• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

کیا تعلیمات نبوی صلى الله علیہ وسلم پر مسیحیت کا اثر ہے؟

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
علماء ومحدثین کے نزدیک تجارتی اسفاراورحدیث کی حقیقت

محدثین کی بیان کردہ روایات میں دیگرباتوں کے ساتھ ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ ان میں بیان کیاگیاہے کہ بحیرا راہب کے کہنے پرابوطالب نے اپنے بھتیجے کوحضرت ابوبکر اورحضرت بلال کی معرفت مکہ روانہ کردیا۔ اس وقت حضرت ابوبکرخودچھوٹے تھے اورحضرت بلال کاکوئی وجودنہیں تھا۔ اس بناپرعلامہ ذہبی نے لکھاہے کہ یہ واقعہ باطل ہے ۔ علامہ مبارک پوری تحریرکرتے ہیں علامہ ذہبی نے حدیث کے مذکورہ جملے کی وجہ سے اسے ضعیف قراردیاہے ،کیوں کہ ابوبکرنے بلال کواس وقت خریدابھی نہ تھا۔ امام ابن تیمیہ فر ما تے ہیں کہ اس وقت تک بلال کاوجودہی نہ تھا اوراگرتھاتواس وقت تک ابوبکریاابوطالب کے ساتھ نہیں تھے ۔ حافظ ابن کثیرفرماتے ہیں کہ اس حدیث کوترمذی ، حاکم ، بیہقی اور ابن عساکرنے بیان کیاہے اس میں بعض عجیب باتیں ہیں،یہ مرسلات صحابہ میں سے ہے اس لیے کہ حضرت ابوموسی اشعری جواس کے راوی ہیں غزوہ خیبرکے سال تشریف لائے تھے۔ اصطلاحات حدیث کی روسے یہ حدیث معلل ہے۔ (۱۹) اس کے برعکس حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں۔ اس میں اس جملے کے علاوہ کوئی نقص نہیں۔ اس بات کااحتمال ہے کہ یہ جملہ مدرج ہو۔ یعنی کسی دوسری منقطع روایت سے اس میں شامل ہوگیاہواوریہ کسی راوی کاوہم ہو۔ جب کہ علامہ شبلی نعمانی حافظ ابن حجر پرسخت تنقیدکرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”حافظ ابن حجررواة پرستی کی بناپراس حدیث کوصحیح تسلیم کرتے ہیں،لیکن چوں کہ حضرت ابوبکراوربلال کی شرکت بداہتاًغلط ہے ،اس لیے مجبوراً اقرارکرتے ہیں کہ اس قدرحصہ غلطی سے روایت میں شامل ہوگیاہے ، لیکن حافظ ابن حجرکایہ ادعابھی صحیح نہیں کہ اس روایت کے تمام روات قابل سندہیں۔ عبدالرحمن بن غزوان کی نسبت خودہی حافظ ابن حجر تہذیب التہذیب میں لکھاہے کہ” وہ خطاکرتاتھا،اس کی طرف سے اس وجہ سے شبہ پیداہوتاہے کہ اس نے ممالیک کی روایت نقل کی ہے “ ممالیک کی ایک روایت ہے ،جس کومحدثین جھوٹ اورموضوع خیال کرتے ہیں۔ “(۲۰)
واقعات میں جوخامی ہے اس کے علاوہ بھی اس روایت میں سندکے اعتبارسے کم زوری ہے،اس کی صراحت کرتے ہوئے علامہ شبلی لکھتے ہیں:
”اس حدیث کے آخیرراوی ابوموسی اشعری ہیں، وہ شریک واقعہ نہ تھے اوراوپرکے راوی کانام نہیں بتاتے۔ ترمذی کے علاوہ طبقات ابن سعدمیں جوسلسلہ سند مذکور ہے (وہ مرسل یامعضل ہے ۔ یعنی جوروایت مرسل ہے اس میں تابعی جوظاہرہے کہ شریک واقعہ نہیں ہے ،کسی صحابی کانام نہیں لیتاہے اورجوروایت معضل ہے ،اس میں راوی اپنے اوپر کے دوراوی جوتابعی اورصحابی ہیں دونوں کانام نہیں لیتا ہے)“(۲۱)
ان کے علاوہ اس حدیث میں جومزیدخامیاں ہیں اس پرعلامہ شبلی نے سخت کلام کیاہے ،جس کی روسے یہ حدیث قابل توجہ نہیں رہتی۔ اس صورت میں سفرشام میں راہب کی ملاقات اوراس کی نشان دہی بہ سلسلہ نبوت مشکوک ہوکررہ جاتی ہے۔ ترمذی کی مذکورہ روایت میں کئی اعتبارسے سقم پایاجاتاہے۔ اس میں بعض باتیں ایسی ہیں جوعقل وفہم کے خلاف نظرآتی ہیں۔ نیزاس میں واقعہ کے تسلسل اورترتیب کافقدان ہے۔ اس لئے بیش ترعلماء نے اس روایت پراعتمادنہیں کیاہے۔ شیخ محمد الغزالی لکھتے ہیں:
”محققین کے نزدیک یہ روایت موضوع ہے ،اس میں اس واقعہ سے مشابہت ہے جسے اہل انجیل بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسی کی ولادت کے فورابعدکچھ لوگ انہیں قتل کرنے لیے تلاش کررہے تھے اورعیسائیوں کے یہاں پایاجانے والایہ واقعہ اس واقعہ سے مشابہت رکھتاہے جسے بدھ مت کے پیروکاربیان کرتے ہیں کہ گوتم بدھ کی جب ولادت ہوئی تودشمنوں نے انہیں قتل کرنے کے لیے تلاش کیا۔ “(۲۲)
اس طرح کی روایات کوقبول کیوں نہیں کیاجاناچاہئے ،اس کی وجہ بتاتے ہوئے شیخ غزالی یہ بھی تحریرکرتے ہیں:
”علمائے سنت روایات کی تحقیق متن اور سند دونوں پہلو ؤ ں سے کرتے ہیں۔ اگر ان سے پختہ علم اورظن غالب حاصل نہ ہوتوان کی پرواہ نہیں کرتے ،پیغمبروں کی جانب بہت سی خرافات منسوب کردی گئی ہیں، اگر انہیں فن حدیث کے مقررہ قواعدکی کسوٹی پرپرکھاجائے توان کاکھوٹ ظاہرہوتاہے اوران کی بنا پر انہیں رد کرنا مناسب ہوتاہے ۔ “(۲۳)
اس حدیث کے الفاظ سے کسی سے مشابہت ہویانہ ہو، زیادہ اہم بات نہیں ہے ۔ بحث اس سے ہے کہ کیاچھوٹی عمرمیں خود حضور کو اپنے بارے میں اوراہل مکہ کوآپ کے نبی ہونے کاعلم ہوچکا؟ اگرہواتویہ معمولی بات نہیں تھی ،اس کی تیاری پہلے سے شروع ہوجانی چاہیے تھی اور پھر چالیس سال کے بعدنبی کی مخالفت کاجوبازارگرم ہواوہ نہ ہونا چاہیے تھا۔ جب کہ اہل مکہ کو دوسروں کی زبانی پہلے ہی آپ کی نبوت کاعلم ہوچکاتھااورآئندہ چل کر نبی کے ذریعہ کون کون سے کام انجام پائیں گے اس کی بھی وضاحت ہوگئی تھی ،توپھر حضور نے جس چیزکی دعوت دی اس کی مخالفت کرنے کے بجائے قبول کرنا چاہیے تھا۔ اگراس واقعہ کو صحیح سمجھ لیا جائے جیساکہ کچھ لوگوں نے صحیح سمجھاہے تومستشرقین کے اس اعتراض کاکیاجواب ہوگاجویہ کہتے ہیں کہ نبی کے ذہن میں توحیدپرستی اورواحدمطلق ہستی کی طرف میلان کا جو رجحان پیداہواوہ اسی راہب کی تعلیم کانتیجہ ہے ، اورحضورپہلے سے ہی نبوت کی امیدلگائے بیٹھے تھے ۔ کیا اس قسم کی باتیں حضور کی سیرت اور نبوت کے منافی نہیں ہیں۔ اس قسم کی روایت کی عدم صحت پر بحث کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد سعید رمضان البوطی لکھتے ہیں:
”سیرت ابن ہشام(۱/۱۸۰)باختصار،اس روایت کوطبری نے اپنی تاریخ (۲/۲۸۷) میں، بیہقی نے سنن میں اورابونعیم نے حلیہ میں روایت کیاہے ، ان کی تفصیل میں بعض وجوہ سے کچھ اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس روایت کوامام ترمذی نے دوسرے اندازسے تفصیل سے نقل کیاہے ،لیکن شایدان کی سندمیں کچھ ضعف ہے ۔ اسی لیے انہوں نے خودبھی لکھاہے یہ حدیث حسن غریب ہے ،ہم اسے صرف اسی سندسے جانتے ہیں۔ اس کی سند میں ایک راوی عبدالرحمن بن غزوان ہے ، اس کے بارے میں’المیزان‘ میں صراحت ہے کہ اس سے بعض منکراحادیث مروی ہیں۔ ان میں سب سے منکرحدیث وہ ہے جواس نے یونس بن اسحاق سے روایت کی ہے اورجس میں نبی کی نوعمری میں ابوطالب کے ساتھ شام کے سفرکا بیان ہے اورابن سیدالناس نے لکھاہے کہ اس روایت کے متن میں بعض منکر باتیں ہیں۔ (دیکھئے عیون الاثر۱/۴۳) عجیب بات یہ ہے کہ اس کے باوجودشیخ ناصرالدین البانی نے (جنہوں نے شیخ محمدغزالی کی کتاب فقہ السیرة کی تخریج کی ہے )اس حدیث کے بارے میں لکھاہے :اس کی سندصحیح ہے ۔ انہوں نے امام ترمذی کاتبصرہ بھی مکمل نقل نہیں کیاہے ،بلکہ اس کاصرف اتناحصہ دیاہے ”یہ حدیث حسن ہے “حالاں کہ ان کی عادت ہے کہ وہ اس سے کہیں زیادہ صحیح حدیث کوبھی بسااوقات ضعیف قراردیدیتے ہیں۔ جہاں تک قدر مشترک کاتعلق ہے وہ بہت سے طرق سے ثابت ہے اوراس میں کوئی ضعف نہیں ہے ۔ “(۲۴)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مستشرقین کے دعویٰ کی کم زوری
روایتوں سے جونتیجہ اخذکیاجاسکتاہے وہ یہ کہ آپ نے متعدداسفارتجارت کی غرض سے کئے۔ انہیں اسفار میں آپ کی ملاقات اہل کتاب کے عالموں سے ہوئی۔ جہاں تک ان کی صحبت اختیارکرنے اوران سے علمی وروحانی استفادہ کی بات ہے ، ناقابل تسلیم ہے ۔ اگراس کومان بھی لیا جائے توپھرسوال پیداہوگاآپ نے اسی بات کی تعلیم دی جسے آپنے راہبوں سے سیکھا تھا تو پھر اس پرعیسائی عمل کیوں نہیں کرتے اوراس کی تکذیب کیوں کرتے اور کہتے ہیں کہ آپ نبی برحق نہیں تھے اور آپ نعوذباللہ عیوب کامجموعہ ہیں۔ قاضی محمدسلیمان سلمان منصورپوری لکھتے ہیں:
”پادری صاحبان نے اتنی بات پر”بحیرا نصرانی ملاتھا“یہ شاخ وبرگ اوربھی لگادئے کہ ۴۰سال کی عمرکے بعدجوتعلیم آں حضرت نے ظاہرکی تھی ،وہ اس راہب کی تعلیم کااثرتھا۔ میں کہتاہوں کہ اگرآں حضرت نے تثلیث اورکفارہ کارد،مسیح کے صلیب پرجان دینے کابطلان اس راہب کی تعلیم ہی سے کیاتھاتواب عیسائی اپنے اس بزرگ کی تعلیم کوقبول کیوں نہیں کرتے ۔ “(۲۵)
خاص طورپریہودی آخری نبی کی آمدکے منتظرتھے ۔ تاکہ ان کی رہنمائی اور تعاون سے ان عیسائیوں کو جن کے ظلم کی چکی میں وہ برسوں سے پس رہے تھے ،کیفرکردارتک پہنچاسکیں ۔ جیساکہ ذکر کیا جاچکا ہے کہ جب ۱۲/سالہ بچے کوبحیراکے کہنے پرواپس مکہ بھیج دیاگیاتوٹھیک انہی دنوں ۷ رومی حضورکوتلاش کرتے ہوئے بحیراکی خانقاہ میں پہنچے تاکہ نبی آخرالزماں کاقتل کردیں۔ مگر انہوں نے ان کونہ پایااورراہب نے بھی ان لوگوں سے کہاکہ تم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے، کیوں کہ اللہ کایہی فیصلہ ہے ۔ اس کے بعدوہ اپنے ارادے سے پھرگئے ۔ اب قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیات ملاحظہ فرمائیں:
وَکَانُواْ مِن قَبْلُ یَسْتَفْتِحُونَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُواْ فَلَمَّا جَاء ہُم مَّا عَرَفُواْ کَفَرُواْ بِہِ.(البقرہ :۸۹)
(باوجودکہ اس کی آمدسے پہلے وہ خودکفارکے مقابلے میں فتح ونصرت کی دعائیں مانگاکرتے تھے ،مگرجب وہ چیزآگئی جسے وہ پہچان بھی گئے توانہوں نے اسے ماننے سے انکارکردیا۔ )
اس آیت کے حوالے سے قاضی محمدسلیمان سلمان منصورپوری لکھتے ہیں کہ :
”اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوگیاکہ بحیراراہب کاقول غلط تھا،کیوں کہ یہودی لڑکپن میںآ ں حضرت کوپہچان لیتے تواپنے اعتقادکے مطابق حضور کو اپنی فتح ونصرت کادیوتاسمجھ کر،نہایت خدمت گزاری کرتے “۔ (۲۶)
پہلی بارجب آپ نے شام کاسفرکیا،اس وقت آپ کی عمرزیادہ سے زیادہ ۱۲/سال کی تھی۔ (بعض روایت کے مطابق اس وقت آپ ۹/سال کے تھے۔ )اتنی چھوٹی عمرمیں ایک راہب سے علم وحکمت کی وہ ساری باتیں کیسے سیکھ لیں جن کا روئے زمین میں کوئی ثانی نہیں۔ وہ بھی چندمنٹوں یاگھنٹوں کی ملاقات میں۔ اس لیے مستشرقین کے یہ اعتراضات بے معنی ہوکر رہ جاتے ہیں کہ آپ نے راہبوں سے علمی فیض حاصل کیاتھا۔ جب کہ قرآن اورسابقہ کتابیں باربارکہتی ہیں کہ آپ امی تھے ۔ یہی نہیں بلکہ بعض مستشرقین نے تویہاں تک لکھا ہے کہ قرآن کااصل مصنف بحیراہے جس سے حضورنے اخذکیاہے ۔ چنانچہ اس ذہنی خرافات کے متعلق ڈاکٹرمحمدحمیداللہ لکھتے ہیں:
”کیایہ معجزہ رونماہوسکتاہے کہ نوسال کی عمرکاایک بچہ قرآن پاک کی ۱۱۴/سورتیں چندمنٹ میں حفظ کرلے اورپھرایک نسل کے بعدان قرآنی سورتوں کویہ کہہ کراپنی امت کے روبروپیش کرے کہ یہ اللہ کاکلام ہے ؟۔ “(۲۷)
شام کے سفرسے متعلق جورطب ویابس باتیں روایات میں داخل ہوگئیں ہیں ان کی تردید کرنے کے بعد ڈاکٹر محمد حمید اللہ لکھتے ہیں کہ کسی غیبی آثارکودیکھ کرراہب نے قافلہ والوں کی دعوت نہیں کی تھی بلکہ ان کے اچھے رویے اوربرتاؤسے متاثرہوکرراہب نے کھانے پرمدعو کیا تھا۔ اس کے بعدوہ اپنے شبہ کااظہاراس طرح کرتے ہیں کہ ”شایدوہ مذہب کی تبدیلی کے حوالے سے نیک ارادہ رکھتاہو۔ “(۲۸)
علامہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:
”ہمارے عیسائی احباب اس ضعیف روایت پر اپنے شکوک وشبہات کی عظیم الشان عمارت قائم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پیغمبراسلام نے اسی راہب کی صحبت سے فیض حاصل کیا ۔ اگر یہ صحیح ہے تو دنیا کے لیے اس سے بڑا معجزہ محمد رسول اللہ کا اور کیا چاہیے کہ ایک ابجد ناآشنا طفل دوازدہ سالہ نے چند گھنٹوں میں حقائق واسرار دین،اصول عقائد ،نکات اخلاق، مہمات قانون اور ایک شریعت عظمی کی تکمیل وتاسیس کے طریقے سب کچھ سیکھ لیے۔ کیا ہمارے عیسائی دوست اس معجزہ کو تسلیم کرتے ہیں۔ “(۲۹)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حاصل بحث

مستشرقین نے حصول علم اورمعلومات کے ذرائع جن نصرانی عالموں کو قرار دیا ہے ۔ ورقہ بن نوفل بھی انہی میں سے ایک تھے جو مکہ میں رہتے تھے۔ اگربحیراراہب سے حضورکے تعلیمی سلسلہ کوجوڑاجاتاہے توورقہ کوخاص طورپراس بات کاعلم ہوتاکہ آپ نبی برحق ہیں،کیوں کہ وہ آپ کوحضرت خدیجہ سے شادی سے قبل سے ہی جانتے تھے ۔ پھرخدیجہ سے رشتہ داری کی بناپران سے بڑی حدتک قربت ہوگئی، لیکن جب حضورپرپہلی وحی کے نازل ہونے کے وقت جوکیفیت طاری ہوئی ،اسے خدیجہ رضى الله تعالى عنها کی وساطت سے ورقہ کے سامنے بیان کیا گیا۔ جسے سننے کے بعدانہوں نے کہاآپ نبی برحق ہیں اوریہ وہی ناموس ہے جوموسی پروحی لایاکرتاتھا۔ ورقہ نے اپنی سابقہ آسمانی کتابوں کی روشنی میںآ پ کے نبی ہونے کی تصدیق کی نہ کہ خبروں کوسن کر۔ قابل ذکربات یہ ہے کہ ورقہ کودونوںآ سمانی کتابوں کاعلم تھا۔ پہلے وہ یہودی تھے ،بعدمیں عیسائی ہوگئے تھے اوریہ عربی اور عبرانی زبان میں انجیل لکھتے تھے ۔ ان کتابوں کاگہراعلم رکھنے کے باوجودحضورکی علامات وکیفیات کوسن کراگروہ اس کے خلاف کوئی دوسری بات کہتے تو گو یا کہ وہ ایک حقیقت کوچھپانے کی کوشش کرتے اوراس سے یہ کہاں لازم آتاہے کہ حضورنے علمی فیض حاصل کیا۔ رہے بعض دوسرے اہل کتاب علماء وربیین ان سے آپ کی ملاقات برائے نام تھی اور خود حضور اتنے اعلی اخلاق کے مالک تھے کہ اپنے شدیددشمن سے بھی ملتے توخندہ پیشانی کامظاہرہ کرتے ۔ اسی طرح اہل کتاب کے بعض عالموں سے چاہے وہ غلام ہی کیوں نہ ہوں ملاقات ہوجاتی تو ان کی عظمت کابھی آپ پوراخیال کرتے تھے۔ لہذایہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ شروع سے ہی اللہ تبارک وتعالی خصوصی نہج پر آپ کی تربیت کررہاتھا اور آلائشوں سے آپ کے قلب ونظر اور فکر وخیال کومصفی کردیاتھا،اس لیے باطل افکارکے جذب کرنے کاکوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پھرجب آپ نبوت سے سرفرازکیے گئے توگوآپ امی تھے ،مگرآپ کوجو معلومات حاصل ہورہی تھیں وہ بواسطہ وحی ہورہی تھیں جسے فرشتہ وحی لے کرآتا اور بعض وقت براہ راست آ پ کے قلب اطہرمیں کوئی بات ڈال دی جاتی تھی ۔ جب یہ صورت ہوتولامحالہ یہ کہناپڑے گاکہ اللہ تعالی نے ایک امی پرہی نبوت کے سلسلہ کوختم کردیاتاکہ دنیایہ تسلیم کرلے کہ اللہ کی قدرت دنیاکی ساری چیزوں پرمحیط ہے اورجوکچھ دنیامیں ہوتاہے اورہوتارہے گاوہ سب اسی کے ایمااوراشارے سے ہوگا۔ رہے آپ کے بعض رفیق جوپہلے عیسائی تھے او ر بعد میں مسلمان ہوگئے یاآپ کا اپنی زوجہ مطہرہ ماریہ قبطیہ سے علم حاصل کرنامحض الزام اورتعصب ہے۔ ان میں کوئی اس لائق نہ تھاکہ وہ حضورصلى الله عليه وسلم کوعلمی فیض پہنچاسکے ۔

 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حوالہ جات:

(۱) شبلی نعمانی،سیرة النبی،ندوة المصنفین،شبلی اکیڈمی،اعظم گڑھ،۲۰۰۳ء،ج:۱،ص:۱۲۶
(۲) ڈاکٹر التہامی نقرہ،مستشرقین اور قرآن،(عربی اسلامی علوم اور مستشرقین(مجموعہ مقالات عربی)مترجم:ڈاکٹر محمد ثناء اللہ ندوی)توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ،کشن گنج،بہار، ۲۰۰۴ء، ص:۱۲،
(۳) ابی عبداللہ محمد بن اسماعیل،صحیح البخاری،کتاب الوحی،باب کیف کان بدء الوحی
(۴) ایضا،کتاب المناقب،باب عمرة القضا
(۵) سید سلیمان ندوی،سیرة النبی،ندوة المصنفین،شبلی اکیڈمی،اعظم گڑھ،۲۰۰۳ء، ج:۳، ص:
(۶) سید ابوالاعلیٰ مودودی،سیرت سرورعالم ،مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،نئی دہلی،۲۰۰۵ء، ج:۱، ص:۴۲۵ اورص:۶۵۰
(۷) سیرة النبی،ج:۳،ص:۳۶۲
(۸) محمد بن عیسیٰ الترمذی،جامع الترمذی،کتاب الماقب،باب ماجاء فی بدء نبوة النبی
(۹) محمد بن اسحاق بن یسار،سیرت ابن اسحاق،ملی پبلیکیشنز،نئی دہلی،۲۰۰۹ء،ص:۸۶
(۱۰) ابوالفداء اسماعیل بن کثیر،البدایہ والنہایة،دارالریان للتراث،قاہرہ،۱۹۸۸ء، ج:۱، جزو:۲،ص:۲۶۳-۲۶۴
(۱۱) ابی جعفر محمد بن جریر الطبری،تاریخ طبری(تاریخ الرسل والملوک)دارالمعارف، قاہرہ، ۱۹۷۷/، ج:۲، ص:۲۷۸-۲۷۹۔
(۱۲) ایضا،ص:۲۸۰
(۱۳) محمد بن الباقی الزرقانی،شرح مواہب اللدنیہ،مطبعة الازہریة، مصر،۱۳۲۵ھ، ج:۱، ص:۱۹۵
(۱۴) سیرت ابن اسحاق،ص:۶۸
(۱۵) شرح مواہب اللدنیہ،ص:۱۹۵
(۱۶) سیرت سرورعالم،ج:۲،ص:۸۵
(۱۷) شیخ محمد الغزالی،فقہ السیرة،مطبعة حسان،قاہرہ،۱۹۷۶ء،ص:۶۸
(۱۸) ایضا،ص:۶۹
(۱۹) سیرة النبی،ج:۱،ص:۱۲۸
(۲۰) ۱ایضا
(۲۱) فقہ السیرة،ص:۶۹
(۲۲) ایضا
(۲۳) ڈاکٹر محمد سعید رمضان البوطی،فقہ السیرة النبویة،دارالفکر المعاصر،بیروت لبنان، ۱۹۹۱ء، ص:۴۸
(۲۴) قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری،رحمة للعالمین،فرید بک ڈپو،دہلی،۱۹۹۹ء، ج:۱، ص:۴۲
(۲۵) ایضا
(۲۶) ڈاکٹر محمد حمیداللہ،محمد رسول اللہ،فرید بک ڈپو،دہلی،۲۰۰۳ء،ص:۱۴-۱۵
(۲۷) ڈاکٹر محمد حمیداللہ، پیغمبر اسلام،ملی پبلیکیسنز ،نئی دہلی،۲۰۰۹ء،ص:۵۹-۶۰
(۲۸) سیرة النبی،ج:۳،ص:۳۶۲
-----------------------------
ماهنامه دارالعلوم ، شماره 9-10 ، جلد: 94 رمضان - ذيقعده 1431 ھ مطابق ستمبر - اكتوبر 2010 ء
 
Top