ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
وَ یُعَلِّمُہُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ ﴿ۚ۴۸﴾ اس سے توراۃ و انجیل کا باہمی تعلق بھی قرآن نے بتادیا ہے اور یہ بات بھی واضح کردی ہے کہ انجیل ایمان و اخلاق کے انھی حقائق کو بےنقاب کرنے کے لیے نازل کی گئی تھی جنھیں بنی اسرائیل فراموش کر بیٹھے تھے۔ اس سے مقصود توراۃ کے احکام میں کوئی تغیر وتبدل کرنا نہیں تھا، بلکہ انھی کو پورا کرنا تھا تاکہ ان کی روح اور ان کی حکمت ہر لحاظ سے نمایاں ہو اور خدا کی شریعت لوگوں کے لیے زندگی سے خالی محض ایک بوجھ بن کر نہ رہ جائے۔
وَ رَسُوۡلًا اِلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ۬ۙ اَنِّیۡ قَدۡ جِئۡتُکُمۡ بِاٰیَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ۙ اَنِّیۡۤ اَخۡلُقُ لَکُمۡ مِّنَ الطِّیۡنِ کَہَیۡـَٔۃِ الطَّیۡرِ فَاَنۡفُخُ فِیۡہِ فَیَکُوۡنُ طَیۡرًۢا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ۚ وَ اُبۡرِیٴُالۡاَکۡمَہَ وَ الۡاَبۡرَصَ وَ اُحۡیِ الۡمَوۡتٰی بِاِذۡنِ اللّٰہِ ۚ وَ اُنَبِّئُکُمۡ بِمَا تَاۡکُلُوۡنَ وَ مَا تَدَّخِرُوۡنَ ۙ فِیۡ بُیُوۡتِکُمۡ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿ۚ۴۹﴾ اصل میں ’
رَسُوْلًا اِلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ
‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان سے پہلے ایک فعل محذوف ہے، یعنی ’
یَبْعَثُہُ رَسُوْلًا
‘۔ سیدنا مسیح (علیہ السلام) حضرت یحییٰ کی طرح صرف ایک نبی نہیں تھے، بلکہ اس کے ساتھ رسالت کے منصب پر بھی فائز تھے۔ آیت سے واضح ہے کہ ان کی رسالت بنی اسر ائیل کے لیے خاص تھی اور اس کے ماننے یا جھٹلانے کے نتائج بھی دنیا میں انھی کو بھگتنا تھے۔ چنانچہ ان پر ایمان لانے کے بجائے بنی اسرائیل جب ان کے قتل کے درپے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے رسولوں سے متعلق اپنے قانون کے مطابق ان کے اس جرم کی یہ سزا ان پر نافذ کردی کہ اب وہ قیامت تک کے لیے مسیح (علیہ السلام) کے ماننے والوں کے محکوم بن کر دنیا میں رہیں گے۔سیدنا مسیح (علیہ السلام) کی سرگزشت کا ایک بڑا حصہ اپنے اسلوب کے مطابق حذف کرکے یہ قرآن نے گویا انھیں ایک داعی کی حیثیت سے بنی اسر ائیل کے سامنے کھڑا کردیا ہے کہ انھوں نے اس طریقے سے اپنی دعوت انھیں پیش کی اور اس کے لیے یہ معجزات انھیں دکھائے۔ اصل میں ’
جِءْتُکُمْ بِاٰیَۃٍ
‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ لفظ ’
اٰیَۃ
‘ کی تنکیر ان میں وحدت کے لیے نہیں، بلکہ تعمیم کے لیے ہے۔ یعنی میں اپنے پروردگار کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں۔ اس سے قطع نظر کہ وہ ایک ہی صورت میں سامنے آئے یا ایک سے زیادہ صورتوں میں۔
وَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوۡرٰىۃِ وَ لِاُحِلَّ لَکُمۡ بَعۡضَ الَّذِیۡ حُرِّمَ عَلَیۡکُمۡ وَ جِئۡتُکُمۡ بِاٰیَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ۟ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوۡنِ ﴿۵۰﴾ اصل الفاظ ہیں : ’
مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰۃِ
‘۔ ان میں ’
مُصَدِّقًا
‘ حال ہے جو ’
اَنِّیْ قَدْ جِءْتُکُمْ بِاٰیَۃٍ
‘ کے جملے پر آیا ہے اور محض مشابہت کی وجہ سے پچھلے جملے پر عطف ہوگیا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ میں توراۃ کی تردید کرنے نہیں، بلکہ اسی کو قائم کرنے اور اس کی ان پیشین گوئیوں کو سچا کردینے کے لیے آیا ہوں جو آنے والے نبیوں کے بارے میں تم اس میں پڑھتے رہے ہو۔ یعنی تمہارے علما کے غلو اور اس کے نتیجے میں ان کی طرف سے صادر ہونے والے من گھڑت فتو وں کی وجہ سے حرام کردی گئی ہیں۔
اِنَّ اللّٰہَ رَبِّیۡ وَ رَبُّکُمۡ فَاعۡبُدُوۡہُ ؕ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِیۡمٌ ﴿۵۱﴾ انجیل میں اللہ تعالیٰ کے لیے میرا باپ اور تمہارا باپ کی جو تعبیر جگہ جگہ آئی ہے ، یہ قرآن نے اس کی تصحیح کردی ہے کہ سیدنا مسیح نے جو بات فرمائی تھی، وہ درحقیقت یہ تھی ، لیکن عبرانی زبان میں ’
اب
‘ اور ’
ابن
‘ کے الفاظ چونکہ باپ اور بیٹے اور رب اور بندے کے معنی میں مشترک تھے، اس لیے نصاریٰ نے سیدنا مسیح کی الوہیت کا عقیدہ ایجاد کیا تو اس اشتراک سے فائدہ اٹھاکر انھیں یہ صورت دے دی۔
فَلَمَّاۤ اَحَسَّ عِیۡسٰی مِنۡہُمُ الۡکُفۡرَ قَالَ مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ قَالَ الۡحَوَارِیُّوۡنَ نَحۡنُ اَنۡصَارُ اللّٰہِ ۚ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ ۚ وَ اشۡہَدۡ بِاَنَّا مُسۡلِمُوۡنَ ﴿۵۲﴾ یہ لفظ غالباً عبرانی سے عربی زبان میں آیا ہے۔ اس کے معنی قریب قریب وہی ہیں جو ہمارے ہاں لفظ انصار کے ہیں، یعنی حامی ، ناصر اور مددگار۔ یہاں یہ سیدنا مسیح (علیہ السلام) کے ان خاص شاگردوں کے لیے استعمال ہوا ہے جو آپ پر ایمان لائے، ہر قسم کے سرد و گرم حالات میں آپ کی مدد کی اور بالآخر آپ کی دعوت کے نقیب بن کر بنی اسرائیل کی ایک ایک بستی میں پہنچ گئے۔یعنی مسیح (علیہ السلام) نے جب بنی اسرائیل کے علما اور سرداروں کے رویے سے یہ محسوس کرلیا کہ ان پتھروں میں جونک لگانا ممکن نہیں ہے اور اب یہ انکار کا فیصلہ کرچکے ہیں تو اپنے ساتھیوں سے مدد چاہی کہ اللہ تعالیٰ آگے کے مراحل میں جو ذمہ داری بھی انھیں دیں، اس کو پورا کرنے میں وہ ان کے مددگار بن کر کھڑے ہوں۔ اس کے لیے جو جملہ ان کی زبان سے نکلا ہے، اس سے ، اگر غور کیجیے تو استاذ امام کے الفاظ میں جس طرح جوش دعوت کا اظہار ہورہا ہے ، اسی طرح یہ بات بھی نمایاں ہو رہی ہے کہ اس دعوت کے ساتھ وہ گویا یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ میں تو اپنے رب کی راہ پر ، یہ دیکھو، چل کھڑا ہوا ہوں ۔ اب جس کے اندر حوصلہ ہو، وہ اس وادی پر خار میں میرا ساتھ دے۔ اصل الفاظ ہیں : ’
نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ
‘۔ سیدنا مسیح (علیہ السلام) کی طرف سے ’
مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ ‘
کی دعوت کے جواب میں ’
نحن انصارک الی اللّٰ
ہ ‘ کہنے کے بجائے یہ الفاظ جس مدعا پر دلالت کرتے ہیں، استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے :”۔۔ سیدنا مسیح کے ارشاد میں ’
اِلٰی
‘ اس مسافت کو واضح کررہا ہے جو راہ اور منزل کے درمیان واقع ہے اور ایک داعی کی حیثیت سے ان کے شایان شان یہی تھا کہ اس راہ کی مشکلات اور درمیان کی مسافت سے آگاہ کردیں ، لیکن حواریین نے اپنے جواب میں جوش فدویت کی ایک ہی جست میں گویا ساری مسافت طے کرلی ہے اور دعوت حق کے اس نازک مرحلے میں ان کے جذبہ ایمان واسلام کے شایان شان بات یہی تھی۔ “ (تدبر قرآن ٢ / ٩٩) اِس سے آگے ان تضمنات کی تفصیل ہے جو ’
مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ
‘ کے اجمال میں چھپے ہوئے تھے۔ اس سے واضح ہے کہ حواری اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ اللہ کے انصار ہونے سے کیا مراد ہے اور آدمی کو اس کے لیے کیا کچھ کرنا چاہیے۔
رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا بِمَاۤ اَنۡزَلۡتَ وَ اتَّبَعۡنَا الرَّسُوۡلَ فَاکۡتُبۡنَا مَعَ الشّٰہِدِیۡنَ ﴿۵۳﴾ مطلب یہ ہے کہ یہ حق ہم پر واضح ہوا ہے تواب ہم اس کے چھپانے والے نہیں، بلکہ دوسروں کے لیے اس کی گواہی دینے والے بن کر رہیں گے۔ لہٰذا قیامت کے دن ہمارا نام انھی لوگوں میں لکھا جائے، حق کو چھپانے والوں میں نہ لکھا جائے۔
وَ مَکَرُوۡا وَ مَکَرَ اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الۡمٰکِرِیۡنَ ﴿٪۵۴﴾ یہ تدبیریں کیا تھیں ؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے ان کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے : ” ایک تو انھوں نے آپ پر اور آپ کے ساتھیوں پر اسلاف کی روایات توڑنے اور بزرگوں کی توہین و تحقیر کا الزام لگایا تاکہ عوام کے جذبات ان کے خلاف بھڑکائے جاسکیں ۔ دوسرا جال انھوں نے یہ بچھایا کہ اپنے مخصوص آدمی بھیج بھیج کر ان سے ایسے سوالات کیے جن کے جوابوں سے ان کے خلاف کفرو ارتداد کے فتوے کا مواد فراہم ہو سکے۔ یہ کام یہود کے فقیہوں اور فریسیوں نے بڑی سرگرمی سے انجام دیا اور سیدنا مسیح کی تمثیلوں اور تشبیہوں کے اندر سے انھوں نے اپنی دانست میں وہ مواد فراہم کرلیا جس کی بنیاد پر ان کے واجب القتل ہونے کا فتویٰ دیا جاسکے ۔ تیسرا یہ کہ اس زمانے میں چونکہ ملک پر سیاسی اقتدار رومیوں کا تھا ، اس وجہ سے ان کو بھڑکانے کے لیے مواد فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ۔ پہلے تو خراج کی ادائیگی سے متعلق سیدنا مسیح (علیہ السلام) سے سوالات کیے گئے جن سے یہ ثابت ہو سکے کہ یہ شخص لوگوں کو قیصر کو خراج دینے سے روکتا ہے۔ لیکن اس قسم کے سوالوں کے جواب سیدنا مسیح نے ایسے دندان شکن دیے کہ علماے یہود اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ پھر انھوں نے یہ الزام لگایا کہ یہ شخص اسرائیل کا بادشاہ ہونے کا مدعی ہے۔ اس کے لیے حضرت مسیح کے بعض تمثیلی اقوال سے مواد حاصل کرنے اور اس کے ذریعے سے رومی حکومت کو بھڑکانے کی کوشش کی گئی۔ چوتھی تدبیر یہ کی گئی کہ سیدنا مسیح کے بارہ شاگردوں میں سے ایک شاگرد یہودا کو ، جو منافق تھا ، یہود نے رشوت دے کر اس بات پر راضی کرلیا کہ وہ آنحضرت کی مخبری کرے اور ان کو گرفتار کرائے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ١٠٢) اِس کی صورت غالباً یہ ہوئی کہ جس شخص نے کوہ زیتون کی خلوت گاہ میں مسیح (علیہ السلام) کی مخبری کی تھی ، اس کی صورت انھی کی ہوگئی ۔ چنانچہ یہود نے اسی کو صلیب دی اور اس کی توہین کرتے رہے۔ آپ کو ہاتھ لگانا بھی ان کے لیے ممکن نہیں ہوا۔
اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ جَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرۡجِعُکُمۡ فَاَحۡکُمُ بَیۡنَکُمۡ فِیۡمَا کُنۡتُمۡ فِیۡہِ تَخۡتَلِفُوۡنَ ﴿۵۵﴾ یعنی روح قبض کر کے تیرا جسم بھی اپنی طرف اٹھالوں گا تاکہ یہ ظالم اس کی توہین نہ کرسکیں۔ مسیح (علیہ السلام) اللہ کے رسول تھے اور رسولوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ قانون قرآن میں بیان ہوا ہے کہ اللہ ان کی حفاظت کرتا ہے اور جب تک ان کا مشن پورا نہ ہوجائے ، ان کے دشمن ہرگز ان کو کوئی نقصان پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ اسی طرح ان کی توہین و تذلیل بھی اللہ تعالیٰ گوارا نہیں کرتے اور جو لوگ اس کے درپے ہوں ، انھیں ایک خاص حد تک مہلت دینے کے بعد اپنے رسولوں کو لازماً ان کی دستبرد سے محفوظ کردیتے ہیں۔ یعنی علم و عقل اور سیرت و کردار کی نجاست میں مبتلا ان لوگوں سے الگ کر کے تمہیں صالحین و ابرار کی اس دنیا میں لے جاؤں گا جو انھی کے لیے تیار کی گئی ہے. اِس سے مراد سیدنا مسیح (علیہ السلام) کے عام متبعین اور نام لیوا ہیں جو پہلے نصاریٰ اور اب مسیحی کہلاتے ہیں۔ یہ موقع بشارت کا ہے جس کا تقاضا یہی ہے کہ اس میں وسعت ہو۔ پھر ’
الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ
‘ کے الفاظ یہاں ’
الَّذِیْنَ کَفَرُوْا
‘ کے مقابل میں آئے ہیں ، لہٰذا ان سے مراد منتسبین مسیح ہی ہوسکتے ہیں نہ کہ وہ لوگ جو آپ کے سچے پیرو اور آپ کی ہدایت پر مخلصانہ عمل کرنے والے ہوں۔ یہ بنی اسرائیل کے لیے خدائی دینونت کا ظہور ہے جسے گزشتہ دو ہزار سال سے ہر شخص بچشم سر دیکھ سکتا ہے۔ اس غیر معمولی طور پر حیرت انگیز پیشین گوئی کو دنیا کا کوئی تغیر ، زمانے کی کوئی گردش اور وقت کی کوئی کروٹ کبھی ایک لمحے کے لیے بھی باطل نہیں کرسکی ۔ خدا اور اس کی عدالت کا یہ ایسا صریح ثبوت ہے جو ہر وقت ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ اس کے بعد وہ کیا چیز ہے جو قیامت کے بارے میں قرآن کی وعید کو جھٹلا سکتی ہے ؟
فَاَمَّا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فَاُعَذِّبُہُمۡ عَذَابًا شَدِیۡدًا فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ۫ وَ مَا لَہُمۡ مِّنۡ نّٰصِرِیۡنَ ﴿۵۶﴾ رسولوں کے منکروں کے لیے اللہ کا قانون یہی ہے کہ ان کی طرف سے اتمام حجت کے بعد وہ اسی دنیا میں عذاب سے دو چار ہوجاتے ہیں۔ پھر بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے شہادت کے جس منصب پر فائز کیا ہے ، اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ان کے گناہوں کی سزا انھیں دنیا میں دی جائے۔ چنانچہ قیامت تک کے لیے وہ جس طرح نصاریٰ کے محکوم بنائے گئے ہیں اور ان پر جو دل ہلا دینے والی آفتیں وقتاً فوقتاً آتی رہی ہیں، وہ سب اسی قانون کے مطابق ہیں۔