہ ''اعورعین الیمنی کان عینہ عنبۃ طافیۃ'' (۲۴۶) داہنی آنکھ سے کانا۔ آنکھ میں ٹینٹ ''مکتوب علی حبیبنہٖ ک ف ر'' (۲۴۷) پیشانی پر کافر لکھا ہوا ''مَعَہٗ بِمِثْلِ الْجنۃ والنار فالتی یَقْولُ انھا الجنۃ ھی النَّارُ'' (۲۴۸) اس کے ساتھ جنت و دوزخ کی مثال جسے وہ جنت کہے گا وہ حقیقت میں شعلہ نار ہوگا ''جِفَال الشعر'' بہت سے بالوں کا جوڑا کسے ہوئے (۲۴۹) ''کَانِّیْ اشبہ بعبد العزی''(۲۵۰) گویا عبدالعزیٰ بن قطن کافر کی شبیہ ''یتبع الدجال من یھود اصفھان سبعون الفا' ' (۲۵۱) اصفہان کے ستر ہزار یہود دجال کے ساتھ ہوں گے۔'' (ص ۳۴۱ احمدیہ پاکٹ بک، طبعہ ۱۹۳۲ء۔
احادیث بالا شاہد ہیں کہ اس پیشگوئی کے متعلق حضور علیہ السلام پر کوئی بات مخفی نہ تھی فہذا ہو المطلوب۔
پس مرزائیوں کا یہ کہنا کہ ملہم پر قبل از ظہور پیشگوئی کا ظاہر ہونا ضروری نہیں قطعاً مغالطہ ہے کیونکہ بقول مرزا صاحب:
'' تورات اور قرآن نے بڑا ثبوت نبوت کا صرف پیشگوئیوں کو قرار دیا ہے۔'' (۲۵۲)
پس جو چیز نبوت کی سب سے بڑی اور واحد دلیل ہے اس میں جہالت کا ہونا ناممکن ہے:
'' دلیل تو وہ ہوتی ہے جس کے مقدمات ایسے بدیہی الثبوت ہوں جو فریقین کو ماننے پڑیں۔'' (۲۵۳)
------------------------------------------------------
(۲۱۴) تفہیمات ربانیہ ص۵۶۶
(۲۱۵) ازالہ اوہام ص۴۰۶ و روحانی ص۳۱۰، ج۳
(۲۱۶) بخاری باب ہجرت النبی ﷺ واصحابہ الی المدینۃ وضمیمہ براھین احمدیہ ص۱۵، ج۵ و روحانی ص۱۶۹، ج۲۱
(۲۱۷) اشتہار مرزا ، مورخ ۲۷؍ دسمبر ۱۸۹۱ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات ص۳۰۱، ج۱ و آسمانی فیصلہ ص۴۰ و روحانی ص۳۵۰، ج۴ وتذکرہ ص۱۶۱وتبلیغ رسالت ص۸۵، ج۲
(۲۱۸) ازالہ اوہام ص۷۳۴ تا ۷۳۶ و روحانی ص۴۹۵، ج۳ تا ۴۹۶
(۲۱۹) پ۲۳ سورۂ یٰسین آیت نمبر ۸۴ مرزا اس آیت کا حسب ذیل معنٰی کرتے ہیں جس کے ہاتھ میں ہے ہر ایک کی چیز کی بادشاہی، جنگ مقدس ۲۹ و روحانی ص۱۰۱، ج۶ و تفسیر مرزا ص۱۴۸، ج۷۔ ابو صہیب
(۲۲۰) ایام الصلح ص۴۴ و روحانی ص۲۷۶، ج۱۴
(۲۲۱) تفہیمات ربانیہ ص۵۶۷، نوٹ: فاضل جالندھری نے قرآنی آیت غلط لکھی ہے اصل الفاظ یہ ہیں۔ سَیْرِیْکُمْ اٰیتِہٖ فَتعْرِ فُوْنَھَا پ۲۰ نمل آیت ۹۴
(۲۲۲) دیکھئے تفسیر کبیر ص۴۵۸،ج۷ مؤلفہ مرزا محمود اور بیان القران ص۱۴۲۸،ج۳ مؤلفہ مرزائی محمد علی لاھوری مرزائی
(۲۲۳) پ۳۰ التکاثر آیت ۴،۵
(۲۲۴) ازالہ اوہام ص۷۳۴ و روحانی ص۴۹۵، ج۳
(۲۲۵) تتممہ حقیقت الوحی ص۲۶ و روحانی ص۴۵۹، ج۲۲
(۲۲۶) ضمیمہ انجام آتھم ص۵۷ و روحانی ص۳۴۱، ج۱۱
(۲۲۷) تذکرۃ الشھادتین ص۷۰ و روحانی ص۷۲،ج۲۰، مرزا حاشیہ تذکرہ الشھادتین ص۷۰ میں لکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی کتابوں میں محاورہ ہے کہ بے گناہ اور معصوم کو بکرے بکری سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ انتھی (ابوصہیب)
(۲۲۸) مفہوم ازالہ اوہام ص۴۰۶ و روحانی ص۳۱۰، ج۳
(۲۲۹) پ۷ المائدہ آیت ۱۱۷
(۲۳۰) دیکھئے ازالہ اوہام ص۴۰۶ و روحانی ص۳۱۰، ج۳
(۲۳۱) احمدیہ پاکٹ بک ص۷۵۲ طبعہ ۱۹۴۵ء
(۲۳۲) پ۱۲ ھود رکوع نمبر ۴
(۲۳۳) لم اجدہ
(۲۳۴) پ۱۲ ھود آیت نمبر ۴۳
(۶۳۵) ایضاً آیت ۳۸، نوٹ: مرزے محمود نے اپنی تفسیر کبیر ص۱۹۵، ج۳ میں اقرار کیا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی نظر میں اس (بیٹے) کے اعمال پوشیدہ تھے (انتھی بلفظہٖ) گویا مرزے محمود نے اُلٹے کان پکڑ کر اعتراف کرلیا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے وحی الٰہی کو سمجھنے میں غلطی نہیں کی بلکہ بیٹے کے کفر سے عدم علم کی بناء دعاء تھی۔ ابو صہیب
(۲۳۶) البدر جلد ۲ نمبر ۴۱،۴۲ مورخہ ۲۹؍ اکتوبر ۸؍نومبر ۱۹۰۳ء ص۳۲۱ وتذکرہ ص۴۹۵ و آئینہ احمدیت ص۱۳۶ تا ۱۳۷ حصہ اول طبعہ ۱۹۳۳ء ملخصًا
(۲۳۷) حقیقت الوحی ص۲۱۹ و روحانی ص۲۲۹، ج۲۲
(۲۳۸) اشتہار مرزا، مورخہ ۵؍اکتوبر ۱۸۹۴ء مندرجہ ، مجموعہ اشتہارات ص۷۴،ج۲ وضمیمہ انوار الاسلام ص۱۰ و روحانی ص۸۰، ج۹ و تفسیر مرزا ص۱۵۵، ج۸
(۲۳۹) مفہوم، حقیقت الوحی ص۱۷ و روحانی ص۲۰ ج ۲۲
(۲۴۰) ازالہ اوہام ص۲۲۱ و روحانی ص۲۱۰، ج۳
(۲۴۱) ایضاً ص۴۰۶ و روحانی ص۳۱۰، ج۳
(۲۴۲) ترمذی مع تحفہ ص۲۳۴، ج۳ وابن ماجہ ص۳۰۵ عن ابی بکر صدیق وابن حبان ص۲۸۰، ج۹ رقم الحدیث ۶۷۵۴، عن ابی ھریرۃؓ
(۲۴۳) ازالہ اوہام ص۲۲۰ و روحانی ص۲۰۹، ج۳ بحوالہ صحیح مسلم من روایت النواس بن السمان انظر صحیح مسلم ص۴۰۱، ج۲
(۲۴۴) ایضاً
(۲۴۵) ابوداؤد ص۲۳۴، ج۲ فی الملاحم باب تواتر الملاحم وابن ماجہ ص۳۱۰ فی الفتن باب الملاحم و مسند امام احمد ص۱۸۹، ج۴ عن عبداللہ بن بُسر
(۲۴۶) بخاری ص۱۱۰۱،ج۲ فی التوحید باب قول اللّٰہ تعالٰی، ولتصنع علی عینی ومسلم ص۳۹۹، ج۲ فی الفتن باب زکر الدجال و مشکوٰۃ ص۴۷۲ باب العلامات بین یدی الساعۃ وزکر الدجال عن عبداللہ بن عمر
(۲۴۷) بخاری ص۱۰۵۶،ج۲ فی الفتن باب زکر الدجال و مسلم ص۴۰۰،ج۲ فی الفتن باب ذکر الدجال و مشکوٰۃ ص۴۷۳ باب السابق عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ
(۲۴۹) مسلم ص۴۰۰، ج۲ المصدر السابق و مشکوٰۃ ص۴۷۳ عن حذیفۃ رضی اللہ عنھا
(۲۵۰) صحیح مسلم ص۴۰۱ ،ج۲ المصدر السابق و مشکوٰۃ ص۴۷۳ عن نواس بن سمعان رضی اللّٰہ عنہ
(۲۵۱) صحیح مسلم ص۴۰۵، ج۲ فی الفتن باب فی بقیۃ احادیث الدجال ومشکوٰۃ ص۴۷۵ عن انس رضی اللّٰہ عنہ
(۲۵۲) استفتاء ص۳ و روحانی ص۱۱۱، ج۱۲
(۲۵۳) شحنہ حق ص۷۴ و روحانی ص۴۲۷، ج۲
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
مرزائیوں کا پانچواں معیار:
پانچوں معیار یہ ہے کہ وعید کے التوا کے لیے حقیقی اور کامل ایمان ہی لازمی نہیں بلکہ بسا اوقات ناقص اور عارضی ایمان سے بھی التوا ہوا ہے اور ہوسکتا ہے (۲۵۴) اس اصول کی تائید میں حقیقی ایمان سے عذاب کے التوا پر قوم یونس علیہ السلام کا واقعہ اور عارضی ایمان سے التوا عذاب پر سورۂ دخان کی آیت اور سورۂ زخرف کی آیت پیش کی گئی ہے۔
الجواب:
حضرت یونس علیہ السلام نے عذاب کی کوئی پیشگوئی نہیں کی بلکہ اللہ کی سنت بتائی تھی کہ جو قوم خدا کی نافرمانی کرتی ہے ہلاک ہو جاتی ہے دیکھو آیات قطع نظر اس کے کہ حضرت یونس علیہ السلام نے کوئی پیشگوئی کی تھی یا ان کی قوم پر جو عذاب آنے والا تھا وہ محض ان کے کفر سرکشی اور طغیانی کے باعث تھا۔ ہم مانتے ہیں کہ جو پیشگوئی شرط ایمان سے مشروط ہوگی ، ایمان لانے کے بعد اس کا بصورت شرط پورا ہونا ہی پیشگوئی کی صداقت ہے۔
باقی رہا عارضی ایمان سے پیشگوئی کا ٹل جانا۔ یہ یقینا غلط ہے، عذاب کی پیشگوئی تبھی کی جاتی ہے جب کہ ہر طور پر منکرین کو سمجھایا جاتا ہے۔ وہ باز نہیں آتے پس محض عارضی ایمان سے عذاب کی پیشگوئی نہیں ٹلی اور نہ ہی کسی آیت و حدیث سے یہ ثابت ہے ہاں اگر خود پیشگوئی کنندہ قبل از وقت کہہ دے کہ محض عارضی ایمان سے بھی عذاب ہٹا لوںگا تو یہ بھی ہوسکتا ہے پہلی مثال جو سورۂ زخرف کی پیش کی گئی ہے اس میں کسی ایسے عذاب کا ذکر نہیں جس کے متعلق پیشگوئی کی گئی تھی بلکہ وہ عذاب عام تھا جو ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے محض ان پر اتمام حجت اور ان کی ہدایت کے لیے بطور نشان بھیجا گیا تھا۔ پس جونہی وہ ہدایت کا اقرار کرتے عذاب اٹھا لیا جاتا پھر اڑ جاتے تو پہلے سے سخت عذاب بھیجا جاتا۔ ملاحظہ ہو فرمان الٰہی ''فَلَمَّا جَائَ ھُمْ بایتنا اِذَا ھُمْ مِنْھَا یَضْحَکُوْنَ'' جب موسیٰ علیہ السلام رسول لایا ان پر نشانیاں وہ اس پر مضحکہ کرنے لگے ''وَمَا یُریھم مِنْ اٰیَۃٍ اِلاَّ ھِیَ اکبر مِنْ اخُتِھَا'' جو دکھاتے گئے ہم ان کو نشانی سو دوسری سے بڑی ''وَاَخَذْنَا ھُمْ بِالْعَذَابِ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ'' اور پکڑا ہم نے ان کو عذاب میں تاکہ وہ رجوع کریں۔ ان فوری اور پے در پے عذابوں کو دیکھ کر بجائے موسیٰ علیہ السلام کو سچا نبی سمجھنے کے وہ انہیں جادوگر کہنے لگے ''وقالوا یَاَیُّھَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَھِدَ عِنْدَکَ اِنَنَا لَمُھْتَدُوْنَ'' اے ساحر تو نے جو اپنے رب سے عہد کر رکھا ہے کہ وہ تیری بات مان لیتا ہے۔ تحقیق ہم ایمان لے آویں گے اگر اب کے اس نے تیری بات کو ہمارے حق میں قبول کرلیا خدا فرماتا ہے:
''فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْھُمُ الْعَذَابِ اِذَا ھُمْ ینکثون'' ۔ (۲۵۵)
''جب اٹھا لیا ہم نے وہ عذاب، توڑ ڈالا انہوں نے وعدہ۔''
اسی مضمون کو دوسری جگہ یوں ادا کیا گیا کہ '' ہم نے فرعونیوں کو قحط اور میووں کے نقصان میں مبتلا کیا شاید وہ نصیحت پکڑیں۔ جب بھلائی پہنچے ان کو ''قَالُوا لنا ھٰذِہٖ'' یہ ہے ہمارے واسطے اگر پہنچے برائی۔ موسیٰ کی نحوست گردانتے (آخر یہاں تک سرکشی کی کہ) جو تو لائے گا نشانی ہمیں مسحور کرنے کو ہم نہ مانیں گے (خدا فرماتا ہے) پھر ہم نے بھیجا ان پر طوفان اور ٹڈی اور چچڑی اور مینڈک اور لہو کتنی نشانیاں مفصل مگر وہ استکبار میں رہے جب ان پر عذاب رجز پڑا کہنے لگے اے موسیٰ علیہ السلام پکار ہمارے لیے رب کو جیسا کہ سکھا رکھا ہے تجھ کو ''لٰئنْ کشفت عنا الرجز لنؤمنن لک'' اگر اب کی بار اٹھا دیا تو نے یہ عذاب ضرور ایمان لائیں گے ہم۔ پھر جب اٹھایا گیا عذاب ایک وقت تک جو مقرر تھا تو بھی منکر ہوگئے۔ (۲۵۶)
آیات ہذا صاف مظہر ہیں کہ یہ عذاب جو قوم موسیٰ پر بھیجے گئے کسی پیش گوئی کی بنا پر نہیں تھے محض فرعونیوں کے لیے بطور نشان تھے جو ایک وقت تک کے لیے تھے۔ آخر جب ہر طرح ان پر اتمام حجت ہوچکی، وہ باز نہ آئے تو بطور پیشگوئی فرمایا گیا: ''قَالَ عَسیٰ رَبُّکُمْ اَنْ یُّھْلِکَ عَدُوَّکُمْ ویستخفلکم فی الارض'' (۲۵۷) فرمایا قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے دشمنوں کو ہلاک کردے اور تمہیں زمین کی حکومت بخش دے۔
احمدی دوستو! دیکھو یہ پیشگوئی ہے عذاب کی اور وعدہ ہے بنی اسرائیل سے، کیا اس میں کچھ تخلف ہوا؟ ہرگز نہیں۔ فرعونی غرق کئے گئے اور جناب موسیٰ علیہ السلام اس کی حکومت پر قابض ہوئے والحمد للہ۔
دوسری مثال جو پیش کی گئی ہے۔ سورۂ دخان سے اس میں کسی ایسے عذاب کا ذکر نہیں جو خدا نے نبی کریم علیہ السلام کی صداقت پر بطور دلیل پیشگوئی کی ہے۔ بلکہ وہ بھی محض بد اعمال کی بنا پر ہے جو عارضی ہے چنانچہ الفاظ ''اِنَّا کَاشِفُوْا الْعَذَابِ قَلِیْلاً اِنَّکُمْ عَائِدُوْنَ'' (سورۂ دخان ع) ''ہم عذاب تو ضرور کچھ عرصہ کے لیے ٹال دیں گے۔ مگر یہ غلط ہے کہ تم مومن (ہی رہو گے اس پر دلیل ہیں)۔ (۲۵۸)
ناظرین کرام! چونکہ خدا رحیم و کریم ہے۔ اس لیے اس کی رحمت کا تقاضا یہی ہے کہ اپنے بھولے ہوئے بندوں کو سمجھانے کے لیے معمولی معمولی سرزنش کرے جو نہی وہ جھکیں ان پر برکات کی بارش نازل فرمائے یہ بات دیگر ہے کہ بدقسمت انسان قدر نہ کرے اور دن بدن شوخی میں بڑھ کر خود ہلاکت کا سامان مہیا کرلے۔ پس ان عذابوں کا جو محض وقتی اور عارضی بطور نشان ہدایت آتے ہیں اٹھا دیا جانا خدا کی شان کے منافی نہیں بلکہ عین مناسب ہے بخلاف اس کے اگر خدا تعالیٰ بطور پیشگوئی عذاب کی خبر دیدے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ قوم میں ہدایت کی کوئی صلاحیت باقی نہیں رہی اور آئندہ کبھی وہ رجوع نہ کریں گے۔ اس لیے عذاب آنا چاہیے ورنہ خدا عالم الغیب نہیں رہتا۔
----------------------------------------------------------------
(۲۵۴) تفہیمات ربانیہ ص۵۷۱
(۲۵۵) پ۲۵ الزخرف آیت نمبر ۴۸ تا ۵۱
(۲۵۶) پ۹ الاعراف، ترجمہ آیت نمبر ۱۳۱ تا ۱۳۵
(۲۵۷) پ۹ الاعراف آیت ۱۳۰
(۲۵۸) تفہیمات ربانیہ ص۵۷۱ و انوار الاسلام ص۴۱،۸۵ و انجام آتھم ص۷ و تفسیر مرزا ص۳۱۶، ج۷
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
مرزائیوں کا چھٹا معیار:
توبہ اور رجوع سے معین عذاب بھی ٹل جاتا ہے۔ (۲۵۹)
الجواب:
اگر معین عذاب کی پیشگوئی میں توبہ کی شرط ہے تو بلا شبہ توبہ سے اس کا ٹل جانا ضروری ہے۔ لیکن اگر کوئی اور شرط ہے تو محض توبہ سے نہیں ٹل سکتا۔
پہلی مثال: اس بارے میں احمدی مولوی صاحب نے مجمل الفاظ میں جناب یونس علیہ السلام والی پیشگوئی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جس کا جواب ہم پہلے دے آئے ہیں کہ بفرض محال یونس علیہ السلام نے کوئی پیش گوئی کی بھی ہے تو اس میں ایمان کی شرط موجود تھی پڑھو آیت ''لَمَّا اٰمَنُوْا کَشَفْنَا عَنْھُمُ الْعَذَابَ الْخِزْیِ'' (۲۶۰) جب وہ ایمان لے آئے ہم نے عذاب اٹھا دیا۔
دوسری مثال: مرزائی مولوی صاحب نے تفسیر روح البیان سے نقل کی ہے یعنی جبرائیل نے مسیح کو ایک دھوبی کی موت کی خبر دی۔ مگر وہ نہ مرا جس پر یہ عذر کیا گیا کہ اس نے تین روٹیاں صدقہ کردی تھیں اس لیے موت ٹل گئی۔ (۲۶۱)
الجواب:
(۱) اول تو ہم روح البیان کے مصنف کو نبی یا رسول نہیں مانتے کہ مجرد اس کے لکھنے سے ہزارہا سال پہلے کا واقعہ تسلیم کیا جائے تاوقتیکہ مرزائی یہ نہ دکھائیں کہ اس نے یہ روایت کہاں سے لی ہے۔ قرآں سے یا حدیث سے۔ پس پہلا جواب یہی ہے کہ ہم اس پر اعتبار نہیں کرتے۔ سند پیش کرو۔
(۲) بفرض محال صحیح تسلیم کیا جائے تو '' حضرت جبرئیل کا یہ فرمانا کہ موت صدقہ سے ٹل گئی ہے'' دلیل ہے اس بات کی کہ پیشگوئی مشروط تھی خیرات وغیرہ سے۔ چونکہ تم لوگ اس روایت کو مانتے ہو اس لیے یہ تم پر حجت ہے مگر یاد رکھو۔ جو پیشگوئی کوئی خدا کا نبی اپنی صداقت پر پیش کرتا ہے اس میں اگر شرط مذکور نہ ہو اور وہ بظاہر الفاظ پوری نہ نکلے تو دلیل تو کجا الٹا اس کے غیر صادق ہونے پر دلیل ہوسکتی ہے۔
------------------------
(۲۵۹) تفہیمات ربانیہ ص۵۷۲
(۲۶۰) پ۱۱ یونس آیت ۹۹
(۲۶۱) تفہیمات ربانیہ ص۵۷۳
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
مرزائیوں کا ساتواں معیار:
بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس شخص کے حق میں پیشگوئی ہوتی ہے اس کے حق میں پوری نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کے بیٹے یا خلیفہ کے ہاتھوں پوری ہوتی ہے۔ (۲۶۲)
جواب:
جو پیشگوئی جس کے حق میں ہے اس کی ذات پر پوری ہونی چاہیے نہیں تو ہر ایک فریبی، کیّاد پیشگوئیاں کرتا پھرے اور بصورت کاذب نکلنے کے یہی ڈھکوسلہ پیش کرے کہ کیا ہوا میرے ہاتھوں پوری نہیں ہوئی۔ میری اولاد پر پوری ہو جائے گی۔ ایسی صورت میں دجال و کذاب اور صادق و راست گو میں فرق اٹھ جاتا ہے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ پیش گوئی کرنے والا قبل از وقت خود ہی تشریح کردے کہ یہ پیشگوئی میری ذات سے مخصوص نہیں ہے بلکہ میرے جانشنیوں کے ہاتھوں پوری نہ ہو۔ دونوں صورتوں میں وہ کاذب تصور ہوگا۔ ضرور ہے کہ اس کے کہے موجب اس کے جانشینوں کے ہاتھوں پوری ہو۔ اسے ذہن نشین کرکے اپنی پیش کردہ امثلہ کا جواب سنو!
مثال اول: رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں سو رہا تھا کہ مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دی گئیں۔ ابوہریرہ (صحابی رضی اللہ عنہ ) کہتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم تو تشریف لے گئے اب تم اے صحابہ ان خزانوں کو جمع کرتے ہو۔
الجواب:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب اے صحابہ کی جماعت تم پر پورا ہو رہا ہے صاف دلیل ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا یہی مطلب بیان فرمایا تھا اس کی مزید تفصیل یہ ہے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے ارشاد فرمایا ہوا ہے کہ اے صحابہ ''یفتح اللہ ارض فارس وارض الروم وارض حمیر قلت یا رسول اللہ ومن یستطیع الشام مع الروم ذوات القرون فَقَالَ وَاللّٰہ لیفتحھا اللّٰہُ لَکُمْ وَیَسْتَخْلِفُکُمْ'' (۲۶۳) فارس اور روم و حمیر کے ملکوں پر اللہ تمہیں قابض کرے گا۔ صحابہy نے ازراہِ تعجب عرض کی کون طاقت رکھتا ہے کہ روم جیسے ذی شان و سطوت بادشاہ سے مقابلہ کرے۔ فرمایا اللہ کی قسم تم ضرور اس پر مسلط ہوگے اور اس کے تخت پر اپنا خلیفہ بٹھاؤ گے۔ (رواہ احمد و طبرانی وغیرہما)
اسی طرح کنزالعمال جلد ۶ میں ہے کہ حضور نے اپنا ایک کشف بیان کیا کہ میں نے روم و کسریٰ کے ملکوں کو دیکھا اور جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ان پر قابض و متصرف ہوگی۔ (۲۶۴)
بخاری شریف کی ایک اور روایت میں ہے ''والذی نفسی بیدہ لتنفقن کنوز ھما فی سبیل اللّٰہ'' (۲۶۵) اللہ کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے تم کسریٰ و قیصر کے خزانوں کو اپنے ہاتھوں اللہ کی راہ میں صرف کرو گے۔ ان تمام حدیثوں کی تائید ''مسلم'' کی مندرجہ ذیل حدیث کرتی ہے ''لتفتحن عصابۃ من المسلمین'' (۲۶۶) یعنی ''ایک گروہ اہل اسلام کا ان ممالک کو فتح کرے گا'' ان احادیث صحیحہ سے صاف عیاں ہے کہ یہ پیشگوئی صحابہ کی ذات کے لیے تھی۔ مرزائیو! اگر تم میں ہمت ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشگوئی کو غلط کر دکھاؤ۔
دوسری مثال: مرزائی یہ دیتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں میں سونے کے کنگن (خواب میں) دیکھے ان کو آپ نے پھونک مار کر اڑا دیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دو کذاب مدعیان نبوت مراد لیے ان میں سے ایک مسیلمہ کذاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا ''لَئِنْ اَدْبَرت لیحقرنک اللّٰہُ'' اگر تو نے دین حق سے انحراف کیا اللہ تعالیٰ تجھ کو تباہ کردے گا اور میرا خیال ہے کہ تو وہی ہے جس کے متعلق میں نے رویا دیکھی ہے پھر سونے کے کنگنوں کی رؤیا روایت میں درج ہے گویا مسیلمہ کی ہلاکت اس رؤیا کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں ہونی چاہیے تھی لیکن وہ خلافت صدیقیہ میں ہلاک ہوا۔ (۲۶۷)
الجواب:
اس روایت میں ایک لفظ ہی ایسا ہے جو اس اعتراض کی بیخ و بن اکھیڑ کر رکھ دیتا ہے۔ اسی لیے مرزائی خائن نے اس کا ترجمہ غلط کرکے مرزائیوں کی آنکھ میں دھول ڈالی ہے حضور علیہ السلام نے تو صاف فرمایا تھا کہ ''لئِنْ اَدْبَرَتَ لَیَحقرَنَّکَ اللّٰہُ '' (۲۶۸) ۔ اگر تو میرے بعد زندہ رہا (اور ضرور زندہ رہے گا) تو اللہ تعالیٰ تجھے تباہ و ہلاک کردے گا۔ چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق وہ کم بخت تباہ و برباد کیا گیا۔
مرزائی معترض نے لفظ لئِنْ اَدْبَرْتَ کا ترجمہ '' بے ایمانی'' سے یہ کیا ہے کہ اگر تو نے دین حق سے انحراف کیا۔ اف رے تیرا ظلم۔
ہمارا ترجمہ تو شاید مرزائی بوجہ متعصب و مقلد مرزا ہونے کے نہ مانیں۔ ہم خود مرزا کے قلم سے اس کی تصدیق و تصحیح کرا دیتے ہیں بغور ملاحظہ فرماویں:
'' مسیلمہ کذاب نے مباہلہ کیا ہی نہ تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اتنا فرمایا تھا کہ اگر تو میرے بعد زندہ رہا تو ہلاک کیا جائے گا۔'' (۲۶۹)
تیسری مثال: ''تاریخ خمیس'' سے پیش کی گئی کہ حضرت نے اسید کو بحالت اسلام مکہ پر والی دیکھا مگر وہ کفر کی حالت میں مر گیا۔
الجواب:
تاریخ خمیس کی ہر بات مستند نہیں۔ یہ روایت قطعاً صحیح نہیں ہے ثبوت بذمہ مدعی۔
---------------------------------------------
(۲۶۲) ایضاً ص ۵۷۳
(۲۶۳) الحدیث ، دلائل النبوۃ ص۳۲۷،ج۶ و کنز العمال ص۳۷۲، ج۱۱ رقم الحدیث ۸۶،۳۱۷ و مختصر مجمع الزوائد ص۲۱۵، ج۲ وابن عساکر ص۲۹،ج۱ و مسند احمد ص۳۳، ج۵ وابوداؤد ص۳۳۶،ج۱ کتاب الجہاد باب فی سکن الشام والفظ لہ
(۲۶۴) کنز العمال ص۲۷۳،ج۱۱ رقم ۳۱۷۸۹ و فی اطراف ص۳۹۵،ج۵ سعد ۴۔۱:۶۰۔ بغوی ۵: ۲۳۵۔ طبری ۲۱، ۸۶
(۲۶۵) بخاری ص۹۸۱ فی الایمان والنذور باب قول النبی و مسلم ص۳۹۶، ج۲ فی الفتن باب ہلاک کسرٰی و قیصر
(۲۶۶) مسلم ص۳۹۶،ج۲ المصدر السابق
(۲۶۷) تفہیمات ربانیہ ص۵۷۳ تا ۵۷۴
(۲۶۸) مسلم ص۲۴۴، ج۲ فی الرویا باب رؤیا النبی ﷺ
(۲۶۹) الحکم جلد ۱۱ نمبر۳۶ مورخہ ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۰۷ء ص۹ و ملفوظات مرزا ص۳۲۷، ج۵
 

وحید احمد

رکن ختم نبوت فورم
آٹھواں معیار:
نبی کی ساری پیشگوئیوں کا اس کی زندگی میں پورا ہونا ضروری نہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی ہوسکتا ہے کہ ہم ان وعدوں کو جو کفار سے کئے جاتے ہیں تیری زندگی میں پورے کردیں یا پھر تجھے وفات دے دیں اور بعد ازاں پورا کریں۔ (۲۷۰)
الجواب:
اس آیت کا ترجمہ ہی تمہارے غلط معیار کو رد کر رہا ہے، ہاں صاحب ایسا ہوسکتا ہے، اس سے بھی بڑھ کر سنو! یہ بھی ہوسکتا ہے کہ باوجود مرزا صاحب کے ''صادق'' ہونے کے بھی خدا تعالیٰ انہیں جہنم میں دھکیل دے کیا نہیں ''ہوسکتا''؟ ضرور ''ہوسکتا'' ہے خدا کو سب قسم کی طاقت ہے مگر سوال ہوسکنے یا نہ ہوسکنے کا نہیں سوال یہ ہے کہ خدا جو اپنے رسولوں سے وعدے کرتا ہے ان کا پورا کرنا اس کی شان کے لائق ہے یا نہ پورا کرنا۔ سنو! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ''فلا تَحْسَبَنَ اللّٰہ مُخْلِفَ وَعْدِہٖ رُسُلَہٗ'' الآیۃ ہرگز ہرگز گمان نہ کرو اللہ اپنے رسولوں سے وعدہ کرکے اسے پورا نہ کرے۔ (۲۷۱)
مختصر یہ کہ آیت کا مطلب یہ ہے ہم اس بات پر قادر ہیں کہ جو کچھ مخالفوں کی نسبت ہمارے وعدے جو ایک طرح سے گویا پیشگوئیاں ہیں ان میں سے کچھ تجھے دکھا دیں اور اس بات پر بھی قادر ہیں کہ تجھے وفات دے دیں۔ (۲۷۲)
پس یہاں قدرت کا سوال ہے اور لاریب خدا ہر چیز پر قادر ہے مگر خدا غلط گو نہیں ہے۔ ''تعالیٰ اللہ عن ذلک''
دوسری مثال: یہ پیش کی جاتی ہے:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (مومن آل فرعون نے کہا) ''اِنْ یَّکُ کَاذِبًا فَعَلَیْہِ کَذِبُہٗ وان یک صادقا یصبکم بعض الذی بعدکم۔'' یعنی اگر یہ نبی (موسیٰ علیہ السلام ) جھوٹا ہے تو جھوٹ بولنے کا عذاب اس پر نازل ہوگا اگر سچا ہے تو بعض عذاب جن کا وہ وعدہ دیتا ہے تم پر وارد ہو جائیں گے اب دیکھو خدا نے بعض کا لفظ استعمال کیا نہ کل کا جس کے یہ معنی ہیں کہ جس قدر عذاب کی پیشگوئیاں ہیں ان میں سے بعض تو ضرور پوری ہوں گی گو بعض التوا میں رہ جائیں گی۔ (۲۷۳)
الجواب:
انبیاء کرام بشیر و نذیر ہوتے ہیں ان کے وعدے دو اقسام پر مشتمل ہوتے ہیں دنیاوی عذاب و ثواب اور اخروی گرفت و نجات ظاہر ہے کہ دنیاوی عذاب یا آخرت کا عذاب دنیا کا ثواب و آخرت کی نجات کا مجموعہ مواعید کا بعض حصہ ہے۔ مومن آل فرعون بھی یہی کہتا ہے کہ اگر یہ موسیٰ علیہ السلام کاذب ہے تو وبال اس کی گردن پر لیکن اگر صادق ہے تو یقینا جو وعدے وہ دیتا ہے ان میں سے بعض جو اس دنیا و آخرت کے عذاب و ثواب پر مبنی ہیں ضرور تمہیں پہنچیں گے۔ ایمان لاؤ گے تو دین و دنیا کی راحت و آسائش انکار کرو گے تو دنیا میں مصائب آخرت میں دوزخ کی رہائش نصیب ہوگی۔
بتلائیے اس میں کہاں ہے کہ نبیوں کی جو پیشگوئیاں دنیا کے عذاب پر بطور تحدی پیش کی جاتی ہیں ان میں سے بعض پوری ہوں گی اور بعض نہ ہونگی ''مَعَاذَ اللّٰہِ اَسْتَغْفِرُ اللّٰہ'' ۔ اگر یہ ہو جائے کہ رسولوں کی پیشگوئیاں جو بقول مرزا '' از روئے قرآن و توریت نبوت کا سب سے بڑا اور واحد ثبوت ہیں۔'' (۲۷۴) ٹل جائیں تو دنیا میں اندھیر مچ جائے اور صادق رسولوں اور کاذب دجالوں میں مابہ الامتیاز نہ رہنے کے علاوہ خدا کے کاذب الاقوال ہونے پر زندہ ثبوت ہو جائے۔
------------------------------------------------------
(۲۷۰) تفہیمات ربانیہ ص۵۷۴
(۲۷۱) پ۱۳ ابراھیم آیت نمبر ۴۸
(۲۷۲) الوصیت ص۲،۳ و روحانی ص۳۰۲، ج۲۰ و تذکرہ ص۵۸۴، نوٹ: مذکورہ ترجمہ و تفہیم مرزا نے قرانی آیت، فاما نرینک بعض الذی نعرھم او نتعرفینک (پ۲۴ المومن آیت:۷۸) کی نہیں کی بلکہ انہیں الفاظ میں مرزا جی کا ایک الھام (الوصیت) میں ہے۔ اس کی ہی مرزا نے یہ تشریح کی ہے اور مولانا معمار مرحوم نے الزامی طور پر دکھایا ہے کہ اگر مرزا کے الھام کا یہ مفہوم ہے تو قرانی الفاظ کی بھی یہی مراد ہے کیونکہ دونوں کے الفاظ ایک ہی ہیں۔ ابو صہیب
(۲۷۳) تتممہ حقیقت الوحی ص۱۳۱ و روحانی ص۵۶۷ ج ۲۲ و تفسیر مرزا ص۱۹۶،ج۷
(۲۷۴) استفتاء ص۳ و روحانی ص۱۱۱، ج۱۲
 
Top