• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر البیان از جاوید احمد غامدی پارہ نمبر 2 یونیکوڈ

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 152


فَاذۡکُرُوۡنِیۡۤ اَذۡکُرۡکُمۡ وَ اشۡکُرُوۡا لِیۡ وَ لَا تَکۡفُرُوۡنِ ﴿۱۵۲﴾٪
اس یاددہانی کی نوعیت ایک معاہدے کی ہے۔ اللہ کو یاد رکھنے اور اس کے جواب میں اللہ کے یاد رکھنے سے مقصود اس جگہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو فرائض اور ذمہ داریاں تمہارے سپرد کی ہیں ، تم انھیں پورا کرو گے تو اس کے صلے میں دنیا اور آخرت میں کامیابی کے جو وعدے اس نے تم سے کیے ہیں ، وہ انھیں پورا کرے گا ۔ یعنی دنیا کی امامت اور اس کے لیے دین و شریعت کی جو نعمت میں نے تمہیں دی ہے، اس کا صحیح صحیح حق ادا کرو ۔ یہی اس نعمت کا شکر ہے ۔ یعنی یہود کی طرح اس نعمت کی ناشکری نہ کرو، ورنہ جس طرح وہ اس سے محروم ہوئے ہیں ، اسی طرح تم بھی اس نعمت سے محروم کردیے جاؤ گے۔ اللہ کا قانون بالکل بےلاگ ہے ، اس کی زد سے کوئی بھی بچ نہیں سکتا۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 153


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۵۳﴾
تحویل قبلہ کا حکم درحقیقت ملت ابراہیمی کی وراثت کے نبی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور آپ کے ساتھیوں کو منتقل ہوجانے کا اعلان تھا ۔ یہود مدینہ اور قریش مکہ، دونوں کی طرف سے اس پر جس رد عمل کا اندیشہ تھا ، یہ اس کے مقابلے میں صبر اور نماز سے مدد لینے کی ہدایت فرمائی ہے۔ استاذ امام نے اپنی تفسیر میں اس کے بعض اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں. ” ایک تو یہ کہ مشکلات و مصائب میں جس نماز کا سہارا حاصل کرنے کا یہاں ذکر ہے ، اس سے مراد صرف پانچ وقتوں کی مقررہ نمازیں ہی نہیں ہیں ، بلکہ تہجد اور نفل نمازیں بھی ہیں۔ اس لیے کہ یہی نمازیں مومن کے اندر وہ روح اور زندگی پیدا کرتی ہیں جو راہ حق میں پیش آنے والی مشکلات پر فتح یاب ہوتی ہے ، انھی کی مدد سے وہ مضبوط تعلق باللہ پیدا ہوتا ہے جو کسی سخت سے سخت آزمائش میں بھی شکست نہیں کھاتا ، اور انھی سے وہ مقام قرب حاصل ہوتا ہے جو خدا کی اس معیت کا ضامن ہے جس کا اس آیت میں صابرین کے لیے وعدہ فرمایا گیا ہے۔ اس حقیقت کی پوری وضاحت مکی سورتوں میں آئے گی، اس وجہ سے یہاں ہم صرف اشارے پر اکتفا کرتے ہیں۔ دوسری یہ کہ نماز تمام عبادات میں ذکر اور شکر کا سب سے بڑا مظہر ہے۔ قرآن مجید میں مختلف طریقوں سے یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ نماز کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کی شکرگزاری ہے۔ اس پہلو سے غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اوپر اس امت سے یہ عہد جو لیا گیا ہے : ’ فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْکُمْ ، وَاشْکُرُوْا لِیْ ‘، اس کے قیام میں نماز سب سے بہتر وسیلہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔
تیسری یہ کہ یہ نماز دعوت دین اور اقامت حق کی راہ میں عزیمت اور استقامت کے حصول کے لیے مطلوب ہے۔ اس وجہ سے اس نماز کی اصلی برکت اس صورت میں ظاہر ہوتی ہے جب آدمی راہ حق میں باطل سے کشمکش کرتا ہوا اس کا اہتمام کرے۔ جو شخص سرے سے باطل کے مقابل میں کھڑے ہونے کا ارادہ ہی نہیں کرتا ، ظاہر ہے کہ اس کے لیے یہ ہتھیار کچھ غیر مفید ہی بن کر رہ جاتا ہے ۔ چوتھی یہ کہ یہاں صبر اور نماز سے مدد حاصل کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ : ” اللہ ثابت قدموں کے ساتھ ہے۔ “ یہ نہیں فرمایا کہ : ” اللہ نماز پڑھنے والوں اور صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ “ اس کی وجہ استاذ امام (حمید الدین فراہی) کے نزدیک یہ ہے کہ نماز میں خدا کی معیت کا حاصل ہونا اس قدر واضح چیز ہے کہ اس کے ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں تھی ، واضح کرنے کی بات یہی تھی کہ جو لوگ راہ حق میں ثابت قدم رہتے ہیں اور اس ثابت قدمی کے حصول کے لیے نماز کو وسیلہ بناتے ہیں ، اللہ ان کے ساتھ ہوجاتا ہے ۔ پانچویں یہ کہ اللہ کی معیت جس کا یہاں ثابت قدموں کے لیے وعدہ کیا گیا ہے ، کوئی معمولی چیز نہیں ہے، بلکہ موقع کلام گواہ ہے کہ یہاں ان دو لفظوں کے اندر بشارتوں کی ایک دنیا پوشیدہ ہے۔ تمام کائنات کا بادشاہ حقیقی اور تمام امرواختیار کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے تو جب وہ کسی کی پشت پر ہے تو اس کو دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی کس طرح شکست دے سکتی ہے ؟ “ (تدبر قرآن ١/ ٣٧٩)
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 154


وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ یُّقۡتَلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتٌ ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ وَّ لٰکِنۡ لَّا تَشۡعُرُوۡنَ ﴿۱۵۴﴾
مطلب یہ ہے کہ راہ عزیمت پر قائم رہنے کے لیے صبر اور نماز سے مدد کے ساتھ زندگی اور موت کے بارے میں یہ حقیقت بھی تم پر واضح رہنی چاہیے کہ جو لوگ حق کی شہادت کے لیے جیتے اور مرتے ہیں ، ان کا معاملہ قیامت تک کے لیے موخر نہیں کیا جاتا ، بلکہ عالم برزخ میں ایک نوعیت کی زندگی انھیں حاصل ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے انعامات مرنے کے فوراً بعد انھیں ملنے شروع ہوجاتے ہیں۔ سورة آل عمران (٣) کی آیت ١٦٩ میں قرآن نے یہ بات ’ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ ‘ (اپنے پروردگار کے پاس روزی پا رہے ہیں ) کے الفاظ سے واضح کردی ہے ۔ قیامت کی زندگی چونکہ جسم کے ساتھ ہوگی ، اس لیے اس کا کچھ تصور ہم یہاں کرسکتے ہیں، لیکن برزخ کی یہ زندگی کیا ہے ؟ اس کا کوئی تصور اس دنیا میں کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ ’ وَلٰکِنْ لاَّتَشْعُرُوْنَ ‘ کے جو الفاظ اصل میں آئے ہیں ، ان میں قرآن نے یہی حقیقت بیان فرمائی ہے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 155


وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَ الۡجُوۡعِ وَ نَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَنۡفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۵۵﴾ۙ
یہ اب ان آزمائشوں کی طرف اشارہ کیا ہے جو منصب امامت کے بعد نبی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور آپ کے ساتھیوں کو پیش آنے والی تھیں ۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ رسولوں کی بعثت سے اللہ تعالیٰ کی جو عدالت زمین پر قائم ہوتی ہے ، اس کا فیصلہ اس طرح کی آزمائشوں کے ذریعے سے لوگوں کی تطہیر کے بعد ہی صادر ہوتا ہے ۔ اِن آزمائشوں پر اصل میں ’ بِشَیْءٍ ‘ یعنی ’ کچھ ‘ یا ’ کسی قدر ‘ کی جو قید لگی ہوئی ہے ، اس سے مقصود مسلمانوں کی ہمت افزائی ہے کہ یہ آزمائشیں پیش تو آئیں گی، لیکن ان کی مقدار اتنی ہی ہوگی جو تمہاری عزیمت اور استقامت کو پرکھنے کے لیے ضروری ہے۔ لہٰذا ان سے دل شکستہ ہونے کے بجائے تمہیں پوری ہمت اور حوصلے کے ساتھ ان کا مقابلہ کرنا چاہیے ۔ اِس سے مراد دشمنوں کے حملے اور ہجوم کا اندیشہ ہے۔ بدر سے تبوک تک صحابہ کرام مسلسل اس آزمائش میں مبتلا رہے ۔ اِس وقت تک ملک کی تمام تجارت اور دوسرے معاشی ذرائع عملاً یہود اور قریش ہی کے ہاتھ میں تھے۔ چنانچہ یہ آزمائش بھی ان کی طرف سے پیش آئی ۔ اشارہ ہے جان و مال کی ان قربانیوں کی طرف جو مسلمانوں کو جنگوں میں اور زمانہ جنگ کی جو صورت حال انھیں درپیش تھی ، اس کی وجہ سے دینا پڑیں۔اصل میں لفظ ’ ثَمَرٰت ‘ استعمال ہوا ہے۔ اس زمانے کے عرب میں ’ اَمْوَال ‘ کا لفظ زیادہ تر اونٹوں اور بھیڑ بکریوں کے لیے استعمال ہوتا تھا اور ’ ثَمَرٰت ‘ سے پھل ، بالخصوص کھجور مراد لی جاتی تھی۔ جنگوں سے امن وامان کا جو فقدان ہوا ، اس کے باعث کھجور کے باغات بھی توجہ اور نگہداشت سے محروم ہوئے اور اس طرح مسلمانوں کو ان کی پیداوار میں کمی کا نقصان اٹھانا پڑا۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 156


الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ﴿۱۵۶﴾ؕ
یہ اللہ تعالیٰ کی طرف تفویض اور سپردگی کا کلمہ اور اہل ایمان کے اس عقیدے کا اظہار ہے جس پر ان کے عزم و استقامت کا انحصار ہوتا ہے۔ ہم دنیا میں بھی اللہ ہی کے ہیں اور مرنے کے بعد بھی ہمیں ہر حال میں اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ اس عقیدے کے یہ دو اجزا ہیں اور غور کیجیے تو جادہ حق پر قائم رہنے کے لیے دونوں ہی نہایت اہم ہیں۔ بندہ مومن عقیدے کی اسی قوت سے دنیا کی ہر طاقت سے لڑ جاتا ہے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 157


اُولٰٓئِکَ عَلَیۡہِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَ رَحۡمَۃٌ ۟ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُہۡتَدُوۡنَ ﴿۱۵۷﴾
اصل میں لفظ ’ صَلَوٰت ‘ آیا ہے۔ یہ ’ صلٰوۃ ‘ کی جمع ہے جو اصلاً کسی چیز کی طرف بڑھنے اور متوجہ ہونے کے معنی میں آتا ہے۔ چنانچہ اسی سے یہ نماز کے لیے بھی (جس کی حقیقت نیاز مندی ہی ہے ) استعمال ہوا اور الطاف و عنایات کے مفہوم میں بھی۔ یہاں چونکہ اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے ، اس لیے یہ اس دوسرے معنی میں ہے۔ نسبت کی تبدیلی سے الفاظ کے مفہوم میں اس طرح کی تبدیلیاں عربی زبان میں بہت ہوتی ہیں۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
[ سیقول : سورۃ البقرة : آیت 158


اِنَّ الصَّفَا وَ الۡمَرۡوَۃَ مِنۡ شَعَآئِرِ اللّٰہِ ۚ فَمَنۡ حَجَّ الۡبَیۡتَ اَوِ اعۡتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡہِ اَنۡ یَّطَّوَّفَ بِہِمَا ؕ وَ مَنۡ تَطَوَّعَ خَیۡرًا ۙ فَاِنَّ اللّٰہَ شَاکِرٌ عَلِیۡمٌ ﴿۱۵۸﴾
صفا ومروہ بیت اللہ کے پاس وہ دو پہاڑیاں ہیں جن کے درمیان حج وعمرہ کے موقع پر سعی کی جاتی ہے۔ اصل قربان گاہ جہاں سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے فرزند کو قربانی کے لیے پیش کیا ، وہ چونکہ یہی مروہ ہے ، اس لیے یہود نے اپنے صحیفوں میں اس کا تعلق بھی ان سے کاٹ دینے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ اس کی تفصیلات امام حمید الدین فراہی کی کتاب ” الرأی الصحیح فی من ہوالذبیح “ میں دیکھ لی جاسکتی ہیں۔ یہ شعیرہ کی جمع ہے جس کے معنی علامت کے ہیں۔ اصطلاح میں اس سے مراد وہ مظاہر ہیں جو اللہ اور رسول کی طرف سے کسی حقیقت کا شعور قائم رکھنے کے لیے بطور ایک نشان کے مقرر کیے گئے ہوں۔ چنانچہ قربانی جس طرح حقیقت اسلام کی علامت ہے، حجر اسود کا استلام اللہ تعالیٰ کے ساتھ عہدو میثاق کی علامت ہے ، رمیِ جمرات شیطان کے خلاف جنگ اور اس پر لعنت کی علامت ہے ، اسی طرح صفا ومروہ کی سعی اسماعیل (علیہ السلام) کی قربان گاہ کا طواف ہے جو نذر کی علامت کے طور پر کیا جاتا ہے۔ اِن شعائر میں اصل مطمح نظر تو وہ حقیقتیں ہوا کرتی ہیں جن کی یہ علامت ہوتے ہیں ، لیکن انھی حقیقتوں کے تعلق سے یہ شعائر بھی دین میں تقدس کا درجہ حاصل کرلیتے ہیں۔ تاہم یہ بات ان کے بارے میں ہمیشہ پیش نظر رہنی چاہیے کہ جو حقیقتیں ان میں مضمر ہوتی ہیں ، وہ اگر لوگوں کے دل و دماغ میں زندہ نہ رہیں تو ان شعائر کی حیثیت روح کے بغیر ایک قالب سے زیادہ کی نہیں رہتی ۔ اسی طرح یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ تمام شعائر اللہ اور رسول کے مقرر کردہ ہیں اور ان کی تعظیم کے حدود بھی اللہ و رسول نے ہمیشہ کے لیے طے کردیے ہیں۔ لہٰذا اب کوئی شخص نہ اپنی طرف سے ان میں کوئی اضافہ کرسکتا ہے اور نہ ان کی تعظیم کے حدود میں کسی نوعیت کی کوئی تبدیلی کرسکتا ہے۔ اس طرح کی ہر چیز ایک بدعت ہوگی جس کے لیے دین میں ہرگز کوئی گنجایش نہیں ہے ۔ یہ اس لیے فرمایا ہے کہ یہود نے جب صفا ومروہ کا تعلق سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) سے کاٹ دینے کی کوشش کی تو اس کے ساتھ یہ بات بھی لازماًکہی ہوگی کہ ان پہاڑیوں کے درمیان سعی محض ایک مشرکانہ بدعت ہے ، دین ابراہیمی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ قرآن نے یہ اسی کی تردید میں واضح کیا ہے کہ ان کا طواف کرلینے میں ہرگز کوئی حرج نہیں ہے ، بلکہ یہ ایک مشروع عبادت ہے اور اس لیے یقیناً نیکی اور خیر کا کام ہے جو اگر شوق سے کیا جائے تو اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے گا ۔ اِس سے مرادہ وہ سعی ہے جو ان پہاڑیوں کے درمیان کی جاتی ہے۔ اسے طواف کے لفظ سے اس لیے تعبیر کیا ہے کہ اس کی صورت ، اگر غور کیجیے تو طواف سے کچھ ملتی جلتی ہوتی ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ سعی صرف حج وعمرہ کے موقع پر کی جاسکتی ہے اور اس موقع پر بھی یہ ایک نفل عبادت ہے جو اگر کی جائے تو باعث اجر ہوگی ۔ یہ حج وعمرہ کے لازمی مناسک میں سے نہیں ہے۔ اصل میں لفظ ’ شَاکِرٌ ‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ عربی زبان کے ان الفاظ میں سے ہے جن کے معنی نسبت کی تبدیلی سے بدل جاتے ہیں۔ نسبت اگر بندے کی طرف ہو تو اس کے معنی شکرگزاری کے ہوتے ہیں اور اللہ کی طرف ہو تو اس کے معنی قبول کرنے کے ہوجاتے ہیں۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 159


اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکۡتُمُوۡنَ مَاۤ اَنۡزَلۡنَا مِنَ الۡبَیِّنٰتِ وَ الۡہُدٰی مِنۡۢ بَعۡدِ مَا بَیَّنّٰہُ لِلنَّاسِ فِی الۡکِتٰبِ ۙ اُولٰٓئِکَ یَلۡعَنُہُمُ اللّٰہُ وَ یَلۡعَنُہُمُ اللّٰعِنُوۡنَ ﴿۱۵۹﴾ۙ
یعنی وہ حقائق جو اللہ تعالیٰ نے آخری پیغمبر کی بعثت سے متعلق پرانے صحیفوں میں نازل کیے اور جو ہدایت بالخصوص ان کے باب میں بھیجی تھی ۔ یعنی توراۃ میں۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 160


اِلَّا الَّذِیۡنَ تَابُوۡا وَ اَصۡلَحُوۡا وَ بَیَّنُوۡا فَاُولٰٓئِکَ اَتُوۡبُ عَلَیۡہِمۡ ۚ وَ اَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ ﴿۱۶۰﴾
اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ توبہ اس وقت تک معتبر نہیں ہے ، جب تک آدمی اس غلطی کی اصلاح نہ کرلے جس کا ارتکاب اس نے کیا ہے ۔ یعنی آخری نبی کے بارے میں توراۃ کے جو حقائق یہود نے چھپائے ہیں ، انھیں ظاہر کردیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے تک کم سے کم یہود کے علما و خواص ان تحریفات سے بیخبر نہیں تھے جو رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی بعثت سے متعلق توراۃ اور دوسرے صحیفوں میں کی گئی تھیں ۔ اصل میں ’ اَتُوْبُ عَلَیْھِمْ ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’ اَتُوْبُ ‘ کے ساتھ ’ عَلٰی ‘ کا صلہ دلیل ہے کہ اس میں ’ اقبل ‘ کا مفہوم متضمن ہے جو رحمت کی تعبیر ہے۔ آگے ’ اَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ ‘ کہہ کر قرآن نے اسے واضح کردیا ہے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 161


اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ مَاتُوۡا وَ ہُمۡ کُفَّارٌ اُولٰٓئِکَ عَلَیۡہِمۡ لَعۡنَۃُ اللّٰہِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ وَ النَّاسِ اَجۡمَعِیۡنَ ﴿۱۶۱﴾ۙ
مطلب یہ ہے کہ اپنی ضد پر اڑے رہے ، نہ توبہ و اصلاح کی توفیق ہوئی اور نہ حق کے اعلان و اظہار کی ۔ اس سے محروم ہی دنیا سے اٹھ گئے ۔ یہ اس اجمال کو واضح کردیا ہے جو اوپر ’ یَلْعَنُھُمُ اللّٰعِنُوْنَ ‘ کے الفاظ میں موجود تھا
 
Top