موت کے حوالے سے امام جعفر صادق ؓ کی چند باتیں جو نظر سے گزریں شئیر کرنا چاہوں گا ۔
موت ؟ امام جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا ‘ احمق لوگوں کی نظر میں ایک قاعدہ جو مصلحت کے بغیر ادھورا بلکہ مضر ہے وہ موت ہے اور احمق لوگ انسان کی موت کو ایک بڑا ظلم خیال کرتے ہیں جو خداوند تعالی کی طرف سے انسان پر کیا جاتا ہے ۔ لیکن انسان کی موت میں ایک مصلحت ہے اگر یہ موت نہ ہوتی تو بنی نوع انسان ختم ہو گیا ہوتا اور قدیم زمانے کے سائند دان جنہوں نے موت کو ختم کرنے کی کوشش کی وہ سنگین غلطی پر تھے اور میں آئندہ آنے والے سائنس دان کو وصیت کرتا ہوں کہ موت کو ختم کرنے کی طرف توجہ نہ دیں کیونکہ اگر موت ختم ہو گئی تو نسل انسانی تباہ ہو جائے گی ۔ اے ابو شاکر چند لمحوں کیلئے غور کرو کہ اگر موت نہ ہو اور آدمی یہ جان ے کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے زندہ رہے گا ‘ جونہی یہ پتہ چلا کہ آدمی نہیں مرے گا تو ظالم لوگ دوسروں کا مال ہڑپ کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ لا محدود زندگی میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دولت کے مالک بنے رہیں اور چونکہ کمزور لوگ اپنے اموال کے بچاؤ کی خاطر ظالموں کے خلاف متحد ہونگے اور مقابلہ کریں گے ۔ تو توانا غاصب دوسروں کو ختم کر دیں گے کیونکہ فطری موت تو نہیں لیکن قتل کے ذریعے موت موجود ہے لہذا طاقتور غاصب کمزور لوگوں کو قتل کر دیں گے آج جب کہ ہر طاقتور غاصب آدمی کو علم ہے کہ وہ ایک دن مر جائے گا اور اس کی موت زیادہ دور نہیں ہے پھر بھی اس کے باوجود وہ مال و دولت جمع کرنے کی حرص کرتا ہے اور ہمیشہ کیلئے زندہ رہیں گے تو ان کی حرص آج کی نسبت کہیں زیادہ ہوتی پھر طاقتور لوگوں کی آپس میں بھی جنگ و جدل ہوتی اور آخری کار سب سے طاقتور شخص باقی رہ جاتا جس کا مطلہ یہ ہوا کہ نسل انسانی ختم ہو جاتی ۔ اگر موت نہ ہو تو زندگی میں کسی کیلئے لذت نہیں ہے جس طرح کام نہ کرنا ہو تو آرام میں کسی کیلئے لذت نہیں ہے جو چزی لوگوں کی زندگی میں کش کا باعث ہے وہ موت کا خوف ہے اے ابو شاکر آج اگر والدین اپنے بیٹے پر مہربان ہیں تو اس لئے کہ انہیں علم ہے کہ وہ مر جائیں گے اور ان کا بیٹا زندہ رہے گا اور ان کے بعد ان کا بیٹا اس دنیا میں ان کی یادگار ہو گا ۔ اور اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کے نام کو بھی اس دنیا میں روشن کرے گا ۔ اے ابو شاکر اگر موت نہ ہوتی تو خدا پرست لوگ خدا سے نہ ڈرتے ۔ آج جبکہ ہر موحد خدا سے ڈرتا اور اس کے احکام بجا لاتا ہے تو اس لئے اسے معلوم ہے اگر خدا کی اطاعت نہیں کرے گا اور اس کے احکام بجا نہیں لائے گا تو موت کے بعد قیامت کے دن سز ا کا مستوجب ہو گا ۔ لیکن اگر موت نہ ہوتی تو چونکہ کوئی نہ مرتا ۔ تو لا محالہ قیامت کا دن بھی نہ ہوتا ‘ کیونکہ قیامت کے دن کیلئے ضروری ہے کہ انسان مرنے کے بعد زندہ ہو اور خداوند تعالی اس دنیا میں کیے گئے اعمال کی اسے جزا یا سزا دے ۔ موت سے خوف توحید پرست لوگوں کو خدا کے احکامات کی بجا آوری کی طرف مائل کرتا اور ظلم سے روکتا ہے‘ ہم یہ نہیں کہتے کہ ظَم وجود میں نہیں آتا کیونکہ موت سے خوف کے باوجود ظلم ختم نہیں ہوا اور وہ لوگ جو خدا کے معتقد نہیں ہیں دوسروں پر ظلم و ستم کرتے ہیں ۔ چونکہ وہ شخص جس کا خدا پر ایمان ہو اور اس کے احکامات کی پیروی کرتی ہو وہ دوسروں پر ستم نہیں کرتا اگر موت موجود نہ ہوتی اور فرض کریں بنی نوع انسان باقی رہتی تو زندگی کی جو حالت ہم آج دیکھ رہے ہیں وہ اس سے کہیں زیادہ بد تر ہوتی ۔ ایسی صورت میں کوئی بھی اپنے آپ کو گرم صحراؤں یا ٹھنڈے علاقوں میں زندگی بسر کرنے کی زحمت نہ دیتا ۔ اور جو علاقے آب و ہوا کے لحاظ سے معتدل ہیں وہ وہاں چلا جاتا اور وہاں کے ساکنوں کو قتل کرکے ان کی اراضی پر قبضہ کرنے کے بعد آرام سے وہاں زندگی گزارنے لگتا اور انسان صرف ایسی صورت میں نقل مکانی کرتا جب وہ مقامی آبادی کو ختم کرکے ان کی جائیداد پر قبضہ نہ جما سکتا ۔ اگر فرض کریں ‘ موت نہ ہونے کی صورت میں بنی نوع انسان ختم نہ ہوتا تو چند صدیوں کے دوران ہی انسانی آبادی اس قدر بڑھ جاتی کہ انسان نہ صرف تمام جانوروں بلکہ بھوک مٹنے کیلئے اپنے ہم جنسوں کو بھی کھا جاتا کیونکہ آ۶ادی اس قدر بڑھ جاتی کہ زمین پر کھیتی باڑی کیلئیجگہ نہ ملتی کہ لوگ اس میں ہل چلا کر بیج بوئیں ۔ کھیتی باڑی ختم ہو اجتی اور انسان آہستہ آہستہ پہلے جانوروں کو کھانا شروع کرتے اور جب تمام جانور ختم ہو جاتے تو بھوک مٹانے کیلئے ان کے پاس انسانوں کو کھانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوتا ۔ اور یہ موت ہے جس کی وجہ سے انسانی آبادی اس قدر نہیں بڑھتی کہ زمین میں کھیتی باڑی کیلئے کوئی جگہ باقی نہ رہے اور یہ موت ہے جو انسان کو خداوند تعالی کے احکامات کی پیروی پر لگاتی ہے یہ موت ہیجو انسان کے دل میں اپنوں اور غیروں کیلئے رحم کا مادہ پیدا کرتی ہے یہ موت ہے جو غاصبوں کو دوسروں کا مال ظلم سے ہڑپ کر جانے کے راستے میں حائل ہوتی ہے یہ موت ہی ہے جو زندگی انسانوں کیلئے شیرین بناتی ہے خداوند تعالی نے جو چیز بھی پیدا کی ہے اس میں ایک یا ایک سے زیادہ مصلحتیں پوشیدہ ہیں اگرچہ وہ ہماری نظر میں بے سود یا مضر ہی کیوں نہ ہوں ۔ اے ابو شاکر ‘ تم پتھروں سے بھرے ہوئے پہاڑوں کو بے فائدہ خیال کرتے ہو اور اپنے آپ سے پوچھتے ہو کہ پہاڑ کس لئے پیدا ہوئے ہیں ؟ جبکہ خداوند تعالی نے مصلحت کے تحت پہاڑوں کو پیدا کیا ہے ‘ جہاں جہاں پہاڑ ہے ‘ جاری پانی بھی موجود ہے کیونکہ پہاڑ کی بلدیوں پر بارش اور برف پڑتی ہے جس کی وجہ سے چشمے وجود میں آتے اور نہروں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور پہاڑ سے جاری ہونے ولی نہر زرعی زمین کو سیراب کرتی ہے اس لئے لوگ پہاڑ کے دامن میں رہائش اختیار کرتے ہیں تاکہ زراعت کریں کیونکہ پانی میسر ہوتا ہے وہاں گرمیوں میں آب و ہوا ٹھنڈی ہوتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جو لوگ گرم علاقوں میں رہتے ہیں گرمیوں میں اکی کوشش ہوتی ہے کہ پہاڑی علاقوں میں جائیں تاکہ گرمی سے محفوظ رہ سکیں ۔ پہاڑ کے دامن میں واقع شہر ‘ قصبے اور دیہات ‘ پہاڑ کی پیٹھ کی طرف سے آنے والے طوفانوں کا شکار نہیں ہوتے کیونکہ پہاڑ اس طوفان کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہوتا ہے ۔ سر سبز پہاڑ ‘ جانوروں کے چرانے کیلئے مفید ہوتے ہیں اور گرمیوں میں جب دوسری جگہوں پر گھاس نہیں ہوتی تو گڈریئے اپنی بھیڑ بکریوں کو پہاڑ کی طرف لے آتے ہیں اور جاڑے کے آنے تک وہ اپنی بھیڑ بکریوں کو پہاڑ پر چرا سکتے ہیں ۔ ان سر سبزی پہاڑوں میں ایسے چرند و پرند ملتے ہیں جو حلال گوشت ہیں اور وہ دامن کوہ میں سکونت پذیر افراد کیلئے غذا کا سامان بھی ہیں حتی کہ جن پہاڑوں پر سبزہ اور پانی نہیں ‘ وہ بھی مکمل طور پر بے سود نہیں ہیں اور اگر ان میں معدنیات تلاش کی جائیں تو ممکن ہے وہاں معدنیات ملیں جو انسانی زندگی کیلئے مفید ہوں ۔
موت ؟ امام جعفر صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا ‘ احمق لوگوں کی نظر میں ایک قاعدہ جو مصلحت کے بغیر ادھورا بلکہ مضر ہے وہ موت ہے اور احمق لوگ انسان کی موت کو ایک بڑا ظلم خیال کرتے ہیں جو خداوند تعالی کی طرف سے انسان پر کیا جاتا ہے ۔ لیکن انسان کی موت میں ایک مصلحت ہے اگر یہ موت نہ ہوتی تو بنی نوع انسان ختم ہو گیا ہوتا اور قدیم زمانے کے سائند دان جنہوں نے موت کو ختم کرنے کی کوشش کی وہ سنگین غلطی پر تھے اور میں آئندہ آنے والے سائنس دان کو وصیت کرتا ہوں کہ موت کو ختم کرنے کی طرف توجہ نہ دیں کیونکہ اگر موت ختم ہو گئی تو نسل انسانی تباہ ہو جائے گی ۔ اے ابو شاکر چند لمحوں کیلئے غور کرو کہ اگر موت نہ ہو اور آدمی یہ جان ے کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے زندہ رہے گا ‘ جونہی یہ پتہ چلا کہ آدمی نہیں مرے گا تو ظالم لوگ دوسروں کا مال ہڑپ کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ لا محدود زندگی میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دولت کے مالک بنے رہیں اور چونکہ کمزور لوگ اپنے اموال کے بچاؤ کی خاطر ظالموں کے خلاف متحد ہونگے اور مقابلہ کریں گے ۔ تو توانا غاصب دوسروں کو ختم کر دیں گے کیونکہ فطری موت تو نہیں لیکن قتل کے ذریعے موت موجود ہے لہذا طاقتور غاصب کمزور لوگوں کو قتل کر دیں گے آج جب کہ ہر طاقتور غاصب آدمی کو علم ہے کہ وہ ایک دن مر جائے گا اور اس کی موت زیادہ دور نہیں ہے پھر بھی اس کے باوجود وہ مال و دولت جمع کرنے کی حرص کرتا ہے اور ہمیشہ کیلئے زندہ رہیں گے تو ان کی حرص آج کی نسبت کہیں زیادہ ہوتی پھر طاقتور لوگوں کی آپس میں بھی جنگ و جدل ہوتی اور آخری کار سب سے طاقتور شخص باقی رہ جاتا جس کا مطلہ یہ ہوا کہ نسل انسانی ختم ہو جاتی ۔ اگر موت نہ ہو تو زندگی میں کسی کیلئے لذت نہیں ہے جس طرح کام نہ کرنا ہو تو آرام میں کسی کیلئے لذت نہیں ہے جو چزی لوگوں کی زندگی میں کش کا باعث ہے وہ موت کا خوف ہے اے ابو شاکر آج اگر والدین اپنے بیٹے پر مہربان ہیں تو اس لئے کہ انہیں علم ہے کہ وہ مر جائیں گے اور ان کا بیٹا زندہ رہے گا اور ان کے بعد ان کا بیٹا اس دنیا میں ان کی یادگار ہو گا ۔ اور اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کے نام کو بھی اس دنیا میں روشن کرے گا ۔ اے ابو شاکر اگر موت نہ ہوتی تو خدا پرست لوگ خدا سے نہ ڈرتے ۔ آج جبکہ ہر موحد خدا سے ڈرتا اور اس کے احکام بجا لاتا ہے تو اس لئے اسے معلوم ہے اگر خدا کی اطاعت نہیں کرے گا اور اس کے احکام بجا نہیں لائے گا تو موت کے بعد قیامت کے دن سز ا کا مستوجب ہو گا ۔ لیکن اگر موت نہ ہوتی تو چونکہ کوئی نہ مرتا ۔ تو لا محالہ قیامت کا دن بھی نہ ہوتا ‘ کیونکہ قیامت کے دن کیلئے ضروری ہے کہ انسان مرنے کے بعد زندہ ہو اور خداوند تعالی اس دنیا میں کیے گئے اعمال کی اسے جزا یا سزا دے ۔ موت سے خوف توحید پرست لوگوں کو خدا کے احکامات کی بجا آوری کی طرف مائل کرتا اور ظلم سے روکتا ہے‘ ہم یہ نہیں کہتے کہ ظَم وجود میں نہیں آتا کیونکہ موت سے خوف کے باوجود ظلم ختم نہیں ہوا اور وہ لوگ جو خدا کے معتقد نہیں ہیں دوسروں پر ظلم و ستم کرتے ہیں ۔ چونکہ وہ شخص جس کا خدا پر ایمان ہو اور اس کے احکامات کی پیروی کرتی ہو وہ دوسروں پر ستم نہیں کرتا اگر موت موجود نہ ہوتی اور فرض کریں بنی نوع انسان باقی رہتی تو زندگی کی جو حالت ہم آج دیکھ رہے ہیں وہ اس سے کہیں زیادہ بد تر ہوتی ۔ ایسی صورت میں کوئی بھی اپنے آپ کو گرم صحراؤں یا ٹھنڈے علاقوں میں زندگی بسر کرنے کی زحمت نہ دیتا ۔ اور جو علاقے آب و ہوا کے لحاظ سے معتدل ہیں وہ وہاں چلا جاتا اور وہاں کے ساکنوں کو قتل کرکے ان کی اراضی پر قبضہ کرنے کے بعد آرام سے وہاں زندگی گزارنے لگتا اور انسان صرف ایسی صورت میں نقل مکانی کرتا جب وہ مقامی آبادی کو ختم کرکے ان کی جائیداد پر قبضہ نہ جما سکتا ۔ اگر فرض کریں ‘ موت نہ ہونے کی صورت میں بنی نوع انسان ختم نہ ہوتا تو چند صدیوں کے دوران ہی انسانی آبادی اس قدر بڑھ جاتی کہ انسان نہ صرف تمام جانوروں بلکہ بھوک مٹنے کیلئے اپنے ہم جنسوں کو بھی کھا جاتا کیونکہ آ۶ادی اس قدر بڑھ جاتی کہ زمین پر کھیتی باڑی کیلئیجگہ نہ ملتی کہ لوگ اس میں ہل چلا کر بیج بوئیں ۔ کھیتی باڑی ختم ہو اجتی اور انسان آہستہ آہستہ پہلے جانوروں کو کھانا شروع کرتے اور جب تمام جانور ختم ہو جاتے تو بھوک مٹانے کیلئے ان کے پاس انسانوں کو کھانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوتا ۔ اور یہ موت ہے جس کی وجہ سے انسانی آبادی اس قدر نہیں بڑھتی کہ زمین میں کھیتی باڑی کیلئے کوئی جگہ باقی نہ رہے اور یہ موت ہے جو انسان کو خداوند تعالی کے احکامات کی پیروی پر لگاتی ہے یہ موت ہیجو انسان کے دل میں اپنوں اور غیروں کیلئے رحم کا مادہ پیدا کرتی ہے یہ موت ہے جو غاصبوں کو دوسروں کا مال ظلم سے ہڑپ کر جانے کے راستے میں حائل ہوتی ہے یہ موت ہی ہے جو زندگی انسانوں کیلئے شیرین بناتی ہے خداوند تعالی نے جو چیز بھی پیدا کی ہے اس میں ایک یا ایک سے زیادہ مصلحتیں پوشیدہ ہیں اگرچہ وہ ہماری نظر میں بے سود یا مضر ہی کیوں نہ ہوں ۔ اے ابو شاکر ‘ تم پتھروں سے بھرے ہوئے پہاڑوں کو بے فائدہ خیال کرتے ہو اور اپنے آپ سے پوچھتے ہو کہ پہاڑ کس لئے پیدا ہوئے ہیں ؟ جبکہ خداوند تعالی نے مصلحت کے تحت پہاڑوں کو پیدا کیا ہے ‘ جہاں جہاں پہاڑ ہے ‘ جاری پانی بھی موجود ہے کیونکہ پہاڑ کی بلدیوں پر بارش اور برف پڑتی ہے جس کی وجہ سے چشمے وجود میں آتے اور نہروں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور پہاڑ سے جاری ہونے ولی نہر زرعی زمین کو سیراب کرتی ہے اس لئے لوگ پہاڑ کے دامن میں رہائش اختیار کرتے ہیں تاکہ زراعت کریں کیونکہ پانی میسر ہوتا ہے وہاں گرمیوں میں آب و ہوا ٹھنڈی ہوتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جو لوگ گرم علاقوں میں رہتے ہیں گرمیوں میں اکی کوشش ہوتی ہے کہ پہاڑی علاقوں میں جائیں تاکہ گرمی سے محفوظ رہ سکیں ۔ پہاڑ کے دامن میں واقع شہر ‘ قصبے اور دیہات ‘ پہاڑ کی پیٹھ کی طرف سے آنے والے طوفانوں کا شکار نہیں ہوتے کیونکہ پہاڑ اس طوفان کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہوتا ہے ۔ سر سبز پہاڑ ‘ جانوروں کے چرانے کیلئے مفید ہوتے ہیں اور گرمیوں میں جب دوسری جگہوں پر گھاس نہیں ہوتی تو گڈریئے اپنی بھیڑ بکریوں کو پہاڑ کی طرف لے آتے ہیں اور جاڑے کے آنے تک وہ اپنی بھیڑ بکریوں کو پہاڑ پر چرا سکتے ہیں ۔ ان سر سبزی پہاڑوں میں ایسے چرند و پرند ملتے ہیں جو حلال گوشت ہیں اور وہ دامن کوہ میں سکونت پذیر افراد کیلئے غذا کا سامان بھی ہیں حتی کہ جن پہاڑوں پر سبزہ اور پانی نہیں ‘ وہ بھی مکمل طور پر بے سود نہیں ہیں اور اگر ان میں معدنیات تلاش کی جائیں تو ممکن ہے وہاں معدنیات ملیں جو انسانی زندگی کیلئے مفید ہوں ۔