ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
1۔اس کے ساتھ ایک لڑکی پیداہوگی جو اس (مرزاقادیانی) سے پہلے نکلے گی اور وہ اس کے بعد نکلے گا اور اس کا سر دختر کے پیروں سے ملا ہوا ہوگا،یعنی دختر معمولی طور سے پیدا ہوگی کہ پہلے سر نکلے گا اور پھر پیر اور اس کے پیروںکے بعد بلاتوقف اس پسر کا سر نکلے گا۔ جیساکہ میری ولادت اور میری توام ہمشیرہ کی اسی طرح ظہور میں آئی۔ (تریاق القلوب ، خزائن جلد 15صفحہ482،483)
کیفیت ولادت
2۔میرے ساتھ ایک لڑکی پیدا ہوئی تھی۔ جس کا نام جنت تھا اور پہلے وہ لڑکی پیٹ میں سے نکلی تھی اور بعد اس کے میں نکلا تھا اور میرے بعد میرے والدین کے گھر میں اور کوئی لڑکی یا لڑکا نہیں ہوا اور میں ان کے لئے خاتم الاولاد تھا۔(تریاق القلوب ، خزائن جلد15 صفحہ479)
چڑیاں پکڑنا اور سر کنڈے سے حلال کرنا
3۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہا: کہ تمہاری دادی ایمہ ضلع ہوشیار پور کی رہنے والی تھیں۔ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہم اپنی والدہ کے ساتھ بچپن میں کئی دفعہ ایمہ گئے ہیں۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ وہاں حضرت صاحب بچپن میں چڑیاں پکڑا کرتے تھے اور چاقو نہیں ملتا تھا تو سر کنڈے سے ذبح کر لیتے تھے۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ ایک دفعہ ایمہ سے چند بوڑھی عورتیں آئیں تو انہوں نے باتوں باتوں میں کہا کہ سندھی ہمارے گاؤں میں چڑیاں پکڑا کرتا تھا۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میں نے نہ سمجھا کہ سندھی سے کون مراد ہے۔ آخر معلوم ہوا کہ ان کی مراد حضرت صاحب سے ہے۔( سیرۃ المہدی جلد1،صفحہ40، روایت نمبر 51)
4۔نیز والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہم بچپن میں چڑیاں پکڑا کر تے تھے اور چاقو نہ ہوتا تھا تو تیز سر کنڈے سے ہی حلال کر لیتے تھے۔(سیرت المہدی جلد1 ،صفحہ231،روایت نمبر251)
5۔بیان کیا مجھ سے مرزاسلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم۔اے نے کہ ایک دفعہ والد صاحب (مرزاغلام احمد) اپنے چوبارے کی کھڑکی سے گر گئے اور دائیں بازو پر چوٹ آئی۔ چنانچہ آخر عمر تک وہ ہاتھ کمزور رہا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ آپ کھڑکی سے اترنے لگے تھے۔ سامنے اسٹول رکھا تھا وہ الٹ گیا اور آپ گر گئے اور دائیں ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی اور یہ ہاتھ آخر عمر تک کمزور رہا۔ اس ہاتھ سے آپ لقمہ تو منہ تک لے جا سکتے تھے مگر پانی کا برتن وغیرہ منہ تک نہیںاٹھا سکتے تھے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ نماز میں بھی آپ کو دایاںہاتھ بائیں ہاتھ کے سہارے سے سنبھالنا پڑتا تھا۔(سیرۃ المہدی جلد1 صفحہ198، روایت نمبر187)
مرزا کی تلاش
6۔اگر کبھی اتفاق سے ان سے (مرزاغلام احمد قادیانی کے والد غلام مرتضیٰ سے) کوئی دریافت کرتا کہ مرزاغلام احمد کہاں ہے؟ تو وہ یہ جواب دیتے تھے کہ مسجد میں جاکر سقاوہ کی ٹوٹنی میں تلاش کرو۔ اگر وہاں نہ ملے تو مایوس ہوکر واپس مت آنا۔ مسجد کے اندر چلے جانا اور وہاں کسی گوشہ میں تلاش کرنا اگر وہاں بھی نہ ملے تو پھر بھی ناامید ہوکر واپس لوٹ مت آنا۔ کسی صف میں دیکھنا کہ کوئی اس کو لپیٹ کر کھڑا کر گیا ہوگا۔ کیونکہ وہ تو زندگی میں مرا ہوا ہے اور اگر کوئی اسے صف میں لپیٹ دے تو وہ آگے سے حرکت بھی نہیں کرے گا۔(حضرت مسیح موعود کے مختصر حالات صفحہ 67،مجدد اعظم صفحہ 27)
پانچ اور پچاس کا مشہور زمانہ فراڈ
7۔مرزا قادیانی نے براہین احمدیہ کتاب کی پچاس جلدیں شائع کرنے کا وعدہ کیا تھا اور اس کام کے لیے مسلمانوں سے پیشگی رقم لے لی تھی ، مگر مرزا کا یہ وعدہ کبھی وفا نہ ہوسکا۔مرزا نے اپنے وعدے کے برخلاف صرف پانچ چھوٹے چھوٹے رسالے رکھ کر شائع کر دیے اور کہا کہ
”کیوں کہ پچاس اور پانچ کے عدد میں صرف ایک نکتے کا فرق ہے اس لئے پانچ حصوں سے وہ وعدہ پورا ہو گیا“ (براہین احمدیہ حصہ پنجم خزائن جلد 21 صفحہ 9)
8۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے ایک دفعہ اپنی جوانی کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود تمہارے دادا کی پنشن وصول کرنے گئے تو پیچھے پیچھے مرزا امام الدین بھی چلا گیا۔ جب آپ نے پنشن وصول کر لی تو آپ کو پھسلا کر اور دھوکہ دے کر بجائے قادیان لانے کے باہر لے گیا اور ادھر ادھر پھراتا رہا۔ پھر جب اس نے سارا روپیہ اڑا کر ختم کر دیا تو آپ کو چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا۔ حضرت مسیح موعود اس شرم سے واپس گھر نہیں آئے اور چونکہ تمہارے دادا کا منشا رہتا تھا کہ آپ کہیں ملازم ہو جائیں۔ اس لئے آپ سیالکوٹ شہر میں ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں قلیل تنخواہ پر ملازم ہوگئے اور کچھ عرصہ تک وہاں ملازمت پرر ہے۔ پھر جب تمہاری دادی بیمار ہوئیں تو تمہارے دادا نے آدمی بھیجا کہ ملازمت چھوڑ کر آجاؤ۔ جس پر حضرت صاحب فوراً روانہ ہوگئے۔(سیرت المہدی جلد1 صفحہ38،39 ، روایت نمبر49)
مختاری کے امتحان میں فیل
9۔آپ مختاری کے امتحان میں فیل ہو گئے۔ اسی روایت میںہے کہ پادری بٹلر سے مرزاقادیانی کا مباحثہ ہوتا رہا۔ وہ پادری ولایت جانے لگے تو مرزاقادیانی سے کچہری میں ملنے آئے۔ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں۔ ’’چنانچہ جب پادری صاحب ولایت جانے لگے تو مرزاقادیانی کی ملاقات کے لئے کچہری تشریف لائے۔ ڈپٹی کمشنر صاحب نے پادری صاحب سے تشریف آوری کا سبب پوچھا تو پادری صاحب نے جواب دیا کہ میں مرزاصاحب سے ملاقات کرنے کو آیا تھا۔ چونکہ میں وطن جانے والا ہوں۔ اس واسطے ان سے آخری ملاقات کروں گا۔ چنانچہ جہاں مرزاقادیانی بیٹھے تھے وہیں چلے گئے اور فرش پر بیٹھے رہے اور ملاقات کر کے چلے گئے۔(سیرۃ المہدی جلد1 صفحہ141,142، روایت نمبر150)
نبوت کی دکانیں
10۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ میں نے سنا کہ مرزاامام الدین اپنے مکان میں کسی کو مخاطب کر کے بلند آواز سے کہہ رہا تھا کہ بھئی (یعنی بھائی) لوگ (حضرت صاحب کی طرف اشارہ تھا) دکانیں چلا کر نفع اٹھارہے ہیں۔ ہم بھی کوئی دکان چلاتے ہیں۔ والدہ صاحب فرماتی تھیں کہ پھر اس نے چوہڑوں کی پیری کا سلسلہ جاری کیا۔(سیرۃ المہدی جلد1 صفحہ28، روایت نمبر39)
11۔مفتی صادق نے مرزا کو خط لکھا ”میاں محمود احمد کا نام برائے امتحان (مڈل) آج ارسال کیا جائے گا۔جس فارم کی خانہ پری کرنی ہے۔اس میں ایک خانہ ہے کہ اس لڑکے کا باپ کیا کام کرتا ہے۔میں نے وہاں لفظ نبوت لکھا ہے۔“ (ذکر حبیب صفحہ 193)
مرزاکوشکار کا شوق
12۔میاں امام دین سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ بہت ابتدائی زمانہ کا ذکر ہے کہ مولوی غلام علی صاحب ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ بندوبست ضلع گورداسپور مرزانظام الدین صاحب کے مکان میں آکر ٹھہرے ہوئے تھے۔ ان کو شکار دیکھنے کا شوق تھا۔ وہ مرزانظام الدین صاحب کے مکان سے باہر نکلے اور ان کے ساتھ چند کس سانسی بھی جنہوں نے کتے پکڑے ہوئے تھے نکلے۔ مولوی غلام علی صاحب نے شاید حضرت صاحب کو پہلے اطلاع دی ہوئی تھی۔ حضرت صاحب بھی باہر تشریف لے آئے۔ آگے چل پڑے۔ ہم پیچھے پیچھے جا رہے تھے۔ اس وقت حضرت کے پاؤں میں جو جوتا تھا۔ شاید وہ ڈھیلا ہونے کی وجہ سے ٹھپک ٹھپک کرتا جاتا تھا۔ مگر وہ بھی حضرت صاحب کو اچھا معلوم ہوتا ہے۔ چلتے چلتے پہاڑی دروازہ پر چلے گئے۔ وہاں ایک مکان سے سانسیوں نے ایک بلے کو چھیڑ کر نکالا۔ یہ بلا شاید جنگلی تھا۔ جو وہاں چھپا ہوا تھا۔ جب وہ بلا مکان سے باہر بھاگا تو تمام کتے اس کو پکڑنے کے لئے دوڑے۔ یہاں تک کہ اس بلے کو انہوں نے چیر پھاڑ کر رکھ دیا۔ یہ حالت دیکھ کر حضرت صاحب چپ چاپ واپس اپنے مکان کو چلے آئے اور کسی کو خبر نہ کی۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ صدمہ دیکھ کر آپ نے برداشت نہ کیا اور واپس آگئے۔(سیرت المہدی جلد1 صفحہ802،803، روایت نمبر934)
مرزا تھیٹر جاتا تھا
13۔حضرت مرزاقادیانی کے امرتسر جانے کی خبر سے بعض اور احباب بھی مختلف شہروں سے وہاں آگئے۔ چنانچہ کپورتھلہ سے محمد خاں صاحب مرحوم اور منشی ظفر احمد صاحب بہت دنوں وہاں ٹھہرے رہے۔ گرمی کا موسم تھا اور منشی صاحب اور میں۔ ہر دو نحیف البدن اور چھوٹے قد کے آدمی ہونے کے سبب ایک ہی چارپائی پر دونوں لیٹ جاتے تھے۔ ایک شب دس بجے کے قریب میں تھیٹر میں چلا گیا۔ جو مکان کے قریب ہی تھا اور تماشہ ختم ہونے پر دو بجے رات کو واپس آیا۔ صبح منشی ظفر احمد نے میری عدم موجودگی میں حضرت صاحب کے پاس میری شکایت کی کہ مفتی صاحب رات تھیٹر چلے گئے۔ حضرت صاحب (مرزاقادیانی) نے فرمایا۔ ایک دفعہ ہم بھی گئے تھے تاکہ معلوم ہو کہ وہاں کیا ہوتا ہے۔ اس کے سوا اور کچھ نہ فرمایا۔ منشی صاحب نے خود ہی مجھ سے ذکر کیا کہ میں تو حضرت صاحب کے پاس آپ کی شکایت لے کر گیا تھا اور میرا خیال تھا کہ حضرت صاحب آپ کو بلا کر تنبیہ کریں گے۔ مگر حضور نے تو صرف یہی فرمایا کہ ایک دفعہ ہم بھی گئے تھے اور اس سے معلومات حاصل ہوتے ہیں۔ میں نے کہا کہ حضرت کا کچھ نہ فرمانا یہ بھی ایک تنبیہ ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ آپ مجھ سے ذکر کریں گے۔(ذکر حبیب، مفتی صادق قادیانی صفحہ14)
تھیٹروں میں کیا ہوتا تھا
14۔چناچہ تھیٹروں میں تماشہ کرنے والی عورتیں اس حد تک کپڑے اتار دیتی ہیں کہ انکے بالکل برہنہ ہونے میں صرف انیس بیس کا فرق رہ جاتا ہے۔ (الحکم 31 مئی 1901 صفحہ 16 کالم 2)
15۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل نے مجھ سے بیان کیا۔ حضرت مسیح موعود اپنے جسمانی عادات میں ایسے سادہ تھے کہ بعض دفعہ جب حضور جراب پہنتے تھے تو بے توجہی کے عالم میں اس کی ایڑھی پاؤں کے تلے کی طرف نہیں بلکہ اوپر کی طرف ہو جاتی تھی اور بارہا ایک کاج کا بٹن دوسرے کاج میں لگا ہوا ہوتا تھا اور بعض اوقات کوئی دوست حضور کے لئے گرگابی ہدیتہ لاتا تو آپ بسا اوقات دایاں پاؤں بائیں میں ڈال لیتے تھے اور بائیاں دائیں میں۔ چنانچہ اسی تکلیف کی وجہ سے آپ دیسی جوتی پہنتے تھے۔‘‘(سیرۃ المہدی جلد1 صفحہ344، روایت نمبر378)
16۔ایک دفعہ کوئی شخص آپ کے لئے گرگابی لے آیا۔ آپ نے پہن لی۔ مگر اس کے الٹے سیدھے پاؤں کا آپ کو پتہ نہیں لگتا تھا۔ کئی دفعہ الٹی پہن لیتے تھے اور پھر تکلیف ہوتی تھی۔ بعض دفعہ آپ کا الٹا پاؤں پڑ جاتا تو تنگ ہوکر فرماتے۔ ان کی (انگریز کی) کوئی چیز بھی اچھی نہیں۔ (اور خود ان کا خود کاشتہ پودا ہے) والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میں نے آپ کی سہولت کے واسطے سیدھے پاؤں کی شناخت کے لئے نشان لگا دئیے تھے۔ مگر باوجود اس کے آپ الٹا سیدھا پہن لیتے تھے۔ اس لئے آپ نے اسے اتار دیا۔‘‘ (سیرت المہدی جلد1صفحہ60، روایت نمبر83)
غلط کاج،گرمیوں میں بھی گرم کپڑے
17۔بارہا دیکھا گیا کہ بٹن اپنا کاج چھوڑ کر دوسرے میں لگے ہوتے تھے۔ بلکہ صدری کے بٹن کوٹ کے کاجوں میں لگے ہوئے دیکھے گئے… کوٹ، صدری اور پاجامہ گرمیوں میں بھی گرم رکھتے تھے۔‘‘(سیرت المہدی جلد1صفحہ417، روایت نمبر447)
18۔کپڑوں کی احتیاط کا یہ عالم تھا۔ صدری ٹوپی عمامہ رات کو اتار کر تکیے کے نیچے ہی رکھ لیتے اور رات بھر تمام کپڑے جنہیں محتاط لوگ شکن اور میل سے بچانے کو الگ جگہ کھونٹی پر ٹانگ دیتے ہیں۔ وہ بستر پر سر اور جسم کے نیچے ملے جاتے اور صبح کو ان کی ایسی حالت ہو جاتی کہ اگر کوئی فیشن کا دلدادہ اور سلوٹ کا دشمن دیکھ لے تو سر پیٹ لے۔‘‘(سیرت المہدی جلد1صفحہ419، روایت نمبر447)
تیل والا ہاتھ سینہ تک چلا جاتا
19۔نئی جوتی جب پاؤں میں کاٹتی تو جھٹ ایڑی بٹھا لیتے تھے اور اسی سبب سے سیر کے وقت گرداڑاڑ کرپنڈلیوں پر پڑ جایا کرتی تھی۔ جس کو لوگ اپنی پگڑیوں وغیرہ سے صاف کردیا کرتے تھے۔ چونکہ حضور (مرزاقادیانی) کی توجہ دنیاوی امور کی طرف نہیں ہواکرتی۔ اس لئے آپ کی واسکٹ کے بٹن ہمیشہ اپنے چاکوں سے جدا ہی رہتے تھے اور اسی وجہ سے اکثر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سے شکایت فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے بٹن تو بڑی جلدی ٹوٹ جایا کرتے ہیں۔ شیخ رحمت اﷲ صاحب یادیگر احباب اچھے اچھے کپڑے کے کوٹ بنوا کر لایا کرتے تھے۔ حضور کبھی تیل سر مبارک میں لگاتے تو تیل والا ہاتھ سر مبارک اور داڑھی مبارک سے ہوتا ہوا بعض اوقات سینہ تک چلا جاتا۔ جس سے قیمتی کوٹ پر دھبے پڑ جاتے۔‘‘(اخبار الحکم قادیان ج۳۸ نمبر۶، مورخہ ۲۱؍فروری ۱۹۳۹ئ)
مرزا کا غرارہ
20۔آخری ایام میں حضور ہمیشہ ایسے پاجامے پہنا کرتے تھے جو نیچے سے تنگ اوپر سے کھلے۔ گاؤ دم طرز کے اور شرعی کہلاتے ہیں۔ لیکن شروع میں ۹۵۔۱۸۹۰ء میں میں نے حضور کو بعض دفعہ پہنے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ (ذکر حبیب،صفحہ31)
جیب میں بڑی انیٹ
21۔آپ کے ایک بچے نے آپ کی واسکٹ کی ایک جیب میں ایک بڑی اینٹ ڈال دی۔ آپ جب لیٹتے تو وہ اینٹ چبھتی۔ کئی دن ایسا ہوتا رہا۔ ایک دن اپنے ایک خادم کو کہنے لگے کہ میری پسلی میں درد ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چیز چبھتی ہے۔ وہ حیران ہوا اور آپ کے جسم مبارک پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ اس کا ہاتھ اینٹ پر جا لگا۔ جھٹ جیب سے اینٹ نکال لی۔ دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا کہ چند روز ہوئے محمود نے میری جیب میں ڈالی تھی اور کہا تھا کہ اسے نکالنا نہیں۔ میں اسی سے کھیلوں گا۔(حضرت مسیح موعود کے مختصر حالات ملحقہ براہین احمدیہ طبع چہارم صفحہ’’ ق ‘‘ ،مرتبہ معراج الدین عمر قادیانی)
22۔بیان کیا مجھ سے والدہ صاحب نے کہ ایک دفعہ حضرت (مرزا قادیانی )سناتے تھے کہ جب میں بچہ ہوتا تھا تو ایک دفعہ بعض بچوںنے مجھے کہا کہ جاؤ گھر سے میٹھا لاؤ۔ میں گھر میں آیا اور بغیر کسی سے پوچھنے کے ایک برتن میں سے سفید بورا (چینی) اپنی جیبوں میں بھر کر باہر لے گیا اور راستہ میں ایک مٹھی بھر کرمنہ میں ڈال لی۔ پس پھر کیا تھا میرا دم رک گیا اور بڑی تکلیف ہوئی۔ کیونکہ معلوم ہوا کہ جسے میں نے سفید بورا سمجھ کر جیبوں میں بھرا تھا وہ بورا نہ تھا بلکہ پسا ہوا نمک تھا۔(سیرت المہدی جلد1صفحہ225، روایت نمبر244)
چابیاں ازاربند کے ساتھ، ریشمی ازاربند
23۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ آپ معمولی نقدی وغیرہ اپنے رومال میں جو بڑے سائز کا ململ کا بنا ہوا تھا۔ باندھ لیا کرتے تھے اور رومال کا دوسرا کنارہ واسکٹ کے ساتھ سلوا لیتے یا کاج میں بندھوا لیتے اور چابیاں ازاربند کے ساتھ باندھتے تھے۔ جو بوجھ سے بعض اوقات لٹک آتا تھا اور والدہ صاحبہ بیان فرماتی ہیں کہ حضرت مسیح موعود عموماً ریشمی ازاربند استعمال فرماتے تھے۔ کیونکہ آپ کو پیشاب جلدی جلدی آتا تھا۔ اس لئے ریشمی ازاربند رکھتے تھے۔ تاکہ کھلنے میں آسانی ہو اور گرہ بھی پڑ جاوے تو کھولنے میں دقت نہ ہو۔ سوتی ازاربند میں آپ سے بعض وقت گرہ پڑ جاتی تھی تو آپ کو بڑی تکلیف ہوتی تھی۔(سیرت المہدی حصہ اوّل ص۵۵، روایت نمبر۶۵)
گڑ اور ڈھیلے ایک ہی جیب میں
24۔آپ کو شیرینی سے بہت پیار ہے اور مرض بول بھی عرصہ سے آپ کو لگی ہوئی ہے۔ اس زمانہ میں آپ مٹی کے ڈھیلے محض وقت جیب میں ہی رکھتے تھے اور اسی جیب میں گڑ کے ڈھیلے بھی رکھ لیا کرتے تھے۔(حضرت مسیح موعود کے مختصر حالات صفحہ 67)
گھڑی دیکھنا
25۔بیان کیا مجھ سے عبداﷲ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ کسی شخص نے حضرت کو ایک جیبی گھڑی تحفہ دی۔ حضرت صاحب اس کو رومال میں باندھ کر جیب میں رکھتے تھے۔ زنجیر نہیں لگاتے تھے اور جب وقت دیکھنا ہوتا تھا تو گھڑی نکال کر ایک کے ہندسے یعنی عدد سے گن کر وقت کا پتہ لگاتے تھے اور انگلی رکھ کر ہندسہ گنتے تھے اور منہ سے بھی گنتے جاتے تھے۔ میاں عبداﷲ صاحب نے بیان کیا کہ آپ کا جیب سے گھڑی نکال کر اس طرح وقت شمار کرنا مجھے بہت ہی پیارا معلوم ہوتا تھا۔(سیرت المہدی جلد1صفحہ165، روایت نمبر165)
26۔مولوی شیر علی نے بیان کیا کہ ایک دفعہ مرزاقادیانی مع چند خدام کے فوٹو کھچوانے لگے تو فوٹو گرافر آپ سے عرض کرتا تھا کہ حضور ذرا آنکھیں کھول کر رکھیں۔ ورنہ تصویر اچھی نہیں آئے گی اور آپ نے اس کے کہنے پر ایک دفعہ تکلیف کے ساتھ آنکھوں کو کچھ کھولا بھی مگر وہ پھر اسی طرح بند ہوگئیں۔‘‘ (سیرۃ المہدی جلد1 صفحہ364، روایت نمبر407)
دانت سے زبان زخمی ہو گئی
27۔دندان مبارک آپ کے (مرزاغلام احمد قادیانی کے) آخر عمر میں کچھ خراب ہوگئے تھے۔ یعنی کیڑا بعض ڈاڑھوں کو لگ گیا تھا۔ جس سے کبھی کبھی تکلیف ہو جاتی تھی۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک داڑھ کا سر ایسا نوک دار ہوگیا تھا کہ اس سے زبان میں زخم پڑھ گیا۔ توریتی کے ساتھ اس کو گھسوا کر برابر کروایا تھا۔ مگر کبھی کوئی دانت نکلوایا نہیں۔ مسواک آپ اکثر فرمایا کرتے تھے۔(سیرۃ المہدی جلد1 صفحہ415، روایت نمبر447)
اپنی انگلی کاٹ ڈالی
28۔خاکسار کے ماموں ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ گھر میں ایک مرغی کے چوزہ کے ذبح کرنے کی ضرورت پیش آئی اور اس وقت گھر میں کوئی اور اس کام کو کرنے والا نہ تھا۔ اس لئے حضرت (مرزاقادیانی) اس چوزہ کو ہاتھ میں لے کر خود ذبح کرنے لگے۔ مگر بجائے چوزہ کی گردن پر چھری پھیرنے کے غلطی سے اپنی انگلی کاٹ ڈالی۔ جس سے بہت خون گیا اور آپ توبہ توبہ کرتے ہوئے چوزہ کو چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ پھر وہ چوزہ کسی اور نے ذبح کیا… حضرت مسیح موعود (مرزا) نے چوں کہ کبھی جانور وغیرہ ذبح نہ کئے تھے۔ اس لئے بجائے چوزہ کی گردن کے انگلی پر چھری پھیر لی۔(سیرۃ المہدی جلد1 صفحہ285،روایت نمبر307 )
پائوں پر چونڈھیاں
29۔کسی مرید نے مرزا قادیانی کے پائوں پر چونڈھیاں بھرنی شروع کردیں مگر آپ خاموشی سے برداشت کرتے رہے۔‘‘ (سیرت المہدی جلد1 صفحہ 768، روایت نمبر866)
دامن پر آگ
30۔مرزا قادیانی کہتا ہے کہ: ’’ایک مرتبہ میرے دامن کو آگ لگی تھی مجھے خبر نہ ہوئی۔‘‘(سیرت المہدی ج 1صفحہ217، روایت نمبر236)
31۔حضرت مسیح موعود کو اگر تیمم کرنا ہوتا تو بسا اوقات تکیہ یا لحاف پر ہی ہاتھ مار کر تیمم کر لیا کرتے تھے۔ ( سیرت المہدی جلد1 صفحہ774 ، روایت نمبر 878)
اپنی چھڑی کی پہچان نہیں ہوئی
32۔چھڑی ایک دفعہ ہاتھ میں لے کر اسے دیکھا اور فرمایا یہ کس کی چھڑی ہے۔ عرض کیا گیا حضور کی ہے جو حضور اپنے ہاتھ میں رکھا کرتے ہیں آپ نے فرمایا اچھا میں تو سمجھا کہ یہ میری نہیں ہے حالانکہ وہ چھڑی مدت سے آپ کے ہاتھ میں رہتی تھی۔(سیرت المہدی جلد 1صفحہ 226،روایت نمبر 246 )
ساتھی کی پہچان
33۔سیر کو جاتے ہوئے اپنے خادم کو جو کہ آپ کے ساتھ ہوتا آپ کو اس کا علم نہ ہوتا اور نہ پہچان ہوتی۔ کسی کے جتلانے پر آپ کو پتہ چلتا کہ وہ شخص آپ کے ساتھ ہے۔(سیرت المہدی جلد 1صفحہ 364،روایت نمبر406)
کھانا کھانے کا قادیانی طریقہ
34۔بعض دفعہ تو دیکھا گیا کہ آپ روکھی روٹی کا نوالہ منہ میں ڈال لیا کرتے تھے اور پھر انگلی کا سرا شوربے میں تر کر کے زبان سے چھوا دیا کرتے تھے۔ تاکہ لقمہ نمکین ہو جاوے۔(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 422، روایت نمبر422)
روٹی کے ٹکڑے
35۔حضرت مسیح موعود جب کھانا کھایا کرتے تھے تو بمشکل ایک پھلکا آپ کھاتے اور جب آپ اٹھتے تو روٹی کے ٹکڑوں کا بہت سا چورہ آپ کے سامنے سے نکلتا۔ آپ کی عادت تھی کہ روٹی توڑتے اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرتے جاتے۔ پھر کوئی ٹکڑا اٹھا کر منہ میں ڈال لیتے اور باقی ٹکڑے دستر خوان پر رکھے رہتے۔ معلوم نہیں مسیح موعود ایسا کیوں کرتے تھے۔ مگر کئی دوست کہا کرتے کہ حضرت صاحب یہ تلاش کرتے ہیں کہ ان روٹی کے ٹکڑوں میں سے کون سا تسبیح کرنے والا ہے اور کون سا نہیں۔( اخبار الفضل۳؍مارچ۱۹۳۵ئ ،صفحہ7،8)
36۔کبھی کبھی آپ پانی کا گلاس یا چائے کی پیالی بائیں ہاتھ سے پکڑ کر پیا کرتے تھے اور فرماتے تھے۔ ابتدائی عمر میں دائیں ہاتھ میں ایسی چوٹ لگی تھی کہ اب تک بوجھل چیز اس ہاتھ سے برداشت نہیں ہوتی۔(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 422، روایت نمبر422)
ٹہلتے ٹہلتے کرارے پکوڑےکھایا کرتے
37۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداﷲ صاحب سنوری نے کہ حضرت صاحب جب بڑی مسجد میں جاتے تھے تو گرمی کے موسم میں کنوئیں سے پانی نکلوا کر ڈول سے ہی منہ لگا کر پانی پیتے تھے اور مٹی کے تازہ ٹنڈیاتازہ آبخورہ میں پانی پینا آپ کو پسند تھا اور میاں عبداﷲ صاحب نے بیان کیا کہ حضرت صاحب! اچھے تلے ہوئے کرارے پکوڑے پسند کرتے تھے۔ کبھی کبھی مجھ سے منگوا کر مسجد میں ٹہلتے ٹہلتے کھایا کرتے تھے اور سالم مرغ کا کباب بھی پسند تھا۔(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 166، روایت نمبر167)
راکھ کے ساتھ روٹی
38۔بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ بعض بوڑھی عورتوں نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ بچپن میں حضرت صاحب نے اپنی والدہ سے روٹی کے ساتھ کچھ کھانے کو مانگا۔ انہوں نے کوئی چیز شاید گڑ بتایا کہ یہ لے لو۔ حضرت صاحب نے کہا نہیں یہ میں نہیں لیتا۔ انہوں نے کوئی اور چیز بتائی۔ حضرت صاحب نے اس پر بھی وہی جواب دیا۔ وہ اس وقت کسی بات پر چڑی ہوئی بیٹھی تھیں۔ سختی سے کہنے لگیں کہ جاؤ پھر راکھ سے روٹی کھا لو۔ حضرت صاحب روٹی پر راکھ ڈال کر بیٹھ گئے اور گھر میں ایک لطیفہ ہوگیا۔ یہ حضرت صاحب کا بالکل بچپن کا واقعہ ہے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ والدہ صاحبہ نے یہ واقعہ سنا کر کہا۔ جس وقت اس عورت نے مجھے یہ بات سنائی تھی۔ اس وقت حضرت صاحب بھی پاس تھے۔ مگر آپ خاموش رہے۔(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ225،226، روایت نمبر245)
مرزا کا کھانا کتا لے گیا
39۔مولوی عبدالکریم سیالکوٹی قادیانی نے لکھا کہ: ’’مجھے یاد ہے کہ حضرت لکھ رہے تھے۔ ایک خادمہ کھانا لائی اور حضرت کے سامنے رکھ دیا اور عرض کیا کھانا حاضر ہے۔ فرمایا خوب کیا۔ مجھے بھوک لگ رہی تھی اور میں آواز دینے کو تھا وہ چلی گئی اور آپ پھر لکھنے میں مصروف ہوگئے۔ اتنے میں کتا آیا اور بڑی فراغت سے سامنے بیٹھ کر کھانا کھایا اور برتنوں کو بھی صاف کیا اور بڑے سکون اور وقار سے چل دیا۔ اﷲ اﷲ ان جانوروں کو بھی کیا عرفان بخشا گیا ہے۔ وہ کتا اگرچہ رکھا ہوا اور سدھا ہوا نہ تھا۔ مگر خدا معلوم اسے کہاں سے یقین ہوگیا اور بجا یقین ہوگیا کہ یہ پاک وجود بے ضرر وجود ہے اور یہ وہ ہے جس نے کبھی چیونٹی کو بھی پاؤں تلے نہیں مسلا اور جس کا ہاتھ کبھی دشمن پر بھی نہیں اٹھا۔ غرض ایک عرصہ کے بعد وہاں ظہر کی اذان ہوئی تو آپ کو پھر کھانا یاد آیا۔ آواز دی خادمہ دوڑی آئی اور عرض کیا کہ میں تو مدت ہوئی کھانا آپ کے آگے رکھ کر آپ کو اطلاع کر آئی تھی۔ اس پر آپ نے مسکرا کر فرمایا اچھا تو شام کو ہی کھائیں گے‘ ‘ ۔(سیرت مسیح موعودصفحہ32)