• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

نگاہ اوّلین

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

نگاہ اوّلین​

مناظر اسلام مولانا لال حسین اختر رحمۃ اللہ علیہ کا وجود قادیانیت کے لئے تازیانہ خداوندی تھا۔ آپ نے نصف صدی خدمت اسلام اور تحفظ ناموس رسالتa کا مقدس فریضہ سرانجام دیا۔ اندرون وبیرون ملک آپ کی خدمات جلیلہ کا ایک زمانہ معترف ہے۔ ان گرانقدر خدمات میں حکیم الامت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ، شیخ الاسلام مولانا سید انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ ، قطب الارشاد شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ کی دعائیں، سرپرستی اور حضرت امیرشریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی رفاقت کا بہت بڑا دخل ہے۔ ان خدمات کو اس سے بڑھ کر اور کیا خراج پیش کیا جاسکتا ہے کہ ایک دفعہ شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مناظرہ میں مولانا لال حسین اختر رحمۃ اللہ علیہ کو نہ صرف اپنا نمائندہ بنایا، بلکہ ان کی فتح وشکست کو اپنی فتح وشکست قرار دیا۔
مولانا لال حسین اختر رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے گرامی قدر رفقاء مرحومین کا صدقہ جاریہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ہے۔ جب تک اس جماعت کے خدام ورضاکار دنیا کے کسی بھی حصہ میں منکرین ختم نبوت کی سرکوبی کریں گے ان حضرات کی مقدس ارواح کو برابر ثواب وتسکین حاصل ہوتی رہے گی۔
مناظر اسلام مولانا لال حسین اختر رحمۃ اللہ علیہ نے متعدد عنوانوں پر قلم اٹھایا۔ تقریر کی طرح تحریر میں بھی غضب کی گرفت اور مناظرانہ استدلال سے دشمن کو لاجواب کر دینے کی شان نمایاں ہے۔
ردقادیانیت پر آپ کے ’’چودہ‘‘ رسائل ومضامین ہیں۔ جن میں سے بعض کو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے لاکھوں کی تعداد میں اندرون وبیرون ملک تقسیم کیا اور بعض ایسے رسائل ہیں جو ایک آدھی دفعہ وقتی ضرورت کے تحت شائع ہوئے اور آج وہ نایاب ہیں۔ اس لئے ضرورت تھی کہ ان تمام رسائل کو یکجا کتابی شکل میں شائع کر دیں تاکہ ہمیشہ کے لئے لائبریریوں میں محفوظ ہو جائیں۔

ترتیب وتعارف​

مولانا ظفر علی خان مرحوم نے ایک بار جیل میں اپنے گرامی قدر ساتھی مولانا لال حسین اختر رحمۃ اللہ علیہ کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔ سب سے اوّل میں وہ شامل اشاعت ہے۔

1-ترک مرزائیت:​

اس کتاب میں مولانا مرحوم نے اپنے مرزائیت چھوڑنے کے اسباب بیان کئے ہیں۔ اس کتاب کو قدرت نے اس قدر شرف قبولیت سے نوازا کہ مولانا سید انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تصنیف ’’خاتم النّبیین‘‘ میں اس کے حوالے نقل کئے ہیں۔

۲-ختم نبوت اور بزرگان امت:​

قادیانیوں نے امت محمدیہa کے جلیل القدر اکابرین پر اپنے دجل وتلبیس سے الزامات لگائے کہ وہ ’’اجرائے نبوت‘‘ کے قائل تھے۔ قادیانیوں کے اس دجل وفریب کا مولانا نے اس رسالہ میں جواب دیا ہے اور ایسا کافی وشافی کہ اس کے بعد قادیانیوں کے ہمیشہ کے لئے منہ بند ہوگئے۔

۳-حضرت مسیح علیہ السلام مرزاقادیانی کی نظر میں:​

مرزاغلام احمد قادیانی کے گستاخ وبے باک قلم سے انبیاء کرامo کی ذات تک محفوظ نہیں رہی۔ حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی توہین وتنقیص میں تو اس نے یہودیوں کے بھی کان کتر لئے اور ظلم یہ کہ قادیانی امت آج بھی ان غلیظ تحریروں کو پڑھ کر توبہ کرنے کی بجائے تاویل باطل کا انداز اپناتی ہے۔ مولانا مرحوم نے مرزاقادیانی کے ’’اس کفر کو‘‘ واضح کیا ہے اور مرزائیوں کی تاویلوں کا دندان شکن جواب دیا ہے۔
اﷲ رب العزت کے فضل وکرم سے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے اس کا انگریزی ایڈیشن بھی شائع کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

۴-حضرت خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ اور مرزاغلام احمد قادیانی:​

خواجہ غلام فرید مرحوم بہاول پور کے مشہورومعروف بزرگ اور صوفی تھے۔ ریاست بہاول پور کے ’’والیان‘‘ کو ان سے بہت بڑی عقیدت تھی۔ مشہور زمانہ ’’مقدمہ بہاول پور‘‘ میں مرزائیوں نے مشہور کر دیا کہ خواجہ غلام فرید، مرزاقادیانی کے ہمنوا تھے۔ ان کی یہ شرارت محض بہاول پور ریاست کے عوام کو دھوکہ دینے کی غرض سے تھی۔ مولانا لال حسین اختر رحمۃ اللہ علیہ نے اس رسالہ میں ثابت کیا ہے کہ مرزائیوں کا پروپیگنڈہ مرزاقادیانی کی نبوت کی طرح جھوٹا ہے۔ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ تمام مسلمانوں کی طرح مرزاقادیانی کو کافر سمجھتے تھے۔

۵-مرکز اسلام مکہ مکرمہ میں قادیانیوں کی ریشہ دوانیاں:​

نام وعنوان سے مضمون واضح ہے.

۶-سیرت مرزا،​

۷-عجائبات مرزا،​

۸-حمل مرزا:​

ان تینوں مضامین میں مرزاقادیانی کے کریکٹروکردار کو اس کے اوٹ پٹانگ حوالہ جات سے ثابت کیا ہے کہ نبوت تو بہت دور کی چیز ہے۔ مرزاقادیانی میں شرافت نام کی بھی کوئی چیز نہ تھی۔

۹- آخری فیصلہ:​

اس رسالہ میں مرزاقادیانی کی مولانا ثناء اﷲ مرحوم کے ساتھ دعا ومباہلہ کی لکھی گئی ہے۔

۱۰-بکروثیب:​

بکروثیب مرزا کی پیشین گوئی تھی۔ اس کا حشر بھی مرزاقادیانی کی جھوٹی نبوت جیسا ہوا۔ اس کی تفصیل لکھی گئی ہے۔

۱۱-وفاقی وزیرقانون کی خدمت میں عرضداشت:​

جناب محمود علی قصوری مرحوم، ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے زمانہ اقتدار میں وفاقی وزیر قانون تھے۔ مولانا لال حسین اختر رحمۃ اللہ علیہ ان دنوں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر تھے۔ آپ نے قصوری صاحب سے ملاقات کی اور قادیانیوں کے متعلق قانون سازی کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے گفتگو کے تمام نکات کو تحریری طور پر پیش کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ آپ نے انہی نکات کو رسالہ کی شکل میں لکھ کر ان کو بھجوا دیا۔

۱۲-سقوط مشرقی پاکستان پر حمود الرحمن کمیشن میں تحریری بیان:​

سقوط مشرقی پاکستان پر تحقیقات کے لئے جسٹس حمود الرحمن کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم ہوا۔ مولانا لال حسین اختر رحمۃ اللہ علیہ نے تحریری طور پر اس کمیشن میں بیان داخل کرایا کہ سقوط مشرقی پاکستان میں رسوائے زمانہ ایم۔ایم احمد قادیانی اور دوسرے مرزائیوں کا بھی ہاتھ ہے۔

۱۳-مسلمانوں کی نسبت قادیانیوں کا عقیدہ:​

نام سے مضمون واضح ہے۔ بلاتبصرہ قادیانیوں کے حوالہ جات ہیں۔

۱۴-انگلستان میں مجلس تحفظ ختم نبوت کی کامیابی:​

مولانا لال حسین اختر رحمۃ اللہ علیہ کی ان خدمات کی تھوڑی سی جھلک ہے، جو ووکنگ کی ’’مسجد شاہجہاں‘‘ کو قادیانیوں سے واگزار کرانے کے سلسلہ میں آپ نے سرانجام دی تھیں۔ یہ رپورٹ کسی اور بزرگ کی لکھی ہوئی ہے۔ تاہم موضوع کی مناسبت سے اسے ہم مجموعہ میں شامل کر رہے ہیں۔
اس طرح یہ کتاب ’’چودہ‘‘ مختلف رسائل ومضامین کا حسین گلدستہ ہے جو گلہائے رنگارنگ سے مزین کر کے آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی ہم سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ بے حد وحساب حمد وثناء اس ذات باری تعالیٰ کی جس کی عنایت کردہ توفیق سے اس کتاب کو شائع کر رہے ہیں۔ کروڑوں درودوسلام اس ذات بابرکاتa پر جن کی وصف خاص ’’ختم نبوت‘‘ کے پھریرے کو چار دانگ عالم میں لہرانے کا شرف عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کو حاصل ہے۔
خاکپائے مناظر اسلام، طالب دعا: عزیزالرحمن جالندھری
خادم، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان، پاکستان، ۲۹؍جنوری ۱۹۸۸ء
 

محمد اسامہ حفیظ

رکن ختم نبوت فورم

مناظر اسلام مولانا لال حسین اختر رحمۃ اللہ علیہ سے مناظرہ نہ کیا جائے​

قادیانیوں کا سرکاری سطح پر اعلان​

فقیر جن دنوں چناب نگر ریلوے اسٹیشن پر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیراہتمام قائم شدہ پہلی مسجد ’’مسجد محمدیہ‘‘ میں خطبہ جمعہ دیتا تھا، ان دنوں کتابیں، حوالہ جات، اخبارات ورسائل ہاتھ میں لے کر قادیانیوں کو خطاب کرنے کا طریقہ اختیار کیا تھا۔ ان دنوں قادیانی اخبار ’’الفضل‘‘ کے دو پرچے مناظر اسلام مولانا عبدالرحیم اشعر دامت برکاتہم نے عنایت کئے جن میں قادیانیوں کا اعتراف شکست تھا۔ قادیانی جماعت نے اپنے اخبار الفضل میں جماعتی طور پر باضابطہ اعلان کیا تھا کہ مناظر اسلام مولانا لال حسین اختر رحمۃ اللہ علیہ سے کوئی قادیانی مناظرہ نہ کرے۔ بلکہ ان کی مجلس میں نہ جائے۔ ان کی گفتگو نہ سنے۔ یہ دونوں حوالہ جات چناب نگر (ربوہ) اسٹیشن جامع مسجد محمدیہ میں فقیر نے پڑھ کر سنائے۔ قادیانی سٹ پٹائے۔ اخبار پرانے تھے ان پر کور چڑھانے کے لئے ایک ’’مخلص‘‘ نے لے لئے اور وہ نہ ملنے تھے نہ ملے۔ فقیر کے لئے یہ اتنا بڑا سانحہ تھا کہ بس کچھ نہ پوچھئے۔ جب یاد آتا دل مسوس کر رہ جاتا۔ اخبار سے زیادہ صدمہ اس بات کا تھا کہ ان کی تاریخ کہیں درج نہ کی تھی۔ ورنہ اخبار تو کہیں سے بھی حاصل کیا جاسکتا تھا۔ ہمارے حضرت مولانا عبدالرحیم اشعر مدظلہ کو اﷲتعالیٰ دنیا وآخرت میں اس کی بہتر جزا دیں۔ ان کی نوٹ بکوں میں کہیں وہ تاریخیں مل گئیں۔ فقیر نے وہ ڈائری کے ٹائٹل پر نقل کر لیں۔ آج مورخہ ۵؍جولائی ۱۹۹۹ء کو فرصت نکال کر مجلس کے مرکزی دفتر کی لائبریری سے الفضل کی متعلقہ فائل نکالی تو بحمدہٖ تعالیٰ وہ پرچے مل گئے۔ لیجئے! اس خوشی میں فقیر آپ کو بھی شریک کرنا چاہتا ہے۔
مناظر اسلام مولانا لال حسین اختر رحمۃ اللہ علیہ امت مسلمہ میں سے وہ فرد واحد ہیں جن کے متعلق قادیانی جماعت کے ناظر دعوت وتبلیغ (یعنی مناظروں کے انچارج اعلیٰ) زین العابدین ولی اﷲ شاہ نے اخبار الفضل مورخہ یکم؍جولائی ۱۹۵۰ء میں باضابطہ اعلان کیا۔ یہ اعلان الفضل (الدجل) کے ڈیڑھ صفحہ پر محیط ہے۔ ’’مبلغین سلسلہ ودیگر احباب محتاط رہیں‘‘ عنوان قائم کر کے اس نے تحریر کیا۔
’’مولوی لال حسین اختر اور اس قماش کے دوسرے مبلغین جگہ بہ جگہ ہمارے خلاف اکھاڑے قائم کئے ہوئے ہیں۔ جماعت احمدیہ اور اس کے مقدس امام (مرزا قادیانی) کو بازاری قسم کی گندی گالیاں دیتے اور ہمارے عقائد اور اقوال کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اپنی طرف سے من گھڑت باتیں ہماری طرف منسوب کر کے لوگوں کو مغالطہ میں ڈالتے ہیں اور مبلغین سلسلہ (قادیانیت) کو چیلنج دیتے ہیں کہ ان کے ساتھ مناظرہ کر لیں۔ چنانچہ ساہیوال کے جلسہ میں لال حسین اختر نے مبلغین سلسلہ (قادیانیوں) کو خطاب کرتے ہوئے باربار کہا آؤ مناظرہ کرو۔ تم مذہبی جماعت نہیں۔ بلکہ سیاسی جماعت ہو۔ عنوان ہو کہ قادیانی کافر تھا۔ انگریز کا جاسوس تھا۔ دجال تھا۔ کذاب تھا۔ گونگا شیطان تھا۔ اگر نہ آؤ تو لعنۃ اﷲ علی الکاذبین۔ فرشتوں کی لعنت۔ آسمان کی لعنت۔ زمین کے بسنے والوں کی لعنت۔ میں اﷲ پاک کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر مرزائی مقابلہ پر آئے تو دن کے تارے نہ دکھائے تو لال حسین اختر میرا نام نہیں۔ کوئی مرزائی میرے سامنے بول نہیں سکتا۔ کوئی میرے سامنے آیا تو ناطقہ بند ہو جائے گا۔ اس لئے میں (زین العابدین قادیانی ناظر دعوۃ وارشاد) مبلغین سلسلہ (قادیانیوں) کو کھلے الفاظ میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ مناظروں کے لئے ان کے چیلنجوں پر قطعاً توجہ نہ کی جائے۔ بلکہ ان کے کسی ایسے جلسوں میں کسی احمدی کو شریک نہ ہونا چاہئے۔‘‘
(الفضل ج۳۸ نمبر۱۵۳ کالم۱ ص۴، مورخہ یکم؍جولائی ۱۹۵۰ء)
اس طرح ۵؍جولائی ۱۹۵۰ء کے اخبار (الفضل ج۳۸ نمبر۱۵۶ ص۸ کالم۱) میں لکھا کہ: ’’ناظر دعوۃ تبلیغ سلسلہ عالیہ احمدیہ (قادیانیہ) ربوہ نے ایک مضمون مورخہ یکم؍جولائی ۱۹۵۰ء الفضل میں شائع فرماکر مبلغین سلسلہ عالیہ احمدیہ (قادیانیہ) اور احباب جماعت کو ہدایت فرمائی ہے کہ بد سے بدزبان مولوی لال حسین اختر سے کلام کرنے میں احتراز کریں۔‘‘
اس لحاظ سے امت مسلمہ میں سے مولانا لال حسین رحمۃ اللہ علیہ وہ مرد حق ہیں جن کے نام سے دنیائے قادیانیت کانپتی وہانپتی تھی۔ مولانا کی للکار احرار نے قادیانی مبلغین ومناظرین کی بولتی بند کر دی تھی۔ ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا تھا۔ جو قادیانی جغادری ان کے سامنے آتا، منہ کی کھاتا۔ منہ کے بل گرتا اور سسکتا سسکتا رہ جاتا۔ مولانا کے سامنے کسی قادیانی کا چراغ نہ جلتا تھا۔ اس لئے خود قادیانی اپنی حسرت ویاس میں جل بھن کر اعلان کرنے پر مجبور ہوئے کہ ان سے مناظرہ نہ کیا جائے، کلام نہ کیا جائے، گفتگو نہ کی جائے۔ بلکہ ان کی گفتگو ہی نہ سنی جائے۔ کیوں جناب؟ یہ سب کچھ قادیانی جماعت اعلان کر رہی ہے یا قدرت حق مولانا لال حسین اختر رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول کو سچا ثابت کر رہی ہے جو وہ اکثر مناظروں میں فرمایا کرتے تھے کہ: ’’ماں نے وہ بچہ نہیں جنا جو لال حسین اختر سے آکر مناظرہ کرے۔ قادیانی زہر کا پیالہ پی سکتے ہیں۔ لال حسین کے سامنے مرزاغلام احمد (اپنے چیف گرو، لاٹ پادری) کو شریف انسان ثابت نہیں کر سکتے۔‘‘
باقی رہا قادیانیوں کا یہ عذر کہ مولانا لال حسین اختر گالیاں دیتے ہیں۔ یہ صرف مولانا کی گرفت سے بچنے کی قادیانی چال ہے۔ یہ ان کا بدترین الزام تھا۔ دھوکہ تھا۔ مولانا لال حسین اختر رحمۃ اللہ علیہ مناظرہ، جلسہ تو درکنار کسی مجلس میں بھی آپ نے کبھی کوئی گالی نہیں دی۔ یہ محض مولانا سے جان چھڑانے کے لئے، اپنی جہالت وعجز پر پردہ ڈالنے کے لئے، قادیانی مناظر بہانہ بنایا کرتے تھے۔ ورنہ اگر مولانا گالیاں دیتے تھے تو اس لحاظ سے تو ہرروز قادیانیوں کو مولانا سے مناظرہ کرنا چاہئے تھا۔ قادیانی دلائل دیتے۔ مولانا گالیاں دیتے تو لوگ قادیانیوں کے ساتھ ہو جاتے۔ ان کو پتہ چل جاتا کہ سچا کون ہے اور جھوٹا کون ہے۔ معلوم ہوا کہ مناظروں کے فرار کے لئے قادیان کی جھوٹ ساز مل نے قادیانی کذابوں کے لئے دجل وفریب کا یہ نیا چولہ تیار کر کے دیا تھا کہ وہ یوں بہانہ بناکر مولانا لال حسین اختر رحمۃ اللہ علیہ کی مناظرانہ للکار سے کنارہ عافیت تلاش کر سکیں۔ قدرت حق مولانا لال حسین اختر رحمۃ اللہ علیہ پر اپنی رحمتوں کی بارش نازل فرمائے۔

حسن اتفاق​

آج ۵؍جولائی ۱۹۹۹ء ہے۔ جس اخبار الفضل کا حوالہ دیا ہے ان میں ایک اخبار ۵؍جولائی ۱۹۵۰ء کا ہے۔ ٹھیک انچاس سال بعد اسی ہی تاریخ کو قادیانی دجل پارہ پارہ اور مولانا لال حسین اختر رحمۃ اللہ علیہ کی مناظرانہ جرأت کو آشکارا کرنے کا قدرت نے موقع عنایت فرمایا ہے۔ (فقیر) اﷲ وسایا
 
Top