• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

مرزا قادیانی کی تفسیر مسیح موعود جدید جلد نمبر 1 یونیکوڈ ، صفحہ 33 تا 100

کامران افضال

رکن ختم نبوت فورم
صفحہ 43

صاحب تجر بہ ہیں وہ اس مسئلہ میں حق الیقین کے مرتبہ تک پہنچے ہوئے ہیں لیکن یہ شبہ کرنا کہ یہ استعانت بعض اوقات کیوں بے فائدہ اور غیر مفید ہوتی ہے اور کیوں خدا کی رحمانیت ور حیمیت ہر بیک وقت استعانت میں تجلی نہیں فرماتی۔ پس یہ شبہ صرف ایک صداقت کی غلط نہیں ہے کیونکہ خدائے تعالی ان دعائوں کو کہ جو خلوص کے ساتھ کی جائیں ضرور سنتا ہے اور جس طرح مناسب ہو مدد چاہنے والوں کے لئے مدد بھی کرتا ہے مگر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کی استمداد اور دعا میں خلوص نہیں ہوتا نہ انسان ولی عاجزی کے ساتھ امداد الہی چاہتا ہے اور نہ اس کی روحانی حالت درست ہوتی ہے بلکہ اس کے ہونٹوں میں دعا اور اس کے دل میں غفلت یار یا ہوتی ہے۔ کیا بھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خدا اس کی دعا کو سن تو لیتا ہے اور اس کے لئے جو کچھ اپنی حکمت کاملہ کے رو سے مناسب اور اصلح دیکھتا ہے عطا بھی فرماتا ہے لیکن نادان انسان خدا کی ان الطاف خفیہ کو شناخت نہیں کرتا اور باعث اپنے جہل اور بے خبری کے شکوہ اور شکایت شروع کر دیتا ہے۔ اور اس آیت کے مضمون کو نہیں سمجھتا عسى أن تكرهوا شیاو هو خير لكم وعسی آن تحبواشيا و هو شر لكم والله يعلم وانتم لا تعلمون (البقرة: ۲۱) یعنی یہ ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو بری سمجھو اور وہ اصل میں تمہارے لئے اچھی ہو اورمکن ہے کہ تم ایک چیز کو دوست رکھو اور وہ اصل میں تمہارے لئے بری ہو اور خدا چیزوں کی اصل حقیقت کو جانتا ہے اور نہیں جانتے۔ اب ہماری اس تمام تقریر سے واضح ہے کہ بسم الله الرحمن الرحیم کس قدر عالی شان صداقت ہے جس میں حقیقی توحید اور عبودیت اور خلوص میں ترقی کرنے کا نہایت عمدہ سامان موجود ہے جس کی نظیر کی اور کتاب میں نہیں پائی جاتی ۔ اور اگر کسی کے ذعم میں پائی جاتی ہے تو وہ اس صداقت کو معہ تمام دوسری صداقتوں کے جو ہم نے لکھتے ہیں نکال کر پیش کرے۔


بسم اللہ پر ایک اعتراض اور اس کا جواب


اس جگہ بعض کو تاہ اندیش اور نادان دشمنوں نے ایک اعتراض بسم اللہ کی بلاغت پر کیا ہے۔ ان معترضین میں سے ایک صاحب تو پادری عماد الدین نام ہیں ۔ جس نے اپنی کتاب ہدایت المسلمین میں اعتراض مندرجہ ذیل لکھا ہے۔ دوسرے صاحب باوا نرائین سنگھ نام وکیل امرتسری ہیں جنہوں نے پادری کے اعتراض کو سچ سمجھ کر اپنے دلی عناد کے تقاضا کی وجہ سے وہی پوچ اعتراض اپنے رسالہ ودیا پیر کا شک میں درج کر دیا ہے سو ہم اس اعتراض کو مع جواب اس کے لکھنا مناسب سمجھتے ہیں تامنصفین کو معلوم ہو کہ فرط تعصب نے ہمارے مخالفین کوکس درجہ کی کور باطنی اور نابینائی تک پہنچا دیا ہے کہ جو نہایت درجہ کی روشنی ہے وہ ان کو
Tafseer_Page_066.png
 
مدیر کی آخری تدوین :

کامران افضال

رکن ختم نبوت فورم
صفحہ 44


تاریکی دکھائی دیتی ہے اور جو اعلی درجہ کی خوشبو ہے وہ اس کو بدبو تصور کرتے ہیں ۔ سواب جانا چاہئے کہ جو اعتراض بسم الله الرحمن الرحیم کی بلاغت پر مذکورہ بالا لوگوں نے کیا ہے وہ یہ ہے کہ الرحمن الرحیم جو بسم اللہ میں واقع ہے یہ فصیح طرز پر نہیں ۔ اگر رحیم الرحمان ہوتا تو فصیح اور صحیح طرز تھی کیونکہ خدا کا نام رحمان باعتبار اس رحمت کے ہے کہ جو اکثر اور عام ہے اور رحیم کالفظ به نسبت رحمان کے اس رحمت کے لئے آتا ہے کہ جو قلیل اور خاص ہے۔ اور بلاغت کا کام یہ ہے کہ قلت سے کثرت کی طرف انتقال ہو نہ یہ کہ کثرت سے قلت کی طرف۔
یہ اعتراض ہے کہ ان دونوں صاحبوں نے اپنی آنکھیں بند کر کے اس کلام پر کیا ہے جس کلام کی بلاغت کو عرب کے تمام اہل زبان جن میں بڑے بڑے شاعر بھی تھے با وجود سخت مخالفت کے تسلیم کر چکے ہیں بلکہ بڑے بڑے معاند اس کلام کی شان عظیم سے نہایت درج جب میں پڑ گئے اور اکثر ان میں سے کہ فصیح اور بلیغ کلام کے اسلوب کو بخوبی جاننے پہچاننے والے اور مذاق سخن سے عارف اور با انصاف تھے ۔ وہ طرزقر آنی کو طاقت انسانی سے باہر دیکھ کر ایک معجزہ عظیم یقین کر کے ایمان لے آئے جن کی شہادتیں جا بجا قرآن شریف میں درج ہیں اور جو لوگ سخت کور باطن تھے اگر چہ وہ ایمان نہ لائے مگر سراسیمگی اور حیرانی کی حالت میں ان کو بھی کہنا پڑا کہ یہ سحر عظیم ہے جس کا مقابلہ نہیں ہوسکتا چنانچہ ان کا یہ بیان بھی فرقان مجید کے کئی مقام میں موجود ہے۔ اب اسی کلام جو معجز نظام پر ایسے لوگ اعتراض کرنے لگے جن میں سے ایک تو وہ شخص ہے جس کو دو سطریں عربی کی بھی صحیح اور بلیغ طور پر لکھنے کا ملکہ نہیں ۔ اور اگر کسی اہل زبان سے بات چیت کرنے کا اتفاق ہوا تو بجز ٹوٹے پھوٹے اور بے ربط اور غلط فقروں کے کچھ بول نہ سکے اور اگر کسی کو شک ہو تو امتحان کر کے دیکھ لے اور دوسرا وہ شخص ہے جو علم عربی سے بکلی بے بہرہ بلکہ فارسی بھی اچھی طرح نہیں جانتا۔ اور افسویں کہ عیسائی مقدم الذکر کو یہ بھی خبر نہیں کہ یورپ کے اہل علم کہ جو اس کے بزرگ اور پیشرو ہیں جن کا بورٹ صاحب وغیرہ انگریزوں نے ذکر کیا ہے وہ خودقرآن شریف کے اعلی درجہ کی بلاغت کے قائل ہیں اور پھر دانا کو زیادہ تر اس بات پر غور کرنی چاہئے کہ جب ایک کتاب جوخود ایک اہل زبان پر ہی نازل ہوئی ہے اور اس کی کمال بلاغت پر تمام اہل زبان بلکہ سبع معلقہ کے شعراء جیسے اتفاق کر چکے ہیں تو کیا ایسا مسلم الثبوت کلام کسی نادان اجنبی و ژولیده زبان والے کے انکار سے جو کہ لیاقت فن سخن سے محض بے نصیب اور توغل علوم عر بیہ سے بالکل بے بہرہ بلکہ کسی ادنی عربی آدمی کے مقابلہ پر بولنے سے عاجز ہے قابل اعتراض ٹھہر سکتا ہے بلکہ ایسے لوگ جو اپنی حیثیت سے بڑھ کر بات کرتے ہیں خود اپنی نادانی دکھلاتے ہیں اور یہ نہیں
Tafseer_Page_067.png
 
مدیر کی آخری تدوین :

کامران افضال

رکن ختم نبوت فورم
صفحہ 45


سمجھتے کہ اہل زبان کی شہادت کے بر خلاف اور بڑے بڑے نامی شاعروں کی گواہی کے مخالف کوئی نکتہ چینی کرنا حقیقت میں اپنی جہالت اورخر فطرتی دکھلانا ہے۔ بھلا عماد الدین پادری کسی عربی آدمی کے مقابلہ پرکسی دینی با دنیوی معاملہ میں ذرا ایک آدھ گھنٹہ تک ہم کو بول کر تو دکھاوے تا اول ہی لوگوں پر کھلے کہ اس کو سیدھی سادھی اور بامحاورہ اہل عرب کے مذاق پر بات چیت کرنی آتی ہے یا نہیں ۔ کیونکہ ہم کو یقین ہے کہ اس کو ہرگز نہیں آتی اور ہم به یقین تمام جانتے ہیں کہ اگر ہم کسی عربی آدمی کو اس کے سامنے بولنے کے لئے پیش کریں تو وہ عربوں کی طرح اور ان کے مذاق پر ایک چھوٹا سا قصہ بھی بیان نہ کر سکے اور جہالت کے کیچڑ میں پھنسا رہ جائے اور اگر شک ہے تو اس کو قسم ہے کہ آزما کر دیکھ لے۔ اور ہم خود اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ اگر پادری عماد الدین صاحب ہم سے درخواست کریں تو ہم کوئی عربی آدی بہم پہنچا کر کسی مقررہ تاریخ پر ایک جلسہ کریں گے جس میں چند لائق ہندو ہوں گے اور چند مولوی مسلمان بھی ہوں گے اور عماد الدین صاحب پر لازم ہوگا کہ وہ بھی چند عیسائی بھائی اپنے ساتھ لے آو میں اور پھر سب حاضرین کے رو برو اقل عماد الدین صاحب کوئی قصہ جو اسی وقت ان کو بتلایا جائے گا عربی زبان میں بیان کریں۔ اور پھر وہی قصہ وہ عربی صاحب کہ جو مقابل پر حاضر ہوں گے اپنی زبان میں بیان فرمادیں ۔ پھر اگر منصفوں نے میرائے دے دی کہ عماد الدین صاحب نے ٹھیک ٹھیک عربوں کے مذاق پر عمدہ اور لطیف تقریر کی ہے تو ہم تسلیم کر لیں گے کہ ان کا اہل زبان پر نکتہ چینی کرنا کچھ جائے تعجب نہیں بلکہ اسی وقت پچاس روپیہ نقد بطور انعام ان کو دیئے جائیں گے لیکن اگر اس وقت عماد الدین صاحب بجائے مسیح اور بلیغ تقریر کے اپنے ژولیدہ اور غلط بیان کی بد بو پھیلانے لگے یا اپنی رسوائی اور تالیا قت سے ڈر کر کسی اخبار کے ذریعہ سے یہ اطلاع بھی دی کہ میں ایسے مقابلہ کے لئے حاضر ہوں تو پھر ہم بجز اس کے کہ لعنۃ الله علی الکذبین ہیں اور کیا کہہ سکتے ہیں ۔ اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اگر عماد الدین صاحب تولد ثانی بھی پاو یں تب بھی وہ کسی اہل زبان کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ پھر جس حالت میں وہ عربوں کے سامنے بھی بول نہیں سکتے اور فی الفور گونگا بننے کے لئے طیار ہیں تو پھر ان عیسائیوں اور آریوں کی ایسی سمجھ پر ہزار حیف اور دو ہزار لعنت ہے کہ جو ایسے نادان کی تالیف پر اعتماد کر کے اس بے مثل کتاب کی بلاغت پر اعتراض کرتے ہیں کہ جس نے سید العرب پر نازل ہو کر عرب کے تمام فصیحوں اور بلیغوں سے اپنی عظمت شان کا اقرار کر لیا ۔ اور جس کے نازل ہونے سے سبعہ معلقہ مکہ کے دروازہ پر سے اتارا گیا اور معلقہ مذکورہ کے شاعروں میں سے جو شاعر اس وقت بقید حیات تھا وہ
Tafseer_Page_068.png
 
مدیر کی آخری تدوین :

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
صفحہ 46


با توقف اس کتاب پر ایمان لایا۔ پھر دوسرا افسوس ہے کہ اس نادان عیسائی کو اب تک یھی خبر ہیں کہ بلاغت حقیقی اس امر میں محدود نہیں ک قلیل کو کثیر پر ہر جگہ اور ہریل میں خواہ خواہ مقدم رکھا جائے بلکہ اصل قاعده بلاغت کا یہ ہے کہ اپنے کلام کو د تھی صورت اور مناسب وقت کا آئینہ بنایا جاوے سو اس جگہ بھی رحمان کو رحیم پر مقدم کرنے میں کلام کو اسی صورت اور ترتیب کا آئینہ بنایا گیا ہے چنانچہ اس ترتیب طبی کا مفصل ذکر بھی سورة فاتھ کی آئندہ آیتوں میں آوے گا۔

(براہین احمدیہ چہاتص۔ روحانی خزائن جلد صفحہ ۱۳۴ ۳تا۲۳۵ حاشیمبرا)


عربی متن:

الله وهب لك الله علة أشتایه و هداك إلى طرق ممرضاته و شبیر رضآیه. أين الإنتم مشت من الوسيم النيتي هو أثر الي في اللبناني العربية يقال "الم الرجل إذا جعل لتقيه يتم غرف ها و مير بها عن العامة. ومنه بيت البلجير و واهه بيت أهلي الشاي وهو ما يتم به البوير من و التنور ليوين للحرقان و مثه ما يقال إ تتم فيه الخير وما رأيت الطير. أن تفرش قما رأيت بيم شير في محياه ولا أثر ځين في مياه و الوشم النيني هو أول مر من أمطار الربيع ته ییه الأرض إذا ترل الينابيع. ويقال أ مؤش

اردو ترجمہ:

اللہ تعالی آپ کو اپنے اسماء کا علم عطا فرمائے اور اپنی رضاء اور خوشنودی کی راہوں اور طریقوں پر چلائے ۔ جان لیں کہ اسم کا لفظ (جو ب ي ال میں آیا ہے ) وتم سے مشتق ہے اور و عربی زبان میں داغ دینے کے نشان کو کہتے ہیں۔ چنانچلغت عرب میں ا ة الرجل اس وقت کہتے ہیں جب کوئی شخص اپنے لئے کوئی ایسی علامت مقرر کر لے جس سے وہ پہچانا جا سکے اور عوام الناس سے دوسرے اشخاص سے الگ سمجھ سکیں اور اہل زبان کے نزدیک و م کے لفظ سے ہی بیت البعير اور وسام البيشتق ہے۔ جس کے معنے اونٹ پر داغ دے کر کوئی شکل بنانے کے ہیں تا وہ شکل اس کی شناخت میں مند ہو۔ اور اسی لفظ وتم سے اہل عرب کا یہ محاورہ ہے ا تو تم فيه الخير ومار آیت الیز یعنی میں نے اس کے چہرے پر غور کیا اور اس پر کوئی شر کی علامت نہ دیکھی اور نہ ہی میں نے اس کی زندگی میں بدی کا کوئی نشان پایا۔ پھر اس لفظ تم سے ون کا لفظ نکلا ہے جس کے معنی موسم بہار کی پہلی بارش کے ہیں کیونکہ جب وہ برستی ہے تو زمین پر پانی بہنے کے نشان بناتی ہے جیسے چشمے اپنے بہنے سے نشان بناتے ہیں ۔ اسی



page69output.jpg
 
آخری تدوین :

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
تفسیر مسیح موعود جدید پی ڈی ایف ٹو یونیکوڈ کنورٹ صفحہ 70

عربی متن:

إذا أصابها الشيئ في إبانه و گن قلوب القار بجريانه. ومنه موسم الحج والشوق وجميع مواسم الإجتماع لأتها معالم يجتمع إليها لنوع غرض من انواع. ويرثه الييم النيين يطلق على المشي والجمال. ويشتغل في يناير ذات الاخير في أكثر الأحوال و ثبت من تتبع لام العرب ودواوينهن. تذ كانوا لا يستغيثون لهذا اللفظ گيرا إلا في موارد الخير من یاهة وينهم. وأنت تعلم أن الم اللي عند العامة ما يعرف به ذالك الي. وأما ثت الخواص وأقل الغرفة الاسم الأضلي الحقيقة القي بل لاشك أن الانتماء المنسوبة إلى التميات من الحرير الأكيرية. ق نزلت مها مولة التمور التوعية وارث گوتات لاطيور المعاني و العلوم الجينية. واليك اسم اله و الرمي و الرجيم في هيير الأية المباركة فإن كل واجير هائل على آه و هويته التنومة والله انهم إلا الإلهية الجايعة

اردو ترجمہ:

طرح از قؤؤم زمین کو اس وقت کہتے ہیں جب اس پر موسم بہار کی پہلی بارش بروقت بر سے اور بہ کر کسانوں کے دلوں کوتسکین دے ۔ پھر اس لفظ تم سے موبيئم نکلا ہے جیسے موسم الحج ہے اور مؤيم الشوق اور دوسرے مواسم ہیں ۔ کیونکہ یہ ایسے مواقع ہیں جن میں کسی نہ کسی مقصد کے لئے لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے اور میڈ کا لفظ بھی تم سے ہی مشتق ہے جس کا اطلاق حسن و جمال پر ہوتا ہے اور اکثر حالتوں میں خوبصورت عورتوں کے بارے میں استعمال ہوتا ہے۔ عربی زبان اور عرب شعراء کے دیوانوں کی چھان بین کرنے سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ وہ اس لفظ کو زیادہ تر خیر کے مواقع پر ہی استعال کرتے تھے ، خواہ وہ دنیا کی خیر ہو یا دین کی اور آپ جانتے ہیں کہ عوام الناس کے نزدیک کسی چیز کا اسم وہ ہوتا ہے جس سے وہ چیز پہچانی جاتی ہے لیکن خواص اور اہل علم کے نزدیک اسم شے کی اصل حقیقت کے لئے بطور ظل کے ہے بلکہ یہ امریقینی ہے کہ اشیاء کے جونام الله تعالی کی طرف سے ہیں یہ تمام نام ان چیزوں کے لئے ان کی نوئی صورتوں کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ نام معانی اور علوم حکمیہ کے پرندوں کے لئے بمنزلہ گھونسلوں کے ہیں۔ اور اس بابرکت آیت میں اللہ، رحمان اور رحیم ناموں کا مہی حال ہے۔ کیونکہ ان میں سے ہر ایک اپنے خصائص اور اپنی ماہیت پر دلالت کرتا ہے۔
اور اللہ اس ذات الہی کا نام ہے جو تمام کمالات کی جامع



page70output.jpg
 
آخری تدوین :

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
تفسیر مسیح موعود جدید پی ڈی ایف ٹو یونیکوڈ کنورٹ صفحہ 71

عربی متن :

جميع أنواع المالي والرخم و الرجيم لاين على تحقين هاتين الفني لهذا الإثم المشجيع ل نوع المال و الجلالي له الرحمن مئی خاص يخت په ولا ينيك في الحي. وهو أنه مفيش وجود الإنساني وغيره من الحيوانات يا الله انگرييد بحسب ما اتكى الحكم الإلهية من القييير. وي تحتمل القوابل لا حسب تسوية التقييد. وليس في هي؟ القة المانية دخل کشپ عمل في من القوى الإنسانية أو الحيوانية . بل هي من بين الاضة مما سبقها عمل عامل مثه من نه عاق مامها أثر في من تاني أو كامل قالا أن فيضان اليرقة المانية ليس هو نتيجة عمل ولا ثمرة استحقاق بل هو فضل من الله ين غير إطاعة أو شقاق وينزل لها القي دائما يمشيتي بين الله و إرادتي. ټن غير شرط إطاعة عبادتی و قاتي وهادير. وان پناه هنا القيض قبل وجود الخليقة وقبل أعمالهم. وقبل جبيهة وقبل شؤالهم لأجل ذالك و كار لهدا القيض قبل

اردو متن:

ہے اور اس جگہ آل خمین اور الرجيم دونوں اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ دونوں صفتیں اللہ کے لئے ثابت ہیں جو ہر قسم کے جمال اور جلال کا جامع ہے۔ پھر لفظ الرحمن کے ایک اپنے بھی خاص معنی ہیں جو الرحیم کے لفظ میں نہیں پائے جاتے اور وہ یہ ہیں کہ اذن الہی سے مفت آلن کا فیضان انسان اور دوسرے حیوانات کو قدیم زمانہ سے حکمت الہیہ کے اقتضاء اور جو ہرقابل کی قابلیت کے مطابق پنپتا رہا ہے۔ نہ کہ مساوی تقسیم کے طور پر اور اس صفت رحمانیت میں انسانوں یا حیوانوں کے قوی کے کب اورئیل اور کوشش کا کوئی دخل نہیں بلکہ یہ الله تعالی کا خالص احسان ہے جس سے پہلے کسی کا پھل بھی موجو نہیں ہوتا اور یہ خدا تعالی کی طرف سے ایک عام رحمت ہے جس میں ناقص یا کامل شخص کی کوششوں کا کوئی حل نہیں ہوتا۔

حاصل کلام یہ ہے کہ صفت رحمانیت کا فیضان کی مل کامی نہیں ہے اور نیکی استحقاق کا ثمرہ ہے بلکہ یہ ایک خاص فضل ایز دی ہے جس میں فرمانبرداری یا نا فرمانی کا حل نہیں اور یہ فیضان ہمیشہ خدا تعالی کی مشیت اور ارادہ کے ماتحت نازل ہوتا ہے۔ اس میں کسی اطاعت، عبادت، تقوی اور زہد کی شرط نہیں۔ اس فیض کی بنا مخلوق کی پیدائش، اس کے اعمال، اس کی کوشش اور اس کے سوال کرنے سے پہلے ہی رکھی گئی ہے۔ اس لئے اس فیض کے آ ثار انسان اور حیوان کے


page71output.jpg
 
آخری تدوین :

کامران افضال

رکن ختم نبوت فورم
تفسیر مسیح موعود جدید پی ڈی ایف ٹو یونیکوڈ کنورٹ صفحہ 72


تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام
۴۹
سورة الفاتحة

عربی متن:

أقار وجود الإنسان والحيوان، وإن كان ساریا في جميع مراتب الوجود والزمان والمكان والطاعة والعضيان. الاتزی أن رحمانية الله تعالی وسعت الضان والظالين. وتزی قمر و شمسه يطلعان على الطائمين والعاصين. وانہ أعطى كل شي خلقه و گقل أمر کلهم أجمعين. وما من دابۃ الاعلى اللہ رزقھا ولو كان في السموات أو في الأرض. وله خلق وله الأشجار وأخرج منها الثمار والزھر و الریاحين و إنھا رحمۃ هیاھا الله لنفوس قبل أن يبراها وإن فيها تكرة للمتقين و قد أغطى ھذا النعم من غير العمل و من غير الإشتخقاق من الله الراحم اخلاق ومنها نغماء أخرى من حضرۃ الکبریاء هي خارجة ون الإخصاء - کمثل خلق أسباب الصحة و أنواع الخيل، الدواء لکل نوع من الداء. وإرسال الرسل وانزال الكثير على الأنبياء وھذا کلها رحمانیۃ من ربنا ارحم الرحماء وفضل بحت لیس من عمل عامل ولا من التضرع والدعاء واما الرحيمية

اردو ترجمہ:

وجود میں آنے سے پہلے ہی پائے جاتے ہیں اگر چہ فیض تمام مراتب وجود اور زمان و مکان اور حالت طاعت و عصیان میں جاری و ساری رہتا ہے۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ خدا تعالی کی رحمانیت نیکو کاروں اور ظالموں سب پر وسیع ہے اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس کا چاند اور اس کا سورج اطاعت گزاروں اور نافرمانوں بھی پر چڑھتا ہے۔ اور خدا تعالی نے ہر چیز کو اس کے مناسب حال قوی کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اس نے ان سب کے معاملات کا ذمہ لیا ہے اور کوئی بھی جاندار ہیں مگر اس کا رزق اللہ کے زمہ ہے خواہ وہ آسمانوں میں ہو یا زمین میں۔ اسی نے ان کے لئے درخت پیدا کئے اور ان درختوں سے چل پھول اور خوشبو میں پیدا کیں اور یہ اس کی رحمت ہے جسے اللہ تعالی نے انسانوں کی پیدائش سے پہلے ہی ان کے لئے مہیا فرمایا۔ اس میں متقیوں کے لئے نصیحت اور یاد دہانی ہے۔ نیتیں بغیر کسی عمل اور بغیر کسی حق کے اس بے حد مہربان اور عظیم خالق عالم کی طرف سے عطا ہوئی ہیں ۔ اور اس عالی با رگاه سے ایسی ہی اور بھی بہت سی نعمتیں بخشی گئی ہیں جو شارسے باہر ہیں ۔ مثلأ صحت قائم رکھنے کے ذرائع پیدا کرنا اور ہر بیماری کے لئے علاج اور دواؤں کا پیدا کرنا ۔ رسولوں کا مبعوث کرنا اور انبیاء پر کتابوں کا نازل کرنا یہ سب ہمارے رب ارت اور امین کی رحمانیت ہے۔ یہ خالص فضل ہے جو کسی کام کرنے والے کے کام کی گریہ و زاری با دعا کے نتیجہ میں نہیں ہے لیکن رحیمیت و فیض الہی ہے جو
Tafseer_Page_072.png
 

کامران افضال

رکن ختم نبوت فورم
تفسیر مسیح موعود جدید پی ڈی ایف ٹو یونیکوڈ کنورٹ صفحہ 73


تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام
۵۰
سورة الفاتحة

عربی متن:

فهي فيض اخض من فيوض الصفۃ الرحمانية و مخصوصۃ بتكميل التوع البشري و إكمال الحلقة الإنسانية ولكن بشرط السعي و العم الصالح وترك الجذبات النفسانية بل لا تنزل هذه الرخمة حق ژولها إلا بعد المهير البليغ في الأعمال وتعد تركية التي وتغيير الإخلاص باخراج بقايا الزيار وتظهير البالي وبعد إيقار المؤت لابتغاء مرضات الذى الالي. فطوني إن أصابه حظ قن في التعم بل هو الإنسان ويژه التعي. وهنا شؤال عضال تكبة في الكتاب مع الواب يقر فيه من كان من أولي الألباب. وهو أن الة الخار من جميع صفاته صفي الرحمان الرحيم في الشتلة. وما ذگريقة أخرى في هي؟ الأية مع أن انته ا ظة يستحق جميع ما هو من الصفات الكاملة كما هي مگر في الحي الطفرة. تم إن كثرة البيقات تشتره گفة البركات عند التلاوة الشتلة أكل و أولى بهذا المقام والمرتبة. وقد تيب لها

اردو ترجمہ:

صفت رحمانیت کے فیض سے خاص تر ہے۔ یہ فیضان نوع انسانی کی تکمیل اور انسانی فطرت کو کمال تک پہنچانے کے لئے مخصوص ہے لیکن اس کے حاصل کرنے کے لئے کوشش کر تا عمل صال بجا لانا اور جذبات نفسانی کو ترک کرنا شرط ہے۔ یہ رحمت پورے طور پر نازل نہیں ہوتی جب تک اعمال بجا لانے میں پوری کوشش نہ کی جائے اور جب تک تزکیہ نفس نہ ہو اور ر یا کوئی طور پر ترک کر کے خلوص کال اور طہارت قلب حاصل نہ ہو اور جب تک خدائے ذوالجلال کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر موت کو قبول نہ کر لیا جائے۔ پس مبارک ہیں وہ لوگ جنہیں ان نعمتوں سے نہ ملا۔ بلکہ وہی اصل انسان ہیں اور باقی لوگ تو چار پایوں کی مانند ہیں۔ یہاں ایک مشکل سوال ہے جسے ہم اس جگہ مع جواب لکھتے ہیں تا کہ تقلید اس میں غور و فکر کر سکیں اور وہ سوال یہ ہے کہ اللہ تعالی نے بسم الله الخلن الجھ میں اپنی تمام صفات میں سے صرف دو صفات الرحمن اور الرحیم کو ہی اختیار کیا ہے اور کسی اور صفت کا اس آیت میں ذکر نہیں کیا۔ حالانکہ اللہ تعالی کا اسم اعظم (یعنی اللہ) تمام ان صفات کاملہ کا مستحق ہے جو مقدس صحیفوں میں مذکور ہیں ۔ پھر کثرت صفات تلاوت کے وقت کشت برکات کو تلزم ہے۔ میں بسم اللہ کی آیت کریمہ اللہ کی کثرت صفات کے بیان کے مقام اور مرتبہ کی زیادہ حقدار اور سزاوار ہے اور حدیث نبوی میں ہر اہم کام

Tafseer_Page_073.png
 

کامران افضال

رکن ختم نبوت فورم
تفسیر مسیح موعود جدید پی ڈی ایف ٹو یونیکوڈ کنورٹ صفہ74


تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام
۵۱
سورة الفاتحة

عربی متن:
عند كل أمر ذي بال كما جاء في الأحاديث النبوية. و إلها آ وڑدا على الشي أهل اليلة وأن تكرارا في كتاب الله ذي الورة قي كتير و مضية لم يكتب صقات أخرى مع هزه الأية التركة قالوا أن الله أراد في هلا المقام. أن يكر مع اسمه الأعظم قتي هما لاضة بجميع صقايه العظيمة على الوجه الثاق و هما الأمن و الرجيه. كما يهيئ إليه العقل الشليه. فإن الة تملي على هذا العالم تازه پالخبوبية و مه بالمحبية و جعل هاتين الضفتن ضياء ينزل من شي اليوبية على أرض العبودية فقد يكون الرب محبوبا العبد يا نايك المحبوب وقد يكون العب مخبوا الرب مياله واعله المطلوب. ولا شك أن الفطرة الإشارية التي فطرت على التحتية والخلة ولوعة البال. تفتحي أن يكون لها بوا بها إلى وجهه تجليات الجبال والعيد والوالي

اردو ترجمہ:

شروع کرتے وقت بسم اللہ پڑھنا مستحسن قرار دیا گیا ہے نیز یہ آیت مسلمانوں کی زبانوں پر اکثر جاری رہتی ہے۔ اور خدائے عزیز کی کتاب قرآن کریم میں بڑی کثرت سے دہرائی گئی ہے۔ تو پھر کس حکمت اور مصلحت کے ماتحت اس مبارک آیت میں خدا تعالی کی دوسری صفات درج نہیں کی گئیں۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ الله تعالی نے اس جگہ ارادہ فرمایا کہ اپنے اسم اعظم کے ساتھ انہی دو صفات کا ذکر کرے جو اس کی تمام صفات عظیمہ کا پورا پورا خلاصہ ہیں۔ اور وہ دونوں صفات الرحمن اور الرحیم ہیں۔ چنانچ عقل سلیم بھی اسی کی طرف راہنمائی کرتی ہے۔ کیونکہ خدا تعالی نے اس دنیا پر بھی بطور محبوب اور بھی بطور محب تجلی فرمائی ہے اور اس نے ان دونوں صفات کو ایسی روی بنایا ہے جو آفتاب ربوبیت سے عبودیت کی زمین پر نازل ہوتی ہے۔ میں بھی تو خدا تعالی محبوب بن جاتا ہے اور بندہ اس محبوب کا محبت اور بھی بند محبوب بن جاتا ہے اور خدا تعالی اس کا محبت ہوتا ہے اور بندہ کو مطلوب کی طرح بنالیتا ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ انسانی فطرت جس میں محبت، دوستی اور سوز دل ودیعت کیا گیا ہے چاہتی ہے کہ اس کا کوئی محبوب ہو جو اسے اپنی تجلیات جمالیہ اور نعمتوں اور عطایا سے اپنی طرف کھینچے اور یہ کہ اس کا کوئی ایاغم خوار دوست ہو جو خوف اور پریشان حالی کے وقت اس کا ساتھ دے وہ اس کے اعمال کو ضائع ہونے سے

Tafseer_Page_074.png
 
آخری تدوین :

کامران افضال

رکن ختم نبوت فورم
تفسیر مسیح موعود جدید پی ڈی ایف ٹو یونیکوڈ کنورٹ صفہ75

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام
۵۲
سورة الفاتحة

عربی متن:

وأن يكون له محبا مواسيا يتدارك عند الاھوال و يحفظها من ضیعة الأعمال. و يوصلها إلى الامالي فأراد الله أن يعطيها ما اقتضتھا ويته عليها يعته ودو العييي. فتجلى عليها بصيد الرحمن و الرحیم. ولا ريب أنهائيي القتين هما الؤضلة بن الريبية و العبودية. و با ته د آیر الشك والتعارفي الإنسانية. ق صقة بعدها داخلة في أثوارها. وقطر تن بحار هيا. له إن ذات الله تعالی گیا اقتضت لنفسها أن تگون لنوع الإنسان محبوبة و حية. كذالك اقتضت يوبايو المحتمل أن يكونوا يبي توعهم گيقلي ذاته لقا ؤ سيره. و يجعلوا هائين التي تسهم يباشا و کشوة يتلقى العبودية بأخلاق الروبية. ولا ينفي تقض في الشأة الإنسانية قلق البين و المزلن تقل به مهر صقيه الزمان و به مظهر صقيه الجيد. ليكونوا مويين و محبت و عاشوا بالكتاب يقضيه العظي۔ أغلى ب قة كظا وافرا قن صقة

اردو ترجمہ:

بچائے اور اس کی امیدوں کو پورا کرے میں خدا تعالی نے ارادہ کیا کہ جو کچھ انسان کی فطرت تقاضا کرتی ہے وہ اسے عطا کرے اور اپنی وسیع بخشش کے طفیل اس پر اپنی نعمتوں کو پورا کرے۔ سو اس نے اپنی انہی دوصفات الرحمن اور الرحیم کے ساتھ اس پر تجلی فرمائی۔ اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ دونوں صفات ربوبیت اور عبودیت کے درمیان ایک واسطہ ہیں اور انہی دونوں کے ذریعہ انسانی معرفت اور سلوک کا دائرہ مکمل ہوتا ہے۔ ان دونوں کے علاوہ خدا تعالی کی باتی تمام صفات انہی دو صفتوں کے انوار میں شامل ہیں اور ان سمندروں کا ایک قطرہ ہیں ۔ پھر اللہ تعالی کی ذات نے جس طرح اپنے لئے چاہا ہے کہ وہ نوع انسان کے لئے محبوب اور حب بنے اسی طرح اس نے اپنے کامل بندوں کے لئے چاہا کہ وہ بھی دوسرے بنی نوع انسان کے لئے اپنے اخلاق اور سیرت کے لحاظ سے اس کی ذات والا صفات کا پرتو ہوں اور ان دونوں صفات کو اپنا لباس اور پوشش بنا لیں تا عبودیت ربوبیت کے اخلاق کا جامہ پہن لے۔ اور انسان کے روحانی نشوونما میں کوئی نقص باقی نہ رہ جائے۔ پس اس نے انبیاء اور مرسلین کو پیدا کیا اور ان میں سے بعض کو اپنی صفت رحمانیت کا اور بعض کو اپنی صفت رحیمیت کا مظہر بنایا تا کہ وہ محبوب بھی ہوں اور محب بھی

Tafseer_Page_075.png
 
آخری تدوین :
Top