نبوت کا معیار نمبر 1: انبیاء کرام دنیوی اساتذہ کے شاگرد نہیں ہوتے
حضرات انبیاء کرام علیھم السلام تلمیذ الراحمٰن ہوتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ ہی سے علوم و معارف حاصل کرتے ہیں ۔ ان کا استاد صرف اللہ جل شانہ ہی ہوتا ہے ۔حدیث شفاعت میں ہے :
فیقول الانبیاء کلنا نبی امی فانی اینا ارسل
(صحیح ابن حبان جلد 4 صفحہ 108 رقم الحدیث 6489)
ترجمہ: پس انبیاء کرام کہیں گے کہ ہم تمام نبی امی ہیں اسے ہم میں سے کس کی طرف بھیجا گیا ہے ۔
اس امر کا اعتراف مرزا قادیانی نے اس طرح کیا ہے کہ :
" لاکھ لاکھ حمد اور تعریف اس قادر مطلق کی ذات کے لائق ہے کہ جس نے ساری ارواح اور اجسام بغیر کسی مادہ اور ہیولیٰ کے اپنے ہی حکم اور امر سے پیدا کرکے اپنی قدرت عظیمہ کا نمونہ دکھلایا اور تمام نفوس قدسیہ انبیا کو بغیر کسی استاد اور اتالیق کے آپ ہی تعلیم اور تادیب فرما کر اپنے فیوض قدیمہ کا نشان ظاہر فرمایا "
(روحانی خزائن جلد 1 براہینِ احمدیہ حصہ اول صفحہ 16)
"إنہم تلامیذ الرحمان"
بے شک وہ (تمام انبیاء) رحمٰن کے شاگرد ہیں
(روحانی خزائن جلد 8 سِرّ الخلافۃ صفحہ 424)
وہ مزید لکھتا ہے :
سب نبی تلامیذ الرحمٰن ہیں ۔
(اربعین2 روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 358 حاشیہ)
جب مسلمانوں کی طرح مرزا قادیانی بھی اس امر کو تسلیم کرتا ہے کہ انبیاء کرام کا کوئی دینوی استاد نہیں ہوتا تو آئیے اس پیمانہ پر مرزا قادیانی کو بھی پرکھیں اس لیے کہ اس کا دعویٰ ہے ۔
1: خدا تعالیٰ نے میرا نام نبی اور رسول رکھا ہے ۔
(ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 211)
2: میں رسول اور نبی ہوں ۔
(نزول المسیح حاشیہ صفحہ 3 روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 381)
3: یٰس انک لمن المرسلین علی صراط مستقیم
اے سردار تو خدا کا مرسل ہے راہ راست پر ۔
(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 110)
اگر مرزا قادیانی کا دعویٰ درست ہوتا تو یقیناً اس کا بھی کوئی دنیوی استاد نہ ہوتا لیکن ہم اس کے اپنے قلم سے اپنی دینوی تعلیم کا حال لکھا ہوا دیکھتے ہیں ۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:
"بچپن سے زمانہ میں میری تعلیم اس طرح پر ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلّم میرے ؔ لئے نوکر رکھا گیا۔ جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں اور اس بزرگ کا نام فضل الٰہی تھا۔ اور جب میری عمر تقریباً دس برس کے ہوئی تو ایک عربی خواں مولوی صاحب میری تربیت کے لئے مقرر کئے گئے جن کا نام فضل احمد تھا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ چونکہ میری تعلیم خداتعالیٰ کے فضل کی ایک ابتدائی تخم ریزی تھی اس لئے ان استادوں کے نام کا پہلا لفظ بھی فضل ہی تھا۔ مولوی صاحب موصوف جو ایک دیندار اور بزرگوار آدمی تھے۔ وہ بہت توجہ اور محنت سے پڑھاتے رہے اور میں نے صَرفکی بعض کتابیں اور کچھ قواعد نَحواُن سے پڑھے اور بعد اس کے جب میں سترہ یا اٹھارہ سال کا ہوا تو ایک اور مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ان کا نام گلؔ علی شاہ تھا۔ ان کو بھی میرے والد صاحب نے نوکر رکھ کر قادیاں میں پڑھانے کے لئے مقرر کیا تھا۔ اور ان آخر الذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خداتعالیٰ نے چاہا حاصل کیا اور بعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں اور وہ فن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تھے اور ان دنوں میں مجھے کتابوں کے دیکھنے کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ گویا میں دنیا میں نہ تھا۔ میرے والد صاحب مجھے بار بار یہی ہدایت کرتے تھے کہ کتابوں کا مطالعہ کم کرنا چاہئے "
(روحانی خزائن جلد 13 کِتابُ البَریَّۃ صفحہ 180،181)
مرزا قادیانی کی ہر دو تحریروں سے معلوم ہوا :
انبیا کرام کسی دنیوی استاد کے شاگرد نہیں ہوتے
مرزا قادیانی نے دنیوی اساتذہ سے علم حاصل کیا
مرزا قادیانی کا دنیوی اساتذہ کا شاگر ہونا اس کے کذاب ہونے کی واضح دلیل ہے