سورہ النسا، آیت 157
وما قتلوہ و وصلبوہ ولکن شبہ لھم
۔
اور نہ انہوں نے عیسی علیہ السلام کو قتل کیا اور نہ ہی ان کو صلیب پر چڑھایا بلکہ ان کے لئے شبیہ بنا دی گئی ۔
آیت کے متعلق ضروری وضاحتیں
اللہ کریم نے سورہ النسا، کی آیت157 میں یہود کے حضرت عیسی علیہ السلام کے قتل کرنے کے دعوی کی تردید کر دی کہ قتل تو دور کی بات وہ تو حضرت عیسی علیہ السلام کو صلیب پر بھی نہ چڑھا سکے ۔
ایک نحوی نکتہ:
یہاں میں ایک نہایت اہم نکتہ آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا اس پر خاص غور فرمائیے گا
پہلی بات تو یہ کہ شبہ لھم کا ترجمہ جمہور مفسرین نے شبیہ بنا دی گئی ہی کیا ہے ۔
اس آیت ولا کن شبہ لھم میں ولا کن کے الفاظ بہت اہم ہیں
اس کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیں
ما قام زید ولاکن عمر ( نہیں کھڑا ہوا زید لیکن عمر )
یہ اصل میں پورا جملہ یوں بنتا ہے
ما قام زید ولاکن قام عمر ( نہیں کھڑا ہوا زید بلکہ کھڑا ہوا عمر)
پس اس سے معلوم ہوا کہ ولا کن سے پہلے جس فعل کا انکار کیا گیا ہے ولاکن کے بعد اسی فعل کا اثبات مقصود ہے صرف فعل کی نسبت فاعلی یا مفعولی میں تبدیلی ہو جاتی ہے ۔
یعنی جس فعل کی نفی کی جا رہی ہے وہ صرف ایک خاص فاعل یا مفعول کے لحاظ سے کی جا رہی ہے ورنہ فی الواقع فعل واقع ضرور ہوا ہے ۔
جیسا کہ اوپر زید اور عمر کی مثال سے واضح ہے کہ جس فعل کی نفی زید سے کی گئی ہے اسی فعل کا اثبات عمر کے لئے کیا گیا ہے
اب اس مثال کو مدنظر رکھتے ہوئے سورہ النسا، کی آیت وما قتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لھم کی ترکیب نحوی کریں تو یہ مکمل جملہ یوں ہے
صلب یا صلیب کی لغوی بحث
سولی پر لٹکانا ۔ سولی پر چڑھانا کو عربی میں کہتے ہیں ۔
المصلوب. صلب ۔
قرآن نے وما صلبوہ کہہ کر عیسی علیہ السلام کو سولی پر چڑھائے جانے کا ہی انکار کر کے
قادیانیوں ، عیسائیوں اور یہودیوں کے عقیدے کی نفی کر دی ۔
صلب کا مطلب صرف اور صرف لٹکانا ہے اور لٹکا کرمرنے کے لئے چھوڑ دینا قتل کا ایک معروف طریقہ تھا ۔ گوشت کو سوکھنے کے لئے جب لٹکاتے ہیں تو اسے صلب لحم کہتے ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی کو قتل کرنے کے بعد سولی پر لٹکا دیا گیا تھا وہاں بھی ان کے لئے صلب کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔
عبداللہ بن زبیر
كان عبد الله بن الزبير يستعمل الصبر والمسك قبل قتله لئلا ينتن. فلمّا صلبه الحجاج فاحت من جثته رائحة المسك. وقيل إن الحجاج صلب معه كلباً أو سنُّوراً ميتاً حتى تغطّي الرائحة النتنة للسنور على رائحة المسك.
وقيل إن الجثة ظلّت مصلوبة حتى مرّ بها عبد الله بن عمر، فقال: رحمة الله عليك يا أبا خبيب. أما والله لقد كنت صوّاماً قوّاماً ". ثم قال: "أما آن لهذا الراكب أن ينزل"؟ فبعث الحجاج، فأنزلت الجثة ودفن.
وهنا نرى شدة حقد الحجاج وعبد الملك بن مروان على عبد الله بن الزبير، فقد قتلاه ثم صلباه ومثّلا به حتى بعد سقوطه، كما كان ابن الزبير قد توقّع. وقد فعلوا هذا لأنه خرج عليهم.
مزے کی بات یہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی بھی اس بات کو اچھی طرح جانتا تھا کہ مصلوب کا معنیٰ صلیب پر مرا ہوا نہیں ہوتے اور اس سچ کو اس نے اپنی ایک تحریر میں بالواسطہ بیان بھی کر دیا ۔
" اور یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ بالاتفاق مان لیا گیاہے ۔کہ وہ صلیب اس قسم کی نہیں تھی جیسا کہ آج کل کی پھانسی ہوتی ہے اورگلے میں رسّہ ڈالکر ایک گھنٹہ میں کام تمام کیاجاتاہے۔بلکہ اس قسم کا کوئی رسّہ گلے میں نہیں ڈالا جاتا تھا صرف بعض اعضاء میں کیلیں ٹھوکتے تھے اور پھر احتیاط کی غرض سے تین تین دن مصلوب بھوکے پیاسے صلیب پر چڑھائے رہتے تھے اور پھر بعد اس کے ہڈیاں توڑی جاتی تھیں اور پھر یقین کیاجاتا تھا کہ اب مصلوب مرگیا۔" (روحانی خزائن جلد3 صفحہ 296)
غور کیجئے اگرمصلوب جو صلب کا اسم مفعول ہے کے معنی "سولی پر مرا ہوا یا مارا ہوا" ٹھیک ہوں تو وہ وہ مرا ہوا آدمی بھی کبھی بھوکا اور پیاسا رہ سکتا ہے ؟ جیسا کے اوپر کی تحریر میں مرزا قادیانی مصلوب کا بھوکا پیاسا ہونا تسلیم کر رہے ہیں نیز اگر مصلوب کا معنی پھانسی پر مارا ہوا صحیح ہوں تو پھر مرزا قادیانی کے اس فقرے "اب مصلوب مر گیا " کے کیا معنی ہوں گے ؟؟؟
روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 274 پر مرزا صاحب لکھتے ہیں
بغیر اس کے تو مصلوب یا مضروب ہونے کی حالت میں فوت ہو
پس مرزا قادیانی کی اس تحریر سے ثابت ہوگیا کہ مصلوب کا معنی صرف اور صرف صلیب پر لٹکانا ہے ۔
مرزا قادیانی کی ہی ایک تحریر سے جو اس کے بقول الہامی ہے اس میں بھی مرزا قادیانی نے تسلیم کر لیا کہ مصلوب کا معنی صرف صلیب پر لٹکانا ہوتا ہے ۔
اور نہ انہوں نے عیسی علیہ السلام کو قتل کیا اور نہ ہی ان کو صلیب پر چڑھایا بلکہ ان کے لئے شبیہ بنا دی گئی ۔
آیت کے متعلق ضروری وضاحتیں
اللہ کریم نے سورہ النسا، کی آیت157 میں یہود کے حضرت عیسی علیہ السلام کے قتل کرنے کے دعوی کی تردید کر دی کہ قتل تو دور کی بات وہ تو حضرت عیسی علیہ السلام کو صلیب پر بھی نہ چڑھا سکے ۔
ایک نحوی نکتہ:
یہاں میں ایک نہایت اہم نکتہ آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا اس پر خاص غور فرمائیے گا
پہلی بات تو یہ کہ شبہ لھم کا ترجمہ جمہور مفسرین نے شبیہ بنا دی گئی ہی کیا ہے ۔
اس آیت ولا کن شبہ لھم میں ولا کن کے الفاظ بہت اہم ہیں
اس کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیں
ما قام زید ولاکن عمر ( نہیں کھڑا ہوا زید لیکن عمر )
یہ اصل میں پورا جملہ یوں بنتا ہے
ما قام زید ولاکن قام عمر ( نہیں کھڑا ہوا زید بلکہ کھڑا ہوا عمر)
پس اس سے معلوم ہوا کہ ولا کن سے پہلے جس فعل کا انکار کیا گیا ہے ولاکن کے بعد اسی فعل کا اثبات مقصود ہے صرف فعل کی نسبت فاعلی یا مفعولی میں تبدیلی ہو جاتی ہے ۔
یعنی جس فعل کی نفی کی جا رہی ہے وہ صرف ایک خاص فاعل یا مفعول کے لحاظ سے کی جا رہی ہے ورنہ فی الواقع فعل واقع ضرور ہوا ہے ۔
جیسا کہ اوپر زید اور عمر کی مثال سے واضح ہے کہ جس فعل کی نفی زید سے کی گئی ہے اسی فعل کا اثبات عمر کے لئے کیا گیا ہے
اب اس مثال کو مدنظر رکھتے ہوئے سورہ النسا، کی آیت وما قتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لھم کی ترکیب نحوی کریں تو یہ مکمل جملہ یوں ہے
وما قتلوہ وما صلبوہ ولکن قتلوا و صلبوا من شبہ لھم
اور انہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو قتل نہیں کیا اور نہ ہی انہیں صلیب پر چڑھایا لیکن اسے قتل کیا اور صلیب پر چڑھایا جس کی شبیہ ان کے لئے عیسی جیسی بنا دی گئی تھی ۔صلب یا صلیب کی لغوی بحث
سولی پر لٹکانا ۔ سولی پر چڑھانا کو عربی میں کہتے ہیں ۔
المصلوب. صلب ۔
قرآن نے وما صلبوہ کہہ کر عیسی علیہ السلام کو سولی پر چڑھائے جانے کا ہی انکار کر کے
قادیانیوں ، عیسائیوں اور یہودیوں کے عقیدے کی نفی کر دی ۔
صلب کا مطلب صرف اور صرف لٹکانا ہے اور لٹکا کرمرنے کے لئے چھوڑ دینا قتل کا ایک معروف طریقہ تھا ۔ گوشت کو سوکھنے کے لئے جب لٹکاتے ہیں تو اسے صلب لحم کہتے ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی کو قتل کرنے کے بعد سولی پر لٹکا دیا گیا تھا وہاں بھی ان کے لئے صلب کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔
عبداللہ بن زبیر
كان عبد الله بن الزبير يستعمل الصبر والمسك قبل قتله لئلا ينتن. فلمّا صلبه الحجاج فاحت من جثته رائحة المسك. وقيل إن الحجاج صلب معه كلباً أو سنُّوراً ميتاً حتى تغطّي الرائحة النتنة للسنور على رائحة المسك.
وقيل إن الجثة ظلّت مصلوبة حتى مرّ بها عبد الله بن عمر، فقال: رحمة الله عليك يا أبا خبيب. أما والله لقد كنت صوّاماً قوّاماً ". ثم قال: "أما آن لهذا الراكب أن ينزل"؟ فبعث الحجاج، فأنزلت الجثة ودفن.
وهنا نرى شدة حقد الحجاج وعبد الملك بن مروان على عبد الله بن الزبير، فقد قتلاه ثم صلباه ومثّلا به حتى بعد سقوطه، كما كان ابن الزبير قد توقّع. وقد فعلوا هذا لأنه خرج عليهم.
مزے کی بات یہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی بھی اس بات کو اچھی طرح جانتا تھا کہ مصلوب کا معنیٰ صلیب پر مرا ہوا نہیں ہوتے اور اس سچ کو اس نے اپنی ایک تحریر میں بالواسطہ بیان بھی کر دیا ۔
" اور یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ بالاتفاق مان لیا گیاہے ۔کہ وہ صلیب اس قسم کی نہیں تھی جیسا کہ آج کل کی پھانسی ہوتی ہے اورگلے میں رسّہ ڈالکر ایک گھنٹہ میں کام تمام کیاجاتاہے۔بلکہ اس قسم کا کوئی رسّہ گلے میں نہیں ڈالا جاتا تھا صرف بعض اعضاء میں کیلیں ٹھوکتے تھے اور پھر احتیاط کی غرض سے تین تین دن مصلوب بھوکے پیاسے صلیب پر چڑھائے رہتے تھے اور پھر بعد اس کے ہڈیاں توڑی جاتی تھیں اور پھر یقین کیاجاتا تھا کہ اب مصلوب مرگیا۔" (روحانی خزائن جلد3 صفحہ 296)
غور کیجئے اگرمصلوب جو صلب کا اسم مفعول ہے کے معنی "سولی پر مرا ہوا یا مارا ہوا" ٹھیک ہوں تو وہ وہ مرا ہوا آدمی بھی کبھی بھوکا اور پیاسا رہ سکتا ہے ؟ جیسا کے اوپر کی تحریر میں مرزا قادیانی مصلوب کا بھوکا پیاسا ہونا تسلیم کر رہے ہیں نیز اگر مصلوب کا معنی پھانسی پر مارا ہوا صحیح ہوں تو پھر مرزا قادیانی کے اس فقرے "اب مصلوب مر گیا " کے کیا معنی ہوں گے ؟؟؟
روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 274 پر مرزا صاحب لکھتے ہیں
بغیر اس کے تو مصلوب یا مضروب ہونے کی حالت میں فوت ہو
پس مرزا قادیانی کی اس تحریر سے ثابت ہوگیا کہ مصلوب کا معنی صرف اور صرف صلیب پر لٹکانا ہے ۔
مرزا قادیانی کی ہی ایک تحریر سے جو اس کے بقول الہامی ہے اس میں بھی مرزا قادیانی نے تسلیم کر لیا کہ مصلوب کا معنی صرف صلیب پر لٹکانا ہوتا ہے ۔
آخری تدوین
: