تبلیغی زندگی کا آغاز
میری تبلیغی زندگی کا آغاز تحریک خلافت کا مرہون منت ہے۔ ۱۹۱۴ء میں برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کی جرمنی سے پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی۔ اس جنگ میں ترکی نے جرمنی کا ساتھ دیا اور برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ عراق، عرب، فلسطین، شام اور مصر سلطنت ترکی کے زیرنگیں تھے۔ ان تمام ممالک میں اتحادیوں اور ترکوں میں خوفناک جنگ شروع ہوئی۔ اس جنگ کے ابتداء ہی میں برطانوی حکومت نے اپنی اور اپنے اتحادیوں کی طرف سے اعلان کیا تھا اور مسلمانان عالم کو یقین دلایا تھا کہ جنگ میں ہمیں فتح ہوئی تو ہم مسلمانوں کے مقامات مقدسہ پر قبضہ نہیں کریں گے۔ جنگ کے ابتداء میں جرمنوں اور ترکوں کا پلہ بھاری تھا۔ ہر محاذ پر انہیں عظیم فتوحات حاصل ہو رہی تھیں۔
برطانیہ اور اس کے ساتھیوں کو شکست فاش کا سامنا ہورہا تھا۔ اپنی بگڑتی ہوئی حالت کے پیش نظر برطانیہ اور اس کے حلیفوں نے روس اور امریکہ سے مدد مانگی۔ ان دونوں ملکوں کی حکومتوں نے برطانوی عرضداشت کو منظور کر کے جرمنی اور ترکی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ۱۹۱۸ء میں جرمنی اور ترکی کو شکست ہوگئی۔
انگریزوں نے عراق وفلسطین کے مقامات مقدسہ پر قبضہ کر لیا تھا۔ ترکی حکومت کی طرف سے عرب کے گورنر شریف حسین نے ترکی کی سلطنت سے غداری کر کے اپنی خود مختار بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ یہاں تک کہ بیت اﷲ شریف میں سینکڑوں ترکوں کو شہید کر دیا گیا۔
ملت اسلامیہ کی خلافت کا اعزاز سلطنت ترکی کو حاصل تھا۔ خلیفتہ المسلمین مسلمانوں کی عظمت ووقار کے علمبردار تھے۔ سلطنت ترکی کی شکست اورمقامات مقدسہ پر انگریزوں کے قبضہ سے مسلمانان عالم میں کہرام برپا ہوگیا۔
تحریک خلافت
ہندوستان میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت مولانا ابوالکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت مولانا مفتی کفایت اﷲ رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت مولانا محمد علی جوہر رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت حکیم محمد اجمل خان رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت مولانا ظفر علی خان رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت مولانا سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا شوکت علی رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا مظہر علی اظہر رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا حسرت موہانی رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں خلافت اسلامیہ کی بقاء کے لئے تحریک خلافت شروع ہوئی۔
مارچ ۱۹۲۰ء میں حضرت مولانا محمد علی جوہر رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت مولانا سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ اور سید حسن امام صاحب بیرسٹر پر مشتمل ایک وفد لندن گیا اور وزیراعظم برطانیہ مسٹر لائیڈ جارج سے ملا۔ مقامات مقدسہ کے بارے میں برطانوی حکومت کا وعدہ یاد دلایا اور خلافت کے متعلق مسلمانان ہندوستان کے دینی احساسات سے آگاہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اپنے وعدہ کو ایفاء کیجئے اور مقامات مقدسہ سے برطانوی قبضہ اٹھا لیجئے۔ برطانوی وزیراعظم نے وفد کے مطالبے کو مستردکر دیا۔ وفد ناکام واپس آگیا۔ مقامات مقدسہ کے سقوط اور انگریزوں کی وعدہ خلافی کے باعث مسلمانان ہندوستان بے حد پریشان ومضطرب تھے۔ آل انڈیا خلافت کمیٹی نے عدم تشدد اور انگریزوں سے ترک موالات کی مقدس تحریک شروع کی۔ تحریک کا مقصد ترکی سلطنت اور خلافت کے وقار کا بحال کرنا اور مقامات مقدسہ اور ممالک اسلامیہ کا انگریزوں سے واگزار کرانا تھا۔ پروگرام یہ تجویز ہوا تھا۔
۱… انگریزی فوج اور پولیس کی نوکری چھوڑ دی جائے۔
۲… انگریزی حکومت کے لئے ہوئے خطابات واپس کئے جائیں۔
۳… انگریزی درسگاہوں سے طلباء اٹھا لئے جائیں۔
۴… ولائتی مال کا بائیکاٹ کیا جائے۔
۵… ہاتھ کابنا ہوا کھدر پہنا جائے۔
۶… انگریزی حکومت سے عدم تعاون کیا جائے۔ اس کے خلاف نفرت پیدا کی جائے اور ہندوستان کی جیلیں بھردی جائیں۔
تحریک خلافت میں شمولیت
میں اورینٹل کالج لاہور میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ تحریک خلافت شروع ہوئی۔ علماء کرام کے شریعت مطہرہ کے احکامات کے تحت حکومت کی درسگاہوں کے بائیکاٹ کے فتویٰ کی تعمیل کرتے ہوئے کالج چھوڑ دیا۔ اپنے وطن مالوف دھرم کوٹ رندھاوا اور بارہ منگا ضلع گورداسپور چلاگیا۔ لیکن ایک خواہش تھی جو دل میں چٹکیاں لے رہی تھی۔ ایک آرزو تھی جو نچلا نہ بیٹھنے دیتی تھی۔ ایک ارمان تھا کہ جس نے معمورۂ دل کو زیروزبر کر رکھا تھا۔ حسرت تھی تو یہی، تمنا تھی تو یہی کہ جس طرح ہو اپنے دین، ہاں پیارے اسلام کی خدمت کروں۔
ہمیشہ کے لئے رہنا نہیں اس دار فانی میں
کچھ اچھے کام کر لو چار دن کی زندگانی میں
عقل نے لاکھ سمجھایا دوستوں اور رشتہ داروں نے قیدوبند کا خوف دلایا تو میرے جذبہ ایمان نے کہا ؎
یہ تو نے کیا کہا ناصح نہ جانا کوئے جاناں میں
مجھے تو راہروں کی ٹھوکریں کھانا مگر جانا
میں نے کسی کی ایک نہ مانی اور مشہور ومعروف شعر ؎
دل اب تو عشق کے دریا میں ڈالا
توکلت علی اﷲ تعالیٰ
کا ورد کرتے ہوئے خلافت کمیٹی میں شمولیت کی۔ آٹھ نو ماہ ضلع گورداسپور میں خلافت کمیٹی بٹالہ کے زیرہدایت آنریری تبلیغ وتنظیم کا فریضہ ادا کرتا رہا۔ مولانا مظہر علی اظہر ایڈووکیٹ کی معیت میں مختلف مقامات کا دورہ کیا اور پورے زور سے خلافت کے اغراض ومقاصد کی تبلیغ کی۔ میری سرگرمی اور جمہور کی بیداری نے حکام کی طبع انتقام گیر کو مشتعل کر دیا۔ آخر کار مجھ پر گورداسپور، ننگل کنجروڑ اور ڈیرہ بابانانک کی تین تقریروں کی بناء پر حکومت کے خلاف منافرت اور بغاوت پھیلانے کا الزام عائد کر کے گورداسپور میں مقدمہ قائم کر دیا گیا۔ پولیس نے مجھے عید کے دن گرفتار کیا اور فرسٹ کلاس فرنگی مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کر دیا۔ مجسٹریٹ نے مجھے کہا کہ آپ پر بغاوت کا مقدمہ ہے۔ جس کی سزا چودہ سال قید سخت ہوسکتی ہے۔ میں نے کہا ؎
یہ سب سوچ کر دل لگایا ہے ناصح
نئی بات کیا آپ فرما رہے ہیں
مجسٹریٹ نے کہا اگر آپ اپنی تقریروں کے متعلق تحریری معذرت کر دیں تو مقدمہ واپس لے کر آپ کو رہا کر دیا جاتا ہے۔ میں نے جواب دیا ؎
جلا دو پھونک دو سولی چڑھا دو خوب سن رکھو
صداقت چھٹ نہیں سکتی ہے جب تک جان باقی ہے
مجسٹریٹ نے پولیس کے چند ٹاؤٹ گواہوں کی سرسری شہادت کے بعد مجھے ایک سال قید سخت کا حکم سنایا۔ ایک سال کی طویل مدت گورداسپور جیل میں گزاری۔ رہائی سے کچھ عرصہ پہلے جیل میں ہی مجھے اخبارات سے معلوم ہوا کہ مشہور آریہ سماجی لیڈر سوامی ردھانند اور آریہ سماج نے صوبہ یو۔پی میں ملکانوں اور علم دین سے بے بہرہ مسلمانوں کی مرتد کرنے کی تحریک زور شور سے جاری کی ہے۔ اس تحریک سے مسلمانان ہندوستان میں اضطراب کی لہردوڑ گئی۔ چنانچہ ارتداد روکنے کے لئے جمعیۃ العلماء ہند، خلافت کمیٹی، مدرسہ عالیہ دیوبندی، حنفی، اہل حدیث اور شیعہ جملہ مکاتب فکر کے مسلمان علماء وزعماء آریہ سماج کے مقابلے میں میدان تبلیغ میں نکل آئے۔