ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لِمَ تَلۡبِسُوۡنَ الۡحَقَّ بِالۡبَاطِلِ وَ تَکۡتُمُوۡنَ الۡحَقَّ وَ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿٪۷۱﴾ یہ تکرار اظہار حسرت و ملامت کے لیے ہے کہ افسوس، تم اہل کتاب ہو کر لوگوں کو اس طرح گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہو. یہ اشارہ ہے ان تحریفات کی طرف جو ان لوگوں نے بیت الحرام سے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے تعلق کی روایات اور رسول اللہ (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) کے بارے میں اپنے نبیوں کی پیشین گوئیوں میں کی تھیں۔ آیت میں ’
وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
‘ کے الفاظ سے واضح ہے کہ نزول قرآن کے زمانے میں یہود کے علما ان تحریفات سے پوری طرح واقف تھے۔
وَ قَالَتۡ طَّآئِفَۃٌ مِّنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ اٰمِنُوۡا بِالَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ عَلَی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَجۡہَ النَّہَارِ وَ اکۡفُرُوۡۤا اٰخِرَہٗ لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ ﴿ۚۖ۷۲﴾ یہ انھی چالوں میں سے ایک چال ہے جو یہود نے اپنے اس منصوبے کے تحت رسول اللہ (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) کی دعوت کے مقابلے میں چلیں کہ آپ کے ساتھی بن کر آپ کو اور آپ کی دعوت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے۔ استاذ امام اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں : ”۔۔ ان میں سے ایک چال یہ بھی تھی کہ ان کے لیڈروں نے اپنے کچھ آدمیوں کو اس بات کے لیے تیار کیا کہ وہ پہلے اپنے ایمان و اسلام کا اظہار و اعلان کر کے مسلمانوں کے اندر شامل ہوں ، پھر اسلام کی کچھ خرابیوں کا اظہار کر کے اس سے علیحدگی اختیار کرلیا کریں۔ اس کا فائدہ انھوں نے ایک تو یہ سوچا ہوگا کہ اس طرح بہت سے جدید العہد مسلمانوں کا اعتماد اسلام پر سے متزلزل ہوجائے گا، وہ یہ سوچنے لگیں گے کہ فی الواقع اسلام میں کوئی خرابی ہے جس کے سبب سے یہ پڑھے لکھے لوگ اسلام کے قریب آکر اس سے بدک جاتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اس تدبیر سے وہ خود اپنی قوم کے عوام کو اسلام کے اثر سے بچا لے جائیں گے، جب وہ یہ دیکھیں گے کہ ان کی اپنی قوم کے کچھ پڑھے لکھے لوگ اسلام کو آزما کر چھوڑ چکے ہیں تو ان کی وہ رغبت کمزور ہوجائے گی جو اسلام اور مسلمانوں کی کشش کے سبب سے ان کے اندر اسلام میں داخل ہونے کے لیے پیدا ہوتی تھی۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ١١٩)
وَ لَا تُؤۡمِنُوۡۤا اِلَّا لِمَنۡ تَبِعَ دِیۡنَکُمۡ ؕ قُلۡ اِنَّ الۡہُدٰی ہُدَی اللّٰہِ ۙ اَنۡ یُّؤۡتٰۤی اَحَدٌ مِّثۡلَ مَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ اَوۡ یُحَآجُّوۡکُمۡ عِنۡدَ رَبِّکُمۡ ؕ قُلۡ اِنَّ الۡفَضۡلَ بِیَدِ اللّٰہِ ۚ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿ۚۙ۷۳﴾ یہ ٹکڑا سلسلہ کلام کا جزو نہیں ہے، بلکہ جملہ معترضہ ہے جس سے ایک غلط بات کی برسر موقع تردید فرمادی گئی ہے۔ اصل سلسلہ کلام اس طرح ہے : ’
وَلَا تُؤْمِنُوْٓا اِلَّا لِمَنْ تَبِعَ دِیْنَکُمْ اَنْ یُّؤْتٰٓی اَحَدٌ
‘ اور ’
اَنْ
‘ سے پہلے ’
مخافۃ
‘ یا اس کے ہم معنی کوئی لفظ عربیت کے اسلوب پر حذف ہوگیا ہے۔ یہود جن لوگوں کو اپنے منصوبے کے مطابق ایمان لانے کے لیے بھیجتے تھے، انھیں بڑی شد و مد کے ساتھ یہ تاکید بھی کردیتے تھے کہ بنی اسرائیل سے باہر وہ کسی پیغمبر کی تصدیق نہ کریں۔ ان کی تمام ضلالت چونکہ اسی ایک بات پر مبنی تھی، اس لیے قرآن نے برسر موقع انھیں ٹوک دیا ہے کہ تعصب کا یہ کیسا جنون ہے جس میں یہ لوگ مبتلا ہیں۔ ان سے کہہ دو کہ اصل ہدایت تو اللہ کی ہدایت ہے، خواہ وہ کسی اسرائیلی پیغمبر سے ملے یا اسماعیلی سے۔ ہر شخص کو اسی کا طالب ہونا چاہیے۔ نجات اگر حاصل ہوگی تو اسی سے ہوگی۔ اس کا ذریعہ یہودیت یا نصرانیت نہیں ہے ۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ مذہبی قیادت کا جو منصب اس وقت تمہیں حاصل ہے، وہ کسی دوسرے کو بھی حاصل ہوجائے۔ اس سے اشارہ بنی اسماعیل کی طرف ہے جن کے اندر رسول اللہ (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) کی بعثت ہوئی تھی۔ قرآن نے اسے مبہم اس لیے رکھا ہے کہ یہودیہ بات زبان سے نہیں کہتے تھے۔ یہ ان کے اس احمقانہ اندیشے کی طرف اشارہ ہے کہ اگر آج رسول اللہ (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) کے حق میں کوئی بات ان کے کسی آدمی کی زبان سے نکل گئی تو مسلمان اسے قیامت کے دن ان کے خلاف حجت بنائیں گے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے فیصلے تمہارے فیصلوں کی طرح تعصبات پر مبنی نہیں ہوتے کہ ان میں کسی اور کے لیے گنجایش ہی نہ رہے۔ وہ بڑی وسعت اور بڑے علم والا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ کون کس چیز کا مستحق ہے اور کون مستحق نہیں ہے۔
یَّخۡتَصُّ بِرَحۡمَتِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ ﴿۷۴﴾ اس جملے میں جن دو باتوں کی طرف اشارہ ہے ، ان کی وضاحت استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس طرح فرمائی ہے : ”۔۔ ایک تو اس بات کی طرف کہ خاتم النبیین (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) کی رسالت ایک عظیم اور بے پایاں برکت ورحمت ہے۔ دوسری اس بات کی طرف کہ یہ بنی اسماعیل پر اللہ تعالیٰ کا عظیم انعام ہے کہ اس نے ان کے خاندان کو اس عظیم اور عالم گیر برکت کے ظہور کے لیے منتخب فرمایا۔ اس سے لازمی نتیجہ کے طور پر دو باتیں نکلتی ہیں : ایک یہ کہ بنی اسماعیل پر یہ حق ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس عظیم انعام کی قدر کریں اور اس کے شکرگزار ہوں۔ دوسری یہ کہ بنی اسرائیل کے غصہ اور حسد کے علی الرغم اللہ تعالیٰ نے اپنی اس عظیم برکت سے امیوں کو نوازا۔ وہ جس کو چاہے اپنی رحمت کے لیے خاص کرے، اس کی مشیت میں خود اس کی حکمت کے سوا اور کسی کو بھی دخل نہیں ہے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ١٢٢)
وَ مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ مَنۡ اِنۡ تَاۡمَنۡہُ بِقِنۡطَارٍ یُّؤَدِّہٖۤ اِلَیۡکَ ۚ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ اِنۡ تَاۡمَنۡہُ بِدِیۡنَارٍ لَّا یُؤَدِّہٖۤ اِلَیۡکَ اِلَّا مَادُمۡتَ عَلَیۡہِ قَآئِمًا ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَالُوۡا لَیۡسَ عَلَیۡنَا فِی الۡاُمِّیّٖنَ سَبِیۡلٌ ۚ وَ یَقُوۡلُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۷۵﴾ یعنی وہ پیشین گوئیاں پوری دیانت داری کے ساتھ بیان کردیں گے جو نبی (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) کی بعثت کے متعلق ان کے پیغمبروں نے کی تھیں اور جن کے وہ امین بنائے گئے تھے۔ یہ قرآن نے دین و شریعت کے معاملے میں ان کی خیانت کا سبب بیان کیا ہے کہ جو لوگ دنیا کی اس متاع حقیر کو ادا کرنے میں لیت ولعل کرتے ہیں ، وہ اتنی بڑی امانت کس طرح ادا کریں گے اور دنیا کے سامنے نبی امی کی صداقت کی گواہی کس طرح دیں گے ؟ تاہم یہ بات بھی قرآن نے اس کے ساتھ واضح کردی ہے کہ ان میں سے جو لوگ امانت دار ہیں، وہ اس معاملے میں پیچھے نہیں رہیں گے اور جلد یا بدیر آپ کی تصدیق کرکے اسلام کی نعمت سے بہرہ ورہوجائیں گے۔ یہود کا نظریہ تھا کہ توراۃ میں دوسروں کا مال باطل طریقوں سے کھانے کی جو ممانعت بیان ہوئی ہے، اس کا تعلق غیر قوموں سے نہیں ہے۔ بنی اسماعیل کو وہ امی کہتے اور انھی قوموں میں شامل سمجھتے تھے۔ چنانچہ ان کے بارے میں بھی ان کے مولویوں کا فتویٰ یہی تھا کہ ان کا مال ہڑپ کر جانا کوئی عیب کی بات نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں اس کی اجازت دے رکھی ہے۔
بَلٰی مَنۡ اَوۡفٰی بِعَہۡدِہٖ وَ اتَّقٰی فَاِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۷۶﴾ یعنی کیوں الزام نہیں ہے ؟ اللہ کا قانون سب کے لیے یکساں ہے۔ بدعہدی اور خیانت جس کے ساتھ بھی کی جائے، ہر حال میں ممنوع ہے۔ اللہ نے اس کی اجازت کبھی کسی شخص یا قوم کو نہیں دی ہے۔ اِس جملے میں جو اب شرط حذف ہے جسے ہم نے کھول دیا ہے۔ یہود کی جو باتیں اوپر نقل ہوئی ہیں، یہ ان پر استدراک ہے۔ استاذ امام اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں : ”۔۔ مطلب یہ ہے کہ یہود کا یہ خیال بالکل غلط ہے کہ ان کے لیے خدا کے ہاں کوئی خاص مرتبہ و مقام ہے جس کے سبب سے وہ دوسروں سے بالاتر اور امیوں کے معاملے میں ذمہ داریوں سے بری ہیں۔ اصل یہ ہے کہ اللہ کے ہاں جو مرتبہ و مقام بھی ہے ، وہ ان لوگوں کے لیے ہے جو خدا سے باندھے ہوئے عہد کو پورا کریں اور ہر طرح کے حالات میں اس عہد کے تحت قائم کردہ حدود کی نگہداشت کریں ۔جن لوگوں کی روش یہ ہوگی ، وہ اللہ کے نزدیک متقی ہیں اور اللہ ایسے ہی متقی بندوں کو دوست رکھتا ہے۔ جو لوگ خدا کے عہد اور اس کے حدود کو توڑنے میں بےباک ہیں اور اس کے باوجود تقویٰ اور محبوب الٰہی ہونے کے مدعی ہیں ، وہ محض خیالی پلاؤ پکار ہے ہیں۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ١٢٤)
اِنَّ الَّذِیۡنَ یَشۡتَرُوۡنَ بِعَہۡدِ اللّٰہِ وَ اَیۡمَانِہِمۡ ثَمَنًا قَلِیۡلًا اُولٰٓئِکَ لَا خَلَاقَ لَہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ وَ لَا یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ وَ لَا یَنۡظُرُ اِلَیۡہِمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ وَ لَا یُزَکِّیۡہِمۡ ۪ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۷۷﴾ اس سے مراد وہ عہد ہے جو اللہ کی شریعت اور آخری بعثت سے متعلق یہود سے لیا گیا تھا۔ یعنی وہ قسمیں جو انھوں نے اللہ کے نبیوں ، بالخصوص نبی امی پر ایمان اور ان کی تائید و نصرت کا عہد کرتے وقت کھائی تھیں۔ آیت ٨١ میں ان کے اس عہد اور ان قسموں کا ذکر آئے گا۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے جرائم ایسے نہیں ہیں کہ تھوڑی بہت سزا دے کر اللہ انھیں پاک کر دے ، بلکہ ایسے سخت ہیں کہ ان کی سزا ہمیشہ کی دوزخ ہی ہوسکتی ہے۔ آیت کے الفاظ میں یہود کے لیے کتنی نفرت اور کیسی شدید بےزاری چھپی ہوئی ہے، اس کا اندازہ ہر وہ شخص کرسکتا ہے جو الفاظ کے تیور کچھ پہچانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو حیثیت انھیں دی اور اس کے لحاظ سے جو معاملہ ان کے ساتھ کیا ، اس کے بعد وہ اسی کے سزاوار تھے۔ سورة بقرہ میں اس کی تفصیلات بیان ہوئی ہیں۔ اِنھیں دیکھنے کے بعد کسی شخص کو اس پر تعجب نہیں ہوسکتا۔
وَ اِنَّ مِنۡہُمۡ لَفَرِیۡقًا یَّلۡوٗنَ اَلۡسِنَتَہُمۡ بِالۡکِتٰبِ لِتَحۡسَبُوۡہُ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ مَا ہُوَ مِنَ الۡکِتٰبِ ۚ وَ یَقُوۡلُوۡنَ ہُوَ مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ وَ مَا ہُوَ مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ۚ وَ یَقُوۡلُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۷۸﴾ یہ ان تدبیروں میں سے ایک تدبیر کا ذکر ہے جو اہل کتاب نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے عہد کی ذمہ داریوں سے بچنے کے لیے اختیار کر رکھی تھیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں :”۔۔ اس جرم کا ارتکاب یہود اور نصاریٰ ، دونوں ہی نے کیا ہے۔ اس کی مثال میں ہم نے لفظ ” مروہ “ کا ذکر کیا ہے۔ یہ لفظ توراۃ میں حضرت ابراہیم کی سرگزشت کے سلسلے میں آیا ہے کہ اس مقام پر ان کو بیٹے کی قربانی کا حکم ہوا ۔ یہود نے اس قربانی کے واقعے میں جہاں کمی اور بیشی کی نوعیت کی بہت سی تبدیلیاں کی ہیں، وہیں لفظ مروہ کی قراءت کو بگاڑ کر مریا، موریا، موریاہ، مورہ اور نہ جانے کیا کیا بنایا تاکہ مکہ کی مشہور پہاڑی مروہ کے بجائے اس سے بیت المقدس کے کسی مقام کو مراد لے سکیں اور اس طرح حضرت ابراہیم اور ان کی ہجرت و قربانی کے واقعہ کا تعلق بیت اللہ سے بالکل کاٹ دیں۔ مقصد اس ساری کاوش سے ان کا یہ تھا کہ اس ایر پھیر سے ان پیشین گوئیوں اور اشارات کا رخ موڑا جاسکے جو بنی اسماعیل اور ان کے اندر نبی آخر الزمان (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) سے متعلق توراۃ کے صحیفوں میں وارد تھیں۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ١٢٨)
مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنۡ یُّؤۡتِیَہُ اللّٰہُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحُکۡمَ وَ النُّبُوَّۃَ ثُمَّ یَقُوۡلَ لِلنَّاسِ کُوۡنُوۡا عِبَادًا لِّیۡ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَ لٰکِنۡ کُوۡنُوۡا رَبّٰنِیّٖنَ بِمَا کُنۡتُمۡ تُعَلِّمُوۡنَ الۡکِتٰبَ وَ بِمَا کُنۡتُمۡ تَدۡرُسُوۡنَ ﴿ۙ۷۹﴾ اصل میں لفظ ’
رَبّٰنِیّٖنَ
‘ آیا ہے۔ یہ ’ ربانی ‘ کی جمع ہے جس کے معنی خدا پرست اور اللہ والے کے ہیں۔ عربی زبان میں یہ لفظ عبرانی سے آیا ہوا معلوم ہوتا ہے۔
وَ لَا یَاۡمُرَکُمۡ اَنۡ تَتَّخِذُوا الۡمَلٰٓئِکَۃَ وَ النَّبِیّٖنَ اَرۡبَابًا ؕ اَیَاۡمُرُکُمۡ بِالۡکُفۡرِ بَعۡدَ اِذۡ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ ﴿٪۸۰﴾ یہ اب عقل سلیم کو مخاطب کر کے قرآن نے اپنے تمام مخاطبین یہود و نصاریٰ ، بلکہ قریش مکہ کو بھی توجہ دلائی ہے کہ جن توہمات کو وہ اپنے عقائد بنائے ہوئے ہیں، ان کی نسبت ان کے جلیل القدر پیغمبروں سے ہرگز درست نہیں ہے۔ اللہ کا کوئی پیغمبر بھی ایمان و اسلام کی دعوت دینے کے بعد اپنے پیرؤوں کو کفر و شرک میں جھونک دینے کی کوشش نہیں کرسکتا ۔ اس طرح کی کوئی چیز جہاں نظر آئے ، سمجھ لینا چاہیے کہ یہ گمراہ کن لوگوں کی تحریفات کا نتیجہ ہے۔ اسے کسی پیغمبر کی دعوت قرار نہیں دیا جاسکتا۔