• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

یار غار سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ، لمحات زندگی

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
یار غار، لمحات زندگی

اس فقید المثال شخصیت کی زندگی کو - جو اس آب گل میں رسول اللہ … سے صرف دو ڈھائی سال بعد آنکھیں کھولتی ہے، بچپن سے ہی یارانہ ہوجاتا ہے، فطرت کی سلامتی، وراستبازی کی وجہ سے تجارتی اسفار میں ساتھ رہتا ہے، اور جب نوزائیدہ اسلامی مملکت کی داغ بیل پڑتی ہے کہ وزیر معتمد، ومشیر خاص ثابت ہوتے ہیں- علامہ اقبال نے اس طرح سمیٹ کر رکھ دیاہے

پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس
صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس
(بانگ درا)

اول مسلمان:
جب کہ آپ کی عمر ۳۸ سال تھی، اسلام کا آفتاب طلوع ہوا، حضرت ابوبکر بغرض تجارت یمن کے سفر پر تھے، لوٹے ہی تھے کہ مکہ کاپورا گروہ : احباب، ابوجہل، عتبہ، شیبہ وغیرہ، آپ کے گرد گھیرا ڈال دیا،اور نوزائیدہ دین اسلام کی اطلاع دی۔ نیز فراست ابوبکری، وتجربہ صدیقی سے فائدہ اٹھانا چاہا کہ عبداللہ کے یتیم بیٹے محمد نے دعویٰ کیاہے کہ وہ اللہ کے پیغمبر ہیں،اور ان پر حضرت جبرئیل وحی لے کر آتے ہیں، اس لیے لوگ بے چینی سے آپ کا انتظار کررہے ہیں، اس فتنے کی روک تھام میں تمہاری اصابت رائے کی ضرورت ہے، اور اگر یہ فتنہ بعجلت تمام دبایا نہ گیا، تو آبائی اقدار کا تسلط ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا۔
ادھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے دوست، تجارتی سفروں کے رفیق، اور آپ کی پاکیزہ سیرت واخلاق کے عینی شاہد تھے، اپنی دور اندیشی، ومعاملہ فہمی اور اصابت رائے کی قوت سے حقیقت تک پہنچ گئے، احباب سے فرصت پاکر درِ رسالت پر پہنچے، وحی و نبوت سے متعلق آپ کی زبان سے سنا، اور حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔(۱)
بعض روایتوں میں یہ بھی آتا ہے کہ نبوت ملنے کے بعد حضور صلى الله عليه وسلم آپ کے گھر تشریف لے گئے، اور اسلام کی پیش کش کی، حضرت ابوبکر نے بلا چوں و چرا مان لیا، اسی لیے حضور اکرم علیہ الصلاة والسلام کہا کرتے کہ:جس پر بھی اسلام پیش کیا، کچھ نہ کچھ تردد کا اظہار ضرور پایا، سوائے ابوبکر کہ اس نے بلاچوں وچرا قبول کرلیا۔(۲)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے جب پوچھاگیا تو انھوں نے حضرت حسان بن ثابت کے اس قصیدے کا حوالہ دیا، جس میں حضرت حسان نے حضرت ابوبکر کی شان میں کہا ہے:
اذا تذکّرت شَجْوًا من أخي ثقة
فاذکر أخاک أبا بکر بما فعلا

والتالي الثاني المحمود فشہد
وأول النّاس طرّاً صدق الرسلا

والثانی اثنین في الغار المنیف وقد،
طاف العدو بہ اذ صعّد الجبلا(۳)

جب آپ کو کسی معتمد بھائی کی تکلیف یاد کرنی ہوتو حضرت ابوبکر کے کردار کو یاد کرلیجئے، جو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے متصل ہیں، دوسرے ہیں، جن کی مشکلات میں موجودگی کی تعریف کی گئی ہے، تمام لوگوں میں سب سے اول انسان ہیں جنھوں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی تصدیق کی ہے، غار حرا میں دو میں کے دوسرے ہیں، اور جب پہاڑ پر چڑھائے تو دشمن نے ان کے اردگرد چکر لگایا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
صدیق وعتیق:

اس فرد آہن میں کبھی جنبش نہیں آئی، ابتداء سے انتہاء تک ایسی ثبات قدمی کا مظاہرہ کیا کہ کبھی تو صدیقیت کے خطاب سے نوازاگیا، تو کبھی عتیق من النار کا اعزاز بخشاگیا۔
اس سلسلے میں گرچہ آراء مختلف رہی ہیں کہ آیا عتیق وصدیق کا خطاب، آپ کے نام کا جزء کب بنا، لیکن صحیح بات تو یہی ہے کہ،یہ اسلامی دور کا اعزاز ہے، جس سے آپ نوازے گئے، ذیل میں ہم ایسی روایتیں ذکر کرتے ہیں جن سے ہمارے دعوے کو تقویت ملتی ہے۔
امام ترمذی نے حضرت عائشہ سے ایک روایت نقل کی ہے، جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک روز حضرت ابوبکر، حضور صلى الله عليه وسلم کے پاس تشریف لائے، تو حضور نے فرمایا: أنت عتیق اللّٰہ من النار فیومئذ سُمی عتیقاً کہ تم اللہ کی جانب سے جہنم کی آگ سے آزاد ہو، چنانچہ اسی دن سے ان کا نام عتیق پڑگیا۔(۴)
بزار اور طبرانی نے یہی روایت نقل کی ہے، اور اس میں حضرت عائشہ کے بجائے حضرت عبداللہ بن زبیر ہیں اور آخر میں اتنا اضافہ اور ہے : وکان قبل ذلک اسمہ عبد اللّٰہ بن عثمان، کہ اس سے پہلے وہ عبداللہ بن عثمان کے نام سے جانے جاتے تھے۔(۵)
اسی طرح واقعہ معراج کی جب اطلاع، قریش مکہ کو ہوئی تو فاتحانہ انداز میں مذاق اڑایا،اور سمجھا کہ محمد کو جھٹلانے کا یہ موقع خوب ہاتھ آیا، دوڑے ہوئے حضرت ابوبکر کے پاس پہنچے، اور کہنے لگے؛ دیکھو! اب تمہارے دوست محمد (صلى الله عليه وسلم) نے نیا شوشہ چھوڑا ہے، کہتا ہے کہ راتوں رات بیت المقدس گیا، پھر وہاں سے آسمانی دنیا کا سیر کیا، رب سے مناجات ہوئی،اور پھر واپس بھی آگیا۔
حضرت ابوبکر نے صرف اتنا معلوم کیا کہ کیا واقعی انھوں نے یہی بات کہی ہے تو سب نے بیک زبان تصدیق کی تو حضرت ابوبکر نے کہا کہ اگر وہ کہتے ہیں تو بالکل سچ کہتے ہیں جب رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو معلوم ہوا تو آپ کو صدیق کا لقب دیا۔(۶)
طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ قسم کھاکر کہا کرتے تھے کہ ابوبکرکا نام صدیق،آسمان سے اترا ہے۔(۷)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
ایں شہادت گہے الفت میں قدم رکھنا تھا

قبیلہٴ تیم جس سے آپ کا نسبی تعلق تھا، قریش میں کچھ زیادہ اہمیت کا حامل نہیں تھا، اس پر مستزاد یہ کہ ابھی تک یہ قبیلہ اسلام کی حلاوت سے آشنا نہ تھا، کہ وقت پرکچھ کام آسکے، نیز آپ کی جسمانی ساخت بھی حضرت عمروحمزہ رضی اللہ عنہما کی طرح مضبوط نہیں تھی کہ بچاؤ کیاجاسکے، لیکن ان سب کے باوجود، نئے دین کے دور رس تقاضوں کو صدیق کی ذات انگیز کیوں کرکرسکتی تھی، لہٰذا نہ دل میں مکہ کے سرداروں کا خوف آنے دیا جو سارے عرب میں محض اس لیے باعزت سمجھے جاتے تھے کہ بیت اللہ کے پیروہت اور متولی ہیں، اور نہ ان کے دشمنانہ رویوں اور نہ مخالفانہ طرز سے آپ کے پائے مبارک میں لغزش آئی، بلکہ اپنی زندگی کا اصل مشن ہی تبلیغ اسلام کو بنالیا، اور نئے دین کی اشاعت میں کسی قسم کا رخنہ آنے نہیں دیا، خواہ اس سلسلے میں انہیں کتنا کچھ بھی ستایاجاتا، لیکن آپ تھے کہ اسلام کی تبلیغ کیے جارہے تھے۔

ایک مرتبہ حضور صلى الله عليه وسلم بیت اللہ میں نماز پڑھ رہے تھے، اتنے میں عقبہ بن ابی مُعَیط آگیا، اور آپ صلى الله عليه وسلم کی گردن مبارک میں چادر کا گھیراڈال کر بل دینے لگا، حضرت ابوبکر کو جب معلوم ہوا تو دوڑے آئے، عقبہ کو پکڑ کر دھکا دیا،اور کہا کہ اے لوگو! کیا تم اس شخص کو اس لیے قتل کرنا چاہتے ہو کہ یہ کہا ہے کہ اللہ ایک ہے۔(۸)

ایک اور موقع پر حضرت ابوبکر نے صحن حرم میں جہاں قریش کا مجمع تھا، علانیہ تبلیغ شروع کی، کافروں نے حضرت ابوبکر کو پکڑ لیا، اور بے تحاشا مارنا شروع کیا، عقبہ بن ربیعہ نے چہرے پر جوتے اتنے مارے کہ پہچانا نہیں جاتاتھا، جب قبیلہ تیم کو معلوم ہوا تو آکر چھڑایا، گھر لے گئے، لیکن حالت نازک ہوگئی جس پر قبیلہ کے لوگوں نے عتبہ کو دھمکی بھی دی، شام تک بے ہوشی ہورہی، جب ہوش آیا تو سب سے پہلے حضور کی خیریت معلوم کی، اور اس وقت تک چین نہیں آیا، جب تک کہ خود آکر حضور صلى الله عليه وسلم سے دار ارقم میں ملاقات نہ کرلی۔(۹)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
کچھ سعید روحوں کا قبول اسلام

آپ کی کوششیں رائیگاں نہیں گئیں، بلکہ رفتہ رفتہ اسلام پھیلنے لگا، اورایسے لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے جو بعد میں چل کر، ستون اسلام ثابت ہوئے، ان سب میں آپ کی بے لوث تبلیغ کا اثر تھا، ان سعید روحوں میں جنھوں نے آپ کی وجہ سے اسلام قبول کیا، ان میں ممتاز حضرات یہ ہیں:

(۱) خلیفہ ثالث حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ
(۲) حضرت عمر کے بعد چیف الیکشن حضرت عبدالرحمان بن عوف
(۳) حضرت طلحہ بن عبید اللہ
(۴) حضرت زبیر بن العوّام
(۵) فاتح قادسیہ حضرت سعد بن ابی وقاص
(۶) فاتح شام حضرت ابوعبیدہ بن الجراح۔(۱۰)

یہ سارے حضرات عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شبانہ روز محنت کے نتیجے میں اسلام لائے،اسی لیے اپنے وغیر سب نے اس کا اعتراف کیاہے کہ حضرت ابوبکر وہ پہلے شخص ہیں جن کی وجہ سے اسلام کو ملکی معاشرے میں اہمیت و تقویت حاصل ہوئی، پھر حضرت حمزہ و حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے اسلام کی وجہ سے استحکام ہوا، محمد حسین ہیکل لکھتے ہیں:

وہ (مستشرقین) کہتے ہیں کہ جس ایمان کا مظاہرہ ابوبکر نے کیا، اور جس طرح انھوں نے رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کے ہر قول و فعل کی تصدیق کی، وہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ اسلام یقینا خدا کی طرف سے ہے، کیوں کہ باطل مذہب، اور ایک جھوٹا شخص کبھی اپنے ماننے والوں کے دلوں میں ایسا ایمان پیدا نہیں کرسکتاہے۔(۱۱)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
اسلام کی خاطر مالی قربانی

روایتوں میں آتاہے کہ قبول اسلام کے وقت حضرت ابوبکر چالیس ہزار درہموں کے مالک تھے،لیکن ہجرت کے وقت صرف پانچ ہزار باقی رہ گئے تھے، انھیں انھوں نے راستہ کے خرچ کے لیے ساتھ رکھ لیاتھا، پورے پینتیس ہزار درہم ابوبکر نے اسلام کی راہ میں خرچ کیا۔ ان غلاموں و باندیوں کو آزاد کرایا جو پہلے سے ہی غلامیت کی وجہ سے نامساعد حالات سے دوچار تھے، قبول اسلام نے، ان کے کافر آقاؤں کو ظالم و جابر بنادیا، مگر یہ وہ نشہ تھا، جو اذیتوں کی ترشی کی وجہ سے اتر نہیں سکتا تھا، حضرت ابوبکر نے ان ظالموں کو منہ مانگی قیمتیں دے کر متعدد غلاموں اور باندیوں کو آزاد کرایا۔(۱۲)

ان میں مشہور ومعروف: موٴذن رسول حضرت بلال حبشی، ان کی والدہ حمامہ، عامر بن فہیرہ، حضرت ابوفکیہ، حضرت زنیرہ، حضرت ام عبس، حضرت نہدیہ، اور ان کی صاحبزادی، اور بنی موٴمل کی لونڈی لبینہ، یا لبیبہ ہیں۔(۱۳)

پھر آزاد کرنے کے بعد کبھی احسان نہ جتلایا، ایک موقع پر حضرت بلال سے اذان دینے کے لیے کہا تو حضرت بلال نے برجستہ کہا کہ اے ابوبکر کیا تم مجھے اپنی خلافت کے زعم میں حکم دے رہے ہو، یا پھر وہ احسان جتلارہے ہو،جو تم نے خطیر رقم خرچ کرکے مجھے آزاد کرایاتھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ان دونوں میں سے کچھ بھی نہیں تو حضرت بلال نے درخواست ٹھکرادی۔

ابوقحافہ جو حضرت ابوبکر کے والد تھے اور اب تک مسلمان نہ ہوئے تھے، کہا کرتے تھے کہ بیٹا! اگر ان کمزوروں کے بجائے، مضبوط جوانوں کو آزاد کرواتے تو وہ تمہارے لیے قوت بازو بنتے، اور تمہاری پشت پناہی کرتے، حضرت ابوبکر نے جواب دیا: ابا جان! میں تو وہ اجر چاہتاہوں جو اللہ کے یہاں ہے۔ قرآن نے بالکل درست کہا ہے۔(۱۴)

وسیجنبہا الأتقی الذی یوٴتی مالہ یتزکی وما لأحد عندہ من نعمة تجزی، الا ابتغاء وجہ ربہ الأعلی ولسوف یرضی .

اور اس سے دور رکھا جائے گا وہ نہایت پرہیزگار جو پاکیزہ ہونے کی خاطر اپنا مال دیتا ہے، اس پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے جس کا اسے بدلہ دینا ہو، وہ تو اپنے رب کی رضاجوئی کے لیے یہ کام کرتا ہے اور ضرور وہ اس سے خوش ہوگا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مجھے تمہاری امان کی ضرورت نہیں

قریش مکہ کے مظالم، صرف غلاموں، اور لونڈیوں تک محدود نہیں رہے بلکہ دست درازیاں، آزاد مردوزن کو پریشان کررہی تھیں، آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہر آنے والا وقت ایک نئی مصیبت کا پیغام ہواکرتا تھا، اللہ پاک نے ایسے موقع پر ہجرت حبشہ کا اشارہ دیا، اور مسلمان ایک صلح جو، نرم طبیعت بادشاہ نجاشی کی پناہ میں منتقل ہونے لگے، اس دوران حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جو اپنے جرأت ایمانی اور پراستقلال عزم وحوصلہ سے لیس ہوکر خدمت اسلام میں منہمک تھے، لیکن طرح طرح کی مصیبتوں سے تنگ آکر ہجرت حبشہ کا عزم کرکے نکلے، ”بکر الغماد تک پہنچے تھے کہ ابن الدغنہ“ (جوکہ مکہ کا کافر اور بااثر ورسوخ باشندہ تھا) سے ملاقات ہوگئی، ابن الدغنہ، حضرت ابوبکر کی اصابت رائے، غم خواری خاص و عام سے واقف ہی نہیں متاثر تھا۔ پوچھنے لگا، ابوبکر! کہاں کا قصد ہے، حضرت ابوبکر نے ارشاد فرمایا کہ میری قوم نے مجھے تکلیفیں پہنچائیں، یہاں تک کہ میرا شہر میرے لیے تنگ کردیا۔ اب اس شہر کو چھوڑ کر جارہا ہوں۔ اس پر ابن الدغنہ اپنی امان میں لیا، اور کہا ابوبکر کاجیسا انسان اس شہر سے باہر نہیں جاسکتا، جومہمانوں کی مہمان نوازی کرتا ہے۔ غریبوں کے ساتھ خیرخواہی، مفلسوں و ناداروں کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے، ابن الدغنہ ان کو واپس مکہ لایا۔ اور اپنی امان کا اعلان کردیا، لوگوں کی ملامت بھی کی۔

قوم اس بات پر راضی ہوئی کہ حضرت ابوبکر اپنے گھر میں ہی قرآن کی تلاوت کیا کریں گے، تاکہ قوم کے بچے اور عورتوں کو فتنہ میں مبتلا نہ کرسکیں۔

حضرت ابوبکر نے اپنے صحن ہی میں ایک جگہ تلاوت کے لیے مختص کرلی، لیکن آپ اس قدر رقیق القلب تھے کہ جب تلاوت فرماتے تو عورتیں اور بچے اپنی چھتوں پرچڑھ کر آپ کی تلاوت سنتے، جس سے وہ متأثر ہوتے جاتے تھے، قوم کویہ کیوں کر گوارا ہوسکتا تھا، فوراً ابن الدغنہ سے اس کی شکایت کی، ابن الدغنہ نے حضرت ابوبکر سے کہا کہ یاتو آپ میری امان میں رہیں یا تلاوت اس طرح نہ کریں، جس پر حضرت ابوبکر نے کہاکہ مجھے تمہاری امان کی ضرورت نہیں ہے، مجھے میرے اللہ کی امان کافی ہے، ابن الدغنہ نے بھی اس نقص امان کا اعلان قوم میں کردیا، پھر وہی ابتلاء و آزمائش شروع ہوگئی جو برسوں سے چلی آرہی تھی، بلکہ اس میں اور بھی تشدد پیدا ہوتا چلاگیا۔(۱۵)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
سفر ہجرت میں یار غار کی رفاقت

سن دس ہجری میں بیک وقت دو دو محسن حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اورابوطالب کے اٹھ جانے سے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو جو غم ہونا تھا، وہ ہوا۔ اسی لیے یہ سال ”عام الحزن“ کے نام سے تاریخ کی کتابوں میں جانا جاتا ہے۔ پھر مزید طائف کے سفر میں جو ناروا سلوک، طائف والوں نے کیا، جس سے مکہ کے کفار اور بھی جری ہوگئے اورہر طرح سے ستانے ہی نہیں بلکہ ختم کرنے (نعوذ باللہ) کی ناپاک کوشش سے بھی گریز نہ کیا، لیکن اللہ پاک نے اس کا انتظام پہلے سے ہی کررکھاتھا۔ یثرب والوں نے اپنے یہاں آنے کی دعوت ہی نہیں دی بلکہ ہر طرح کی حفاظت کی ذمہ داری بھی لی، چنانچہ محرم ۱۳ نبوی سے ہجرت شروع ہوئی، اور دو مہینے میں دو سو خاندان کے قریب یثرب پہنچ گئے۔ صرف کمزور قسم کے لوگ ہی بچے تھے۔ یا پھر دربار رسالت،اور خاندان رسالت کے لوگ مصلحتاً بچ گئے تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی اجازت طلب کی تھی، لیکن ان کو یہ کہہ کر روک دیاگیا تھا کہ: ہوسکتا ہے کوئی اچھا ساتھی مل جائے، حضرت ابوبکر نے اشارہ سمجھ لیا تھا۔ اسلیے اسی وقت سے تیاریاں شروع کردی تھیں۔ دو اچھی سی سواریاں بھی خریدلی تھیں، اور خوب کھلاپلاکر فربہ بھی کرلیاتھا، بالآخر صفر کے اواخر میں حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کو بھی ہجرت کا حکم مل گیا، ادھر حضور صلى الله عليه وسلم کا معمول تھا کہ روز صبح وشام حضرت ابوبکر سے ملنے ان کے گھرتشریف لے جاتے، حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ایک روز خلاف معمول، سرپرکپڑا ڈالے ہوئے دوپہر میں تشریف لائے، اور تخلیہ میں حضرت ابوبکر سے اپنے ارادے کا اظہار کیا کہ آج رات ہجرت کے لیے نکلنا ہے اور رفاقت تمہاری ہی رہے گی۔ حضرت ابوبکر تو اچھل پڑے، دوسری طرف دارالندوہ کے ابلیسی مشورے کی خبر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو اشارئہ غیبی سے ہوچکی تھی۔ اس لیے حضرت علی کو آج رات بستر پر سونے کا حکم دیا اور تہائی رات کے بعد کفار کے مجمع پر جوگھیرا ڈالے، دررسالت کے ارد گرد اس لیے بیٹھے تھے کہ صبح ہوتے ہی اجتماعی حملہ کرکے ہمیشہ کے لیے اسلام کا قصہ تمام کردیا جائے۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم ان پر شاہت الوجوہ پڑھتے ہوئے اور ان کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے باہر نکل گئے،اور حضرت ابوبکر کے گھرپہنچے، حضرت ابوبکر سراپا انتظار بیٹھے تھے، جلدی میں سامان تیار کیا، توشہ دان باندھنے کے لیے کچھ نہ ملا تو حضرت اسماء نے اپنا پٹکا چاک کرکے باندھا (اس طرح وہ ہمیشہ کے لیے ذات النطاقین کے نام سے مشہور ہوگئیں) حضرت ابوبکر نے باقی ماندہ ۵ ہزار درہم لیے، عقبی کھڑکی سے دونوں رفیق نکلے، شہر سے تین چار میل دور غار ثور میں ایک دو روز کے لیے چھپ گئے، اس دوران حضرت ابوبکر کے صاحبزادے حضرت عبداللہ، قریش کی تمام نقل وحرکت پہنچاتے رہے، جواں سال صاحبزادی حضرت اسماء تمام خطرات کو انگیز کرکے کھانا پہنچایا کرتی، اور غلام عامر بن فہیرہ بکریوں کو چرانے اسی طرح لے آتے ضرورت کے مطابق دودھ وگوشت پلاتے اور کھلاتے، اس طرح حضرت ابوبکر کا پورا گھرانہ ہجرت کے عمل میں شریک رہا اورجونہ شریک رہا مثلاً عبدالرحمان بن ابی بکر (جو ابھی تک کفر کی گندگی میں ملوث تھے) انھوں نے بھی اس راز کو بالکل فاش نہ کیا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
آنسو بہہ نکلے

یہ دونفری قافلہ، غارثور پر پہنچا، حضرت ابوبکر نے روایتوں کے مطابق آپ کو اپنے کندھے پر اٹھالیا تاکہ قدم مبارک کے نشان نہ آنے پائے مبادا قدم شناشی سے پکڑے جائیں۔ غار کے دہانے پر پہنچے، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو تھوڑی دیر کے لیے وہیں پر روک دیا، خود اندر تشریف لے گئے، غار کو خوب اچھی طرح صاف کیا، کچھ سوراخ تھے، جس سے زہریلے جانور سے خطرہ تھا، ان سبھوں کو اپنی چادر پھاڑ کر بند کیا، پھر حضور کو آواز دی، حضور اندر تشریف لے گئے۔ تین چار میل کا سفر وہ بھی پہاڑی سفر، بڑا دشوار گزار رہا۔ زانوئے صدیقی پر سر رکھ کر سوگئے۔ اتنے میں ایک سوراخ نظر آیا۔ حضرت ابوبکر نے اپنا انگوٹھا ہی اس پر رکھ دیا، ایک روایت کے مطابق کسی زہریلے سانپ نے آپ کو ڈس لیا، تکلیف کی شدت بڑھتی جارہی تھی، لیکن اس وقت، ماضی حال، مستقبل کی سب سے عظیم شخصیت آپ کے زانوپر سررکھے ہوئی تھی، حرکت کرنے کی بھی زحمت نہ کی، لیکن شدت کی تاب نہ لاکر، آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اورآپ کے رخ انور پر اس کے بعض حصے گرے، جس سے آ پ کی آنکھ کھلی، حضرت ابوبکر کو آبدیدہ دیکھ کر وجہ دریافت کی۔ حضرت ابوبکر نے ساری تفصیلات بتائی، تو حضور صلى الله عليه وسلم نے لعاب دہن اس ڈسے ہوئے مقام پر لگادیا، جس سے تکلیف جاتی رہی۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
کھسیانی بلی کھمبا نوچے

ادھر بدبختوں کی جماعت نے، جب صبح کی، اور حضور صلى الله عليه وسلم کے بجائے، حضرت علی کو بستر رسالت سے بے دار ہوتے ہوئے دیکھا، تو دماغ ٹھکانے پر نہ رہا، جھلاہٹ کی حالت میں کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیاجائے، کبھی تو حضرت علی سے سختی سے پوچھ رہے تھے، لیکن حضرت علی کیوں کر کچھ بتاسکتے تھے، جب یہاں سے مایوسی ہوئی تو سیدھا حضرت ابوبکر کے گھر پہنچے، وہاں بھی گھر کو خالی دیکھ کر یقین ہوگیا کہ یہ دونوں نکل چکے ہیں، حضرت اسماء سے پوچھا، جس پر حضرت اسماء نے لاعلمی کا اظہار کیا، تو بدبخت وبدباطن ابوجہل نے ایک ایسا طمانچہ مارا جس سے کان زخمی ہوگیا اور بالی دور گری، مگر حضرت اسماء نے کچھ نہیں بتایا۔

جب ہر طرح سے مایوسی رہی تو کفار نے اعلان کردیا کہ جو زندہ یا مردہ پکڑکر لائے گا اسے نقد سو اونٹ انعام دیا جائے گا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
غار ثور اور تلاشی مہم

کفار کی جانب سے تلاشی مہم جاری رہی، جوں جوں وقت گزرتا جارہاتھا۔ انعام کا حریص اور بھی شدت اختیار کرتا گیا، ایسا لگتا تھا کہ وہ لوگ اسی کے لیے ادھار بیٹھے تھے، کھاڑیاں، جھاڑیاں، پہاڑیاں غرض کہ ہر جگہ چھان ماری، لیکن کہیں سراغ نہ لگا، ایک مرتبہ تو غار ثور کے منہ پر آگئے، قریب تھا کہ اگر وہ اندر کو جھانک لیتے تو یہ دونوں مقدس ہستیاں نظر آجاتیں، حضرت ابوبکر کو تشویش ہوئی اور تشویش ہونی ہی چاہیے، ان کو فکر اپنی جان کی نہیں بلکہ خلاصہٴ کائنات کی تھی، انھوں نے اپنی تشویش کا اظہار چپکے سے، حضور سے بھی کیا، حضور نے فرمایا کہ اے ابوبکر: لاتحزن ان اللّٰہ معنا غم کی حاجت نہیں ہے، اللہ کی معیت ہمارے لیے ہے۔ یہ سننا تھا کہ حضرت ابوبکر پر گویا سکینت نازل ہوگئی۔ ایک بدبخت اندر گھسنے کا ارادہ بھی کررہا تھا، مگر بعض نشانیوں کو دیکھ کر خود بھی باز رہا، اور اوروں کو باز رکھا۔

قرآن پاک نے اسی واقعہ کو ”ثانی اثنین“ کے لفظ سے ذکر کیاہے، اور اس طرح حضرت ابوبکر کو دو میں کا دوسرا کہہ کر جاودانی عظمت و شرف سے سرفراز کیا ہے۔ جسے آج کروڑوں کی تعداد میں مسلمان تلاوت کرتے ہیں،اور وہیں پر ان اللّٰہ معنا کا حوالہ بھی پڑھتے ہیں۔ غارثور کے اسی واقعہ، اور رفاقت و جذبہٴ جاں نثاری کو اردو و فارسی میں ”یارغار“ کے لقب سے جانا جاتا ہے، جس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ انتہائی جاں نثار، اور مشکل وقت میں کام آنے والا دوست۔
 
Top