وما قتلوہ یقیناً بل رفعہ اللہ الیہ و کان اللہ عزیزا حکیما
(النسا، 158)
یہ آیت مبارکہ حیات مسیح علیہ السلام پر دلیل صریح ہے ۔ اس میں اللہ پاک نے بالکل واضح الفاظ میں بیان کردیا کہ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ہرگز قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا اور بے شک اللہ غالب اور حکمت والا ہے ۔
اس آیت میں دو چیزیں بہت اہم ہیں جن پر ہم راشنی ڈالیں گے ۔
1: لفظ "بل"
2: آسمان پر اٹھایا جانا
تو پہلے ہم لفظ بل پر کچھ روشنی ڈالتے ہیں۔
۔ بل ایک عربی لفظ ہے کتب نحو کے جاننے والوں سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ بل کے بعد والے مضمون اور مضمون ماقبل کے درمیان تضاد ہونا ضروری ہے ۔
مثلاً اگر کوئی یوں کہے کہ "زید آدمی نہیں بلکہ قادیانی ہے" تو یہ فقرہ بالکل غلط ہے کیونکہ بل سے پہلے زید کے آدمی ہونے کا انکار ہے اور اس کے بعد اس کے قادیانی ہونے کا اقرار ہے لیکن ان دونوں باتوں میں کوئی مخالفت یا تضاد نہیں کیونکہ آخر آدمی تو قادیانی بھی ہیں ۔
لہذا صحیح فقرہ یوں ہونا چاہئے " زید مسلمان نہیں بلکہ قادیانی ہے" کیونکہ کہنے والے کا مطلب یہ ہے قادیانی کافر ہیں جو مسلمان کی ضد ہے ۔ یا یہ فقرہ صحیح ہے " زید آدمی نہیں بلکہ جن ہے" کیونکہ زید کے آدمی ہونے کی نفی کر کے اس کے جن ہونے کا اقرار ہے ۔
پس معلوم ہوا کہ بل کے پہلے اور مابعد والے مضمون میں ضد اور مخالفت ضروری ہے۔
قتل اور سولی پر چڑھانے اور زندہ اٹھائے جانے میں تو مخالفت ہے مگر قتل اور روح کے اٹھائے جانے میں کوئی مخالفت نہیں بلکہ بے گناہ مقتول کا رفع روحانی تو ایک مسلمہ اصول ہے ۔
۔بل ابطالیہ میں جو اللہ کریم نے یہاں استعمال فرمایا ہے ضروری ہے کہ بل کے ما بعد والے مضمون کا فعل ، فعل ما قبل سے پہلے وقوع آ چکا ہو ۔ اس کی مثال یوں سمجھئے۔
و قالوا اتخذاالرحمن ولدا سبحانہ بل عباد مکرمون
مشرک کہتے ہیں کہ اللہ نے فرشتوں کو اپنی اولاد بنا لیا نہیں بلکہ فرشتے تو اس کے نیک بندے ہیں۔
دیکھئے اس آیت میں بل سے پہلے مشرکین کا قول فرشتوں کو اللہ کی اولاد بنانا مذکور ہے اور بل کے بعد فرشتوں کےاللہ کے نیک بندے ہونے کا اعلان ہے ۔ فرشتے خدا کے نیک بندے پہلے سے ہیں مشرکین نے ان کے نیک ہونے کے بعد کہا کہ وہ اللہ کی اولاد ہیں ۔
دوسری مثال "وہ کہتے ہیں زید لاہور گیا تھا نہیں بلکہ وہ تو سیالکوٹ گیا تھا"دیکھئے ! زیدکا سیالکوٹ جانا پہلے وقوع میں آیا تھا اس کے بعد لوگوں نے کہا تھا کہ وہ سیالکوٹ گیاتھا۔
اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع کو بل کے بعد بیان کیا گیا ہے ۔
اس لئے ضروری ہوا کہ آپ علیہ السلام کا رفع پہلے کیا گیا تھا اور اس کے بعد یہود نے کہا کہ ہم نے عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کر دیا۔
اگر رفعہ اللہ الیہ میں رفع سے مراد رفع روحانی مراد لیا جائے جو کہ بقول مرزا قادیانی واقعہ صلیب کے 87 سال بعد کشمیر میں ہوا تھا تو یہ باطل ہے کیونکہ بل کا استعمال ہمیں اس بات پر مجبور کر رہا ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع ہو چکا تھا تو اس کے بعد یہود نے اعلان قتل کیا ۔
۔ بل سے پہلے جس چیز کے قتل اور سولی کا انکار کیا جا رہا ہے اسی کے رفع یعنی اٹھا لینے کا اقرار اور اعلان ہو رہا ہے۔
بل سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ جسم (مجموعہ جسم و روح) کے قتل و سولی سے انکار کیا گیا ہے ۔
پس بل کے بعد رفع بھی زندہ جسم(مجموعہ جسم و روح) کا ہی ہونا چاہئے۔
اگر قتل و سولی سے انکار تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم و روح کے متعلق ہو اور اٹھانا صرف روح کا مذکور ہو تو یہ بالکل فضول کلام ہے کیونکہ قتل کیا جانا اور سولی دیا جانا روح کے اٹھائے جانے کے مخالف نہیں بلکہ ان دونوں سے بے گناہ مظلوم کا رفع روحانی یقینی ہو جاتا ہے۔
۔ بل سے پہلے اور بل کے بعد کے افعال میں جو مفعولی ضمیریں ہیں وہ ساری ایک ہی شخص کے لئے ہونی چاہئیں۔
پہلی ضمیریں وما قتلوہ وما صلبوہ میں سارے کی ساری ضمیریں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم و روح دونوں کی طرف پھرتی ہیں ۔ اس کے بعد رفعہ اللہ الیہ "ہ" کی ضمیر بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم و روح دونوں کے لئے ہے نہ کہ صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح کے لئے ۔
یہ آیت مبارکہ حیات مسیح علیہ السلام پر دلیل صریح ہے ۔ اس میں اللہ پاک نے بالکل واضح الفاظ میں بیان کردیا کہ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ہرگز قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا اور بے شک اللہ غالب اور حکمت والا ہے ۔
اس آیت میں دو چیزیں بہت اہم ہیں جن پر ہم راشنی ڈالیں گے ۔
1: لفظ "بل"
2: آسمان پر اٹھایا جانا
تو پہلے ہم لفظ بل پر کچھ روشنی ڈالتے ہیں۔
۔ بل ایک عربی لفظ ہے کتب نحو کے جاننے والوں سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ بل کے بعد والے مضمون اور مضمون ماقبل کے درمیان تضاد ہونا ضروری ہے ۔
مثلاً اگر کوئی یوں کہے کہ "زید آدمی نہیں بلکہ قادیانی ہے" تو یہ فقرہ بالکل غلط ہے کیونکہ بل سے پہلے زید کے آدمی ہونے کا انکار ہے اور اس کے بعد اس کے قادیانی ہونے کا اقرار ہے لیکن ان دونوں باتوں میں کوئی مخالفت یا تضاد نہیں کیونکہ آخر آدمی تو قادیانی بھی ہیں ۔
لہذا صحیح فقرہ یوں ہونا چاہئے " زید مسلمان نہیں بلکہ قادیانی ہے" کیونکہ کہنے والے کا مطلب یہ ہے قادیانی کافر ہیں جو مسلمان کی ضد ہے ۔ یا یہ فقرہ صحیح ہے " زید آدمی نہیں بلکہ جن ہے" کیونکہ زید کے آدمی ہونے کی نفی کر کے اس کے جن ہونے کا اقرار ہے ۔
پس معلوم ہوا کہ بل کے پہلے اور مابعد والے مضمون میں ضد اور مخالفت ضروری ہے۔
قتل اور سولی پر چڑھانے اور زندہ اٹھائے جانے میں تو مخالفت ہے مگر قتل اور روح کے اٹھائے جانے میں کوئی مخالفت نہیں بلکہ بے گناہ مقتول کا رفع روحانی تو ایک مسلمہ اصول ہے ۔
۔بل ابطالیہ میں جو اللہ کریم نے یہاں استعمال فرمایا ہے ضروری ہے کہ بل کے ما بعد والے مضمون کا فعل ، فعل ما قبل سے پہلے وقوع آ چکا ہو ۔ اس کی مثال یوں سمجھئے۔
و قالوا اتخذاالرحمن ولدا سبحانہ بل عباد مکرمون
مشرک کہتے ہیں کہ اللہ نے فرشتوں کو اپنی اولاد بنا لیا نہیں بلکہ فرشتے تو اس کے نیک بندے ہیں۔
دیکھئے اس آیت میں بل سے پہلے مشرکین کا قول فرشتوں کو اللہ کی اولاد بنانا مذکور ہے اور بل کے بعد فرشتوں کےاللہ کے نیک بندے ہونے کا اعلان ہے ۔ فرشتے خدا کے نیک بندے پہلے سے ہیں مشرکین نے ان کے نیک ہونے کے بعد کہا کہ وہ اللہ کی اولاد ہیں ۔
دوسری مثال "وہ کہتے ہیں زید لاہور گیا تھا نہیں بلکہ وہ تو سیالکوٹ گیا تھا"دیکھئے ! زیدکا سیالکوٹ جانا پہلے وقوع میں آیا تھا اس کے بعد لوگوں نے کہا تھا کہ وہ سیالکوٹ گیاتھا۔
اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع کو بل کے بعد بیان کیا گیا ہے ۔
اس لئے ضروری ہوا کہ آپ علیہ السلام کا رفع پہلے کیا گیا تھا اور اس کے بعد یہود نے کہا کہ ہم نے عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کر دیا۔
اگر رفعہ اللہ الیہ میں رفع سے مراد رفع روحانی مراد لیا جائے جو کہ بقول مرزا قادیانی واقعہ صلیب کے 87 سال بعد کشمیر میں ہوا تھا تو یہ باطل ہے کیونکہ بل کا استعمال ہمیں اس بات پر مجبور کر رہا ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع ہو چکا تھا تو اس کے بعد یہود نے اعلان قتل کیا ۔
۔ بل سے پہلے جس چیز کے قتل اور سولی کا انکار کیا جا رہا ہے اسی کے رفع یعنی اٹھا لینے کا اقرار اور اعلان ہو رہا ہے۔
بل سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ جسم (مجموعہ جسم و روح) کے قتل و سولی سے انکار کیا گیا ہے ۔
پس بل کے بعد رفع بھی زندہ جسم(مجموعہ جسم و روح) کا ہی ہونا چاہئے۔
اگر قتل و سولی سے انکار تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم و روح کے متعلق ہو اور اٹھانا صرف روح کا مذکور ہو تو یہ بالکل فضول کلام ہے کیونکہ قتل کیا جانا اور سولی دیا جانا روح کے اٹھائے جانے کے مخالف نہیں بلکہ ان دونوں سے بے گناہ مظلوم کا رفع روحانی یقینی ہو جاتا ہے۔
۔ بل سے پہلے اور بل کے بعد کے افعال میں جو مفعولی ضمیریں ہیں وہ ساری ایک ہی شخص کے لئے ہونی چاہئیں۔
پہلی ضمیریں وما قتلوہ وما صلبوہ میں سارے کی ساری ضمیریں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم و روح دونوں کی طرف پھرتی ہیں ۔ اس کے بعد رفعہ اللہ الیہ "ہ" کی ضمیر بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم و روح دونوں کے لئے ہے نہ کہ صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح کے لئے ۔
آخری تدوین
: