• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

نزول عیسیٰ علیہ اسلام کے بعد رفع کی آیات کا کیا بنے گا ؟؟

خادمِ اعلیٰ

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سوال : مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق قران میں ہے کہ عیسیٰ علیہ اسلام نازل ہوں گے ، جب وہ نازل ہوں گے تو قرانی آیات کا کیا بنے گا یہ آیات تو پھر بھی کہہ رہی ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام نازل ہوں گے کیا یہ منسوخ ہو جائیں گی ؟؟

جواب :
قران مجید میں اللہ رب العزت نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سے وعدے کیے ، جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہی اپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے وابستہ تھے ، وہ وعدے پورے ہوۓ اور آیات آج بھی ماجود ہیں اور پڑھی بھی جاتی ہیں ، مَثَلاً
( 1 ) الٓمٓ o غُلِبَتِ الرُّومُ ( سورۂ الروم 2،1 ) (اہلِ ) روم مغلوب ہوگئے .
مرزا غلام قادیانی خود بھی اس پیشگوئی کا پورا ہونا مان چکے ہیں ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 44 )
2hft06s.gif


( 2 ) إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ ( سورۂ النصر 1 ) جب خدا کی مدد آ پہنچی اور فتح (حاصل ہو گئی)
( 3 ) تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ ( سورۂ اللھب ) ابولہب کے ہاتھ ٹوٹیں اور وہ ہلاک ہو
( 4 ) لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ ( سورۂ الفتح 27 )
اگر خدا نے چاہا تو مسجد حرام میں اپنے سر منڈوا کر اور اپنے بال کتروا کر امن وامان سے داخل ہوگے۔ اور کسی طرح کا خوف نہ کرو گے۔

یہ تمام وعدے پورے ہوۓ جب بات پوری ہو جائے تو آیت بدل نہیں جاتی بلکہ اور زیادہ شان سے چمکنے لگتی ہے ، کہ جن کا وعدہ تھا وہ پورا ہوگیا .
قران مجید میں عیسیٰ علیہ اسلام نے خوشخبری دی " مُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ " ( سورۂ الصف 6 )
اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " انا دعوة ابراھیم وبشری عیسیٰ ابن مریم " ( کنزل العمال صفحہ 384 )
6f2w5t.gif

اسی طرح جب عیسیٰ علیہ اسلام تشریف لائیں گے تو وہ بھی فرمائیں گے کہ میں ان آیات کا بذات خود مصداق بن کر آیا ہوں تو ان کے نزول سے ان آیات کی عملی تفسیر ہو جائے گی ، اور یہ آیات اور زیادہ شان سے چمکنے لگ جائیں گی ، نہ کہ منسوخ ہو جائیں گی .

جواب 2 :
مرزا غلام قادیانی نے قطعاََ جہاد کو حرام قرار دیا ہے ، جبکہ قران پاک میں جہاد کے حکم اور فضیلت کے بارے میں بیشمار آیات ماجود ہیں .
قادیانی حضرات جواب دیں کہ جب وہ قران مجید پڑھتے ہیں تو ان آیات پر پہنچ کر کیا کرتے ہیں ؟؟
کیا تلاوت کرتے کرتے ان آیات کو منسوخ سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں یا پڑھتے ہیں ؟؟

( 1 ) وَمَنْ يُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيُقْتَلْ أَوْ يَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا ( سورۂ النساء 74 )
اور جو شخص خدا کی راہ میں جنگ کرے اور شہید ہوجائے یا غلبہ پائے ہم عنقریب اس کو بڑا ثواب دیں گے
( 2 ) الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللَّهِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ ( سورۂ التوبہ 20 )
جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑ گئے اور خدا کی راہ میں مال اور جان سے جہاد کرتے رہے۔ خدا کے ہاں ان کے درجے بہت بڑے ہیں۔ اور وہی مراد کو پہنچنے والے ہیں
( 3 ) إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ ( سورۂ الحجرات 15 )
بیشک مومن تو وہ ہیں جو خدا اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر شک میں نہ پڑے اور خدا کی راہ میں مال اور جان سے لڑے۔ یہی لوگ (ایمان کے) سچے ہیں

تو قادیانی حضرت جہاد کی آیات کے بارے میں کرتے ہیں وہی حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کے نزول کے بارے میں آیات کے ساتھہ کیا کریں .
 

اکرم

رکن ختم نبوت فورم
جماعت احمدیہ اپنے بانی کی اقتداء میں یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پا چکے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات قرآن و حدیث کے علاوہ عقلی دلائل سے بھی ثابت ہوتی ہے ۔

بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔

’’ اَور کئی طریق سے اُن پرانے خیالات پر سخت سخت اعتراض عقل کے وارد ہوتے ہیں جن سے مَخلصی حاصل کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ازانجملہ ایک یہ ہے کہ قرآن شریف کے کسی مقام سے ثابت نہیں کہ حضرت مسیح اِسی خاکی جسم کے ساتھ آسمان کی طرف اُٹھائے گئے بلکہ قرآن شریف کے کئی مقامات میں مسیح کے فوت ہوجانے کا صریح ذکر ہے اور ایک جگہ خود مسیح کی طرف سے فوت ہوجانے کا اقرار موجود ہے۔

اور وہ یہ ہے۔ كُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ‌ۚ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِىْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ‌ وَاَنْتَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ شَهِيْدٌ‏ ۔اب جب کہ فوت ہوجانا ثابت ہوا تو اس سے ظاہر ہے کہ اُن کا جسم اُن سب لوگوں کی طرح جو مرجاتے ہیں زمین میں دفن کیا گیا ہوگا کیونکہ قرآن شریف بصراحت ناطق ہے کہ فقط اُن کی روح آسمان پر گئی نہ کہ جسم۔ تب ہی تو حضرت مسیح نے آیت موصوفہ بالا میں اپنی موت کا صاف اقرار کر دیا اگر وہ زندوں کی شکل پر خاکی جسم کے ساتھ آسمان کی طرف پرواز کرتے تو اپنے مرجانے کا ہرگز ذکر نہ کرتے اور ایسا ہرگز نہ کہتے کہ میں وفات پا کر اس جہان سے رخصت کیا گیا ہوں۔ اب ظاہر ہے کہ جبکہ آسمان پر اُن کی روح ہی گئی تو پھر نازل ہونے کے وقت جسم کہاں سے ساتھ آجائے گا۔

ازانجملہ ایک یہ اعتراض ہے کہ نیا اور پُرانا فلسفہ بالاتفاق اس بات کو محال ثابت کرتا ہے کہ کوئی انسان اپنے اس خاکی جسم کے ساتھ کُرَّۂ زَمْہَرِیْر تک بھی پہنچ سکے بلکہ علم طبعی کی نئی تحقیقاتیں اس بات کو ثابت کر چکی ہیں کہ بعض بلند پہاڑوں کی چوٹیوں پر پہنچ کر اس طبقہ کی ہوا ایسی مُضرِّ صحت معلوم ہوئی ہے کہ جس میں زندہ رہنا ممکن نہیں۔پس اس جسم کا کُرَّۂ ماہتاب یا کُرَّۂ آفتاب تک پہنچنا کس قدر لغو خیال ہے

ازانجملہ ایک یہؔ اعتراض ہے کہ جو لوگ آسمانوں کے وجود کے قائل ہیں وہ البتہ اُن کی حرکت کے بھی قائل ہیں اور حرکت بھی دولابی خیال کرتے ہیں اب اگر فرض کیا جائے کہ حضرت مسیح جسم خاکی کے ساتھ آسمان پر گئے ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ ہر وقت اُوپر کی سمت میں ہی نہیں رہ سکتے بلکہ کبھی اُوپر کی طرف ہوں گے اور کبھی زمین کے نیچے آ جاؔ ئیں گے اس صورت میں اس بات پر وثوق بھی نہیں ہو سکتاہے کہ وہ ضرور اُوپر کی ہی طرف سے اُتریں گے کیا یہ ممکن نہیں کہ زمین کے نیچے سے ہی نکل آویں کیونکہ درحقیقت اُن کا ٹھکانہ تو کسی جگہ نہ ہوا اگر صبح آسمان کے اُوپر ہوئے تو شام کو زمین کے نیچے۔ پس ایسی مصیبت اُن کے لئے روا رکھنا کس درجہ کی بے ادبی میں داخل ہے۔

ازانجملہ ایک یہ اعتراض کہ اگر ہم فرض محال کے طور پرقبول کر لیں کہ حضرت مسیح اپنے جسم خاکی کے سمیت آسمان پر پہنچ گئے تو اس بات کے اقرار سے ہمیں چار ہ نہیں کہ وہ جسم جیساکہ تمام حیوانی و انسانی اجسام کے لئے ضروری ہے آسمان پر بھی تاثیر زمانہ سے ضرور متاثر ہو گا اور بمرور زمانہ لابدی اور لازمی طور پر ایک دن ضرور اس کے لئے موت واجب ہو گی پس اس صورت میں اول تو حضرت مسیح کی نسبت یہ ماننا پڑتا ہے کہ اپنی عمر کا دورہ پوراکر کے آسمان ہی پر فوت ہو گئے ہوں اور کواکب کی آبادی جو آج کل تسلیم کی جاتی ہے اُسی کے کسی قبرستان میں دفن کئےگئے ہوں اور اگر پھر فرض کے طور پراب تک زندہ رہنا اُن کا تسلیم کر لیں تو کچھ شک نہیں کہ اتنی مدت گزرنے پر پِیر فَرتوت ہو گئے ہوں گے اور اس کام کے ہرگز لائق نہیں ہوں گے کہ کوئی خدمت دینی اداکر سکیں پھر ایسی حالت میں اُن کا دنیا میں تشریف لانا بجُز ناحق کی تکلیف کے اور کچھ فائدہ بخش معلوم نہیں ہوتا۔

(ازالہ اوہام حصہ اول۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 126)

See all answers
 

خادمِ اعلیٰ

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
جماعت احمدیہ اپنے بانی کی اقتداء میں یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پا چکے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات قرآن و حدیث کے علاوہ عقلی دلائل سے بھی ثابت ہوتی ہے ۔

بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔

’’ اَور کئی طریق سے اُن پرانے خیالات پر سخت سخت اعتراض عقل کے وارد ہوتے ہیں جن سے مَخلصی حاصل کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ازانجملہ ایک یہ ہے کہ قرآن شریف کے کسی مقام سے ثابت نہیں کہ حضرت مسیح اِسی خاکی جسم کے ساتھ آسمان کی طرف اُٹھائے گئے بلکہ قرآن شریف کے کئی مقامات میں مسیح کے فوت ہوجانے کا صریح ذکر ہے اور ایک جگہ خود مسیح کی طرف سے فوت ہوجانے کا اقرار موجود ہے۔

اور وہ یہ ہے۔ كُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ‌ۚ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِىْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ‌ وَاَنْتَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ شَهِيْدٌ‏ ۔اب جب کہ فوت ہوجانا ثابت ہوا تو اس سے ظاہر ہے کہ اُن کا جسم اُن سب لوگوں کی طرح جو مرجاتے ہیں زمین میں دفن کیا گیا ہوگا کیونکہ قرآن شریف بصراحت ناطق ہے کہ فقط اُن کی روح آسمان پر گئی نہ کہ جسم۔ تب ہی تو حضرت مسیح نے آیت موصوفہ بالا میں اپنی موت کا صاف اقرار کر دیا اگر وہ زندوں کی شکل پر خاکی جسم کے ساتھ آسمان کی طرف پرواز کرتے تو اپنے مرجانے کا ہرگز ذکر نہ کرتے اور ایسا ہرگز نہ کہتے کہ میں وفات پا کر اس جہان سے رخصت کیا گیا ہوں۔ اب ظاہر ہے کہ جبکہ آسمان پر اُن کی روح ہی گئی تو پھر نازل ہونے کے وقت جسم کہاں سے ساتھ آجائے گا۔

ازانجملہ ایک یہ اعتراض ہے کہ نیا اور پُرانا فلسفہ بالاتفاق اس بات کو محال ثابت کرتا ہے کہ کوئی انسان اپنے اس خاکی جسم کے ساتھ کُرَّۂ زَمْہَرِیْر تک بھی پہنچ سکے بلکہ علم طبعی کی نئی تحقیقاتیں اس بات کو ثابت کر چکی ہیں کہ بعض بلند پہاڑوں کی چوٹیوں پر پہنچ کر اس طبقہ کی ہوا ایسی مُضرِّ صحت معلوم ہوئی ہے کہ جس میں زندہ رہنا ممکن نہیں۔پس اس جسم کا کُرَّۂ ماہتاب یا کُرَّۂ آفتاب تک پہنچنا کس قدر لغو خیال ہے

ازانجملہ ایک یہؔ اعتراض ہے کہ جو لوگ آسمانوں کے وجود کے قائل ہیں وہ البتہ اُن کی حرکت کے بھی قائل ہیں اور حرکت بھی دولابی خیال کرتے ہیں اب اگر فرض کیا جائے کہ حضرت مسیح جسم خاکی کے ساتھ آسمان پر گئے ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ ہر وقت اُوپر کی سمت میں ہی نہیں رہ سکتے بلکہ کبھی اُوپر کی طرف ہوں گے اور کبھی زمین کے نیچے آ جاؔ ئیں گے اس صورت میں اس بات پر وثوق بھی نہیں ہو سکتاہے کہ وہ ضرور اُوپر کی ہی طرف سے اُتریں گے کیا یہ ممکن نہیں کہ زمین کے نیچے سے ہی نکل آویں کیونکہ درحقیقت اُن کا ٹھکانہ تو کسی جگہ نہ ہوا اگر صبح آسمان کے اُوپر ہوئے تو شام کو زمین کے نیچے۔ پس ایسی مصیبت اُن کے لئے روا رکھنا کس درجہ کی بے ادبی میں داخل ہے۔

ازانجملہ ایک یہ اعتراض کہ اگر ہم فرض محال کے طور پرقبول کر لیں کہ حضرت مسیح اپنے جسم خاکی کے سمیت آسمان پر پہنچ گئے تو اس بات کے اقرار سے ہمیں چار ہ نہیں کہ وہ جسم جیساکہ تمام حیوانی و انسانی اجسام کے لئے ضروری ہے آسمان پر بھی تاثیر زمانہ سے ضرور متاثر ہو گا اور بمرور زمانہ لابدی اور لازمی طور پر ایک دن ضرور اس کے لئے موت واجب ہو گی پس اس صورت میں اول تو حضرت مسیح کی نسبت یہ ماننا پڑتا ہے کہ اپنی عمر کا دورہ پوراکر کے آسمان ہی پر فوت ہو گئے ہوں اور کواکب کی آبادی جو آج کل تسلیم کی جاتی ہے اُسی کے کسی قبرستان میں دفن کئےگئے ہوں اور اگر پھر فرض کے طور پراب تک زندہ رہنا اُن کا تسلیم کر لیں تو کچھ شک نہیں کہ اتنی مدت گزرنے پر پِیر فَرتوت ہو گئے ہوں گے اور اس کام کے ہرگز لائق نہیں ہوں گے کہ کوئی خدمت دینی اداکر سکیں پھر ایسی حالت میں اُن کا دنیا میں تشریف لانا بجُز ناحق کی تکلیف کے اور کچھ فائدہ بخش معلوم نہیں ہوتا۔

(ازالہ اوہام حصہ اول۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 126)

See all answers
شکر ہے اپ نے مذکورہ جواب پر کوئی اعتراض نہیں کیا چلیں اپ کی پیش کردہ عبارت پر ایک سوال ہم قائم کرتے ہیں
مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ: ’’نیا اور پرانا فلسفہ بالاتفاق اس بات کو محال ثابت کرتا ہے کہ کوئی انسان اپنے خاکی جسم کے ساتھ کرۂ زمہریر تک بھی پہنچ سکے… بلندی پر… زندہ رہنا ممکن نہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص47، خزائن ج3 ص126)
اس حوالہ میں فلسفیوں کے فلسفہ کو بنیاد بنا کر سیدنا مسیح علیہ السلام کی وفات پر استدلال کر رہا ہے۔ لیکن (کشتی نوح ص22، خزائن ج19 ص24) پر لکھا: ’’تمہیں اس دنیا کے فلسفیوں کی پیروی مت کرو اور ان کو عزت کی نگاہ سے مت دیکھو کہ یہ سب نادانیاں ہیں۔ سچا فلسفہ وہ ہے جو خدا نے تمہیں اپنے کلام میں سکھلایا ہے۔‘‘
اب قادیانی فرمائیں کہ مرزا قادیانی پہلے حوالہ میں فلسفیوں کے قول سے استدلال کر رہا ہے۔ دوسرے میں فلسفیوں کی پیروی سے انکار کر رہا ہے۔ کیا مرزاقادیانی کی مثال اس عیار کی طرح نہیں؟ کہ مطلب کی بات جھوٹی گھڑے اور مطلب کے خلاف کی حقیقت کو بھی جھٹلادے؟۔ مرزاقادیانی کی اس دورخی کا قادیانیوں کے پاس کوئی علاج ہے؟ اس موقعہ پر مرزاقادیانی کا یہ حوالہ بھی مدنظر رہنا مفید ہوگا جو (ازالہ اوہام ص862، خزائن ج3 ص572) میں ہے۔ ’’جھوٹے پر ہزار لعنت نہ سہی پانچ سو سہی۔‘‘ کیسے رہا؟
 

خادمِ اعلیٰ

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
جماعت احمدیہ اپنے بانی کی اقتداء میں یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پا چکے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات قرآن و حدیث کے علاوہ عقلی دلائل سے بھی ثابت ہوتی ہے ۔

بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔

’’ اَور کئی طریق سے اُن پرانے خیالات پر سخت سخت اعتراض عقل کے وارد ہوتے ہیں جن سے مَخلصی حاصل کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ازانجملہ ایک یہ ہے کہ قرآن شریف کے کسی مقام سے ثابت نہیں کہ حضرت مسیح اِسی خاکی جسم کے ساتھ آسمان کی طرف اُٹھائے گئے بلکہ قرآن شریف کے کئی مقامات میں مسیح کے فوت ہوجانے کا صریح ذکر ہے اور ایک جگہ خود مسیح کی طرف سے فوت ہوجانے کا اقرار موجود ہے۔

اور وہ یہ ہے۔ كُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ‌ۚ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِىْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ‌ وَاَنْتَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ شَهِيْدٌ‏ ۔اب جب کہ فوت ہوجانا ثابت ہوا تو اس سے ظاہر ہے کہ اُن کا جسم اُن سب لوگوں کی طرح جو مرجاتے ہیں زمین میں دفن کیا گیا ہوگا کیونکہ قرآن شریف بصراحت ناطق ہے کہ فقط اُن کی روح آسمان پر گئی نہ کہ جسم۔ تب ہی تو حضرت مسیح نے آیت موصوفہ بالا میں اپنی موت کا صاف اقرار کر دیا اگر وہ زندوں کی شکل پر خاکی جسم کے ساتھ آسمان کی طرف پرواز کرتے تو اپنے مرجانے کا ہرگز ذکر نہ کرتے اور ایسا ہرگز نہ کہتے کہ میں وفات پا کر اس جہان سے رخصت کیا گیا ہوں۔ اب ظاہر ہے کہ جبکہ آسمان پر اُن کی روح ہی گئی تو پھر نازل ہونے کے وقت جسم کہاں سے ساتھ آجائے گا۔

ازانجملہ ایک یہ اعتراض ہے کہ نیا اور پُرانا فلسفہ بالاتفاق اس بات کو محال ثابت کرتا ہے کہ کوئی انسان اپنے اس خاکی جسم کے ساتھ کُرَّۂ زَمْہَرِیْر تک بھی پہنچ سکے بلکہ علم طبعی کی نئی تحقیقاتیں اس بات کو ثابت کر چکی ہیں کہ بعض بلند پہاڑوں کی چوٹیوں پر پہنچ کر اس طبقہ کی ہوا ایسی مُضرِّ صحت معلوم ہوئی ہے کہ جس میں زندہ رہنا ممکن نہیں۔پس اس جسم کا کُرَّۂ ماہتاب یا کُرَّۂ آفتاب تک پہنچنا کس قدر لغو خیال ہے

ازانجملہ ایک یہؔ اعتراض ہے کہ جو لوگ آسمانوں کے وجود کے قائل ہیں وہ البتہ اُن کی حرکت کے بھی قائل ہیں اور حرکت بھی دولابی خیال کرتے ہیں اب اگر فرض کیا جائے کہ حضرت مسیح جسم خاکی کے ساتھ آسمان پر گئے ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ ہر وقت اُوپر کی سمت میں ہی نہیں رہ سکتے بلکہ کبھی اُوپر کی طرف ہوں گے اور کبھی زمین کے نیچے آ جاؔ ئیں گے اس صورت میں اس بات پر وثوق بھی نہیں ہو سکتاہے کہ وہ ضرور اُوپر کی ہی طرف سے اُتریں گے کیا یہ ممکن نہیں کہ زمین کے نیچے سے ہی نکل آویں کیونکہ درحقیقت اُن کا ٹھکانہ تو کسی جگہ نہ ہوا اگر صبح آسمان کے اُوپر ہوئے تو شام کو زمین کے نیچے۔ پس ایسی مصیبت اُن کے لئے روا رکھنا کس درجہ کی بے ادبی میں داخل ہے۔

ازانجملہ ایک یہ اعتراض کہ اگر ہم فرض محال کے طور پرقبول کر لیں کہ حضرت مسیح اپنے جسم خاکی کے سمیت آسمان پر پہنچ گئے تو اس بات کے اقرار سے ہمیں چار ہ نہیں کہ وہ جسم جیساکہ تمام حیوانی و انسانی اجسام کے لئے ضروری ہے آسمان پر بھی تاثیر زمانہ سے ضرور متاثر ہو گا اور بمرور زمانہ لابدی اور لازمی طور پر ایک دن ضرور اس کے لئے موت واجب ہو گی پس اس صورت میں اول تو حضرت مسیح کی نسبت یہ ماننا پڑتا ہے کہ اپنی عمر کا دورہ پوراکر کے آسمان ہی پر فوت ہو گئے ہوں اور کواکب کی آبادی جو آج کل تسلیم کی جاتی ہے اُسی کے کسی قبرستان میں دفن کئےگئے ہوں اور اگر پھر فرض کے طور پراب تک زندہ رہنا اُن کا تسلیم کر لیں تو کچھ شک نہیں کہ اتنی مدت گزرنے پر پِیر فَرتوت ہو گئے ہوں گے اور اس کام کے ہرگز لائق نہیں ہوں گے کہ کوئی خدمت دینی اداکر سکیں پھر ایسی حالت میں اُن کا دنیا میں تشریف لانا بجُز ناحق کی تکلیف کے اور کچھ فائدہ بخش معلوم نہیں ہوتا۔

(ازالہ اوہام حصہ اول۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 126)

See all answers
شکر ہے اپ نے مذکورہ جواب پر کوئی اعتراض نہیں کیا چلیں اپ کی پیش کردہ عبارت پر ایک سوال ہم قائم کرتے ہیں
مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ: ’’نیا اور پرانا فلسفہ بالاتفاق اس بات کو محال ثابت کرتا ہے کہ کوئی انسان اپنے خاکی جسم کے ساتھ کرۂ زمہریر تک بھی پہنچ سکے… بلندی پر… زندہ رہنا ممکن نہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص47، خزائن ج3 ص126)
اس حوالہ میں فلسفیوں کے فلسفہ کو بنیاد بنا کر سیدنا مسیح علیہ السلام کی وفات پر استدلال کر رہا ہے۔ لیکن (کشتی نوح ص22، خزائن ج19 ص24) پر لکھا: ’’تمہیں اس دنیا کے فلسفیوں کی پیروی مت کرو اور ان کو عزت کی نگاہ سے مت دیکھو کہ یہ سب نادانیاں ہیں۔ سچا فلسفہ وہ ہے جو خدا نے تمہیں اپنے کلام میں سکھلایا ہے۔‘‘
اب قادیانی جی آپ فرمائیں کہ مرزا قادیانی پہلے حوالہ میں فلسفیوں کے قول سے استدلال کر رہا ہے۔ دوسرے میں فلسفیوں کی پیروی سے انکار کر رہا ہے۔ کیا مرزاقادیانی کی مثال اس عیار کی طرح نہیں؟ کہ مطلب کی بات جھوٹی گھڑے اور مطلب کے خلاف کی حقیقت کو بھی جھٹلادے؟۔ مرزاقادیانی کی اس دورخی کا قادیانیوں کے پاس کوئی علاج ہے؟ اس موقعہ پر مرزاقادیانی کا یہ حوالہ بھی مدنظر رہنا مفید ہوگا جو (ازالہ اوہام ص862، خزائن ج3 ص572) میں ہے۔ ’’جھوٹے پر ہزار لعنت نہ سہی پانچ سو سہی۔‘‘ کیسے رہا؟
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قادیانی مربی صاحب سوال کر رہے ہیں کہ نزول عیسی علیہ السلام کے بعد ہم قرآن کی ان آیات کا کیا کریں گے جس میں نزول عیسی علیہ السلام کا ذکر ہے ۔ پہلے تو میرا جی چاہا کہ مربی کو علمی جواب دوں ۔ پھر یاد آیا کہ ان مربیوں کے قریب سے بھی کبھی علم نہیں گزرا ہو گا ۔ اس لیے اسی کےسوال کے انداز میں اس سے میں جوابیہ سوال کرتا ہوں کہ مربی جی آپ لوگ توجہاد کو حرام مانتے ہیں ۔ پھر قرآن پاک کی ان آیات کا آپ کیا کریں گے جس میں جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے ؟ کیا تم سورۃ النفال کو قرآن سے نکال دو گے؟؟
قادیانی حضرات جواب دیں کہ جب وہ قران مجید پڑھتے ہیں تو ان آیات پر پہنچ کر کیا کرتے ہیں ؟؟
کیا تلاوت کرتے کرتے ان آیات کو منسوخ سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں یا پڑھتے ہیں ؟؟

( 1 ) وَمَنْ يُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيُقْتَلْ أَوْ يَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا ( سورۂ النساء 74 )
اور جو شخص خدا کی راہ میں جنگ کرے اور شہید ہوجائے یا غلبہ پائے ہم عنقریب اس کو بڑا ثواب دیں گے
( 2 ) الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللَّهِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ ( سورۂ التوبہ 20 )
جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑ گئے اور خدا کی راہ میں مال اور جان سے جہاد کرتے رہے۔ خدا کے ہاں ان کے درجے بہت بڑے ہیں۔ اور وہی مراد کو پہنچنے والے ہیں
( 3 ) إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ ( سورۂ الحجرات 15 )
بیشک مومن تو وہ ہیں جو خدا اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر شک میں نہ پڑے اور خدا کی راہ میں مال اور جان سے لڑے۔ یہی لوگ (ایمان کے) سچے ہیں
تو قادیانی حضرت جہاد کی آیات کے بارے میں کرتے ہیں وہی حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کے نزول کے بارے میں آیات کے ساتھہ کیا کریں .

15473_807236822700773_4846970255822279668_n.jpg
 
Top