• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر البیان از جاوید احمد غامدی پارہ نمبر 3 یونیکوڈ

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
تلک الرسل : سورۃ آل عمران : آیت 27


تُوۡلِجُ الَّیۡلَ فِی النَّہَارِ وَ تُوۡلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیۡلِ ۫ وَ تُخۡرِجُ الۡحَیَّ مِنَ الۡمَیِّتِ وَ تُخۡرِجُ الۡمَیِّتَ مِنَ الۡحَیِّ ۫ وَ تَرۡزُقُ مَنۡ تَشَآءُ بِغَیۡرِ حِسَابٍ ﴿۲۷﴾
یہ اسی بات پر جو اوپر بیان ہوئی ہے، آفاق کی شہادت ہے کہ لوگ اسے کوئی دور کی چیز نہ سمجھیں ، جس طرح دن سے رات، رات سے دن، اور موت سے زندگی اور زندگی سے موت نمودار ہوتی رہتی ہے، اسی طرح قوموں کے لیے عزل و نصب، عزت وذلت اور موت وحیات کے فیصلے بھی صادر ہوتے رہتے ہیں۔ بنی اسماعیل اور بنی اسرائیل کی موت وحیات کی طرف جو اشارہ اس تمثیل میں کیا گیا ہے، اس کی وضاحت استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس طرح فرمائی ہے : ”۔۔ حضرت ابراہیم نے جو پودا فلسطین کی سرسبز و شاداب زمین میں لگایا تھا، اب وہ سوکھ چکا تھا اور جیسا کہ حضرت یحییٰ نے فرمایا، اس کی جڑ پر کلہاڑا رکھا ہوا تھا۔ اس کے برعکس انھوں نے جو پودا عرب کی خشک اور بنجر زمین میں لگایا تھا، اور جو مرجھایا ہوا پڑا تھا ، اب اس میں شگوفے نکل رہے تھے اور جیسا کہ حضرت عیسیٰ نے فرمایا : وہ ایک تناور درخت بن کر ایک عالم کو اپنے سایے کی پناہ میں لینے والا تھا۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٦٥) یعنی اتنا دیتا ہے کہ اس کی کوئی حدونہایت نہیں رہتی اور وہاں سے دیتا ہے، جہاں سے کسی کو اس کا گمان بھی نہیں ہوتا۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
تلک الرسل : سورۃ آل عمران : آیت 28


لَ ا یَتَّخِذِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الۡکٰفِرِیۡنَ اَوۡلِیَآءَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۚ وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ فَلَیۡسَ مِنَ اللّٰہِ فِیۡ شَیۡءٍ اِلَّاۤ اَنۡ تَتَّقُوۡا مِنۡہُمۡ تُقٰىۃً ؕ وَ یُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفۡسَہٗ ؕ وَ اِلَی اللّٰہِ الۡمَصِیۡرُ ﴿۲۸﴾
یہ ان مسلمانوں کے لیے تنبیہ ہے جو اپنے ایمان کے تقاضوں کو سمجھنے میں ابھی پوری طرح یکسو نہیں تھے، اور اس مرحلے پر بھی، جبکہ یہود و نصاریٰ کے لیے اللہ کا فیصلہ صادر ہونے والا تھا، نہ صرف یہ کہ ان کی طرف میلان رکھتے تھے، بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ان کی سازشوں میں ان کے آلہ کار بن جاتے تھے۔ اس میں ’ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ ‘ (مسلمانوں کو چھوڑ کر) کی قید اس لیے لگائی ہے کہ یہ دوستی اگر اسلام اور مسلمانوں کے مفاد کے خلاف نہ ہو تو اس کی ممانعت اس وقت بھی پیش نظر نہیں تھی۔ اصل میں ’ اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْہُمْ تُقٰۃً ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ جملہ ’ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْءٍ ‘ سے استثنا ہے اور اس میں ’ تُقٰۃً ‘ بالکل اسی طرح مفعول مطلق کے طور پر آیا ہے، جس طرح اسی سورة کی آیت ’ اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ ‘ (١٠٢) میں ہے۔ یہ انھی کمزور اور منافق قسم کے مسلمانوں کو تنبیہ ہے جن کا ذکر اوپر ہوا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں :”۔۔۔(اِس) میں منافقین کے لیے تنبیہ کا ایک خاص پہلو ہے۔ وہ یہ کہ اللہ کی کریمی سے دھوکے میں پڑ کے اس کی ذات کے دوسرے پہلوؤں کو نظر انداز نہ کرجاؤ۔ وہ اگر شرارتوں سے درگذر کرتا ہے، سازشوں کو نظر انداز کرتا ہے اور ریشہ دوانیوں کا فوراً نوٹس نہیں لیتا تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ یہ جرائم اس کے نزدیک جرائم نہیں یا وہ ان جرائم پر گرفت نہیں کرسکتا، بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ بندوں کو آخری حد تک مہلت دیتا ہے۔ یہ مہلت بہرحال مہلت ہے جو ایک دن ختم ہونی ہے۔ اس کے بعد اس کا عدل ظہور میں آئے گا اور یہ عدل بھی اس کی ذات ہی کا ایک پہلو ہے۔ یہ اگر ابھی ظہور میں نہیں آیا ہے تو اس سے کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ یہ ظہور میں آئے گا ہی نہیں۔ خدا کے کاموں میں دیر ہے، اندھیر نہیں۔ جب اس کی ذات کا یہ پہلو سامنے آئے گا تو ہر شخص پر کھل جائے گا کہ اس سے زیادہ زورآور، اس سے زیادہ بےلاگ اور اس سے بڑا منتقم وقہار کوئی بھی نہیں۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٦٨)
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
تلک الرسل : سورۃ آل عمران : آیت 29


قُلۡ اِنۡ تُخۡفُوۡا مَا فِیۡ صُدُوۡرِکُمۡ اَوۡ تُبۡدُوۡہُ یَعۡلَمۡہُ اللّٰہُ ؕ وَ یَعۡلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۲۹﴾
اشارہ ہے ان میلانات کی طرف جو یہ مسلمان یہود و نصاریٰ کے لیے اپنے دل میں رکھتے تھے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
تلک الرسل : سورۃ آل عمران : آیت 30


یَوۡمَ تَجِدُ کُلُّ نَفۡسٍ مَّا عَمِلَتۡ مِنۡ خَیۡرٍ مُّحۡضَرًا ۚۖۛ وَّ مَا عَمِلَتۡ مِنۡ سُوۡٓءٍ ۚۛ تَوَدُّ لَوۡ اَنَّ بَیۡنَہَا وَ بَیۡنَہٗۤ اَمَدًۢا بَعِیۡدًا ؕ وَ یُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفۡسَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ رَءُوۡفٌۢ بِالۡعِبَادِ ﴿٪۳۰﴾
اصل الفاظ ہیں : ’ مَاعَمِلَتْ مِنْ سُوْٓءٍ ‘۔ ان میں ’ مُحْضَرًا ‘ کا لفظ محذوف ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے پہلے ’ مَا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ ‘ میں یہ موجود ہے۔ چنانچہ عربیت کے اسلوب پر اس دوسرے ٹکڑے میں اسے حذف کردیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ چونکہ اپنے بندوں کے لیے بڑا مہربان ہے اور قیامت کے دن ان کو برے نتائج سے بچانا چاہتا ہے، اس لیے وہ اپنے آپ سے ان کو بار بار ہوشیار کررہا ہے کہ وہ اس کی ڈھیل سے کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوں۔ اُنھیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ جب پکڑے گا تو اس کی پکڑ بڑی سخت ہوگی، اس سے نکلنا کسی کے لیے ممکن نہ رہے گا۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
تلک الرسل : سورۃ آل عمران : آیت 31


قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۳۱﴾
یہ ان مسلمانوں کو وہ صحیح رویہ سکھایا ہے جو اللہ سے محبت کا دعویٰ رکھنے کے بعد اس کے رسول کے معاملے میں انھیں اختیار کرنا چاہیے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
تلک الرسل : سورۃ آل عمران : آیت 32


قُلۡ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ ۚ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۳۲﴾
نہایت سخت الفاظ میں یہ اس بات کا اعلان ہے کہ یہ لوگ سیدھے سیدھے اللہ اور رسول کی اطاعت کریں، ورنہ ان کو بھی انھی منکروں میں شامل سمجھا جائے گا جن سے یہ دوستی رکھتے ہیں۔ اِس میں اور اس سے پہلے کی آیت میں جو باتیں خاص طور پر ملحوظ رکھنے کی ہیں، وہ استاذ امام کے الفاظ میں یہ ہیں : ” ایک یہ کہ ان دونوں (آیتوں) کا لب و لہجہ الگ الگ ہے۔ پہلی آیت میں شفقت ہے اور دوسری میں تنبیہ، بلکہ تہدید۔ گویا درشتی ونرمی بہم دربہ است۔دوسری یہ کہ ایمان کی اصل روح اللہ کی محبت ہے اور اس محبت کے لیے یہ شرط ہے کہ اس کے ساتھ کوئی ایسی محبت جمع نہ ہونے پائے جو اس کے ضد ہو۔ تیسری یہ کہ اللہ سے محبت کرنے کا واحد راستہ رسول کی پیروی ہے۔ اس سے ہٹ کر جو راستے نکالے گئے ہیں، وہ سب بدعت و ضلالت ہیں۔چوتھی یہ کہ خدا کی محبوبیت کا راستہ بھی رسول کی پیروی ہی ہے، اگر کسی شخص کی زندگی رسول کی سنت سے منحرف ہو اور وہ اس زعم میں مبتلا ہو کہ وہ خدا کا محبوب ہے یا دوسرے اس کو محبوب خدا سمجھیں تو یہ بالکل خبط ہے۔پانچویں یہ کہ دین کا کم سے کم مطالبہ اللہ و رسول کی اطاعت ہے۔ اگر کوئی شخص یہ مطالبہ پورا کرنے سے اعراض اختیار کرتا ہے تو اس کا شمار دین کے منکروں میں ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے محبت نہیں رکھتا۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٧١)
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
تلک الرسل : سورۃ آل عمران : آیت 33


اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰۤی اٰدَمَ وَ نُوۡحًا وَّ اٰلَ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اٰلَ عِمۡرٰنَ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿ۙ۳۳﴾
سورة کی تمہید یہاں ختم ہوئی۔ اِن آیتوں سے اب اہل کتاب بالخصوص نصاریٰ پر اتمام حجت کا مضمون شروع ہوتا ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ عمران کے خاندان کا ذکر یہاں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ عمران بن ماتان سیدہ مریم کے والد ماجد کا نام ہے۔ یہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے جد مادری ہیں۔ آگے کا مضمون چونکہ اس دعا سے شروع ہورہا ہے جو سیدہ مریم کی والدہ نے ان کی پیدایش کے موقع پر کی تھی، اس لیے یہاں بھی انھیں نمایاں کردیا ہے۔ اشارہ ہے نبوت و رسالت اور شہادت علی الناس کے اس منصب کی طرف جو آدم اور نوح کو ان کی انفرادی حیثیت میں اور ذریت ابراہیم کو بحیثیت جماعت عطا کیا گیا۔ ابراہیم اور عمران کے بجائے ’ اٰلَ اِبْرٰہِیْمَ ‘ اور ’ اٰلَ عِمْرٰنَ ‘ کے الفاظ یہاں اسی حقیقت کو بیان کرتے ہیں۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
تلک الرسل : سورۃ آل عمران : آیت 34


ذُرِّیَّۃًۢ بَعۡضُہَا مِنۡۢ بَعۡضٍ ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿ۚ۳۴﴾
مطلب یہ ہے کہ ان بزرگوں کے علم وعمل اور ان کی دعوت کے بارے میں جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے بحث کرنا چاہتے ہیں، وہ سوچ لیں کہ کس سمیع وعلیم ہستی کو وہ اپنی طرف سے کچھ بتانے کی جسارت کررہے ہیں.
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
تلک الرسل : سورۃ آل عمران : آیت 35


اِذۡ قَالَتِ امۡرَاَتُ عِمۡرٰنَ رَبِّ اِنِّیۡ نَذَرۡتُ لَکَ مَا فِیۡ بَطۡنِیۡ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلۡ مِنِّیۡ ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ ﴿۳۵﴾
بنی اسرائیل میں کسی بچے کو اللہ تعالیٰ کی نذر کرنے کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ اسے بیت المقدس کی خدمت کے لیے خاص کردیا جائے گا اور اس پر کھلانے کمانے اور گھردر کی کوئی ذمہ داری نہ ہوگی.
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
تلک الرسل : سورۃ آل عمران : آیت 36


فَلَمَّا وَضَعَتۡہَا قَالَتۡ رَبِّ اِنِّیۡ وَضَعۡتُہَاۤ اُنۡثٰی ؕ وَ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِمَا وَضَعَتۡ ؕ وَ لَیۡسَ الذَّکَرُ کَالۡاُنۡثٰی ۚ وَ اِنِّیۡ سَمَّیۡتُہَا مَرۡیَمَ وَ اِنِّیۡۤ اُعِیۡذُہَا بِکَ وَ ذُرِّیَّتَہَا مِنَ الشَّیۡطٰنِ الرَّجِیۡمِ ﴿۳۶﴾
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ مریم کی والدہ لڑکے کی ولادت کی توقع کررہی تھیں اور اسی توقع پر انھوں نے اسے معبد کی خدمت کے لیے وقف کردینے کا ارادہ کیا تھا۔یہ ان کی بات کے بیچ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک جملہ معترضہ ہے۔ استاذ امام اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں :”۔۔ والدہ مریم کا یہ کہنا کہ ’ اِنِّیْ وَضَعْتُھَآ اُنْثٰی ‘ (میں تو یہ لڑکی جنی ہوں ) نو مولود سے متعلق ایک کہتری کے احساس کی غمازی کررہا تھا اور انھیں اللہ تعالیٰ کے حضور میں اپنا یہ ہدیہ بہت حقیر محسوس ہورہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی غایت درجہ رافت و رحمت سے یہ واضح فرمایا کہ والدہ مریم تو مریم کو ایک لڑکی ہونے کی بنا پر نہایت حقیر چیز سمجھ رہی تھیں، لیکن اللہ کو خوب علم تھا کہ لڑکی کی صورت میں ان کے پیٹ سے کیسی عظیم اور بابرکت ہستی ظہور میں آئی ہے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٧٧) یہ سیدہ کی والدہ نے اپنے تردد کا اظہار کیا ہے کہ کہاں وہ لڑکا جس کے بارے میں میں نے سوچا تھا کہ اسے اللہ تعالیٰ کی نذر کروں گی اور کہاں یہ لڑکی جو پیدا ہوئی ہے۔ اس تردد کی وجہ یہ تھی کہ بنی اسرائیل میں معبد کی خدمت کے لیے لڑکیوں اور عورتوں کے لینے کا رواج نہیں تھا۔
 
Top