• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر البیان از جاوید احمد غامدی پارہ نمبر 1 یونیکوڈ

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 95


وَ لَنۡ یَّتَمَنَّوۡہُ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالظّٰلِمِیۡنَ ﴿۹۵﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

اور (تم دیکھو گے کہ) اپنے ہاتھوں کی جو کمائی یہ آگے بھیج چکے ہیں ، اس کی وجہ سے یہ کبھی اس کی تمنا نہ کریں گے اور (حقیقت یہ ہے کہ) اللہ ان ظالموں سے خوب واقف ہے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 96


وَ لَتَجِدَنَّہُمۡ اَحۡرَصَ النَّاسِ عَلٰی حَیٰوۃٍ ۚۛ وَ مِنَ الَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡا ۚۛ یَوَدُّ اَحَدُہُمۡ لَوۡ یُعَمَّرُ اَلۡفَ سَنَۃٍ ۚ وَ مَا ہُوَ بِمُزَحۡزِحِہٖ مِنَ الۡعَذَابِ اَنۡ یُّعَمَّرَ ؕ وَ اللّٰہُ بَصِیۡرٌۢ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿٪۹۶﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

یعنی مشرکین عرب جنھیں ایک لمبی مدت تک نبیوں کی رہنمائی سے محروم رہنے کے باعث یہود اپنے مقابلے میں نہایت حقیر سمجھتے تھے۔ قرآن نے یہ واضح کیا ہے کہ دین و شریعت کی علم برداری کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود وہ اخلاقی طور پر ان مشرکین سے بھی گرے ہوئے ہیں۔ یہاں اس دیکھنے کا لازم مراد ہے ، یعنی جب دیکھ رہا ہے تو انھیں لازماً ان کے جرائم کی سزا بھی دے گا۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 97


قُلۡ مَنۡ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبۡرِیۡلَ فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلۡبِکَ بِاِذۡنِ اللّٰہِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ وَ ہُدًی وَّ بُشۡرٰی لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۹۷﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

یہ الفاظ اس اسلوب کا تقاضا ہیں، جو اس آیت میں جواب شرط کے لیے اختیار کیا گیا ہے ۔
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود اس معاملے میں حماقت کی اس حد تک پہنچ گئے تھے کہ قرآن کی دشمنی میں انھوں نے جبرائیل (علیہ السلام) کو بھی محض اس لیے اپنا دشمن قرار دے دیا کہ انھوں نے یہ وحی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کیوں اتاری ہے ، ان کے کسی آدمی پر کیوں نہیں اتاری۔
قرآن کے بارے میں اس تفصیل سے مقصود یہود پر یہ واضح کرنا ہے کہ ان کی مخالفت صرف قرآن کی مخالفت نہیں ہے ، بلکہ ان کی اپنی کتاب کی مخالفت ہے جس کی پیشین گوئیوں کے مطابق یہ نازل ہوا ہے اور محض ایک کتاب کی مخالفت نہیں ہے ، بلکہ اس ہدایت اور بشارت کی مخالفت ہے جو ان کے پروردگار کی طرف سے ان کے پاس آئی ہے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 98


مَنۡ کَانَ عَدُوًّا لِّلّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَ جِبۡرِیۡلَ وَ مِیۡکٰىلَ فَاِنَّ اللّٰہَ عَدُوٌّ لِّلۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۹۸﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

عام فرشتوں کا ذکر کرنے کے بعد یہ جبرائیل اور میکائیل کا ذکر اسی طرح ہوا ہے ، جس طرح عام کے بعد خاص کا ذکر ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ فرشتوں میں یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے ہاں خصوصی حیثیت کے حامل ہیں۔ اِس سے واضح ہوا کہ جبرائیل کی مخالفت تنہا جبرائیل کی مخالفت نہیں ہے ، بلکہ خود اللہ تعالیٰ ، اس کے تمام فرشتوں اور تمام رسولوں کی مخالفت ہے۔ پھر یہ بھی واضح ہوا کہ اللہ ، اس کے فرشتوں اور اس کے پیغمبروں کی مخالفت ایک بدترین کفر ہے اور اس مخالفت کا یہ نتیجہ بھی سامنے آگیا کہ اللہ بھی ایسے کافروں کا دشمن ہے۔ اس کے بعد ظاہر ہے کہ یہ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہی کہ جو لوگ اللہ کو اپنا دشمن بنالیں ، ان سے زیادہ بدبخت کون ہوسکتا ہے۔ قرآن کے ایجاز بیان نے ان سب باتوں کو اس طرح سمیٹ دیا ہے کہ بات وہاں پہنچ بھی گئی ہے ، جہاں اسے پہنچنا چاہیے تھا اور مخاطبین کے لیے اس سے انکار کی کوئی گنجایش بھی پیدا نہیں ہوئی۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 99


وَ لَقَدۡ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ ۚ وَ مَا یَکۡفُرُ بِہَاۤ اِلَّا الۡفٰسِقُوۡنَ ﴿۹۹﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

جاوید احمد غامدی اور (اِس قرآن کی صورت میں ، اے پیغمبر) ہم نے تم پر نہایت واضح دلیلیں اتاردی ہیں، اور (حقیقت یہ ہے کہ) اُنھیں صرف اس طرح کے نافرمان ہی نہیں مانتے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 100


اَوَ کُلَّمَا عٰہَدُوۡا عَہۡدًا نَّبَذَہٗ فَرِیۡقٌ مِّنۡہُمۡ ؕ بَلۡ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۱۰۰﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب اور آخری پیغمبر کے بارے میں جو عہد یہود سے لیا تھا، اس سے ان کے گریز و فرار کا ذکر کرنے کے بعد یہ بانداز تعجب و اظہارِ حسرت فرمایا ہے کہ کیا ان کی یہی روش ہمیشہ باقی رہے گی۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 101


وَ لَمَّا جَآءَہُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمۡ نَبَذَ فَرِیۡقٌ مِّنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ ٭ۙ کِتٰبَ اللّٰہِ وَرَآءَ ظُہُوۡرِہِمۡ کَاَنَّہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۰۱﴾۫

(تفسیر البیان (الغامدی :

یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔
مطلب یہ ہے کہ نبی آخر الزماں کے بارے میں خود اپنی ہی کتاب کی پیشین گوئیوں کو اس طرح نظر انداز کردیا گویا ان سے واقف ہی نہیں تھے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 102


وَ اتَّبَعُوۡا مَا تَتۡلُوا الشَّیٰطِیۡنُ عَلٰی مُلۡکِ سُلَیۡمٰنَ ۚ وَ مَا کَفَرَ سُلَیۡمٰنُ وَ لٰکِنَّ الشَّیٰطِیۡنَ کَفَرُوۡا یُعَلِّمُوۡنَ النَّاسَ السِّحۡرَ ٭ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ عَلَی الۡمَلَکَیۡنِ بِبَابِلَ ہَارُوۡتَ وَ مَارُوۡتَ ؕ وَ مَا یُعَلِّمٰنِ مِنۡ اَحَدٍ حَتّٰی یَقُوۡلَاۤ اِنَّمَا نَحۡنُ فِتۡنَۃٌ فَلَا تَکۡفُرۡ ؕ فَیَتَعَلَّمُوۡنَ مِنۡہُمَا مَا یُفَرِّقُوۡنَ بِہٖ بَیۡنَ الۡمَرۡءِ وَ زَوۡجِہٖ ؕ وَ مَا ہُمۡ بِضَآرِّیۡنَ بِہٖ مِنۡ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ یَتَعَلَّمُوۡنَ مَا یَضُرُّہُمۡ وَ لَا یَنۡفَعُہُمۡ ؕ وَ لَقَدۡ عَلِمُوۡا لَمَنِ اشۡتَرٰىہُ مَا لَہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنۡ خَلَاقٍ ۟ؕ وَ لَبِئۡسَ مَا شَرَوۡا بِہٖۤ اَنۡفُسَہُمۡ ؕ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۰۲﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

یعنی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ماننے اور ان کی پیروی کرنے کے بجائے ان کو ضرر پہنچانے کے درپے ہوئے اور اس کے لیے اپنے ان عاملوں کے پیچھے لگے جو ان کے ہاں سفلی اور روحانی علوم کی دکانیں لگائے بیٹھے ہیں۔ قرآن مجید کی سورة فلق (٣ ١١) کے الفاظ ’ مِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ ‘ میں اللہ تعالیٰ نے یہود کے انھی اشرار سے بچنے کے لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو برابر اپنے پروردگار کی پناہ چاہنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ اصل میں ’ عَلٰی مُلْکِ سُلَیْمٰنَ ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں تضمین کا اسلوب ہے، یعنی ’ مُفْتِرِیْنَ عَلٰیمُلْکِ سُلَیْمٰنَ ‘ ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح آج کے لوگ سفلی علوم کے لیے سلیمان (علیہ السلام) کا حوالہ دیتے ہیں، اسی طرح یہود بھی اپنے اس نوعیت کے مزخرفات کو انھی سے منسوب کرتے تھے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہوئی کہ شیاطین جن سلیمان (علیہ السلام) کے تابع فرمان تھے۔ اس طرح کے علوم چونکہ زیادہ تر جنات کے تصرفات سے پیدا ہوتے ہیں، اس لیے تقدس کا رنگ دینے کے لیے لوگوں نے انھیں آں جناب سے منسوب کردیا۔ اصل میں ’ وَمَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ ‘ سے لے کر ’ یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ ‘ تک یہ پوری بات ایک جملہ معترضہ ہے جو سلسلہ کلام کے بیچ میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو یہود کے لگائے ہوئے الزامات سے بری قرار دینے کے لیے اس طرح آگیا ہے گویا متکلم کو ان علوم سفلیہ کی نسبت ان سے اتنی ناگوار ہے کہ اس نے اس کی تردید کے معاملے میں بات کے پورا ہو لینے کا انتظار بھی نہیں کیا ۔ پھر یہ تردید بھی ، اگر غور کیجیے تو ایسے اسلوب میں کی گئی ہے کہ سحر و ساحری کا کفر ہونا اس سے ایک ثابت شدہ حقیقت کے طور پر بالکل واضح ہوجاتا ہے ۔ اِس سے پہلے کا جملہ ، جیسا کہ اوپر بیان ہوا ، ایک جملہ معترضہ ہے۔ لہٰذا آیت میں عطف لازماً ’ مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ ‘ پر ہے۔ یہ سحر و ساحری سے، جسے قرآن نے یکسر کفر قرار دیا ہے، بالکل مختلف کوئی علم تھا۔ یہ بات ’ تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ ‘ پر اس کے عطف سے بھی واضح ہے، اس علم کے لیے ’ مَآ اُنْزِلَ ‘ کے جو الفاظ آئے ہیں، ان سے بھی معلوم ہوتی ہے ، اور اس کے لیے لفظ ’ فِتْنَۃٌ ‘ کے استعمال سے بھی صاف مترشح ہے۔ لہٰذا ان لوگوں کی راے کسی طرح صحیح نہیں ہے جو اسے جادو سمجھتے ہیں اور اس کے لیے ان دو فرشتوں کے بارے میں جن پر یہ نازل ہوا ، ایک فضول سا قصہ بھی سناتے ہیں۔ لیکن یہ اگر جادو نہیں تھا تو سوال یہ ہے کہ پھر یہ کون سا علم تھا ؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی اس کے بارے میں لکھتے ہیں : ” ہمارے نزدیک اس سے مراد اشیا اور کلمات کے روحانی خواص اور تاثیرات کا وہ علم ہے جس کا رواج یہود کے صوفیوں اور پیروں میں ہوا اور جس کو انھوں نے گنڈوں، تعویذوں اور مختلف قسم کے عملیات کی شکل میں مختلف اغراض کے لیے استعمال کیا، مثلاً بعض امراض یا تکالیف کے ازالے کے لیے یا نظر بد اور جادو وغیرہ کے برے اثرات دور کرنے کے لیے یا شعبدہ بازوں وغیرہ کے فتنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے یا محبت اور نفرت کے اثرات ڈالنے کے لیے ۔ یہ علم اس اعتبار سے جادو اور نجوم وغیرہ سے بالکل مختلف تھا کہ اس میں نہ تو شرک کی کوئی ملاوٹ تھی اور نہ اس میں شیطان اور جنات کو کوئی دخل تھا ، لیکن اپنے اثرات و نتائج کے پیدا کرنے میں یہ جادو ہی کی طرح زود اثر تھا۔ ممکن ہے بنی اسرائیل کو یہ علم بابل کے زمانہ اسیری میں دو فرشتوں کے ذریعے سے اس لیے دیا گیا ہو کہ اس کے ذریعے سے بابل کی سحر و ساحری کا مقابلہ کرسکیں اور اپنی قوم کے کم علموں اور سادہ لوحوں کو جادو گروں کے رعب سے محفوظ رکھ سکیں۔ اس بات کی طرف ہمارا ذہن دو وجہ سے جاتا ہے : ایک تو اس وجہ سے کہ توراۃ سے معلوم ہوتا ہے کہ بابل میں سحر و ساحری اور نجوم کا بڑا زور تھا۔ دوسری یہ کہ یہ بات سنت اللہ کے موافق معلوم ہوتی ہے کہ اگر کسی جگہ ایک غلط علم کا رعب اور زور ہو جس سے مفسد لوگ فائدہ اٹھا رہے ہوں تو وہاں اللہ تعالیٰ اس کے مقابلے کے لیے اہل ایمان کو کوئی ایسا علم بھی عطا فرمائے جو جائز اور نافع ہو۔ “ ( تدبر قرآن ١/ ٢٨٥)
اِس کے بعد انھوں نے لکھا ہے : ” ہمارا خیال یہ ہے کہ اسی علم کے باقیات ہیں جن کو ہمارے صوفیوں اور پیروں کے ایک طبقہ نے اپنایا اور اس سے انھوں نے لوگوں کو فائدہ بھی پہنچایا ، بلکہ واقعات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض حالات میں اس کی مدد سے انھوں نے جوگیوں اور جوتشیوں وغیرہ کے مقابل میں اسلام اور مسلمانوں کی برتری بھی ثابت کی ، لیکن اخلاقی زوال کے بعد جس طرح یہود کے ہاں یہ علم علوم سفلیہ کا ایک ضمیمہ اور دکان داری کا ایک ذریعہ بن کے رہ گیا، اسی طرح ہمارے یہاں بھی یہ صرف پیری مریدی کی دکان چلانے کا ذریعہ بن کر رہ گیا اور حق سے زیادہ اس میں باطل کے اجزا شامل ہوگئے جس کے سبب سے لوگوں پر اس کے اثرات بھی وہی پڑے جو قرآن نے بیان فرمائے۔ “ ( ١/ ٢٨٦)
وَمَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ ‘ والے جملے کی طرح ’ وَمَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ ‘ سے ’ فَلَا تَکْفُرْ ‘ تک یہ جملہ بھی آیت میں ایک جملہ معترضہ ہے جو ہاروت و ماروت کی بریت کے لیے وارد ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس تنبیہ کے بغیر کہ ہمارے اس علم کو برے مقاصد کے لیے استعمال کر کے تم لوگ کفر میں نہ پڑجانا ، وہ کسی پر اپنے علم کا انکشاف نہیں کرتے تھے۔ اِس سکھانے کی نوعیت اگرچہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہ فرشتے انسانی روپ میں لوگوں کو تعلیم دیتے رہے ہوں ، لیکن غالب امکان اسی بات کا ہے کہ لوگ کسی خاص قسم کی ریاضت اور چلہ کشی کے ذریعے سے ان کے ساتھ کوئی روحانی قسم کا ربط پیدا کر کے یہ علم ان سے سیکھ لیتے تھے۔ اصل میں لفظ ’ فِتْنَۃٌ ‘ استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی امتحان اور آزمائش کے ہیں۔ قرآن میں اس سے بالعموم وہ چیزیں مراد لی گئی ہیں جو اصلاً انسان کے فائدے ہی کے لیے پیدا کی گئی ہیں، لیکن انسان اپنے استعمال کی غلطی سے انھیں اپنے لیے فتنہ بنا لیتا ہے۔ ہاروت و ماروت کی طرف سے اپنے علم کے لیے اس لفظ کا استعمال دلیل ہے کہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ علم کوئی بری چیز نہ تھا۔ اصل میں ’ فَلَا تَکْفُرْ ‘ کے جو الفاظ آئے ہیں ، ان میں نہی نتیجے کے لحاظ سے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہمارا یہ علم ایک دو دھاری تلوار کی حیثیت رکھتا ہے۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ تم لوگ اسے سیکھ کر برے مقاصد کے لیے استعمال کرو گے اور اس طرح کفر و شرک میں مبتلا ہوجاؤ گے۔ اِس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہود اخلاقی فساد ، پست ہمتی اور دنایت میں کہاں تک گر چکے تھے۔ فرشتوں کی تنبیہ کے باوجود ، قرآن بتاتا ہے کہ ان کی سب سے زیادہ رغبت ان اعمال سے تھی جو میاں بیوی کے رشتہ محبت کے لیے مقراض بن جائیں ، دراں حالیکہ یہی رشتہ ہے جس کے استحکام پر پورے انسانی تمدن کے استحکام کی بنیاد ہے۔ یہ جملہ بھی بطور استدراک ہے اور اس سے توحید پر ایمان کا یہ تقاضا واضح ہوتا ہے کہ بندہ مومن کو اولاً ، اس طرح کی چیزوں سے رغبت ہی نہیں رکھنی چاہیے۔ ثانیاً ، ان میں سے کسی چیز سے واسطہ پڑے تو اسے موثر بالذات نہیں سمجھنا چاہیے۔ ثالثاً ، ان سے ضرر کا اندیشہ ہو تو صرف اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ تعویذ گنڈوں اور ان کے ماہر عاملوں اور سیانوں کے چکر میں نہیں پھنسنا چاہیے۔ اس لیے کہ شیطانی علوم ہوں یا روحانی، ان سے اللہ کے اذن کے بغیر کسی کو کوئی نفع یا ضرر نہیں پہنچایا جاسکتا۔ یعنی ان کی ذہنیت اس قدر پست ہوچکی تھی کہ ایک علم جس سے نفع و نقصان ، دونوں پہنچ سکتے تھے ، یہ اسے دوسروں کو صرف نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ یہود اس بات سے اچھی طرح واقف تھے ، اس لیے کہ توراۃ میں انھیں نہایت واضح الفاظ میں اس طرح کے فتنوں میں پڑنے سے روکا گیا تھا ۔ استثنا میں ہے : ” جب تو اس ملک میں جو خداوند تیرا خدا تجھے دیتا ہے ، پہنچ جائے تو وہاں کی قوموں کی طرح مکروہ کام کرنے نہ سیکھنا۔ تجھ میں ہرگز کوئی ایسا نہ ہو جو اپنے بیٹے یا بیٹی کو آگ میں چلوائے یا فال گیر یا شگون نکالنے والا یا افسون گر یا جادو گر یا منتری یا جنات کا آشنا یا رمال یا ساحر ہو، کیونکہ وہ سب جو ایسے کام کرتے ہیں ، خداوند کے نزدیک مکروہ ہیں اور ان ہی مکروہات کے سبب سے خداوند تیرا خدا ان کو تیرے سامنے سے نکالنے پر ہے۔ “ (١٨: ٩۔ ١٢)
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 103


وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ اٰمَنُوۡا وَ اتَّقَوۡا لَمَثُوۡبَۃٌ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ خَیۡرٌ ؕ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۰۳﴾٪

(تفسیر البیان (الغامدی :

یعنی پیغمبر کو ضرر پہنچانے کے لیے ان علوم کے ماہرین کی اتباع کرنے کے بجائے اگر یہ پیغمبر پر ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو انھیں اندازہ نہیں ہوسکتا کہ اس کا کیا اجر وثواب انھیں اللہ تعالیٰ کے ہاں ملتا۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ البقرة : آیت 104


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقُوۡلُوۡا رَاعِنَا وَ قُوۡلُوا انۡظُرۡنَا وَ اسۡمَعُوۡا ؕ وَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۱۰۴﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

یہ اب مسلمانوں کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کے خلاف یہود کی ان شرارتوں اور اعتراضات سے متنبہ کیا جا رہا ہے جو وہ قرآن کی طرف سے ان پر اتمام حجت کے ردعمل میں اپنے دل کی بھڑاس نکالنے ، حضور کی توہین کرنے اور مسلمانوں کی نگاہوں میں آپ کو گرانے کے لیے کرتے تھے۔’ رَاعِنَا ‘، ’ مراعاۃ ‘ سے امر کا صیغہ ہے۔ اس کے لغوی معنی ، ذرا ہماری رعایت فرمائیے، کے ہیں۔ بات اگر اچھی طرح سنی یا سمجھی نہ گئی ہو تو متکلم کو متوجہ کرنے کے لیے عربی زبان میں یہ لفظ بالکل اسی موقع پر بولا جاتا ہے ، جس موقع پر ہم اردو میں کہتے ہیں : ذرا پھر ارشاد فرمائیے۔ قرآن نے دوسری جگہ تصریح کی ہے کہ یہود اس لفظ کو زبان ذرا نیچے کی طرف دبا کر اس طرح ادا کرتے تھے کہ اس کے معنی بالکل تبدیل ہوجاتے اور اس سے ان کا مقصود خدا کے دین اور اس کے پیغمبر پر طنز کرنا اور پھبتی چست کرنا ہوتا ۔ قرآن نے یہاں اسی بنا پر اس لفظ کو مسلمانوں کے مجلسی آداب سے یک قلم خارج کردیا اور اس کی جگہ ایک دوسرا لفظ ’ اُنْظُرْنَا ‘ استعمال کرنے کی ہدایت فرمائی جو عربی زبان میں اس موقع و محل کے لیے معروف تھا اور جس میں اس طرح کی تحریف کا بھی کوئی امکان نہ تھا۔ اِس کے لغوی معنی دیکھنے ، مہلت دینے اور انتظار کرنے کے ہیں۔ اصل میں لفظ ’ اِسْمَعُوْا ‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ اس آیت میں اپنے حقیقی مفہوم میں ہے، یعنی غور سے سنو اور سمجھو تاکہ تمہیں بار بار پیغمبر کو متوجہ کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ یعنی ان یہودیوں کے لیے جو پیغمبر کو جھٹلانے پر مصر ہیں اور مجلس نبوی میں نہ سننے کے لیے آتے ہیں اور نہ سمجھنے کے لیے ، بلکہ صرف اس لیے آتے ہیں کہ پیغمبر کی توہین کا کوئی موقع پیدا کر کے اپنے دل کی بھڑاس نکالیں۔
 
Top