علماء ومحدثین کے نزدیک تجارتی اسفاراورحدیث کی حقیقت
محدثین کی بیان کردہ روایات میں دیگرباتوں کے ساتھ ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ ان میں بیان کیاگیاہے کہ بحیرا راہب کے کہنے پرابوطالب نے اپنے بھتیجے کوحضرت ابوبکر اورحضرت بلال کی معرفت مکہ روانہ کردیا۔ اس وقت حضرت ابوبکرخودچھوٹے تھے اورحضرت بلال کاکوئی وجودنہیں تھا۔ اس بناپرعلامہ ذہبی نے لکھاہے کہ یہ واقعہ باطل ہے ۔ علامہ مبارک پوری تحریرکرتے ہیں علامہ ذہبی نے حدیث کے مذکورہ جملے کی وجہ سے اسے ضعیف قراردیاہے ،کیوں کہ ابوبکرنے بلال کواس وقت خریدابھی نہ تھا۔ امام ابن تیمیہ فر ما تے ہیں کہ اس وقت تک بلال کاوجودہی نہ تھا اوراگرتھاتواس وقت تک ابوبکریاابوطالب کے ساتھ نہیں تھے ۔ حافظ ابن کثیرفرماتے ہیں کہ اس حدیث کوترمذی ، حاکم ، بیہقی اور ابن عساکرنے بیان کیاہے اس میں بعض عجیب باتیں ہیں،یہ مرسلات صحابہ میں سے ہے اس لیے کہ حضرت ابوموسی اشعری جواس کے راوی ہیں غزوہ خیبرکے سال تشریف لائے تھے۔ اصطلاحات حدیث کی روسے یہ حدیث معلل ہے۔ (۱۹) اس کے برعکس حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں۔ اس میں اس جملے کے علاوہ کوئی نقص نہیں۔ اس بات کااحتمال ہے کہ یہ جملہ مدرج ہو۔ یعنی کسی دوسری منقطع روایت سے اس میں شامل ہوگیاہواوریہ کسی راوی کاوہم ہو۔ جب کہ علامہ شبلی نعمانی حافظ ابن حجر پرسخت تنقیدکرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”حافظ ابن حجررواة پرستی کی بناپراس حدیث کوصحیح تسلیم کرتے ہیں،لیکن چوں کہ حضرت ابوبکراوربلال کی شرکت بداہتاًغلط ہے ،اس لیے مجبوراً اقرارکرتے ہیں کہ اس قدرحصہ غلطی سے روایت میں شامل ہوگیاہے ، لیکن حافظ ابن حجرکایہ ادعابھی صحیح نہیں کہ اس روایت کے تمام روات قابل سندہیں۔ عبدالرحمن بن غزوان کی نسبت خودہی حافظ ابن حجر تہذیب التہذیب میں لکھاہے کہ” وہ خطاکرتاتھا،اس کی طرف سے اس وجہ سے شبہ پیداہوتاہے کہ اس نے ممالیک کی روایت نقل کی ہے “ ممالیک کی ایک روایت ہے ،جس کومحدثین جھوٹ اورموضوع خیال کرتے ہیں۔ “(۲۰)
واقعات میں جوخامی ہے اس کے علاوہ بھی اس روایت میں سندکے اعتبارسے کم زوری ہے،اس کی صراحت کرتے ہوئے علامہ شبلی لکھتے ہیں:
”اس حدیث کے آخیرراوی ابوموسی اشعری ہیں، وہ شریک واقعہ نہ تھے اوراوپرکے راوی کانام نہیں بتاتے۔ ترمذی کے علاوہ طبقات ابن سعدمیں جوسلسلہ سند مذکور ہے (وہ مرسل یامعضل ہے ۔ یعنی جوروایت مرسل ہے اس میں تابعی جوظاہرہے کہ شریک واقعہ نہیں ہے ،کسی صحابی کانام نہیں لیتاہے اورجوروایت معضل ہے ،اس میں راوی اپنے اوپر کے دوراوی جوتابعی اورصحابی ہیں دونوں کانام نہیں لیتا ہے)“(۲۱)
ان کے علاوہ اس حدیث میں جومزیدخامیاں ہیں اس پرعلامہ شبلی نے سخت کلام کیاہے ،جس کی روسے یہ حدیث قابل توجہ نہیں رہتی۔ اس صورت میں سفرشام میں راہب کی ملاقات اوراس کی نشان دہی بہ سلسلہ نبوت مشکوک ہوکررہ جاتی ہے۔ ترمذی کی مذکورہ روایت میں کئی اعتبارسے سقم پایاجاتاہے۔ اس میں بعض باتیں ایسی ہیں جوعقل وفہم کے خلاف نظرآتی ہیں۔ نیزاس میں واقعہ کے تسلسل اورترتیب کافقدان ہے۔ اس لئے بیش ترعلماء نے اس روایت پراعتمادنہیں کیاہے۔ شیخ محمد الغزالی لکھتے ہیں:
”محققین کے نزدیک یہ روایت موضوع ہے ،اس میں اس واقعہ سے مشابہت ہے جسے اہل انجیل بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسی کی ولادت کے فورابعدکچھ لوگ انہیں قتل کرنے لیے تلاش کررہے تھے اورعیسائیوں کے یہاں پایاجانے والایہ واقعہ اس واقعہ سے مشابہت رکھتاہے جسے بدھ مت کے پیروکاربیان کرتے ہیں کہ گوتم بدھ کی جب ولادت ہوئی تودشمنوں نے انہیں قتل کرنے کے لیے تلاش کیا۔ “(۲۲)
اس طرح کی روایات کوقبول کیوں نہیں کیاجاناچاہئے ،اس کی وجہ بتاتے ہوئے شیخ غزالی یہ بھی تحریرکرتے ہیں:
”علمائے سنت روایات کی تحقیق متن اور سند دونوں پہلو ؤ ں سے کرتے ہیں۔ اگر ان سے پختہ علم اورظن غالب حاصل نہ ہوتوان کی پرواہ نہیں کرتے ،پیغمبروں کی جانب بہت سی خرافات منسوب کردی گئی ہیں، اگر انہیں فن حدیث کے مقررہ قواعدکی کسوٹی پرپرکھاجائے توان کاکھوٹ ظاہرہوتاہے اوران کی بنا پر انہیں رد کرنا مناسب ہوتاہے ۔ “(۲۳)
اس حدیث کے الفاظ سے کسی سے مشابہت ہویانہ ہو، زیادہ اہم بات نہیں ہے ۔ بحث اس سے ہے کہ کیاچھوٹی عمرمیں خود حضور کو اپنے بارے میں اوراہل مکہ کوآپ کے نبی ہونے کاعلم ہوچکا؟ اگرہواتویہ معمولی بات نہیں تھی ،اس کی تیاری پہلے سے شروع ہوجانی چاہیے تھی اور پھر چالیس سال کے بعدنبی کی مخالفت کاجوبازارگرم ہواوہ نہ ہونا چاہیے تھا۔ جب کہ اہل مکہ کو دوسروں کی زبانی پہلے ہی آپ کی نبوت کاعلم ہوچکاتھااورآئندہ چل کر نبی کے ذریعہ کون کون سے کام انجام پائیں گے اس کی بھی وضاحت ہوگئی تھی ،توپھر حضور نے جس چیزکی دعوت دی اس کی مخالفت کرنے کے بجائے قبول کرنا چاہیے تھا۔ اگراس واقعہ کو صحیح سمجھ لیا جائے جیساکہ کچھ لوگوں نے صحیح سمجھاہے تومستشرقین کے اس اعتراض کاکیاجواب ہوگاجویہ کہتے ہیں کہ نبی کے ذہن میں توحیدپرستی اورواحدمطلق ہستی کی طرف میلان کا جو رجحان پیداہواوہ اسی راہب کی تعلیم کانتیجہ ہے ، اورحضورپہلے سے ہی نبوت کی امیدلگائے بیٹھے تھے ۔ کیا اس قسم کی باتیں حضور کی سیرت اور نبوت کے منافی نہیں ہیں۔ اس قسم کی روایت کی عدم صحت پر بحث کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد سعید رمضان البوطی لکھتے ہیں:
”سیرت ابن ہشام(۱/۱۸۰)باختصار،اس روایت کوطبری نے اپنی تاریخ (۲/۲۸۷) میں، بیہقی نے سنن میں اورابونعیم نے حلیہ میں روایت کیاہے ، ان کی تفصیل میں بعض وجوہ سے کچھ اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس روایت کوامام ترمذی نے دوسرے اندازسے تفصیل سے نقل کیاہے ،لیکن شایدان کی سندمیں کچھ ضعف ہے ۔ اسی لیے انہوں نے خودبھی لکھاہے یہ حدیث حسن غریب ہے ،ہم اسے صرف اسی سندسے جانتے ہیں۔ اس کی سند میں ایک راوی عبدالرحمن بن غزوان ہے ، اس کے بارے میں’المیزان‘ میں صراحت ہے کہ اس سے بعض منکراحادیث مروی ہیں۔ ان میں سب سے منکرحدیث وہ ہے جواس نے یونس بن اسحاق سے روایت کی ہے اورجس میں نبی کی نوعمری میں ابوطالب کے ساتھ شام کے سفرکا بیان ہے اورابن سیدالناس نے لکھاہے کہ اس روایت کے متن میں بعض منکر باتیں ہیں۔ (دیکھئے عیون الاثر۱/۴۳) عجیب بات یہ ہے کہ اس کے باوجودشیخ ناصرالدین البانی نے (جنہوں نے شیخ محمدغزالی کی کتاب فقہ السیرة کی تخریج کی ہے )اس حدیث کے بارے میں لکھاہے :اس کی سندصحیح ہے ۔ انہوں نے امام ترمذی کاتبصرہ بھی مکمل نقل نہیں کیاہے ،بلکہ اس کاصرف اتناحصہ دیاہے ”یہ حدیث حسن ہے “حالاں کہ ان کی عادت ہے کہ وہ اس سے کہیں زیادہ صحیح حدیث کوبھی بسااوقات ضعیف قراردیدیتے ہیں۔ جہاں تک قدر مشترک کاتعلق ہے وہ بہت سے طرق سے ثابت ہے اوراس میں کوئی ضعف نہیں ہے ۔ “(۲۴)