مرزائی مربی حضرات کی طرف سے اکثر ایک روایت پیش کی جاتی ہے ، کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم فوت ہوۓ تو اللہ کے نبی نے فرمایا " اگر زندہ رہتے تو ضرور نبی ہوتے " اور مرزائی مربی اس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت جاری ہے .
دوستو آئیے مختصر طور پر مرزائیوں کی اس دلیل کا جائزہ لیتے ہیں ، سب سے پہلے اس روایت کی سند کا جائزہ لیتے ہیں . اس روایت میں ایک راوی ہے جسکا نام ہے " ابراہیم بن عثمان " آئیے مختصر طور پر دیکھتے ہیں کہ اس راوی کے بارے میں آئمہ حدیث کیا کہتے ہیں ، جو مرزائی مربی کبھی اپ کو نہیں بتائیں گے .
" ابراہیم بن عثمان ابو شیبه العبسی "
امام احمد بن حنبل ، امام یحییٰ بن معین اور امام ابو داود نے فرمایا " یہ ضعیف ہے " ، امام یحییٰ بن معین نے یہ بھی فرمایا " یہ ثقہ نہیں ہے " ، امام ترمذی نے فرمایا " یہ منکر الحدیث ہے " امام نسائی اور امام دولابی نے فرمایا " اسکی حدیث ترک کر دی گئی (یہ متروک الحدیث ہے )" ، امام ابو حاتم نے فرمایا " یہ ضعیف الحدیث ہے اسکی حدیث نہ لکھی جائے " ، امام جوزجانی نے فرمایا " اسکی حدیث ساقط ہے ، امام صالح نے فرمایا " یہ ضعیف ہے اس کی حدیث نہ لکھی جائے " ، امام ابو علی نیشاپوری نے فرمایا " یہ راوی قوی نہیں ہے " ، امام احوض غلابی نے فرمایا " جن ضعیف راویوں نے شعبہ سے روایت کی ان میں ایک ابراہیم بن عثمان ہے " ، معاذ عنبری کہتے ہیں کہ " میں امام شعبہ کو خط لکھا کہ کیا ابو شیبه (ابراہیم بن عثمان ) سے روایت لے لو ؟ تو امام شعبہ نے جواب دیا کہ " اسکی روایت بیان نہ کرو وہ برا آدمی ہے (مذموم آدمی ہے ) " ، امام ابن سعد نے فرمایا " وہ حدیث میں ضعیف تھا " ، امام دارقطنی نے فرمایا " وہ ضعیف ہے " ، امام ابن مبارک نے فرمایا " اسے پھینک دو ( یعنی اسکی کوئی حثیت نہیں )
(تہذیب التہذیب جلد 1 ص 76،77 )
مرزائی مربی حضرات ملا علی قاری رحمتہ اللہ علیہ کی ایک کتاب " الاسرارا المرفوعة فی الاخبار الموضوعة " جو کے " موضوعات الکبیر " کے نام سے مشہور ہے کا بھی حوالہ دیتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ وہیں ملا علی قاری رحمتہ اللہ علیہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ " الا فی سندہ اباشیبة ابراھیم بن عثمان الواسطی وھو ضعیف " اسکی سند میں ابو شیبه ابراہیم بن عثمان ہے جو کہ ضعیف ہے
مشہور محدث اور قادیانیوں کے نزدیک بھی اپنے زمانے کے مجدد صحیح مسلم کے شارح امام نووی رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں " فباطل وجسارة علی الکلام فی المغیبات ومجازفة وھجوم علی عظیم الزلات " یہ روایت باطل ہے ، غیب کی باتوں پر جسارت ہے ، اور ایک بے تکی بات ہے .
(تہذیب الاسماء واللغات جلد 1 ص 103 )
"ایک صحیح روایت "
دوستوں اس سنن ابن ماجہ میں اس ابراہیم بن عثمان والی روایت سے پہلے اور بھی روایات ہیں جوکہ صحیح ترین روایات ہیں اور صحیح بخاری میں بھی ہیں آئیے وہ روایت بھی دیکھتے ہیں :
" حدثنا محمد بن عبداللہ بن نمیر قال : حدثنا محمد بن بشر قال : حدثنا اسماعیل بن ابی خالد قال : قالت لعبد اللہ بن ابی اوفی : رایت ابراہیم ابن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال : مات وھو صغیر ، ولو قاضیی ان یکون بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبیی لعاش ابنه ولکن لانبی بعدہ "
اسماعیل بن ابی خالد کہتے ہیں کہ میں صحابی رسول حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا اپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم کو دیکھا ، تو عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، وہ چھوٹی عمر میں ہی انتقال فرما گئے تھے ، اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبی بننا ہوتا تو ابراہیم زندہ رہتے ، لیکن اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں
( صحیح بخاری حدیث نمبر 6194 ، سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 1510 )
اب اگر مرزائی مربیوں میں کوئی دیانت نام کی کوئی چیز ہوتی تو وہ ایک ضعیف متروک الحدیث راوی کی روایت کے مقابلے میں صحیح بخاری کی یہ روایت لیتے ، اور ابراہیم بن عثمان کی روایت نہ لیتے
اب ملاخط فرمائیں کہ صحابی رسول حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ یہ کیوں فرماتے ہیں کہ اگر اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی نبی بننا ہوتا تو اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے حضرت ابراہیم زندہ رہتے ، گویا کہ حضرت کے صاحبزادہ کا انتقال ہی اس لئے ہوا کہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبی نہیں بننا تھا .
ایک مرزائی اعتراض :
" ابراہیم بن عثمان کی روایت کو شہاب بیضاوی اور ملا علی قاری نے صحیح تسلیم کیا ہے "
جواب
شہاب بیضاوی اور ملا علی قاری کی بات امام نووی ، حافظ ابن حجر عسقلانی ، حافظ ابن عبدالبر ، امام احمد بن حنبل ، امام یحییٰ بن معین ، امام ترمذی ، امام نسائی ، امام ابن مبارک وغیرہ آئمہ کبار کے مقابلے میں تقدیم نہیں رکھتی ، نیز ملا علی قاری نے خود اپنی کتاب میں ابراہیم بن عثمان کو ضعیف لکھا ہے .
دوستو آئیے مختصر طور پر مرزائیوں کی اس دلیل کا جائزہ لیتے ہیں ، سب سے پہلے اس روایت کی سند کا جائزہ لیتے ہیں . اس روایت میں ایک راوی ہے جسکا نام ہے " ابراہیم بن عثمان " آئیے مختصر طور پر دیکھتے ہیں کہ اس راوی کے بارے میں آئمہ حدیث کیا کہتے ہیں ، جو مرزائی مربی کبھی اپ کو نہیں بتائیں گے .
" ابراہیم بن عثمان ابو شیبه العبسی "
امام احمد بن حنبل ، امام یحییٰ بن معین اور امام ابو داود نے فرمایا " یہ ضعیف ہے " ، امام یحییٰ بن معین نے یہ بھی فرمایا " یہ ثقہ نہیں ہے " ، امام ترمذی نے فرمایا " یہ منکر الحدیث ہے " امام نسائی اور امام دولابی نے فرمایا " اسکی حدیث ترک کر دی گئی (یہ متروک الحدیث ہے )" ، امام ابو حاتم نے فرمایا " یہ ضعیف الحدیث ہے اسکی حدیث نہ لکھی جائے " ، امام جوزجانی نے فرمایا " اسکی حدیث ساقط ہے ، امام صالح نے فرمایا " یہ ضعیف ہے اس کی حدیث نہ لکھی جائے " ، امام ابو علی نیشاپوری نے فرمایا " یہ راوی قوی نہیں ہے " ، امام احوض غلابی نے فرمایا " جن ضعیف راویوں نے شعبہ سے روایت کی ان میں ایک ابراہیم بن عثمان ہے " ، معاذ عنبری کہتے ہیں کہ " میں امام شعبہ کو خط لکھا کہ کیا ابو شیبه (ابراہیم بن عثمان ) سے روایت لے لو ؟ تو امام شعبہ نے جواب دیا کہ " اسکی روایت بیان نہ کرو وہ برا آدمی ہے (مذموم آدمی ہے ) " ، امام ابن سعد نے فرمایا " وہ حدیث میں ضعیف تھا " ، امام دارقطنی نے فرمایا " وہ ضعیف ہے " ، امام ابن مبارک نے فرمایا " اسے پھینک دو ( یعنی اسکی کوئی حثیت نہیں )
(تہذیب التہذیب جلد 1 ص 76،77 )
مرزائی مربی حضرات ملا علی قاری رحمتہ اللہ علیہ کی ایک کتاب " الاسرارا المرفوعة فی الاخبار الموضوعة " جو کے " موضوعات الکبیر " کے نام سے مشہور ہے کا بھی حوالہ دیتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ وہیں ملا علی قاری رحمتہ اللہ علیہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ " الا فی سندہ اباشیبة ابراھیم بن عثمان الواسطی وھو ضعیف " اسکی سند میں ابو شیبه ابراہیم بن عثمان ہے جو کہ ضعیف ہے
مشہور محدث اور قادیانیوں کے نزدیک بھی اپنے زمانے کے مجدد صحیح مسلم کے شارح امام نووی رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں " فباطل وجسارة علی الکلام فی المغیبات ومجازفة وھجوم علی عظیم الزلات " یہ روایت باطل ہے ، غیب کی باتوں پر جسارت ہے ، اور ایک بے تکی بات ہے .
(تہذیب الاسماء واللغات جلد 1 ص 103 )
"ایک صحیح روایت "
دوستوں اس سنن ابن ماجہ میں اس ابراہیم بن عثمان والی روایت سے پہلے اور بھی روایات ہیں جوکہ صحیح ترین روایات ہیں اور صحیح بخاری میں بھی ہیں آئیے وہ روایت بھی دیکھتے ہیں :
" حدثنا محمد بن عبداللہ بن نمیر قال : حدثنا محمد بن بشر قال : حدثنا اسماعیل بن ابی خالد قال : قالت لعبد اللہ بن ابی اوفی : رایت ابراہیم ابن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال : مات وھو صغیر ، ولو قاضیی ان یکون بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبیی لعاش ابنه ولکن لانبی بعدہ "
اسماعیل بن ابی خالد کہتے ہیں کہ میں صحابی رسول حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا اپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم کو دیکھا ، تو عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، وہ چھوٹی عمر میں ہی انتقال فرما گئے تھے ، اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبی بننا ہوتا تو ابراہیم زندہ رہتے ، لیکن اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں
( صحیح بخاری حدیث نمبر 6194 ، سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 1510 )
اب اگر مرزائی مربیوں میں کوئی دیانت نام کی کوئی چیز ہوتی تو وہ ایک ضعیف متروک الحدیث راوی کی روایت کے مقابلے میں صحیح بخاری کی یہ روایت لیتے ، اور ابراہیم بن عثمان کی روایت نہ لیتے
اب ملاخط فرمائیں کہ صحابی رسول حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ یہ کیوں فرماتے ہیں کہ اگر اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی نبی بننا ہوتا تو اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے حضرت ابراہیم زندہ رہتے ، گویا کہ حضرت کے صاحبزادہ کا انتقال ہی اس لئے ہوا کہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبی نہیں بننا تھا .
ایک مرزائی اعتراض :
" ابراہیم بن عثمان کی روایت کو شہاب بیضاوی اور ملا علی قاری نے صحیح تسلیم کیا ہے "
جواب
شہاب بیضاوی اور ملا علی قاری کی بات امام نووی ، حافظ ابن حجر عسقلانی ، حافظ ابن عبدالبر ، امام احمد بن حنبل ، امام یحییٰ بن معین ، امام ترمذی ، امام نسائی ، امام ابن مبارک وغیرہ آئمہ کبار کے مقابلے میں تقدیم نہیں رکھتی ، نیز ملا علی قاری نے خود اپنی کتاب میں ابراہیم بن عثمان کو ضعیف لکھا ہے .