• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

میں نے مرزائیت کیوں چھوڑی

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

میں نے مرزائیت کیوں چھوڑی​

مناظر اسلام حضرت مولانا لال حسین اختر رحمۃ اللہ علیہ نے قادیانیت چھوڑنے کے اسباب بیان کرنے کی غرض سے ایک کتاب ’’ترک مرزائیت‘‘ مرتب فرمائی تھی۔ اس کو قدرت نے اس قدر قبولیت سے نوازا کہ شیخ الاسلام مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی آخری تصنیف ’’خاتم النّبیین‘‘ میں اس کے حوالہ جات درج فرمائے۔ فلحمدﷲ! مولانا لال حسین اختر رحمۃ اللہ علیہ کے زمانہ حیات میں ’’ترک مرزائیت‘‘ کے چار ایڈیشن شائع ہوئے۔ آپ نے کتاب میں قادیانیوں کو چیلنج کیا تھا کہ وہ اس کا جواب شائع کر کے انعام حاصل کریں۔ قادیانیوں کو جواب دینے کی جرأت نہ ہوسکی۔ اس کے پانچویں ایڈیشن کے لئے حضرت مولانا لال حسین اختر رحمۃ اللہ علیہ نے مقدمہ تحریر فرمایا تھا۔ لیکن پانچواں ایڈیشن آپ کی زندگی میں شائع نہ ہوسکا۔ حضرت مرحوم کے تمام رسائل کا مجموعہ ’’احتساب قادیانیت‘‘ کے نام سے شائع کیا تو پانچویں ایڈیشن کا یہ مقدمہ ہمارے علم میں نہ تھا۔ بعد میں حضرت مرحوم کے غیرمطبوعہ مسودہ جات کو ترتیب دی تو یہ مسودہ مل گیا۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں حضرت مرحوم نے قادیانیت کے بانی مرزاغلام احمد قادیانی کے متعلق کچھ خواب دیکھے تھے جو آپ کے قلم سے کسی کتاب یا رسالہ میں موجود نہیں۔ روایت باالمعنی کے طور پر آپ کے شاگرد مناظر اسلام مولانا عبدالرحیم اشعر رحمۃ اللہ علیہ کی روایت سے ’’تذکرہ مجاہدین ختم نبوت‘‘ میں شائع کئے گئے۔ اس مسودہ میں وہ خواب حضرت مولانا لال حسین اختر رحمۃ اللہ علیہ کے قلم سے لکھے ہوئے مل گئے ہیں۔ یہ مسودہ آج تک کہیں شائع نہیں ہوا۔ ہم آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں آپ اس کا مطالعہ فرمائیں۔ ترک مرزائیت کے اسباب۔ خواب اور حضرت کی سوانح اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی اس میں موجود ہے۔ اﷲ تعالیٰ حضرت مرحوم کے فیض کو قیامت تک جاری رکھیں۔ آمین! (ناظم نشرواشاعت)
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم​
’’ الحمد ﷲ وحدہ والصلٰوۃ والسلام علٰی من لا نبی بعدہ ‘‘ اما بعد! اﷲ رب العزت کا ارشاد ہے: ’’ ہل انبئکم علٰی من تنزل الشیٰطین تنزل علی کل افاک اثیم (الشعراء:۲۶،۲۲۱،۲۲۲) ‘‘ {کیا میں تم کو بتلاؤں کس پر شیاطین اترا کرتے ہیں۔ ایسے شخصوں پر اترا کرتے ہیں جو جھوٹ بولنے والے بدکردار ہوں۔}
گر آن چیزے کہ مے بینم مریداں نیز دیدندے
زمرزا توبہ کردندے بچشم زار وخوں بارے​
خدائے واحد وقدوس کے فضل وکرم سے ’’ترک مرزائیت‘‘ کو وہ مقبولیت حاصل ہوئی جو میرے وہم وگمان میں نہ تھی۔ عامتہ المسلمین نے عموماً اور حضرات علمائے کرام نے خصوصاً اسے نہایت پسندیدگی کی نظر سے دیکھا۔ حتیٰ کہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید محمد انور شاہ رحمۃ اللہ علیہ سابق صدر مدرس دارالعلوم دیوبند نے اپنی مشہور ومعروف اور لاجواب کتاب ’’خاتم النّبیین‘‘ میں متعدد مقامات پر ’’ترک مرزائیت‘‘ سے حوالہ جات درج فرمائے ہیں۔ ’’ ذلک فضل اﷲ یوتیہ من یشاء ‘‘
طبع اوّل، دوم، سوم اور چہارم میں اعلان کیاگیا تھا کہ اگر کوئی لاہوری مرزائی ’’ترک مرزائیت‘‘ کا جواب لکھے گا تو اسے بعد فیصلہ منصف ایک ہزار روپیہ انعام دیا جائے گا۔ چالیس سال کا طویل عرصہ گزر گیا۔ کسی مرزائی کو ہمت نہیں ہوئی کہ ’’ترک مرزائیت‘‘ کا جواب لکھتا، مجھ سے جواب الجواب، منصف کے تقرر اور انعام کا مطالبہ کرتا۔ مرزائی مناظرین ومبلغین کی ہمتیں پست ہوگئیں۔ ان کے قلم ٹوٹ گئے اور ان کے مناظرانہ دلائل غتربود ہوگئے۔
میرا چالیس سالہ تجربہ شاہد ہے کہ میری زندگی میں مرزائیوں کو جرأت نہیں ہوگی کہ ’’ترک مرزائیت‘‘ کے جواب میں قلم اٹھاسکیں۔ (ایسے ہی ہوا)
میدان کارزار میں اترے تو مرد ہے
اپنی جگہ تو سب کو ہے دعویٰ مردمی​
ان شاء اﷲ تعالیٰ!
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں​
اب مزید اضافہ کے ساتھ پانچواں ایڈیشن شائع کیا جارہا ہے۔ اﷲتعالیٰ اسے مزید شرف قبولیت عطاء فرما کر گم کردہ راہ اشخاص کی ہدایت کا ذریعہ بنائے اور میرے لئے زاد آخرت۔ آمین! (لال حسین اختر)
تیرے نام سے ابتداء کر رہا ہوں
میری انتہائے نگارش یہی ہے​
بے شمار حمدوثناء خالق حقیقی کے لئے جس نے تمام جہانوں کو نیست سے ہست کیا۔ لاکھ لاکھ ستائش ذات باری تعالیٰ کے لئے جس نے جنس خاکی کو اشرف المخلوقات بنایا۔ اسے احسن تقویم اور خلافت ارضی کے شرف سے نوازا گیا۔ ہزار بار درودوسلام اس مقدس وجود کے لئے جسے اﷲتعالیٰ نے سارے جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا اور ان کی ذات گرامی پر نبوت ورسالت ختم کر دی گئی۔ ان کی متبرک بعثت نے مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک کفر وشرک کے بھڑکتے ہوئے شعلوں کو توحید کی رم جھم سے ٹھنڈا کیا اور ساری دنیا میں نور کا عالم پیداکردیا۔
تیرے نقش قدم کے نور سے دنیا ہوئی روشن
تیرے مہر کرم نے بخشی ہر ذرے کو تابانی​
ان کی پاک ومقدس نظر نے جہالت ووحشت اور فسق وفجور کی ان تمام آلائشوں کو جو عوارض کی صورت اختیار کئے ہوئے اشرف المخلوقات کو چمٹی ہوئی تھیں، نہ صرف دور کیا بلکہ ہمیشہ کے لئے ان کا قلع قمع کر دیا۔ یہ ہادی کامل، یہ رہبر حقیقی، یہ ناصح اکبر، یہ شافع محشر، وہ ہستی ہے جن پر ’’بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر‘‘ کا قول اطلاق پذیر ہوتا ہے۔ ان کا اسم گرامی حضرت سیدنا مولانا محمد مصطفی، احمد مجتبیٰa ہے۔ شتربانوں اور گڈریوں کو جہانبانی کی راہ ورسم سکھانے والے، گمراہان عالم کو راہ راست دکھانے والے، گنہگار انسانوں کو پاک کر کے خدائے واحد وقدوس کی بارگاہ معلی تک پہنچانے والے، قانون الٰہی اور نبوت ورسالت کو ختم کرنے والے حضور اقدسa ہی ہیں۔
اﷲتعالیٰ کے فضل وکرم اور حضرت خاتم الانبیاءa کے ارشادات عالیہ کے طفیل ایک راہ راست سے بھٹکا ہوا عاصی بندہ ایک گنہگار انسان جو آٹھ سال تک تاریکی کے گڑھے اور کفر وضلالت کے اندھیرے غار میں حیران وسرگردان رہا اسلام کے پرنور عالم اور روشنی کی دنیا میں داخل ہوتا ہے۔
’’ قل اننی ہدانی ربی الٰی صراط مستقیم دیناً قیماً ملۃ ابراہیم حنیفاً وما کان من المشرکین (انعام:۱۶۱) ‘‘ {کہو کہ مجھ کو میرے رب نے ایک سیدھا راستہ بتلادیا ہے وہ دین ہے مستحکم جو طریقہ ہے ابراہیم علیہ السلام کا جس میں ذرہ بھر کمی نہیں اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

تبلیغی زندگی کا آغاز​

میری تبلیغی زندگی کا آغاز تحریک خلافت کا مرہون منت ہے۔ ۱۹۱۴ء میں برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کی جرمنی سے پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی۔ اس جنگ میں ترکی نے جرمنی کا ساتھ دیا اور برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ عراق، عرب، فلسطین، شام اور مصر سلطنت ترکی کے زیرنگیں تھے۔ ان تمام ممالک میں اتحادیوں اور ترکوں میں خوفناک جنگ شروع ہوئی۔ اس جنگ کے ابتداء ہی میں برطانوی حکومت نے اپنی اور اپنے اتحادیوں کی طرف سے اعلان کیا تھا اور مسلمانان عالم کو یقین دلایا تھا کہ جنگ میں ہمیں فتح ہوئی تو ہم مسلمانوں کے مقامات مقدسہ پر قبضہ نہیں کریں گے۔ جنگ کے ابتداء میں جرمنوں اور ترکوں کا پلہ بھاری تھا۔ ہر محاذ پر انہیں عظیم فتوحات حاصل ہو رہی تھیں۔
برطانیہ اور اس کے ساتھیوں کو شکست فاش کا سامنا ہورہا تھا۔ اپنی بگڑتی ہوئی حالت کے پیش نظر برطانیہ اور اس کے حلیفوں نے روس اور امریکہ سے مدد مانگی۔ ان دونوں ملکوں کی حکومتوں نے برطانوی عرضداشت کو منظور کر کے جرمنی اور ترکی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ۱۹۱۸ء میں جرمنی اور ترکی کو شکست ہوگئی۔
انگریزوں نے عراق وفلسطین کے مقامات مقدسہ پر قبضہ کر لیا تھا۔ ترکی حکومت کی طرف سے عرب کے گورنر شریف حسین نے ترکی کی سلطنت سے غداری کر کے اپنی خود مختار بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ یہاں تک کہ بیت اﷲ شریف میں سینکڑوں ترکوں کو شہید کر دیا گیا۔
ملت اسلامیہ کی خلافت کا اعزاز سلطنت ترکی کو حاصل تھا۔ خلیفتہ المسلمین مسلمانوں کی عظمت ووقار کے علمبردار تھے۔ سلطنت ترکی کی شکست اورمقامات مقدسہ پر انگریزوں کے قبضہ سے مسلمانان عالم میں کہرام برپا ہوگیا۔

تحریک خلافت​

ہندوستان میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت مولانا ابوالکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت مولانا مفتی کفایت اﷲ رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت مولانا محمد علی جوہر رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت حکیم محمد اجمل خان رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت مولانا ظفر علی خان رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت مولانا سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا شوکت علی رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا مظہر علی اظہر رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا حسرت موہانی رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں خلافت اسلامیہ کی بقاء کے لئے تحریک خلافت شروع ہوئی۔
مارچ ۱۹۲۰ء میں حضرت مولانا محمد علی جوہر رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت مولانا سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ اور سید حسن امام صاحب بیرسٹر پر مشتمل ایک وفد لندن گیا اور وزیراعظم برطانیہ مسٹر لائیڈ جارج سے ملا۔ مقامات مقدسہ کے بارے میں برطانوی حکومت کا وعدہ یاد دلایا اور خلافت کے متعلق مسلمانان ہندوستان کے دینی احساسات سے آگاہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اپنے وعدہ کو ایفاء کیجئے اور مقامات مقدسہ سے برطانوی قبضہ اٹھا لیجئے۔ برطانوی وزیراعظم نے وفد کے مطالبے کو مستردکر دیا۔ وفد ناکام واپس آگیا۔ مقامات مقدسہ کے سقوط اور انگریزوں کی وعدہ خلافی کے باعث مسلمانان ہندوستان بے حد پریشان ومضطرب تھے۔ آل انڈیا خلافت کمیٹی نے عدم تشدد اور انگریزوں سے ترک موالات کی مقدس تحریک شروع کی۔ تحریک کا مقصد ترکی سلطنت اور خلافت کے وقار کا بحال کرنا اور مقامات مقدسہ اور ممالک اسلامیہ کا انگریزوں سے واگزار کرانا تھا۔ پروگرام یہ تجویز ہوا تھا۔
۱… انگریزی فوج اور پولیس کی نوکری چھوڑ دی جائے۔
۲… انگریزی حکومت کے لئے ہوئے خطابات واپس کئے جائیں۔
۳… انگریزی درسگاہوں سے طلباء اٹھا لئے جائیں۔
۴… ولائتی مال کا بائیکاٹ کیا جائے۔
۵… ہاتھ کابنا ہوا کھدر پہنا جائے۔
۶… انگریزی حکومت سے عدم تعاون کیا جائے۔ اس کے خلاف نفرت پیدا کی جائے اور ہندوستان کی جیلیں بھردی جائیں۔

تحریک خلافت میں شمولیت​

میں اورینٹل کالج لاہور میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ تحریک خلافت شروع ہوئی۔ علماء کرام کے شریعت مطہرہ کے احکامات کے تحت حکومت کی درسگاہوں کے بائیکاٹ کے فتویٰ کی تعمیل کرتے ہوئے کالج چھوڑ دیا۔ اپنے وطن مالوف دھرم کوٹ رندھاوا اور بارہ منگا ضلع گورداسپور چلاگیا۔ لیکن ایک خواہش تھی جو دل میں چٹکیاں لے رہی تھی۔ ایک آرزو تھی جو نچلا نہ بیٹھنے دیتی تھی۔ ایک ارمان تھا کہ جس نے معمورۂ دل کو زیروزبر کر رکھا تھا۔ حسرت تھی تو یہی، تمنا تھی تو یہی کہ جس طرح ہو اپنے دین، ہاں پیارے اسلام کی خدمت کروں۔
ہمیشہ کے لئے رہنا نہیں اس دار فانی میں
کچھ اچھے کام کر لو چار دن کی زندگانی میں
عقل نے لاکھ سمجھایا دوستوں اور رشتہ داروں نے قیدوبند کا خوف دلایا تو میرے جذبہ ایمان نے کہا ؎
یہ تو نے کیا کہا ناصح نہ جانا کوئے جاناں میں
مجھے تو راہروں کی ٹھوکریں کھانا مگر جانا
میں نے کسی کی ایک نہ مانی اور مشہور ومعروف شعر ؎
دل اب تو عشق کے دریا میں ڈالا
توکلت علی اﷲ تعالیٰ
کا ورد کرتے ہوئے خلافت کمیٹی میں شمولیت کی۔ آٹھ نو ماہ ضلع گورداسپور میں خلافت کمیٹی بٹالہ کے زیرہدایت آنریری تبلیغ وتنظیم کا فریضہ ادا کرتا رہا۔ مولانا مظہر علی اظہر ایڈووکیٹ کی معیت میں مختلف مقامات کا دورہ کیا اور پورے زور سے خلافت کے اغراض ومقاصد کی تبلیغ کی۔ میری سرگرمی اور جمہور کی بیداری نے حکام کی طبع انتقام گیر کو مشتعل کر دیا۔ آخر کار مجھ پر گورداسپور، ننگل کنجروڑ اور ڈیرہ بابانانک کی تین تقریروں کی بناء پر حکومت کے خلاف منافرت اور بغاوت پھیلانے کا الزام عائد کر کے گورداسپور میں مقدمہ قائم کر دیا گیا۔ پولیس نے مجھے عید کے دن گرفتار کیا اور فرسٹ کلاس فرنگی مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کر دیا۔ مجسٹریٹ نے مجھے کہا کہ آپ پر بغاوت کا مقدمہ ہے۔ جس کی سزا چودہ سال قید سخت ہوسکتی ہے۔ میں نے کہا ؎
یہ سب سوچ کر دل لگایا ہے ناصح
نئی بات کیا آپ فرما رہے ہیں
مجسٹریٹ نے کہا اگر آپ اپنی تقریروں کے متعلق تحریری معذرت کر دیں تو مقدمہ واپس لے کر آپ کو رہا کر دیا جاتا ہے۔ میں نے جواب دیا ؎
جلا دو پھونک دو سولی چڑھا دو خوب سن رکھو
صداقت چھٹ نہیں سکتی ہے جب تک جان باقی ہے​
مجسٹریٹ نے پولیس کے چند ٹاؤٹ گواہوں کی سرسری شہادت کے بعد مجھے ایک سال قید سخت کا حکم سنایا۔ ایک سال کی طویل مدت گورداسپور جیل میں گزاری۔ رہائی سے کچھ عرصہ پہلے جیل میں ہی مجھے اخبارات سے معلوم ہوا کہ مشہور آریہ سماجی لیڈر سوامی ردھانند اور آریہ سماج نے صوبہ یو۔پی میں ملکانوں اور علم دین سے بے بہرہ مسلمانوں کی مرتد کرنے کی تحریک زور شور سے جاری کی ہے۔ اس تحریک سے مسلمانان ہندوستان میں اضطراب کی لہردوڑ گئی۔ چنانچہ ارتداد روکنے کے لئے جمعیۃ العلماء ہند، خلافت کمیٹی، مدرسہ عالیہ دیوبندی، حنفی، اہل حدیث اور شیعہ جملہ مکاتب فکر کے مسلمان علماء وزعماء آریہ سماج کے مقابلے میں میدان تبلیغ میں نکل آئے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

مرزائیت میں داخلہ​

جیل سے رہا ہوتے ہی گردوپیش کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد میں نے فیصلہ کر لیا کہ مجھے آریہ سماج اور شدھی وارتداد کے مقابلہ پر حفاظت واشاعت اسلام کا کام کرنا چاہئے۔ آریوں نے پنجاب کو مناظروں کا اکھاڑا بنا رکھا تھا۔ میں نے آریہ سماج کے متعلق لٹریچر مہیا کیا۔ اس کا مطالعہ کرنے کے بعد ضلع گورداسپور کے مختلف مقامات پر صداقت اسلام اور آریہ سماج کی تردید پر متعدد تقریریں کیں۔ فروری ۱۹۲۴ء میں تحصیل شکرگڑھ کے ایک جلسہ میں لاہوری مرزائیوں کے چند مبلغین سے میری ملاقات ہوئی۔ آریہ سماج کی تردید کے بارے میں انہوں نے مجھے کہا کہ اگر آپ احمدیہ انجمن لاہور میں تشریف لائیں تو ہم آپ کو اسلام پر آریہ سماج کے تمام اعتراضات کے جوابات سکھادیں گے۔ انہوں نے اپنی جماعت کے تبلیغی کارناموں کو نہایت ہی مبالغہ سے بیان کیا اور مرزاقادیانی آنجہانی کی خدمات اسلامی کے بڑھ چڑھ کر افسانے سنائے۔ میں نے کہا کہ ہمارا اور آپ کا مذہب کا بنیادی اختلاف ہے۔ ہم حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانتے ہیں جب کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مرزاغلام احمد قادیانی نبوت کے مدعی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مرزاقادیانی مدعی نبوت نہ تھے۔ قادیانیوں نے مرزاقادیانی کی طرف دعویٰ نبوت منسوب کر کے ان پر افتراء کیا ہے اور بہتان طرازی سے کام لیا ہے۔ اپنے اس بیان کو درست ثابت کرنے کے لئے مرزاغلام احمد قادیانی کی ابتدائی کتابوں سے چند حوالہ جات پڑھ کر سنائے۔ جن میں اس نے حضور خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مدعی نبوت کو کافر دجال اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ میں مدعی نبوت نہیں۔ بلکہ مدعی نبوت پر لعنت بھیجتا ہوں۔ میرا مجددیت اور محدثیت کا دعویٰ ہے۔ ہمارے وہی عقائد ہیں جو اہل سنت والجماعت کے عقائد ہیں۔ میرا مرزائی مذہب کے متعلق معمولی مطالعہ تھا۔ اس لئے میں تبلیغ اسلام کے نام پر ان کے دام تزویر میں پھنس گیا اور مسٹر محمد علی امیر جماعت مرزائیہ لاہوریہ کے ہاتھ پر بیعت کر کے مرزاغلام احمد قادیانی کی مجددیت ومہدویت کا پھندا اپنے گلے میں ڈال لیا۔ ان کے تبلیغی کالج میں داخل ہوا۔ تین سال میں ایک اور مرزائی طالب علم اور میری تعلیم پر پچاس ہزار روپے سے زائد رقم خرچ ہوئی۔
قرآن مجید کی تفسیر، حدیث، بائبل، عیسائیت، ہندی، سنسکرت، ویدوں، آریہ سماج اور علم مناظرہ کی تعلیم حاصل کی۔ مدت معینہ میں نصاب تعلیم ختم ہونے کے بعد مجھے مستقل مبلغ مقرر کر دیا گیا۔ میں نہ صرف مبلغ ومناظر اور محصل ہی کے فرائض ادا کرتا رہا بلکہ سیکرٹری احمدیہ ایسوسی ایشن، ایڈیٹر اخبار پیغام صلح کے ذمہ دارانہ عہدوں پر بھی فائز رہا اور پوری جانفشانی وسرگرمی کے ساتھ مرزائی عقائد کی تبلیغ واشاعت اور آریوں، دہریوں اور عیسائیوں سے کامیاب مناظرے کرتا رہا۔

ترک مرزائیت​

۱۹۳۱ء کے وسط میں میں نے یکے بعد دیگرے متعدد خواب دیکھے جن میں مرزاغلام احمد قادیانی کی نہایت گھناؤنی شکل دکھائی دی اور اسے بری حالت میں دیکھا۔ میں یہ خواب مرزائیوں سے بیان نہ کر سکتا تھا۔ کیونکہ اگر انہیں خواب سنائے جاتے تو وہ مجھے کہتے کہ یہ شیطانی خواب ہیں نہ ہی کسی مسلمان کو یہ خواب بتا سکتا تھا کیونکہ اگر انہیں یہ خواب سنائے جاتے تو وہ کہتے کہ مرزاغلام احمد اپنے تمام دعاوی میں جھوٹا ہے۔ مرزائیت سے توبہ کر لیجئے۔ میری حالت یہ تھی۔
دو گونہ رنج وعذاب است جان مجنوں را
بلائے فرقت لیلیٰ و صحبت لیلیٰ​
اگرچہ پہلے بھی مرزاغلام احمد کے بعض الہامات اور اس کی چند پیش گوئیاں میرے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتی تھیں۔ لیکن حسن عقیدت اور غلو محبت کی طاقتیں ان خیالات کو فوراً دبادیتی تھیں اور دل کو تسلی دے دیتا تھا کہ مرزانبی تو نہیں کہ جس کے تمام ارشادات صحیح ہوں۔ ان خوابوں کی کثرت سے متاثر ہوکر میں نے غوروفکر کیا گو کہ ہمارے خوابوں پر دین کا مدار نہیں اور نہ ہی یہ حجت شرعی ہیں۔ لیکن ان سے صداقت کی طرف راہنمائی تو ہوسکتی ہے۔ آخر میں نے فیصلہ کیا کہ مرزاغلام احمد قادیانی کی محبت اور عداوت دونوں کو بالائے طاق رکھ کر اور ان سے صرف نظر کرتے ہوئے مرزائیت کے صدق وکذب کو تحقیقات کی کسوٹی پر پرکھنا چاہئے۔ خدائے واحد قدوس کو حاضر وناظر سمجھتے ہوئے یہ اعلان کر دینا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ میں نے مرزاغلام احمد کی محبت اور عداوت کو چھوڑ کر اور خالی الذہن ہوکر مرزاقادیانی کی اپنی مشہور تصنیفات اور قادیانی ولاہوری ہردو فریق کی چیدہ چیدہ کتابوں کو جو مرزاقادیانی کے دعاوی کی تائید میں لکھی گئی تھیں چھ ماہ کے عرصہ میں نظر غائر سے بطور محقق کے پڑھا اور علماء اسلام کی تردید مرزائیت کے سلسلہ میں چند کتابیں مطالعہ کیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جتنا زیادہ میں نے مطالعہ کیا اتنا ہی مرزائیت کا کذب مجھ پر واضح ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ مجھے یقین کامل ہوگیا کہ مرزاغلام احمد قادیانی اپنے دعویٰ الہام، مجددیت، مسیحیت، نبوت وغیرہ میں مفتری تھا۔ میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ حضرت مسیح علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں۔ وہ قیامت سے پہلے اس دنیا میں واپس تشریف لائیں گے۔
تیرے رندوں پہ سارے کھل گئے اسرار دین ساقی
ہوا علم الیقین عین الیقین حق الیقین ساقی​
اب میرے لئے ایک نہایت مشکل کا سامنا تھا۔ ایک طرف ملازمت تھی۔ جماعت مرزائیہ کے ارکان اور افراد جماعت سے آٹھ سال کے دیرینہ اور خوشگوار تعلقات تھے۔ بحیثیت ایک کامیاب مبلغ ومناظر جماعت میں رسوخ حاصل تھا۔ لیکن جب دوسری طرف مرزاغلام احمد قادیانی کے عقائد قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کے بالکل الٹ دیکھتا تھا۔ ان کے الہامات اور پیش گوئیوں کی دھجیاں فضائے آسمانی میں اڑتی ہوئی نظر آتی تھیں اور قیامت کے دن ان عقائد باطلہ کی بازپرس کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آجاتا تو میں لرزہ براندام ہو جاتا تھا کہ ایک طرف حق تھا اور دوسری طرف باطل۔ ایک طرف تاریکی تھی اور دوسری طرف مشعل نور۔ ایک طرف معقول تنخواہ کی ملازمت اور آٹھ سال کے دوستانہ تعلقات تھے اور دوسری طرف دولت ایمان۔ لیکن ساتھ دنیوی مشکلات اور مصائب کا سامنا۔ آخر میں نے قطعی فیصلہ کر لیا کہ چاہے ہزارہا تکالیف اٹھانی پڑیں انہیں بخوشی برداشت کروں گا۔ کیونکہ حق کے اختیار کرنے والوں کو ہمیشہ تکالیف ومصائب کا مقابلہ کرنا پڑا ہے۔
صداقت کیلئے گر جاں جاتی ہے تو جانے دو
مصیبت پر مصیبت سر پہ آتی ہے تو آنے دو​
چنانچہ میں اشکبار آنکھوں اور کفر وارتداد سے پشیمان اور لرزتے ہوئے دل سے اپنے رحیم وکریم خداوند قدوس کے حضور کفر مرزائیت سے تائب ہوگیا۔ توبہ کے بعد دل کی دنیا ہی بدل چکی تھی۔

عصیان ماو رحمت پروردگار ما
ایں رانہایتے است نہ آں را نہایتے​
میرے غفورورحیم مالک ؎
عصیاں سے کبھی ہم نے کنارا نہ کیا
پر تو نے دل آزردہ ہمارا نہ کیا
ہم نے تو جہنم کی بہت کی تدبیر
لیکن تیری رحمت نے گوارا نہ کیا​
’’ الحمد ﷲ الذی ہدانا لہذا وما کنا لنہتدی لولا ان ہدانا اﷲ (الاعراف:۴۳) ‘‘ {اﷲتعالیٰ کا لاانتہاء احسان وشکر ہے جس نے ہم کو یہاں تک پہنچایا اور اگر اﷲتعالیٰ ہمیں ہدایت نہ کرتا تو ہم ہرگز راہ راست پانے والے نہ تھے۔} ذالک فضل اﷲ یوتیہ من یشاء !
یا رب تو کریمی و رسول تو کریم
صد شکر کہ ہستیم میان دو کریم​
میں نے یکم؍جنوری ۱۹۳۲ء کو احمدیہ انجمن لاہور کی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا جو ۲۴؍جنوری کو منظور کر لیا گیا۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

ترک مرزائیت کا اعلان​

۱۹۳۲ء کی ابتداء میں انگریز اور ڈوگرہ حکومت کے خلاف تحریک کشمیر انتہائی عروج تک پہنچ چکی تھی۔ مجلس احرار اسلام کے ایک درجن سے زائد مجاہدین شہید ہوچکے تھے۔ مجلس کے تمام راہنما اور چالیس ہزار سرفروش رضاکار جیل خانوں میں محبوس تھے۔ برطانوی حکومت نے عام اجتماعات پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔ حالات کچھ سازگار ہوئے۔ پابندیاں ختم ہوئیں تو احباب کی طرف سے ایک جلسہ عام کا اہتمام کیاگیا۔ قدآدم اشتہار شائع کئے گئے کہ ۷؍مئی ۱۹۳۲ء بعد نماز عشاء باغ بیرون موچی دروازہ لاہور جلسہ عام منعقد ہوگا۔ جس میں مولانا لال حسین اختر رحمۃ اللہ علیہ جن کی تعلیم پر مرزائیوں نے پچاس ہزار سے زائد روپیہ خرچ کیا تھا اور وہ جماعت مرزائیہ لاہوریہ کے مشہور مبلغ ومناظر تھے۔ ترک مرزائیت کا اعلان کریں گے اور ترک مرزائیت کے وجوہ اور ناقابل تردید دلائل بیان کریں گے۔ ان کی تقریر کے بعد مرزائیوں کے نمائندہ کو سوال وجواب کے لئے وقت دیا جائے گا۔ اندرون شہر اور بیرون شہر منادی کی گئی۔ بعد نماز عشاء کم ازکم تیس ہزار کے مجمع میں میں نے ترک مرزائیت کے موضوع پر تین گھنٹے تقریر کی۔ سٹیج کے بالمقابل مرزائی مبلغین ومناظرین کے لئے میز اور کرسیاں رکھی گئی تھیں۔ میری تقریر کے بعد صاحب صدر نے اعلان کیا کہ حسب وعدہ مرزائی صاحبان کو مولانا لال حسین اختر رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر پر سوال وجواب کے لئے وقت دیا جاتا ہے تاکہ حاضرین مرزائیت کے صدق وکذب کااندازہ لگاسکیں۔ لاہوری اور قادیانی مرزائیوں کے مبلغ ومناظر موجود تھے۔ لیکن کسی کو ہمت وجرأت نہ ہوئی کہ وہ میرے مقابلہ میں آسکیں۔ صاحب صدر کی دعا کے بعد اجلاس برخواست ہوا۔

لالچ اور قاتلانہ حملے​

اس عظیم الشان جلسے اور مرزائیت کی شکست کی روداد اخبارات میں شائع ہوئی تو ملک کے طول وعرض سے مجھے تقریر کے لئے دعوتوں کا لگاتار سلسلہ شروع ہوگیا۔ مختلف شہروں اور قصبات میں میری بیسیوں تقریریں اور مرزائیوں سے پانچ چھ نہایت کامیاب مناظرے ہوئے۔ ان ایام میں اونچی مسجد اندرون بھاٹی دروازہ لاہور کے بالمقابل میرا قیام تھا ۔ میری تقریروں اور مناظروں کی کامیابی سے متأثر ہوکر مرزائیوں کے ایک وفد نے مجھ سے ملاقات کی اور مجھے کہا کہ آپ نے اپنی تحقیق کی بناء پر احمدیت ترک کر دی ہے۔ آپ کے موجودہ عقائد کے متعلق ہم آپ سے کچھ نہیں کہتے۔ ہم یہ کہنے آئے ہیں کہ آپ کی تقریریں اور مناظرے ہمارے لئے ناقابل برداشت ہیں۔ ہمیں علم ہے کہ سوائے تقریروں اور مناظروں کے آپ کی مالی آمد کا اور کوئی ذریعہ نہیں۔ جماعت احمدیہ آپ کو پندرہ ہزار روپے کی پیشکش کرتی ہے۔ آپ ہم سے یہ رقم لے لیں اور اس سے جنرل مرچنٹ یا کپڑے کا کاروبار شروع کر لیں اور ہمیں اشٹام لکھ دیں کہ میں پندرہ سال تک احمدیت کے خلاف نہ کوئی تقریر کروں گا اور نہ مناظرہ اور نہ ہی کوئی تحریری بیان شائع کروں گا۔ اگر اس معاہدہ کی خلاف ورزی کروں تو جماعت احمدیہ کو تیس ہزار روپیہ ہرجانہ ادا کروں گا۔ یہ بھی کہا کہ احمدیت کی تردید کوئی ایسا فرض نہیں جس کے بغیر آپ مسلمان نہیں رہ سکتے۔ حنفیوں، اہل حدیثوں اور شیعوں میں ہزاروں علماء ایسے ہیں جو احمدیت کی تردید نہیں کرتے۔ اگر وہ تردید احمدیت کے بغیر مسلمان رہ سکتے ہیں تو آپ بھی مسلمان رہ سکتے ہیں۔ میں نے جواباً کہا آپ صاحبان کو یہ ہمت کیسے ہوئی کہ مجھے لالچ کے فتنے میں پھانسنے کی جرأت کریں۔ میں ان علماء کرام کے طریق کار کا ذمہ دار نہیں جو تردید مرزائیت سے اجتناب کرتے ہیں۔ میرے لئے تو استیصال مرزائیت کی جدوجہد فرض عین ہے۔ کیونکہ میں نے مدت مدید تک اس کی نشرواشاعت کی ہے۔ مجھے تو اس کا کفارہ ادا کرنا ہے۔ دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا لالچ مجھے تردید مرزائیت سے منحرف نہیں کر سکتا۔ قریباً ایک گھنٹے کی گفتگو کے بعد مجھ سے مایوس ہوکر اٹھ کھڑے ہوئے اور جاتے ہوئے کہہ گئے کہ آپ نے ہمارے متعلق نہایت خطرناک طرز عمل اختیار کر رکھا ہے۔ آپ کے لئے اس کا نتیجہ تباہ کن ہوگا۔ میں نے انہیں کہا ؎
مواحد پہ درپائے ریزی رزش
خبر شمشر ندی نئی پر سرش​
میں نے ان کے اس جارحانہ چیلنج کی پرواہ نہ کی۔ حسب سابق اپنے تبلیغی سفروں، تقریروں اور مناظروں میں منہمک رہا۔ مرزائیوں نے اپنی سوچی سمجھی سکیم کے مطابق یکے بعد دیگرے ڈیرہ بابانانک ضلع گورداسپور کے مناظرہ اور بیلوں ڈلہوزی کے جلسہ کے ایام میں مجھ پر دوبار قاتلانہ حملے کئے۔ ڈیرہ بابا نانک کے حملہ میں مجھے زخم آیا۔ ایک مرزائی نے صاف الفاظ میں مجھے کہا کہ یاد رکھو ہم تمہیں قتل کرادیں گے۔ خواہ ہمارا پچاس ہزار روپیہ خرچ ہو میں نے اسے جواب دیا کہ میرا عقیدہ ہے کہ شہادت سے بہتر کوئی موت نہیں۔ قبر کی رات کبھی گھر میں نہیں آسکتی۔ ایک دفعہ بعد نماز عشاء بیلوں ڈلہوزی کی مسجد میں تردید مرزائیت پر میری تقریر ہورہی تھی۔ ایک مرزائی جس نے کمبل اوڑھا ہوا تھا۔ میز کے نزدیک آیا ایک مسلمان نے پکڑ لیا۔ مرزائی نے کمبل میں چھرا چھپا رکھا تھا۔ سب انسپکٹر پولیس جلسہ میں موجود تھا۔ اس نے اسی وقت مرزائی کو گرفتار کر کے چھرا اپنے قبضہ میں لے لیا اور اسے تھانے کے حوالات میں بند کر دیا۔ دوسرے دن علاقہ مجسٹریٹ کے سامنے پیش کردیا۔
مجسٹریٹ نے ملزم سے چھ ماہ کے لئے نیک چلنی کی ضمانت لے لی۔ لاہور کے اخبارات میں مجھ پر ڈیرہ بابا نانک کے حملہ کی خبر شائع ہوئی تھی۔ حضرت مولانا ظفر علی خان نے ’’زمیندار‘‘ میں ایک شذرہ سپرد قلم فرمایا تھا۔
مجلس احرار اسلام کے زعماؤں کو مجھ پر مرزائیوں کے حملوں کا علم ہوا تو قائد احرار حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ناظم دفتر سے فرمایا کہ مرزائیوں کی جارحیت کا جواب دینے کے لئے جلسہ کا انتظام کیجئے۔ چنانچہ کثیر التعداد پوسٹر چسپاں کئے گئے۔ اخبارات میں اعلان ہوا شہر کے ہر حصے میں منادی ہوئی کہ باغ بیرون دہلی دروازہ بعد نماز عشاء زیر صدارت چوہدری افضل حق رحمۃ اللہ علیہ عظیم الشان جلسہ منعقد ہوگا۔ جس میں حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ مرزائیوں کی جارحیت کے چیلنج کا جواب دیں گے۔
بعد نماز عشاء چالیس ہزار سے زائد کے مجمع میں حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے سٹیج پر کھڑا کر کے میرا تعارف کرایا۔ انہوں نے فرمایا کہ ہمارے اس نوجوان نومسلم عالم نے مناظروں میں مرزائیوں کو ذلیل ترین شکستیں دی ہیں۔ مرزائی ان کے دلائل کا جواب نہ دے سکے تو ڈیرہ بابا نانک اور ڈلہوزی میں ان پر قاتلانہ حملے کئے گئے۔
میں مرزائیوں سے نہیں ان کے خلیفہ مرزامحمود سے کہتا ہوں کہ اگر تم یہ کھیل کھیلنا چاہتے ہو تو میں تمہیں چیلنج دیتا ہوں کہ مرد میدان بنو۔ اب لال حسین اختر رحمۃ اللہ علیہ پر حملہ کراؤ پھر احرار کے فداکاروں کی یورش اور قربانیوں کا اندازہ لگانا ایک کی جگہ ایک ہزار سے انتقام لیا جائے گا۔ ہم خون کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔ ہماری تاریخ تمہارے سامنے ہے۔ ہم محلاتی سازشوں کے قائل نہیں۔ ہم میدان میں ڈٹ کر مقابلہ کرنے والے ہیں۔ ہمیں جو عمل کرنا ہوتا ہے اس کا واشگاف الفاظ میں اعلان کر دیتے ہیں۔ حضرت مولانا کی تقریر کیا تھی شجاعت وایثار اور حقائق کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا۔ باربار نعرہ ہائے تکبیر بلند ہوتے تھے۔ فرمایا ہم وہی احرار ہیں جن کے ۳۱رضاکار اسلام اور مسلمانوں کی عزت بچانے کے لئے سینوں پر ڈوگرہ حکومت کی گولیاں کھا کر شہید ہوئے ہیں اور چالیس ہزار نے قید وبند کی مصیبتیں بخوشی برداشت کیں۔ اس کے بعد مرزائیوں کو سانپ سونگھ گیا۔ مرزابشیر کی عقل ٹھکانے آگئی۔ میں حضرت امیرشریعت رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے گرامی قدر رفقاء کی معیت میں ترویج واشاعت اسلام اور احقاق حق وابطال باطل کے لئے وقف ہوگیا۔ اوپر میں نے جن نوجوانوں کا ذکر کیا ہے ان کی تفصیل یہ ہے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

خوابیں​

ایک رات میں نے خواب دیکھا کہ ایک چٹیل میدان میں ہزاروں لوگ حیران و پریشان کھڑے ہیں۔ میں بھی ان میں موجود ہوں۔ ان کے چاروں طرف لوہے کے بلند وبالا ستون ہیں اور ان پر زمین سے لے کر قدآدم تک خاردار تار لپٹا ہوا ہے۔ تار کے اس حلقے سے باہر نکلنے کا کوئی دروازہ یا راستہ نہیں۔ ہزاروں اشخاص کو اس میں قید کردیا گیا ہے۔ ان میں چند میری شناسا صورتیں بھی ہیں۔ میں نے ان سے دریافت کیا ہمیں اس مصیبت میں گرفتار کیوں کیاگیا ہے۔ انہوں نے مجھے جواباً کہا کہ ہمیں احمدیت کی وجہ سے مخالفین نے یہاں بند کر دیا ہے۔ یہاں سے کچھ فاصلہ پر مسیح موعود پلنگ پر سوئے ہوئے ہیں۔ انہیں ہماری خبر نہیں کہ وہ ہماری رہائی کے لئے کوشش کرسکیں۔ ہم میں سے کسی کے پاس کوئی اوزار نہیں جس سے خاردار تار کوکاٹ کر باہر نکلنے کا راستہ بنایا جاسکے۔ میں نے خاردار کے چاروں طرف گھومنا شروع کیا۔ میں نے دیکھا کہ ایک جگہ سے زمین کی سطح کے قریب کاتار ڈھیلا ہے۔ میں زمین پر بیٹھا اور اس تار کو اپنے دائیں پاوں سے نیچے دبایا تو وہ تار زمین کے ساتھ جالگا۔ سر کے قریبی تار کو ہاتھ سے ذرا اوپر کیا تو دونوں تاروں میں اس قدر فاصلہ ہوگیا کہ میں تار سے باہر نکل آیا۔
مجھے کافی فاصلہ پر پلنگ نظر آیا۔ جس پر مرزاغلام احمد قادیانی چادر اوڑھے لیٹا ہوا تھا۔ میں نہایت ادب واحترام سے پلنگ کے قریب پہنچ گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ اس نے اپنے چہرے سے چادر سرکائی تواس کا منہ قریباً دو فٹ لمبا تھا۔ شکل ناقابل بیان تھی۔ (خنزیر جیسی) ایک آنکھ بالکل بے نور اور بند تھی۔ دوسری آنکھ ماش کے دانے کے برابر تھی۔ اس نے کہا میری بہت بری حالت ہے۔ اس کی آواز کے ساتھ شدید قسم کی بدبو پیدا ہوئی۔ اس کی شکل اور بدبو سے میں کانپ گیا۔ میری نیند اچاٹ ہوگئی۔ نیند جاتی رہی اور میری آنکھ کھل گئی۔

دوسرا خواب​

ایک رات خواب دیکھا کہ ایک شخص مجھ سے قریباً دو سوگز آگے جارہا ہے۔ میں اس کے پیچھے پیچھے چل رہا ہوں۔ تانت (جس سے روئی دھنی جاتی ہے) کاایک سرا اس کی کمر میں بندھا ہوا ہے اور دوسرا سرا میری گردن میں۔ ہمارا سفر مغرب سے مشرق کی طرف ہے۔ دوران سفر راستہ پر دائیں طرف ایک نہایت وجیہ شخص نظر آئے۔ سفید رنگ، درمیانہ قد، روشن آنکھیں، سفید پگڑی، سفید لمباکرتہ، سفید شلوار۔ مسکراتے ہوئے مجھے فرمایا کہ کہاں جا رہے ہو؟ میں نے جواب دیا کہ جہاں میرے آگے جانے والے مجھے لے جارہے ہیں۔ کہنے لگے جانتے ہو یہ کون ہے؟ اور تمہیں کہاں لے جارہا ہے؟ میں نے کہا مجھے معلوم نہیں کہ یہ کون ہیں؟ اور مجھے کہاں لے جارہے ہیں؟ فرمانے لگے یہ غلام احمد قادیانی ہے۔ خود جہنم کو جارہا ہے اور تمہیں بھی وہیں لے جارہا ہے۔ میں نے کہا کہ دنیا میں کوئی ایسا انسان نہیں جو جان بوجھ کر جہنم میں جائے اور دوسروں کو بھی جہنم میں لے جائے۔ انہوں نے کہا کہ مسیلمہ کذاب کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے۔ کیا اس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کر کے عمداً جہنم کا راستہ اختیار نہ کیا تھا؟ میں اس کی دلیل کا جواب نہ دے سکا تو فرمانے لگے غور سے سامنے دیکھومیں نے سامنے نگاہ کی تو مجھے بہت دور حد نگاہ پر زمین سے آسمان تک سرخی دکھائی دی۔ انہوں نے پوچھا جانتے ہو یہ سرخ رنگ کیا ہے؟ میں نے کہا میں نہیں جانتا۔ کہنے لگے یہی تو جہنم کے شعلے ہیں۔ میں حسب سابق چل رہا تھا۔ وہ بھی میرے ساتھ ساتھ قدم اٹھاتے جارہے تھے۔ وہ غائب ہوگئے۔ میں بدستور اس شخص (غلام احمد قادیانی) کے پیچھے پیچھے جارہا تھا۔ ہم سرخی (جہنم کے شعلوں) کے قریب ہورہے تھے۔ اب تو مجھے حرارت بھی محسوس ہونے لگی۔ وہ وجیہ شخصیت پھر نمودار ہوئی۔ انہوں نے تانت پر ضرب لگائی تانت ٹوٹ گئی اور میں نیند سے بیدار ہوگیا۔
 
Top